Surat Ha meem Assajdah

Explained in detail

Surah: 41

Verses: 54

Ruku: 6

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة حٰمٓ السَّجْدَة نام : اس سورہ کا نام دو لفظوں سے مرکب ہے ۔ ایک حٰم ، دوسرے السجدہ ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ سورۃ جس کا آغاز حٰم سے ہوتا ہے اور جس میں ایک مقام پر آیت سجدہ آئی ہے ۔ زمانۂ نزول : معتبر روایات کی رو سے اس کا زمانہ نزول حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کے بعد اور حضرت عمر رضی اللہ...  عنہ کے ایمان لانے سے پہلے ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدیم ترین سیرت نگار محمد بن اسحاق نے مشہور تابعی محمد بن کعب القرظی کے حوالہ سے یہ قصہ نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ قریش کے کچھ سردار مسجد حرام میں محفل جمائے بیٹھے تھے اور مسجد کے ایک دوسرے گوشے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تنہا تشریف رکھتے تھے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت حمزہ ایمان لا چکے تھے اور قریش کے لوگ مسلمانوں کی جمعیت میں روز افزوں اضافہ دیکھ دیکھ کر پریشان ہو رہے تھے ۔ اس موقع پر عُتبہ بن ربیعہ ( ابو سفیان کے خسر ) نے سرداران قریش سے کہا کہ صاحبو ، اگر آپ لوگ پسند کریں تو میں جا کر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے بات کروں اور ان کے سامنے چند تجویزیں رکھوں ، شاید کہ وہ ان میں سے کسی کو مان لیں اور ہم بھی اسے قبول کرلیں اور اس طرح وہ ہماری مخالفت سے باز آجائیں ۔ سب حاضرین نے اس سے اتفاق کیا اور عتبہ اٹھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا بیٹھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے تو اس نے کہا بھتیجے ، تم اپنی قوم میں اپنے نسب اور خاندان کے اعتبار سے جو حیثیت رکھتے ہو وہ تمہیں معلوم ہے ۔ مگر تم اپنی قوم پر ایک بڑی مصیبت لے آئے ہو ۔ تم نے جماعت میں تفرقہ ڈال دیا ۔ ساری قوم کو بے وقوف ٹھہرایا ۔ قوم کے دین اور اس کے معبودوں کی برائی کی ۔ اور ایسی باتیں کرنے لگے جن کے معنی یہ ہیں کہ ہم سب کے باپ دادا کافر تھے ۔ اب ذرا میری بات سنو ۔ میں کچھ تجویزیں تمہارے سامنے رکھتا ہوں ۔ ان پر غور کرو ۔ شاید کہ ان میں سے کسی کو تم قبول کرلو ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوالولید ، آپ کہیں ، میں سنوں گا ۔ اس نے کہا ، بھتیجے ، یہ کام جو تم نے شروع کیا ہے ، اس سے اگر تمہارا مقصد مال حاصل کرنا ہے تو ہم سب مل کر تم کو اتنا کچھ دیے دیتے ہیں کہ تم ہم میں سب سے زیادہ مالدار ہو جاؤ ۔ اگر اس سے اپنی بڑائی چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا سردار بنائے لیتے ہیں ۔ اور اگر تم پر کوئی جن آتا ہے جسے تم خود دفع کرنے پر قادر نہیں ہو تو ہم بہترین اطبا بلواتے ہیں اور اپنے خرچ پر تمہارا علاج کراتے ہیں ۔ عُتبہ یہ باتیں کرتا رہا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاموش سنتے رہے ۔ پھر آپ نے فرمایا ، ابوالولید آپ کو جو کچھ کہنا تھا کہہ چکے؟ اس نے کہا ، ہاں ۔ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا ، اب میری سنو ۔ اس کے بعد آپ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر اسی سورۃ کی تلاوت شروع کی اور عتبہ اپنے دونوں ہاتھ پیچھے زمین پر ٹیکے غور سے سنتا رہا ۔ آیت سجدہ ( آیت 38 ) پر پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا ، پھر سر اٹھا کر فرمایا ، اے ابوالید ، میرا جواب آپ نے سن لیا ، اب آپ جانیں اور آپ کا کام ۔ عتبہ اٹھ کر سرداران قریش کی مجلس کی طرف چلا تو لوگوں نے دور سے اس کو دیکھتے ہی کہا ، خدا کی قسم ، عتبہ کا چہرہ بدلا ہوا ہے ، یہ وہ صورت نہیں ہے جسے لے کر یہ گیا تھا ۔ پھر جب وہ آ کر بیٹھا تو لوگوں نے کہا : کیا سن آئے؟ اس نے کہا : بخدا ، میں نے ایسا کلام سنا کہ کبھی اس سے پہلے نہ سنا تھا ۔ خدا کی قسم ، نہ یہ شعر ہے ، نہ سحر ہے نہ کہانت ۔ اے سرداران قریش ، میری بات مانو اور اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کلام کچھ رنگ لا کر رہے گا ۔ فرض کرو ، اگر عرب اس پر غالب آ گئے تو اپنے بھائی کے خلاف ہاتھ اٹھانے سے تم بچ جاؤ گے اور دوسرے اس سے نمٹ لیں گے ۔ لیکن اگر وہ عرب پر غالب آگیا تو اس کی بادشاہی تمہاری بادشاہی ، اور اس کی عزت تمہاری عزت ہی ہو گی ۔ سرداران قریش اس کی یہ بات سنتے ہی بول اٹھے ، ولید کے ابا ، آخر اس کا جادو تم پر بھی چل گیا ۔ عتبہ نے کہا ، میری جو رائے تھی وہ میں نے تمہیں بتا دی ، اب تمہارا جو جی چاہے کرتے رہو ( ابن ہشام ، جلد 1 ، ص 313 ۔ 314 ) اس قصے کو متعدد دوسرے محدثین نے حضرت جابر بن عبداللہ سے بھی مختلف طریقوں سے نقل کیا ہے ، جن میں تھوڑا بہت لفظی اختلاف ہے ۔ ان میں سے بعض میں یہ بھی آیا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تلاوت کرتے ہوئے آیت : فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُکُمْ صَاعِقَۃً مِّثْلَ صَاعِقَۃِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ ( اب اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ میں تمہیں عاد اور ثمود کے عذاب جیسے ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب سے ڈراتا ہوں ) پر پہنچے تو عتبہ نے بے اختیار آپ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا خدا کے لیے اپنی قوم پر رحم کرو ۔ بعد میں اس نے سرداران قریش کے سامنے اپنے اس فعل کی وجہ یہ بیان کی کہ آپ لوگ جانتے ہیں ، محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی زبان سے جو بات نکلتی ہے پوری ہو کر رہتی ہے ، اس لیے میں ڈر گیا کہ کہیں ہم پر عذاب نازل نہ ہو جائے ۔ ( تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر ، ج 4 ، ص 90 ۔ 91 ۔ البدایہ والنہایہ ، ج3 ، ص 62 ) ۔ موضوع اور مضمون : عتبہ کی اس گفتگو کے جواب میں جو تقریر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ، اس میں ان بیہودہ باتوں کی طرف سرے سے کوئی التفات نہ کیا گیا جو اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہی تھیں ۔ اس لیے کہ جو کچھ اس نے کہا تھا وہ دراصل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نیت اور آپ کی عقل پر حملہ تھا ۔ اس کی ساری باتوں کے پیچھے یہ مفروضہ کام کر رہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ، اور قرآن کے وحی ہونے کا تو بہرحال کوئی امکان نہیں ہے ، اب لامحالہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اس دعوت کا محرک یا تو مال و دولت اور حکومت و اقتدار حاصل کرنے کا جذبہ ہے ، یا پھر ، معاذاللہ ، آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی عقل پر فتور آگیا ہے ۔ پہلی صورت میں وہ آپ سے سودے بازی کرنا چاہتا تھا ، اور دوسری صورت میں یہ کہہ کر آپ کی توہین کر رہا تھا کہ ہم اپنے خرچ پر آپ کی دیوانگی کا علاج کرائے دیتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی بیہودگیوں پر جب مخالفین اتر آئیں تو ایک شریف آدمی کا کام ان کا جواب دینا نہیں ہے بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ ان کو قطعی نظر انداز کر کے اپنی جو بات کہنی ہو کہے ۔ عتبہ کی باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے اس سورہ میں اس مخالفت کو موضوع بحث بنایا گیا ہے جو قرآن مجید کی دعوت کو زک دینے کے لیے کفار مکہ کی طرف سے اس وقت انتہائی ہٹ دھرمی اور بد اخلاقی کے ساتھ کی جا رہی تھی ۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے ، آپ خواہ کچھ کریں ، ہم آپ کی کوئی بات سن کر نہ دیں گے ۔ ہم نے اپنے دلوں پر غلاف چڑھا لیے ہیں ۔ اپنے کان بند کر لیے ہیں ۔ ہمارے اور آپ کے درمیان ایک دیوار حائل ہو گئی ہے جو ہمیں اور آپ کو کبھی نہ ملنے دے گی ۔ انہوں نے آپ کو صاف صاف نوٹس دے دیا تھا کہ آپ اپنی اس دعوت کا کام جاری رکھیے ، ہم آپ کی مخالفت میں جو کچھ ہم سے ہو سکے گا کریں گے ۔ انہوں نے آپ کو زک دینے کے لیے کام کا یہ نقشہ بنایا تھا کہ جب بھی آپ یا آپ کے پیروؤں میں سے کوئی عام لوگوں کو قرآن سنانے کی کوشش کرے ، فوراً ہنگامہ برپا کر دیا جائے اور اتنا شور مچایا جائے کہ کان پڑی آواز نہ سنائی دے ۔ وہ پوری سرگرمی کے ساتھ اس کام میں لگے ہوئے تھے کہ قرآن مجید کی آیات کو الٹے معنی پہنا کر عوام میں طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیلائیں ۔ بات کچھ کہی جاتی تھی اور وہ اسے بناتے کچھ تھے ۔ سیدھی بات میں ٹیڑھ نکالتے تھے ۔ سیاق و سباق سے الگ کر کے کوئی لفظ کہیں سے اور کوئی فقرہ کہیں سے لے اڑتے اور اس کے ساتھ ا پنی طرف سے چار باتیں ملا کر نئے نئے مضامین پیدا کرتے تھے تاکہ قرآن اور اس کے پیش کرنے والے رسول کے متعلق لوگوں کی رائے خراب کی جائے ۔ عجیب عجیب قسم کے اعتراضات جڑتے تھے جن کا ایک نمونہ اس سورہ میں پیش کیا گیا ہے ۔ کہتے تھے کہ ایک عرب اگر عربی زبان میں کوئی کلام سناتا ہے تو اس میں معجزے کی کیا بات ہوئی؟ عربی تو اس کی مادری زبان ہے ۔ اپنی مادری زبان میں جس کا جی چاہے ایک کلام تصنیف کر لے اور دعویٰ کر دے کہ وہ اس پر خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔ معجزہ تو جب ہوتا کہ یہ شخص کسی دوسری زبان میں ، جسے یہ نہیں جانتا ، یکایک اٹھ کر فصیح و بلیغ تقریر کر ڈالتا ۔ تب یہ سمجھا جا سکتا تھا کہ یہ اس کا اپنا کلام نہیں ہے بلکہ اوپر کہیں سے اس پر نازل ہو رہا ہے ۔ اس اندھی اور بہری مخالفت کے جواب میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کا ماحصل یہ ہے : ( 1 ) ۔ یہ خدا ہی کا نازل کردہ کلام ہے اور عربی زبان ہی میں ہے ۔ جو حقیقتیں اس میں صاف صاف کھول کر بیان کی گئی ہیں ، جاہل لوگ ان کے اندر علم کی کوئی روشنی نہیں پاتے ، مگر سمجھ بوجھ رکھنے والے اس روشنی کو دیکھ بھی رہے ہیں اور اس سے فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں ۔ یہ تو خدا کی رحمت ہے کہ اس نے انسان کی رہنمائی کے لیے یہ کلام نازل کیا ۔ کوئی اسے زحمت سمجھتا ہے تو یہ اس کی اپنی بد نصیبی ہے ۔ خوش خبری ہے ان لوگوں کے لیے جو اس سے فائدہ اٹھائیں ، اور ڈرنا چاہیے ان لوگوں کو جو اس سے منہ موڑ لیں ۔ ( 2 ) ۔ تم نے اگر اپنے دلوں پر غلاف چڑھا لیے ہیں اور اپنے کان بہرے کر لیے ہیں تو نبی کے سپرد یہ کام نہیں کیا گیا ہے کہ جو نہیں سننا چاہتا اسے سنائے اور جو نہیں سمجھنا چاہتا اس کے دل میں زبردستی اپنی بات اتارے ۔ وہ تو تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہے ۔ سننے والوں ہی کو سنا سکتا ہے اور سمجھنے والوں ہی کو سمجھا سکتا ہے ۔ ( 3 ) ۔ تم چاہے اپنی آنکھیں اور کان بند کر لو اور اپنے دلوں پر غلاف چڑھا لو ، مگر حقیقت یہی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی ہے اور تم کسی دوسرے کے بندے نہیں ہو ۔ تمہاری ضد سے یہ حقیقت بہرحال نہیں بدل سکتی ۔ مان لو گے اور اس کے مطابق اپنا عمل درست کر لو گے تو اپنا ہی بھلا کرو گے ۔ نہ مانو گے تو خود ہی تباہی سے دوچار ہو گے ۔ ( 4 ) ۔ تمہیں کچھ احساس بھی ہے کہ یہ شرک اور کفر تم کس کے ساتھ کر رہے ہو؟ اس خدا کے ساتھ جس نے یہ اَتھاہ کائنات بنائی ہے ، جو زمین و آسمان کا خالق ہے ، جس کی پیدا کی ہوئی برکتوں سے اس زمین میں تم فائدہ اٹھا رہے ہو ، اور جس کے مہیا کیے ہوئے رزق پر تم پل رہے ہو ۔ اس کا شریک تم اس کی حقیر مخلوقات کو بناتے ہو ، اور سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو ضد میں آ کر منہ موڑتے ہو ۔ ( 5 ) ۔ اچھا ، نہیں مانتے تو خبردار ہو جاؤ کہ تم پر اسی طرح کا عذاب اچانک ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار ہے جیسا عاد اور ثمود پر آیا تھا ۔ اور یہ عذاب بھی تمہارے جرم کی آخری سزا نہ ہو گا ، بلکہ آگے میدان حشر کی باز پرس اور جہنم کی آگ ہے ۔ ( 6 ) ۔ بڑا ہی بدقسمت ہے وہ انسان جس کے ساتھ ایسے شیاطین جن و انس لگ جائیں جو اسے ہر طرف ہرا ہی ہرا دکھاتے رہیں ، اسکی حماقتوں کو اس کے سامنے خوشنما بنا کر پیش کریں اور اسے کبھی خود صحیح بات سوچنے دیں ، نہ کسی دوسرے سے سننے دیں ۔ اس طرح کے نادان لوگ آج تو یہاں ایک دوسرے کو بڑھاوے چڑھاوے دے رہے ہیں ، اور ہر ایک دوسرے کی شہ پاکر نہلے پر دہلا مار رہا ہے ، مگر قیامت کے راز جب شامت آئے گی تو ان میں سے ہر ایک کہے گا کہ جن لوگوں نے مجھے بہکایا تھا وہ میرے ہاتھ لگ جائیں تو انہیں پاؤں تلے روند ڈالوں ۔ ( 7 ) ۔ یہ قرآن ایک اٹل کتاب ہے ۔ اسے تم اپنی گھٹیا چالوں اور اپنے جھوٹ کے ہتھیاروں سے شکست نہیں دے سکتے ۔ باطل خواہ سامنے سے آئے یا در پردہ اور بالواسطہ حملہ آور ہو ، اسے زک دینے میں کبھی کامیاب نہ ہو سکے گا ۔ ( 8 ) ۔ آج تمہاری اپنی زبان میں یہ قرآن پیش کیا جا رہا ہے تاکہ تم اسے سمجھ سکو تو تم یہ کسی عجمی زبان میں آنا چاہیے تھا ۔ لیکن اگر ہم تمہاری ہدایت کے لیے عجمی مذاق ہے ، عرب قوم کی ہدایت کے لیے عجمی زبان میں کلام فرمایا جا رہا ہے جسے یہاں کوئی نہیں سمجھتا ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تمہیں دراصل ہدایت مطلوب ہی نہیں ہے ۔ نہ ماننے کے لیے نت نئے بہانے تراش رہے ہو ۔ ( 9 ) ۔ کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر فی الواقع حقیقت یہی نکلی کہ یہ قرآن خدا کی طرف سے ہے تو اس کا انکار کر کے اور اس کی مخالفت میں اتنی دور تک جا کر تم کس انجام سے دوچار ہو گے ۔ ( 10 ) ۔ آج تم نہیں مان رہے ہو ، مگر عنقریب تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ اس قرآن کی دعوت تمام آفاق پر چھا گئی ہے ، اور تم خود اس سے مغلوب ہو چکے ہو ۔ اس وقت تمہیں پتہ چل جائے گا کہ جو کچھ تم سے کہا جا رہا تھا ، وہ حق تھا ۔ مخالفین کو یہ جوابات دینے کے ساتھ ان مسائل کی طرف بھی توجہ فرمائی گئی ہے جو اس شدید مزاحمت کے ماحول میں اہل ایمان کو اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو در پیش تھے ۔ ایمان لانے والوں کے لیے اس وقت تبلیغ کرنا تو در کنار ، ایمان کے راستے پر قائم رہنا بھی سخت دشوار ہو رہا تھا ، اور ہر اس شخص کی جان عذاب میں آ جاتی تھی جس کے متعلق یہ ظاہر ہو جاتا تھا کہ وہ مسلمان ہو گیا ہے ۔ دشمنوں کی خوفناک جتھہ بندی اور ہر طرف چھائی ہوئی طاقت کے مقابلے میں وہ اپنے آپ کو بالکل بے بس اور بے یار و مددگار محسوس کر رہے تھے ۔ اس حالت میں اول تو یہ کہہ کر ان کی ہمت بندھائی گئی کہ تم حقیقت میں بے یار و مددگار نہیں ہو ، بلکہ جو شخص بھی ایک دفعہ خدا کو اپنا رب مان کر اس عقیدے اور مسلک پر مضبوطی کے ساتھ جم جاتا ہے ، خدا کے فرشتے اس پر نازل ہوتے ہیں اور دنیا سے لے کر آخرت تک اس کا ساتھ دیتے ہیں ۔ پھر یہ فرما کر انکا حوصلہ بڑھایا گیا کہ بہترین ہے وہ انسان جو خود نیک عمل کرے ، دوسروں کو خدا کی طرف بلائے ، اور ڈٹ کر کہے کہ میں مسلمان ہوں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس وقت جو سوال سخت پریشان کن بنا ہوا تھا وہ یہ تھا کہ جب اس دعوت کی راہ میں ایسے سنگ گراں حائل ہیں تو ان چٹانوں سے تبلیغ کا راستہ آخر کیسے نکالا جائے اس سوال کا حل آپ کو یہ بتایا گیا کہ یہ نمائشی چٹانیں بظاہر بڑی سخت نظر آتی ہیں ، مگر اخلاق حسنہ کا ہتھیار وہ ہتھیار ہے جو انہیں توڑ کر اور پگھلا کر رکھ دے گا ۔ صبر کے ساتھ اس سے کام لو ، اور جب کبھی شیطان اشتعال دلا کر کسی دوسرے ہتھیار سے کام لینے پر اکسائے تو خدا سے پناہ مانگو ۔  Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

تعارف سورۃ حم السجدۃ یہ سورت اس مجموعے کا ایک حصہ ہے جسے حوامیم کہا جاتا ہے، اور جس کا تعارف پیچھے سورۂ مومن کے شروع میں گزرچکا ہے، اس سورت کے مضامین بھی دوسری مکی سورتوں کی طرح اسلام کے بنیادی عقائد کے اثبات اور مشرکین کی تردید پر مشتمل ہیں، اس سورت کی آیت نمبر : ٣٨ آیت سجدہ ہے، یعنی اس کے پڑھنے ... اور سننے سے سجدہ واجب ہوتا ہے، اس لئے اس کو حم السجدہ کہا جاتا ہے، اس کا دوسرا نام فصلت بھی ہے، کیونکہ اس کی پہلی آیت میں یہ لفظ آیا ہے، نیز اسے سورۃ المصابیح اور سورۃ الاقوات بھی کہا جاتا ہے۔ ( روح المعانی)۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ٭نہایت رحم و کرم کرنے والے اللہ نے قرآن کریم کو عربی میں اس لئے نازل کیا ہے تا کہ جو لوگ قرآن کے مخاطب اول ( مکہ والے ، عرب والے) ہیں وہ اس کو اچھی طرح سمجھ کر ساری دنیا کے لوگوں کو سمجھائیں اور انہیں کوئی دشواری نہ ہو۔ ٭ یہ قرآن ایمان اور عمل صالح اختیار کرنے والوں کے لئے خ... وش خبری اور اس کو نہ ماننے والوں کو ان کے برے انجام سے آگاہ اور خبر دار کرنے کا ذریعہ ہے۔ ٭کفار و مشرکین کہتے تھے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ جو باتیں ہم سے کرتے ہیں وہ ہماری سمجھ میں نہیں آتیں نجانے کیا پردہ یا رکاوٹ ہے ، لہٰذا آپ اپنی جدوجہد کیجئے اور ہمیں اپنے کام دھندے میں لگا رہنے دیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہہ دیجئے کہ میں تم جیسا ہی ایک بشر ہوں میری طرف جو بھی وحی کی جاتی ہے وہ میں تمہیں بتا دیتا ہوں پھر بھی تم میری بات کو نہیں سمجھتے۔ کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے کہ ہمارا اور تمہارا معبود صرف ایک اللہ ہی ہے وہی ہر طرح کی عبادت و بندگی کے لائق ہے ۔ تمہیں اسی سیدھے راستے کی طرف چل کر اپنے گناہوں سے معافی مانگنا چاہیے۔ ٭فرمایا کہ یہ مشرکین کس قدر بد نصیب لوگ ہیں نہ تو انسانیت کے بھلے کے لئے کوئی کام کرتے ہیں نہ انہیں آخرت کی زندگی پر یقین ہے ، حالانکہ اللہ نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ جو لوگ ایمان اور صالح کی زندگی گزاریں گے ان کو ہمیشہ بہترین اجر وثواب دیا جائے گا جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا۔ (فرمایا کہ قوم عاد اور قوم ثمود کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ دونوں وہ زبردست اور طاقت ور قومیں تھیں کہ انہیں اپنی قوت و طاقت پر غرور کی حد تک ناز تھا ، وہ کہتے تھے کہ ہم سے بڑھ کر طاقت و قوت میں کوئی ہے تو وہ سامنے آئے۔ ان کی اصلاح کے لئے انبیاء کرام (علیہ السلام) تشریف لائے انہیں ہر طرح سمجھایا ۔ جب انہوں نے مسلسل نافرمانیاں کیں تو ان کو اسی طرح بنیادوں سے کھود کر رکھ دیا کہ آج ان کے کھنڈرات ان کفار اور انکار کرنے والوں کی بےبسی کا مذاق اڑا رہے ہیں جن کی تباہی ایک عبرت کا مثال بن کر رہ گئی ہے۔ ) ٭فرمایا کہ اگر یہ کفار صرف زمین و آسمان کی پیدائش پر ہی ذرا غور کرلیتے تو وہ اللہ کی توحید اور عظمت کا انکار کر ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ اللہ نے اپنی قدرت کا ملہ سے چھ دنوں میں اس ساری کائنات کو پیدا کیا ہے۔ اس نے زمین کو دو دنوں میں پیدا کر کے اس پر پہاڑوں کو بوجھ بنا کر رکھ دیا تا کہ زمین ساری مخلوق کو لے کر ایک طرف نہ ڈھلک جائے ۔ زمین و آسمان کے درمیان کی تمام چیزوں کو دونوں میں پیدا کیا ۔ آسمان جو ایک دھویں کی طرح تھا اس کو دونوں میں پیدا کیا ۔ اس طرح کائنات کو بنانے کا یہ عمل صرف چھ دنوں میں مکمل کردیا ۔ پھر آسمان کو چاند ، سورج اور ستاروں سے خوبصورتی عطاء کی ۔ زمین و آسمان سے کہا گیا کہ وہ خوشی سے یا مجبوری سے آجائیں تو انہوں نے خوشی سے عرض کیا کہ ہم حاضر ہیں ۔ اسی نے سات آسمان بنائے ہیں ۔ اب تم خود ہی فیصلہ کرلو ان تمام چیزوں کو جس ذات نے اپنی قدرت کاملہ سے بنایا ہے کیا اس کی کائنات میں دوسرا کوئی مستحق ہے کہ اس کی عبادت و بندگی کی جائے۔ ( جب یہ نافرمان لوگ جہنم کی بھڑکتی آگ میں ڈالے جائیں گے تو پھر انہیں احساس ہوگا کہ واقعی ہمیں تو ہر طرح گمراہ کیا گیا ہے۔ وہ اللہ سے درخواست کریں گے الٰہی ! اگر آج ہم ان لوگوں کو اور شیطان کو دیکھ لیں جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا ہے تو ہم ان کو اپنے پاؤں سے روند ڈالیں گے ، لیکن ان کا پچھتانا ، ان کے کسی کام نہ آسکے گا اور وہ ہمیشہ کی جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے) ٭قوم ثمود اور قوم عاد کا ذکر کر کے بتایا کہ یہ کتنی زبردست قومیں تھیں جن کو اپنی قوت و طاقت پر بڑا ناز اور گھمنڈ بھی تھا اور کہتے تھے کہ ہم سے زیادہ قوت و طاقت میں اور کون ہے ؟ لیکن جب انہوں نے اللہ کی نافرمانی کی تو اس نے ان قوموں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا اور ان کا بڑا بھیانک انجام ہوا۔ ٭قیامت کے دن جب اللہ ان دشمنان اسلام کو جمع کرے گا اور ان کے کیے ہوئے اعمال سے متعلق پوچھا جائے گا تو وہ اپنے اعمال کا انکار کریں گے تب ان کے اعضاء ہاتھ ، پاؤں ، کان ، آنکھ اور ان کی کھال تک ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ وہ حیران ہو کر ان اعضاء سے پوچھیں گے کہ تم بھی ہمارے خلاف گواہی دے رہے ہو ؟ تمہیں یہ بولنے کی طاقت کس نے دی ؟ وہ کہیں گے کہ جس اللہ نے ہر ایک کو بولنے کی طاقت دی ہے اسی نے ہمیں بھی قوت گویائی عطاء فرمائی ہے ۔ تم نے ہم سے زندگی بھر جو چاہا ہم نے تمہارا کہا مانا لیکن ہم نے اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے ساری باتیں کھول کر بیان کردی ہیں ۔ اس کے بعد ان دشمنان اسلام کو جہنم کی آگ میں جھونک دیا جائے گا ۔ ٭وہ جہنمی اللہ سے درخواست کریں گے کہ آج اگر ہم ان انسانوں اور شیطانوں کو دیکھ لیں تو انکے اپنے پاؤں روند ڈالیں گے جنہوں نے زندگی بھر ہمیں گمراہی میں ڈالے رکھا ۔ اس طرح شاید ہمارے دلوں میں ٹھنڈک پڑجائے لیکن ان کا یہ پچھتانا اور شرمندہ ہونا ان کے کسی کام نہ آئے گا اور ان کو جہنم کی آگ میں پھینک دیا جائے گا جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ ٭فرمایا کہ ایمان و عمل صالح اختیار کرنے والوں کو فرشتے یہ یقین دلائیں گے کہ ہم وقت تمہارے ساتھ ہیں ۔ ہم اللہ کے حکم سے دنیا میں بھی تمہاری مدد کرتے رہے ہیں اور ہم آخرت میں بھی تمہارے ساتھ ہوں گے اور تمہیں جنت کی راحتوں سے ہم کنار کریں گے۔ ان جنتوں میں اللہ کی طرف سے تمہاری مہمان نوازی کی جائے گی اور تمہارا دل جس چیز کو چاہے گا وہ چیز تمہیں عطاء کی جائے گی۔ ٭فرمایا کہ جو لوگ زندگی بھر نیکیوں پر قائم رہتے ہوئے دوسروں کو راہ ہدایت دکھاتے ہیں وہ ” داعی الی اللہ “ ہیں یعنی اللہ کی طرف بلانے والے وہ ہر معاملے میں نرمی اختیار کریں ۔ برائی کا جواب بھلائی سے دیں اور اس راستے میں جو حق و صداقت کا راستہ ہے اس پر ڈٹے رہیں ، صبر اور برداشت سے کام لیں۔ ٭نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ یہ منکرین جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق اڑا رہے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہر بات کا انکار کر رہے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے پریشان نہ ہوں کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے بھی پیغمبر آئے ہیں ان کے ساتھ بھی لوگوں نے یہی معاملہ کیا مگر انہوں نے اس پر صبر کیا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی صبر سے کام لیجئے۔ ہر کامیابی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدم چومے گی۔ ٭فرمایا کہ ہم نے اس قرآن کریم کو عربی زبان میں اس لئے نازل کیا ہے تا کہ وہ لوگ اس کو سمجھ سکیں ۔ اگر یہ قرآن عربی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں نازل کیا جاتا تو یہ پھر بھی مذاق اڑاتے ہوئے کہتے کہ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ رسول تو عربی ہے اور اس کی کتاب عجمی زبان میں ہے۔ فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو باتیں کرنے دیجئے کیونکہ یہ ان اندھوں کی طرح ہیں جو ہر جگہ ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔ ٭نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا گیا کہ آج اگر یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اختلاف کررہے ہیں تو یہ کوئی ایسی تعجب کی بات نہیں ہے اس سے پہلے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) توریت جیسی کتاب لے کر آئے تو انہوں نے ان سے بھی اختلاف کیا تھا اور ان کی بات ماننے سے انکار کردیا تھا۔ ٭فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے۔ وہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہیں کرتا بلکہ خود ہی یہ لوگ اپنے نفسوں اور اپنی جانوں پر ظلم کرنے کے عادی ہیں ، وہ پوچھتے ہیں کہ قیامت کب آئے گی ؟ فرمایا کہ قیامت تو ضرور آئے گی لیکن وہ دن ان جیسے ظالموں کے لیے کوئی اچھا دن نہ ہوگا اس سے بچنے کی فکر آج ہی کرنا چاہیے۔ ٭فرمایا کہ ان لوگوں کا یہ حال ہے کہ ویسے تو یہ بہت بہادر بنے پھرتے ہیں لیکن ان پر ذرا بھی مصیبت آجائے تو مایوسیوں کی انتہاؤں پر پہنچ جاتے ہیں اور اگر کچھ مل جائے تو اس پر اترانے اور غرور کرنے لگ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ ہماری محنت سے حاصل ہوا ہے اور ہم پر کسی کا احسان نہیں ہے۔ ٭اللہ نے آخر میں فرمایا کہ اگر انہوں نے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دامن اطاعت و محبت سے وابستگی اختیار نہ کی تو وہ وقت دور نہیں ہے جب اللہ تعالیٰ ان کے ارد گرد اور خود ان کی اپنی جانوں میں نشانیاں دکھائے گا ۔ علماء مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ ایک پیشن گوئی تھی جو غزوہ بندہ کے دن پوری ہوئی جب کفار کے بڑے بڑے لوگ اس جنگ میں مارے گئے ۔ ساری دنیا میں کفار ذلیل و رسوا ہوگئے اور ایک بد ترین انجام سے دو چار ہوئے۔   Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

سورة حٰمٓ السجدۃ کا تعارف یہ سورة ٥٤ آیات اور ٦ رکوع پر مشتمل ہے۔ مکہ معظمہ اور اس کے گردوپیش میں نازل ہوئی۔ ربط سورة : سورة المؤمن کا اختتام اس فرمان پر ہوا کہ مجرموں کے پاس جب بھی ان کے رسول واضح دلائل کے ساتھ آئے تو ان کی اقوام نے اپنے علم اور تجربہ پر ناز کرتے ہوئے انبیائے کرام (علیہ السلام) ک... و استہزا کا نشانہ بنایا۔ اس جرم کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کیا تو وہ پکار اٹھے کہ ہم ایک اللہ پر ایمان لاتے ہیں لیکن اس وقت ان کا ایمان ان کے لیے فائدہ مند ثابت نہ ہوا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اصول ہے کہ وہ عذاب نازل کرنے کے بعد مجرموں کو موقع نہیں دیا کرتا۔ سورة حٰم السجدۃ کی ابتداء اس فرمان سے ہو رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑا ہی مہربان اور شفقت فرمانے والا ہے۔ اس نے اپنی رحمت کی بنا پر لوگوں کی راہنمائی کے لیے مفصل کتاب نازل فرمائی ہے۔ جس میں برے لوگوں کو انتباہ کیا ہے اور اچھے لوگوں کو خوشخبری کا پیغام دیا ہے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت اس طرح اعراض کرتی ہے جس طرح انہوں نے حق بات کو سنا ہی نہیں۔ حٰمٓ سورتوں میں یہ دوسری سورة ہے اس کا آغاز قرآن مجید کے تعارفی کلمات سے ہوتا ہے جس میں بتلایا گیا ہے کہ قرآن کی دعوت دو باتوں پر مشتمل ہے۔ جو اس پر ایمان لائیں گے ان کے لیے خوشخبری ہے اور جو اس سے اعراض کریں گے انہیں کھلے الفاظ میں انتباہ کیا جاتا ہے لیکن لوگوں کی اکثریت ہمیشہ اعراض ہی کیا کرتی ہے۔ اس سورة کی ابتدا میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہلوایا گیا ہے کہ آپ لوگوں میں واضح الفاظ میں اعلان کرتے جائیں کہ میں رشتہ انسانی کے اعتبار سے تمہارے جیسا انسان ہوں مگر میرا یہ اعزاز ہے کہ میری طرف وحی آئی ہے کہ میں تمہیں سمجھاؤں اور بتلاؤں کہ تمہارا الٰہ صرف ایک ہے۔ لہٰذا اس بات پر قائم ہوجاؤ۔ ہمیشہ اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہو اور یاد رکھو جو لوگ اپنے رب کی ذات اور صفات میں کسی دوسرے کو شریک کریں گے ان کے لیے ہلاکت ہی ہلاکت ہے۔ جو لوگ اپنے رب پر ایمان لائیں گے اور اس کے احکام کو تسلیم کریں گے ان کے لیے ایسا صلہ ہے جس میں کبھی کمی واقع نہیں ہوگی۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرتے ہیں کیا انہوں نے اس بات پر کبھی غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو دو دن میں پیدا فرمایا پھر اس پر پہاڑ گاڑ دئیے۔ اس کے بعد دو دن میں سات آسمان بنائے ہر آسمان کو اس کے متعلقہ امور کا حکم دیا۔ پھر آسمان دنیا کو ستاروں سے سجایا اور شہاب ثاقب سے اس کی حفاظت کا بندوبست کیا۔ یہ ہے تمہارا رب جس نے پوری کائنات کو پیدا کیا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود اہل مکہ اللہ کی توحید کا انکار کرتے اور لوگوں کو قرآن پڑھنے اور سننے سے روکتے تھے۔ انہیں سمجھانے اور برے انجام سے آگاہ کرنے کے لیے قوم عاد کا مختصر ذکر کیا گیا ہے۔ اس سورت میں آپ کو ارشاد فرمایا کہ سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو ” اللہ “ کی توحید پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے تقاضے پورے کرتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ نیکی اور بدی، اچھائی اور برائی برابر نہیں ہوتے لہٰذا آپ برائی کا جواب نیکی اور حسن اخلاق سے دیں تاکہ تمہارا دشمن تمہارے اخلاق اور دعوت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجائے اور وہ آپ کا جگری دوست بن جائے۔ یہ مقام صبر سے حاصل ہوتا ہے۔ اگر کسی وقت آپ کو شیطان ورغلانے اور بھڑکانے کی کوشش کرے تو آپ ” اللہ “ کی پناہ مانگیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی انسان کو شیطان کی شرارتوں اور سازشوں سے بچانے والا ہے۔ حٰمٓ السجدہ کے آخر میں ان لوگوں کو خوشخبری سنائی گئی ہے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور مصائب، مشکلات کے باوجود اپنے ایمان پر پکے رہے۔ جب ان کو موت آئے گی تو ملائکہ انہیں تسلی دیں گے کہ کسی قسم کا خوف کھانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لیے جنت کی خوشخبری ہے تم اس میں ہمیشہ رہو گے اور ہم دنیا میں بھی تمہارے ساتھی تھے اور آخرت میں بھی تمہارے ساتھ ہوں گے، جنت میں جو چاہو گے سو پاؤ گے وہاں رب رحیم کی طرف سے تمہاری مہمان نوازی کی جائے گی۔ یہ مہمانوازی ان لوگوں کے نصیب میں ہوگی جو ” اللہ “ کی توحید اور اس کے تقاضے پورے کریں گے۔ سجدہ تلاوت کی دعا (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ کَانَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ فِیْ سُجُوْدِ الْقُرْاٰنِ بالَّلیْلِ سَجَدَ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ خَلَقَہٗ وَشَقَّ سَمْعَہٗ وَبَصَرَہٗ بِحَوْلِہِ وَقُوَّتِہِ فَتَبارَکَ اللّٰہُ أحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ ) [ المستد رک علی الصحیحین للحاکم ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیام اللیل میں سجدہ تلاوت کے وقت یہ دعا کرتے تھے۔ میرا چہرہ اس ذات کا مطیع ہوا جس نے اپنی قدرت سے اسے بنا کر کان اور آنکھیں عطاکیے۔ اللہ تعالیٰ بہترین پیدا کرنے والا ہے۔ “  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سورة حم السجدۃ سورة حم السجدۃ ایک نظر میں اسلامی نظریہ حیات اور اس کے اساسی عناصر اس سورت کا مرکزی مضمون ہے۔ یعنی مسئلہ الوہیت ، قیام قیامت اور وحی و رسالت ۔ ان مضامین کے ساتھ ایک مضمون یہ بھی اس سورت میں آتا ہے کہ دعوت اسلامی کا طریقہ کار کیا ہوگا اور داعی کے اخلاق کیسے ہونے چائیں۔ اس سورت می... ں جو مضامین و مباحث بھی آئے وہ انہی مسائل کی نشریح و تفصیل ہیں۔ ان موضوعات پر استدلال ہے اور آفاق اور انفس سے ان موضوعات پر دلائل جمع کیے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ جھٹلانے کے برے نتائج اور سابقہ جھٹلانے والوں کے برے انجام اور قامت کے دن جھٹلانے والوں کے حالات اور یہ بیان کہ جن وانس میں سے مکذبین ان واضح حقائق کو تسلیم نہیں کرتے۔ اور اللہ وحدہ کے سامنے نہیں جھکتے جبکہ زمین و آسمان اور شمس وقمر اور فرشتے سب کے سب اللہ کے سامنے جھکتے ہیں۔ سجدہ کرتے ہیں ، خضوع وخشوع کرتے ہیں اور سرتسلیم خم کرتے ہیں اور مطیع فرمان رہتے ہیں۔ سورت کے آغاز میں اللہ کی الوہیت کے بارے میں آتا ہے۔ قل انمآ۔۔۔۔ وویل للمشرکین (41: 6) ” اے نبی ، ان سے کہو میں تو ایک بشر ہوں تم جیسا ، مجھے وحی کے ذریعہ سے بتایا جاتا ہے کہ تمہارا بس ایک ہی خدا ہے۔ لہٰذا تم سیدھے اسی کا رخ اختیار کرو اور اس سے معافی چاہو۔ اور تباہی ہے مشرکین کیلیے “۔ قل ائنکم۔۔۔۔ رب العٰلمین (41: 9) ” اے نبی ، ان سے کہو ، کیا تم اس خدا سے کفر کرتے ہو اور دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھیراتے ہو ، جس نے زمین کو دودنوں میں بنایا۔ وہی تو سارے جہان والوں کا رب ہے “۔ عاد وثمود کے بارے میں نقل کیا جاتا ہے کہ ان کے رسولوں نے بعینہ یہی بات ان سے کہی تھی۔ الاتعبدوالا اللہ (41: 14) ” کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو “۔ اس قصے کے وسط میں آتا ہے۔ لاتسجدو۔۔۔۔ الذی خلقھن (41: 37) ” سورج و چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اس خدا کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا “۔ اور سورت کے آخر میں ہے۔ ویوم ینادیھم۔۔۔۔۔ من شھید (41: 47) ” پھر جس روز وہ ان لوگوں کو پکارے گا کہ کہاں ہیں میرے وہ شریک ؟ یہ کہیں گے ” ہم عرض کرچکے ہیں آج ہم میں سے کوئی اس کی گواہی دینے والا نہیں ہے “۔ مسئلہ آخرت کے بارے میں میں تو منکرین آخرت کو سب سے پہلے دھمکی ملتی ہے۔ وویل للمشرکین۔۔۔۔ ھم کٰفرون (41: 6 تا 7) ” تباہی ہے ان مشرکوں کے لیے جو زکوٰۃ نہیں دیتے اور آخرت کے منکر ہیں “۔ اور سورت کا خاتمہ اس پر ہوتا ہے۔ الاانھم۔۔۔۔ شیئ محیط (41: 54) ” اگاہ رہو ، یہ لوگ اپنے رب کی ملاقات میں شک رکھتے ہیں ، سب رکھو وہ ہر چیز پر محیط ہے “۔ جبکہ قیامت کے مناظر میں بھی اس کے وقوع کو بطور حقیقت پیش کیا گیا ہے بلکہ کیا گیا ہے بلکہ قیامت کے لیے بنوت اور دلیل پیش کرنے کی نسبت اس کا منظر پیش کرنا زیادہ موثر طریقہ ہے۔ اور وحی و رسالت پر اس سورت میں کافی مواد موجود ہے ، یوں لگتا ہے کہ یہ سورت کا اصل موضوع ہے ، افتتاح یوں ہوتا ہے۔ حٰم۔۔۔۔۔۔ بشرمثلکم (41: 1 تا 6) ” یہ خدائے رحمٰن ورحیم کی طرف سے نازل کردہ چیز ہے ، ایک ایسی کتاب جس کی آیات کھول کھول کر بیان کی گئی ہیں ، عربی زبان کا قرآن ، ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔ بشارت دینے والا اور ڈرادینے والا۔ مگر ان لوگوں میں سے اکثر نے اس سے روگردانی کی اور وہ سب کر نہیں دیتے۔ کہتے ہیں جس چیز کی طرف تو ہمیں بلارہا ہے اس کے لیے ہمارے دلوں پر غلاف چڑھے ہیں۔ ہمارے کان بہرے ہوگئے ہیں۔ اور ہمارے اور تیرے درمیان ایک حجاب حائل ہوگیا ہے ۔ تو اپنا کام کر ، ہم اپنا کام کیے جارہے ہیں ، کہہ دو میں تو ایک بشر ہوں تم جیسا ۔۔۔۔ “ اور اس سورت کے درمیان آتا ہے کہ مشرکین نے قرآن کا استقبال یوں کیا۔ وقال الذین۔۔۔۔ تغلبون (41: 26) ” یہ منکرین حق کہتے ہیں اس قرآن کو ہرگز نہ سنو یہ سنایا جائے تو اس میں خلل ڈالو شاید کہ اس طرح تم غالب آجاؤ “۔ اس کے بعد اس ردعمل کی تفصیلات آتی ہیں اور ان کے اقوال کا رد بھی کیا جاتا ہے۔ ان الذین۔۔۔۔۔ من مکان بعید (41: 41 تا 44) ” یہ وہ لوگ ہیں جن کے سامنے کلام نصیحت آیا تو انہوں نے ماننے سے انکار کردیا مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک زبردست کتاب ہے ، باطل نہ سامنے سے اس پر آسکتا ہے نہ پیچھے سے یہ ایک حکیم وحمید کی نازل کردہ چیز ہے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، تم کو جو کچھ کہا جارہا ہے اس میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو تم سے پہلے گزرے ہوئے رسولوں سے نہ کہی جاچکی ہو ، بیشک تمہارا رب بڑا درگزر کرنے والا ہے ، اور اس کے ساتھ بڑی درناک سزا بھی دینے والا ہے۔ اگر ہم اس کو عجمی قرآن بنا کر بھیجتے تو یہ لوگ کہتے کیوں نہ اس کی آیات کھول کر بیان کی گئیں ۔ کیا ہی عجیب بات ہے کہ کلام عجمی ہے اور مخاطب عربی ۔ ان سے کہو کہ یہ قرآن ایمان لانے والوں کے لیے تو ہدایت وشفا ہے مگر جو لوگ ایمان نہیں لاتے تو اس کے لیے یہ کانوں کی ڈاٹ اور آنکھوں کی پٹی ہے۔ ان کا حال تو ایسا ہے جیسے ان کو دور سے پکارا جارہا ہو “۔ طریقہ دعوت اسلامی اور داعی کے اخلاق کے بارے میں کہا گیا ہے۔ ومن احسن۔۔۔۔۔ ھوالسمیع العلیم (41: 33 تا 36) ” اور اس شخص کی بات سے اچھی بات کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ اور اے نبی نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو نیکی سے دفع کرو ، جو بہترین ہو ، تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے ، یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگون کو جو بڑے نصیبے والے ہیں اور تم شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ محسوس کرو ، تو اللہ کی پناہ مانگ لو ، وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے “۔ یہ مسائل گہرے شعوری دلائل اور اثر کرنے والے انداز کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں ، اس کائنات میں جو بیشمار دلائل و نشانات پائے جاتے ہیں ، ان کے دائرے کے اندر ، پھر عالم نفس کے اندر جو نشانات ہیں ، ان کے رنگ میں ، پھر انسانی تاریخ کے سفر کے ساتھ جس میں گزرے ہوئے منکرین حق کے عبرتناک نشانات ہیں اور پھر ان مسائل کو مشاہد قیامت کی آہ وفغاں کی کے رنگ بھی لایا جاتا ہے جس کا انسان پر گہرا اثر اہوتا ہے اور اس سورت کے بعض مناظر تو منفرد قسم کے ہیں اور نہایت ہی خوفناک ہیں۔ اس کائنات کے مشاہد میں زمین و آسمان کی ابتدائی تخلیق کی کہانی جسے نہایت ہی تفصیل سے لیا گیا ہے۔ قل ائنکم۔۔۔۔۔۔ العزیز العلیم (41: 9 تا 12) ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ان سے کہو ، کیا تم اس خدا سے کفر کرتے ہو اور دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھییراتے ہو ، جس نے زمین کو دو دنوں میں بنادیا ۔ وہی تو سارے جہان والوں کا رب ہے ، اس نے اوپر سے اس میں پہاڑ جما دیئے اور اس میں برکتیں رکھ دیں اور اس کے اندر سب مانگنے والوں کے لیے ہر ایک کی طلب و حاجت کے مطابق ٹھیک انداز سے خوراک کا سامان مہیا کردیا۔ یہ سب کام چار دن میں ہوگئے ، پھر وہ آسمانوں کی طرف متوجہ ہوا۔ جو اس وقت محض دھواں تھا۔ اس نے آسمان اور زمین سے کہا ، وجود میں آجاؤ، خواہ تم چاہو ، یا نہ چاہو “۔ دونوں نے کہا ؛ ہم آگئے فرمانبرداروں کی طرح “۔ تب اس نے دو دن کے اندر آسمان بنادیئے اور ہر آسمان میں اس کا قانون وحی کردیا ۔ اور آسمان دنیا کو ہم نے چراغوں سے آراستہ کیا اور اسے خوب محفوظ کردیا۔ یہ سب کچھ ایک زبردست علیم ہستی کا منصوبہ ہے “۔ ان نشانیوں ہی میں سے رات اور دن کی نشانی ہے ، شمس و قمر کی نشانی ہے ، ملائکہ کی عبادت و اطاعت کی نشانی ہے۔ زمین کی قانون قدرت کے سامنے اطارت کی نشانی اور اس پر ردئیدگی کی نشانی ہے۔ ومن اٰیٰته۔۔۔۔ شئ قدیر (41: 37 تا 39) ” اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں یہ رات اور دن اور سورج اور چاند ، سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو ، بلکہ اس خدا کو سجدہ کرو ، جس نے انہیں پیدا کیا ہے اگر فی الواقع تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو۔ لیکن اگر یہ لوگ غرور میں آکر اپنی ہر بات پر اڑے رہیں تو پرواہ نہیں ، جو فرشتے تیرے رب کے مقرب ہیں وہ شب وروز اس کی تسبیح کررہے ہیں اور کبھی نہیں تھکتے اور اللہ کی نشانیوں میں ایک یہ ہے کہ تم دیکھتے ہو زمین سونی پڑی ہوئی ہے۔ پھر جو نہی کہ ہم نے اس پر پانی برسایا ، یکایک وہ پھبک اٹھتی ہے اور پھول جاتی ہے۔ یقیناً جو خدا اس مری ہوئی زمین کو جلا اٹھاتا ہے وہ مردوں کو بھی زندگی بخشنے والا ہے۔ یقیناً وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے “۔ رہانفس انسانی تو اس کی حقیقت کو بھی اس سورت میں کھولا گیا ہے اور انسانوں کے سامنے اسے صاف صاف کھلا اور واشگاف کرکے رکھ دیا ہے۔ لایسئم الانسان۔۔۔۔۔ دعآء عریض (41: 49 تا 51) ” انسان کبھی بھلائی کی دعا مانگتے نہیں تھکتا اور جب کوئی آفت اس پر آتی ہے تو مایوس ودل شکستہ ہوتا ہے ، مگر جونہی سخت وقت گزر جانے کے بعد ہم اسے اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں ، یہ کہتا ہے کہ ” میں اس کا مستحق ہوں ، اور میں سمجھتا کہ قیامت کبھی آئے گی اگر میں واقعی اپنے رب کی طرف پلٹایا گیا تو وہاں بھی مزے کروں گا ، حالانکہ کفر کرنے والوں کو لازماً ہم بناکر رہیں گے کہ وہ کیا کر کے آئے ہیں اور انہیں ہم بڑے گندے عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ انسان کو جب ہم نعمت دیتے تو وہ منہ پھیرتا ہے اور اکڑ جاتا ہے اور اسے جب کوئی آفت چھوجاتی ہے تولمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے۔ گزشتہ اقوام کی ہلاکتوں میں ، قوم عاد اور قوم ثمود کے عذاب کو چنا گیا ہے۔ فاما عاد فاستکبروا۔۔۔۔۔ کانوایتقون (41: 15 تا 18) ” عاد کا حال یہ تھا کہ وہ زمین میں کسی حق کے بغیر بڑے بن بیٹھے اور کہنے لگے ” کون ہے ہم سے زیادہ زور آور “ ان کو یہ نہ سوجھا کہ جس خدا نے ان کو پیدا کیا ہے وہ ان سے زیادہ زور آور ہے ، وہ ہماری آیات کا انکار ہی کرتے رہے۔ آخر کار ہم نے چند منحوس دنوں میں سخت طوفانی ہوا ان پر بھیج دی تاکہ انہیں دنا ہی کی زندگی میں ذلت اور رسوائی کا مزہ چکھادیں اور آخرت کا عذاب تو اس سے بھی زیادہ رسواکن ہے۔ وہاں کوئی ان کی مدد کرنے والا نہ ہوگا۔ رہے ثمود تو ان کے سامنے ہم نے راہ راست پیش کی مگر انہوں نے رستہ دیکھنے کے بجائے اندھا رہنا پسند کیا۔ آخر ان کے کرتوتوں کی بدولت ذلت کا عذاب ان پر ٹوٹ پڑا اور ہم نے ان لوگوں کو بچالیا جو ایمان لائے تھے اور گمراہی اور بدعملی سے پر ہیز کرتے تھے۔ اس سورت کے نہایت ہی موثر مشاہد قیامت میں سے ، بعض یہ ہیں : ویوم یحشر۔۔۔۔۔ الیه ترجعون (41: 19 تا 21) اور ذرا اس وقت کا خیال کروجب اللہ کے یہ دشمن دوزخ کی طرف جانے کے لیے گھیرلائے جائیں گے۔ ان کے اگلوں کو پچھلوں کے آنے تک روک رکھا جائے گا۔ پھر جب سب وہاں پہنچ جائیں گے تو ان کے کان ، ان کی آنکھیں اور ان کے جسم کی کھالیں ان پر گواہی دیں گی کہ وہ دینا میں کیا کرتے رہے ہیں۔ وہ اپنے جسم کی کھالوں سے کہیں گے ” تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی ؟ وہ جواب دیں گے ہمیں اس خدا نے گویائی دی جس نے ہر چیز کو گویا کردیا ہے۔ اس نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا ، اب اس کی طرف تم واپس لائے جارہے ہو “۔ اور ایک وہ آیت جس میں دھوکہ دینے والوں پر ان لوگوں کا طیش جنہوں نے دھوکہ کھایا۔ وقال الذین۔۔۔۔ من الاسفلین (41: 29) ” وہاں یہ کافر کہیں گے ” اے ہمارے رب ، ذرا ہمیں دکھا دے ان جنوں اور انسانوں کو جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا ، ہم انہیں پاؤں تلے روند ڈالیں گے تاکہ وہ خوب ذلیل و خوار ہوں “۔ یوں اس سورت میں اسلام کے بنیادی عقائد گہرے موثر دلائل کیے جاتے ہیں۔ ان موثر دلائل و مناظر ہی سے اس سورت کی فضا ، مزاج اور رنگ ڈھنگ کا پتہ بھی چلتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سورت کے آغاز سے لے کر اختتام تک یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہم زمین ، آسمان اور دنیا وآخرت اور نفس انسانی کی گہرائیوں کی سیر کررہے ہیں اور نہایت موثر مناظر و دلائل دیکھ رہے ہیں۔ اس سفر سے قلب ونظر کی تاروں سے تازہ بتازہ زمزمہ اٹھتا ہے۔ سورت میں دوہی سبق ہیں اور اپنے موضوعات اور ان پر دلائل ومناظر لے کر آگے بڑھتی ہے اور کڑیوں سے ملتی چلی جاتی ہیں۔ پہلا سبق ان آیات سے شروع ہوتا ہے جو نزول کتاب سے متعلق ہیں ۔ کتاب کی نوعیت اور اس کے بارے میں مشرکین کا موقف بیان ہوا ہے۔ اس کے بعد زمین و آسمانوں کی تخلیق اور عادوثمود کے واقعات اور آخرت میں ان کے خلاف خود ان کے اعضا اور ان کی کھالوں کی شہادت کا منظر ہے ، اس کے بعد یہ کہ دنیا میں وہ کس طرح گمراہ ہوئے ، یوں کہ جن وانس کے کچھ ساتھی ان پر مسلط ہوگئے ، انہوں نے ان کے اعمال کو ان کے لیے خوشنما بنادیا ، کفا رکا یہ مشورہ کہ قرآن کو نہ سنو اور قیامت میں کافروں کی یہ خواہش کہ اللہ جن دوافراد نے ہمیں گمراہ کیا ان کو سامنے لایئے کہ ان کو روند ڈالیں ۔ دوسری جانب اہل ایمان ہیں جن پر ملائکہ نازل ہوتے ہیں اور جو اپنی دعوت پر استقامر سے گامزن ہیں۔ یہ فرشتے ان کو دنیا وآخرت میں خوشخبری دیتے ہیں۔ یہ اچھے ساتھی ہیں اور پھر دعوت اور داعی کے لیے ہدایات ۔ دوسرے سبق کا آغاز گردش لیل ونہار شمس وقمر سے ہوتا ہے ، پھر ملائکہ عبادت گزار اور زمین اور اس کی سرسبزیاِں۔ پھر کتاب الہٰی کا موضوع اور اس میں الحاد کرنے والے ، کتاب موسیٰ اور اس میں اس کی قوم کا اختلاف اور آخرت میں اختلاف موسیٰ کا فیصلہ دغیرہ مضامین آتے ہیں۔ اس کے بعد یہ کہ قیامت کا علم اللہ کو ہے۔ اور پھر اللہ کے علم کی وسعت کا عجیب بیان کہ تمام پھوٹنے والے پودوں ، کلیوں ، رحموں کی حالت اور ان میں پیدا ہونے والوں پر اللہ کا علم محیط ہے۔ قیامت کا منظر جہاں کافر اپنے شریک کیے ہوئے معبودوں کو تلاش کریں گے۔ نفس انسانی کی حالت اور انسان کی بےاحتیاطیاں اور تکذیب کفر اور اس کے نتیجے میں ہلاکت اور آخر میں یہ وعدہ کہ اللہ النفس وآفاق میں اپنی نشانیوں کو عنقریب ظاہر کردے گا ! سنریھم اٰیٰتنا۔۔۔۔۔ شیئ محیط (41: 54) ” عنقریب ہم انکو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھادیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ ان پر بات کھل جائیگی کہ یہ فرمان واقعی برحق ہے کیا یہ کافی نہیں ہے کہ تیرا رب ہر چیز کا شاہد ہے۔ آگاہ رہو ، یہ لوگ اپنے رب کی ملاقات میں شک رکھتے ہیں۔ سن رکھو وہ ہر چیز پر محیط ہے۔ اس آخری تبصرے پر یہ سورت ختم ہوتی ہے۔   Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi