Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 72

سورة مومن

فِی الۡحَمِیۡمِ ۬ ۙ ثُمَّ فِی النَّارِ یُسۡجَرُوۡنَ ﴿ۚ۷۲﴾

In boiling water; then in the Fire they will be filled [with flame].

کھولتے ہوئے پانی میں اور پھر جہنم کی آگ میں جلائے جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

they shall be dragged along, in the boiling water, then they will be burned in the Fire. This is like the Ayat: هَـذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِى يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ يَطُوفُونَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ حَمِيمٍ ءَانٍ This is the Hell which the criminals denied. They will go between it and the fierce boiling water! (55:43-44) After describing how they will eat Zaqqum (a bitter tree of Hell) and drink Hamim (boiling water), Allah says: ثُمَّ إِنَّ مَرْجِعَهُمْ لاِلَى الْجَحِيمِ Then thereafter, verily, their return is to the flaming fire of Hell. (37:68) And Allah says: وَأَصْحَـبُ الشِّمَالِ مَأ أَصْحَـبُ الشِّمَالِ فِى سَمُومٍ وَحَمِيمٍ وَظِلٍّ مِّن يَحْمُومٍ لااَّ بَارِدٍ وَلااَ كَرِيمٍ And those on the Left Hand -- how (unfortunate) will be those on the Left Hand? In fierce hot wind and boiling water, and shadow of black smoke, (that shadow) neither cool nor (even) pleasant. until, ثُمَّ إِنَّكُمْ أَيُّهَا الضَّألُّونَ الْمُكَذِّبُونَ لااّكِلُونَ مِن شَجَرٍ مِّن زَقُّومٍ فَمَالِـُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ فَشَـرِبُونَ عَلَيْهِ مِنَ الْحَمِيمِ فَشَـرِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ هَـذَا نُزُلُهُمْ يَوْمَ الدِّينِ Then moreover, verily, -- you the erring-ones, the deniers (of Resurrection)! You verily, will eat of the trees of Zaqqum. Then you will fill your bellies therewith, and drink boiling water on top of it. And you will drink (that) like thirsty camels! That will be their entertainment on the Day of Recompense! (56: 41-44, 51-56), إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ طَعَامُ الاٌّثِيمِ كَالْمُهْلِ يَغْلِى فِى الْبُطُونِ كَغَلْىِ الْحَمِيمِ خُذُوهُ فَاعْتِلُوهُ إِلَى سَوَاءِ الْجَحِيمِ ثُمَّ صُبُّواْ فَوْقَ رَأْسِهِ مِنْ عَذَابِ الْحَمِيمِ ذُقْ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْكَرِيمُ إِنَّ هَـذَا مَا كُنتُمْ بِهِ تَمْتَرُونَ Verily, the tree of Zaqqum will be the food of the sinners. Like boiling oil, it will boil in the bellies, like the boiling of scalding water. (It will be said:) "Seize him and drag him into the midst of blazing Fire, then pour over his head the torment of boiling water. Taste you (this)! Verily, you were (pretending to be) the mighty, the generous! Verily, this is that whereof you used to doubt!" (44:43-50) i.e., this will be said to them to rebuke and ridicule them. ثُمَّ قِيلَ لَهُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ تُشْرِكُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

72۔ 1 مجاہد اور مقاتل کا قول ہے کہ ان کے ذریعے سے جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی یعنی یہ لوگ اس کا ایندھن بنے ہوں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In verses 71 and 72, it was said: يُسْحَبُونَ فِي الْحَمِيمِ ثُمَّ فِي النَّارِ‌ يُسْجَرُ‌ونَ (They will be dragged [ 71] into the hot water after which they will be thrown in the Fire as a fuel.). The word: الْحَمِيمِ (al-hameem) is boiling hot water. The verse seems to suggest that the people of Jahannam will first be put into the hameem, then, into the jahim, that is, the Jahannam. Again, it also seems to suggest that the hameem is somewhere outside the Jahannam. The verse: ثُمَّ إِنَّ مَرْ‌جِعَهُمْ لَإِلَى الْجَحِيمِ (Then, their return is but to the Fire - As-Saffat, 37:68) also appears to be suggesting that the hameem is located somewhere outside the Jahannam. The people of Jahannam will be brought here to drink its water, and will then be returned to Jahannam. Then there are some verses of the Qur&an that suggest that the hameem too is within the jahim or Jahannam as in: هَـٰذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِ‌مُونَ يَطُوفُونَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ حَمِيمٍ آنٍ (This is the Jahannam (Hell) that the guilty people deny. They will circle around between it and between hot, boiling water - Ar-Rahmn, 55:43-44). Here too, it is explicitly said that the hameem is also within the Jahannam. A little deliberation shows that there is no contradiction between these two things. There will be many strata or sections of Jahannam itself serving as venues of many kinds of punishment. One of these could be that of hameem which could as well be called as being outside the Jahannam because of its separate and distinct location, and since this is also a section of Jahannam itself, therefore, it could also be called the Jahannam. Ibn Kathir has said that the people of Jahannam, shackled in chains, will sometime be dragged into the hameem and at others, in Jahannam.

معارف ومسائل يُسْحَبُوْنَ فِي الْحَمِيْمِ ڏ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُوْنَ ۔ حمیم کھولتا ہوا گرم پانی ہے۔ اس آیت سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ اہل جہنم کو پہلے حمیم میں ڈالا جائے گا۔ اس کے بعد جحیم یعنی جہنم میں اور بظاہر اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ حمیم جہنم سے باہر کسی جگہ ہے۔ سورة صفت کی آیت (آیت) ثم ان مرجعھم لا الی الجحیم سے بھی یہی مفہوم ہوتا ہے کہ حمیم جہنم سے باہر کسی جگہ ہے اہل جہنم کو اس کا پانی پلانے کے لئے لایا جائے گا۔ پھر جہنم میں لوٹا دیا جائے گا۔ اور بعض آیات قرآنی سے معلوم ہوتا ہے کہ حمیم بھی جحیم ہی میں ہے جیسے (آیت) ھذہ جہنم التی یکذب بھا المجرمون یطوفون بینھا وبین حمیم ان۔ اس میں تصریح ہے کہ حمیم بھی جہنم کے اندر ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد وتعارض نہیں۔ جہنم ہی کے بہت سے طبقات ہوں گے جن میں قسم قسم کے عذاب ہوں گے۔ انہیں میں ایک طبقہ حمیم کا بھی ہوسکتا ہے جس کو بوجہ ممتاز اور الگ ہونے کے جہنم سے خارج بھی کہا جاسکتا ہے اور چونکہ یہ بھی ایک طبقہ جہنم ہی کا ہے اس لئے اس کو جہنم بھی کہا جاسکتا ہے۔ ابن کثیر نے فرمایا کہ اہل جہنم زنجیروں میں جکڑے ہوئے کبھی کھینچ کر حمیم میں ڈال دیئے جاویں گے کبھی جحیم میں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فِي الْحَمِيْمِ۝ ٠ۥۙ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُوْنَ۝ ٧٢ۚ حم الحمیم : الماء الشدید الحرارة، قال تعالی: وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] ، إِلَّا حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ عمّ/ 25] ، وقال تعالی: وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [ الأنعام/ 70] ، وقال عزّ وجل : يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج/ 19] ، ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْها لَشَوْباً مِنْ حَمِيمٍ [ الصافات/ 67] ، هذا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ [ ص/ 57] ، وقیل للماء الحارّ في خروجه من منبعه : حَمَّة، وروي : «العالم کالحمّة يأتيها البعداء ويزهد فيها القرباء» «6» ، وسمي العَرَق حمیما علی التشبيه، واستحمّ الفرس : عرق، وسمي الحمّام حمّاما، إمّا لأنه يعرّق، وإمّا لما فيه من الماء الحارّ ، واستحمّ فلان : دخل الحمّام، وقوله عزّ وجل : فَما لَنا مِنْ شافِعِينَ وَلا صَدِيقٍ حَمِيمٍ [ الشعراء/ 100- 101] ، وقوله تعالی: وَلا يَسْئَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً [ المعارج/ 10] ، فهو القریب المشفق، فكأنّه الذي يحتدّ حماية لذويه، وقیل لخاصة الرّجل : حامّته، فقیل : الحامّة والعامّة، وذلک لما قلنا، ويدلّ علی ذلك أنه قيل للمشفقین من أقارب الإنسان حزانته أي : الذین يحزنون له، واحتمّ فلان لفلان : احتدّ وذلک أبلغ من اهتمّ لما فيه من معنی الاحتمام، وأحمّ الشّحم : أذابه، وصار کالحمیم، وقوله عزّ وجل : وَظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ [ الواقعة/ 43] ، للحمیم، فهو يفعول من ذلك، وقیل : أصله الدخان الشدید السّواد ، وتسمیته إمّا لما فيه من فرط الحرارة، كما فسّره في قوله : لا بارِدٍ وَلا كَرِيمٍ [ الواقعة/ 44] ، أو لما تصوّر فيه من لفظ الحممة فقد قيل للأسود يحموم، وهو من لفظ الحممة، وإليه أشير بقوله : لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ [ الزمر/ 16] ، وعبّر عن الموت بالحمام، کقولهم : حُمَّ كذا، أي : قدّر، والحُمَّى سمّيت بذلک إمّا لما فيها من الحرارة المفرطة، وعلی ذلک قوله صلّى اللہ عليه وسلم : «الحمّى من فيح جهنّم» «4» ، وإمّا لما يعرض فيها من الحمیم، أي : العرق، وإمّا لکونها من أمارات الحِمَام، لقولهم : «الحمّى برید الموت» «5» ، وقیل : «باب الموت» ، وسمّي حمّى البعیر حُمَاماً «6» بضمة الحاء، فجعل لفظه من لفظ الحمام لما قيل : إنه قلّما يبرأ البعیر من الحمّى. وقیل : حَمَّمَ الفرخ «7» : إذا اسودّ جلده من الریش، وحمّم ( ح م م ) الحمیم کے معنی سخت گرم پانی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا ۔ إِلَّا حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ عمّ/ 25] مگر گرم پانی اور یہی پیپ ۔ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [ الأنعام/ 70] اور جو کافر ہیں ان کے پینے کو نہایت گرم پانی ۔ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج/ 19]( اور ) ان کے سروں پر جلتا ہوا پانی دالا جائیگا ۔ ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْها لَشَوْباً مِنْ حَمِيمٍ [ الصافات/ 67] پھر اس ( کھانے ) کے ساتھ ان کو گرم پانی ملا کردیا جائے گا ۔ هذا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ [ ص/ 57] یہ گرم کھولتا ہوا پانی اور پیپ ( ہے ) اب اس کے مزے چکھیں ۔ اور گرم پانی کے چشمہ کو حمتہ کہا جاتا ہے ایک روایت میں ہے ۔ کہ عالم کی مثال گرم پانی کے چشمہ کی سی ہے جس ( میں نہانے ) کے لئے دور دور سے لوگ آتے ہیں ( اور شفایاب ہوکر لوٹتے ہیں ) اور قرب و جوار کے لوگ اس سے بےرغبتی کرتے ہیں ( اس لئے اس کے فیض سے محروم رہتے ہیں ) اور تشبیہ کے طور پر پسینہ کو بھی حمیم کہا جاتا ہے اسی سے استحم الفرس کا محاورہ ہے جس کے معنی گھوڑے کے پسینہ پسینہ ہونے کے ہیں اور حمام کو حمام یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ پسینہ آور ہوتا ہے اور یا اس لئے کہ اس میں گرم پانی موجود رہتا ہے ۔ استحم فلان ۔ حمام میں داخل ہونا ۔ پھر مجازا قریبی رشتہ دار کو بھی حمیم کہا جاتا ہے ۔ اس لئے کہ انسان اپنے رشتہ داروں کی حمایت میں بھٹرک اٹھتا ہے اور کسی شخص کے اپنے خاص لوگوں کو حامتہ خاص وعام کا محاورہ ہے ۔ قرآن میں ہے : فَما لَنا مِنْ شافِعِينَ وَلا صَدِيقٍ حَمِيمٍ [ الشعراء/ 100- 101] تو ( آج ) نہ کوئی ہمارا سفارش کرنے والا ہے اور نہ گرم جوش دوست نیز فرمایا ۔ وَلا يَسْئَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً [ المعارج/ 10] اور کوئی دوست کسیز دوست کا پر سان نہ ہوگا ۔ اور اس کی دلیل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انسان کے قریبی مہر بانوں کو حزانتہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اس کے غم میں شریک رہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ احتم فلان لفلان فلاں اس کے لئے غمگین ہوا یا اس کی حمایت کے لئے جوش میں آگیا ۔ اس میں باعتبار معنی اھم سے زیادہ زور پایا جاتا ہے کیونکہ اس میں غم زدہ ہونے کے ساتھ ساتھ جوش اور گرمی کے معنی بھی پائے جاتے ہیں ۔ احم الشحم چربی پگھلا ۔ یہاں تک کہ وہ گرم پانی کی طرح ہوجائے اور آیت کریمہ : وَظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ [ الواقعة/ 43] اور سیاہ دھوئیں کے سایے میں ۔ میں یحموم حمیم سے یفعول کے وزن پر ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے اصل معنی سخت سیاہ دھوآں کے ہیں اور اسے یحموم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں شیت حرارت پائی جاتی ہے جیسا کہ بعد میں سے اس کی تفسیر کی ہے اور یا اس میں حممتہ یعنی کوئلے کی سی سیاہی کا تصور موجود ہے ۔ چناچہ سیاہ کو یحموم کہا جاتا ہے اور یہ حممتہ ( کوئلہ ) کے لفظ سے مشتق ہے چناچہ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ [ الزمر/ 16] ان کے اوپر تو اگ کے سائبان ہوں گے اور نیچے ( ان ) کے فرش پونگے اور حمام بمعنی موت بھی آجاتا ہے جیسا کہ کسی امر کے مقدر ہونے پر حم کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور بخار کو الحمی کہنا یا تو اس لئے ہے کہ اس میں حرارت تیز ہوجاتی ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا : کہ بخار جہنم کی شدت ست ہے اور یا بخار کو حمی اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں پسینہ اترتا ہے اور یا اس لئے کہ یہ موت کی علامات میں سے ایک علامت ہے ۔ جیسا کہ عرب لوگ کہتے ہیں الحمی بریدالموت ( کہ بخار موت کا پیغام پر ہے ) اور بعض اسے باب الموت یعنی موت کا دروازہ بھی کہتے ہیں اور اونٹوں کے بخار کو حمام کہا جاتا ہے یہ بھی حمام ( موت ) سے مشتق ہے کیونکہ اونٹ کو بخار ہوجائے تو وہ شازو نادر ہی شفایاب ہوتا ہے ۔ حمم الفرخ پرندے کے بچہ نے بال وپر نکال لئے کیونکہ اس سے اس کی جلد سیاہ ہوجاتی ہے ۔ حمم وجھہ اس کے چہرہ پر سبزہ نکل آیا یہ دونوں محاورے حممتہ سے موخوز ہیں ۔ اور حمحمت الفرس جس کے معنی گھوڑے کے ہنہنانے کے ہیں یہ اس باب سے نہیں ہے ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ سجر السَّجْرُ : تهييج النار، يقال : سَجَرْتُ التَّنُّورَ ، ومنه : وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ [ الطور/ 6] ، قال الشاعر :إذا شاء طالع مَسْجُورَة ... تری حولها النّبع والسّاسما وقوله : وَإِذَا الْبِحارُ سُجِّرَتْ [ التکوير/ 6] أي : أضرمت نارا، عن الحسن وقیل : غيضت مياهها، وإنما يكون کذلک لتسجیر النار فيه، ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُونَ [ غافر/ 72] ، نحو : وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة/ 24] ، وسَجَرَتِ الناقة، استعارة لالتهابها في العدو، نحو : اشتعلت الناقة، والسَّجِيرُ : الخلیل الذي يسجر في مودّة خلیله، کقولهم : فلان محرق في مودّة فلان، قال الشاعر سُجَرَاءُ نفسي غير جمع أشابة ( س ج ر ) السجر اس کے اصل معنی زور سے آگ بھڑ کانے کے ہیں ۔ اور سجرت التنور کے معنی ہیں میں نے تنور جلا دیا اسے ایندھن سے بھر دیا اسی سے فرمایا : ۔ وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ [ الطور/ 6] اور ( نیز ) جوش مارنے والے سمندر کی ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( المتقارب ) إذا شاء طالع مَسْجُورَة ... تری حولها النّبع والسّاسماجب وہ چاہتا ہے تو پانی سے پر گڑھا اسے نظر آجاتا ہے جس کے گردا گرد نبع اور سمسم کے درخت اگے ہوئے ہیں ۔ اور آیت : ۔ وَإِذَا الْبِحارُ سُجِّرَتْ [ التکوير/ 6] اور جس وقت دریا پاٹ دیے جائیں ۔ کے معنی حسن (رض) ( بصری ) نے یہ کئے ہیں کہ جب ان کے پانی خشک کردیئے جائیں اور یہ ان میں آگ بھڑکانے کی غرض سے ہوگا ۔ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُونَ [ غافر/ 72] پھر آگ میں جھونکے جائیں گے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا ۔ وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة/ 24] جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ اور استعارہ کے طور پر کہا جاتا ہے ۔ وسَجَرَتِ الناقة : اونٹنی دوڑ میں بھڑک اٹھی یعنی سخت دوڑی جیسے اشتعلت الناقۃ کا محاورہ ہے اور السجیر کے معنی مخلص دوست کے ہیں گویا وہ محبت کی آگ میں جلتا رہتا ہے ۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے فلان محرق فی مودۃ : کہ فلاں سوختہ محبت ہے کسی شاعر نے کہا ہے سُجَرَاءُ نفسي غير جمع أشابة

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٢ { فِی الْْحَمِیْمِلا ثُمَّ فِی النَّارِ یُسْجَرُوْنَ } ” کھولتے پانی میں ‘ پھر انہیں آگ میں جھونک دیا جائے گا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

101 That is, "When compelled by the intensity of thirst they will ask for water, the keepers of Hell will drag them by the chains towards the springs of boiling water, and when they will have drunk from them, they will drag them back to be cast into the fire of Hell. "

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :101 یعنی جب وہ پیاس کی شدت سے مجبور ہو کر پانی مانگیں گے تو دوزخ کے کارکن ان کو زنجیروں سے کھینچتے ہوئے ایسے چشموں کی طرف لے جائیں گے جن سے کھولتا ہوا پانی نکل رہا ہو گا ۔ اور پھر جب وہاں سے پی کر فارغ ہوں گے تو پھر وہ انہیں کھینچتے ہوئے واپس لے جائیں گے اور دوزخ کی آگ میں جھونک دیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:72) الحمیم : ح م م مادہ۔ حمیم کے معنی سخت گرم پانی کے ہیں۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے وسقوا ماء حمیما (47:15) اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا۔ تشبیہ کے طور پر پسینہ کو بھی حمیم کہا جاتا ہے اور حمام کو حمام اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں گرم پانی موجود ہوتا ہے یا یہ کہ وہ پسینہ آور ہوتا ہے۔ مجازا قریبی رشتہ دار اور گہرے درست کو بھی حمیم کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں یا اپنے دوست کی حمایت میں گرم ہوجاتا ہے۔ فی النار : ای فی نار جھنم دوزخ کی آگ میں۔ سیجرون : مضارع مجہول جمع مذکر غائب۔ سجر (باب نصر) مصدر۔ تپائے جائیں گے۔ جھونکے جائیں گے۔ السجر کے اصل معنی زور سے آگ بھڑ کانے کے ہیں اور سجرت التنور کے معنی ہیں۔ میں نے تنور جلایا۔ یا تنور کو ایندھن سے بھر دیا (جلانے کے لئے) ۔ یہاں بھی یسجرون کے معنی ہیں ای یطرحون فیہا ویکونون وقودا لہا۔ وہ دوزخ میں پھینکے جائیں گے اور اس کا ایندھن بن جائیں گے۔ اسی سے ہے واذا البحار سجرت (81:6) جب دریا آگ سے بھڑکا دئیے جائیں گے

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(72) سخت گرم کھولتے ہوئے پانی میں پھر یہ لوگ آگ میں جھونک دیئے جائیں گے۔ یہ حمیم اور جحیم کی بحث پہلے بھی گزر چکی ہے مدعا یہ ہے کہ عذاب کو انواع مختلف ہوں گے کبھی بھی یہ مقدم اور کبھی وہ مقدم مفسرین کے دو قول ہیں ہم نے ابن کثیر کے فیصلے کو اختیار کیا ہے کبھی گرم پانی کا عذاب کبھی نار خالص کا عذاب یطوفون بینھا وبین حمیم ان اللھم اجرنا من نارک انا عائذون بجوارک۔