Surat us Shooraa

Surah: 42

Verse: 15

سورة الشورى

فَلِذٰلِکَ فَادۡعُ ۚ وَ اسۡتَقِمۡ کَمَاۤ اُمِرۡتَ ۚ وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَہُمۡ ۚ وَ قُلۡ اٰمَنۡتُ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنۡ کِتٰبٍ ۚ وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ اَللّٰہُ رَبُّنَا وَ رَبُّکُمۡ ؕ لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَ لَکُمۡ اَعۡمَالُکُمۡ ؕ لَا حُجَّۃَ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ ؕ اَللّٰہُ یَجۡمَعُ بَیۡنَنَا ۚ وَ اِلَیۡہِ الۡمَصِیۡرُ ﴿ؕ۱۵﴾

So to that [religion of Allah ] invite, [O Muhammad], and remain on a right course as you are commanded and do not follow their inclinations but say, "I have believed in what Allah has revealed of the Qur'an, and I have been commanded to do justice among you. Allah is our Lord and your Lord. For us are our deeds, and for you your deeds. There is no [need for] argument between us and you. Allah will bring us together, and to Him is the [final] destination."

پس آپ لوگوں کو اسی طرف بلاتے رہیں اور جو کچھ آپ سے کہا گیا ہے اس پر مضبوطی سے جم جائیں اور ان کی خواہشوں پر نہ چلیں اور کہہ دیں کہ اللہ تعالٰی نے جتنی کتابیں نازل فرمائی ہیں میرا ان پر ایمان ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تم میں انصاف کرتا رہوں ہمارا اور تم سب کا پروردگار اللہ ہی ہے ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیئے ہیں ہم تم میں کوئی کٹ حجتی نہیں اللہ تعالٰی ہم ( سب ) کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف لوٹنا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

This Ayah includes ten separate and independent ideas, each of which is a ruling on its own. They (the scholars) said that there is nothing else like it in the Qur'an, apart from Ayat Al-Kursi (2:255), which also includes ten ideas. فَلِذَلِكَ فَادْعُ ... So unto this then invite (people), means, `so call people to this which We have revealed to you and which We enjoi... ned upon all the Prophets before you,' the Prophets of major ways (of Shariah) that were followed, such as the Messengers of strong will, and others. ... وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ ... and stand firm as you are commanded, means, `adhere firmly, you and those who follow you, to the worship of Allah as He has commanded you.' ... وَلاَ تَتَّبِعْ أَهْوَاءهُمْ ... and follow not their desires, means, the desires of the idolators, in the falsehoods that they have invented and fabricated by worshipping idols. ... وَقُلْ امَنتُ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِن كِتَابٍ ... but say: "I believe in whatsoever Allah has sent down of the Book..." means, `I believe in all the Books that have been revealed from heaven to the Prophets; we do not differentiate between any of them.' ... وَأُمِرْتُ لاِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ ... and I am commanded to do justice among you. means, when judging according to the commands of Allah. ... اللَّهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ ... Allah is our Lord and your Lord. means, `He is the One Who is to be worshipped, and there is no true God but He. We affirm this willingly, and even though you do not do so willingly, everyone in the universe prostrates to Him obediently and willingly.' ... لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ ... For us our deeds and for you your deeds. means, `we have nothing to do with you.' This is like the Ayah: وَإِن كَذَّبُوكَ فَقُل لِّى عَمَلِى وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ أَنتُمْ بَرِييُونَ مِمَّأ أَعْمَلُ وَأَنَاْ بَرِىءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ And if they demy you, say: "For me are my deeds and for you are your deeds! You are innocent of what I do, and I am innocent of what you do!" (10:41) ... لاَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ... There is no dispute between us and you. Mujahid said, "This means, no argument." As-Suddi said, "This was before Ayah of the sword was revealed." This fits the context, because this Ayah was revealed in Makkah, and Ayah of the sword (22:39-40) was revealed after the Hijrah. ... اللَّهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا ... Allah will assemble us (all), (means, on the Day of Resurrection). This is like the Ayah: قُلْ يَجْمَعُ بَيْنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَحُ بَيْنَنَا بِالْحَقِّ وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ Say: "Our Lord will assemble us all together, then He will judge between us with truth. And He is the Just Judge, the All-Knower of the true state of affairs." (34:26). ... وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ and to Him is the final return. means, the final return on the Day of Reckoning.   Show more

تمام انبیاء کی شریعت یکساں ہے ۔ اس آیت میں ایک لطیفہ ہے جو قرآن کریم کی صرف ایک اور آیت میں پایا جاتا ہے باقی کسی اور آیت میں نہیں وہ یہ کہ اس میں دس کلمے ہیں جو سب مستقل ہیں الگ الگ ایک ایک کلمہ اپنی ذات میں ایک مستقل حکم ہے یہی بات دوسری آیت یعنی آیت الکرسی میں بھی ہے پس پہلا حکم تو یہ ہوتا ہے ک... ہ جو وحی تجھ پر نازل کی گئی ہے اور وہی وحی تجھ سے پہلے کے تمام انبیاء پر آتی رہی ہے اور جو شرع تیرے لئے مقرر کی گئی ہے اور وہی تجھ سے پہلے تمام انبیاء کرام کے لئے بھی مقرر کی گئی تھی تو تمام لوگوں کو اس کی دعوت دے ہر ایک کو اسی کی طرف بلا اور اسی کے منوانے اور پھیلانے کی کوشش میں لگا رہ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت و وحدانیت پر تو آپ استقامت کر اور اپنے ماننے والوں سے استقامت کر مشرکین نے جو کچھ اختلاف کر رکھے ہیں جو تکذیب و افتراء ان کا شیوہ ہے جو عبادت غیر اللہ ان کی عادت ہے خبردار تو ہرگز ہرگز ان کی خواہش اور ان کی چاہتوں میں نہ آجانا ۔ ان کی ایک بھی نہ ماننا اور علی الاعلان اپنے اس عقیدے کی تبلیغ کر کہ اللہ کی نازل کردہ تمام کتابوں پر میرا ایمان ہے میرا یہ کام نہیں کہ ایک کو مانوں اور دوسری سے انکار کروں ، ایک کو لے لوں اور دوسری کو چھوڑ دوں ۔ میں تم میں بھی وہی احکام جاری کرنا چاہتا ہوں جو اللہ کی طرف سے میرے پاس پہنچائے گئے ہیں اور جو سراسر عدل اور یکسر انصاف پر مبنی ہیں ۔ معبود برحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ہمارا تمہارا معبود برحق وہی ہے اور وہی سب کا پالنہار ہے گو کوئی اپنی خوشی سے اس کے سامنے نہ جھکے لیکن دراصل ہر شخص بلکہ ہر چیز اس کے آگے جھکی ہوئی ہے اور سجدے میں پڑی ہوئی ہے ہمارے عمل ہمارے ساتھ ۔ تمہاری کرنی تمہیں بھرنی ۔ ہم تم میں کوئی تعلق نہیں جیسے اور آیت میں ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو تو کہہ دے کہ میرے لئے میرے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال ہیں ۔ تم میرے اعمال سے بری اور میں تمہارے اعمال سے بیزار ۔ ہم تم میں کوئی خصومت اور جھگڑا نہیں ۔ کسی بحث مباحثے کی ضرورت نہیں ۔ حضرت سدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ حکم تو مکہ میں تھا لیکن مدینے میں جہاد کے احکام اترے ۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو کیونکہ یہ آیت مکی ہے اور جہاد کی آیتیں ہجرت کے بعد کی ہیں قیامت کے دن اللہ ہم سب کو جمع کرے گا جیسے اور آیت میں ہے ( قُلْ يَجْمَعُ بَيْـنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَـحُ بَيْـنَنَا بِالْحَقِّ ۭ وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِـيْمُ 26؀ ) 34- سبأ:26 ) ، یعنی تو کہہ دے کہ ہمیں ہمارا رب جمع کرے گا پھر ہم میں حق کے ساتھ فیصلے کرے گا اور وہی فیصلے کرنے والا اور علم والا ہے پھر فرماتا ہے لوٹنا اللہ ہی کی طرف ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 یعنی اس تفرق اور شک کی وجہ سے، جس کا ذکر پہلے ہوا، آپ ان کو توحید کی دعوت دیں اور اس پر جمے رہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١] یعنی آپ پر اب جو وحی کی جارہی ہے یہ بالکل پاک صاف اور ستھرا دین ہے جو ہر قسم کی آمیزشوں اور آلائشوں سے مبرا ہے۔ لہذا آپ اہل کتاب کی سب باتوں سے بےنیاز ہو کر اسی دین پر ڈٹ جائیے اور اس میں کسی قسم کا رد و بدل اور کمی بیشی گوارا نہ کیجئے۔ نہ ان لوگوں سے کسی قسم کا کوئی مذاکرہ یا سمجھوتہ کرنے کی ... ضرورت ہے۔ ورنہ ان کے عزائم خطرناک ہیں۔ ایسے لوگوں کو دو ٹوک فیصلہ سنا دیجئے کہ میں تو صرف وہی بات تسلیم کروں گا جو اللہ نے مجھ پر نازل کی ہے۔ [٢٢] یعنی تمہارے فرقوں میں سے کسی کا جانبدار نہ بنوں بلکہ انصاف پسندی سے کام لیتے ہوئے صرف حق بات کہوں اور حق کا ہی ساتھ دوں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ میں اس دنیا میں عدل قائم کرنے پر مامور ہوں اور اگر تمہارا کوئی جھگڑا میرے پاس آئے تو محھے یہی حکم ہے کہ میں انصاف کے ساتھ اس کا فیصلہ کروں۔ [٢٣] یعنی تمہارے اعمال کے نہ ہم ذمہ دار ہیں اور نہ ہمیں ان کا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اگر برے کام کرو گے تو اس کی سزا ہم نہیں بلکہ تم ہی بھگتو گے اور اگر اچھے کام کرو گے تو اس کا اجر بھی تمہیں ہی ملے گا۔ ہمیں نہیں مل جائے گا۔ یہی صورت حال ہمارے اعمال کی ہے۔ ہمارے برے اعمال کے جواب دہ تم نہیں ہوگے۔ نہ ہی ہمارے اچھے اعمال کے تم مستحق بن سکتے ہو۔ [٢٤] کج بحثی سے اجتناب کا حکم :۔ یعنی جہاں تک معقول دلائل پیش کرنے کا تعلق تھا وہ ہم کرچکے۔ اور اگر تم کج بحثی کرنا چاہو تو اس کے لیے ہم تیار نہیں۔ ہمارا تمہارا اختلاف اور جھگڑا اللہ کے سپرد۔ قیامت کے دن وہ ہمیں اور تمہیں سب کو جمع کرے گا۔ وہاں اللہ تعالیٰ خود ہی انصاف کے ساتھ سب جھگڑوں کا فیصلہ کر دے گا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) فلذلک فادع : مفسر ابن کثیر (رح) نے فرمایا :” یہ آیت کریمہ دس جملوں پر مشتمل ہے، جن میں سے ہر متعلق ہے، پہلے لانے سے اس میں اختصاص پیدا ہو یا، یعنی لوگوں کو کسی اور نہیں بلکہ دین کے اسی طریقے کی دعوت دیں جو اس نے وحی کے ذریعے سے تمام انبیاء کے لئے مقرر فرمایا ہے اور وہ ہے ایک اللہ کی عبادت۔ اس کے...  دین کو قائم کرنا اور اس میں جدا جدا نہ ہوجانا، بلکہ اکٹھے ہو کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینا۔ (٢) واستقم کما امرت : دوسروں کو دعوت کے لئے خود اس پر عمل اور استقامت ضروری ہے، اس لئے اس پر مضبوطی سے قائم رہنے کا حکم دیا۔ (واستقم “ اور ” کما امرت “ کی تفسیر کیلئے دیکھیے سورة ہود (١١٢) (٣) ولا تتبع اھوآء ھم : یعنی آپ اس کی پیروی کریں جس کا اللہ کی طرف سے آپ کو حکم دیا گیا ہے، اس کے سوا جو کچھ ہے محض خواہشات ہیں۔ اس لئے ان لوگوں کو خوش کرنے کے لئے یا ان سے صلح کی خاطر ان کی خواہشات کی پیروی مت کریں اور نہ دین میں کسی قسم کی مداہنت سے کام لیں۔ مزید دیکھیے سورة بقرہ (١٤٥) اور سورة مائدہ (٤٩) ۔ (٤) وقل امنت بما انزل اللہ من کتب : اہل کتاب چونکہ کسی آسمانی کتاب کو مانتے اور کسی کو نہیں مانتے تھے، اسی طرح اپنی کتاب کے بھی بعض حصوں کو مانتے تھے اور بعض کو نہیں مانتے تھے۔ (دیکھیے بقرہ : ٨٥) حالانکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی ہر کتاب اور اس کی ہر بات پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اس لئے فرمایا، ان سے کہہ دیں کہ میں فرقہ پرستوں کی طرح نہیں جو مرضی کی بات مانتے ہیں دوسری نہیں، بلکہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہر کتاب پر ایمان رکھتا ہوں، وہ خواہ کوئی ہو۔ میں پہلے انبیاء کی تکیذب کے لئے نہیں ب ل کہ ان کی تصدیق کے لئے آیا ہوں۔ تم پر بھی لازم ہے کہ تمہاری کتابوں میں میری اور قرآن کی جو تصدیق موجود ہے اس پر بھی ایمان لاؤ، تاکہ تمہارا ایمان بھی اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہر کتاب پر ہ۔ مزید دیکھیے سورة بقرہ کی آیت (١٣٦) (لاتفرق بین احد منھم) کی تفسیر۔ (٥) وامرت لاعدل بینکم : عدل کا معنی انصاف اور برابری ہے، اس کے مقابلے میں ظلم ہے۔ یعنی مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے درمیان عدل کروں، تمام لوگوں کو انصاف مہیا کروں، دنیا میں جو ظلم و زیادتی ہو رہی ہے اس کا خاتمہ کروں اور فیصلہ کرتے ہوئے اپنے پرائے میں فرق نہ کروں، بلکہ سب کو برابر رکھوں۔ اسی طرح چھوٹے و بڑے، کمزور و طاقتور اور امیر و غریب کے درمیان فرق نہ کروں۔ اس جملے میں اس غلبہ و اقتدار کی طرف بھی اشارہ ہے جو مدینہ جا کر حاصل ہونے والا تھا، کیونکہ بےاختیار شخص کیا عدل کرے گا اور اس کے پاس عدل طلب کرنے کے لئے کون جائے گا۔ (٦) اللہ ربنا و ربکم : تمام بندوں میں عدل کا حکم اس لئے ہے کہ اللہ ہی ہمارا رب ہے اور وہی تمہارا رب ہے، ہم تم سب اس کے بندے ہیں۔ سو عدل کا حکم بھی سب کے لئے ہے، خواہ اپنا ہو یا پرایا، ضعیف ہو یا شریف، حکمران ہو یا رعایا۔ (٧) لنا اعمالنا ولکم اعمالکم : اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک اظہار برأت ، جیسے فرمایا :(لکم دینکم ولی دین) (الکافرون : ٦)” تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین ہے۔ “ اور جیسا کہ سورة انعام (١٣٥) ، ہود (٩٣، ١٢١) اور سورة زمر (٣٩) میں اظہار برأت فرمایا ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہمارے اچھے یا برے اعمال ہمارے لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لئے ہیں، نہ ہمارے اچھے اعمال تمہیں دیئے جائیں گے اور نہ تمہارے اچھے اعمال ہمیں دیئے جائیں گے۔ اسی طرح نہ تم ہمارے بد اعمال میں پکڑے جاؤ گے اور نہ ہم تمہارے بد اعمال میں پکڑے جائیں گے، جیسا کہ فرمایا : (فانما علیہ ماحمل وعلیکم ماحملتم) (النور : ٥٣) ’ تو اس کے ذمے صرف وہی ہے جو اس پر بوجھ ڈال اگیا ہے اور تمہارے ذمے وہ جو تم پر بوجھ ڈالا گیا۔ “ مزید دیکھیے سورة بقرہ (١٣٩) ، یونس (٤١) ، ہود (٣٥) اور قصص (٥٥) ۔ (٨) لاحجۃ بیننا وبینکم : یعنی جھگڑا کرنے کی ضرورت نہیں، جو بات حق تھی وہ ہم نے دلائل کے ساتھ واضح کردی، ہمیں تمہارے باطل پر اور اپنے حق پر ہونے کا پورا یقین ہے۔ تم اپنی بات پر اڑے ہوئے ہو، اس لئے جھگڑے کا کوئی فائدہ نہیں، تم جھگڑو بھی تو ہم جھگڑنے کے لئے تیار نہیں، اب تلوار کے ساتھ فیصلہ باقی رہ جاتا ہے، وہ اپنے وقت پر ہوجائے گا۔ (٩) اللہ یجمع بیننا : باطل پر جمے رہنے اور اس پر ناحق جھگڑا کرنے سے ڈراتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمہیں جمع کرے گا، کیا تمہیں اس بات سے خوف نہیں آتا کہ ناحق جھگڑے کا وہاں کیا جواب دو گے ؟ (١٠) والیہ المصیر : اسی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے، وہاں پورا انصاف ہوجائے گا۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَلِذَٰلِكَ فَادْعُ ۖ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْ‌تَ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ ۖ وَقُلْ آمَنتُ بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ مِن كِتَابٍ ۖ وَأُمِرْ‌تُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ ۖ اللَّـهُ رَ‌بُّنَا وَرَ‌بُّكُمْ ۖ لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ ۖ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ۖ اللَّـهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ‌ |"So, (0 prophet,) towards that (faith) invite (people), and...  be steadfast as you are commanded, and do not follow their desires, and say, |"I believe in whatever book Allah has sent down. And I have been ordered to do justice among you. Allah is our Lord and your Lord. For us are our deeds, and for you, your deeds. There is no argumentation between us and you. Allah will bring us together, and to Him is the final return.|" (42:15) Hafiz Ibn Kathir has stated that this verse comprises ten sentences, and each sentence carries a specific order. As such, ten types of precepts are stated in this one verse. No other verse in the entire Qur&an has this peculiarity, except &Ayat-ul-kursiyy which comprises ten types of precepts as well. The first order فَلِذٰلِکَ فَادعُ (So, 0 Prophet, towards that faith invite people) means: ` Although your call towards ` tauhid& (Oneness of Allah) sits very heavy on the polytheists, it is no cause for you to give up your invitational call, and you should continue with it. The second order وَاستَقِم کَمَآ اُمِرتَ (and be steadfast as you are commanded) says, ` You yourself ought to stand firm in the religion towards which you are inviting other people. This firmness has to be in accordance with the command of Allah, that is, to be on the moderate side in your beliefs, deeds, morals, habits and social behavior - there should not be even the slightest inclination towards the extremes of ifrat (overdoing something) or tafrit (falling short in something). Obviously such a firmness is not easy. That is why when some noble companions pointed out to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that some of hairs have turned grey, he said, |"Surah Hud has turned me old.|" This very order (of standing firm as commanded) has been given in Surah Hud also in the same very words. (The meaning of standing firm, the difficulties in observing it and its importance are discussed in detail in the commentary on Surah Hud on page 673 of volume 4 of Ma&ariful Qur&an). The third command وَلَا تَتَّبِع اَھوَآَء ھُم (do not follow their desires - ) directs the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) not to be concerned about the opposition of any opponent in his duty of propagation. The fourth command قُل اٰمَنتُ بِمَآ اَنزَلَ اللہُ مَن کِتابً (and say |"I believe in whatever book Allah has sent down|" ) is to announce that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) believes not only in the Book that has been revealed to him, but he believes in all the former divine books. The fifth command اُمِرتُ لِاَعدِلَ بَینَکُم (I have been ordered to do justice among you) apparently relates to doing justice in the matters of dispute brought to him. But some exegetes have taken the meaning of adl& to be ` equality& and thus have taken the sentence to mean that he should treat all the commands of religion equally by believing in all the prophets (علیہم السلام) ، in all the Books and by obeying all the Divine laws without any exception. The sixth sentence اَللہُ رَبُّنَا is ` Allah is our Lord and you Lord.& which means that all of us are nourished by Allah. The seventh sentence لَنَآ اعمالُنَا وَ لَکُم اَعمَالُکُم (For us are our deeds and for you, your deeds) states that our deeds would be for us only and you would neither gain nor lose due to our deeds, and your deeds would be for you only and we would neither gain nor lose due to your deeds. Some exegetes have stated that this verse was revealed in Makkah before the command for jihad with non-Muslims was revealed; the verses conveying the command for jihad have cancelled this command, because the essence of jihad is to subjugate those people by fighting who do not accept the advice and exhortation - not to let them remain in the state of kufr. And some exegetes have stated that this command has not been cancelled; what it means is that since the truth has been proved through logical arguments, its non-acceptance can only be due to enmity and obstinacy, and as such, everybody is responsible for his own deeds. (Qurtubi) The eighth command لَا حُجَّۃ بَینَنَا و بینَکُم (there is no argumentations between us and you -) is that since the disbelievers do not accept the truth, despite its having been proved, which demonstrates their enmity, therefore, further discussion is useless and now there would be no more arguments between the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the disbelievers. The ninth sentence اَللہُ یَجمَع بیننَا (Allah will bring us together -) states that on the Day of Judgment, Allah Almighty would gather all of us together and would requite every deed. The tenth declaration وَاِلَیہِ المَصِیر (and to Him is the final return -) is that all of us would return to Him.  Show more

(آیت) فَلِذٰلِكَ فَادْعُ ۚ وَاسْتَقِمْ كَمَآ اُمِرْتَ ۚ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَهُمْ ۭ وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنْ كِتٰبٍ ۚ وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَيْنَكُمْ ۭ اَللّٰهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ ۭ لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ ۭلَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ ۭ اَللّٰهُ ي... َجْمَعُ بَيْنَنَ آ وَاِلَيْهِ الْمَصِيْرُ ۔ حافظ ابن کثیر نے فرمایا کہ یہ آیت دس مستقل جملوں پر مشتمل ہے اور ہر جملہ خاص احکام پر مشتمل ہے۔ گویا اس ایک آیت میں احکام کی دس فصلیں مذکور ہیں۔ اس کی نظیر پورے قرآن میں ایک آیة الکرسی کے سوا کوئی نہیں۔ آیت الکرسی میں بھی دس احکام کی دس فصلیں آئی ہیں۔ پہلا حکم فَلِذٰلِكَ فَادْعُ ۚ یعنی اگرچہ مشرکین پر آپ کی دعوت توحید بھاری ہے۔ مگر اس کی وجہ سے آپ اپنی دعوت کو نہ چھوڑیں اور مسلسل اس دعوت کا کام جاری رکھیں۔ دوسرا حکم واسْتَقِمْ كَمَآ اُمِرْتَ ۚ ہے، یعنی آپ اس دین پر خود مستقیم رہیں۔ جس کی دعوت لوگوں کو دیتے ہیں اور یہ استقامت ایسی ہونی چاہئے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے۔ یعنی تمام احکام عقائد، اعمال اخلاق و عادات و معاشرت میں صحیح اعتدال پر قائم رہیں۔ کسی طرف افراط وتفریط کا ادنیٰ سا میلان نہ ہو۔ اور ظاہر ہے کہ ایسی استقامت آسان کام نہیں۔ اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب بعض صحابہ نے آپ کے سفید بال آجانے کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا شیبتنی ھود یعنی مجھے سورة ہود نے بوڑھا کردیا۔ سورة ھود میں بھی یہی حکم انہی الفاظ کے ساتھ آیا ہے (معارف القرآن جلد چہارم ص ٠٧٦، تفسیر سورة ہود کے ضمن میں استقامت کے مفہوم اور اس کی دشواری اور اہمیت پر مستقل کلام کیا گیا ہے، وہاں دیکھ لیا جائے) تیسرا حکم وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَهُمْ ۭ یعنی اپنے فریضہ تبلیغ میں آپ کسی مخالف کی مخالفت کی پرواہ نہ کریں۔ چوتھا حکم وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنْ كِتٰبٍ ۚ یعنی آپ اعلان فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی کتابیں نازل فرمائی ہیں میرا ان سب پر ایمان ہے۔ پانحواں حکم وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَيْنَكُمْ ۭ۔ اس کا مفہوم ظاہر تو یہی ہے کہ میرے پاس جو معاملات باہمی جھگڑوں کے آویں مجھے حکم کیا گیا ہے کہ میں ان میں عدل و انصاف کروں۔ بعض حضرات نے یہاں عدل کے معنی برابری کے لے کر آیات کا یہ مفہوم قرار دیا ہے کہ میں تمہارے درمیان دین کے سب احکام کو برابر رکھوں کہ ہر نبی اور ہر کتاب پر ایمان لاؤں اور تمام احکام الٰہیہ کی اطاعت کروں۔ ایسا نہیں کہ بعض پر ایمان ہو بعض پر نہ ہو یا بعض احکام کی تعمیل ہو بعض کی نہ ہو۔ چھٹا حکم اللّٰهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ ۭ یعنی اللہ ہمارا سب کا پالنے والا ہے۔ ساتواں حکم لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ ۭ یعنی ہمارے اعمال ہمارے کام آویں گے تمہیں ان کا کوئی نفع و نقصان نہیں پہنچے گا۔ اور تمہارے اعمال تمہارے کام آویں گے ہمیں اس سے کوئی نفع و نقصان نہ پہنچے گا۔ بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ یہ آیت مکہ مکرمہ میں اس وقت نازل ہوئی تھی جبکہ کفار سے جہاد کرنے کے احکام نازل نہ ہوئے تھے۔ احکام جہاد کی آیتوں نے اس حکم کو منسوخ کردیا۔ کیونکہ جہاد کا حال ہی یہ ہے کہ جو لوگ نصیحت و فہمائش کا اثر نہ لیں ان سے قتال کر کے انہیں مغلوب کیا جائے یہ نہیں کہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ حکم منسوخ نہیں اور مطلب آیات کا یہ ہے کہ جب ہم نے حق کو دلائل اور براہین سے ثابت کردیا تو اب اس کا نہ ماننا صرف عناد اور ہٹ دھرمی ہی کی وجہ سے ہوسکتا ہے اور عناد آ گیا تو اب دلائل کی گفتگو فضول ہوئی تمہارا عمل تمہارے آگے میرا میرے آگے آوے گا (قرطبی) آٹھواں حکم لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ ۭ حجت سے مراد بحث و مباحثہ ہے۔ مراد یہ ہے کہ حق واضح اور ثابت ہوجانے کے بعد بھی اگر تم عناد سے کام لیتے ہو تو اب گفتگو فضول ہے، ہمارے اور تمہارے درمیان اب کوئی بحث نہیں۔ نواں حکم اللّٰهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَ آ یعنی قیامت کے روز ہم سب کو اللہ تعالیٰ جمع فرما ویں گے اور ہر ایک عمل کا بدلہ دیں گے۔ دسواں حکم وَاِلَيْهِ الْمَصِيْرُ ۔ یعنی ہم سب اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلِذٰلِكَ فَادْعُ۝ ٠ ۚ وَاسْتَقِمْ كَـمَآ اُمِرْتَ۝ ٠ ۚ وَلَا تَتَّبِـعْ اَہْوَاۗءَہُمْ۝ ٠ ۭ وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنْ كِتٰبٍ۝ ٠ ۚ وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَيْنَكُمْ۝ ٠ ۭ اَللہُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ۝ ٠ ۭ لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ۝ ٠ ۭ لَا حُجَّۃَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ... ۝ ٠ ۭ اَللہُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا۝ ٠ ۚ وَاِلَيْہِ الْمَصِيْرُ۝ ١٥ ۭ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ الاسْتِقَامَةُ يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] الاستقامۃ ( استفعال ) کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] ہم کو سيدھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔ هوى الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى. ( ھ و ی ) الھوی ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ الھوی ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة/ 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام/ 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری/ 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ الھوی ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم/ 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو عدل العَدَالَةُ والمُعَادَلَةُ : لفظٌ يقتضي معنی المساواة، ويستعمل باعتبار المضایفة، والعَدْلُ والعِدْلُ يتقاربان، لکن العَدْلُ يستعمل فيما يدرک بالبصیرة كالأحكام، وعلی ذلک قوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] ، والعِدُل والعَدِيلُ فيما يدرک بالحاسّة، کالموزونات والمعدودات والمکيلات، فالعَدْلُ هو التّقسیط علی سواء، وعلی هذا روي : «بالعَدْلِ قامت السّموات والأرض» «5» تنبيها أنه لو کان رکن من الأركان الأربعة في العالم زائدا علی الآخر، أو ناقصا عنه علی مقتضی الحکمة لم يكن العالم منتظما . والعَدْلُ ضربان : مطلق : يقتضي العقل حسنه، ولا يكون في شيء من الأزمنة منسوخا، ولا يوصف بالاعتداء بوجه، نحو : الإحسان إلى من أحسن إليك، وكفّ الأذيّة عمّن كفّ أذاه عنك . وعَدْلٌ يُعرَف كونه عَدْلًا بالشّرع، ويمكن أن يكون منسوخا في بعض الأزمنة، کالقصاص وأروش الجنایات، وأصل مال المرتدّ. ولذلک قال : فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة/ 194] ، وقال : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری/ 40] ، فسمّي اعتداء وسيئة، وهذا النحو هو المعنيّ بقوله : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل/ 90] ، فإنّ العَدْلَ هو المساواة في المکافأة إن خيرا فخیر، وإن شرّا فشرّ ، والإحسان أن يقابل الخیر بأكثر منه، والشرّ بأقلّ منه، ورجلٌ عَدْلٌ: عَادِلٌ ، ورجالٌ عَدْلٌ ، يقال في الواحد والجمع، قال الشاعر : 311- فهم رضا وهم عَدْلٌ«1» وأصله مصدر کقوله : وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق/ 2] ، أي : عَدَالَةٍ. قال تعالی: وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری/ 15] ، وقوله : وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء/ 129] ، فإشارة إلى ما عليه جبلّة النّاس من المیل، فالإنسان لا يقدر علی أن يسوّي بينهنّ في المحبّة، وقوله : فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء/ 3] ، فإشارة إلى العَدْلِ الذي هو القسم والنّفقة، وقال : لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة/ 8] ، وقوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] ، أي : ما يُعَادِلُ من الصّيام الطّعام، فيقال للغذاء : عَدْلٌ إذا اعتبر فيه معنی المساواة . وقولهم :«لا يقبل منه صرف ولا عَدْلٌ» «2» فالعَدْلُ قيل : هو كناية عن الفریضة، وحقیقته ما تقدّم، والصّرف : النّافلة، وهو الزّيادة علی ذلک فهما کالعَدْلِ والإحسان . ومعنی أنه لا يقبل منه أنه لا يكون له خير يقبل منه، وقوله : بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام/ 1] ، أي : يجعلون له عَدِيلًا فصار کقوله : هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل/ 100] ، وقیل : يَعْدِلُونَ بأفعاله عنه وينسبونها إلى غيره، وقیل : يَعْدِلُونَ بعبادتهم عنه تعالی، وقوله : بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل/ 60] ، يصحّ أن يكون من قولهم : عَدَلَ عن الحقّ : إذا جار عُدُولًا، وأيّام مُعْتَدِلَاتٌ: طيّبات لِاعْتِدَالِهَا، وعَادَلَ بين الأمرین : إذا نظر أيّهما أرجح، وعَادَلَ الأمرَ : ارتبک فيه، فلا يميل برأيه إلى أحد طرفيه، وقولهم : ( وضع علی يدي عَدْلٍ ) فمثل مشهور «1» . ( ع د ل ) العدالۃ والمعادلۃ کے لفظ میں مساوات کے معنی پائے جاتے ہیں اور معنی اضافی کے اعتبار سے استعمال ہوتا ہے یعنی ایک دوسرے کے ہم وزن اور برابر ہوتا اور عدل عدل کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن عدل کا لفظ معنوی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے احکام شرعیہ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] او عدل ذلک صیاما یا اس کے برابر روزے رکھنا اور عدل وعدیل کے الفاظ ان چیزوں کے لئے بولے جاتے ہیں جن کا اور اک حواس ظاہرہ سے ہوتا ہے جیسے وہ چیزیں جن کا تعلق ماپ تول یا وزن سے ہوتا ہے پس عدل کے معنی دو چیزوں کا برابر ہونا کے ہیں چناچہ اسی معنی میں مروی ہے بالعدل قامت السموت والاارض کہ عدل ہی سے آسمان و زمین قائم ہیں یعنی اگر عناصر اربعہ جن کائنات نے ترکیب پائی ہے میں سے ایک عنصر میں بھی اس کی معینہ مقدار سے کمی یا بیشی ہوجائے تو نظام کائنات قائم نہیں رہ سکتا ، العدل دو قسم پر ہے عدل مطلق جو عقلا مستحن ہوتا ہے یہ نہ تو کسی زمانہ میں منسوخ ہوا ہے اور نہ ہی کسی اعتبار سے تعدی کے ساتھ متصف ہوسکتا ہے مثلا کیسی کے احسان کے بدلہ میں اس پر احسان کرنا اور جو تمہیں تکلف نہ دے اسے ایزا رسانی باز رہنا قغیرہ ۔ دوم عدل شرعی جسے شریعت نے عدل کہا ہے اور یہ منسوخ بھی ہوسکتا ہے جیسے قصاص جنایات کی دیت اور مال مرتد کی اصل وغیرہ چناچہ آیات : ۔ فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة/ 194] پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ۔ واپس ہی تم اس پر کرو ۔ وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری/ 40] اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے ۔ میں زیادتی اور برائی کی سزا کا کام بھی زیادتی اور برائی ہی قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل/ 90] خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ میں عدل کے یہی معنی مراد کیونکہ کسی چیز کے برابر اس کا بدلہ دینے کا نام عدل یعنی نیکی کا بدلہ نیکی سے اور برائی کا بدلہ برائی سے اور نیکی کے مقابلہ میں زیادہ نیکی اور شر کے مقابلہ میں مسامحت سے کام لینے کا نام احسان ہے اور لفظ عدل واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے رجل عدل عادل ورجال عدل شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 303 ) فھم رضا وھم عدل وہ راضی رہنے والے اور عدال ہیں ۔ دراصل عدل کا لفظ مصدر ہے چناچہ آیت : ۔ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق/ 2] اور اپنے میں سے دو منصب مردوں کو گواہ بنالو میں عدل کے معنی عدالہ ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری/ 15] اور مجھے حکم ہوا کہ تم میں انصاف کروں لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة/ 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر امادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو ۔ انصاف کیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء/ 129] اور تم خواہ کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہر گز برابری نہیں کرسکو گے ۔ میں انسان کے طبعی میلان کی طرف اشارہ ہے کہ تمام بیویوں سے برابر وجہ کی محبت اس کی قدرت سے باہر ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء/ 3] اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ سب عورتوں سے یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت کانی ہے ۔ میں عدل سے نان ونفقہ اور ازواجی تعلقات میں برابر ی مرادی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] اس کے برابر روزے رکھنا ۔ میں عدل سے مراد یہ ہے کہ وہ روزے طعام سے فدیہ کے برابر ہوں کیونکہ فدیہ میں مساوت کے معنی ملحوظ ہوں تو اسے بھی عدل کہہ دیا جاتا ہے اور ( 33 ) لایقبل منہ صرف ولا عدل میں بعض نے کہا ہے کہ عدل کا لفظ فریضہ سے کنایہ ہے مگر اس کے اصل معنی وہی ہیں جو ہم بیان کرچکے ہیں اور صرف کا لفظ نافلۃ سے اور یہ اصل فرض سے بڑھ کر کام کرنے کا نام ہے لہذا یہ باہم تقابل کے اعتبار سے عدل اور احسان کے ہم مثل ہیں اور لایقبل منہ کے معنی یہ ہیں کہ اسکے پاس کسی قسم کی نیکی ہوگی جو قبول کی جائے اور یہ آیت : ۔ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام/ 1] کے معنی یہ ہیں کہ وہ دوسروں کو خدا کی مثل اور نظیر قرار دیتے ہیں ۔ لہذا یہ آیت : ۔ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل/ 100] کے ہم معنی ہوگی بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ وہ افعال الہیہ کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں بعض نے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے عدول کرنا مراد لیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل/ 60] بلکہ یہ لوگ رستے سے الگ ہورہے ہیں ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہوسکتی ہے یعنی اس کے معنی یعدلون بہ کے ہیں ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ عدل عن الحق سے مشتق ہو جس کے معنی حق سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ ایام معتد لات معتدل زمانہ یعنی جب رات دن برابر ہوتے ہیں ۔ عادل بین الامرین اس نے دو چیزوں کے درمیان موازنہ کیا عادل الامر کسی معاملہ میں پھنس گیا اور کسی ایک جانب فیصلہ نہ کرسکا اور جب کسی شخص کی زندگی سے مایوسی ہوجائے تو اس کے متعلق کہا جاتا ہے : ۔ یعنی اب وہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے حجة : الدلالة المبيّنة للمحجّة، أي : المقصد المستقیم الذي يقتضي صحة أحد النقیضین . قال تعالی: قُلْ فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبالِغَةُ [ الأنعام/ 149] ، وقال : لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا [ البقرة/ 150] ، فجعل ما يحتجّ بها الذین ظلموا مستثنی من الحجة وإن لم يكن حجة، وذلک کقول الشاعر : 104- ولا عيب فيهم غير أنّ سيوفهم ... بهنّ فلول من قراع الکتائب ويجوز أنّه سمّى ما يحتجون به حجة، کقوله تعالی: وَالَّذِينَ يُحَاجُّونَ فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ ما اسْتُجِيبَ لَهُ حُجَّتُهُمْ داحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الشوری/ 16] ، فسمّى الداحضة حجّة، وقوله تعالی: لا حُجَّةَ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمُ [ الشوری/ 15] ، أي : لا احتجاج لظهور البیان، الحجۃ اس دلیل کو کہتے ہیں جو صحیح مقصد کی وضاحت کرے اور نقیضین میں سے ایک کی صحت کی مقتضی ہو ۔ قرآن میں ہے :۔ قُلْ فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبالِغَةُ [ الأنعام/ 149] کہدو کہ خدا ہی کی حجت غالب ہے ۔ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا [ البقرة/ 150]( یہ تاکید ) اس لئے کی گئی ہے ) کہ لوگ تم کو کسی طرح کا الزام نہ لگا سکیں ۔ مگر ان میں سے جو ظالم ہیں ( وہ الزام دیں تو دیں ۔ اس آیت میں ظالموں کے احتجاج کو حجۃ سے مستثنیٰ کیا ہے گو اصولا وہ حجت میں داخل نہیں ہے ۔ پس یہ استشہاد ایسا ہی ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (100) ولا عیب فیھم غیر ان سیوفھم بھن للول من قراع الکتاب ان میں صرف یہ عیب پایا جاتا ہے ک لشکروں کے ساتھ لڑنے سے ان کی تلواروں پر دندا نے پڑنے ہوئے ہیں ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے اس احتجاج کو حجت قرار دینا ایسا ہی ہو ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَالَّذِينَ يُحَاجُّونَ فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ ما اسْتُجِيبَ لَهُ حُجَّتُهُمْ داحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الشوری/ 16] اور جو لوگ خدا کے بارے ) میں بعد اس کے کہ اسے ( مومنوں نے ) مان لیا ہو جھگڑتے ہیں انکے پروردگار کے نزدیک ان کا جھگڑا لغو ہے ۔ میں ان کے باطل جھگڑے کو حجت قراد دیا گیا ہے اور آیت کریمہ : لا حُجَّةَ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمُ [ الشوری/ 15] اور ہم میں اور تم میں کچھ بحث و تکرار نہیں ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ ظہور بیان کی وجہ سے بحث و تکرار کی ضرورت نہیں ہے الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) جمع الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج/ 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] ، ( ج م ع ) الجمع ( ف ) کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے صير الصِّيرُ : الشِّقُّ ، وهو المصدرُ ، ومنه قرئ : فَصُرْهُنَّ وصَارَ إلى كذا : انتهى إليه، ومنه : صِيرُ البابِ لِمَصِيرِهِ الذي ينتهي إليه في تنقّله وتحرّكه، قال : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری/ 15] . و «صَارَ» عبارةٌ عن التّنقل من حال إلى حال . ( ص ی ر ) الصیر کے معنی ایک جانب یا طرف کے ہیں دراصل یہ صار ( ض) کا مصدر ہے ۔ اور اسی سے آیت فصوھن ہیں ایک قرآت فصرھن ہے ۔ صار الی کذا کے معنی کسی خاص مقام تک پہنچ جانا کے ہیں اسی سے صیر الباب ہے جس کے معنی درداڑہ میں شگاف اور جھروکا کے ہیں اور اسے صیر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ نقل و حرکت کا منتہی ہوتا ہے اور صار کا لفظ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ اسی سے المصیر اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز نقل نہ حرکت کے بعد پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری/ 15] یعنی اللہ تعالیٰ ہی لوٹنے کی جگہ ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

سو آپ اپنے پروردگار کی توحید اور اس کی کتاب کی طرف ان کو برابر بلاتے رہیے اور جس طرح قرآن حکیم میں آپ کو حکم ہوا ہے اسی کی توحید پر قائم رہیے اور یہودیوں کے قبلہ اور ان کے دین پر نہ چلیے۔ اور کہیے اللہ نے جتنی کتابیں انبیاء کرام پر نازل کی ہیں ان پر ایمان لاتا ہوں اور مجھے قرآن کریم میں یہ بھی حکم ... ہوا کہ توحید کے ساتھ تمہارے درمیان انصاف رکھوں۔ اللہ تعالیٰ ہمارا اور تمہارا پروردگار ہے وہ قیامت کے دن ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کردے گا ہمارے لیے اللہ کی عبادت اور دین اسلام ہے اور تم پر تمہارے اعمال ہیں یعنی بتوں کی پرستش اور شیطانی دین ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی دینی خصومت نہیں، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہم سب کو جمع کردے گا اور مومنوں اور کافروں سب کو اسی کے پاس جانا ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ { فَلِذٰلِکَ فَادْعُ } ” تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ اسی کی دعوت دیتے رہیے “ یہاں ذٰلِکَ کا اشارہ اوپر آیت ١٣ میں اَقِیْمُوا الدِّیْنَ کے حکم کی طرف ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کو اقامت دین کی جدوجہد کے لیے مسلسل دعوت دیتے رہیے۔ { وَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ ... } ” اور جمے رہیے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا مقصد اور مشن ہی چونکہ اقامت دین ہے ‘ اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غلبہ حق کی جدوجہد کی اس راہ میں پوری استقامت اور تندہی کے ساتھ کھڑے رہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفین تو چاہیں گے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کچھ نرم پڑنے کو تیار ہوں تو وہ بھی نرم پڑجائیں : { وَدُّوْا لَوْ تُدْہِنُ فَیُدْہِنُوْنَ ۔ ( القلم) ۔ مگر آپ ہماری ہدایت و مشیت کے مطابق اپنے موقف پر جم کر کھڑے رہیں اور اس سفر میں کسی بھی موڑ پر کسی حال میں ‘ کبھی کوئی سمجھوتہ (compromise) نہ کریں : { وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْقف فَمَنْ شَآئَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَآئَ فَلْیَکْفُرْ } (الکہف : ٢٩) ” اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہہ دیجیے کہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے ‘ تو اب جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔ “ { وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَآئَ ہُمْ } ” اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کیجیے۔ “ یہی بات پانچ چھ سال بعد سورة البقرۃ کے اندر ان الفاظ میں پھر سے دہرائی گئی : { وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَہُوْدُ وَلاَ النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتّبِعَ مِلَّتَہُمْط } (آیت ١٢٠) ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) یہ یہودی اور نصرانی آپ سے ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے طریقے کی پیروی نہ کریں “۔ پرانے نظام کے ساتھ تو ان لوگوں کے مفادات وابستہ ہیں ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو آگے بڑھتا دیکھ کر انہیں اپنی سیادتیں اور چودھراہٹیں خطرے میں نظر آرہی ہیں۔ وہ تو چاہیں گے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پیچھے چلیں اور ان کی لیڈر شپ قائم رہے۔ آج بھی اپنے اپنے مفادات کو بچانے کی روش اقامت دین کی جدو جہد میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ آج بھی اگر اللہ کا کوئی بندہ اس دعوت کا علم َبلند کر کے مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ کا نعرہ لگاتا ہے تو اربابِ ُ جبہ ّو دستار کو اپنی مسندوں ‘ خانقاہوں اور گدیوں کا مستقبل خطرے میں نظر آنے لگتا ہے۔ چناچہ ان کے ” خاموش رد عمل “ سے ایسی جدوجہد کے َعلم برداروں کو یہ پیغام آپ سے آپ ہی موصول ہوجاتا ہے کہ ” ہم تمہارے پیچھے کیوں چلیں ‘ تم ہمارے پیچھے کیوں نہ چلو ؟ “ یاد رہے کہ اپنے مضمون (اقامت دین) کے اعتبار سے زیر مطالعہ تین آیات (١٣ ‘ ١٤ اور ١٥) بہت اہم ہیں۔ { وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنْ کِتٰبٍ } ” اور آپ کہہ دیجیے کہ میں تو اس کتاب پر ایمان لایا ہوں جو اللہ نے نازل کی ہے۔ “ قبل ازیں سورة حٰم السجدۃ میں دعوت کے حوالے سے قرآن کا چھ مرتبہ ذکر آچکا ہے۔ اب یہاں اس آیت میں سورة حٰم السجدۃ کے مضمون کا گویا خلاصہ آگیا ہے کہ دعوت چلے گی تو اس کتاب کے بل پر اور کسی کو استقامت نصیب ہوگی تو بھی اسی کتاب کے ذریعے سے۔ چناچہ اس کی تلاوت کو اپنا معمول بنائیے ‘ اس کے معانی و مفہوم کو دل میں اتارئیے اور دوسروں تک پہنچائیے۔ قرآن میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی بار بار اسی کی یاد دہانی کرائی گئی ہے : { اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ } (العنکبوت : ٤٥) ” تلاوت کرتے رہا کریں اس کی جو وحی کی گئی ہے آپ کی طرف کتاب میں سے۔ “ { وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ } ” اور (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجیے کہ) مجھے حکم ہوا کہ میں تمہارے درمیان عدل قائم کروں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پر واضح کردیجیے کہ میں صرف وعظ کہنے اور میٹھی میٹھی باتیں سنا کر لوگوں کا دل بہلانے کے لیے نہیں آیا ‘ بلکہ میں معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنے اور نظام توحید کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لیے آیا ہوں۔ اس جملے کے حوالے سے ہمیں بہت واضح طور پر سمجھ لینا چاہیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اصل مشن کیا تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتباع کے تقاضے پورے کرنے کے لیے آج ہمارے اوپر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتباع کے تقاضے میلاد کی محفلیں سجا لینے یا بڑے بڑے جلوس نکال لینے سے پورے نہیں ہوں گے۔ اس کے لیے سب غلط کاریاں چھوڑ کر خود کو دین کے احکام کا پابند بنانا ہوگا اور پھر اپنے تن من دھن کے ساتھ عدل اجتماعی (نظامِ توحید) کو معاشرے میں قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی صف میں شامل ہونا ہوگا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے خلیفہ بننے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں دراصل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتباع کے اسی تقاضے { وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ } کے حوالے سے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا تھا : لوگو ! تم میں سے ہر کمزور شخص میرے نزدیک طاقتور ہوگا جب تک کہ میں اسے اس کا حق نہ دلوا دوں اور تم میں سے ہر قوی شخص میرے نزدیک کمزور ہوگا جب تک کہ میں اس سے حق دار کا حق وصول نہ کرلوں۔ { اَللّٰہُ رَبُّنَا وَرَبُّکُمْ لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ } ” اللہ ہمارا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے ‘ ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں۔ “ { لَا حُجَّۃَ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَللّٰہُ یَجْمَعُ بَیْنَنَا } ” ہمارے درمیان کسی حجت بازی کی ضرورت نہیں ‘ اللہ ہمیں جمع کر دے گا۔ “ اللہ تعالیٰ یا تو ہمیں اسی دنیا میں اکٹھا کر دے گا اور اگر یہاں یہ ممکن نہ ہوا تو آخرت میں تو ہم اکٹھے ہو ہی جائیں گے۔ اس فقرے کا مفہوم سمجھنے کے لیے ان تنظیموں اور گروہوں کا تصور ذہن میں لائیے جو سب اخلاص اور نیک نیتی سے اقامت دین کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ظاہر ہے ان میں سے ہر جماعت کا اپنا منصوبہ اور اپنا طریقہ کار ہے۔ ان سب کی مثال دراصل منیٰ سے میدانِ عرفات جانے والے حجاج ّکے قافلوں جیسی ہے۔ جہاں لاکھوں لوگ ہزاروں قافلوں میں مختلف راستوں اور مختلف شاہراہوں پر گامزن ہوتے ہیں۔ ان کے راستے بیشک مختلف ہیں مگر منزل سب کی ایک ہے۔ یہ قافلے جیسے جیسے اپنی منزل کی طرف بڑھتے جاتے ہیں ویسے ویسے ان کے مابین فاصلہ کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ میدانِ عرفات میں پہنچ کر وہ سب ایک ہوجاتے ہیں۔ چناچہ اقامت دین کی جدوجہد کرنے والی مختلف جماعتیں اور تنظی میں جوں جوں اپنی منزل کی طرف بڑھیں گی ان کے باہمی اختلافات کم ہوتے چلے جائیں گے اور منزل مقصود پر پہنچ کر یہ سب اکٹھے ہوجائیں گے۔ اور اگر بالفرض وہ دنیا میں اکٹھے نہ ہو سکے تو بھی روز محشر تو سب اکٹھے ہوجائیں گے۔ چناچہ ان سب کو آپس میں تنقید کرنے کے بجائے زیر مطالعہ آیت کے الفاظ میں ایک دوسرے سے یوں کہنا چاہیے کہ دیکھو بھئی ہم سب اللہ کی رضا کے متلاشی ہیں۔ ہمارا رب بھی اللہ ہے اور تمہارا بھی۔ باقی جہاں تک ہمارے باہمی اختلاف کا تعلق ہے اس حوالے سے ہمیں آپس میں کوئی حجت بازی نہیں کرنی چاہیے۔ تم لوگ اپنی سوچ اور نظریے کے مطابق جدوجہد کرتے جائو ‘ ہم اپنے طریق کار اور لائحہ عمل کے مطابق کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم سب اپنی اپنی کوششوں کے لیے ماجورہوں گے۔ تم لوگوں کو تمہاری جدوجہد کا صلہ مل جائے گا اور ہم اپنی محنت کا پھل پالیں گے۔ لیکن چونکہ ہم سب اپنے مشن اور اپنی جدوجہد میں مخلص ہیں اس لیے آج نہیں تو کل ہم سب ایک ہوجائیں گے۔ اگر ہمارا طریق کار غلط ہوا تو ایک دن حقیقت ہم پر واضح ہوجائے گی اور ہم رجوع کرلیں گے اور اگر آپ لوگوں کے لائحہ عمل میں کوئی کمی ہوئی تو کبھی نہ کبھی آپ کو بھی وہ نظر آہی جائے گی اور آپ بھی ضرور اس کی تلافی کرلیں گے ‘ اِن شاء اللہ ! { وَاِلَـیْہِ الْمَصِیْرُ } ” اور اسی کی طرف سب کو لوٹنا ہے۔ “ وہاں اللہ کی عدالت میں سب انسان اکٹھے کھڑے ہوں گے اور وہاں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

26 That is, "Do not make any change nor effect any increase or decrease in this religion only to please them. Do not resort to any compromises with the misguided people on the principle of "give and take": Do not make any room in the Religion for their whims, prejudices and practices of ignorance in the hope that they would embrace Islam. Let the one who wants to accept, accept the original, pure ... Religion of God, as sent down by Him, straight forwardly; otherwise let him go and enter any hell that he chooses for himself. The Religion of God cannot be changed for the sake of the people; if the people are desirous of their own wellbeing and true success, Iet them change their ways and mould themselves according to it. " 27 In other words, "I am not like those schismatic people who believe in some Books sent down by God and disbelieve in others; I believe in every Book sent down by Him. " 28 This pithy sentence has several meanings: (1) "I have been appointed to discard the schisms and adopt true impartiality: I do not like to harbour prejudice in favour of one and against the other schism: I have one and the same kind of relationship with all human beings, and it is the relationship of justice and equity. I am a companion and supporter of everyone who follows the truth, whether he is an utter stranger for me, and an opponent of everyone who follows falsehood, whether he is a neighbour or a close kinsman. (2) `There is no place of distinction for anybody in the system of truth, which I have, been appointed to present before you. It honours everyone equally. It does not contain separate sets of the rights for the kindred and the stranger, the big and the small, the poor and the rich, the noble and the humble. Whatever is good in it is good for everyone; and whatever is sinful and unlawful and criminal in it is sinful, unlawful and criminal for everybody. In its just system, there is no exception oven for my own self. " (3) "I have been appointed to establish justice in the world. I have been entrusted with the mission of doing justice between the people and should put an end to their excesses and injustice, which are prevalent in your society." Besides, there is a fourth meaning also of this sentence, which remained hidden in Makkah life but became clear after emigration to Madinah, and it was: "I am a judge appointed by God: I am responsible to do justice between you. " 29 That is, "Each one of us is himself responsible and accountable for his deeds. If you do good, you will yourself profit by its good results, and not we. If we do evil, we ourself shall bear all its evil consequences and not you. The same thing has been stated in AI-Baqarah: 139, Yunus: 41, Hud: 35, and Al-Qasas: 55 above. 30 That is, "We have done our best in conveying to you the message in a rational way. Now there is no use wrangling and disputing; therefore, even if you try to have a dispute with us, we have no desire to join in."  Show more

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :26 یعنی انکو راضی کرنے کے لیے اس دین کے اندر کوئی رد و بدل اور کمی بیشی نہ کرو ۔ کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر ان گمراہ لوگوں سے کوئی مصالحت نہ کرو ۔ ان کے اوہام اور تعصبات اور جاہلانہ طور طریقوں کے لیے دین میں کوئی گنجائش محض اس لالچ میں آ کر نہ نکالو کہ کسی نہ...  کسی طرح یہ دائرہ اسلام میں آجائیں ۔ جس کو ماننا ہے ، خدا کے اصلی اور خالص دین کو ، جیسا کہ اس نے بھیجا ہے ، سیدھی طرح مان لے ، ورنہ جس جہنم میں جا کر گرنا چاہے گر جائے ۔ خدا کا دین لوگوں کی خاطر نہیں بدلا جا سکتا ۔ لوگ اگر اپنی فلاح چاہتے ہیں تو خود اپنے آپ کو بدل کر اس کے مطابق بنائیں ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :27 بالفاظ دیگر ، میں ان تفرقہ پرداز لوگوں کی طرح نہیں ہوں جو خدا کی بھیجی ہوئی بعض کتابوں کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے ۔ میں ہر اس کتاب کو مانتا ہوں جسے خدا نے بھیجا ہے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :28 اس جامع فقرے کے کئی مطلب ہیں : ایک مطلب یہ ہے کہ میں ان ساری گروہ بندیوں سے الگ رہ کر بے لاگ انصاف پسندی اختیار کرنے پر مامور ہوں ۔ میرا کام یہ نہیں ہے کہ کسی گروہ کے حق میں اور کسی کے خلاف تعصب برتوں ۔ میرا سب انسانوں سے یکساں تعلق ہے ، اور وہ ہے سراسر عدل و انصاف کا تعلق ۔ جس کی جو بات حق ہے ، میں اس کا ساتھی ہوں ، خواہ وہ غیروں کا غیر ہی کیوں نہ ہو ۔ اور جس کی جو بات حق کے خلاف ہے میں اس کا مخالف ہوں ، خواہ وہ میرا قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ میں جس حق کو تمہارے سامنے پیش کرنے پر مامور ہوں اس میں کسی کے لیے بھی کوئی امتیاز نہیں ہے ، بلکہ وہ سب کے لیے یکساں ہے ۔ اس میں اپنے اور غیر ، بڑے اور چھوٹے ، غریب اور امیر ، شریف اور کمین کے لیے الگ الگ حقوق نہیں ہیں ، بلکہ جو کچھ ہے وہ سب کے لیے حق ہے ، جو گناہ ہے وہ سب کے لیے گناہ ہے ، جو حرام ہے وہ سب کے لیے حرام ہے ، اور جو جرم ہے وہ سب کے لیے جرم ہے ۔ اس بے لاگ ضابطے میں میری اپنی ذات کے لیے بھی کوئی استثناء نہیں ۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ میں دنیا میں عدل قائم کرنے پر مامور ہوں ۔ میرے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے درمیان انصاف کروں ، اور ان بے اعتدالیوں اور بے انصافیوں کا خاتمہ کر دوں جو تمہاری زندگیوں میں اور تمہارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں ۔ ان تین مطالب کے علاوہ اس فقرے کا ایک چوتھا مطلب بھی ہے جو مکہ معظمہ میں نہ کھلا تھا مگر ہجرت کے بعد کھل گیا ، اور وہ یہ ہے کہ میں خدا کا مقرر کیا ہوا قاضی اور جج ہوں ، تمہارے درمیان انصاف کرنا میری ذمہ داری ہے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :29 یعنی ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے عمل کا خود ذمہ دار و جوابدہ ہے ۔ تم اگر نیکی کرو گے تو اس کا پھل ہمیں نہیں پہنچ جائے گا ، بلکہ تم ہی اس سے متمتّع ہو گے ۔ اور ہم اگر برائی کریں گے تو اس کی پاداش میں تم نہیں پکڑے جاؤ گے ، بلکہ ہمیں خود ہی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔ یہی بات سورہ بقرہ ، آیت 139 ، سورہ یونس ، آیت 41 ، سورہ ہود ، آیت 35 ، اور سورہ قصص ، آیت 55 میں اس سے پہلے ارشاد ہو چکی ہے ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، البقرہ ، حاشیہ ۱۲۹ ، جلد دوم ، یونس ، حاشیہ ٤۹ ، ہود ، حاشیہ ۳۹ ، القصص ، حاشیہ ۷۷ ) سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :30 یعنی معقول دلائل سے بات سمجھانے کا جو حق تھا وہ ہم نے ادا کر دیا اب خواہ مخواہ تو تو میں میں کرنے سے کیا حاصل ۔ تم اگر جھگڑا کرو بھی تو ہم تم سے جھگڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(42:15) فلذلک فادع : ف سببیہ ہے لام علت کے لئے ہے ذلک اسم اشارہ اس کا مشار الیہ منکرین سابقین کا دین کی پیروی میں باہمی رفاقت کی وجہ سے فرقوں میں بٹ جانا اور مابعد کے اہل کتاب کا اپنی ہی کتابوں میں شک و تردد میں پڑجانا ہے۔ پس ان حالات کے پیش نظر ادع تو (ان کو) بلا۔ دعوت دے۔ ادع امر کا صیغہ واحد مذکر...  حاضر۔ دعوۃ (باب نصر) مصدر۔ خطاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے ای ادع علی الاتفاق علی الملۃ الحنفیۃ۔ واستقم : واؤ عاطفہ۔ استقم امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ استقامۃ (استفعال) مصدر۔ تو قائم رہ۔ تو ثابت قدم رہ۔ قوم مادہ۔ ای استقم علی الدعوۃ الی الدین۔ کما امرت : ک تشبیہ کا ہے امرت ماضی مجہول کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ امر (باب نصر) مصدر سے۔ تجھے حکم دیا گیا ہے۔ ولا تتبع۔ فعل نہی واحد مذکر حاضر۔ اتباع (افتعال) مصدر۔ تبع مادہ۔ تو اتباع نہ کر۔ تو پیروی نہ کر۔ اھواء ھم : اھواء جمع ھوی کی۔ ھوی مادہ ۔ خواہشات، مضاف، ہم ضمیر جمع مذکر غائب مضاف الیہ۔ دونوں مل کر لاتتبع کا مفعول۔ من کتب : از قسم کتاب۔ ما انزل اللّٰہ من کتب۔ اللہ نے جو کتاب بھی نازل کی ہے۔ امرت ماضی مجہول کا صیغہ واحد متکلم ۔ مجھے حکم دیا گیا۔ نیز ملاحظہ ہو امرت متذکرۃ الصدر۔ لاعدل : لام تعلیل کی ہے اعدل مضارع واحد متکلم عدل (باب ضرب) مصدر منصوب بوجہ عمل لام ۔ کہ میں انصاف کروں۔ لاحجۃ : لا نفی جنس کا ہے حجۃ اسم مفرد نکرہ ۔ مبنی برفتحہ بوجہ عمل لانفی جنس، حجت ، بحث۔ المصیر : اسم ظرف مکان۔ ومصدر (باب ضرب) صیر مادہ۔ لوٹنے کی جگہ۔ ٹھکانا۔ قرار گاہ۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی انہیں خوش کرنے کے لئے دین میں کسی قسم کی مداہنت نہ کیجئے۔ 4 یعنی تمہارے ہر نبی اور ہر کتاب کو مانوں، یا تمہارے مقدمات میں انصاف سے فیصلہ کروں یا تم سب کو ایک نظر سے دیکھوں۔ صحیح کو صحیح اور غلط اور غلط قرار دوں، خواہ کہنے والا کوئی ہو۔ 5 یعنی جھگڑا کرنے کی ضرورت نہیں۔ جو بات حق تھی وہ ہم نے...  واضح کردی اور تم سے سن لی۔ اب ماننا یا نہ ماننا تمہارا کام ہے۔ 6 وہاں پورا انصاف ہوجائے گا۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : پہلی امتوں کے لوگ حسد وبغض کی وجہ سے تفرقہ بازی کا شکار ہوئے۔ جس کے نتیجہ میں اللہ کا دین تقسیم ہوا اور لوگ دین کے بارے میں شک کا شکار ہوگئے۔ افتراق اور شک سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان دین پر پکا رہے۔ دین پر پکا رہنے اور اس میں شک وشبہ سے بچنے کے لیے یہاں چار باتوں کا حکم ... دیا گیا ہے۔ مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر باربار نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے حکم ہوا ہے کہ آپ کو ان باتوں پر ہر حال میں توجہ دینا اور ان پر قائم رہنا ہوگا۔ 1 قرآن مجید اور پہلی کتابوں پر ایمان لانا۔ 2 حالات جیسے بھی ہوں دین پر استقامت اختیار کرنا۔ 3 لوگوں کی خواہشات کی پیروی سے اجتناب کرنا۔ 4 حالات کی پروا کیے بغیر دین حق کی لوگوں کو دعوت دیتے رہنا۔ جس داعی میں یہ چار اوصاف پائے جائیں وہی عدل کی بات کرسکتا اور لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرسکتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اطہر سے عدل کا ذکر فرما کر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ جو کچھ میں تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں اس میں کسی کی حمایت اور مخالفت مقصود نہیں۔ میں تو اسی بات کی دعوت دیتا ہوں جو انصاف پر مبنی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے اسی کی دعوت دینے کا حکم دیا گیا ہے۔” اُمِرْتُ لِاَ عْدِ لَ بَیْنَکُمْ “ کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے دین کے ساتھ اس لیے مبعوث فرمایا ہے کہ میں تمہارے درمیان تمہارے دینی اور دنیاوی اختلافات میں عدل کے ساتھ فیصلہ کروں۔ اگر تم اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہو تو ہمارے ساتھ جھگڑنے کی بجائے تم اپنا کام کرو اور ہمیں اپنا کام کرنے دو کیونکہ ہمارے لیے ہمارے اعمال اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں۔ نہ ہمارے اعمال کے بارے میں تمہیں پکڑا جائے گا اور نہ تمہارے اعمال کے بارے میں ہم پر کوئی گرفت ہوگی۔ اس کے باوجود تم جھگڑتے ہو تو یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن اکٹھا فرما کر سب کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا۔ ہمیں تو ہر حال میں دین پر پکے رہنے اور لوگوں کی خواہشات کے پیچھے لگنے سے منع کیا گیا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا : (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُکْثِرُ أَنْ یَقُولَ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دینِکَ فَقُلْتُ یَا رَسُول اللَّہِ آمَنَّا بِکَ وَبِمَا جِءْتَ بِہِ فَہَلْ تَخَافُ عَلَیْنَا قَالَ نَعَمْ إِنَّ الْقُلُوبَ بَیْنَ أَصْبُعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللَّہِ یُقَلِّبُہَا کَیْفَ یَشَاءُ ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ أَنَّ الْقُلُوبَ بَیْنَ أَصْبُعَیِ الرَّحْمَنِ ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے اے دلوں کو پھیرنے والے ” اللہ “ میرے دل کو دین پر ثابت فرما۔ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آپ پر ایمان لائے اور جو کچھ آپ لے کر آئے اسے تسلیم کیا۔ کیا آپ ہمارے بارے میں خطرہ محسوس کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! بیشک دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں وہ جدھر چاہتا ہے اسے پھیرتا ہے۔ “ مسائل ١۔ مسلمان کو ہر حال میں لوگوں کو دین کی دعوت دینا چاہیے۔ ٢۔ ہر حال میں دین پر استقامت اختیار کرنی چاہیے۔ ٣۔ گمراہ لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہیں چلنا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتب اور قرآن مجید پر ایمان لانا فرض ہے۔ ٥۔ دین کا ایک مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے لوگوں کے درمیان عدل قائم کیا جائے۔ ٦۔ کوئی شخص دوسرے کے اعمال کا ذمہ دار نہیں۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ سب کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف پلٹ کرجانا ہے۔ اور وہی لوگوں کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلے کرے گا۔ تفسیر بالقرآن دین پر استقامت اختیار کرنے کا حکم : ١۔ دین پر قائم رہو اور جدا جدا نہ ہوجاؤ۔ (الشوریٰ : ١٣) ٢۔ دین پر قائم رہو اور بےعلموں کے راستہ کی پیروی نہ کرو۔ (یونس : ٨٩) ٣۔ ایمان لانے کے بعد استقامت دکھلانے والوں پر کوئی خوف نہیں ہوگا۔ (الاحقاف : ١٣)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

استقامت اور عدل کا حكم، کافروں سے برات کا اعلان اوپر جس دین کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے اس کی نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو وصیت کی اور آپ کی طرف اس کی وحی بھیجی اس کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ آپ اسی کی طرف دعوت دیتے رہیں اور آپ کو جس طرح حکم دیا گیا ہے اسی طرح مستقیم رہیں اور مشرکین کی خ... واہشوں کا اتباع نہ کریں انہیں آپ کا دین ناگوار ہے اور یہ بھی ناگوار ہے کہ آپ انہیں دین توحید کی دعوت دیں اگر آپ کی دعوت میں ذرا سی بھی لچک آگئی اور ان کی کسی بات کو مان لیا تو استقامت ہاتھ سے جاتی رہے گی۔ مزید فرمایا کہ آپ ان کو بتادیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو بھی کتابیں نازل فرمائی ہیں سب پر ایمان لاتا ہوں جن میں قرآن مجید بھی ہے اور ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ تم سے کوئی بات کہوں اور خود عمل نہ کروں اور تمہیں تکلیف میں ڈالوں اور خود آزاد رہوں لہٰذا تم میری بات مانو، اسے ﴿وَ اُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَيْنَكُمْ ١ؕ﴾ میں بیان فرمایا : ﴿اَللّٰهُ رَبُّنَا وَ رَبُّكُمْ ﴾ اللہ ہمارا رب ہے اور تمہارا رب ہے جب سب اسی کے بندے ہیں تو لازم ہے کہ یہ سب ایمان لائیں اور اس کے بھیجے ہوئے دین کا اتباع کریں گے اگر تم نہیں مانتے تو دیکھ لو سامنے آخرت کا دن بھی ہے سب اپنے اپنے اعمال لے کر حاضر ہوں گے، ہمیں جو کچھ پیغام پہنچانا تھا پہنچا دیا ہمارا کام پورا ہوگیا اب ہمارے تمہارے درمیان کوئی حجت بازی نہیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہم سب کو جمع فرمائے گا اسی کی طرف سب کو لوٹنا ہے وہ اصحاب توحید کو جزا دے گا اور اصحاب شرک کو سزا دے گا ہم اظہار حق اور دعوت توحید کے سوا کیا کرسکتے ہیں نہ ماننے کا وبال تمہیں پڑے گا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

14:۔ ” فلذلک فادع “ یہ پہلا امر متفرع ہے یہ اصل میں ” فادع لذلک، لذلک فادع “ پہلے جملے سے ” ادع “ حذف کردیا گیا اور دوسرے سے لذلک کو تاکہ تکرار مع اختصار ہوجائے ” فبذلک فلیفرحوا “ کی ترکیب بھی یہی ہے۔ نقلہ الشیخ (رح) تعالیٰ عن الرضی۔ جب تمام انبیاء (علیہم السلام) کی دعوت ایک ہی تھی، لیکن باغیوں نے ا... س میں ضد وعناد سے اختلاف ڈالدیا ہے، تو آپ اسی دین توحید کی دعوت دیتے رہئے جس کی تمام انبیاء (علیہم السلام) کو تاکید کی گئی ” واستقم کما امرت “ یہ دوسرا امر متفرع ہے اور جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے، آپ اسی طرح دعوت پر قائم رہیں۔ ” ولا تتبع اھواءھم “ یہ تیسرا امر متفرع ہے اور ان گمراہ کن پیشوا اؤں اور شرک کے رہنماؤں کی خواہشات کا اتباع نہ کریں۔ ای الی ما وصی اللہ تعالیٰ بہ الانبیاء من التوحید (معالم و خازن ج 6 ص 119) ۔ 15:۔ ” وقل امنت “ یہ چوتھا امر متفرع ہے اور آپ فرما دیں میں تو صرف اسی کتاب پر ایمان لایا ہوں جو اللہ نے نازل فرمائی ہے، ان باغیوں اور گمراہی پھیلانے والوں کی تحریرات اور تحریفات کا ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ ” وامرت لاعدل بینکم “ یہ پانچویں امر متفرع میں داخل ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تبلیغ توحید اور فصل احکام میں تمہارے درمیان برابری کروں یہ مسئلہ سب کو سناؤں اور کسی کی طرفداری نہ کروں۔ فی تبلیغ الشرائع والحکم بین المتخاصمین (مظہری ج 8 ص 314) ۔ اللہ تعالیٰ ہی ہمارا مالک و کارساز ہے اور تمہارے اعمال شرک کا ہمیں کوئی نقصان نہیں اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں۔ یعنی شرک سے پاک ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ہیں یعنی تمہارے اعمال سراسر مشرکانہ ہیں۔ رہا یہ کہ ہم تمہیں اسلام اور توحید کی دعوت توحیدکیوں دیتے ہیں تو محض تمہاری خیر خواہی کے لیے ” لاحجۃ بیننا وبینکم “ اس لیے خصومت اور جھگڑے کی کوئی وجہ نہیں۔ لان اعمالکم لا یضرنا واعمالنا لایضرکم انما ندعوکم الی الاسلام نصحا لکم، فلا وجہ للخصوصمہ والعداوۃ (مظہری) ۔ یا مطلب یہ ہے کہ دین حق حجت و دلیل کے اعتبار سے غالب ہوچکا ہے اور تم پر حجت خداوندی قائم ہوچکی ہے، اس لیے اب تم پر احتجاج کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی اور تمہارے انکار کی عناد و مکابرہ کے سوا کوئی توجیہہ نہیں ہوسکتی۔ ای لا احتجاج ولا خصومۃ لان الحق قد ظہر، فلم یبق للاحتجاج حاجۃ ولا للمخالفۃ محمل سوی المکابرۃ والعناد (روح ج 25 ص 25) ۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہم سب کو جمع کرے گا اور سر محشر محق و مبطل کے درمیان آخری اور قطعی فیسلہ فرمائیگا۔ فریق فی الجنۃ وفریق فی السعیر۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(15) پس اے پیغمبر آپ لوگوں کو اسی دین کی دعوت اور بلاوا دیتے رہیے اور آپ خود بھی جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے اسی پر قائم رہیے اور آپ ان منکروں کو خواہشات فاسدہ پر نہ چلئے اور ان سے کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی کتابیں نازل فرمائی ہیں میں ان سب پر یقین اور ایمان رکھتا ہوں اور نیز مجھ کو حکم دیا گ... یا ہے کہ میں تمہارے درمیان نصاف کروں اللہ تعالیٰ ہی ہمارا پروردگار ہے اور وہی تمہارا پروردگار ہے ہمارے عمل ہم کو ملنے ہیں اور ہمارے عمل ہمارے لئے ہیں اور تمہارا کیا تم کو ملنا ہے اور تمہارے اعمال تمہارے لئے ہیں ہمارے تمہارے درمیان کوئی جھگڑا اور بحث نہیں ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف سب کی بازگشت ہے اور اس کی طرف سب کو جانا ہے۔ پیغمبر کو ارشادہوتا ہے کہ جب اس دین اور قرآن کی حقانیت ثابت ہے تو آپ اسی کی طرف لوگوں کو بلاتے رہیے اور دعوت اور بلانے پر قائم رہیے یا خود بھی اس دین پر مستقیم رہیے اور ان دین حق کے منکروں کی خواہشات نفسانی پر نہ چلئے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کیجئے اور اپنے مکلف ہونے کا اعلان کردیجئے کہ جن باتوں کی طرف تم کو بلاتا ہوں میں بھی ان کا پابند ہوں۔ چانچہ اللہ تعالیٰ کی تمام کتابوں کو مانتا ہوں اور اسی کا حکم دیتا ہوں اور مجھے یہ بھی حکم ملا ہے کہ اگر تمہاری باہمی کوئی جھگڑا میرے پاس آئے تو اس میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کروں یا یہ کہ اپنے اور تمہارے درمیان انصاف کروں جو تم کو بتائوں وہ میں خود بھی کروں جو تم پر واجب یا فرض کروں وہ اپنے پر واجب اور فرض کروں ہمارا تمہارا اللہ تعالیٰ ہی پروردگار اور مالک ہے تمہارے اعمال تمہارے لئے تمہارے اعمال ہمارے لئے ہمارے تمہارے درمیان کچھ کج بحثی نہیں کوئی جھگڑا نہیں اللہ تعالیٰ ہم سب کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف سب کو پھرجانا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں پہلے کتاب والوں سے اسی کلام کرنا چاہیے۔ یعنی اہل کتاب سے انداز گفتگو نرم ہوناچاہیے۔  Show more