Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 31

سورة مومن

مِثۡلَ دَاۡبِ قَوۡمِ نُوۡحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوۡدَ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ ؕ وَ مَا اللّٰہُ یُرِیۡدُ ظُلۡمًا لِّلۡعِبَادِ ﴿۳۱﴾

Like the custom of the people of Noah and of 'Aad and Thamud and those after them. And Allah wants no injustice for [His] servants.

جیسے امّت نوح اور عاد و ثمود اور ان کے بعد والوں کا ( حال ہوا ) اللہ اپنے بندوں پر کسی طرح کا ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مِثْلَ دَأْبِ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَالَّذِينَ مِن بَعْدِهِمْ ... "Like the end of the people of Nuh, and `Ad, and Thamud and those who came after them. meaning, those of the earlier nations who disbelieved the Messengers of Allah, such as the people of Nuh, `Ad, Thamud and the disbelieving nations who came after them, how the punishment of Allah came upon t... hem and they had no one to protect them or ward off that punishment. ... وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِّلْعِبَادِ And Allah wills no injustice for (His) servants. means, Allah destroyed them for their sins and for their disbelief in and rejection of His Messengers; this was His command and His decree concerning them that was fulfilled. Then he said: وَيَا قَوْمِ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ يَوْمَ التَّنَادِ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31۔ 1 یہ اس مومن آدمی نے دوبارہ اپنی قوم کو ڈرایا کہ اگر اللہ کے رسول کی تکذیب (جھٹلایا) پر ہم اڑے رہے تو خطرہ ہے کہ گزشتہ قوموں کی طرح عذاب الٰہی کی گرفت میں آجائیں گے ۔ 31۔ 2 یعنی اللہ نے جن کو بھی ہلاک کیا ان کے گناہوں کی پاداش میں اور رسولوں کی تکذیب و مخالفت کی وجہ سے ہی ہلاک کیا ورنہ وہ شفیق...  ورحیم رب اپنے بندوں پر ظلم کرنے کا ارادہ ہی نہیں کرتا گویا قوموں کی ہلاکت یہ ان پر اللہ کا ظلم نہیں ہے بلکہ قانون مکافات کا ایک لازمی نتیجہ ہے جس سے کوئی قوم اور فرد مستثنی نہیں از مکافات عمل غافل مشو گندم از گندم بروید جو از جو   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٤] فرعون کے جواب سے اس مرد مومن کو یہ معلوم ہوگیا تھا کہ فرعون نے اس کی نصیحت کا خاک بھی اثر قبول نہیں کیا۔ اور اس کے خیالات میں کوئی تبدیلی پیدا نہ ہوئی تو اس نے مزید وضاحت سے سمجھانا شروع کیا اور کہا کہ تم سے پہلے بہت سی ایسی قومیں گزر چکی ہیں جو شان و شوکت میں تم سے بھی بڑھ کر تھیں۔ جیسے قوم ن... وح، عاد اور ثمود وغیرہ، ان لوگوں نے بھی اپنے اپنے رسولوں کو جھٹلایا تھا اور ان کے درپے آزار ہوگئے تھے جس کے نتیجہ میں ان پر عذاب آیا جس نے انہیں تباہ کرکے رکھ دیا تھا اور مجھے یہ خدشہ ہے کہ ہم پر بھی کہیں ایسا ہی عذاب نازل نہ ہوجائے۔ [٤٥] پیغمبر اللہ کے سفیر ہوتے ہیں :۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں پر ظلم کرنے یا ان پر عذاب نازل کرنے کا شوق ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ بندوں کے اپنے ہی اعمال ہوتے ہیں جو سزا کا موجب بن جاتے ہیں جیسے دنیا کی کوئی حکومت بھی یہ گوارا نہیں کرتی کہ اس کے سفیر کو رسوا کیا جائے یا اسے قتل ہی کردیا جائے۔ بلکہ فوراً انتقام لینے پر آمادہ ہوجاتی ہے۔ تو بھلا اللہ تعالیٰ جو سب پر غالب ہے اور انتقام لینے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔ وہ اپنے رسولوں کو رسوا ہوتا دیکھ کر ان کی مدد نہ کرے گا اور رسوا کرنے والوں سے انتقام نہ لے گا ؟   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) مثل داب قوم نوح …:” اب یداب دآباً “ (ف) کسی کام میں مسلسل لگے رہنا۔” داب “ اصل میں عادت کو کہتے ہیں، کیونکہ اس میں ہمیشگی ہوتی ہے، پھر کسی کے حال یا معاملے کے معنی میں بھی استعمال ہونے لگا۔ یعنی میں تمہارے بارے میں ڈرتا ہوں کہ تمہارا حال قوم نوح، عاد وثمود اور ان لوگوں جیسا نہ ہو جو ان کے بعد تھ... ے ، مثلاً قوم لوط اور قوم شعیب وغیرہ، جنہوں نے اپنے پیغمبروں کو جھٹلایا اور انہیں ایذا پہنچانے کی کوشش کی تو ان پر اللہ تعالیٰ کا ایسا عذاب آیا جس نے انہیں بری طرح تباہ برباد کردیا۔ (٢) وما اللہ یرید ظلماً للعباد :” ظلماً “ کی تنوین تنکیر کے لئے ہے، اس لئے ترجمہ ” کسی طرح کا ظلم “ کیا گیا ہے۔ یعنی ان اقوام پر جو عذاب آیا وہ ان کے اپنے اعمال بد کا نتیجہ تھا، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کسی طرح کے ظلم کا ارادہ نہیں کرتا تو وہ ظلم کیوں کرے گا، پھر ظلم بھی اپنے بندوں پر ؟ یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : (ان اللہ لایظلم الناس شیئاً کرتے ہیں۔ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مِثْلَ دَاْبِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّعَادٍ وَّثَمُوْدَ وَالَّذِيْنَ مِنْۢ بَعْدِہِمْ۝ ٠ ۭ وَمَا اللہُ يُرِيْدُ ظُلْمًا لِّلْعِبَادِ۝ ٣١ دأب الدَّأْب : إدامة السّير، دَأَبَ في السّير دَأْباً. قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دائِبَيْنِ [إبراهيم/ 33] ، والدّأب : العادة المستمرّة دائما علی ... حالة، قال تعالی: كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ [ آل عمران/ 11] ، أي : کعادتهم التي يستمرّون عليها . ( د ء ب ) الداب کے معنی مسلسل چلنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ داب السیر دابا ۔ وہ مسلسل چلا ۔ قرآن میں ہے وَسَخّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دائِبَيْنِ [إبراهيم/ 33] اور سورج اور چاند کو تمہارے لئے کام میں لگا دیا کہ دونوں ( دن رات ) ایک دستور پر چل رہے ہیں ۔ نیز داب کا لفظ عادۃ مستمرہ پر بھی بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ [ آل عمران/ 11] ان کا حال بھی فرعونیوں کا سا ہے یعنی انکی اسی عادت جس پر وہ ہمیشہ چلتے رہے ہیں ۔ نوح نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس . ( ن و ح ) نوح ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔ ثمد ثَمُود قيل : هو أعجمي، وقیل : هو عربيّ ، وترک صرفه لکونه اسم قبیلة، أو أرض، ومن صرفه جعله اسم حيّ أو أب، لأنه يذكر فعول من الثَّمَد، وهو الماء القلیل الذي لا مادّة له، ومنه قيل : فلان مَثْمُود، ثَمَدَتْهُ النساء أي : قطعن مادّة مائه لکثرة غشیانه لهنّ ، ومَثْمُود : إذا کثر عليه السّؤال حتی فقد مادة ماله . ( ث م د ) ثمود ( حضرت صالح کی قوم کا نام ) بعض اسے معرب بتاتے ہیں اور قوم کا علم ہونے کی ہوجہ سے غیر منصرف ہے اور بعض کے نزدیک عربی ہے اور ثمد سے مشتق سے ( بروزن فعول ) اور ثمد ( بارش) کے تھوڑے سے پانی کو کہتے ہیں جو جاری نہ ہو ۔ اسی سے رجل مثمود کا محاورہ ہے یعنی وہ آدمی جس میں عورتوں سے کثرت جماع کے سبب مادہ منویہ باقی نہ رہے ۔ نیز مثمود اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جسے سوال کرنے والوں نے مفلس کردیا ہو ۔ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جیسا کہ تم سے پہلے کافروں پر نازل ہوا جیسا کہ قوم نوح قوم ہود اور قوم صالح اور ان کے بعد والے کافروں پر عذاب نازل ہوا تھا اور اللہ تعالیٰ تو بندوں پر کسی طرح کا ظلم کرنا اور ان کی بغیر کسی جرم کے گرفت کرنا نہیں چاہتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣١ { مِثْلَ دَاْبِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّعَادٍ وَّثَمُوْدَ وَالَّذِیْنَ مِنْم بَعْدِہِمْ } ” جیسا کہ معاملہ ہوا تھا قوم نوح ( علیہ السلام) کا اور قوم عاد اور قوم ثمود اور ان کے بعد کی قوموں کا۔ “ { وَمَا اللّٰہُ یُرِیْدُ ظُلْمًا لِّلْعِبَادِ } ” اور اللہ تو اپنے بندوں پر کسی ظلم کا ارادہ نہیں رکھتا... ۔ “ یہ تو خود بندے ہی ہیں جو رسولوں کی تکذیب اور اپنی کوتاہیوں اور شرارتوں کی وجہ سے عذاب الٰہی کو دعوت دیتے ہیں ‘ ورنہ اللہ عزوجل تو کسی پر ظلم نہیں کرتا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

50 That is, "AIlah has no enmity with His servants that He should destroy them without any reason: He sends calamities upon them only when they have transgressed all limits, and sending the torment then is the very demand of justice. "

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :50 یعنی اللہ کو بندوں سے کوئی عداوت نہیں ہے کہ وہ خواہ مخواہ انہیں ہلاک کر دے ، بلکہ وہ ان پر عذاب اسی وقت بھیجتا ہے جبکہ وہ حد سے گزر جاتے ہیں ، اور اس وقت ان پر عذاب بھیجنا عین تقاضائے عدل و انصاف ہوتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:31) مثل داب قوم نوح وعاد وثمود والذین من بعدہم۔ یہ یوم الاحزاب کی تفسیر ہے۔ یعنی ڈر ہے کہ تم پر بھی ویسا عذاب نہ آجائے جیسا قوم نوح پر قوم عاد پر قوم ثمود پر اور ان کے بعد والوں پر (مثلاً قوم لوط (علیہ السلام) و قوم نمرود ہر) عذاب آیا تھا۔ داب اصل میں دأب یدأب (باب فتح کا مصدر ہے جس کے معنی م... سلسل چلنے کے ہیں۔ جیسا کہ اور جگہ قرآن مجید میں ہے وسخر لکم الشمس والقمر دائبین (14:33) اور سورج اور چاند کو تمہارے کام میں لگا دیا کہ دونوں (دن رات) ایک دستور پر چل رہے ہیں۔ اسی استمرار کی وجہ سے عادت مستمرہ جو ہمیشہ ایک حالت پر رہے اسے داب کہتے ہیں۔ مثل داب ۔۔ بعدہم کا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم یا عاد وثمود کی قوم یا ان کے بعد کی قوموں کی عادت مستمرہ (تکذیب و ایذا رسانی پیغمبران الٰہی) ان پر عذاب الٰہی کا سبب بنی۔ مجھے اندیشہ ہے کہ (تم جو حضرت موسیٰ کی تکذیب کر رہے ہو اور اس کے قتل کا ارادہ رکھتے ہو) تم پر بھی ویسا ہی عذاب نہ آجائے۔ مثل الاول کا عطف بیان ہونے کی وجہ سے مثل الثانی بھی منصوب ہے۔ وما اللّٰہ یرید ظلما للعباد : للعباد میں لام زائدہ ہے اور العباد مفعول ہے لام کی زیادتی مصدر (ظلما) کے عمل کو قوت پہنچانے کے لئے کی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بندہ پر کسی طرح کا ظلم نہیں کرنا چاہتا یا کسی کو بلا قصور سزا دے یا ظالم کو بغیر انتقام کے چھوڑ دے۔ یا کسی کی نیکی کے ثواب میں کمی کر دے یا کسی مجرم کی سزا میں اس کے جرم کی مقدار سے زیادہ سزاد دے۔ (تفسیر مظہری) اور جگہ قرآن مجید میں ہے وان اللّٰہ لیس بظلام للعبید (3:182) اور خدا تو بندوں ہر مطلق ظلم کرنے والا نہیں۔ لیکن وما اللّٰہ یرید ظلما للعباد زیادہ بلیغ ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 جنہوں نے اللہ کے رسولوں ( علیہ السلام) کو جھٹلایا اور اس کی پاداش میں تباہ کردیئے گئے۔ “5 یعنی اللہ کو اپنے بندوں سے دشمنی نہیں ہے کہ وہ قصور کریں یا نہ کریں انہیں ضرور تباہ کر دے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یہ تہدید تھی عذاب دنیا سے، آگے تہدید ہے عذاب آخرت سے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(31) اور تمہارا وہی حال ہو جیسے نوح (علیہ السلام) کی قوم اور عاد وثمود کا اور ان لوگوں کا ہوا جوان کے بعد ہوئے اور اللہ تعالیٰ بندوں پر کسی طرح کا ظلم کرنا نہیں چاہتا۔ اس مرد مسلمان نے دیکھا کہ یہ لوگ آشتی اور نرمی کی بات سے متاثر نہیں ہوتے تو اس نے تہدید کا طریقہ اختیار کیا اور اس نے کہا کہ مجھے خو... ف اور اندیشہ ہے تم پر مثل اس یوم بد کے جو مختلف فرقوں کا دن ہوچکا ہے مانند صورت حال قوم نوح کے اور عادوثمود کے اور ان کے بعد جو لوگ نافرمانی کرتے رہے یعنی تمہاری نسبت بھی مجھ کو اور امتوں کے سے روز بدکا اندیشہ ہے اللہ تعالیٰ تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا لیکن جب تم بھی اسی طرح کی باتیں کرو گے اور نافرمانی کرتے رہو گے تو تمہارے ساتھ بھی وہی ہونے کا اندیشہ ہے جو ان کے ساتھ ہوا ۔  Show more