Surat Ha meem Assajdah

Surah: 41

Verse: 38

سورة حم السجدہ

فَاِنِ اسۡتَکۡبَرُوۡا فَالَّذِیۡنَ عِنۡدَ رَبِّکَ یُسَبِّحُوۡنَ لَہٗ بِالَّیۡلِ وَ النَّہَارِ وَ ہُمۡ لَا یَسۡئَمُوۡنَ ﴿۳۸﴾ٛ

But if they are arrogant - then those who are near your Lord exalt Him by night and by day, and they do not become weary.

پھر بھی اگر یہ کبر و غرور کریں تو وہ ( فرشتے ) جو آپ کے رب کے نزدیک ہیں وہ تو رات دن اس کی تسبیح بیان کر رہے ہیں اور ( کسی وقت بھی ) نہیں اکتاتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَإِنِ اسْتَكْبَرُوا ... But if they are too proud, i.e., to worship Him Alone, and they insist on associating others with Him, ... فَالَّذِينَ عِندَ رَبِّكَ ... then there are those who are with your Lord (i.e., the angels), ... يُسَبِّحُونَ لَهُ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَهُمْ لاَ يَسْأَمُونَ glorify Him night and day, and never are they tired. This is like the Ayah: فَإِن يَكْفُرْ بِهَا هَـوُلاءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْماً لَّيْسُواْ بِهَا بِكَـفِرِينَ But if these disbelieve therein, then, indeed We have entrusted it to a people who are not disbelievers therein. (6:89)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٧] اللہ کی تسبیح میں ہمہ وقت مشغول رہنے والے فرشتے :۔ اپنے شرک اور اپنی جہالت پر ڈٹے رہیں اور آپ کی بات تسلیم کرنے میں اپنی توہین سمجھیں تو اپنی ہی تباہی کا سامان کر رہے ہیں کیونکہ اللہ ان کی نافرمانی یا فرمانبرداری سے بےنیاز ہے اور اس کے پاس فرشتوں کی ایک عظیم جمعیت موجود ہے جو اس کے حکم سے تدبیر امور کائنات کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔ انہیں اللہ کے حکم سے سرتابی کی مجال نہیں۔ وہ وہی کچھ کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے علاوہ ازیں وہ اس کی تسبیح وتحمید میں بھی ہر وقت مشغول رہتے ہیں یہی ان کی غذا اور یہی ان کا وظیفہ حیات ہے۔ وہ اپنے قول اور فعل سے اس بات کی شہادت دے رہے ہیں کہ کائنات کی ایک ایک چیز کا خالق ومالک صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ پھر اگر یہ لوگ ان حقائق کے علی الرغم اللہ کے شریک بنانے پر ہی تلے بیٹھے ہیں تو ان کی اس جہالت سے حقائق تو نہیں بدل سکتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) فان استکبروا :” پھر اگر وہ تکبر کریں “ یعنی یہ سب کچھ سن کر بھی اگر وہ اپنی بات چھوڑنے کو ذلت سمجھیں، سورج چاند اور مخلوق کو سجدہ کرنے پر اڑے رہیں اور اپنی جھوٹی عزت اور بڑائی کی وجہ سے جہالت اور شرک پر اصرار کرتے چلے جائیں۔ (٢) یعنی اگر مشرکین اس قدر مغرور اور متکبر ہوگئے ہیں کہ اکیلے اللہ کو سجدہ کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں تو سمجھتے رہیں ، اللہ تعالیٰ ان کا محتاج نہیں۔ اس کی عظمت کا تو یہ عالم ہے کہ وہ مقرب ترین فرشتے جو اس کے پاس ہیں، اس کا عرش اٹھائے ہوئے ہیں، یا عرش کے اردگرد یا اس کے نیچے عاجزی سے کھڑے ہیں۔ (دیکھیے مومن : ٧) جن کے ذریعے سے ساری کائنات کے معاملات کی تدبیر ہو رہی ہے۔ وہ سب دن رات اس کی تسبیح کر رہے ہیں، یعنی اس بات کی شہادت دے رہے ہیں اور اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ ان کا مالک اس سے پاک ہے کہ اس کے رب ہونے میں یا اس کے معبود برحق ہونے میں کوئی اس کا شریک ہو۔ مزید دیکھیے سورة انبیاء (١٩، ٢٠) اور سورة اعراف (٢٠٦) ۔ اب اگر چند احمق سمجھانے پر نہیں سمجھتے اور ساری کائنات کی شہادت کو رد کر کے اپنی عزت اور بڑائی کے جھوٹے گمان پر اڑے ہوئے ہیں تو وہ اپنا ہی نقصان کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑیں گے۔ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے تسلی بھی ہے۔ (٣) جو لوگ عرش الٰہی کے منکر ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات کو کائنات سے الگ سب سے بلندی پر نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نہ اوپر ہے نہ نیچے، نہ کائنتا کے اندر ہے نہ اس سے باہر، وہ لفظ ” فالذین عندربک “ (وہ فرشتے جو تیرے رب کے پاس ہیں) کی عجیب و غریب تاویلیں کرتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ رب تعالیٰ کے ہاں بڑا مقام و متربہ رکھتے ہیں، کبھی کچھ کہتے ہیں کبھی کچھ، مگر رحمٰن کے عرش کو فرشتوں کے اٹھائے ہونے کے صریح الفاظ ان کی ایسی تمام تاویلوں کا تار و پود بکھیر دیتے ہیں۔ تفصیل کے لئے دیکھیے سورة مومن (٧) اور سورة حاقہ (١٧) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَهُمْ لَا يَسْأَمُونَ (and they do not get weary. - 38) This is one of the verses called ` Verses of sajdah& the recitation of which makes it obligatory to perform sajdah (prostration) for the one who recites them and the one who listens to them. This sajdah is called sajdah of tilawah. There is consensus of the Ummah on the point that sajdah of tilawah is wajib (obligatory) in this Surah, but the scholars differ regarding the exact place where it becomes wajib. Qadi Abu Bakr Ibn-ul-` Arabi has written in Ahkam-ul-Qur&an that Sayyidna ` Aliand Sayyidna Ibn Masud (رض) used to prostrate at the end of the verse 37 i.e. at the end ofإِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ (if it is Him whom you worship.) Imam Malik has adopted this very stance. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) ، however, used to prostrate at the end of the verse 38 i.e. at the end of لَا يَسْأَمُونَ ۩ (and they do not get weary.) Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Umar (رض) has also advised prostration at this place. Masruq, Abu ` Abdur Rahman Sulami, Ibrahim Nakha` i, Ibn Sirin, Qatadah, etc., and most jurists used to prostrate at verse 38, i.e. at the end of لَا يَسْأَمُونَ ۩. Imam Abu Bakr Jassas has said in Ahkam-ul-Qur&an that this has been the view of all the leading Hanafi scholars. He has further said that in view of the differences, it is on the safer side to prostrate at the end of the verse 38, because even if prostration becomes wajib at the end of the verse 37, then the obligation would be discharged if it is performed after the recitation of the verse 38, and if it becomes wajib at the verse 38, then, the discharge of obligation (if it is performed after verse 38) is more obvious.

(آیت) وَهُمْ لَا يَسْـَٔــمُوْنَ ۔ اس پر تو امت کا اجماع ہے کہ اس سورت میں سجدہ تلاوت واجب ہے مقام سجدہ میں علماء کا اختلاف ہے۔ قاضی ابوبکر ابن العربی نے احکام القرآن میں لکھا ہے کہ حضرت علی اور ابن مسعود (رض) پہلی آیت کے ختم پر سجدہ کرتے تھے یعنی (آیت) اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ پر اور اسی کو امام مالک نے اختیار فرمایا ہے اور حضرت ابن عباس دوسری آیت کے آخر یعنی لا یسمون پر سجدہ کرتے تھے۔ اور حضرت عبداللہ بن عمر نے بھی یہی فرمایا کہ دوسری آیت کے ختم پر سجدہ کریں۔ مسروق، ابو عبدالرحمن سلمی، ابراہیم نخعی، ابن سیرین، قتادہ وغیرہ، جمہور فقہاء لا یسمون۔ ہی پر سجدہ کرتے تھے۔ امام ابوبکر جصاص نے احکام القرآن میں فرمایا کہ یہی مذہب تمام ائمہ حنفیہ کا ہے اور فرمایا کہ اختلاف کی بنا پر احتیاط بھی اسی میں ہے کہ دوسری آیت کے ختم پر سجدہ کیا جائے کیونکہ اگر سجدہ پہلی آیت سے واجب ہوچکا ہے تو وہ اب ادا ہوجائے گا اور اگر اسی آیت سے واجب ہے تو اس کا ادا ہونا خود ظاہر ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِنِ اسْـتَكْبَرُوْا فَالَّذِيْنَ عِنْدَ رَبِّكَ يُسَبِّحُوْنَ لَہٗ بِالَّيْلِ وَالنَّہَارِ وَہُمْ لَا يَسْـَٔــمُوْنَ۝ ٣٨۞ الاسْتِكْبارُ والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة . والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين : أحدهما : أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود . والثاني : أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] . ( ک ب ر ) کبیر اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔ الاستکبار ( استتعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

پھر یہ لوگ ایمان لانے اور عبادت خداوندی سے تکبر کریں تو جو فرشتے آپ کے رب کے مقرب ہیں وہ رات دن اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور عبادت خداوندی سے ذرا نہیں بیزار ہوتے اور تھکتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٨{ فَاِنِ اسْتَکْبَرُوْا فَالَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّکَ یُسَبِّحُوْنَ لَہٗ بِالَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَہُمْ لَا یَسْئَمُوْنَ } ” پس (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) اگر وہ استکبار کریں تو (پروا نہیں) وہ جو آپ کے رب کے پاس ہیں وہ دن رات اس کی تسبیح میں لگے ہوئے ہیں اور وہ (اس سے ) تھکتے نہیں۔ “ اگر یہ لوگ تکبر کی بنا پر مجھے سجدہ کرنے کو تیار نہیں تو مجھے ان کی کوئی ضرورت نہیں۔ میرے پاس تو فرشتوں کی فوجیں ہیں جو دن رات مسلسل میری تسبیح اور حمد میں لگے رہتے ہیں۔ اس بارے میں فرشتوں کا یہ بیان ہم سورة البقرہ کی آیت ٣٠ میں پڑھ چکے ہیں : { وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَط } ” اور ہم آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کی تقدیس میں لگے ہوئے ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

45 "If they show arrogance": If they think it is beneath them to listen to you and persist still in the ignorance in which they are involved. 46 It means this: "The system of this whole universe, whose agents these' angels are, is running on the basis of Allah's Oneness and His servitude. The angels who are its agents are testifying every moment that their Lord is pure and exalted far above that another should be His associate in His Divinity and worship. Now, if a few foolish persons do not believe even after admonition, and turn away from the way that is being followed by the whole universe and persist in following the way of shirk only, Iet them remain involved in their folly." The consensus is that it is obligatory to perform sajdah (prostration) here, but the jurists differ as to which of the two preceding verses requires the performance of sajdah. Hadrat 'Ali and Hadrat 'Abdullah bin Mas'ud performed the sajdah at the end of v. 37, while Hadrat Ibn 'Abbas, Ibn 'Umar, Said bin Musayyab, Masruq, Qatadah, Hasan Basri, Abu 'Abdur Rahman as-Sulami, Ibn Sirin, Ibrahim Nakha'i and several other prominent jurists have expressed the opinion that it should be performed at the end of v. 38. The same also is the opinion of Imam Abu Hanifah, and the Shafe'ites also have held the same view as preferable.

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :45 غرور میں آ کر سے مراد یہ ہے کہ اگر یہ تمہاری بات مان لینے میں اپنی ذلت سمجھ کر اسی جہالت پر اصرار کیے چلے جائیں جس میں یہ مبتلا ہیں ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :46 مطلب یہ ہے کہ پوری کائنات کا نظام ، جو ان فرشتوں کے ذریعہ سے چل رہا ہے ، اللہ کی توحید اور اسی کی بندگی میں رواں دواں ہے ، اس نظام کے منتظم فرشتے ہر آن یہ شہادت دے رہے ہیں کہ ان کا رب اس سے پاک اور منزہ ہے کہ کوئی خداوندی اور معبودیت میں اس کا شریک ہو ۔ اب اگر چند احمق سمجھانے پر نہیں مانتے اور ساری کائنات جس راستے پر چل رہی ہے اس سے منہ موڑ کر شرک ہی کی راہ پر چلنے پر اصرار کیے جاتے ہیں تو پڑا رہنے دو ان کو اپنی اس حماقت میں ۔ اس مقام کے متعلق یہ امر تو متفق علیہ ہے کہ یہاں سجدہ لازم آتا ہے ، مگر اس امر میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہو گیا ہے کہ اوپر کی دونوں آیتوں میں سے کس پر سجدہ کرنا چاہیے ۔ حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما : اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ پر سجدہ کرتے تھے ۔ اسی قول کو امام مالک نے اختیار کیا ہے ، اور ایک قول امام شافعی سے بھی اسی کی تائید میں منقول ہے ۔ لیکن حضرات ابن عباس ، ابن عمر ، سعید بن المسیّب ، مسرق ، قتادہ ، حسن بصری ، ابو عبدالرحمٰن السُّلَمِی ، ابن سیرین ، ابراہیم نَخَعی اور متعدد دوسرے اکابر : وَھُمْ لَا یَسْئَمُوْنَ پر سجدے کے قائل ہیں ۔ یہی امام ابو حنیفہ کا قول بھی ہے اور شافعیوں کے ہاں بھی مرجَّح قول یہی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

16: یہ آیت سجدہ ہے، یعنی جو شخص اس کی تلاوت کرے، یا کسی کو تلاوت کرتے ہوئے سنے، اس پر ایک سجدہ کرنا واجب ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(41:38) فان استکبروا : ان شرطیہ ہے۔ استکبروا ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب۔ استکبار (استفعال) مصدر بمعنی گھمنڈ کرنا۔ غرور کرنا۔ اگر پھر بھی وہ اپنے غرور پر اڑے رہیں۔ اس کے بعد اجزاء شرط محذوف ہے ای فلا یخل ذلک لعظمۃ ربک (ان کے اس فعل سے) تیرے رب کی عظمت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ (جزاء کے قائم مقام جزاء کی علت کو ذکر کیا گیا ہے) فالذین میں فاء تعلیل کی ہے یعنی ان کے استکبار سے خدا کی عظمت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ اس کی عظمت کے لئے تو کسی مخلوق کی عبادت کی بھی ضرورت نہیں لیکن اگر بالفرض عبادت گزاروں ہی کا ذکر ہے تو وہ ملائکہ مقربین جو اپنے مرتبہ و منزلت میں ان مستکبرین سے بدر جہا اعلیٰ وارفع ہیں اور ان گنت تعداد میں ہیں اس کی حمد و ثنا ہیں رات دن مشغول ہیں اور نہ تھکتے ہیں اور نہ اکتاتے ہیں۔ الذین اسم موصول جمع مذکر۔ عند ربک ای فی حضرۃ قدسہ عزوجل : جو رب العزت کی بارگاہ میں رہتے ہیں ۔ وہم لایسئمون : جملہ حالیہ ہے اور ان کی حالت یہ ہے کہ وہ کبھی (اس کی تسبیح سے) تھکتے نہیں ہیں۔ لایسئمون ۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب۔ سأمۃ وسأم (باب سمع) مصدر سے س ء م مادہ۔ السامۃ کے معنی کسی چیز کے زیادہ عرصہ تک تہنے کی وجہ سے اس سے کبیدہ خاطر یا دل برداشتہ ہوجانا کے ہیں۔ اور یہ فعلا (کسی کام کو زیادہ عرصہ کرنے) اور انفعالا (کسی چیز سے زیادہ متاتر ہونے) دونوں طرح ہوتا ہے۔ اول الذکر کی مثال آیت ہذا ہے۔ ثانی الذکر کی مثال قول شاعر ؎ سئمت تکالیف الحیوۃ ومن یعش ثمانین حولا لا ابالک یسئام میں زندگی کی ناخوشگواریوں سے اکتا چکا ہوں۔ ہاں جو شخص اسی سال کی عمر کو پہنچ جائے وہ لامحالہ اکتاہی جاتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی اگر مشرکین اس قدر مغرور و سرکش ہوگئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنا اپنے شایان شان نہیں سمجھتے تو نہ سمجھیں، اللہ تعالیٰ ان کا محتاج نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت کا تو یہ عالم ہے کہ بیشمار مقرب تریں فرشتے جن کے ذریعہ پوری کائنات کا نظام چل رہا ہے دن رات اس کی عبادت اور تسبیح و تقدیس میں مشغول رہتے ہیں اور کبھی نہیں اکتاتے۔ یہ لوگ جھوٹے پندار میں مبتلا رہ کر کسی اور کا نہیں اپنا ہی نقصان کریں گے۔ اس مقام پر سجدہ ہونے میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے۔ صرف محل سجدہ میں اختلاف ہے۔ بعض صحابہ (رض) ایاہ تعبدون اور بعض لا یسمون پر سجدہ کرتے تھے۔ ( قرطبی وغیرہ)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس کا قریب الفہم مفہوم تو یہی ہے کہ اللہ کے پاس کی مخلوق سے مراد ملائکہ ہیں۔ لیکن اللہ کے مقرب بندوں پر مشتمل کوئی اور مخلوق بھی اس سے مراد ہو سکتی ہے۔ اللہ کی مخلوقات کے بارے میں تو ہم بہت کم جانتے ہیں۔ وہ لوگ جو رب کے ہاں ہیں وہ ارفع و اعلیٰ مخلوق ہیں ، وہ زیادہ مکرم اور مثالی لوگ ہیں۔ یہ اللہ کے مقابلے میں اس طرح کبر نہیں کرتے جس طرح زمین کی یہ کمزور مخلوق انسان کرتا ہے ، نہ وہ اس طرے میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ہم اللہ کے مقربین ہیں اور نہ وہ رات اور دن کے کسی بھی وقت اللہ کی تسبیح کرنے سے رکتے یا تھکتے ہیں۔ وھم لا یسئمون (٤١ : ٣٨) ” کبھی نہیں تھکتے “۔ لہٰذا اگر اہل امین سب کے سب ہی اللہ کی بندگی چھوڑ دیں تو اللہ کی پرستش میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ذرا اس زمین کو تو دیکھیں جس میں وہ رہتے ہیں ، جس سے وہ پیدا ہوتے ہیں۔ اور جس کی طرف لوٹا کر دفنائے جائیں گے۔ یہ زمین جس کے اوپر یہ چیونٹیوں جیسے پھرتے ہیں ان کے کھانے پینے کا کوئی سامان بھی اس زمین کے سوا کہیں نہیں ہے۔ یہ زمین بھی نہایت خشوع میں اللہ کے سامنے سہمی ہوتی ہے۔ مردہ ہوجاتی ہے تو اللہ ہی اسے زندہ اور سرسبز و شاداب کردیتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(فَاِِنْ اسْتَکْبَرُوْا) (الآیۃ) سو اگر وہ لوگ تکبر اختیار کریں اور آپ کی بات ماننے میں عار سمجھیں اور غیر اللہ کو سجدہ کرنے سے باز نہ آئیں تو انہیں بتادیں کہ اللہ تعالیٰ کسی کی عبادت اور سجود کا محتاج نہیں ہے تم اسے سجدہ کرو یا نہ کرو اس کی ذات عالی صفات بہرحال بلند اور برتر ہے اس کی بارگاہ اقدس میں جو فرشتے حاضر ہیں وہ ہمہ تن اور ہر وقت تسبیح میں مشغول رہتے ہیں ذرا بھی نہیں اکتاتے اور اسے ان کی تسبیح اور عبادت کی بھی حاجت نہیں ہے۔ زمین کا خشک ہو کر زندہ ہوجانا بھی اللہ کی نشانی ہے

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

36:۔ ” فان استکبروا “ یہ ادخال الٰہی ہے اور پر غرور معاندین پر زجر ہے۔ اگر یہ لوگ کبر و غرور سے انکار و جحود پر قائم رہیں اور اللہ کی خالص عبادت نہ کریں تو کیا ان کے سوا اللہ کی خالص عبادت کرنے والا کوئی نہیں ؟ اللہ کے فرشتے جن کی تعداد اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، ہر وقت رات دن اللہ کی تسبیح و تقدیس میں لگے رہتے ہیں۔ اور پھر تھکتے اور اکتاتے بھی نہیں اس لیے اللہ کی عبادت کرنے یا نہ کرنے میں تمہارا ہی نفع یا نقصان ہے۔ اگر تم عبادت کرو گے تو ہمیں اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اور اگر نہیں کرو گے تو اس میں ہمارا کوئی نقصان نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(38) پھر اگر یہ لوگ تکبر کا اظہار کریں اور غرور کریں تو آپ ان کی پرواہ نہ کیجئے کیونکہ وہ لوگ یعنی فرشتے جو آپ کے پروردگار کے پاس ہیں اور آپ کے پروردگار کے مقرب ہیں وہ رات دن اس اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتے ہیں اور وہ عبادت کرتے ہوئے ذرا نہیں تھکتے۔ مطلب یہ ہے کہ توحید کے اعتراف اور اقرار میں اور صرف وحدہ لاشریک کے عبادت کرنے میں انہی کا فائدہ ہے لیکن اگر یہ اپنے ہی فائدے کو ترک کرتے ہیں تو یہ ان کی حماقت اور بےوقوفی ہے اللہ تعالیٰ کو تو عبادت اور اس کی پاکی اور بڑائی بیان کرتے رہتے ہیں اور باوجود اس قدر محنت شاقہ کے تھکتے ہی نہیں تو پھر جس دربار میں بیشمار عبادت گزار موجود ہوں وہاں اگر یہ دین حق کے منکر اس عالی شان سرکار کی عبادت سے سرتابی کریں تو سوائے اس کے کہ ان منکروں ہی کا نقصان ہو اللہ تعالیٰ کو کیا نقصان ہوسکتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی یہ کیا چیز ہیں اور ان کا غرور کیا چیز ہے۔