Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 7

سورة مومن

اَلَّذِیۡنَ یَحۡمِلُوۡنَ الۡعَرۡشَ وَ مَنۡ حَوۡلَہٗ یُسَبِّحُوۡنَ بِحَمۡدِ رَبِّہِمۡ وَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ وَ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۚ رَبَّنَا وَسِعۡتَ کُلَّ شَیۡءٍ رَّحۡمَۃً وَّ عِلۡمًا فَاغۡفِرۡ لِلَّذِیۡنَ تَابُوۡا وَ اتَّبَعُوۡا سَبِیۡلَکَ وَ قِہِمۡ عَذَابَ الۡجَحِیۡمِ ﴿۷﴾

Those [angels] who carry the Throne and those around it exalt [ Allah ] with praise of their Lord and believe in Him and ask forgiveness for those who have believed, [saying], "Our Lord, You have encompassed all things in mercy and knowledge, so forgive those who have repented and followed Your way and protect them from the punishment of Hellfire.

عرش کے اٹھانے والے اور اس کے اس پاس کے ( فرشتے ) اپنے رب کی تسبیح و حمد کے ساتھ ساتھ کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لئے استغفار کرتے ہیں ، کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے ہرچیز کو اپنی بخشش اور علم سے گھیر رکھا ہے ، پس توانہیں بخش دے جو توبہ کریں اور تیری راہ کی پیروی کریں اور تو انہیں دوزخ کے عذاب سے بھی بچا لے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Bearers of the Throne praise Allah and pray for forgiveness for the Believers Allah tells us that; الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ ... Those (angels) who bear the Throne (of Allah) and those around it glorify the praises of their Lord, Allah tells us that the angels who are close to Him, the bearers of the Throne, and the angels who are around Him -- all glorify the praises of their Lord. They combine glorification (Tasbih) which implies that He is free of any shortcomings, with praise (Tahmid) which is an affirmation of praise. ... وَيُوْمِنُونَ بِهِ ... and believe in Him, means, they humbly submit themselves before Him. ... وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ امَنُوا ... and ask forgiveness for those who believe, means, for those among the people of earth who believe in the Unseen. Allah commanded that His angels who are close to Him should pray for the believers in their absence, so it is a part of the angels' nature that they say Amin when a believer prays for his brother in his absence. In Sahih Muslim it says: إِذَا دَعَا الْمُسْلِمُ لاَِخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ قَالَ الْمَلَكُ امِينَ وَلَكَ بِمِثْلِه When a Muslim prays for his brother in his absence, the angel says, `Amin, and may you have something similar to it'. Shahr bin Hawshab said, "The bearers of the Throne are eight; four of them say, `Glory and praise be to You, O Allah, to You be praise for Your forbearance after Your knowledge. ' Four of them say, `Glory and praise be to You, O Allah, to You be praise for Your forgiveness after Your power.' When they pray for forgiveness for those who believe, they say: ... رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَعِلْمًا ... Our Lord! You comprehend all things in mercy and knowledge, meaning, `Your mercy encompasses their sins and Your knowledge encompasses all their deeds, words and action.' ... فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ ... so forgive those who repent and follow Your way." That is, `forgive the sinners when they repent to You and turn to You and give up their former ways, following Your commands to do good and abstain from evil.' ... وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ and save them from the torment of the blazing Fire! means, `snatch them away from the punishment of Hell, which is a painful, agonizing punishment.'

اللہ کی بزرگی اور پاکی بیان کرنے پر مامور فرشتے ۔ عرش کو اٹھانے والے فرشتے اور اس کے آس پاس کے تمام بہترین بزرگ فرشتے ایک طرف تو اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں تمام عیوب اور کل کمیوں اور برائیوں سے اسے دور بتاتے ہیں ، دوسری جانب اسے تمام ستائشوں اور تعریفوں کے قابل مان کر اس کی حمد بجا لاتے ہیں ۔ غرض جو اللہ میں نہیں اس کا انکار کرتے ہیں اور جو صفتیں اس میں ہیں انہیں ثابت کرتے ہیں ۔ اس پر ایمان و یقین رکھتے ہیں ۔ اس سے پستی اور عاجزی ظاہر کرتے ہیں اور کل ایمان دار مردوں عورتوں کیلئے استغفار کرتے رہتے ہیں ۔ چونکہ زمین والوں کا ایمان اللہ تعالیٰ پر اسے دیکھے بغیر تھا ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب فرشتے ان گناہوں کی معافی طلب کرنے کیلئے مقرر کردیئے جو ان کے بن دیکھے ہر وقت ان کی تقصیروں کی معافی طلب کیا کرتے ہیں ، صحیح مسلم شریف میں ہے کہ جب مسلمان اپنے مسلمان بھائی کیلئے اس کی غیر حاضری میں دعا کرتا ہے تو فرشتہ اس کی دعا پر آمین کہتا ہے اور اس کیلئے دعا کرتا ہے کہ اللہ تجھے بھی یہی دے جو تو اس مسلمان کیلئے اللہ سے مانگ رہا ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ امیہ بن صلت کے بعض اشعار کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تصدیق کی جیسے یہ شعر ہے زحل و ثور تحت وجل یمینہ والنسر للاخری و لیث مرصد یعنی حاملان عرش چار فرشتے ہیں دو ایک طرف دو دوسری طرف ۔ آپ نے فرمایا سچ ہے پھر اس نے کہا والشمس تطلع کل اخر لیلتہ حمراء یصبح لونھا یتورد تابی فما تطلع لنا فی رسلھا الا معذبتہ والا تجلد یعنی سورج سرخ رنگ طلوع ہوتا ہے پھر گلابی ہو جاتا ہے ، اپنی ہیئت میں کبھی صاف ظاہر نہیں ہوتا بلکہ روکھا پھیکا ہی رہتا ہے ، آپ نے فرمایا سچ ہے ۔ اس کی سند بہت پختہ ہے اور اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت حاملان عرش چار فرشتے ہیں ، ہاں قیامت کے دن عرش کو آٹھ فرشتے اٹھائیں گے ۔ جیسے قرآن مجید میں ہے ( وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ ثَمٰنِيَةٌ 17؀ۭ ) 69- الحاقة:17 ) ہاں اس آیت کے مطلب اور اس حدیث کے استدلال میں ایک سوال رہ جاتا ہے کہ ابو داؤد کی ایک حدیث میں ہے کہ بطحا میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کی ایک جماعت سے ایک ابر کو گزرتے ہوئے دیکھ کر سوال کیا کہ اس کا کیا نام ہے؟ انہوں نے کہا سحاب ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور اسے مزن بھی کہتے ہیں؟ کہا ہاں! فرمایا عنان بھی؟ عرض کیا ہاں! پوچھا جانتے ہو آسمان و زمین میں کس قدر فاصلہ ہے؟ صحابہ نے کہا نہیں ، فرمایا اکہتر یا بہتر یا تہتر سال کا راستہ پھر اس کے اوپر کا آسمان بھی پہلے آسمان سے اتنے ہی فاصلے پر اسی طرح ساتوں آسمان ساتویں آسمان پر ایک سمندر ہے جس کی اتنی ہی گہرائی ہے پھر اس پر آٹھ فرشتے پہاڑی بکروں کی صورت کے ہیں جن کے کھر سے گھٹنے کا فاصلہ بھی اتنا ہی ہے ان کی پشت پر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے جس کی اونچائی بھی اسی قدر ہے ۔ پھر اس کے اوپر اللہ تبارک و تعالیٰ ہے ۔ ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی اسے غریب بتاتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرش اللہ اس وقت آٹھ فرشتوں کے اوپر ہے ۔ حضرت شہر بن حوشب کا فرمان ہے کہ حاملان عرش آٹھ ہیں جن میں سے چار کی تسبیح تو یہ ہے ( سبحانک اللھم وبحمد لک الحمد علی حملک بعد عملک ) یعنی اے باری تعالیٰ تیری پاک ذات ہی کیلئے ہر طرح کی حمد و ثناء ہے کہ تو باوجود علم کے پھر بردباری اور علم کرتا ہے ۔ اور دوسرے چار کی تسبیح یہ ہے ( سبحانک اللھم وبحمدک لک الحمد علی عفوک بعد قدرتک ) یعنی اے اللہ باوجود قدرت کے تو جو معافی اور درگذر کرتا رہتا ہے اس پر ہم تیری پاکیزگی اور تیری تعریف بیان کرتے ہیں ۔ اسی لئے مومنوں کے استغفار میں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ تیری رحمت و علم نے ہر چیز کو اپنی وسعت و کشادگی میں لے لیا ہے ۔ بنی آدم کے تمام گناہ ان کی کل خطاؤں پر تیری رحمت چھائے ہوئے ہے ، اسی طرح تیرا علم بھی ان کے جملہ اقوال و افعال کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے ۔ ان کی کل حرکات و سکنات سے تو بخوبی واقف ہے ۔ پس تو ان کے برے لوگوں کو جب وہ توبہ کریں اور تیری طرف جھکیں اور گناہوں سے باز آ جائیں اور تیرے احکام کی تعمیل کریں نیکیاں کریں بدیاں چھوڑیں بخش دے ، اور انہیں جہنم کے دردناک گھبراہٹ والے عذابوں سے نجات دے ۔ انہیں مع ان کے والدین بیویوں اور بچوں کے جنت میں لے جا تاکہ ان کی آنکھیں ہر طرح ٹھنڈی رہیں ۔ گو ان کے اعمال ان جتنے نہ ہوں تاہم تو ان کے درجات بڑھا کر اونچے درجے میں پہنچا دے ۔ جیسے باری تعالیٰ کا فرمان عالیشان ہے ( وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّــتُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَـقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ ۭ كُلُّ امْرِی بِمَا كَسَبَ رَهِيْنٌ 21؀ ) 52- الطور:21 ) ، یعنی جو لوگ ایمان لائیں اور ان کے ایمان کی اتباع ان کی اولاد بھی کرے ہم ان کی اولاد کو بھی ان سے ملا دیں گے اور ان کا کوئی عمل کم نہ کریں گے ۔ درجے میں سب کو برابری دیں گے ۔ تاکہ دونوں جانب کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں ۔ اور پھر یہ نہ کریں گے کہ درجوں میں بڑھے ہوؤں کو نیچا کردیں نہیں بلکہ نیچے والوں کو صرف اپنی رحمت و احسان کے ساتھ اونچا کردیں گے ۔ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں مومن جنت میں جاکر پوچھے گا کہ میرا باپ میرے بھائی میری اولاد کہاں ہے؟ جواب ملے گا کہ ان کی نیکیاں اتنی نہ تھیں کہ وہ اس درجے میں پہنچتے ، یہ کہے گا کہ میں نے تو اپنے لئے اور ان سب کیلئے عمل کئے تھے چنانچہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی ان کے درجے میں پہنچا دے گا ۔ پھر آپ نے اسی آیت ( رَبَّنَا وَاَدْخِلْهُمْ جَنّٰتِ عَدْنِۨ الَّتِيْ وَعَدْتَّهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَاۗىِٕـهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيّٰــتِهِمْ ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ Ď۝ۙ ) 40-غافر:8 ) کی تلاوت فرمائی ۔ حضرت مطرف بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ ایمانداروں کی خیر خواہی فرشتے بھی کرتے ہیں پھر آپ نے یہی آیت پڑھی ۔ اور شیاطین ان کی بدخواہی کرتے ہیں ۔ تو ایسا غالب ہے جس پر کوئی غالب نہیں اور جسے کوئی روک نہیں سکتا ۔ جو تو چاہتا ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا نہیں ہوسکتا ۔ تو اپنے اقوال و افعال شریعت و تقدیر میں حکمت والا ہے ، تو انہیں برائیوں کے کرنے سے دنیا میں اور ان کے وبال سے دونوں جہان میں محفوظ رکھ ، قیامت کے دن رحمت والا وہی شمار ہوسکتا ہے جسے تو اپنی سزا سے اور اپنے عذاب سے بچالے حقیقتاً بڑی کامیابی پوری مقصد دری اور ظفریابی یہی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 اس میں ملائکہ مقربین کے ایک خاص گروہ کا تذکرہ اور وہ جو کچھ کرتے ہیں اس کی وضاحت ہے یہ گروہ ہے ان فرشتوں کا جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور وہ جو عرش کے ارد گرد ہیں ان کا ایک کام یہ ہے کہ یہ اللہ کی تسبیح وتحمید کرتے ہیں یعنی نقائص سے اس کی تنزیہ کمالات اور خوبیوں کا اس کیلیے اثبات اور اس کے سامنے عجز وتذلل یعنی ایمان کا اظہار کرتے ہیں دوسرا کام ان کا یہ ہے کہ یہ اہل ایمان کیلیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں کہا جاتا ہے کہ عرش کو اٹھانے والے فرشتے چار ہیں مگر قیامت والے دن ان کی تعداد آٹھ ہوگی۔ ابن کثیر

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦] حاملین عرش فرشتوں کی مومنوں کے حق میں دعا :۔ ان دندنانے والے کفار مکہ کے مقابلہ میں دوسری طرف مسلمان تھے جن پر کافروں نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا اور اسی وجہ سے کچھ مسلمان مکہ کو خیر باد کہہ کر حبشہ کی طرف ہجرت کرکے چلے گئے تھے۔ ان کی تسلی اور دلجوئی کی خاطر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم پریشان کیوں ہوتے ہو۔ تمہارے حق میں تو عرش کو اٹھانے والے فرشتے اور ان کے آس پاس رہنے والے سب کے سب دست بددعا رہتے ہیں۔ اور اللہ کی حمد و ثنا جو ان کا وظیفہ اور روحانی خوراک ہے کے ساتھ ہی تمہارے لئے دعائیں کرتے ہیں اور چونکہ فرشتے وہی کچھ کرتے ہیں جو اللہ کی طرف سے انہیں حکم ملتا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے انہیں یہ حکم دیا ہے کہ وہ مومنوں کے حق میں دعا و استغفار کرتے رہا کریں۔ [٧] ان کا اللہ پر ایمان اس لحاظ سے مضبوط ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے قریب رہتے ہیں۔ ان عرشیوں کی سب ہمدردیاں زمین والے مومنوں کے ساتھ ہیں جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایمان کا رشتہ نہ صرف یہ کہ جغرافیائی حدود کا پابند نہیں بلکہ عرشیوں اور فرشیوں سب کو ایک رشتہ میں منسلک کردیتا ہے۔ [٨] یعنی تیرا علم اتنا وسیع ہے کہ تو اپنے بندوں کے سارے حالات ان کے گناہوں اور ان کے دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات تک سے واقف ہے تو تیری رحمت اس سے بڑھ کر وسیع ہے۔ لہذا جو لوگ توبہ کرچکے اور تیری راہ پر گامزن ہوچکے ہیں تو ان کے گناہ معاف کرکے انہیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

الذین یحملون العرش ومن حولہ …پچھلی آیات میں کفار کا انجام بیان فرمایا، جو اللہ کی آیات ٹھکرانے کے لئے فضول جھگڑا اور کج بحثی کرتے ہیں، اب ان کے مقابلے میں ان لوگوں کا حال بیان فرمایا جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس پر ایمان لاتے اور کج بحثی سے اجتناب کرتے ہیں۔ ان کے حق میں وہ بلند مرتبہ فرشتے استغفار اور دعائیں کرتے ہیں جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو عرش کے اردگرد ہیں، وہ سب ” سبحان اللہ وبحمدہ “ اور اس سے ملتے جلتے کلمات کے ساتھ اپنے رب کی حمد اور اس کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں، یعنی اس پاک ذات کی تعریف کرتے ہیں کہ وہ تمام صفات کمال کا مالک ہے اور ہر عیب اور کمی سے پاک ہے اور اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ایمان والوں کے لئے تسلی بھی ہے کہ ہٹ دھرمی اور کج بحثی کرنے والے کفار کے رویے سے بددل نہ ہوں، اگر یہ لوگ تم سے دشمنی رکھتے ہیں تو تم سے دوستی رکھنے والے بھی بہت ہیں اور بڑی اونچی شان والے ہیں۔ پھر ایسے پاک باز اور خیر خواہ دوستوں کی موجودگی میں ، جو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تمہارے لئے دعائیں اور بخشش کی درخواست کرتے ہیں تمہیں کسی دشمن کی کیا پروا ہے ؟ (٢) ویومنون بہ : یہاں ایک سوال ہے کہ یہ بات تو ہر ایک کو معلوم ہے کہ عرش اٹھانے والے اور دور سے تمام فرشتے اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، پھر ان کے اللہ پر ایمان لانے کا ذکر خاص طور پر کیوں فرمایا ؟ زمخشری نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ ایمان کی فضیلت و شرف کو نمایاں کرنے کیلئے اور اس کی ترغیب دینے کے لئے کیا گیا ہے، جیسا کہ سورة بلد میں مشکل گھاٹی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے گردن چھڑانے اور نیکی کے دوسرے اعمال کا ذکر کرنے کے بعد ایمان لانے کا ذکر فرمایا، تاکہ ایمان کی فضیلت ثابت ہو اور واضح ہوجائے کہ کوئی بھی نیکی اسی وقت معتبر ہے جب اس کے ساتھ ایمان ہو۔ (٣) عرش اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات میں سے سب سے بڑی مخلوق ہے، کیونکہ وہ تمام زمینوں اور آسمانوں کے اوپر ہے اور اس کے اوپر اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے، پھر عرش کو اٹھانے والے فرشتوں کی عظمت کا کیا حال ہوگا ؟ جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(اذن لی ان احدث عن ملک من ملائکۃ اللہ تعالیٰ من حملۃ العرش، ان مابین شحمۃ اذنہ الی عاتقہ مسیرۃ سبعمائۃ عام) (ابوداؤد، السنۃ ، باب فی الجھمیۃ :3828، وقال الالبانی صحیح)” مجھے اجازت دی گئی ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے ان فرشتوں میں سے ایک فرشتے کے متعلق بیان کروں جو عرش اٹھائے ہوئے ہیں کہ اس کے کان کی کونپل سے اس کے کندھے تک سات سو سال کا فاصلہ ہے۔ “ اب یہ معلوم نہیں کہ یہ سال دنیا والے ہیں یا وہ سال ہیں جن کا ایک دن ہمارے ایک ہزار سال کے برابر ہے، یا اس سے بھی طویل مدت والے سال مراد ہیں، کیونکہ ہمارے سورج کے دائرے کے باہر وقت کا حساب ہمارے حساب سے نہیں ہوسکتا اور اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ افلاک کی وسعت کا کچھ انداز نہیں، جہاں سورج بھی ایک ذرے کی حیثیت رکھتا ہے۔ غرض یہ ان فرشتوں کی عظمت کا محض ایک اندازہ ہے۔ عرش کو اٹھانے والے اتنے عظیم فرشتے اور عرش کے اردگرد موجود اور اس کا طواف کرنے والے فرشتے جب مومنوں کے حق میں استغفار اور دعائیں کر رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کر رہے ہیں، جیسا کہ تمام فرشتوں کے متعلق فرمایا :(بل عباد مکرمون، لایبقونہ بالقول وھم بامرہ یعملون) (الانبیائ :28, 26) ” بلکہ وہ بندے ہیں جنہیں عزت دی گئی۔ وہ بات کرنے میں اس سے پہل نہیں کرتے اور وہ اس کے حکم کے ساتھ ہی عمل کرتے ہیں۔ “ تو اس سے ایمان والوں پر اللہ تعالیٰ کی بےحد و حساب مہربانی اور رحمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مزید دیکھیے سورة حاقہ (١٧) (٤) اس آیت میں توبہ کرنے والوں کے لئے صرف عرش اٹھانے والے اور اس کے اردگرد موجود فرشتوں کے استغفار اور دعا کا ذکر ہے، دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمام فرشتے ان کے لئے استغفار کرتے ہیں، فرمایا :(تکاد السموت یتفطرن من فوقھن والملٓئکۃ یسبحون بحمد ربھم ویستغفرون لمن فی الارض الا ان اللہ ھو الغفور الرحیم) (الشوری : ٥)” آسمان قریب ہیں کہ اپنے اوپر سے پھٹ پڑیں اور فرشتے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور ان لوگوں کے لئے بخشش کی دعا کرتے ہیں جو زمین میں ہیں، سن لوچ بیشک اللہ ہی بےحد بخشنے والا ناہیت رحم والا ہے۔ “ (٥) ربنا وسعت کل شیء رحمۃ وعلماً : یہاں ” یقولون “ (وہ فرشتے کہتے ہیں) محذوف ہے۔ یعنی تسبیح و تحمید کی طرح ایمان والوں کے لئے دعا کرنا بھی ان کے معمولات میں شامل ہے۔ اس سے ایمان کی فضیلت اور ایمان والوں کے باہمی تعلق اور محبت کا اندازہ ہوتا ہے کہ عرش کے پاس رہنے والے فرشتے زمین پر رہنے والے مومنوں کے حق میں دعائیں کرتے ہیں۔ اسی طرح اس سے دعا کا سلیقہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ” ربنا “ (اے ہمارے رب ! اے ہمارے پالنے والے ! ) کہہ کر پکارتے ہیں، پھر اس سے اس کی رحمت اور اس کے علم کا واسطہ دے کر سوال کرتے ہیں، یعنی تیری رحمت ہر چیز پر وسیع ہے (دیکھیے اعراف : ١٥٦) اور تیرا علم بھی ہر چیز پر وسیع ہے۔ (دیکھیے انعام :80 طلاق : ١٢) (٦) فاغفر للذین تابوا … اس لئے تو اپنی رحمت اور علم کے تقاضے کے مطابقا ن گناہ گ اورں کو بخش دے جو اپنے گناہوں سے توبہ کریں، ان سے باز آجائیں اور تیرے راستے کی پیروی کریں، تو نے جو حکم دیا ہے اس پر عمل کریں اور جس سے منع کیا ہے اسے چھوڑ دیں اور اے اللہ ! انہیں بھڑکتی ہوئی آگ کے عذاب سے بچا لے۔ مزید دیکھیے سورة شوریٰ کی آیت (٥) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 7, it was said: الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْ‌شَ وَمَنْ حَوْلَهُ (Those who are bearing the Throne and those who are around it). The present count of angels who bear the Throne (arsh) is four and, on the day of Qiyamah (the Day of Judgment), they will be eight, and only Allah knows the number of angels around the ` arsh. Some Hadith narrations give the number of their rows that reaches several hundred thousand. They are called: کرّوبِی (karrubi, [ Heb. Kerubh or kerub ], plural: [ Eng. Cherubin, or Cherubim, Heb. Cherubim ]). They are angels close to Allah. In this verse, it has been said that all these angels close to Allah pray for all believers, particularly those who repent from their sins and follow the Shari&ah of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Either Allah Ta’ ala has appointed them to perform this task, or their nature is such that they keep praying for the good servants of Allah. Therefore, Sayyidna Mutarrif Ibn ` Abdullah Ibn Shikhkhir said that out of all servants of Allah, the angels of Allah are the foremost among those who wish well for believers. Firstly, they pray for them. They implore Allah to forgive them, to save them from the punishment of Jahannam and to admit them to the everlasting gardens of Jannah. Along with it, they also pray for: وَمَن صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّ‌يَّاتِهِمْ those as well who did good from among their fathers and wives and children. - 40:8), that is, also admit anyone from among their fathers and forefathers, and their wives, and their children - who meet the criterion of goodness that makes them deserving of forgiveness, a criterion that requires that they should have departed from the mortal world while adhering to their &iman or faith - yes, admit them too with the same believers into the Jannah. This tells us that one&s &iman or faith is the basic condition of salvation (najah). After &iman come other good deeds. The relatives of Muslim believers - fathers, grandfathers or wives and children - even if they are ranked lower than them, such is the munificence of Allah Ta’ ala that He would, in deference to them, also let the relatives of a lesser rank be along with them in Jannah, so that their happiness becomes total and complete as it has been said in another verse of the Qur&an appearing elsewhere:... (We will join their children with them - At-Tur, 52:21). Said Ibn Jubayr has said, &When a believer goes to Jannah, he will ask about his father, son, brother and others, and would want to know where they are. He will be told that their deeds were not like yours (therefore, they will not be there). He will say, &whatever good I did (was not for me alone), in fact, it was for me and them both.& Then, the command will come, &admit them too into the Jannah.& (Ibn Kathir) After having reported this Hadith narration in Tafsir Mazhari, the author said, &this &mawquf (a Hadith mawquf or restricted tradition from a Companion who does not connect it to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) has the same authority and force as &marfu|" (a Hadith marfu` is a tradition attributed to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) and is explicit on the point that &doing good& that is held as a pre-condition for having this privilege means &Iman& or adhering to the true faith.

(آیت) اَلَّذِيْنَ يَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهٗ ۔ حاملان عرش فرشتے اب چار ہیں اور قیامت کے روز آٹھ ہوجائیں گے اور عرش کے گرد کتنے فرشتے ہیں ان کی تعداد اللہ ہی جانتا ہے۔ بعض روایات میں ان کی صفوں کی تعداد بتلائی ہے جو لاکھوں تک پہنچتی ہے، ان کو کروبی کہا جاتا ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے ہیں۔ اس آیت میں بتلایا گیا ہے کہ یہ سب مقرب فرشتے مومنین کے لئے خصوصاً جو گناہوں سے تائب اور شریعت کے متبع ہوجائیں ان کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ یا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کام پر مامور فرمایا ہے یا ان کی فطرت و طبیعت ہی ایسی ہے کہ وہ اللہ کے نیک بندوں کے لئے دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ اسی لئے حضرت مطرف بن عبداللہ ابن شخیر نے فرمایا کہ اللہ کے بندوں میں مومنین کے خیر خواہ سب سے زیادہ اللہ کے فرشتے ہیں۔ ان کی دعا مومنین کے لئے ایک تو یہ ہوتی ہے کہ ان کی مغفرت فرما اور عذاب جہنم سے بچا۔ اور ہمیشہ رہنے والی جنتوں میں داخل فرما۔ اس کے ساتھ یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ (آیت) ومن صلح من ابائھم وازواجھم وذریتھم یعنی ان کے باپ دادوں اور ان کی بیویوں اور ان کی اولادوں میں سے جن میں صلاحیت مغفرت کی ہو یعنی جن کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہے ان کو بھی انہیں لوگوں کے ساتھ جنت میں داخل فرما۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان تو شرط نجات ہے ایمان کے بعد دوسرے اعمال صالحہ ہیں۔ مسلمان کے متعلقین باپ دادے یا بیوی اور اولاد اگر اس کے درجہ سے نیچے بھی ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کے اکرام میں کم درجہ کے متعلقین کو بھی جنت میں انہیں کے ساتھ کردیں گے تاکہ ان کی خوشی ومسرت مکمل ہوجائے۔ جیسا کہ قرآن کریم کی دوسری آیت میں ارشاد ہے کہ (آیت) الحقنا بھم ذریتھم۔ حضرت سعید بن جبیر نے فرمایا کہ مومن جب جنت میں جائے گا تو اپنے باپ، بیٹے، بھائی وغیرہ کو پوچھے گا کہ وہ کہاں ہیں اس کو بتلایا جائے گا کہ انہوں نے تمہارے جیسا عمل نہیں کیا (اس لئے وہ یہاں نہیں پہنچ سکیں گے) یہ کہے گا کہ میں نے جو عمل کیا تھا (وہ صرف اپنے لئے نہیں) بلکہ اپنے اور ان کے لئے کیا تھا تو حکم ہوگا ان کو بھی جنت میں داخل کردو۔ (ابن کثیر) تفسیر مظہری میں اس روایت کو نقل کر کے فرمایا کہ یہ موقوف بحکم مرفوع ہے اور اس بارے میں صریح ہے کہ صلاحیت جو اس آیت میں شرط قرار دی گئی ہے اس سے مراد نفس ایمان ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَّذِيْنَ يَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَيُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۝ ٠ ۚ رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِيْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِيْلَكَ وَقِہِمْ عَذَابَ الْجَــحِيْمِ۝ ٧ حمل الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل . وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی: وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] ، ( ح م ل ) الحمل ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔ عرش العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة/ 259] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف/ 100] ( ع رش ) العرش اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة/ 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت لبئر ہے جس کے معنی کو یں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف/ 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔ حول أصل الحَوْل تغيّر الشیء وانفصاله عن غيره، وباعتبار التّغيّر قيل : حَالَ الشیء يَحُولُ حُؤُولًا، واستحال : تهيّأ لأن يحول، وباعتبار الانفصال قيل : حَالَ بيني وبینک کذا، وقوله تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال/ 24] ( ح ول ) & الحوال ( ن ) دراصل اس کے معنی کسی چیز کے متغیر ہونے اور دوسری چیزوں سے الگ ہونا کے ہیں ۔ معنی تغییر کے اعتبار سے حال الشئی یحول حوولا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کی شے کے متغیر ہونیکے ہیں ۔ اور استحال کے معنی تغیر پذیر ہونے کے لئے مستعد ہونے کے اور معنی انفصال کے اعتبار سے حال بینی وبینک کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان فلاں چیز حائل ہوگئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال/ 24] اور جان رکھو کہ خدا آدمی اسکے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔ سبح السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] ، ( س ب ح ) السبح اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے حمد الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود : إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ . ( ح م د ) الحمدللہ ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ استغفار الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ وسع السَّعَةُ تقال في الأمكنة، وفي الحال، وفي الفعل کالقدرة والجود ونحو ذلك . ففي المکان نحو قوله : إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت/ 56] ، أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً [ النساء/ 97] ، وَأَرْضُ اللَّهِ واسِعَةٌ [ الزمر/ 10] وفي الحال قوله تعالی: لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ [ الطلاق/ 7] وقوله : وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] والوُسْعُ من القدرة : ما يفضل عن قدر المکلّف . قال تعالی: لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة/ 286] تنبيها أنه يكلّف عبده دوین ما ينوء به قدرته، وقیل : معناه يكلّفه ما يثمر له السَّعَة . أي : جنّة عرضها السّموات والأرض کما قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] وقوله : وَسِعَ رَبُّنا كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأعراف/ 89] فوصف له نحو : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] وقوله : وَاللَّهُ واسِعٌ عَلِيمٌ [ البقرة/ 268] ، وَكانَ اللَّهُ واسِعاً حَكِيماً [ النساء/ 130] فعبارة عن سَعَةِ قدرته وعلمه ورحمته وإفضاله کقوله : وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأنعام/ 80] وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ [ الأعراف/ 156] ، وقوله : وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ [ الذاریات/ 47] فإشارة إلى نحو قوله : الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] ووَسِعَ الشّيءُ : اتَّسَعَ. والوُسْعُ : الجدةُ والطّاقةُ ، ويقال : ينفق علی قدر وُسْعِهِ. وأَوْسَعَ فلانٌ: إذا کان له الغنی، وصار ذا سَعَةٍ ، وفرس وَسَاعُ الخطوِ : شدید العدو . ( و س ع ) اسعۃ کے معنی کشادگی کے ہیں اور یہ امکنہ حالت اور فعل جیسے قدرت جو وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ وسعت مکانی کے متعلق فرمایا : ۔ إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت/ 56] میری زمین فراح ہے ۔ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً [ النساء/ 97] کیا خدا کا ملک فراخ نہیں تھا ۔ اور وسعت حالت کے متعلق فرمایا : ۔ لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ [ الطلاق/ 7] صاحب وسعت کو اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہئے وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236]( یعنی مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق ۔۔۔۔۔ الواسع اس طاقت کو کہتے ہیں جو اس کام سے وزازیادہ ہو جو اس کے ذمہ لگایا گیا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة/ 286] خدا کسی شخص کو اس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ میں تنبیہ فر مائی ہے کہ خدا بندے کے ذمہ اتنا ہی کام لگاتا ہے جو اس کی طاقت سے ذرا کم ہوتا ہے ۔ اور بعض نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جن احکام کا انسان کو مکلف بناتا ہے ان کا ثمرہ وسعت یعنی وہ جنت ہے جس کی پہنائی ارض وسما ہے جیسا کہ اس کی تائید میں دوسری جگہ فرمایا : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارا حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ اور آیت : ۔ وَسِعَ رَبُّنا كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأعراف/ 89] اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کے احاطہ علمی کا بیان ہے جیسے دوسری جگہ اس مفہوم کو : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] خدا اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے سے تعبیر فرمایا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ واسِعٌ عَلِيمٌ [ البقرة/ 268] اور خدا کشائش والا اور علم والا ہے ۔ اور نیز آیت کریمہ : ۔ وَكانَ اللَّهُ واسِعاً حَكِيماً [ النساء/ 130] اور خدا بڑی کشائش اور حکمت والا ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کا بلحاظ علم وقدرت ورحمت وفضل کے وسیع ہونا مراد ہے جیس ا کہ آیت : ۔ وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأنعام/ 80] میرا پروردگار اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ [ الأعراف/ 156] اور جو میری رحمت ہے وہ ہر چیز کو شامل ہے ۔ سے معلوم ہوتا ہے اور آیت : ۔ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ [ الذاریات/ 47] اور ہم کو سب مقددر ہے میں اللہ تعالیٰ کی اس وسعت کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ آیت : ۔ الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی شکل اصورت بخشی اور پھر راہ دکھائی ۔ میں بیان کیا جاتا ہے یعنی وہدایت کے فیضان سے وہ ہر چیز کو اپنے اندر سمائے ہوئے ہے ) وسع الشئی اتسع کے معنی کسی چیز کے فراخ ہونا کے ہیں اور لواسع کے معنی تو نگر ی اور طاقت کے بھی آتے ہیں چناچہ محاورہ مشہور ہے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرتا ہے ۔ اوسع فلان وہ غنی اور صاحب اسعت ہوگیا فرس وساع الخطو وہ گھوڑا کو لمبی لمبی ڈگ بھرتا ہو نہایت تیزی سے دوڑے ۔ شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ توب التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار، فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول : فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع : ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة/ 54] ( ت و ب ) التوب ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر شرعا توبہ جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور/ 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا جحم الجُحْمَة : شدة تأجج النار، ومنه : الجحیم، وجَحَمَ وجهه من شدة الغضب، استعارة من جحمة النار، وذلک من ثوران حرارة القلب، وجَحْمَتَا الأسد : عيناه لتوقدهما . ( ج ح م ) الجحمۃ آگ بھڑکنے کی شدت اسی سے الجحیم ( فعیل ہے جس کے معنی ( دوزخ یا دہکتی ہوئی آگ کے ہیں ۔ اور جحمۃ النار سے بطور استعارہ جحم استعار ہوتا ہے جس کے معنی غصہ سے چہرہ جل بھن جانے کے ہیں کیونکہ غصہ کے وقت بھی حرارت قلب بھڑک اٹھتی ہے کہا جاتا ہے : ۔ جحم ( ف ) الا سد بعینیۃ شیر نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا کیونکہ شیر کی آنکھیں بھی آگ کی طرح روشن ہوتی ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جو فرشتے عرش الہی کو اٹھائے ہوئے ہیں۔ اور ان فرشتوں کی دس جماعتیں ہیں اور جو فرشتے اس کے اردگرد ہیں وہ اپنے پروردگار کے حکم سے اس کی تسبیح و تمہید کرتے رہتے ہیں اور وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اہل ایمان کے لیے اس طرح دعا و استغفار کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب آپ کے انعامات ہر ایک چیز کیا احاطہ کیے ہوئے ہیں اور آپ ہر ایک چیز کو جانتے ہیں سو ان لوگوں کو بخش دیجیے جنہوں نے شرک سے توبہ کرلی اور دین اسلام پر چلتے ہیں اور ان سے جہنم کے عذاب کو دور کردیجیے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧ { اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ } ” وہ (فرشتے) جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور وہ جو ان کے ارد گرد ہیں “ اس آیت کو پڑھتے ہوئے سورة الزمر کی آخری آیت کو ذہن میں رکھیے جس میں میدانِ حشر میں عدالت ِالٰہی کا اختتامی منظر دکھایا گیا تھا : { وَتَرَی الْمَلٰٓئِکَۃَ حَآفِّیْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْج } ” اور تم دیکھو گے فرشتوں کو کہ وہ گھیرے ہوئے ہوں گے عرش کو اور اپنے ربّ کی تسبیح بیان کر رہے ہوں گے حمد کے ساتھ “۔ چناچہ یہاں ان حاملین عرش اور ان کے ساتھی ملائکہ کا ذکر دوبارہ ہو رہا ہے کہ : { یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہٖ } ” وہ سب تسبیح کر رہے ہوتے ہیں اپنے رب کی حمد کے ساتھ اور اس پر پورا یقین رکھتے ہیں “ { وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا } ” اور اہل ایمان کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ “ { رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا } ” اے ہمارے پروردگار ! تیری رحمت اور تیرا علم ہرچیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے “ { فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ } ” پس بخش دے ُ تو ان لوگوں کو جنہوں نے توبہ کی اور تیرے راستے کی پیروی کی “ اے پروردگار ! ہم تجھ سے کیا عرض کریں ؟ تجھے ہر شے کا علم ہے ‘ تیری رحمت پہلے ہی ہرچیز کو اپنی گود میں لیے ہوئے ہے۔ پھر بھی ہم تجھ سے تیری رحمت کی درخواست کرتے ہیں اور اہل زمین میں سے جو مومنین اور نیک لوگ ہیں ان کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ اے پروردگار ! تو ان کی خطائیں بخش دے اور ان کے گناہوں سے درگزر فرما ! اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کے دن مومنین کے حق میں فرشتے بھی شفاعت کریں گے۔ یہ شفاعت ِحقہ ّہے۔ { وَقِہِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ } ” اور ان کو جہنم کے عذاب سے بچا لے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

6 This thing has been said for the consolation of the Holy Prophet's Companions, who were feeling greatly discouraged at the impudence and rebellious attitude of the disbelievers of Makkah as against their own helplessness, as if to say: Why do you feel grieved at what these mean and worthless people say? You have the support of the angels who bear the Divine Throne and of those who stand around it; they are interceding with Allah for you." The mention of the angels who bear the Divine Throne and of those who stand around it, has been made, instead of the common angels, to impress the fact that not to speak of the common angels of Divine Kingdom, even the angels who are the pillars of this Kingdom, being nearest in rank and station to Allah, bear deep sympathy and regard for you. Then the words: °They affirm faith in Him and ask forgiveness for the believers", show that the relationship of the faith is the real relationship, which has joined the heavenly creatures and the earthly creatures together, and which has induced sympathy and esteem in the angels stationed around the Throne for the mortal humans inhabiting the earth, who affirm faith in Allah just like them. The angels' affirming the faith in Allah does not mean that they could disbelieve, and they adopted belief instead of disbelief, but it means that they believe in the sovereignty of AIlah, the One, alone there is no other being that may be commanding them and they submit before it in utter obedience. When the same attitude and behaviour was adopted by the human believers, a strong relationship of cherishing a common creed and faith was established between them and the angels in spite of the great disparity in species and remoteness in rank and station. 7 That is, `The weakness, lapses and errors of Your servants are not hidden from You: You indeed know everything, but like Your knowledge Your Mercy also is infinite; therefore, forgive the poor creatures in spite of knowing their errors." Another meaning can be: "Forgive by Your Mercy all those about whom by Knowledge You know that they have repented sincerely and have, in reality, adopted Your Way." 8 To forgive and to save from the torment of Hell are although Irrelatives, and there seems to be no need to mention the other when one has been mentioned, this style, in fact, reflects the deep interest the angels have in the believers. It is customary that when a person who is deeply involved in a matter. finds an opportunity to make submissions before a judge, he presents the same petition humbly over and over again, in different ways, and does not rest content with making the petition just once. 9 "Who ... way": 'Who have given up disobedience and rebellion, adopted obedience and followed the way which You Yourself have shown."

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :6 یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی تسلی کے لیے ارشاد ہوئی ہے ۔ وہ اس وقت کفار مکہ کی زبان درازیاں اور چیرہ دستیاں ، اور ان کے مقابلہ میں اپنی بے بسی دیکھ دیکھ کر سخت دل شکستہ ہو رہے تھے ۔ اس پر فرمایا گیا کہ ان گھٹیا اور رذیل لوگوں کی باتوں پر تم رنجیدہ کیوں ہوتے ہو ، تمہارا مرتبہ تو وہ ہے کہ عرش الہیٰ کے حامل فرشتے ، اور عرش کے گرد و پیش حاضر رہنے والے ملائکہ تک تمہارے حامی ہیں اور تمہارے حق میں اللہ تعالیٰ کے حضور سفارشیں کر رہے ہیں ۔ عام فرشتوں کے بجائے عرش الٰہی کے حامل اور اس کے گردو پیش رہنے والے فرشتوں کا ذکر یہ تصور دلانے کے لیے کیا گیا ہے کہ سلطنت خداوندی کے عام اہل کار تو درکنار وہ ملائکہ مقربین بھی جو اس سلطنت کے ستون ہیں اور جنہیں فرمانروائے کائنات کے ہاں قرب کا مقام حاصل ہے ، تمہارے ساتھ گہری دلچسپی و ہمدردی رکھتے ہیں ۔ پھر یہ جو فرمایا گیا کہ یہ ملائکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں ، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایمان کا رشتہ ہی وہ اصل رشتہ ہے جس نے عرشیوں اور فرشیوں کو ملا کر ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے اور اسی تعلق کی وجہ سے عرش کے قریب رہنے والے فرشتوں کو زمین پر بسنے والے ان خاکی انسانوں سے دلچسپی پیدا ہوئی ہے جو انہی کی طرح اللہ پر ایمان رکھتے ہیں ۔ فرشتوں کے اللہ پر ایمان رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کفر کر سکتے تھے ، مگر انہوں نے اسے چھوڑ کر ایمان اختیار کیا ، بلکہ اس کا مطلب یہ کہ وہ اللہ وحدہ لاشریک ہی کا اقتدار مانتے ہیں ، کوئی دوسری ہستی ایسی نہیں ہے جو انہیں حکم دینے والی ہو اور وہ اس کے آگے سر اطاعت جھکاتے ہوں ۔ یہی مسلک جب ایمان لانے والے انسانوں نے بھی اختیار کر لیا تو اتنے بڑے اختلاف جنس اور بُعدِ مقام کے باوجود ان کے اور فرشتوں کے درمیان ہم مشربی کا مضبوط تعلق قائم ہو گیا ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :7 یعنی اپنے بندوں کی کمزوریاں اور لغزشیں اور خطائیں تجھ سے چھپی ہوئی نہیں ہیں ، بے شک تو سب کچھ جانتا ہے مگر تیرے علم کی طرح تیرا دامن رحمت بھی تو وسیع ہے ، اس لیے ان کی خطاؤں کو جاننے کے باوجود ان غریبوں کو بخش دے ۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بربنائے رحمت ان سب لوگوں کو بخش دے جن کو بربنائے علم تو جانتا ہے کہ انہوں نے سچے دل سے توبہ کی ہے فی الواقع تیرا راستہ اختیار کر لیا ہے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :8 معاف کرنا اور عذاب دوزخ سے بچا لینا اگرچہ صریحاً لازم و ملزوم ہیں اور ایک بات کا ذکر کر دینے کے بعد دوسری بات کہنے کی بظاہر کوئی حاجت نہیں رہتی ۔ لیکن اس طرز بیان سے دراصل اہل ایمان کے ساتھ فرشتوں کی گہری دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے ۔ قاعدے کی بات ہے کہ کسی معاملے میں جس شخص کے دل کو لگی ہوئی ہوتی ہے وہ جب حاکم سے گزارش کرنے کا موقع پا لیتا ہے تو پھر وہ اِلحاح کے ساتھ ایک ہی درخواست کو بار بار طرح طرح سے پیش کرتا ہے اور ایک بات بس ایک دفعہ عرض کر کے اسکی تسلی نہیں ہوتی ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :9 یعنی نافرمانی چھوڑ دی ہے ، سرکشی سے باز آ گئے ہیں اور فرمانبرداری اختیار کر کے زندگی کے اس راستے پر چلنے لگے ہیں جو تو نے خود بتایا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:7) یحملون مضارع جمع مذکر غائب، وہ اٹھاتے ہیں۔ وہ اٹھائے ہوں گے۔ حمل (باب ضرب) مصدر سے۔ سیتغفرون۔ مضارع جمع مذکر غائب استغفار (استفعال) مصدر۔ وہ مغفرت طلب کرتے ہیں۔ وہ معافی مانگتے ہیں۔ وسعت۔ ماضی واحد مذکر حاضر۔ سعۃ مصدر۔ یہ وسعت مکانی۔ وسعت حالت اور وسعت فعل کے لئے آتا ہے۔ مثلاً وسعت مکان کے متعلق کہیں گے ھذا الاناء یسع عشرین کیلا۔ اس برتن میں بیس کیل سماتے ہیں۔ اور وسعت حالت کے متعلق : لینفق ذع سعۃ من سعتہ (56:7) صاحب وسعت کو اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہیے۔ اور وسعت فعل (یعنی قدرت وجود و رحمت و علم و فضل وغیرہ کے لحاظ سے وسیع ہونا) مثلا وسع ربی کل شیء علما (6:81) میرا پروردگار بلحاظ علم ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔ یا اور جگہ فرمایا ورحمتی وسعت کل شیء (7:156) اور جو میری رحمت ہے وہ ہر چیز کو شامل ہے۔ آیت ہذا میں وسعت کل شہی رحمۃ وعلما۔ تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز کو شامل ہے۔ رحمۃ وعلام بوجہ تمیز منصوب ہیں۔ فاغفر۔ فعل امر، واحد مذکر حاضر۔ غفر (باب ضرب) سے تو معاف کر، تو بخش دے۔ اصل میں غفر ایسے لباس کو کہتے ہیں جو ہر قسم کی گندگی اور میل سے محفوظ رکھ سکے۔ مغفرت الٰہی کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کو عذاب سے محفوظ رکھے۔ اسی اعتبار سے غفر کا استعمال معاف کرنے اور بخش دینے کے معنی میں ہوتا ہے۔ الفاء سببیہ ہے۔ اس کی رحمت سب مغفرت ہے اعمال موجب مغفرت نہیں ہیں ۔ سبیلک۔ مضاف مضاف الیہ، تیری راہ۔ تیرا راستہ۔ مراد تیرا دین۔ قہم۔ ق ہم۔ ق امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر ہے۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ وقایہ اور وقاء مصدر (باب ضرب) وقی مادہ۔ ق فعل امر حاضر معروف تقی فعل مضارع معروف سے بنایا گیا ہے علامت مضارع کو شروع سے اور ی حرف علت کو آخر سے گرا دیا ق رہ گیا۔ قہم تو ان کو بچا۔ تو ان کو محفوظ رکھ۔ ربنا۔ اے ہمارے پروردگار۔ تکریر النداء لزیادۃ الاستعطاف۔ ندائیہ کلمہ زیادتی طلب رحمت کے دوبارہ لایا گیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی ” سبحان اللہ وبحمدہ “ کہتے رہتے ہیں۔5 اس آیت سے مقصود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کی حوصلہ افزائی ہے اور ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کے مقرب فرشتوں کی غائبانہ دعائے مغفرت مومنوں کے شامل حال رہی ہے۔ اسی طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ ” جب کوئی مسلمان اپنے بھائی مسلمان کے لئے اسکی عدم موجودگی میں دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے۔ (امین ولک مثلہ) آمین اور ایسا ہی تیرے لئے ہو۔ ( ابن کثیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 7 تا 9 :۔ یحملون (وہ اٹھاتے ہیں) وسعت (تو نے وسیع کیا ، تو نے پھلا دیا) ادخل (داخل کر دے) صلح (اس نے اصلاح کرلی ، درست کرلیا) الفوز (کامیابی) تشریح : آیت نمبر 7 تا 9 :۔ جو لوگ حق و صداقت کا راستہ اختیار کر کے اس پر چلتے ہیں اور دوسروں کو بھی یہی روشنی دکھانے کی جدوجہد کرتے ہیں تو دنیا اور اس کے مفادات سے چمٹے ہوئے باطل پرست شدید مخالفت کر کے ان کو معاشرہ میں حقیر بنانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا نظام یہ ہے کہ وہ حق و صداقت کے راستے پر چلنے والوں کو سر بلند فرماتا ہے۔ کائنات کی ساری قوتیں اور فرشتے ان کے لئے خیر خواہی کے جذبے سے دعائے رحمت و مغفرت کرتے رہتے ہیں ۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان نبوت فرمایا تو کچھ لوگوں نے حق و صداقت کی آوازپر لبیک کہا اور وہ ابدی سعادت سے ہم کنار ہو کر صحابی رسول کہلائے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (علیہ السلام) کو کفار و مشرکین نے حق و صداقت کے راستے سے ہٹانے کے لئے مصائب اور ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیئے۔ ایک طویل عرصے تک کفار کے ظلم و ستم سے صحابہ کرام دل شکستہ تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ اس سچائی پر ڈٹے رہیں اور حالات سے نہ گھبرائیں کیونکہ اللہ کے فرشتے اور خاص طور پر عرش الٰہی کو اٹھانے والے مقرب فرشتے بھی دن رات ان کے لئے دعائے رحمت و مغفرت کررہے ہیں جو اس بات کی علامت ہے کہ آخر کار اہل ایمان ہی کامیاب و با مراد ہو کر رہیں گے۔ عرش الٰہی کو اٹھانے والے چار فرشتے اور عرش کے ارد گرد جمع ہونے والے فرشتے جن کی تعداد کا علم اللہ ہی کو ہے وہ ہر وقت دل اور زبان سے اہل ایمان کے لئے دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ احادیث و روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عرش کو اٹھانے والے چار فرشتے ہیں جن کی تعداد تا قیامت میں آٹھ ہوجائے گی وہ ہر وقت اللہ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں ۔ عرش الٰہی کا طواف کرتے ہوئے ’ ’ لا الہ الا اللہ “ کا ورد کرتے رہتے ہیں ان میں سے دو کی تسبیح یہ ہوتی ہے ” سبحانک اللھم وبحمدک لک الحمد علی حلمک بعد علمک “ دوسرے دو فرشتوں کی تسبیح یہ ہوتی ہے ” سبحانک اللھم وبحمدک علی عفوک بعد قدرتک “۔ اس حمد وثناء کے ساتھ وہ یہ دعا کرتے رہتے ہیں (1) الٰہی ! جن لوگوں نے دنیا میں آپ پر ایمان لا کر آپ کے احکامات کی پابندی کی ہے ، آپ ہی کی طرف جھک کر انہوں نے کفر و شرک سے توبہ کرلی ہے ان سے اگر کچھ غلطیاں یا لعزشیں ہوجائیں تو ان کو معاف کر دیجئے گا ۔ آپ کائنات کے ذرے ذرے کی کیفیت سے اچھی طرح واقف ہیں ۔ کوئی چیز آپ کے علم اور رحمت سے باہر نہیں ہے آپ کی رحمت ہر چیز پر غالب ہے ، چھائی ہوئی ہے۔ کوئی آپ کے رحم و کرم سے محروم نہیں ہے ، آپ ان سب اہل ایمان کو جہنم کی آگ سے بچا لیجئے گا ( 2) الٰہی ! ان اہل ایمان کو ہمیشگی کی جنت اور ہرے بھرے باغوں میں داخل فرمایئے گا جس کا آپ نے ان سے وعدہ کیا ہے۔ اور ان کے وہ ماں باپ ، بیویاں اور اولاد جن میں جنت میں داخل ہونے کی صلاحیت ہے ان کو بھی ان کے ساتھ جنت میں داخل فرما لیجئے گا۔ بیشک آپ ہی قادر مطلق ہیں اور ہر بات کی حکمت سے واقف ہیں۔ (3) وہ یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ الٰہی ! ان اہل ایمان کو آخرت کی ہر طرح کی تکلیفوں اور رسوائیوں سے بچا لیجئے گا ۔ اگر اس ہولناک دن میں آپ نے ان کو تکلیفوں اور مصیبتوں سے بچا لیا تو بیشک آپ کو ان پر بےانتہاء مہربانی ہوگی اور وہ ایک بہت بڑی کامیابی سے ہم کنار ہوجائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ پس اہل ایمان پر بدرجہ اولی رحمت ہوگی۔ 7۔ جو کہ مقتضی ہے مغفرت کا کیونکہ سبب عذاب کا ذنوب ہیں، ان کے ارتفاع سے وہ بھی مرتفع ہوجاوے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ کے حکم سے ملائکہ کفار اور مشرکین کو سزا دیتے ہیں اور مومنوں کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ پہلی اقوام کا اپنے رسولوں کے ساتھ سلوک اور حق کے معاملہ میں ان کا رویہ بتلا کر رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آگاہ کیا جارہا ہے کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مومنوں کو بتلائیں کہ انہیں دل چھوٹا کرنے اور ہمت نہیں ہارنا چاہیے۔ بیشک کفار اور مشرکین ان کی جان کے درپے اور حق کو دبانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ لیکن انہیں خوش ہونا چاہیے کہ ان کی دنیا اور آخرت میں کامیابی کے لیے ملائکہ صبح و شام دعائیں کرتے ہیں جو اپنے رب کا عرش تھامے ہوئے اور اپنے رب کی حمد میں رطب اللسان رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب تو نے ہر چیز کو اپنی رحمت اور علم سے گھیر رکھا ہے تو ان لوگوں کو معاف کردے جو تیرے حضور توبہ کرتے اور تیرے راستے کی پیروی کرتے ہیں انہیں جہنم کے عذاب سے بچائے رکھنا۔ اے ہمارے رب ! انہیں اپنے وعدے کے مطابق ہمیشہ کی جنت میں داخل فرما اور ان کے ساتھ ان کے نیک ماں باپ، ان کی بیویوں اور ان کی اولاد کو جنت میں داخل فرما۔ کیونکہ تو ہی غالب حکمت والا ہے اور تو ہی ان کے گناہوں کو معاف کرنے والا اور آخرت میں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرمانے والا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جسے تو نے قیامت کے عذاب سے بچا لیا اس پر تیرا بڑا کرم ہوا اور یہ سب سے بڑی کامیابی ہے۔ ملائکہ کی دعاؤں اور مومنوں کی نیکیوں کے بدلے اللہ تعالیٰ جنتیوں پر کرم فرماتے ہوئے ان کے قریبی رشتہ داروں کو اکٹھا فرمائے گا۔ اہل علم نے لکھا ہے کہ جنت کے نچلے درجے میں رہنے والوں کو جنت کے اعلیٰ مقام میں رہنے والوں کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ اپنے خصوصی کرم کے ساتھ جنت میں بھی لوگوں کو ترقیوں سے ہمکنار فرمائیں گے۔ یہاں ملائکہ کی دعا میں ” السَّیِّئاٰتِ “ کا لفظ آیا ہے اس کے مفسرین نے تین معنٰی کیے ہیں۔ 1 گناہ 2 ہر قسم کا نقصان 3 عذاب۔ مسائل ١۔ عرش معلی کے فرشتے اپنے رب کی حمد بیان کرنے کے ساتھ مومنوں کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ ٢۔ عرش معلی کے ملائکہ مومنوں کے لیے جہنم کے عذاب سے نجات اور جنت میں داخلے کی دعائیں کرتے ہیں۔ ٣۔ جہنم سے نجات پا کر جنت میں داخل ہونا بہت بڑی کامیابی ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 7 تا 9 ہم نہیں جانتے کہ عرش کی حقیقت کیا ہے ، نہ اس کی صورت متعین کرسکتے ہیں اور ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ اس کے اٹھانے والے اسے کس طرح اٹھاتے ہیں۔ یہ بھی نہیں جانتے کہ اس کا ماحول کیسا ہے اور اس کے اردگرد فرشتے کیسے ہیں ، لہٰذا ہمیں ان چیزوں کی ہئیت اور ماہیت معلوم کرنے کی فضول جدوجہد نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ اشیاء انسانی ادراک کے دائرہ سے ماوراء ہیں۔ نہ ہمیں ان غیبی امور کے پیچھے پڑتا چاہئے ، جن کے بارے میں مباحثے کرنے والوں کو کوئی علم نہیں دیا گیا۔ جو بات آیات سے سمجھ میں آتی ہے ، وہ صرف یہ ہے کہ اللہ کے بعض مقرب بندے ، رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں ، اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور قرآن کریم ان کے ایمان کی تصریح اس لیے کررہا ہے کہ ان کا ربط مومن انسانوں کے ساتھ واضح ہوجائے اور اللہ کے یہ مقرب بندے ان مومن انسانوں کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں جو یہاں اس دنیا میں معرکہ خیر وشر میں کودے ہوئے ہیں ۔ یہ بندے جس انداز سے دعا کرتے ہیں اس میں ہمارے لیے تعلیم ہے کہ ہر انسان کو چاہئے کہ وہ اللہ کو یوں مخاطب کرے ۔ وہ کہتے ہیں ربنا وسعت کل شئ رحمة وعلما (40: 7) ” اے ہمارے رب ، تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایا ہوا ہے “۔ وہ اللہ کے سامنے طلب رحمت کے لیے یوں درخواست کرتے کہ (اے اللہ) ہم انسانوں کے لیے وہ رحمت طلب کرتے ہیں جو دراصل ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے اور اللہ کے علم کو ذریعہ بناتے ہیں جو ہر چیز کو شامل ہے۔ وہ اللہ کے سامنے کوئی نئی چیز پیش نہیں کرتے جو اللہ کے پیش نظرنہ ہو۔ اللہ کی رحمت اور علم جو ہر چیز کو محیط ہیں انہی کے واسطہ سے وہ التجا کرتے ہیں۔ فاغفر۔۔۔۔ الجحیم (40: 7) ” پس معاف کردے اور عذاب دوزخ سے بچا لے ، ان لوگوں کو جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کرلیا ہے “۔ اس دعا میں ایک اشارہ مغفرت اور توبہ کا ہے جو آغاز سورت میں غافر الذنب اور قابل التوب کے ساتھ موافق ہے اور دوسرا اشارہ عذاب جہنم سے بچانے کی طرف ہے جو آغاز سورت میں شدید العقاب کے ساتھ موافق ہے۔ اس کے بعد یہ بندے دعا میں ذرا آگے بڑھتے ہیں ، اب وہ مغفرت اور عذاب جہنم سے بچانے سے بھی آگے جنت عطا کرنے کا سوال کرتے ہیں اور ان وعدوں کے پورے کیے جانے کا سوال کرتے ہیں جو اللہ نے اپنے نیک بندوں سے کر رکھے ہیں۔ ربنا۔۔۔۔ العزیز الحکیم (40: 8) ” اے ہمارے رب ، اور داخل کر ان کو ہمیشہ رہنے والی اب جنتوں میں جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے ، اور ان کے والدین اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں (ان کو بھی وہاں ان کے ساتھ ہی پہنچادے) ۔ تو بلاشبہ قادر مطلق اور حکیم ہے “۔ جنت میں داخلہ ، بیشک بڑی نعمت اور بہت بڑی کامیابی ہے ، اور اس پر مزید کہ آباء ، ازواج اور اولاد بھی ساتھ ہوں۔ یہ مزید نعمت ہے۔ اس سے اس بات کا مظاہرہ ہوتا ہے کہ مومنین جنت میں بھی اکٹھے خاندانی نظام کی شکل میں ہوں گے۔ یہ ایمان ہے جو اباء ، ازواج اور اولا کے درمیان اکٹھ پیدا کرتا ہے ، اگر ایمان نہ ہوتا تو یہ رشتے کٹ جاتے۔ اور اس فقرے پر جو آخری نتیجہ مرتب ہوتا ہے۔ انت العزیز الحکیم (40: 8) ” تو قادر مطلق اور حکیم ہے “۔ اس میں ایک طرف قوت ہے اور دوسری طرف حکمت۔ بندوں کے معاملے میں کوئی فیصلہ قوت اور حکمت کے سوا نہیں ہوسکتا۔ وقھم السیاٰت ۔۔۔۔ العظیم (40: 9) ” اور بچا دے ان کو برائیوں سے جس کو تو نے قیامت کے دن برائیوں سے بچا دیا اس پر تو نے بڑا رحم کیا ، یہی بڑی کامیابی ہے “۔ جنت میں داخل ہونے کی دعا کے بعد یہ دعا کہ ان کو برائیوں سے بچا ، یہ توجہ دلاتی ہے کہ ذرا غور کرو کہ یہ سیئات اور برائیاں ہی ہیں جو ان کا ارتکاب کرنے والوں کو برباد کرتی ہیں۔ اور یہ بربادی آخرت میں ظاہر ہوتی ہے ۔ یہی جہنم رسید کرتی ہیں۔ جب اللہ نے مومنین کو برائیوں سے بچالیا تو وہ جہنم سے ہی بچ گئے اور برے نتائج سے بھی ۔ یہی رحمت خداوندی کا عروج ہوگا اس مشکل وقت میں ۔ اور وذٰلک ھوالفوز العظیم (40: 9) ” یہی بڑی کامیابی ہے “۔ کہ کوئی برائیوں سے بچ جائے۔ ایک طرف عرش کے حاملین اپنے مومنین بھائیوں کے لیے دعا گو ہیں ، دوسری جانب کفار کی حالت یہ ہے کہ وہ سخت مصیبت میں پھنس گئے ہیں ، کسی مدد گار کی تلاش میں ہیں اور کوئی مددگار نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے اور پوری کائنات کے درمیان کوئی ربط نہیں رہا ہے۔ ہر طرف سے ان پر پھٹکار اور لعنت و ملامت ہے۔ دنیا کے استکبار کے بعد اب یہاں وہ سخت ذلت میں ہیں۔ اور بےیار مددگار ہیں ، لیکن پھر بھی موہوم امیدوں کے سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ، لیکن کہاں ہے منزل مراد !

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حاملین عرش کا مومنین کے لیے دعا کرنا، اہل ایمان اور ان کی ازواج اور زریات کے لیے جنت میں داخل ہونے کا سوال اوپر اہل کفر کی سزا کا بیان ہوا، ان آیات میں اہل ایمان کی فضیلت بیان فرمائی اور یہ فرمایا کہ اہل ایمان کے لیے حاملین عرش اور وہ فرشتے جو ان کے آس پاس ہیں دعاء کرتے ہیں یہ حضرات اللہ تعالیٰ کی تحمید و تقدیس میں مشغول رہتے ہیں جو اللہ پر ایمان لائے ہیں اور دنیا میں جو اہل ایمان ہیں ان کے لیے استغفار کرتے ہیں اور یوں دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار آپ کی رحمت اور آپ کا علم ہر چیز کو شامل ہے لہٰذا آپ ان لوگوں کو بخش دیجیے جنہوں نے شرک و کفر سے توبہ کی اور آپ کے راستہ پر چلتے رہے ان کو آپ عذاب جہنم سے بھی بچا لیجیے اور ان کو ان بہشتوں میں داخل فرمائیے جو ہمیشہ رہنے کے لیے ہیں جن کا آپ نے ان سے وعدہ فرمایا ہے یہ لوگ اہل ایمان ہیں اور رحمت کے مستحق بھی ہیں لہٰذا ان کو بخش ہی دیا جائے۔ حاملین عرش اور ان کے آس پاس جو فرشتے ہیں ان کی دعا اہل ایمان کے آباؤ اجداد اور ازواج و اولاد کے لیے بھی ہے کہ ان کو بھی ہمیشہ رہنے کی بہشتوں میں داخل فرمائیے اس مضمون کو (وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَاءِہِمْ وَاَزْوَاجِہِمْ وَذُرِّیَّاتِہِمْ ) میں بیان فرمایا صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ وَمَنْ صَلَحَ کا عطف ادخلھم کی ضمیر منصوب پر ہے اور مطلب یہ ہے کہ ان حضرات کے ساتھ ان کے آباؤ ازواج اور زریات کو بھی جنات عدن میں داخل فرمائیے ان میں سے جو جنت میں داخل ہونے کے قانون میں آسکیں ان کی صلاحیت اگرچہ متبوع کی صلاحیت سے کم ہو پھر بھی انہیں ان کے ساتھ داخل جنت فرما دیجیے تاکہ ان کی خوشی مکمل ہو بلکہ خوشی میں خوب زیادہ اضافہ ہوجائے۔ اَبآء أبٌ کی جمع ہے جس سے باپ دادے مراد ہیں اور أزْوَاجٌ زَوْجٌ کی جمع ہے یہ لفظ جوڑے کے لیے بولا جاتا ہے اس کا عموم مرد اور عورت دونوں کے لیے شامل ہے اور ذرِّیّٰت ذُرِّیّت کی جمع ہے ذریت آل و اولاد کے لیے مستعمل ہوتا ہے۔ سورۂ الطور میں فرمایا ہے (وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُمْ بِاِِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ ) (اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی ذریت نے ایمان کے ساتھ ان کا اتباع کیا ہم ذریت کو ان کے ساتھ ملا دیں گے) اس میں جو (وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُمْ بِاِِیْمَانٍ ) فرمایا ہے یہاں سورة المومن میں اسی کو (وَمَنْ صَلَحَ ) سے تعبیر فرمایا ہے جو شخص باایمان نہ ہو وہ دخول جنت کا مستحق نہیں ہے لہٰذا کسی کے تعلق کی وجہ سے وہ جنت میں داخل نہیں ہوسکتے اہل ایمان کی اہل ایمان اولاد ہی جنت میں داخل ہوگی اسی طرح آباؤ وازواج بھی وہی جنت میں داخل ہوسکیں گے جو اہل ایمان ہوں۔ (وَقِہِمُ السَّیِّءَاتِ ) اور ان کو بدحالیوں سے بچائیے (وَمَنْ تَقِی السَّیِئَاتِ یَوْمَءِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَہُ ) (اور اس دن آپ نے جسے بدحالیوں سے بچالیا تو آپ نے اس پر رحم فرما دیا (وَذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ) (اور یہ بڑی کامیابی ہے) یَوْمَءِذٍ سے قیامت کے دن کی اور اس کے بعد عذاب جہنم کی تکلیفیں مراد ہیں بعض حضرات نے یَوْمَءِذٍ سے دنیا والی زندگی مراد لی ہے اور اس صورت میں سیٰات کے معروف معنی مراد ہوں گے اور مطلب یہ ہوگا کہ ان لوگوں کو دنیا میں گناہوں سے بچائیے اور جسے آپ نے دنیا میں گناہوں سے بچالیا آپ اس پر آخرت میں رحم ہی فرما دیں گے۔ جن حضرات سے اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے ان کے لیے داخل جنت ہونے کی دعا ان لوگوں کے اظہار فضیلت اور تقرب الی اللہ کے لیے ہے، مومنین کو ہمیشہ اپنے لیے اور اپنے متعلقین کے لیے خیر ہی کی دعا کرتے رہنا چاہیے جن حضرات صحابہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دخول جنت کی بشارت دے دی تھی وہ بھی اعمال صالحہ اور دعاؤں سے غافل نہیں ہوئے اور ارتکاب سیٰات سے بچتے رہے، بندگی کا تقاضا یہی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ ” ویستغفرون الخ “ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور تسبیح و تقدیس کے ساتھ ساتھ وہ فرشتے ایمان والوں کیلئے یوں دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ ” ربنا وسعت الخ “ ہمارے پروردگار، تیری رحمت ہر چیز کو شامل اور تیرا علم ہر چیز پر حاوی ہے۔ ان ایمان والوں کے گناہ معاف رما، جو سچی توجہ کریں اور راہ ہدایت اور صراط مستقیم پر چلیں اور ان کو جہنم کے عذاب سے بچا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(7) وہ فرشتے جو عرش الٰہی کو اٹھائے ہوئے ہیں اور روہ فرشتے جو اس عرش کے گرداگرد ہیں یہ سب اپنے پروردگار کی حمدوثنا کے ساتھ تسبیح اور پاکی بیان کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لئے بخشش کی دعا کیا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار آپ کی رحمت اور آپ کا علم ہر چیز کو شامل ہے آپ کی رحمت اور آپ کے علم میں ہرچیز کی سمائی ہے۔ یعنی باعتبار رحمت اور باعتبار علم کے آپ نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے۔ سو آپ ان لوگوں کو جو توبہ کرچکے ہیں اور آپ کی راہ پرچلتے ہیں بخش دیجئے اور ان کی مغفرت فرمادیجئے نیز ان کو جہنم کے عذاب سے بچا لیجئے۔ عرش الٰہی کے اٹھانے والے چار فرشتے ہیں اور عرش کے گرد اگر د بیشمار صفیں ہیں یہ فرشتے دوسرے فرشتوں کے مقابلے میں زیادہ معزز اور قابل احترام ہیں جو عرش کے گرد اگر د ہیں وہ عام طور سے عرش الٰہی کا طواف کرتے رہتے ہیں اور لا الہ الا اللہ اکبر کہتے ہیں۔ عرش کے اٹھانے والوں میں سے دو کی تسبیح یہ ہے۔ سبحانک اللھم وبحمدک لک الحمد علی حلمک بعد علمک ۔ اور دوسرے دو فرشتے کہتے ہیں۔ سبحانک الھم وبحمدک علی عفوک بعد قدرتک۔ ایسے معزز فرشتے علاوہ تسبیح وتہلیل کے اہل ایمان کے لئے دعائے مغفرت بھی کرتے ہیں چونکہ وہ خودبھی مومن ہیں اس لئے بااعتبار اخوت ہمدردی اپنے مومن بھائیوں کے لئے دعائے مغفرت کیا کرتے ہیں اور یوں دعا کرتے ہیں اے ہمارے پروردگار جن لوگوں نے کفر وشرک سے تائب ہوکر تیری راہ اختیار کرلی ان کی بخشش فرما دے اور ان کو دوزخ کے عذاب سے بچا لے کیونکہ تیری رحمت سب پرچھائی ہوئی ہے اور تیرا علم سب کو محیط ہے معلوم ہوا کہ مومن سے ہمدردی کرنی چاہیے۔