Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 50

سورة مومن

قَالُوۡۤا اَوَ لَمۡ تَکُ تَاۡتِیۡکُمۡ رُسُلُکُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ ؕ قَالُوۡا بَلٰی ؕ قَالُوۡا فَادۡعُوۡا ۚ وَ مَا دُعٰٓؤُا الۡکٰفِرِیۡنَ اِلَّا فِیۡ ضَلٰلٍ ﴿۵۰﴾٪  10

They will say, "Did there not come to you your messengers with clear proofs?" They will say, "Yes." They will reply, "Then supplicate [yourselves], but the supplication of the disbelievers is not except in error."

وہ جواب دیں گے کہ کیا تمہارے پاس تمہارے رسول معجزے لے کر نہیں آئے تھے؟ وہ کہیں گے کیوں نہیں ، وہ کہیں گے کہ پھر تم ہی دعا کرو اور کافروں کی دعا محض بے اثر اور بے راہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالُوا أَوَلَمْ تَكُ تَأْتِيكُمْ رُسُلُكُم بِالْبَيِّنَاتِ ... Did there not come to you, your Messengers with (clear) evidences? meaning, was not proof established in the world on the lips of the Messengers ... قَالُوا بَلَى ... ... قَالُوا فَادْعُوا ... They will say: "Yes." They will reply: "Then call (as you like)!..." means, you are on your own. We will not pray for you or listen to you; we do not want you to be saved and we have nothing to do with you. Moreover, we tell you that it is all the same whether you offer supplication or not, because Allah will not respond and He will not lighten the torment for you.' They will say: ... وَمَا دُعَاء الْكَافِرِينَ إِلاَّ فِي ضَلَلٍ And the invocation of the disbelievers is nothing but in vain! meaning, it will not be accepted or responded to.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

50۔ 1 ہم ایسے لوگوں کے حق میں اللہ سے کیونکر کچھ کہہ سکتے ہیں جن کے پاس اللہ کے پیغمبر دلائل و معجزات لے کر آئے لیکن انہوں نے پروا نہ کی ؟ 50۔ 2 یعنی بالآخر وہ خود ہی اللہ سے فریاد کریں گے لیکن اس فریاد کی وہاں شنوائی نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ دنیا میں ان پر حجت تمام کی جا چکی تھی اب آخرت تو ایمان، توبہ اور عمل کی جگہ نہیں، وہ تو دار الجزا ہے، دنیا میں جو کچھ کیا ہوگا، اس کا نتیجہ وہاں بھگتنا ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٤] وہ کہیں گے کہ سفارش بھی آخر کسی عذر کی بنا پر ہی ہوسکتی ہے۔ لیکن تم نے معذرت کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی تو سفارش میں ہم کیا کہیں۔ یا تو تم یہ کہو کہ ہمارے پاس نہ رسول آئے تھے نہ ہمیں اللہ کا پیغام پہنچا تھا۔ اور جب تمہارے پاس اللہ کے رسول واضح دلائل لے کر گئے تھے اور تمہیں ہر طرح کے انجام سے مطلع کردیا تھا تو پھر سفارش کس بنیاد پر کی جاسکتی ہے ؟ [٦٥] یہ فرشتوں کا دوسرا جواب ہے۔ کہ ہمارا کام سفارش کرنا نہیں اور جو ہمارا کام ہے وہ ہم کر ہی رہے ہیں سفارش کرنا رسولوں کا کام ہے اور ان کی مخالفت کرکے تم نے انہیں پہلے ہی ناراض کر رکھا ہے۔ لہذا اب خود ہی دعا کرکے دیکھ لو۔ [٦٦] یعنی بےاثر، بےنتیجہ اور بےکار ثابت ہوتی ہے۔ کافروں کی پکار اللہ تعالیٰ تک پہنچتی ہی نہیں۔ راستے میں ہی گم ہوجاتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قالواولم تک تاتیکم رسلکم بالبینت…: جہنم کے دربان ان پر واضح کرنے کے لئے کہ تم اس قابل ہی نہیں کہ تمہاری بات سنی جائے یا تمہاری سفارش کی جائے ان سے کہیں گے، کیا تمہارے رسول تمہارے پاس واضح دلیلیں لے کر نہیں آیا کرتے تھے ؟ وہ کہیں گے، کیوں نہیں اس پر فرشتے ان سے کہیں گے، پھر جب تم نے ان کی پکار پر لبیک نہیں کہا تو تمہاری پکار بھی کوئی نہیں سنے گا، سو پکارتے رہو، کافروں کی پکار بالکل بےسود اور بےکار ہے۔ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں ”’ دوزخ کے فرشتے کہیں گے۔ سفارش ہمارا کام نہیں، ہم تو عذاب پر مقرر ہیں۔ سفارش کام ہے، رسولوں کا رسولوں سے تو تم برخلاف ہی تھے۔ “ (موضح ) دوسری جگہ فرمایا کہ وہ مالک (یعنی جہنم کے بڑے دربان) کو پکار کر کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ ہمارا کام ہی تمام کر دے، مگر وہ کہے گا، تمہیں یہیں رہنا ہے۔ (دیکھیے زخرف : ٧٧) رب تعالیٰ سے بھی جہنم سے نکالنے کی درخواست کریں گے، مگر وہاں سے بھی انہیں دھتکار کر کہا جائے گا کہ مجھ سے بات مت کرو۔ دیکھیے سورة مومنون (١٠٧-١٠٨)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْٓا اَوَلَمْ تَكُ تَاْتِيْكُمْ رُسُلُكُمْ بِالْبَيِّنٰتِ۝ ٠ ۭ قَالُوْا بَلٰى۝ ٠ ۭ قَالُوْا فَادْعُوْا۝ ٠ ۚ وَمَا دُعٰۗـؤُا الْكٰفِرِيْنَ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ۝ ٥٠ۧ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» . والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : 5- أتيت المروءة من بابها «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ بينات يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] ، وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] ، ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 55] ، قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة/ 256] ، قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران/ 118] ، وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف/ 63] ، وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل/ 39] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات . والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «2» ، وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ( ب ی ن ) البین کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 55] اور اس لئے کہ گنہگاروں کا رستہ ظاہر ہوجائے ۔ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة/ 256] ہدایت صاف طور پر ظاہر ( اور ) گمراہی سے الگ ہوچکی ہو ۔ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران/ 118] ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنا دیں ۔ وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف/ 63] نیز اس لئے کہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کررہے ہو تم کو سمجھا دوں وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادت ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل/ 39] تاکہ جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں وہ ان پر ظاہر کردے ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ اور بیان کرنے والے کے اعتبار ہے آیت کو مبینۃ نجہ کہا جاتا ہے کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٠ { قَالُوْٓا اَوَلَمْ تَکُ تَاْتِیْکُمْ رُسُلُکُمْ بِالْبَیِّنٰتِ } ” وہ جواب میں کہیں گے کہ کیا تمہارے پاس رسول (علیہ السلام) نہیں آتے رہے تھے واضح نشانیوں (اور واضح تعلیمات) کے ساتھ ؟ “ { قَالُوْا بَلٰی } ” وہ کہیں گے : ہاں (آئے تو تھے) ! “ { قَالُوْا فَادْعُوْاج وَمَا دُعٰٓؤُا الْکٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ } ” وہ کہیں گے : تو اب تم خود ہی پکارو ! اور کافروں کی دعا نہیں ہے مگر بھٹک کر رہ جانے والی۔ “ دنیا کی زندگی میں جن لوگوں نے کفر و انکار کی روش اختیار کی تھی آج ان کی دعا بالکل صدا بصحرا ثابت ہوگی۔ ان لوگوں کی دعا کا نہ کوئی اثر ہوگا اور نہ ہی اس کی کہیں شنوائی ہوگی۔ بالکل یہی کیفیت ان لوگوں کی بھی ہے جو دنیا میں اللہ تعالیٰ سے دعائیں تو مانگتے ہیں مگر ساتھ ہی اپنی حرام خوری بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ باطل کی چاکری بھی کیے جا رہے ہیں ‘ طاغوت کے حمایتی بھی بنے ہوئے ہیں اور اپنی سوچ اور فکر کو باطل طور طریقوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے نت نئی راہیں بھی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ گویا ان کی وفاداری اور دوستی تو شیطان اور اس کے چیلوں سے ہوتی ہے مگر دعا اللہ سے کرتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ حدیث پہلے بھی بیان ہوچکی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کا ذکر فرمایا جو بڑا طویل سفر کر کے (حج یا عمرہ کے لیے) آتا ہے۔ اس کے کپڑے بھی میلے ہوچکے ہیں اور بال بھی غبار آلودہ ہیں۔ وہ اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر ” یارب ! یارب ! “ پکارتا ہے۔ لیکن اس کا کھانا بھی حرام کا ہے ‘ اس کا پینا بھی حرام کا ہے ‘ اس نے جو کپڑے پہن رکھے ہیں وہ بھی حرام کمائی کے ہیں ‘ اور اس کے جسم نے حرام غذا سے نشوونما پائی ہے ۔ - ۔ تو اس کی دعا کیونکر قبول ہو ؟ (فَاَنّٰی یُسْتَجَابُ لِذٰلِکَ ! ) (١) ١٩٧١ ء کی جنگ کے دوران ہم نے دیکھا کہ پاکستان کی نصرت کے لیے حرمین شریفین میں قنوت نازلہ پڑھی جاتی تھی اور گڑ گڑا کر دعائیں مانگی جاتی تھیں ‘ مگر اللہ تعالیٰ نے ہمارے کرتوتوں کی وجہ سے اپنے گھر کے اندر مانگی گئی ان دعائوں کو بھی ٹھکرا دیا اور جو ہونا تھا وہ ہو کر رہا۔ لفظ ” کافر “ کو اس کے وسیع مفہوم کے تناظر میں رکھ کر غور کیجیے کہ اس کی زد کہاں کہاں پڑتی ہے۔ اس کا مصداق قانونی کفار کے علاوہ وہ لوگ بھی ٹھہرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ناشکری اور نافرمانی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے سورة آل عمران کی آیت ٩٧ کے آخر میں سنائی گئی وعید بہت واضح ہے۔ مذکورہ آیت میں حج کا حکم دینے کے بعد فرمایا گیا : { وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ } ” اور جس نے کفر کیا تو (وہ جان لے کہ) اللہ بےنیاز ہے تمام جہان والوں سے “۔ یعنی جس نے صاحب استطاعت ہو کر بھی حج ادا نہیں کیا اس نے گویا کفر کیا۔ اسی طرح تارک صلوٰۃ کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بہت مشہور فرمان ہے : ) مَنْ تَرَکَ الصَّلاَۃَ مُتَعَمِدًا فَقَدْ کَفَرَجِھَارًا ( ١) ” جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑ دی اس نے علانیہ کفر کیا۔ “ پس ایک کفر تو وہ ہے جس سے ایک مسلمان باقاعدہ مرتد ہو کر سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے اور ایک کفر یہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے کسی خاص حکم کی نافرمانی سے سرزد ہوتا ہے اور جس کو کسی صاحب نظر نے ” جو دم غافل سو دم کافر “ کا عنوان دیا ہے۔ اس زاویئے سے دیکھا جائے تو آج پوری دنیا کے مسلمان اس کفر کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ آج دنیا بھر میں مسلمانوں کا کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جہاں اللہ کے قانون کی حکمرانی ہو ‘ جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان تو اس بارے میں یہ ہے : { وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ ۔ } ( المائدۃ) ” جو لوگ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو کافر ہیں “۔ چناچہ ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ اس حوالے سے آج ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ ہم جس ملک کے شہری ہیں کیا وہاں شریعت اسلامی کی حکمرانی ہے ؟ کیا ہمارے دیوانی و فوجداری معاملات قرآن کے قانون کے مطابق طے پا رہے ہیں ؟ کیا ہمارا نظام معیشت اللہ کی مرضی کے مطابق چل رہا ہے ؟ اور اگر ایسا نہیں ہے اور یقینا نہیں ہے تو کیا ہم سورة المائدۃ کی مذکورہ آیت کے مصداق نہیں بن چکے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

66 That is, 'When the fact is this that the Messengers had come to you with the clear Signs, and you have already been sentenced to suffer punishment here, because you had refused to believe in them, it is not possible for us to pray for you to Allah. For obviously there should be some plea for such a prayer, and you have exhausted every plea by your misconduct. So, you pray for yourselves if you so like: but we would tell you beforehand that the prayers of the people who had disbelieved in the world like you have been of no avail.

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :66 یعنی جب واقعہ یہ ہے کہ رسول تمہارے پاس بینات لے کر آ چکے تھے اور تم اس بنا پر سزا پاکر یہاں آئے ہو کہ تم نے ان کی بات ماننے سے انکار ( کفر ) کر دیا تھا ، تو اب ہمارے لیے تمہارے حق میں اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا کرنا کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے ، کیونکہ ایسی دعا کے لیے کوئی نہ کوئی عذر تو ہونا چاہیے ، اور تم اپنی طرف سے ہر معذرت کی گنجائش پہلے ہی ختم کر چکے ہو ۔ اس حالت میں تم خود دعا کرنا چاہو تو کر دیکھو ۔ مگر ہم یہ پہلے ہی تمہیں بتائے دیتے ہیں کہ تمہاری طرح کفر کر کے جو لوگ یہاں آئے ہوں ان کی دعا بالکل لا حاصل ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:50) اولم تک تاتیکم رسلکم بالبینت : ہمرزہ استفہامیہ۔ واؤ کا عطف جملہ مقدرہ پر ہے لم تک مضارع نفی جحد بلم۔ (لم کے عمل سے مضارع تکون۔ تک ہوگیا) ۔ اولم تک قصہ ہے تاتیکم تفسیر قصہ ہے۔ رسلکم ضمیر قصہ کا مرجع بالبینت باء تعدیہ کا ہے۔ بینات ، معجزات، روشن دلائل۔ ترجمہ :۔ کیا تمہارے (یعنی اللہ کی طرف سے تمہاری طرف بھیجے گئے پیغمبر) تمہارے پاس واضح احکام لے کر نہیں آئے تھے ؟ یہ استفہام انکاری ہے اور زجرو توبیخ کے لئے ہے یعنی پیغمبر تو آئے تھے لیکن تم نے دعا کا وقت اور قبولیت کے اسباب کو کھو دیا۔ فادعوا۔ فعل امر جمع مذکر حاضر کا صیغہ دعوۃ (باب نصر) مصدر۔ پس پھر تم خود ہی پکارو۔ یعنی دعا کرو۔ تم خود ہی پکار دیکھو۔ یہ بطور استہزاء فرشتے دوزخیوں سے کہیں گے۔ وما دعؤا الکفرین الا فی ضلل اور کافروں کی دعا تو بس بےاثر اور بیکار ہی ہے (کافروں کی دعا اور وہ بھی روز قیامت جب دنیا میں وہ تمام مواقع قبولیت کے کھوچکے تھے اب بےاثر اور بےکار نہ ہوگی تو اور کیا ہوگی) یہ جملہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ دوزخ کے پہرہ داروں کے کلام کا جزء ہو۔ ضلل، بیکار۔ ضائع۔ لاحاصل۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 ” لیکن ہم نے ان کی بات نہ مانی “11 ہم کافروں کی سفارش نہیں کرسکتے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : دوزخ کے فرشتے کہیں گے سفارش کوئی ہمارا کام نہیں، ہم عذاب پر مقرر ہیں، سفارش کام ہے رسولوں ( علیہ السلام) کا، رسولوں کے تم بر خلاف تھے۔ ( موضح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

54:۔ ” قالوا اولم تک “ فرشتے تہدید و توبیخ کے طور پر ان سے کہیں گے کیا تمہارے پاس انبیاء (علیہم السلام) معجزات اور واضح دلائل لے کر نہیں آئے تھے ؟ ” قالوا بلی “ جواب دیں گے۔ کیوں نہیں، آئے تو تھے۔ انہوں نے ہمیں اللہ کے احکام سنائے۔ ماننے والوں کو جنت کی خوشخبری دی اور منکرین کو خدا کے عذاب سے ڈرایا۔ لیکن بدقسمتی سے ہم نے ان کی نہ سنی۔ ” قالوا فادعوا “ اوقات دعا اور اسباب قبولیت کو تو تم نے دنیا میں ضائع کردیا اور تم وہاں متنبہ نہ ہوئے، تم ایسے لوگوں کے حق میں دعا کرنا ہمارے لیے تو ممکن نہیں۔ ہم نے تمہارے عا کرسکتے ہیں، نہ تمہاری درخواست قبول کرسکتے ہیں، بلکہ ہم تو تم سے ہیں ہی بیزار، اس لیے تم خود ہی اللہ سے دعا مانگو، لیکن یہ بھی سن لو کفار و مشرکین کی دعاء رائیگاں جاتی ہے اور قبول نہیں ہوتی۔ (فادعوا) ای انتم لانفسکم فنحن لا ندعوا لکم ولا نسمع منکم ولا فود خلاصکم و نحن منکم براء ثم نخبر کم انہ سواء دعوتم اولم تدعوا لایستجاب لکم ولا یخفف عنکم (ابن کثیر ج 4 ص 83) ۔ مطلب یہ ہے کہ اب اللہ کو پکارنے کی درخواست کرتے ہو اب بھی اپنے ان خود ساختہ معبودوں ہی کو پکارو جن کو دنیا میں مصائب و حاجات میں پکارا کرتے تھے۔ یہ ان کی حسرت و ندامت میں مزید اضافہ کرنے کے لیے کہا جائیگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(50) وہ فرشتے جوا ب دیں گے کہ کیا تمہارے پاس تمہارے رسول واضح دلائل اور معجزات لے کر نہیں آئے تھے اہل جہنم کہیں گے ہاں رسول تو آتے رہتے تھے اس پر دوزخ کے موکل فرشتے کہیں گے تو بس اب تم خود ہی دعا کرو اور کافروں کی دعا کچھ نہیں مگر بےسود و بےنتیجہ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں دوزخ کے فرشتے کہیں گے۔ سفارش کرنی ہمارا کام نہیں ہم تو عذاب پر مقرر ہیں سفارش کام ہے رسولوں کا سو رسولوں سے تو بر خلاف ہی تھے۔ یعنی سب ہی اہل جہنم فرشتوں سے درخواست کریں گے تم ہی اپنے پروردگار سے درخواست کرو کہ وہ ہمیشہ کے لئے عذاب نہ ہٹائے تو کم از کم ایک دن کے لئے تو کچھ کمی کر دے وہ کہیں گے معاملہ کیا ہے تم کو دوزخ میں آنے کی نوبت ہی کیوں آئی کیا تمہارے پاس پیغمبر کھلے دلائل اور معجزات لے کر نہیں آئے تھے وہ کہیں گے آئے تو تھے مگر ہم نے ان کی تکذیب کی اور ان کو جھوٹا بتایا تب فرشتے کہیں گے ایسی حالت میں تم خود ہی دعا کرو اور تمہاری دعا کا بھی کوئی نتیجہ نہ ہوگا کیونکہ کافروں کی دعا آخرت میں بےسود ہوتی ہے۔