Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 6

سورة مومن

وَ کَذٰلِکَ حَقَّتۡ کَلِمَتُ رَبِّکَ عَلَی الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّہُمۡ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۘ﴿ؔ۶﴾

And thus has the word of your Lord come into effect upon those who disbelieved that they are companions of the Fire.

اور اسی طرح آپ کے رب کا حکم کافروں پر ثابت ہوگیا کہ وہ دوزخی ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Thus has the Word of your Lord been justified against those who disbelieved, that they will be the dwellers of the Fire. means, `just as the Word of punishment was justified against those of the past nations who disbelieved, so too is it justified against these disbelievers who have rejected you and gone against you, O Muhammad, and it is even more justified against them, because if they have disbelieved in you, there is no certainty that they will believe in any other Prophet.' And Allah knows best.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 4 مقصد اس سے اس بات کا اظہار ہے کہ جس طرح پچھلی امتوں پر تیرے رب کا عذاب ثابت ہوا اور وہ تباہ کردی گئیں اگر یہ اہل مکہ بھی تیری تکذیب اور مخالفت سے باز نہ آئے اور جدل بالباطل کو ترک نہ کیا تو یہ بھی اسی طرح عذاب الہی کی گرفت میں آجائیں گے پھر کوئی انہیں بچانے والا نہیں ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥] ایسے منکرین حق کے معاملہ میں ایک تو یہ بات حق ثابت ہو کے رہتی ہے کہ اللہ انہیں ایسا کچل کے رکھ دیتا ہے کہ ان کا زمین میں دندنانا یکسر موقوف ہوجاتا ہے۔ اور یہ سزا تو انہیں دنیا میں ملتی ہے اور دوسری یہ بات حق ثابت ہوتی ہے کہ آخرت میں انہیں جہنم کے عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وکذلک حقت کلمت ربک …اس کی دو تفسیریں ہوسکتی ہیں، ایک یہ کہ جس طرح پہلی قوموں پر تیرے رب کے عذاب آنے کی بات ثابت ہوچکی اور وہ تباہ و برباد کردی گئیں، اسی طرح اب جو لوگ کفر کر رہے ہیں ان پر بھی تیرے رب کی بات ثابت ہوچکی ہے کہ وہ آگ میں جانے والے ہیں۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ ان قوموں پر دنیا میں جو عذاب آیا اسی پر بس نہیں، بلکہ ان کے متعلق دنیا کے عذاب کی طرح تیرے رب کی یہ بات بھی طے ہوچکی ہے کہ آخرت میں بھی وہ آگ میں رہنے والے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَكَذٰلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَي الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّہُمْ اَصْحٰبُ النَّارِ۝ ٦ۘؔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ كلم الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها، ( ک ل م ) الکلم ۔ یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اسی طرح تمام ان لوگوں پر جنہوں نے انبیاء کرام کا انکار کیا آپ کے پروردگار کے عذاب کے ساتھ یہ بات طے ہوچکی ہے کہ وہ آخرت میں دوزخی ہوں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦ { وَکَذٰلِکَ حَقَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّہُمْ اَصْحٰبُ النَّارِ } ” اور اسی طرح ان کافروں پر بھی آپ کے رب کی بات پوری ہوچکی ہے کہ یہ سب کے سب جہنمی ہیں۔ “ اللہ کے جس قانون کی زد میں زمانہ ماضی کے کفار آئے تھے اب وہی قانون مشرکین عرب پر بھی لاگو ہوچکا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5 That is, `The torment that seized them in the world was not their final punishment, but Allah has also decreed that they shall go to Hell.' Another meaning can be: "Just as the nations of the past have gone to their doom, so will those people also who arc committing disbelief go to Hell, according to the fixed decree of Allah."

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :5 یعنی دنیا میں جو عذاب ان پر آیا وہ ان کی آخری سزا نہ تھی بلکہ اللہ نے یہ فیصلہ بھی ان کے حق میں کر دیا ہے کہ ان کو واصل بجہنم ہونا ہے ۔ ایک دوسرا مطلب اس آیت کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس طرح پچھلی قوموں کی شامت آچکی ہے اسی طرح اب جو لوگ کفر کر رہے ہیں ان کے حق میں بھی اللہ کا یہ فیصلہ طے شدہ ہے کہ واصل بجہنم ہونے والے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:6) کذلک کا ف اول حرف تشبیہ ہے۔ ذ۔ اسم اشارہ (یہ۔ اس) لام علامت اشارہ بعید۔ آخر کاف حرف خطاب واحد مذکر حاضر کذلک سے اشارہ مذکورہ سابق کی طرف ہوتا ہے۔ جس کا ترجمہ :۔ ایسے ہی۔ اسی طرح۔ حقت ٹھیک پڑی۔ ثابت ہوئی۔ واجب ہوئی۔ پوری ہوئی۔ لازم ہوئی۔ نیز ملاحظہ ہو 39:71 متذکرہ بالا۔ کلمۃ حکم : ازلی تحریر۔ حکم الٰہی سابق۔ کذلک حقت کلمت ربک علی الذین کفروا انہم اصحب النار۔ اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) انھم اصحب النار۔ مقام نصب میں ہے اور انھم میں لام تعلیل محذوف ہے۔ یعنی لانھم ہے۔ آیت کا مطلب یوں ہوگا :۔ جس طرح مذکورہ بالا کفار امم سابقہ میں سے مرسلین حق کے ساتھ جھوٹی باتوں پر اڑے رہے اور جھگڑتے رہے اور رسولوں کی ایذاء اور قتل کے درپے رہے اور انجام کار خدا کے عذاب نے انہیں بری طرح آلیا اور وہ ہلاک ہوئے اسی طرح تیرے پروردگار کا حکم کفار پر (کفار قریش مراد ہے) واجب ہوکر رہے گا۔ (وہ بھی عذاب الٰہی کا مزہ چکھیں گے اور ہلاکت کو پہنچیں گے) کیونکہ انجام کار وہ ایک ہی قدر مشترک میں مجتمع ہیں یعنی وہ دوزخی ہیں۔ (2) اگر جملہ انھم اصحب النار۔ محل رفع میں ہے بوجہ کلمۃ ربک کا بدل ہونے کے تو اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (ا) جس طرح گزشتہ کافر امتوں پر خدا کا فرمان عذاب پورا ہوا۔ اسی طرح آپ کی امت میں سے جو لوگ کافر ہیں ان پر قول عذاب پورا ہوگا یعنی وہ داخل جہنم ہوں گے۔ (ب) جس طرح گزشتہ کافر امتوں پر خدا کا فرمان عذاب پورا ہوا اسی طرح جو لوگ بھی کفر کے مرتکب ہوئے ہیں یا ہوں گے ان پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان چسپاں ہوچکا کہ وہ جہنمی ہونگے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” اس طرح ان کافروں یعنی نوح ( علیہ السلام) کی قوم اور اس کے بعد کی کافرامتوں پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کا ارشاد پورا ہو کر رہا کہ وہ دوزخی ہیں “۔ اب آگے ان کے مقابلے میں مومنین کا حال بیان فرمایا جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس پر ایمان لاتے ہیں اور کج بخشی سے محتنب رہتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی یہاں بھی سزا ہوئی اور وہاں بھی ہوگی۔ اسی طرح کفر کے سبب ان کفار حاضرین کو بھی داروگیر اور سزا ہونے والی ہے، خواہ دونوں عالم میں یا آخرت میں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

9:۔ ” الذین یحملون الخ “ یہ تیسرا عنوان ہے۔ جو لوگ اس حکمنامے کو مان لیں گے، حاملان عرش الٰہی ان کے لیے ان کے آباء و اجداد اور ان کی آل اولاد کیلئے یوں دعائیں کریں گے یعنی جو لوگ اس حکمنامے کو مانتے جائیں گے وہ فرشتوں کی دعاؤں میں شامل ہوتے جائیں گے۔ یہ مراد نہیں کہ وہ دعاؤں میں ان آدمیوں کا نام لیتے ہیں، کیونکہ وہ عالم الغیب نہیں ہیں۔ ” الذین یحملون العرش “ اس سے وہ فرشتے مراد ہیں جو حاملانِ عرش الٰہی ہیں۔ حاملانِ عرش اور دوسرے فرشتے جو عرش کے چاروں طرف صف بستہ کھڑے ہیں ان کی ہمہ وقت ڈیوٹی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا اور اس کی تسبیح و تقدیس میں مصروف ہیں، اللہ پر ان کا ایمان نہایت ہی کامل ہے۔ یا اس حکمنامے پر ان کا ایمان مستحکم ہے۔ قالہ الشیخ (رح) تعالیٰ ۔ فرشتوں کے ایمان کے ذکر کی اگرچہ ضرورت نہ تھی لیکن ایمان اور اہل ایمان کی فضیلت ظاہر کرنے کے لیے اس کا ذکر کیا گیا (روح) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) اور جس طرح ان کافروں کی پکڑ ہوئی اسی طرح تمام کافروں پر آپ کے پروردگار کی یہ بات ثابت ہوگئی اور ٹھیک ہوچکی کہ وہ اہل دوزخ ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح امم سابقہ کی دنیا میں بھی گرفت ہوئی اور آخرت میں بھی سزا ہوگی اسی طرح ان کفار مکہ کے حق میں بھی ایسا ہی ہوگا کہ دنیا میں بھی ان کی گرفت ہوگی اور آخرت میں بھی وہ اہل جہنم میں سے ہوں گے یا یہ کہ تمام کافروں کے حق میں یہ بات ثابت اور ٹھیک ہوچکی کہ وہ اہل جہنم ہوں گے یعنی اہل کفر کا اصحاب نار ہونا یہ ازلی بات ہے اور آپ کے پروردگار کا قول ہے۔ رہی یہ بات کہ دنیا میں بھی منکر قوم پر عذاب کا نازل ہونا یا کسی قوم پر عذاب کا نازل نہ ہونا یہ دوسری بات ہے لیکن سب کا اہل جہنم سے ہونا ضروری ہے۔