Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 69

سورة مومن

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ یُجَادِلُوۡنَ فِیۡۤ اٰیٰتِ اللّٰہِ ؕ اَنّٰی یُصۡرَفُوۡنَ ﴿ۖۛۚ۶۹﴾

Do you not consider those who dispute concerning the signs of Allah - how are they averted?

کیا تو نے نہیں دیکھا جو اللہ کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں وہ کہاں پھیر دئیے جاتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The End of Those Who dispute and deny the Signs of Allah Allah says, أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي ايَاتِ اللَّهِ أَنَّى يُصْرَفُونَ See you not those who dispute about the Ayat of Allah? How are they turning away? Allah says, `do you not wonder, O Muhammad, at those who deny the signs of Allah and dispute the truth by means of falsehood, how their minds are diverted from the truth and are misguided?'

کفار کو عذاب جہنم اور طوق و سلاسل کی وعید ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا تمہیں ان لوگوں پر تعجب نہیں ہوتا جو اللہ کی باتوں کو جھٹلاتے ہیں اور اپنے باطل کے سہارے حق سے اڑتے ہیں؟ تم نہیں دیکھ رہے کہ کس طرح ان کی عقلیں ماری گئی ہیں؟ اور بھلائی کو چھوڑ برائی کو کیسے بری طرح چمٹ گئے ہیں؟ پھر ان بدکردار کفار کو ڈرا رہا ہے کہ ہدایت و بھلائی کو جھوٹ جاننے والے کلام اللہ اور کلام رسول کے منکر اپنا انجام ابھی دیکھ لیں گے ۔ جیسے فرمایا جھٹلانے والوں کیلئے ہلاکت ہے ، جبکہ گردنوں میں طوق اور زنجیریں پڑی ہوئی ہوں گی اور داروغہ جہنم گھسیٹے گھسیٹے پھر رہے ہوں گے ۔ کبھی حمیم میں اور کبھی حجیم میں ۔ گرم کھولتے ہوئے پانی میں سے گھسیٹے جائیں گے ۔ اور آگ جہنم میں جھلسائے جائیں گے ۔ جیسے اور جگہ ہے ۔ یہ ہے وہ جہنم جسے گنہگار لوگ جھوٹا جانا کرتے تھے ۔ اب یہ اس کے اور آگ جیسے گرم پانی کے درمیان مارے مارے پریشان پھرا کریں ۔ اور آیتوں میں ان کا زقوم کھانا اور گرم پانی پینا بیان فرما کر فرمایا ( ثُمَّ اِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَا۟اِلَى الْجَحِيْمِ 68؀ ) 37- الصافات:68 ) کہ پھر ان کی بازگشت تو جہنم ہی کطرف ہے ۔ سورہ واقعہ میں اصحاب شمال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا بائیں ہاتھ والے کس قدر برے ہیں؟ وہ آگ میں ہیں اور گرم پانی میں اور سیاہ دھوئیں کے سائے میں جو نہ ٹھنڈا ہے نہ سود مند ، آگے چل کر فرمایا ، اے بہکے ہوئے جھٹلانے والو البتہ سینڈ کا درخت کھاؤ گے اسی سے اپنے پیٹ بھرو گے ۔ پھر اس پر جلتا پانی پیو گے اور اس طرح جس طرح تونس والا اونٹ پیتا ہے ۔ آج انصاف کے دن ان کی مہمانی یہی ہوگی ۔ اور جگہ فرمایا ہے ( اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ 43؀ۙ ) 44- الدخان:43 ) ، یعنی یقینا گنہگاروں کا کھانا زقوم کا درخت ہے جو مثل پگھلے ہوئے تابنے کے ہے جو پیٹوں میں کھولتا رہتا ہے ۔ جیسے تیز گرم پانی ۔ اسے پکڑو اور دھکیلتے ہوئے بیچوں بیچ جہنم میں پہنچاؤ پھر اس کے سر پر تیز گرم جلتے جلتے پانی کا عذاب بہاؤ لے چکھ تو بڑا ہی ذی عزت اور بڑی ہی تعظیم تکریر والا شخص تھا ۔ جس سے تم شک شبہ میں تھے ۔ مقصد یہ ہے کہ ایک طرف سے تو وہ یہ دکھ سہ رہے ہوں گے جن کا بیان ہوا اور دوسری جانب سے انہیں ذلیل و خوار و رو سیاہ ناہنجار کرنے کیلئے بطور استہزاء اور تمسخر کے بطور ڈانٹ اور ڈپٹ کے بطور حقارت اور ذلت کے ان سے یہ کہا جائے گا جس کا ذکر ہوا ۔ ابن ابی حاتم کی ایک غریب مرفوع حدیث میں ہے کہ ایک جانب سے سیاہ ابر اٹھے گا جسے جہنمی دیکھیں گے اور ان سے پوچھا جائے گا کہ تم کیا چاہتے ہو؟ وہ ابر کو دیکھتے ہوئے دنیا کے انداز پر کہیں گے کہ یہ چاہتے ہیں کہ یہ برسے وہیں اس میں سے طوق اور زنجیریں اور آگ کے انگارے برسنے لگیں گے جس کے شعلے انہیں جلائیں جھلسائیں گے اور وہ طوق و سلاسل ان کے طوق و سلاسل کے ساتھ اضافہ کر دیئے جائیں گے ۔ پھر ان سے کہا جائے گا کہ کیوں جی دنیا میں اللہ عزوجل کے سوا جن جن کو پوجتے رہے وہ سب آج کہاں ہیں؟ کیوں وہ تمہاری مدد کو نہیں آئے؟ کیوں تمہیں یوں کسمپرسی کی حالت میں چھوڑ دیا ؟ تو وہ جواب دیں گے کہ ہاں وہ تو سب آج ناپید ہوگئے وہ تھے ہی بےسود ۔ پھر انہیں کچھ خیال آئے گا اور کہیں گے نہیں نہیں ہم نے تو ان کی عبادت کبھی نہیں کی ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ جب ان کے بنائے کچھ نہ بنے گی تو صاف انکار کر دیں گے اور جھوٹ بول دیں گے کہ ( وَاللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ 23؀ ) 6- الانعام:23 ) اللہ ہمیں تیری قسم ہم مشرک نہ تھے ۔ یہ کفار اسی طرح بیکاری میں کھوئے رہتے ہیں ، ان سے فرشتے کہیں گے یہ بدلہ ہے اس کا جو دنیا میں بےوجہ گردن اکڑائے اکڑتے پھرتے تھے ۔ تکبر و جبر پر چست کمر رہتے تھے لو اب آ جاؤ جہنم کے ان دروازوں میں داخل ہو جاؤ اب ہمیشہ یہیں پے رہنا تم جیسے اترانے والوں کی ہی یہ بدمنزل اور بری جائے قرار ہے ۔ جس قدر تکبر کئے تھے اتنے ہی ذلیل و خوار آج بنو گے ۔ جتنے ہی بلند گئے تھے اتنے ہی گرو گے ۔ واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

69۔ 1 انکار اور تکذیب کے لئے یا اس کے رد و ابطال کے لئے۔ 69۔ 2 یعنی ظہور دلائل اور وضوح حق کے باوجود وہ کس طرح حق کو نہیں مانتے۔ یہ تعجب کا اظہار ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٢] قرآن کی آیات سے اپنے نظریات کشید کرنا اور ان میں جھگڑا اور فرقہ بازی :۔ اللہ کی آیات سے مراد آیات آفاق وانفس بھی ہوسکتی ہے جن کا قرآن نے بیشمار مقامات پر اور یہاں بھی توحید کے دلائل کے طور پر ذکر کیا ہے۔ پھر بھی مشرک لوگ ان میں جھگڑا کرتے اور اللہ کے پیاروں کو اللہ کے اختیارات میں شریک بنا لیتے ہیں اور اگر ان آیات سے مراد اللہ کے احکام وارشادات لئے جائیں تو اس سے مرادوہ لوگ ہیں جو کسی ایک پہلو کی انتہا کو پہنچ کر ایک نظریہ قائم کرلیتے ہیں پھر جو آیات اپنے اس قائم کردہ نظریہ کے خلاف نظر آئیں ان کی تاویل کرلیتے ہیں۔ مثلاً کچھ لوگوں نے جب موت وحیات اور رزق وغیرہ کے معاملہ میں انسان کی بےبسی دیکھی تو یہ نظریہ قائم کرلیا کہ انسان مجبور محض اور قدرت کے ہاتھوں میں محض ایک کھلونے کی حیثیت رکھتا ہے پھر جن آیات سے انسان کا اختیار ثابت ہوتا تھا ان کی تاویل کر ڈالی۔ ایسے لوگوں کے مقابلہ میں کچھ دوسرے لوگ اٹھے جنہوں نے قرآن ہی کی آیات سے یہ نظریہ قائم کرلیا کہ انسان مختار مطلق ہے اور جو کام بھی وہ کرنا چاہے کرسکتا ہے۔ اور ایسی آیات جن سے انسان کی بےبسی ثابت ہوتی تھی ان کی تاویل کر ڈالی۔ اس طرح اللہ کی آیات میں بحث وجدال اور ایک ہی طرف انتہا کو پہنچنے اور دوسرے پہلو سے صرف نظر کرنے کی بنا پر آغاز اسلام میں دو فرقے جبریہ اور قدریہ ایک دوسرے کے مدمقابل کے طور پر سامنے آگئے۔ وہی مسئلہ تقدیر جس پر بحث کرنے سے رسول اللہ نے سختی سے روک دیا تھا۔ اسی مسئلہ پر بحث وجدال کے نتیجہ میں یہ دو فرقے پیدا ہوئے اور اپنے اپنے نظریہ کی حمایت میں قرآن کی آیات میں بحث وجدال اور انہی سے استدلال کرنے لگے۔۔ حالانکہ اس مسئلہ میں راہ صواب اور راہ اعتدال یہ ہے کہ انسان بعض معاملات میں مجبور ہے اور بعض میں مختار۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت ہے اب اللہ تعالیٰ کا عدل یہ ہے کہ جس کام میں انسان مجبور ہے وہاں اس پر کوئی مؤاخذہ نہ ہوگا۔ مؤاخذہ یا باز پرس صرف اس کام کے متعلق ہوگی جس میں وہ مختار ہے۔ یا جس حد تک مختار ہے۔۔ بعد ازاں جتنے بھی بدعی فرقے پیدا ہوئے ہر ایک نے اپنی بنائے استدلال قرآن ہی پر رکھی اور من مانی تاویل حتیٰ کہ اپنی بات کی اپچ میں آکر معنوی اور لفظی تحریف تک سے باز نہ آئے اور ایسی چند تاویلات ہم اپنے حواشی میں پیش کرچکے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

الم ترالی الذین یجادلون … اس سورت میں شروع سے یہاں تک کفار کے ناحق جدال کا اور اس کی مذمت کا پانچ مرتبہ ذکر آیا ہے۔ دیکھیے آیت (٤، ٥، ٣٥، ٥٦، ٦٩) یہاں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور ان آیات کے سننے یا پڑھنے والے ہر شخص کو فرمایا کہ صسورت کے شروع سے یہاں تک کی تقریر سے) کیا تمہیں معلوم نہیں ہوا کہ اللہ کی آیات میں ناحق جھگڑا اور کج بحثی کرنے والے لوگ ان کے صحیح ہونے کے دلائل جاننے کے باوجود کہاں سے ٹھوکر کھا کر گمراہی کے گڑھے میں گر رہے ہیں ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر کیا آپ نے ان لوگوں (کی حالت) کو نہیں دیکھا جو اللہ تعالیٰ کی آیتوں میں جھگڑے نکالتے ہیں (حق سے) کہاں پھرے چلے جا رہے ہیں، جن لوگوں نے اس کتاب (یعنی قرآن) کو جھٹلایا اور اس چیز کو بھی (جھٹلایا) جو ہم نے اپنے پیغمبروں کو دے کر بھیجا تھا (اس میں کتب و احکام و معجزات سب داخل ہوگئے کیونکہ مشرکین عرب اور کسی پیغمبر کو بھی نہ مانتے تھے) سو ان کو ابھی (یعنی قیامت میں کہ قریب ہے) معلوم ہوا جاتا ہے جبکہ طوق ان کی گردنوں میں ہوں گے اور ان (طوقوں میں) زنجیریں (پروئی ہوئی ہوں گی، جن کا دوسرا سرا فرشتوں کے ہاتھ میں ہوگا اور ان زنجیروں سے) ان کو گھسیٹتے ہوئے کھولتے پانی میں پہنچائیں گے۔ پھر یہ آگ میں جھونک دیئے جائیں گے، پھر ان سے پوچھا جاوے گا کہ وہ (معبود) غیر اللہ کہاں گئے جن کو تم شریک (خدائی) ٹھہراتے تھے (یعنی تمہاری مدد کیوں نہیں کرتے) وہ کہیں گے کہ وہ تو سب ہم سے غائب ہوگئے، بلکہ (سچ بات تو یہ ہے کہ) ہم اس کے قبل (دنیا میں جو بتوں کو پوجتے تھے تو اب معلوم ہوا کہ) کسی کو بھی نہیں پوجتے تھے (یعنی معلوم ہوا کہ وہ لا شی محض تھے ایسی بات غلطی ظاہر ہونے کے وقت کہی جاتی ہے جیسے کوئی شخص تجارت میں خسارہ اٹھائے اور اس سے پوچھا جاوے کہ تم فلاں مال کی تجارت کیا کرتے ہو اور وہ کہے کہ میں تو کسی کی بھی تجارت نہیں کرتا یعنی جب اس کا ثمرہ حاصل نہ ہو تو یوں سمجھنا چاہئے کہ گویا وہ عمل ہی نہ ہوا، آگے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ) اللہ تعالیٰ اسی طرح کافروں کو غلطی میں پھنسائے رکھتا ہے (کہ جس چیز کے لا شی وغیر نافع ہونے کا وہاں خود اقرار کریں گے، آج یہاں ان کی عبادت میں مشغول ہیں ارشاد ہوگا کہ) یہ (سزا) اس کے بدلہ میں ہے کہ تم دنیا میں ناحق خوشیاں مناتے تھے اور اس کے بدلہ میں کہ تم اتراتے تھے (اور اس کے قبل ان کو حکم ہوگا) کہ جہنم کے دروازوں میں گھسو (اور) ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہو سو متکبرین (عن آیات اللہ) کا وہ برا ٹھکانہ ہے۔ (اور جب ان سے اس طرح انتقام لیا جاوے گا) تو آپ (چندے) صبر کیجئے بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے، پھر جس (عذاب) کا (مطلقاً ) ہم ان سے وعدہ کر رہے ہیں (کہ کفر موجب عذاب ہے) اس میں سے کچھ تھوڑا سا (عذاب) اگر ہم آپ کو دکھلا دیں (یعنی آپ کی حیات میں ان پر اس کا نزول ہوجائے) یا (اس کے نزول کے قبل ہی) ہم آپ کو وفات دے دیں (پھر خواہ بعد میں نزول ہو یا نہ ہو) سو (دونوں احتمال ہیں کوئی شق ضروری نہیں لیکن ہر حال اور ہر احتمال پر) ہمارے ہی پاس ان کو آنا ہوگا (اور اس وقت بالیقین ان پر عذاب واقع ہوگا) اور (اس بات کو یاد کر کے بھی تسلی حاصل کیجئے کہ) ہم نے آپ سے پہلے بہت سے پیغمبر بھیجے جن میں بعضے تو وہ ہیں کہ ان کا قصہ ہم نے آپ سے (اجمالاً وتفصیلاً ) بیان کیا ہے اور بعضے وہ ہیں جن کا ہم نے آپ سے بیان نہیں کیا اور (اتنا امر سب میں مشترک ہے کہ) کسی رسول سے یہ نہ ہوسکا کہ کوئی معجزہ بدون اذن الٰہی کے ظاہر ہو سکے (اور امت کی ہر فرمائش پوری کرسکے۔ سو بعضے اس لئے بھی ان کی تکذیب کرتے رہے، اسی طرح یہ لوگ آپ کی تکذیب کرتے ہیں تو آپ تسلی رکھئے اور صبر کیجئے) پھر جس وقت اللہ کا حکم (نزول عذاب کے لئے) آوے گا، (خواہ دنیا میں یا آخرت میں لقولہ تعالیٰ (آیت) فاما نرینک بعض الذین نعدھم الخ) تو ٹھیک ٹھیک (عملی) فیصلہ ہوجاوے گا اور اس وقت اہل باطل خسارہ میں رہ جاویں گے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِ اللہِ۝ ٠ ۭ اَنّٰى يُصْرَفُوْنَ۝ ٦٩ۚۖۛ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ جدل الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] ( ج د ل ) الجدال ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ أنى أَنَّى للبحث عن الحال والمکان، ولذلک قيل : هو بمعنی كيف وأين «4» ، لتضمنه معناهما، قال اللہ عزّ وجل : أَنَّى لَكِ هذا [ آل عمران/ 37] ، أي : من أين، وكيف . ( انیٰ ) انی۔ یہ حالت اور جگہ دونوں کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اس لئے بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنیٰ این اور کیف ۔ کے آتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ { أَنَّى لَكِ هَذَا } ( سورة آل عمران 37) کے معنی یہ ہیں کہ کھانا تجھے کہاں سے ملتا ہے ۔ صرف الصَّرْفُ : ردّ الشیء من حالة إلى حالة، أو إبداله بغیره، يقال : صَرَفْتُهُ فَانْصَرَفَ. قال تعالی: ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] ( ص ر ف ) الصرف کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا یا کسی اور چیز سے بدل دینا ۔ محاور ہ ہے ۔ صرفتہ فانصرف میں نے اسے پھیر دیا چناچہ وہ پھر گیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] پھر خدا نے تم کو ان کے مقابلے سے پھیر کر بھگادیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے محمد کیا آپ کو بذریعہ قرآن حکیم ان لوگوں کی حالت کا علم نہیں ہوا جو کہ قرآن حکیم کی تکذیب کرتے ہیں یہ اپنے جھوٹ کی وجہ سے کہاں بہکے جارہے ہیں اور کس طرح اللہ تعالیٰ پر بہتان لگاتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٩ { اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ َیُجَادِلُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِ اللّٰہِ } ” کیا تم نے غور نہیں کیا ان لوگوں کے حال پر جو اللہ کی آیات کے بارے میں جھگڑتے ہیں ! “ اَلَمْ تَرَکا لفظی ترجمہ تو یہ ہوگا کہ کیا تم نے دیکھا نہیں ؟ لیکن اس کا مفہوم یہی ہے کہ کیا تم نے غور نہیں کیا ؟ { اَنّٰی یُصْرَفُوْنَ } ” وہ کہاں سے پھرائے جا رہے ہیں ؟ “ یعنی وہ حق کے قریب پہنچ کر واپس پلٹ گئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دور نصیب ہوا ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک شہر اور ایک جگہ اکٹھے رہنے کا موقع ملا۔ لیکن ان کی بد قسمتی ملاحظہ کیجیے کہ اللہ تعالیٰ کے اتنے بڑے انعام کے باوجود بھی یہ لوگ ہدایت سے محروم رہ گئے۔ مقامِ عبرت ہے ! دیکھو ‘ یہ لوگ کہاں تک پہنچ کر ناکام لوٹے ہیں : ؎ قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند دو چار ہاتھ جبکہ لب ِبام رہ گیا !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

99 That is, "Have you not understood even after the above discourse what is the real source of these people's misunderstanding and misconduct, and what has caused them to go astray? "(One should note that the addressee hire is not the Holy Prophet but every such person who reads these verses or hears them read).

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :99 مطلب یہ ہے کہ اوپر والی تقریر کے بعد بھی کیا تمہاری سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ ان لوگوں کی غلط بینی اور غلط روی کا اصل سر چشمہ کہاں ہے اور کہاں سے ٹھوکر کھا کر یہ اس گمراہی کے گڑھے میں گرے ہیں؟ ( واضح رہے کہ یہاں تم کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ہے بلکہ ہر وہ شخص مخاطب ہے جو ان آیات کو پڑھے یا سنے )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٩۔ ٧٨۔ مشرکین مکہ یوں تو سارے قرآن کو کلام الٰہی نہیں مانتے تھے لیکن حشر اور قیامت کا ذکر جن آیتوں میں ہوتا تھا یا جن آیتوں میں شرک کی مذمت ہوتی تھی خاص کر ایسی آیتوں میں یہ لوگ بڑا جھگڑا کیا کرتے تھے اللہ نے اوپر کی آیتوں میں انسان کی پیدائش کا ذکر فرمایا تاکہ ان مشرکوں کی سمجھ میں آجائے کہ حضرت آدم کی پیدائش تو حشر کے نمونہ کے طور پر ہے کہ خاک کا پتلا بنایا گیا اور اس پتلے میں پھر روح پھونک دی گئی اور اولاد آدم کی پیدائش میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت جتلانے کے لئے حشر کے نمونہ سے بھی مشکل طریقہ کو اختیار فرمایا ہے کہ مٹی کے اثر سے طرح طرح کے اناج اور ترکاریاں اور کھانے کی چیزیں پیدا ہوتی ہیں اور وہ چیزیں انسان کی غذا ہوتی ہیں اور اس غذا سے نطفہ اور نطفہ سے انسان پیدا ہوتا ہے اب یہ آسانی سے سمجھ میں آجانے کی بات ہے کہ حشر کے نمونہ کے طور پر حضرت آدم (علیہ السلام) کی اور اس نمونہ سے بھی مشکل طور پر حضرت آدم کی اولاد کی پیدائش جب ہوچکی ہے تو حشر کے یقین لانے میں وہ کون سی بات مشکل رہ گئی جو ان مشرکوں کی سمجھ میں نہیں آتی اسی طرح جب انسان کو اور انسان کی ضرورت کی چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح پیدا کیا کہ اس میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے تو پھر اس کی تعظیم میں دوسروں کو شریک ٹھہرانے کا کیا حق ہے۔ اس تفصیل سے سمجھانے کے بعد بھی کسی بات کا سمجھ میں نہ آنا تعجب کی بات ہے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں تعجب کے طور پر اپنے رسول سے فرمایا ہے کہ اے رسول اللہ کے کیا تم نے نہیں دیکھا کہ باوجود اس طرح تفصیل سے سمجھانے کے بھی یہ مشرک لوگ کس طرح کی ہٹ دھرمی کرتے ہیں اور اللہ کی آیتوں میں جھگڑے نکالے جاتے ہیں پھر فرمایا کہ ابھی ان مشرکوں کو اس ہٹ دھرمی کے جھگڑوں کا انجام کچھ نہیں معلوم ہوتا جس وقت اللہ اور اللہ کے رسول کی نافرمانی کے جرم میں ان لوگوں کو مجرموں کی طرح طوق اور زنجیر میں جکڑ کر دوزخ میں ڈالا جائے گا اس وقت ان کو اس ہٹ دھرمی کی سب حقیقت کھل جائے گی پھر فرمایا کہ جن بتوں کی مذمت سے چڑ کر یہ لوگ آج اللہ تعالیٰ کی آیتوں میں جھگڑے نکالتے ہیں کل قیامت کے دن جب یہ مشرک اللہ کے رو برو کھڑے ہوں گے تو ان بتوں کے معبود بنانے سے صاف منکر ہوجائیں گے اور ان کا وہ انکار کچھ کام نہ آئے گا اور دوزخ میں ان کو جتلایا جائے گا کہ دنیا میں ہٹ دھرمی اور ناحق طور پر جو تم اتراتے تھے اور اللہ کی آیتوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے آج یہ اسی کا خمیازہ تم کو بھگتنا پڑا پھر اپنے رسول کو ارشاد فرمایا۔ ان مشرکوں کے بیجا جھگڑے پر صبر کرنا چاہئے کیونکہ ان مشرکوں پر ان کے بیجا جھگڑوں کا وبال اللہ کے وعدہ کے موافق دنیا میں پڑنے والا ہے فقط وقت مقررہ آنے کی دیر ہے وقت مقررہ آتے ہی یہ مشرک زیر ہوجائیں گے اور اللہ کے رسول کا بول بالا ہوگا اور اگر دنیا کے وبال سے بعضے لوگ ان میں سے بچ گئے اور کفر کی حالت میں مرگئے تو وہ عاقبت کے عذاب میں پکڑے جائیں گے اللہ کا وعدہ سچا ہے بہت سے مشرک تو آنحضرت کے رو برو ہی زیر ہوگئے پھر صحابہ کے زمانہ میں بہت سے ملک فتح ہوئے اور جو لوگ حالت کفر پر رہے وہ دین و دنیا میں ذلیل ہوئے چناچہ بدر کی لڑائی میں ان مشرکوں میں کے بڑے بڑے سرکش جو حالت کفر پر مارے گئے ان کا دنیا و دین کا انجام صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم کی انس بن مالک کی روایت سے اوپر گزر چکا ہے کہ دنیا میں یہ لوگ نہایت ذلت سے مارے گئے اور مرتے ہی آخرت کے عذاب میں گرفتار ہوگئے جس عذاب کے جتانے کے لئے اللہ کے رسول نے ان مشرکوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ کے وعدہ کو سچا پا لیا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے پچھلے نبیوں اور رسولوں کا تذکرہ فرما کر آنحضرت کی تسکین فرمائی کہ ہمیشہ سے اللہ کے نبی اور رسول ہوتے اور منکر لوگ ان سے جھگڑا کرتے آئے ہیں اور وقت مقررہ آنے کے ساتھ ہی اس طرح کا فیصلہ اللہ کی طرف سے ہوا ہے جس سے منکروں کو بڑا نقصان پہنچا ہے اور بعضے پچھلے نبی اور رسولوں کا حال تو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں مثال کے طور پر جگہ جگہ ذکر فرمایا ہے اور کتنے نبی اور رسولوں کا حال ذکر بھی نہیں فرمایا مسند امام ٢ ؎ احمد صحیح ابن حبان مستدرک حاکم وغیرہ ابوذر (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کل نبی ایک لاکھ چوبیس ہزار گزرے ہیں جن میں تین سو پندرہ رسول ہوئے ہیں اس حدیث کی سند میں ایک راوی ابراہیم بن ہشام کو اکثر علما نے ضعیف قرار دیا ہے اسی سبب سے ابن جوزی نے اسے موضوع لکھا ہے لیکن طبرانی اور ابن حبان نے ابراہمی بن ہشام کو ثقہ کہا ہے اسی واسطے جلال الدین سیوطی نے اس حدیث کے موضوع ہونے کو تسلیم نہیں کیا۔ بنائی ہوئی جھوٹی حدیث کو موضوع کہتے ہیں۔ مسند امام احمد کی سند میں یہ ابراہیم بن ہشام نہیں ہے لیکن مسند امام احمد کی روایتوں میں تین سو سے کچھ اوپر دس اور تین سو پندرہ رسولوں کا ذکر ہے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کا ذکر نہیں ہے اس مضمون کی ایک حدیث تفسیر ابن ابی حاتم میں ابو امامہ کی روایت سے بھی ہے لیکن اس کی سند میں علی بن یزید قاسم بن عبد الرحمن معن بن رفاعہ یہ تین راوی ضعیف ہیں اوسط طبرانی میں حضرت ١ ؎ علی سے روایت ہے کہ سوا ایک غلام حبشی نبی کے اور نبیوں کا حال اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلا دیا ہے اس حدیث کی سند میں جابر جعفی ہے جس کو اکثر علما نے ضعیف قرار دیا ہے آخر کو فرمایا کہ یہ مشرکین مکہ طرح طرح کے معجزوں کی فرمائش اور مسخرا پن کے طور پر عذاب کی جلدی جو کرتے ہیں تو ان کو جواب دیا جائے کہ معجزے رسولوں کے اختیار میں نہیں ہیں جو معجزہ ظاہر ہوتا ہے وہ اللہ کے حکم سے ظاہر ہوتا ہے اور عذاب کا وقت مقررہ جب آجائے گا تو اس عذاب کی جلدی کرنے والوں کو جو نقصان پہنچے گا وہ ان کو معلوم ہوجائے گا۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے بدر کی لڑائی کے وقت اس وعدہ کا جو کچھ ظہور ہوا۔ صحیح بخاری و مسلم کی انس بن مالک کی روایت کے حوالہ سے اس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ (١ ؎ صحیح بخاری باب قتل ابی جھل ص ٥٦٦ ج ٢۔ ) (٢ ؎ مشکوٰۃ شریف باب فی ذکر الانبیاء (علیہم السلام) ص ٥١١۔ ) (١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٣٥٧ ج ٥۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:69) انی۔ کیسے ۔ کیونکر۔ نیز ملاحظہ ہو 40:62 متذکرۃ الصدر۔ یصرفون : مضارع مجہول جمع مذکر غائب صرف مصدر باب ضرب وہ پھیرے جاتے ہیں۔ (یہ کہاں یا کیسے حق سے پھیرے جا رہے ہیں)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی کسی دلیل کے بغیر ان میں کج بحثیاں کرتے ہیں۔ ( دیکھئے آیت : 4)2 یعنی ان کے صحیح ہونے کے دلائل جاننے کے باوجود ان پر ایمان لانے سے کیوں ہٹائے جا رہے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 8: آیات 69 ۔ تا۔ 78: اسرار و معارف ؛ ذرا ان لوگوں کو دیکھ جو ایسے عظیم پروردگار کے احکام کا انکار کرتے ہیں بلکہ اپنی خرافات کو درست منوانے پہ زور لگا رہے ہیں یہ کس قدر گمراہ ہیں اور بھٹک رہے ہیں کہ اللہ کی بھیجی ہوئی کتاب کا انکار کرتے ہیں جس میں جو کچھ ارشاد ہے سراسر حق ہے اور یونہی پھینک نہیں دی اللہ نے اپنا رسول مبعوث فرمایا کتاب کے ساتھ کہ اس کی شرافت نیکی اور ورع تقوی مثالی ہے مگر انہیں کچھ اثر نہیں تو اس کا نتیجہ بھی بہت جلد ان کے سامنے آجائے گا جب ان کی گردنوں میں طوق ڈال کر اور انہیں زنجیروں میں جکڑ کر دوزخ کے کھولتے ہوئے پانی میں گھسیٹا جائے گا اور پھر دوزخ کے بھڑکتے شعلوں میں پھینک دیا جائے گا تب ان سے سوال ہوگا کہ عظمت الہی کا انکار کرنے والو وہ تمہارے معبودان باطلہ کہاں ہیں جن کو تم عمر بھر پوجا کیے وہ شیاطین ہوں جن ہوں یا اسباب تو کہیں گے سب کچھ کھو گیا جیسے ہم نے تو کسی کی عبادت کی ہی نہیں یعنی جن کو ہم اپنا آسرا سمجھے وہ خود کوئی حیثیت نہیں رکھتے یہی کفر کی مصیبت ہے کہ اللہ ناراض ہو کر اسے ایسی بےکار محض شے میں پھنسا دیتا ہے اور یہ سزا تمہیں اس لیے ملی دنیا میں گمراہ ہونے اور آخرت میں دوزخ کی کہ تم دنیا میں ناحق اکڑتے تھے اور تمہیں اپنی انا پہ بہت فخر تھا اللہ کی بات ماننا بھی اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔ سو اب دوزخ کا دروازہ کھلا جاؤ داخل ہوجاؤ کہ تکبر کرنے والوں کا کس قدر برا ٹھکانہ ہے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا اے بندہ مومن تو صبر اختیار کر ان کی ایذ پر بھی اور بندہ مومن کے لیے خاص طور پر عقیدہ پہ استقامت بھی بہت بڑا صبر ہے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور کافر سے جن عذابوں کا وعدہ ہے وہ تیرے سامنے ان پر وارد ہوں یا تیرا وقت پورا ہوجائے اور بعد میں کفر کی شوکت ٹوٹے یہ تو نظام دنیا ہے مگ رآخرت میں تو ہر حال سب نے ایک ہی وقت ہماری بارگاہ میں حاضر ہونا ہے۔ اور آپ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) سے پہلے بھی بہت رسول مبعوث ہوئے بعض کی باتیں ہم نے تفصیل سے بتا دیں اور بعض کا تذکرہ نہیں کیا گیا مگر یہ بات طے ہے کہ اللہ کے رسول ہر کام اللہ کی پسند سے کرتے تھے اور معجزات بھی اس کی اجازت سے ظاہر ہوتے تھے شعبدہ بازوں کی طرح انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام بازی گری نہیں کرتے کہ جب کسی نے جیسا کہا ویسے کرنے بیٹھ گئے اور جب فیصلہ کی گھڑی آئے گی تو پورا پورا انصاف ہوگا اور سب جھگڑے چکا دئیے جائیں گے تب باطل پرستوں کو سمجھ آئے گی کہ وہ کس قدر نقصان میں رہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ واضح دلائل آجانے کے باوجود اللہ کی آیات کے بارے میں جھگڑتے ہیں ان کا انجام۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں توحید و رسالت اور قیامت کے بارے میں اتنے واضح اور ٹھوس دلائل دیئے ہیں کہ معمولی سے معمولی عقل رکھنے والا انسان بھی انہیں قبول کیے بغیر نہیں سکتا بشرطیکہ وہ جھگڑالو نہ ہو۔ جھگڑالو آدمی اپنی انا اور تعصب کی بنیاد پر حقیقت قبول کرنے لیے تیار نہیں ہوتا۔ بالخصوص مشرک توحید کی بات سمجھنا تو دور کی بات اسے سننا بھی گوارہ نہیں کرتا۔ اس قسم کے لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ جو ” اللہ “ کی آیات کے بارے میں جھگڑتے ہیں۔ کیا آپ نے غور نہیں کیا کہ یہ لوگ کہاں سے بھٹک رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے بھٹک جانے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ اسی طرح کوئی شخص دین کے کسی مسئلہ کو مخصوص نقطہ نظر سے اختیار کرلے تو اس کے پاس بھی جھگڑا کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ جن لوگوں نے کتاب اللہ اور اس چیز کو جھٹلایا جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو مبعوث فرمایا۔ کتاب اللہ کے ساتھ جو چیز انبیائے کرام (علیہ السلام) کو دی جاتی تھی وہ کتاب اللہ کی تشریح اور اس پر عمل کرنے کا عملی طریقہ تھا جس کے بغیر کوئی شخص کتاب اللہ سے صحیح استفادہ نہیں کرسکتا۔ اس لیے قرآن مجید کے ساتھ مستند حدیث پر ایمان لانا اور اس کے مطابق عمل کرنا فرض عین ہے اس کے بغیر گمراہی ہے۔ جو لوگ قرآن و حدیث کو ماننے اور ان پر عمل کرنے کی بجائے حیلے بہانے بناتے ہیں۔ عنقریب انہیں اپنے انجام کا علم ہوجائے گا۔ ان کی گردنوں میں طوق پہنائے جائیں گے اور انہیں زنجیروں سے جکڑکر جہنّم میں پھینکا جائے گا۔ جب انہیں پیاس لگے گی تو جہنّم کا ابلتا ہوا پانی پلایا جائے گا اور وہ جہنم میں جلتے رہیں گے۔ (وَعَنِ ابْنْ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُوؤتٰی بِجَھَنَّمَ یَوْمَءِذٍ لَھَا سَبْعُوْنَ اَلْفَ زِمَامٍ مَعَ کُلِّ زِمَامٍ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَکٍ یَّجُرُّوْنَھَا۔ ) [ رواہ مسلم : باب فِی شِدَّۃِ حَرِّ نَارِ جَہَنَّمَ وَبُعْدِ ۔۔] ” حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے دن دوزخ کو لایا جائے گا اس کی ستر ہزار لگامیں ہوں گی اور ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے ‘ جو اسے کھینچ کر لائیں گے۔ “ مسائل ١۔ کتاب اللہ اور حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلانے والے گمراہ ہوتے ہیں۔ موت کے بعد انہیں اپنے انجام کا علم ہوجائے گا۔ ٢۔ گمراہ شخص کے پاس اس کی گمراہی کی معقول وجہ نہیں ہوتی۔ ٣۔ جہنّمیوں کے گلے میں جہنّم کے طوق اور انہیں بڑی بڑی زنجیروں سے جکڑا جائے گا۔ ٤۔ جہنّمیوں کو جہنّم سے بےانتہا ابلتا ہوا پانی پلا یا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن جہنّمیوں کو جہنّم میں مختلف سزائیں دی جائیں گی : ١۔ آنتوں اور کھالوں کا بار بار گلنا۔ (النساء : ٥٦) ٢۔ دوزخیوں کی کھال کا بار بار بدلنا۔ (الحج : ٢٠) ٣۔ کانٹے دار جھاڑیوں کا کھانادیا جانا۔ (الغاشیہ : ٦) ٤۔ کھانے کا گلے میں اٹک جانا۔ (المزمل : ١٣) ٥۔ دوزخیوں کو کھولتا ہوا پانی دیا جانا۔ (الانعام : ٧٠) ٦۔ دوزخیوں کو پیپ پلایا جانا۔ (النبا : ٢٥) ٧۔ جہنمیوں کو آگ کا لباس پہنایا جانا۔ (الحج : ١٩) ٨۔ لوہے کے ہتھوڑوں سے سزا دیا جانا۔ (الحج : ٢١، ٢٢) ٩۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب آگ ہلکی ہونے لگے گی تو ہم اسے مزید بھڑکا دیں گے۔ (بنی اسرائیل : ٩٧) ١٠۔ اس میں وہ کھولتا ہوا پانی پیئیں گے اور اس طرح پئیں گے جس طرح پیا سا اونٹ پیتا ہے۔ (الواقعہ : ٥٤ تا ٥٥) ١١۔ جہنمی گرم ہوا کی لپیٹ میں اور کھولتے ہوئے پانی میں ہوں گے۔ (الواقعۃ : ٤٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 69 تا 76 یعنی گزشتہ آیات ہیں اللہ کی جو نشانیاں ہوئیں ان کے ہوتے ہوئے ان لوگوں کا رویہ قابل تعجب ہے جو اللہ کی ان نشانیوں کے بارے میں بھی بھی جث وجدال کرتے ہیں ، لیکن ان کا انجام کیا ہونے والا ہے ، نہایت عبرت آموز ! الم تر۔۔۔۔۔ رسلنا (40: 69 تا 70) ” تم نے دیکھا ان لوگوں کو جو اللہ کی آیات میں جھگڑے کرتے ہیں ، کہاں سے وہ پھرائے جارہے ہیں ؟ یہ لوگ جو اس کتاب کو اور اب ساری کتابوں کو جھٹلاتے ہیں جو ہم نے اپنے رسولوں کے ساتھ بھیجی تھیں “۔ انہوں نے تو صرف کتاب قرآن اور ایک رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلایا تھا مگر اس طرح کرکے انہوں نے تمام کتابوں اور تمام رسولوں کو جھٹلادیا کیونکہ تمام رسولوں کا عقیدہ توحید تو ایک ہی تھا اور یہی عقیدہ اپنی مکمل صورت میں خاتم النبین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا گیا۔ لہٰذا انہوں نے گویا رسالتوں اور تمام رسولوں کی تکذیب کردی۔ ہر مکذیب نے یہی کیا خواہ قدیم زمانے میں تھا یا جدید زمانے میں اس نے عقیدۂ توحید ہی کی تکذیب کی۔ فسوف یعلمون (40: 70) ” عنقریب انہٰں معلوم ہوجائے گا “۔ کہ ان کا انجام کیا ہوگا۔ آگے تفصیلات دے دیں کہ ایسے لوگوں کا انجام کیسا ہوتا ہے۔ یہی کہ نہایت توہین آمیز اور حقارت آمیز انداز میں ان کو سزا دی جائے گی صرف سزا نہ ہوگی بلکہ اہانت اس کے ساتھ شامل ہوگی۔ اذالا۔۔۔ یسحبون (40: 71) ” جب طوق اور زنجیریں ان کی گردنوں میں ہوں گی ، اور کھینچے جائیں گے “۔ اس طرح جس طرح مویشی کھینچے جاتے ہیں ، اہانت کے ساتھ ۔ عزت ان کی کیوں ہو ، انہوں نے خود ہی عزت کا لباس اتارپھنکا تھا۔ یوں توہین کے ساتھ کھینچ کر اور چلا کر آخرکار انہیں گرم پانیوں اور آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ فی الحمیم ثم فی النار یسجرون (40: 76) ” گرم پانی میں ، پھر آگ میں جھونک دیئے جائیں گے “۔ یعنی ان کو باندھا جائے گا۔ پھر کتوں کی طرح گلے میں زنجیریں ڈال کر ہانکا جائے گا اور ان کو ایسے مکان میں گرادیا جائے گا جو گرم پانی اور آگ سے بھرا ہوگا۔ یہ لوگ ایسی ہی حالت میں ہوں گے کہ ان پر سرزنش ، ملامت دھتکار آئے گی : ثم قیل۔۔۔۔ دون اللہ (40: 73) ان سے پوچھا جائے گا اب کہاں ہیں اللہ کے سوا وہ خدا جن کو تم شریک کرتے تھے “۔ اب وہ ایسا جواب دیتے ہیں جس طرح وہ شخص دیتا ہے جس کے ساتھ دھوکہ ہوا اور پھر یہ سھو کہ ظاہر ہوگیا اور وہ نہایت مایوس اور ضرر رسیدہ ہوتا ہے : قالو اضلوا۔۔۔۔ قبل شیئا (40: 74) ” وہ جواب دیں گے کھوئے گئے وہ ہم سے ، بلکہ اس سے پہلے کسی چیز کو نہ پکارتے تھے “۔ وہ تو ہم سے اس طرح غائب ہوگئے کہ اب ہمیں ان کے ڈھونڈنے کا راستہ تک معلوم نہیں۔ اور نہ اب وہ ہم کو راستہ بتاتے ہیں۔ بلکہ ہم سے اسطرح غائب ہوگئے کہ اب ہمیں انکے ڈھونڈنے کا راستہ تک معلوم نہیں۔ اور نہ اب وہ ہم کو راستہ بتاتے ہیں۔ بلکہ اس سے پہلے ہم جنکو پکارتے تھے وہ تو کوئی چیز ہی نہ تھے محض اوہام اور افسانے تھے۔۔۔۔ اس مایوس کن جواب پر یہ تبصرہ اور عبرت۔ کذلک یضل اللہ الکفرین (40: 74) ” اس طرح اللہ کافروں کا گمراہ ہونا متحقق کردے گا “۔ اور اس کے بعد پھر سرزنش اور ان کے گمراہی کا سبب۔ ذٰلکم بما۔۔۔۔ مثوی المتکبرین (40: 75 تا 76) ” ان سے کہا جائے گا ” یہ تمہارا انجام اس لیے ہوا ہے کہ زمین میں غیر حق پر مگن تھے۔ اور پھر اس پر اتراتے تھے۔ اب جاؤ، جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ، ہمیشہ تم کو وہیں رہنا ہے ، بہت ہی برا ٹھکانا ہے متکبرین کا “۔ اے فریادرس خداوند ! یہ طوق اور زنجیریں گلے میں باندھ کر گرم پانیوں اور آگ میں کہاں لے جائے گے ؟ معلوم ہوتا ہے کہ جہنم کے دائمی عذاب سے پہلے گرم پانی اور آگ کا عذاب دیا گیا۔ فبئس مثوی المتکبرین (40: 76) ” بہت ہی براٹھکانہ ہے متکبرین کا “۔ یہ توہین آمیز سزا ان کو جو دی جارہی ہے اس کا حقیقی سبب تو کبر ہی ہے اور اس کبرہی کی وجہ سے اس سخت سزا کے ساتھ تحقیر اور تذلیل کو شامل کیا گیا ہے۔ اس خوفناک عذاب کے منظر اور ذلت آمیز سلوک کے بعد ، جو آیات الہٰی میں نارواجدل وجدال کے نتیجے میں ان پر نازل ہوا اور جس کا حقیقی کبر تھا ، جو انسان کو پھلا دیتا ہے ، اس منظر کے بعد اور اس برے انجام کے بعد حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نصیحت کی جاتی ہے کہ آپ صبر کریں کیونکہ ان لوگوں کے کبروجدال کی وجہ سے آپ کو بےحد تکلیف ہوتی ہے ، آپ کو تسلی دی جاتی ہے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ چاہے اسلامی انقلاب کا وعدہ آپ کی حیات میں پورا ہو یا بعد میں ، یہ اللہ کی رضا ہے کہ وہ جس طرح چاہے ، کرے رسول کا کام یہ ہے کہ وہ تبلیغ کرکے اللہ کے پاس چلاجائے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوزخیوں کا طوقون اور زنجیروں میں گھسیٹا جانا، دوزخ میں داخل ہونا اور ان سے یہ سوال ہونا کہ تمہارے باطل معبود کہاں ہیں اوپر چند آیات کا ترجمہ ذکر کیا گیا ہے اولاً ان لوگوں کی وعید ذکر فرمائی جو اللہ تعالیٰ کی آیات میں جھگڑے بازی کرتے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کی کتاب کو اور اللہ کے پیغام کو جھٹلاتے ہیں ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ لوگ عنقریب اپنی سزا کو جان لیں گے جبکہ ان کی گردنوں میں طوق ہوں گے اور زنجیریں ہوں گی اسی حالت میں فرشتے انہیں گھسیٹتے ہوئے کھولتے ہوئے پانی میں لے جائیں گے پھر یہ لوگ آگ میں جھونک دئیے جائیں گے وہاں ان سے دریافت کیا جائے گا کہ اللہ کے سوا تم نے جو معبود بنا رکھے تھے وہ سب کہاں گئے یہ لوگ اول تو یوں کہیں گے کہ وہ سب غائب ہوگئے ہمیں ان سے کچھ نفع نہیں پہنچا پھر کہیں گے کہ ہم تو کسی کو پوجتے ہی نہ تھے صاحب روح المعانی نے اس کے دو مطلب لکھے ہیں اول یہ کہ آج ہمیں پتہ چلا کہ ہم اللہ کے سوا جن لوگوں کی پوجا کرتے تھے وہ لوگ کچھ بھی نہ تھے معلوم ہوا کہ ہم سب غلطی پر تھے ایسی چیز کی پرستش کی جو لاشئ محض تھی دوسرا مطلب یہ لکھا ہے کہ وہ لوگ وہاں غیر اللہ کی پرستش سے انکاری ہوجائیں گے اور قصداً و ارادۃً جھوٹ بولیں گے جیسا کہ سورة انعام میں ہے کہ وہ یوں کہیں گے۔ (وَاللّٰہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ ) ان لوگوں کے جواب ذکر کرنے کے بعد فرمایا (کَذٰلِکَ یُضِلُّ اللّٰہُ الْکٰفِرِیْنَ ) اللہ تعالیٰ اسی طرح کافروں کو گمراہ کرتا ہے یہاں اس دنیا میں جس چیز کے نافع ہونے کا خیال باندھے ہوئے ہیں اور اسی خیال سے غیر اللہ کی پوجا کرتے ہیں قیامت کے دن ان معبود ان باطلہ کو لا شئ محض قرار دے دیں گے بلکہ ان کی پوجا ہی سے منکر ہوجائیں گے حیرت اور پریشانی کی وجہ سے جھوٹ پر اتر آئیں گے (ذٰلِکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَفْرَحُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ ) (یہ عذاب اس لیے ہے کہ تم ناحق زمین پر اتراتے پھرتے تھے) (وَبِمَا کُنْتُمْ تَمْرَحُوْنَ ) (اور اس وجہ سے یہ عذاب ہے کہ تم اکڑ مکڑ کرتے تھے) دنیا میں جو نعمتیں تمہیں دی گئیں ان میں لگ کر تم منعم حقیقی سے غافل ہوگئے اور آخرت کو بھول گئے، فرح اور مرح دونوں نے تمہارا ناس کھو دیا (ادْخُلُوْا اَبْوَابَ جَہَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا) (تم دوزخ کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ اس میں تمہیں ہمیشہ رہنا ہے) (فَبِءْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ ) (سو برا ٹھکانہ ہے تکبر کرنے والوں کا جب تمہارے سامنے حق آتا تھا توحید پیش کی جاتی تھی اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تمہارے پاس دعوت حق لے کر آتے تھے تو تم ان کی بات قبول کرنے میں اپنی ہیٹی سمجھتے تھے اور انسلٹ جانتے تھے آج اس تکبر کا بدلہ چکھ لو جہنم میں عذاب بھی ہے اور ذلت بھی۔ اوپر جو (یُسْحَبُوْنَ فِی الْحَمِیْمِ ثُمَّ فِی النَّارِ یُسْجَرُوْنَ ) فرمایا ہے اس پر بعض اہل علم نے یہ اشکال کیا ہے کہ سورة دخان کی آیت (ثُمَّ صُبُّوا فَوْقَ رَاْسِہِ مِنْ عَذَابِ الْحَمِیْمِ ) سے معلوم ہوتا ہے کہ جحیم کا عذاب حمیم سے پہلے ہے حقیقت میں اس میں کوئی تعارض اور تنافی نہیں ہے کیونکہ سورة زمر کی آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ بالکل ابتداء میں داخل جحیم سے پہلے حمیم کا عذاب ہوگا دوزخ میں داخل ہونے کے بعد کبھی حمیم ہو کبھی جحیم ہو اس طرح تقدم اور تاخر ہوتا رہے اس میں کوئی اشکال کی بات نہیں۔ اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کی تلقین فرمائی (فَاصْبِرْ اِِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ) آپ صبر کیجیے بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے کفر پر جو کافروں کو عذاب ہوگا وہ یقینی ہے (فَاِِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِِلَیْنَا یُرْجَعُوْنَ ) ہم ان سے جس عذاب کا وعدہ کر رہے ہیں اگر ہم آپ کے سامنے اس میں سے کچھ حصہ آپ کو دکھلا دیں آپ کی حیات میں اس کا نزول اور ظہور ہوجائے یا اس کے نزول سے پہلے ہی ہم آپ کو وفات دے دیں تو یہ دونوں باتیں ہوسکتی ہیں جو بھی صورت ہو بہرحال ان سب کو ہمارے ہی پاس آنا ہے لہٰذا ہم ان کو آخرت میں کفر کی سزا دے دیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

67:۔ ” الم تر الی الذین “ یہ مجادلین پر زجر کا اعادہ ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معاندین کے قابلت عجب رویے کی طرف متوجہ کرنا مقصود ہے۔ ان ضدی لوگوں کا حال بھی عجیب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات بینات میں خواہ مخواہ کٹ حجتی اور جدال کرتے ہیں، حالانکہ یہ آیات ایسی واضح اور روشن ہیں کہ ان میں غور و فکر ان کو دولت ایمان وا یقان تک پہنچا دے اور بےمعنی جدال و نزاع سے انہیں روک دے لیکن اس کے باوجود کسی طرح وہ ہدایت سے پھیرے جا رہے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(69) اے پیغمبر کیا آپ نے ان لوگوں کے حال پر نظر نہیں کی جو اللہ تعالیٰ کی آیتوں میں جھگڑے نکالا کرتے ہیں یہ لوگ کہاں الٹے پھرے جارہے ہیں۔ اس سورت میں تین مرتبہ جھگڑنے کا ذکر فرمایا ان سے مراد یا تو کفار مکہ اور یود اور نصاریٰ ہیں یا تاکیداً فرمایا ان لوگوں کے خلاف جو بلاوجہ کے جھگڑے نکالا کرتے ہیں یہ اس جھگڑے کی وجہ سے گمراہی کی طرف پھرے چلے جارہے ہیں آگے تہدید فرمائی ہے۔