Surat us Shooraa

Surah: 42

Verse: 20

سورة الشورى

مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ حَرۡثَ الۡاٰخِرَۃِ نَزِدۡ لَہٗ فِیۡ حَرۡثِہٖ ۚ وَ مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ حَرۡثَ الدُّنۡیَا نُؤۡتِہٖ مِنۡہَا وَ مَا لَہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنۡ نَّصِیۡبٍ ﴿۲۰﴾

Whoever desires the harvest of the Hereafter - We increase for him in his harvest. And whoever desires the harvest of this world - We give him thereof, but there is not for him in the Hereafter any share.

جس کا ارادہ آخرت کی کھیتی کا ہو ہم اسے اس کی کھیتی میں ترقی دیں گے اور جو دنیا کی کھیتی کی طلب رکھتا ہو ہم اسے اس میں سے ہی کچھ دے دیں گے ایسے شخص کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الاْخِرَةِ ... Whosoever desires the reward of the Hereafter, means, whoever does things for the sake of the Hereafter, ... نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ ... We give him increase in his reward, meaning, `We will give him strength and help him to do what he wants to do, and We will increase it for him. So for every good, We will multiply it and give him betwe... en ten and seven hundred good rewards,' as much as Allah wills. ... وَمَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُوتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الاْخِرَةِ مِن نَّصِيبٍ and whosoever desires the reward of this world, We give him thereof, and he has no portion in the Hereafter. means, whoever strives for the purpose of worldly gains, and never pays any heed to the Hereafter at all, Allah will deny him the Hereafter; and in this world, if He wills He will give to him and if He does not will, he will gain neither. So the one who strives with this intention in mind will have the worst deal in this world and in the Hereafter. The evidence for that is the fact that this Ayah is reinforced by the passage in Surah Al-Isra' in which Allah says: مَّن كَانَ يُرِيدُ الْعَـجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَأءُ لِمَن نُّرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَـهَا مَذْمُومًا مَّدْحُورًا وَمَنْ أَرَادَ الاٌّخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُوْمِنٌ فَأُولَـيِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا كُلًّ نُّمِدُّ هَـوُلاءِ وَهَـوُلاءِ مِنْ عَطَأءِ رَبِّكَ وَمَا كَانَ عَطَأءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا انظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَلَلٌّخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجَـتٍ وَأَكْبَرُ تَفْضِيلً Whoever desires the quick-passing, We readily grant him what We will for whom We like. Then, afterwards, We have appointed for him Hell; he will (enter) burn therein disgraced and rejected. And whoever desires the Hereafter and strives for it, with the necessary effort due for it while he is a believer -- then such are the ones whose striving shall be appreciated. On each -- these as well as those -- We bestow from the bounties of your Lord. And the bounties of your Lord can never be forbidden. See how We prefer one above another (in this world), and verily, the Hereafter will be greater in degrees and greater in preferment. (17:18-21) It was reported that Ubayy bin Ka`b, may Allah be pleased with him, said, "The Messenger of Allah said: بَشِّرْ هذِهِ الاُْمَّةَ بِالسَّنَاءِ وَالرِّفْعَةِ وَالنَّصْرِ وَالتَّمْكِينِ فِي الاَْرْضِ فَمَنْ عَمِلَ مِنْهُمْ عَمَلَ الاْخِرَةِ لِلدُّنْيَا لَمْ يَكُنْ لَهُ فِي الاْخِرَةِ مِنْ نَصِيب Give the glad tidings to this Ummah of sublimity, high status, victory and power in the land. But whoever among them does the deeds of the Hereafter for the sake of worldly gain, will have no portion of the Hereafter." Making Legislation for the Creatures is Shirk Allah says: Allah says,   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣١] ایک دنیا دار اور دیندار کے انجام کا موازنہ :۔ اس آیت میں دو آدمیوں کے طرز زندگی کا تقابل پیش کیا گیا ہے۔ جن میں سے ایک تو روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور دوسرا اس سے منکر ہے اور سب کچھ اسی دنیا کو ہی سمجھتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ آخرت پر ایمان رکھنے والا شخص جو کام بھی کرے گا آخرت کے لیے کرے گا اور ... آخرت کے مفاد کو دنیا کے مفاد پر ترجیح دے گا۔ ایسا شخص جو کچھ بھی اس دنیا کی کھیتی میں آخرت کے دن پھل کاٹنے کے لیے بوئے گا اللہ تعالیٰ اس میں بہت زیادہ اضافہ کر دے گا۔ جیسا کہ اس دنیا میں غلہ کا ایک دانہ بیجنے سے بعض دفعہ سات سو سے بھی زیادہ دانے حاصل ہوجاتے ہیں۔ یہ تو اس کی آخرت کا معاملہ تھا۔ اور دنیا میں جتنا رزق یا جتنی بھلائی اس کے مقدر میں ہے وہ بھی اسے مل کے رہے گی۔ اس کے مقابلہ میں جو شخص روزآخرت کا منکر ہے اور بس دنیا ہی دنیا کا مال اور بھلائی چاہتا ہے۔ وہ خواہ کتنی ہی کوشش کر دیکھے اسے اتنی ہی دنیا میں ملے گی جتنی اس کے مقدر میں ہے اس سے زیادہ نہیں۔ رہا اس کی آخرت کا معاملہ تو اگر اس نے دنیا میں کچھ نیک کام کئے بھی ہوں گے تو ان کا اسے کچھ بدلہ نہ ملے گا کیونکہ وہ کام اس نے اس نیت سے کیے ہی نہیں تھے کہ ان کا آخرت میں اسے کچھ بدلہ ملے، نہ ہی اس کا آخرت پر کچھ یقین تھا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) من کان یرید حرث الاخرۃ…: اللہ تعالیٰ نے دنیا کو آدمی کے لئے کھیت بنایا ہے ، وہ اس میں جو بوئے گا وہی کاٹے گا اور جس چیز کا ارادہ کرے گا وہی ملے گی۔ اسی طرح اس نے دنیا کو تجارت کی جگہ بنایا ہے، اگر خیر کا سودا کرے گا تو نفع میں خیر ملے گی، اگر شر کا سودا کرے گا تو نتیجہ میں شر پائے گا۔ اسی طرح دن... یا کو آخرت کا راستہ بنایا ہے، اگر خیر کے راستے پر چلے گا توم نزل مراد پالے گا اور ہمیشہ کی جنت میں پہنچ جائے گا، اگر شر کے راستے پر چلے گا تو ہمیشہ کے عذاب اور انفسھم و اموالھم با ن لھم الجنۃ ) (التوبۃ : ١١١)” بیشک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لئے ہیں، اس کے بدلے کہ ان کے لئے جنت ہے۔ “ اور فرمایا :(ومن الناس من یشری نفسہ ابتغآء مرضات اللہ) (البقرۃ :208) ” اور لوگوں میں سے بعض وہ ہے جو اللہ کی رضا مندی تلاش کرنے کے لئے اپنی جان بیچ دیتا ہے۔ “ اور فرمایا :(اولئک الذین اشتروا الحیوۃ الدنیا بالاخرۃ) (البقرہ : ٨٦) ” یہی لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی زندگی آخرت کے بدلے خریدی۔ “ (٢) پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے رزق کا قانون بیان فرمایا کہ وہ سب کے لئے یکساں نہیں، وہ جسے چاہتا ہے اور جتنا چاہتا ہے دیتا ہے اور اس میں اس کی بیشمار حکمتیں ہیں۔ (دیکھیے زخرف : ٣٢) اس آیت میں فرمایا کہ آدمی کی کوشش اور نیت کے مختلف ہونے کے لحاظ سے بھی اسے ملنے والا رزق مختلف ہے۔ (٣) آخرت کی کھیتی کا ارادہ رکھنے والے کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ اسے دنیا میں کچھ نہیں ملے گا۔ دنیا تو نیک ہو یا بد ہر ایک کو تھوڑی یا زیادہ ملنی ہی ملنی ہے، آخرت کے متعلق بشارت دی کہ ہم اس کے لئے اس کی کھیتی میں اضافہ کریں گے، کیونکہ اس کی نیت اور کوشش اسی کی ہے۔ اضافہ یہ ہے کہ دنیا میں اسے مزید نیکیوں کی توفیق دیں گے اور آخرت میں ایک نیکی کو دس گنا سے ہز اورں لاکھوں تک بلکہ شمارے بھی زیادہ بڑھائیں گے اور دائمی نعمتیں عطا کریں گے، جیسا کہ فرمایا :(ومن اراد الاخرۃ وسعی لھا سعیھا وھو مومن فاؤلئک کان سعیھم مشکوراً (بنی اسرائیل : ١٩) ” اور جس نے آخرت کا ارادہ کیا اور اس کے لئے کوشش کی جو اس کے لائق کوشش ہے، جب کہ وہ مومن ہو تو یہی لوگ ہیں جن کی کوشش ہمیشہ سے قدر کی ہوئی ہے۔ “ (٤) ومن کان یرید حرث الدنیا نوتہ منھا …:” منھا “ میں ” من “ تبعیض کے لئے ہے۔ یعنی جو شخص دنیا کی کھیتی کا ارادہ کرے گا اور دنیا ہی کے لئے کوشش اور محنت کرے گا، ایک تو یہ کہ اسے وہ نہیں ملے گا جو وہ چاہتا ہے بلکہ ہم اسے اس میں سے کچھ حصہ ہی دیں گے، دوسرا یہ کہ وہ حصہ بھی ہم دنیا ہی میں دے دیں گے، آخرت میں اس کیلئے کوئی حصہ نہیں، کیونکہ آخرت کی نیت سے اس نے کچھ کیا ہی نہیں۔ یہی بات ایک اور آیت میں یوں بیان فرمائی :(من کان یرید العاجلہ عجلنا لہ فیھا مانشآء لمن نریدثم جعلنا لہ جھنم یصلھا مذموماً مدحوراً ) (بنی اسرائیل : ١٨) ” جو شخص اس جلدی والی صدنیا) کا ارادہ رکھتا ہو ہم اس کو اس میں جلدی دے دیں گے جو چاہیں گے، جس کے لئے چاہیں گے، پھر ہم نے اس کے لئے جہنم بنا رکھی ہے، اس میں داخل ہوگا، مذمت کیا ہوا، دھتکارا وہا۔ “ اور فرمایا :(فمن الناس من یقول ربنا اتنا فی الدینا وما لہ فی الاخرۃ من خلاق) (البقرۃ : ٢٠٠) ” پھر لوگوں میں سے کوئی تو وہ ہے جو کہتا ہے اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا میں دے دے اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

(حاشیہ) شکر نعمت : بسم اللہ الرحمن الرحیم 24 ربیع الثانی 1392 ھ روز چہار شنبہ کی صبح کو ” معارف القرآن “ کی تفسیر یہاں تک پہنچانے اور دارالعلوم کے دوسرے کام کرنے کے بعد نماز ظہر ادا کی اور یہ اوراق تکیہ کے نیچے دبا کر رکھے۔ کہ کھانے کے بعد تھوڑا سا آرام کر کے پھر تفسیر کا کام شروع کروں گا مگر انسا... ن اور اس کے ارادوں کی کمزوری کا اندازہ اس سے کیجئے کہ آج پورے چھپن دن کے بعد ٢ جمادی الثانیہ 1392 ھ بروز چہار شنبہ کو دوبارہ اس کاغذ پر قلم لگانے کی نوبت اس کے بعد آئی کہ ایک عرصہ تک زندگی سے مایوسی رہی، اور ڈیڑھ پارہ قرآن کی تفسیر جو لکھنا باقی تھی اس کی تکمیل کی وصیت اپنے برخور دار صالح مولوی محمد تقی سلمہ کو کر کے اپنی حسرت کا تھوڑا سا تدارک کرچکا اور دل کو فارغ کرچکا تھا۔ واقعہ یہ ہوا کہ دوپہر کے کھانے کے بعد ہی میرے سینے میں شدید درد ہوا جو اگلے روز ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق میرے قلب پر شدید حملہ (ہارٹ اٹیک) ثابت ہوا۔ میرے مخلص محب محترم ڈاکٹر صغیر احمد ہاشمی و امت مکارمہ کو حق تعالیٰ نے میری دوسری زندگی کا ذریعہ بنادیا۔ انہوں نے اپنی خاص تدبیر سے مجھے فوراً امراض قلب کے ہسپتال میں داخل کرا دیا جبکہ میں اپنے اختیار سے اس پر کسی طرح آمادہ نہ تھا۔ کیونکہ ہسپتال میں مریضوں کے ساتھ سلوک کے جو مشاہدات کرتا آیا تھا ان کے سبب میرا دل کسی طرح مطمئن نہ تھا کہ میں کسی ہسپتال میں خصوصاً موت وحیات کی کشمکش کے حال میں داخل ہوں مگر موصوف نے کچھ تدبیریں کر کے مجھے وہاں پہنچا دیا۔ بعد میں ثابت ہوگیا کہ وہ ہی میری دوبارہ زندگی کا ظاہری سبب بنا۔ بغیر ہسپتال میں قیام کے علاج ممکن نہیں تھا۔ 25 ربیع الثانی 1392 ھ بروز جمعرات کو امراض قلب کے ہسپتال میں داخل ہوا اور بحمد اللہ یہاں کے ڈاکٹر بڑے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ ہمدرد اور مہربان بھی ثابت ہوئے۔ چند روز میں اللہ تعالیٰ نے خطرہ سے نکال دیا۔ مزید احتیاطی علاج کے لئے 32 روز مجھے ہسپتال میں رہنا پڑا۔ ١١ جولائی 72 ء روز دو شنبہ کو مجھے ہسپتال سے رخصت کیا گیا اور اپنے مکان واقع لسبیلہ میں چند ہفتے قیام کا ارادہ کرلیا۔ یہاں بھی احتیاطی تدابیر اور علاج جاری ہے۔ آج ٠٢ جمادی الثانیہ کو جو اتفاق سے میرے پاکستان کراچی پہنچنے کی تاریخ ہے اور آج پاکستان میں آئے ہوئے مجھے چوبیس سال پورے ہو کر پچیسواں شروع ہو رہا ہے۔ اور بحمداللہ صحت و قوت بھی اب کچھ تدریجاً بڑھ رہی ہے تو اللہ کے نام پر آج یہ اوراق پھر اٹھائے اور یہ حاشیہ لکھ دیا۔ تفسیر معارف القرآن کی صورت حال یہ ہے کہ جب یہ حادثہ مجھے پیش آیا تو میں معارف القرآن کو تقریباً آخر قرآن تک لکھ چکا تھا، ایک خاص سبب سے درمیانی چھٹی منزل رہ گئی تھی اس کو لکھنے کا کام سورة شوریٰ کے اس مقام تک پہنچا تھا۔ آگے تقریباً ڈیڑھ پارہ قرآن کریم کا سورة حجرات تک لکھنا باقی تھا۔ اب حق تعالیٰ نے گویا دوبارہ زندگی عطا فرمائی اور معالج ڈاکٹروں نے کچھ لکھنے پڑھنے کی اجازت دی تو برخوردار مولوی محمد تقی کو ساتھ لگا کر بنام خدا آج پھر یہ کام شروع کیا ہے۔ واللہ المستعان۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَنْ كَانَ يُرِيْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَۃِ نَزِدْ لَہٗ فِيْ حَرْثِہٖ۝ ٠ ۚ وَمَنْ كَانَ يُرِيْدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِہٖ مِنْہَا وَمَا لَہٗ فِي الْاٰخِرَۃِ مِنْ نَّصِيْبٍ۝ ٢٠ كان كَانَ «3» : عبارة عمّا مضی من الزمان، وفي كثير من وصف اللہ تعالیٰ تنبئ عن معنی الأزليّة، قال : وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَي... ْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب/ 40] ، وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب/ 27] وما استعمل منه في جنس الشیء متعلّقا بوصف له هو موجود فيه فتنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له، قلیل الانفکاک منه . نحو قوله في الإنسان : وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء/ 67] وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء/ 100] ، وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف/ 54] فذلک تنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له قلیل الانفکاک منه، وقوله في وصف الشّيطان : وَكانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا [ الفرقان/ 29] ، وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء/ 27] . وإذا استعمل في الزمان الماضي فقد يجوز أن يكون المستعمل فيه بقي علی حالته كما تقدّم ذكره آنفا، ويجوز أن يكون قد تغيّر نحو : كَانَ فلان کذا ثم صار کذا . ولا فرق بين أن يكون الزمان المستعمل فيه کان قد تقدّم تقدما کثيرا، نحو أن تقول : کان في أوّل ما أوجد اللہ تعالی، وبین أن يكون في زمان قد تقدّم بآن واحد عن الوقت الذي استعملت فيه کان، نحو أن تقول : کان آدم کذا، وبین أن يقال : کان زيد هاهنا، ويكون بينک وبین ذلک الزمان أدنی وقت، ولهذا صحّ أن يقال : كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] فأشار بکان أنّ عيسى وحالته التي شاهده عليها قبیل . ولیس قول من قال : هذا إشارة إلى الحال بشیء، لأنّ ذلك إشارة إلى ما تقدّم، لکن إلى زمان يقرب من زمان قولهم هذا . وقوله : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران/ 110] فقد قيل : معنی كُنْتُمْ معنی الحال «1» ، ولیس ذلک بشیء بل إنما ذلک إشارة إلى أنّكم کنتم کذلک في تقدیر اللہ تعالیٰ وحكمه، وقوله : وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة/ 280] فقد قيل : معناه : حصل ووقع، والْكَوْنُ يستعمله بعض الناس في استحالة جو هر إلى ما هو دونه، وكثير من المتکلّمين يستعملونه في معنی الإبداع . وكَيْنُونَةٌ عند بعض النّحويين فعلولة، وأصله : كَوْنُونَةٌ ، وكرهوا الضّمة والواو فقلبوا، وعند سيبويه «2» كَيْوِنُونَةٌ علی وزن فيعلولة، ثم أدغم فصار كَيِّنُونَةً ، ثم حذف فصار كَيْنُونَةً ، کقولهم في ميّت : ميت . وأصل ميّت : ميوت، ولم يقولوا كيّنونة علی الأصل، كما قالوا : ميّت، لثقل لفظها . و «الْمَكَانُ» قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل : تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] . ( ک و ن ) کان ۔ فعل ماضی کے معنی کو ظاہر کرتا ہے پیشتر صفات باری تعا لےٰ کے متعلق استعمال ہو تو ازلیت ( یعنی ہمیشہ سے ہے ) کے معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب/ 40] اور خدا ہر چیز واقف ہے ۔ وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب/ 27] اور خدا ہر چیز پر قادر ہے ۔ اور جب یہ کسی جنس کے ایسے وصف کے متعلق استعمال ہو جو اس میں موجود ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ یہ وصف اس اسم کے ساتھ لازم وملزوم رہتا ہے اور بہت ہی کم اس علیحدہ ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات : ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء/ 67] اور انسان ہے ہی ناشکرا ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء/ 100] اور انسان دل کا بہت تنگ ہے ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف/ 54] اور انسان سب چیزوں سے بڑھ کر جھگڑا لو ہے ، میں تنبیہ کی ہے کہ یہ امور انسان کے اوصاف لازمہ سے ہیں اور شاذ ونا ور ہی اس سے منفک ہوتے ہیں اسی طرح شیطان کے متعلق فرمایا : ۔ كانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا[ الفرقان/ 29] اور شیطان انسان کی وقت پر دغا دینے والا ہے ۔ وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء/ 27] اور شیطان اپنے پروردگار کی نعمتوں کا کفران کرنے والا یعنی نا قدرا ہے ۔ جب یہ فعل زمانہ ماضی کے متعلق استعمال ہو تو اس میں یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ وہ چیز تا حال اپنی پہلی حالت پر قائم ہو اور یہ بھی کہ اس کی وہ حالت متغیر ہوگئی ہو مثلا کان فلان کذا ثم صار کذا ۔ یعنی فلاں پہلے ایسا تھا لیکن اب اس کی حالت تبدیل ہوگئی ہے نیز یہ ماضی بعید کے لئے بھی آتا ہے جیسے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فلاں چیز پیدا کی تھی اور ماضی قریب کے لئے بھی حتی کہ اگر وہ حالت زمانہ تکلم سے ایک لمحہ بھی پہلے ہوتو اس کے متعلق کان کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے لہذا جس طرح کان ادم کذا کہہ سکتے ہیں اسی طرح کان زید ھھنا بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس بنا پر آیت : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا[ مریم/ 29]( وہ بولے کہ ) ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے کیونکہ بات کریں ۔ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جو ابھی گو د کا بچہ تھا یعنی کم عمر ہے اور یہ بھی کہ جو ابھی گود کا بچہ ہے یعنی ماں کی گود میں ہے لیکن یہاں زمانہ حال مراد لینا بےمعنی ہے اس میں زمانہ قریب ہے جیسے آیت : ۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران/ 110] جتنی امتیں ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو ۔ میں بھی بعض نے کہا ہے کہ کنتم زمانہ حالپر دلالت کرتا ہے لیکن یہ معنی صحیح نہیں ہیں بلکہ معنی یہ ہیں کہ تم اللہ کے علم اور حکم کے مطابق بہتر تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة/ 280] اور اگر ( قرض لینے والا ) تنگ دست ہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں کان کے معنی کسی چیز کا واقع ہوجانا کے ہیں اور یہ فعل تام ہے ۔ یعنی اگر وہ تنگدست ہوجائے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کون کا لفظ کسی جوہر کے اپنے سے پست تر جو میں تبدیل ہونے کے لئے آتا ہے اور اکثر متکلمین اسے معنی ابداع میں استعمال کرتے ہیں بعض علامائے نحو کا خیال ہے کہ کینونۃ کا لفظ اصل میں کو نو نۃ بر وزن فعلولۃ ہے ۔ ثقل کی وجہ سے واؤ سے تبدیل ہوگئی ہے مگر سیبو کے نزدیک یہ اصل میں کیونو نۃ بر وزن فیعلولۃ ہے ۔ واؤ کو یا میں ادغام کرنے سے کینونۃ ہوگیا پھر ایک یاء کو تخفیف کے لئے گرادیا تو کینونۃ بن گیا جیسا کہ میت سے میت بنا لیتے ہیں جو اصل میں میوت ہے ۔ فرق صرف یہ ہے ۔ کہ کینو نۃ ( بتشدید یاء کے ساتھ اکثر استعمال ہوتا ہے المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ حرث الحَرْث : إلقاء البذر في الأرض وتهيّؤها للزرع، ويسمّى المحروث حرثا، قال اللہ تعالی: أَنِ اغْدُوا عَلى حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صارِمِينَ [ القلم/ 22] ، وتصوّر منه معنی العمارة التي تحصل عنه في قوله تعالی: مَنْ كانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ ، وَمَنْ كانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيا نُؤْتِهِ مِنْها وَما لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ [ الشوری/ 20] ، وقد ذکرت في ( مکارم الشریعة) كون الدنیا مَحْرَثا للناس، وکونهم حُرَّاثاً فيها وكيفية حرثهم «1» . وروي : «أصدق الأسماء الحارث» «2» وذلک لتصوّر معنی الکسب منه، وروي : «احرث في دنیاک لآخرتک» «3» ، وتصوّر معنی التهيّج من حرث الأرض، فقیل : حَرَثْت النّار، ولما تهيّج به النار محرث، ويقال : احرث القرآن، أي : أكثر تلاوته، وحَرَثَ ناقته : إذا استعملها، وقال معاوية «4» للأنصار : ما فعلت نواضحکم ؟ قالوا : حرثناها يوم بدر . وقال عزّ وجلّ : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ [ البقرة/ 223] ، وذلک علی سبیل التشبيه، فبالنساء زرع ما فيه بقاء نوع الإنسان، كما أنّ بالأرض زرع ما به بقاء أشخاصهم، وقوله عزّ وجل : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ، يتناول الحرثین . ( ح ر ث ) الحرث ( ن ) کے معنی زمین میں بیج ڈالنے اور اسے زراعت کے لئے تیار کرنے کے پاس اور کھیتی کو بھی حرث کہاجاتا ہے ۔ قرآں میں ہے ؛۔ أَنِ اغْدُوا عَلى حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صارِمِينَ [ القلم/ 22] کہ اگر تم کو کاٹنا ہے تو اپنی کھیتی پر سویری ہی جا پہنچو۔ اور کھیتی سے زمین کی آبادی ہوئی ہے اس لئے حرث بمعنی آبادی آجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ مَنْ كانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ ، وَمَنْ كانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيا نُؤْتِهِ مِنْها وَما لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ [ الشوری/ 20] جو شخص آخرت کی کھیتی کا طلب گار ہے اس کو ہم اس میں سے دے دیں گے ۔ اور جو دنیا کی کھیتی کا کو خواستگار ہو اس کو ہم اس میں سے دے دیں گے اور اس کا آخرت میں کچھ حصہ نہ ہوگا ۔ اور ہم اپنی کتاب مکارم الشریعہ میں دنیا کے کھیتی اور لوگوں کے کسان ہونے اور اس میں بیج بونے کی کیفیت تفصیل سے بیان کرچکے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے (72) اصدق الاسماء الحارث کہ سب سے سچا نام حارث ہے کیونکہ اس میں کسب کے معنی پائے جاتے ہیں ایک دوسری روایت میں ہے (75) اثرث فی دنیاک لآخرتک کہ اس دنیا میں آخرت کے لئے کاشت کرلو ۔ حرث الارض ( زمین کرنا ) سے تھییج بھڑکانا کے معنی کے پیش نظر حرثت النار کہا جاتا ہے میں نے آگ بھڑکائی اور جس لکڑی سے آگ کریدی جاتی ہے اسے محرث کہا جاتا ہے ۔ کسی کا قول ہے ۔ احرث القرآن یعنی قرآن کی خوب تحقیق سے کام لو ۔ حرث ناقتہ اونٹنی کو کام اور محنت سے دبلا کردیا ۔ حضرت معاویہ نے انصار سے دریافت کیا کہ تمہارے پانی کھیچنے والے اونٹ کیا ہوئے تو انہوں نے جواب دیا :۔ حرثنا ھا یوم بدر کہ ہم نے بدر کے دن انہیں دبلا کردیا ۔ اور آیت کریمہ ؛ نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ [ البقرة/ 223] تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں تو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاؤ ۔ میں استعارۃ عورتوں کو حرث کہا ہے کہ جس طرح زمین کی کاشت پر افراد ا انسبائی بقا کا مدار ہے اس طرح نوع انسان اور اس کی نسل کا بقا عورت پر ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو ( برباد ) اور انسانوں اور حیوانوں کی ) نسل کو قابو کردے ۔ دونوں قسم کی کھیتی کو شامل ہے۔ آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث . - وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع . وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔ زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] ، دنا اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی نَّصِيبُ : الحَظُّ المَنْصُوبُ. أي : المُعَيَّنُ. قال تعالی: أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء/ 53] ( ن ص ب ) نصیب و النصیب کے معنی معین حصہ کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء/ 53] کیا ان کے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

نرم طلب دنیا، اجر آخرت سے محرومی ہے قول باری ہے (ومن کان یرید حرث الدنیا نوتہ منھا ومالہ فی الاخرۃ من نصیب۔ اور جو کوئی دنیا کی کھیتی کا طالب ہے ہم اسے کچھ دنیا میں سے دیں گے اور آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہ ہوگا) آیت میں اس کام کے لئے اجرت پر کسی کو رکھنے کے بطلان پر دلالت موجود ہے جس کی انجام وہی صر... ف تقرب الٰہی کی بنیاد پر ہوتی ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ جو شخص دنیا کی کھیتی کا طالب ہوتا ہے آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوتا، اس بنا پر وہ کام تقرب الٰہی اور عبادت کے دائرے سے خارج ہوجائے گا۔ اس لئے اس کا جواز باقی نہیں رہے گا۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے نیک اعمال کر کے آخرت میں ثواب چاہتا ہو تو ہم اس کے ثواب یا یہ کہ اس کی قوت و نشاط اور اعمال کی خوبی میں ترقی کرتے ہیں جو اپنے اعمال کے ذریعے سے جو کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر فرض کیے ہیں دنیاوی ترقی کا طالب ہو تو ہم اسے کچھ دنیا دے دیں گے اور جنت میں اسے کچھ ثواب نہ ملے گا کیون... کہ اس نے غیر اللہ کے لیے کام کیے ہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ { مَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَۃِ نَزِدْ لَہٗ فِیْ حَرْثِہٖ } ” جو شخص آخرت کی کھیتی کا طالب ہوتا ہے تو ہم اس کے لیے اس کی کھیتی میں اضافہ کردیتے ہیں۔ “ اس مضمون کا کلائمکس سورة بنی اسرائیل میں بایں الفاظ بیان ہوا ہے : { مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَۃَ عَجَّلْنَا لَہٗ فِیْہَا مَا نَ... شَآئُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَہٗ جَہَنَّمَج یَصْلٰـٹہَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا۔ ” جو کوئی طلب گار بنتا ہے جلدی والی (دنیا) کا ‘ ہم اس کو جلدی دے دیتے ہیں اس میں جو کچھ ہم چاہتے ہیں ‘ جس کے لیے چاہتے ہیں ‘ پھر ہم مقرر کردیتے ہیں اس کے لیے جہنم ‘ وہ داخل ہوگا اس میں ملامت زدہ ‘ دھتکارا ہوا۔ “ { وَمَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُؤْتِہٖ مِنْہَا وَمَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ نَّصِیْبٍ } ” اور جو کوئی دنیا کی کھیتی کا طالب بن جاتا ہے تو ہم اس کو اس میں سے کچھ دے دیتے ہیں ‘ اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

37 Two of the truths have been mentioned in the previous verse, which we arc observing everywhere at aII times: (1) That Allah is Kind and Compassionate to aII His servants; ard (2) that the measure of His provisions is not the same for everybody, but it varies from man to tnan. Now, in this verse it is being told that although the partial differences in kindness and measures of Provisions are cou... ntless, there is also a difference of fundamental nature, which is: there is one kind of the provision for the seeker of the Hereafter and of another kind for the seeker of the world. This is a very important truth which has been stated here briefly. Let us mderstand it fully, for it helps every man to determine his attitude to life. Both the seeker of the Hcreafter and the seeker of the world have been likened to the farmer in this verse, who labours persistently hard right from the time he prepares the soil till the time his crop is ready for harvesting. He puts in aII his labour so that he may reap and gather the crop of the seeds he sowed. But hecause of the difference of the intention and objective and also the difference of the attitude and conduct, to a large extent, a vast difference takes place between the famer who sows for the Hereafter and the farmer who sows for this world. Therefore, Allah has ordained different results and consequences of the labours of each, although the place of activity of both is this very earth. As to the farmer who is sowing for the Hereafter, Allah has not said that he will get no share from the world. The world, in a more or less measure, he will get in any case. for he also has a share in the common provisions being bestowed by Allah, and every person, good or bad, is getting his sustenance here. But Allah has not given him the good news of the harvest of this world but that his harvest of the Hereafter will be increased, for he is a seeker of the same, and is concerned about his end there There are several ways in which this harvest can be increased; for example, as he will go on doing righteous deeds with sincere mentions, he will be blessed with the grace to do more and more righteus deeds and his breast will be opened out for more and more good works. When he will make up his mind to adopt pure means for thieving pure aims, he will be blessed with pure means only and AIlah will not Iet it so happen that aII doors to goodness he closed and only doors to evil to remain open for him. Above aII, his each good work, however small and insignificant, will at least be increased ten times over in the Hereafter, and there is no limit to this increase. Allah will increase it hundreds of thousands of tithes for whomever He may please As for the one who is only sowing for this world, and is not at aII concerned about the Hereafter, Allah has plainly told him of two of the results of his labours: (11 That, however hard he may struggle and strive. he will not get the whole of what he is trying for, but only a fraction of it, which Allah has ordained for him; and (2) that whatever he has to get, he will get only in this world: there is no share for him in the good things of the Hereafter.  Show more

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :37 گزشتہ آیت میں دو حقیقتیں بیان کی گئی تھیں جن کا مشاہدہ ہم ہر وقت ہر طرف کر رہے ہیں ۔ ایک یہ کہ تمام بندوں پر اللہ کا لطف عام ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس کی عطا و بخشش اور رزق رسانی سب کے لیے یکساں نہیں ہے بلکہ اس میں فرق و تفاوُت پایا جاتا ہے ۔ اب اس آیت میں بتایا جا رہا ... ہے کہ اس لطف اور رزق رسانی میں جزوع تفاوُت تو بے شمار ہیں مگر ایک بہت بڑا اصولی تفاوت بھی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ آخرت کے طالب کے لیے ایک طرح کا رزق ہے اور دنیا کے طالب کے لیے دوسری طرح کا رزق ۔ یہ ایک بڑی اہم حقیقت ہے جسے ان مختصر الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے ۔ ضرورت ہے کہ اسے پوری تفصیل کے ساتھ سمجھ لیا جائے ، کیونکہ یہ ہر انسان کو اپنا رویہ متعین کرنے میں مدد دیتی ہے ۔ آخرت اور دنیا ، دونوں کے لیے سعی و عمل کرنے والوں کو اس آیت میں کسان سے تشبیہ دی گئی ہے جو زمین تیار کرنے سے لے کر فصل کے تیار ہونے تک مسلسل عرق ریزی اور جاں فشانی کرتا ہے اور یہ ساری محنتیں اس غرض کے لیے کرتا ہے کہ اپنی کھیتی میں جو بیج وہ بو رہا ہے اس کی فصل کاٹے اور اس کے پھل سے متمتع ہو ۔ لیکن نیت اور مقصد کے فرق ، اور بہت بڑی حد تک طرز عمل کے فرق سے بھی ، آخرت کی کھیتی بونے والے کسان اور دنیا کی کھیتی بونے والے کسان کے درمیان فرق عظیم واقع ہو جاتا ہے ، اس لیے دونوں کی محنتوں کے نتائج و ثمرات بھی اللہ تعالیٰ نے مختلف رکھے ہیں ، حالانکہ دونوں کے کام کرنے کی جگہ یہی زمین ہے ۔ آخرت کی کھیتی بونے والے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ دنیا اسے نہیں ملے گی ۔ دنیا تو کم یا زیادہ بہرحال اس کو ملنی ہی ہے ، کیونکہ یہاں اللہ جل شانہ کے لطف عام میں اس کا بھی حصہ ہے اور رزق نیک و بد سبھی کو یہاں مل رہا ہے ۔ لیکن اللہ نے اسے خوش خبری دنیا ملنے کی نہیں بلکہ اس بات کی سنائی ہے کہ اس کی آخرت کی کھیتی بڑھائی جائے گی ، کیونکہ اسی کا وہ طالب ہے اور اسی کے انجام کی اسے فکر لاحق ہے ۔ اس کھیتی کے بڑھائے جانے کی بہت سی صورتیں ہیں ۔ مثلاً جس قدر زیادہ نیک نیتی کے ساتھ وہ آخرت کے لیے عمل صالح کرتا جائے گا اسے اور زیادہ نیک عمل کی توفیق عطا کی جائے گی اور اس کا سینہ نیکیوں کے لیے کھول دیا جائے گا ۔ پاک مقصد کے لیے پاک ذرائع اختیار کرنے کا جب وہ تہیہ کر لے گا تو اس کے لیے پاک ہی ذرائع میں برکت دی جائے گی اور اللہ اس کی نوبت نہ آنے دے گا کہ اس کے لیے خیر کے سارے دروازے بند ہو کر صرف شر ہی کے دروازے کھلے رہ جائیں ۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ دنیا میں اس کی تھوڑی نیکی بھی آخرت میں کم از کم دس گنی تو بڑھائی ہی جائے گی ، اور زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے ، ہزاروں لاکھوں گنی بھی اللہ جس کے لیے چاہے گا بڑھا دے گا ۔ رہا دنیا کی کھیتی بونے والا ، یعنی وہ شخص جو آخرت نہیں چاہتا اور سب کچھ دنیا ہی کے لیے کرتا ہے ، اسے اللہ تعالیٰ نے اس کی محنت کے دو نتائج صاف صاف سنا دیے ہیں ۔ ایک یہ کہ خواہ وہ کتنا ہی سر مارے ، جس قدر دنیا وہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ پوری کی پوری اسے نہیں مل جائے گی ، بلکہ اس کا ایک حصہ ہی ملے گا ، جتنا اللہ نے اس کے لیے مقرر کر دیا ہے ۔ دوسرے یہ کہ اسے جو کچھ ملنا ہے بس دنیا ہی میں مل جائے گا ، آخرت کی بھلائیوں میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4: یہی مضمون سورۂ بنی اسرائیل : 18 میں گذرا ہے، وہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو شخص صرف دنیا کی بہتری چاہے، اس کو دنیا کی نعمتیں دی جاتی ہیں، لیکن ہر مانگی ہوئی چیز پھر بھی نہیں ملتی، بلکہ جس کو اللہ تعالیٰ دینا چاہتا ہے، اور جتنا دینا چاہتا ہے، اتنا دیتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(42:20) من شرطیہ ہے۔ کان یرید۔ ماضی استمراری واحد مذکر غائب ارادۃ (افعال) مصدر (جو دنیا میں) چاہتا تھا۔ چاہا کرتا تھا۔ حرث الاخرۃ مضاف مضاف الیہ دونوں مل کر کان یرید کا مفعول ۔ آخرت کی کھیتی۔ یعنی جو نیک کام دنیا میں اس نیت سے کیا کرتا تھا کہ اسے اس کا پھل آخرت میں ملے نزد (مضارع مجزوم بوجہ جواب ... شرط صیغہ جمع متکلم۔ زیادۃ مصدر باب ضرب) لہ فی حرثہ ہم اس کی کھیتی کے پھل یعنی ثواب (آخرت) میں اضافہ کریں گے۔ یعنی بڑھا دیں گے۔ حرث کھیتی، زراعت، حرث یحرث (باب ضرب) سے مصدر ہے۔ بیج ڈالنا کھیتی کرنا۔ کھیت۔ نؤتہ۔ مضارع جمع متکلم ایتاء (افعال) مصدر ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب ہم اس کو عطا کریں گے۔ منھا : من تبعیضیہ ہے۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع حرث الدنیا ہے۔ منھا، ای شیئا منھا وھو رزقہ الذی قسم لہ لاما یرید۔ اس کو دنیا کے مال سے اسی قدر رزق ملے گا جو اس کی قسمت میں لکھا جا چکا ہے نہ کہ جو وہ چاہتا ہے۔ نصیب۔ حصہ۔ (آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہ ہوگا) ۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی دنیا میں نیک کاموں کی زیادہ توفیق دیتے ہیں اور آخرت میں دس سے سات سو گنا تک اس کا اجر بڑھائیں گے۔ 3 کیونکہ اس نے جو اعمال کئے ان سے ان کی نیت یہ تھی ہی نہیں کہ آخرت کا ثواب حاصل کیا جائے۔ ایک حدیث میں بھی ہے کہ جو شخص آخرت کا عمل کر کے دنیا چاہے گا اس کے لئے آخرت میں کچھ حصہ نہ ہوگا۔ دیکھئے...  اسرائیل آیت 18) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” دنیا کے واسطے جو محنت کرے موافق قسمت کے ملے، یہ اس محنت کا فائدہ، آخرت میں نہیں “۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٢٠ تا ٢٩۔ جو کوئی اپنی محنت کا پھل آخرت میں چاہتا ہے تو اس کے انعامات اور اجر اور زیادہ بڑھادیے جاتے ہیں اور وہ اپنی طلب سے بھی زیادہ پاتا ہے اور جو شخص صرف حصول دنیا کے لیے کوشش کرتا ہے اسے دنیا میں سے کچھ نہ کچھ عطا کردیا جاتا ہے یعنی ضروری نہیں کہ جس انداز یاجتنی مقدار میں اس کی خواہش ہے اسے...  مل جائے بلکہ یہ اللہ کی مرضی کہ اس کا نصیبہ کیا مقرر کیا ہے وہی ملتا ہے جبکہ یہ سب آخرت کے طلب گار کو بھی ملتا ہے۔ مگر آخرت چھوڑ کر صرف دنیا کے طالب کی خواہش دنیا میں پوری نہیں ہوتی اور آخرت سے محروم رہ جاتا ہے کہ آخرت پر ایمان ہی نہ تھا لہذا آخرت میں کچھ نہیں پاتاگویا مومن دنیا کا کام بھی طلب آخرت میں کرتا ہے لہذا اطاعت کی حدود میں رہتا ہے جبکہ کافر سب کچھ جھپٹ لیناچاہتا ہے جبکہ نہ دنیا میں سب کچھ پاسکتا ہے اور نہ ہی آخرت میں اسے کچھ بھی ملے گا۔ تو کیا انہیں اللہ کے برابر یا اس کا کوئی شریک ہاتھ آگیا ہے جس نے ان کے لیے الگ دین کی راہ نکال دی ایسی جو اللہ کے دین سے بالکل جدا ہے یعنی جب اللہ کے علاوہ کوئی معبود یا اس کا شریک ہے ہی نہیں تو انہیں اسلام کے علاوہ کوئی دین کہاں سے مل گیا یہ اتنابڑا جرم کر رہے ہیں کہ اگر روز قیامت مقرر نہ ہوچکا ہوتاتو ان کا فیصلہ ابھی کردیاجاتا اور یقینا ایسے ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے اور اے مخاطب تو دیکھے گا کہ ظالم اپنی کرتوتوں کی سزا کے خوف سے میدان حشر میں کھڑے لرز رہے ہوں گے مگر اس سے بچ نہ پائیں گے بلکہ وہ ان پر ضرور لاگوہوگی اور اسی میدان میں مومن خوش ہو رہے ہوں گے کہ جو ایمان لائے اور اپنے عمل اور کردار سے اپنا ایمان ثابت کیا وہ جنت کے باغوں میں جائیں گے نیز اللہ انہیں ہر وہ نعمت دے گا جس کی خواہش کریں گے اور یہ بہت بڑا اور بلند مرتبہ ہے جو انہیں نصیب ہوگا اور خوب سن لو کہ ایمان لا کر نیک عمل کرنے والوں کو اللہ اسی بات کی خوش خبری سنا رہے ہیں آپ ان سے کہیے کہ میں اس تمام محنت پر جو دین کے لیے کررہا ہوں اور جو سب انسانیت کے اور تمہارے بھی بھلے کے لیے ہے تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا مگر یہ ضرور کرو کہ کم ازکم قرابت داری کا لحاظ کرو مجھے ایذادینے کی کوشش نہ کرو میری بات اطمینان سے سنو اور اس پر غور کرو پھر تمہیں اختیار ہے مانویانہ مانو کوئی تم سے زبردستی منوانا نہیں چاہتا۔ مودۃ فی القربی۔ عرب کا معاشرہ قبائلی زندگی پر استوار تھا اور ہر شخص کو اس کے قبیلے کا تحفظ حاصل ہوتا تھا اس کے بغیر وہاں زندگی محال تھی اور حضرت ابن عباس کے مطابق نبی (علیہ السلام) قریش کے ایسے نسب سے تعلق رکھتے تھے کہ اس کے ہر ذیلی خاندان میں آپ کا رشتہ ولادت قائم تھا چناچہ ارشاد ہوا کہ ان سے کہیے کہ میں تم سے اپنی دعوت پر کوئی معاوضہ ہرگز نہیں مانگتا مگر تم مجھ سے قرابت داری کا معاملہ اور مروت ومودت کا معاملہ کرو مجھے آرام سے رہنے دو اور میری حفاظت کرو (روح) اور ابن جریر اور دوسری تفاسیر میں یہ الفاظ بھی ہیں جو اس امر کی مزید وضاحت کرتے ہیں کہ اے قوم اگر میرے اتباع سے انکار کرتے ہوتوقرابت کے رشتے کے باعث میری حفاظت کرو ایسا نہ ہو کہ دوسرے لوگ جن سے قرابت نہیں ایمان لاکر میری نصرت و حفاظت میں تم پر بازی لے جائیں۔ ایک اور ضعیف روایت حضرت ابن عباس ہی سے ملتی ہے کہ لوگوں نے اس آیت کے بارے سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ حضرت علی ، حضڑت فاطمہ ، اور ان کی اولاد کی محبت مگر اس کو درمنثور میں علامہ سیوطی نے تخریج احادیث میں حافظ ابن حجر نے ضعیف کہا ہے کہ اجر رسالت تو کسی نبی نے طلب نہیں فرمایا چہ جائیکہ شان رسالت ماب سے یہ توقع کی جائے لہذا جمہورامت کے نزدیک وہی تفسیر جو اوپر بیان کی گئی مگر شیعہ حضرات نے اس پر عقائد کی بنیاد استواری کردی ہے جو سراسر باطل ہے اور جس کی کوئی بنیاد نہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اہل بیت رسول سے محبت کی کوئی اہمیت نہ ہو بلکہ اہل بیت رسول اور آل رسول کی محبت جزو ایمان ہے اور آل رسول میں ساری امت داخل ہے جو کوئی جتنا قریب ہے اتنا ہی سب کے لیے محبوب ہے اور اہل بیت میں آپ کی ازواج مطہرات اور آپ کی اولاد شامل ہے سب اپنے اپنے درجے کے مطابق محبوب ہیں اور ان کی محبت ہی ایمان ہے بھلا کیسے نہ ہو جب کہ نبی (علیہ السلام) کے حوالے سے ہے بلکہ آج کے دور میں بھی اگر کوئی ایسافرد ملے جسے آپ سے نسبی تعلق ہو تو وہ محبت اور احترام کا مستحق ہے بجز اس کے کہ وہ اسلام چھوڑ نہ چکا ہو (معاذ اللہ) ۔ اور جو کوئی بھی نیکی کرے اسے اس کا اجرزیادہ کرکے ملے گا اس لیے کہ اللہ کریم معاف کرنے والا ہے اور نیک اعمال کا قدر دان ہے یا پھر ان ماننے والوں کا کہنا یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ پر بہتان باندھا ہے (نعوذ باللہ) اور آپ پر وحی نہیں آتی۔ مگر یہ ایسے اندھے ہیں کہ وحی کس طرح حقائق کی نقاب کشائی کرتی چلی جاتی ہے اور کتنے خوبصورت دلائل کے انبار ہیں یہ آپ کے قلب اطہر سے کیسے بیان تک پہنچتے کہ اگر اللہ چاہتا تو آپ کے دل پر مہر کردیتا جیسا کہ جھوٹے دعویدار کے دل پر کردیاجاتا ہے تو وہ اول فول بکتا ہے یوں حق و باطل واضح ہوجاتا ہے اور اللہ ہمیشہ باطل کو مٹاتا ہے وہ کبھی بامراد نہیں ہوتا ، اور حق کو دلائل کے ساتھ ثابت فرماتا ہے اور وہ ذات دلوں کے بھیدوں سے واقف ہے ۔ آپ کے دل کا حال کہ کائنات کے لیے رحمت کا باعث ہے اسے معلوم اور ان کے دلوں کے کھوٹ کو بھی جانتا ہے مگر وہ ایسا کریم ہے کہ توبہ کو قبول کرتا ہے کوئی سچے دل سے کفر اور نافرمانی سے باز آجائے تو منظور فرماتا ہے اور اس کے گناہ معاف کردیتا ہے اور محض زبانی توبہ سے دھوکا بھی نہیں دیاجاسکتا کہ جو کچھ بھی کیا جاتا ہے وہ اس کی حقیقت جانتا ہے جو بھی ایمان قبول کرے اور اپنا کردار درست کرلے کہ یہی توبہ ہے تو اللہ کریم اس کے اعمال قبول فرماتا ہے اور اپنی عطا سے اس کا اجر بہت زیادہ کردیتا ہے اور انکار کرنے والوں کو عذاب بھی بہت سخت ہوگا ، اگر اللہ کریم دنیا کا رزق ہر کسی پر عام کردیتے تو زمین میں فساد پیدا ہوجاتا پھر لالچ میں آکر دوسروں سے چھیننے کی کوشش کرتے اور فساد برپا کردیتے اس لیے وہ ایک اندازے سے رزق تقسیم فرماتا ہے کسی کو مال اور دوسرے کو محنت کی قوت کسی کو علم اور کسی کو کوئی اور نعمت عطا کرتا ہے اور یوں باہمی ربط کی ضرورت انسانی معاشرہ تشکیل کرتی ہے کہ وہ اپنے بندوں سے باخبر ہے اور دیکھ رہا ہے جس طرح وہی ذات ایک ایک تنکے اور شے کے لیے بارش نازل فرماتی ہے اور اکثر اوقات انسان اپنی تدابیر سے مایوس ہوچکے ہوتے مگر پھر وہ بارش برسا کر کھیتیاں ہری بھری کردیتا ہے۔ اور وہی سب کا کارساز ہے اور وہ ہی تعریف کے لائق ہے اس کی عظمت کے دلائل میں اس کی اتنی بڑی صنعت زمین و آسمان کی صورت میں موجود ہیں اور اس میں جس قدر جاندار پیدا فرمائے ان کا نظام ان کی بقا کے لیے خوراک اور موسم ہر ایک اپنے اندر الگ الگ دلائل کا جہان سمائے ہوئے ہیں اور جس نے انہیں پھیلایا ہے وہ جب چاہے انہیں واپس جمع بھی کرسکتا ہے۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 20 تا 23 : حرت ( کھیتی) نصیب (حصہ) یاذن (وہ اجازت دیتا ہے) کلمۃ الفصل (فیصلے کی بات) کسبوا (انہوں نے کمایا) واقع ( پڑنے والا ، واقع ہونے والا) روضت ( روضۃ) (باغ، کیا ریاں) لا اسئل (میں سوال نہیں کرتا) المودۃ (محبت ، لحاظ) یقترف (وہ کماتا ہے) تشریح : آیت نمبر 20 تا 23 : یہ اللہ ک... ا سب سے بڑا احسان ہے کہ اس نے آدمی کو دنیا کی مختصر سی زندگی گزارنے کے بہت سے اسباب اور وسائل عطاء کئے ہیں تا کہ آدمی ان اسباب کو آخرت کی تعمیر میں استعمال کر کے اس کے رحم و کرم کا مستحق اور حق دار بن جائے۔ اللہ کا یہ نظام ہے کہ اگر کسی شخص کی جدوجہد ، کوشش اور بھاگ دوڑ محض دنیا حاصل کرنے کے لئے ہے اور اس میں فکر آخرت شامل نہیں ہے تو اس کی کوشش کے مطابق یا زیادہ اس کو دنیاوی عیش و آرام دے دیا جاتا ہے لیکن آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہ ہوتا کیونکہ نہ تو اس کو آخرت کا یقین تھا اور نہ اس نے آخرت کو سامنے رکھ کر کوئی کام کیا اس لئے وہ جنت کی راحتوں سے محروم رہے گا ۔ اس کے بر خلاف ایک صاحب ایمان اور اعمال صالحہ کے پیکر شخص کو جنت کی وہ راحتیں عطاء کی جائیں گی جن کا وہ اس دنیا میں رہ کر تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کیونکہ اس کی زندگی اور جدوجہدآخرت کے لئے تھی اس لئے اس کی دنیا اگرچہ محدود تھی لیکن آخرت میں اس کو لا محدود جنتیں اور اس کی راحتیں عطاء کی جائیں گی۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اسی حقیقت کو بیان فرمایا ہے۔ ایک مومن کے اعمال صالحہ کو کھیتی اور اس پر ملنے والے ثواب کو اس کا پھل قرار دیا ہے جس میں اسے ترقی بھی ملتی رہے گی ۔ ایک نیکی کا صلہ اور بدلہ دس گنا یا اس سے بھی زیادہ ملے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو شخص آخرت کی راحتوں کا طلب گار ہوگا ہم اس کو کھیتی کو بڑھاتے چلے جائیں گے اور جو دنیا ہی کی کھیتی اور اس کے پھل کا آرزو مند ہوگا اسے دنیاوی زندگی کا تھوڑا یا زیادہ سامان تو ضرور دیا جائے گا لیکن وہ آخرت کے بہتر نتائج اور راحتوں سے محروم رہے گا ۔ فرمایا دنیا پرستوں نے اپنے ہاتھوں سے ایسے معبود گھڑ لئے جنہیں وہ اپنا سب سے بڑا سہارا سمجھتے ہیں ۔ ان کا گمان یہ ہوتا ہے کہ انکے یہ معبود دنیا اور آخرت میں ان کی نجات اور کامیابی کا ذریعہ بنیں گے حالانکہ اللہ نے ایسے ظالموں کے لئے شدید سزا اور عذاب مقرر کر رکھا ہے۔ اگر اللہ چاہتا تو ان کی بد عملیوں کی سزا اسی دنیا میں دے سکتا تھا لیکن اس نے اس بات کا فیصلہ کر رکھا ہے کہ وہ ایسے ظالموں کو دنیا میں ڈھیل اور مہلت ضرور دے گا لیکن آخرت میں وہ سخت ترین سزا سے نہ بچ سکیں گے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ قیامت کے دن ان ظالموں کو اس حال میں دیکھیں گے کہ وہ عذاب الٰہی کو دیکھ کر لرز رہے ہوں گے۔ ہر طرح اس عذاب سے بچنے کی کوشش کے باوجود اپنے برے انجام سے نہ بچ سکیں گے۔ اس کے بر خلاف وہ لوگ جو ایمان لانے کے بعد زندگی بھر نیک عمل کرتے رہے ان کو جنت کے ایسے ہرے بھرے باغات عطاء کئے جائیں گے جہاں ان کی خواہش کی ہر چیز موجود ہوگی اور وہ جس چیز کی تمنا کریں گے وہ ان کو دی جائے گی ۔ اللہ کے اس فضل و کرم سے دنیا پرست لوگ محروم رہیں گے۔ آخر میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا گیا کہ آپ بھی تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) کی طرح یہ کہہ دیجئے کہ میں تمہیں آخرت کی جو بھی فلاح و کامیابی کی باتیں بتا کر سیدھا راستہ دکھا رہا ہوں اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ مجھے تم سے کسی معاوضے یا بدلے کی خواہش ہے۔ میرا اجر وثواب تو اللہ کے ذمے ہے میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ جن لوگوں سے میرا خاندانی یا برادری کا تعلق ہے وہ میرے خلوص اور خیر خواہی کے جذبے کو نظر انداز نہ کریں کیونکہ میں تمہیں سیدھی بےداغ راہ دکھا رہا ہوں تمہیں رشتہ داری کا کچھ تو پاس اور لحاظ ہونا چاہیے۔ مفسرین نے فرمایا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات اس وقت فرمائی جب قبیلہ قریش کے لوگ دین اسلام کی اشاعت و تبلیغ میں روڑے اٹکا رہے تھے اور آپ کی ہر بات کی مخالفت میں یہود و نصاریٰ سے بھی نکل گئے تھے آپ نے ان سے فرمایا کہ میں جس دین اسلام کی بات کر رہا ہوں وہ ایک سچا دین اور نجات کا راستہ ہے کہ اس کو قبول کرنے ہی میں کامیابی ہے لیکن اگر تم اپنی ضد اور ہٹ دھرمی میں میرے لائے ہوئے پیغام کو سننا ہی نہیں چاہتے تو یہ تمہاری مرضی ہے لیکن کم از کم اس قرابت داری اور رشتوں کا تو لحاظ کرو جو مجھے حاصل ہے اخلاق اور شرافت کی سطح سے اس حد تک تو نہ گر جائو کہ اپنے اور غیر میں کوئی فرق ہی نہ کرو۔ اہل بیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، صحابہ کرام (رض) اور امت کے تمام مفسرین نے اس آیت کا یہی مفہوم بیان فرمایا ہے چناچہ حضرت امام شعبی (رض) کہتے ہیں کہ لوگوں نے اس آیت کی تفسیر کے متعلق پوچھا تو ہم نے حضرت عبد اللہ ابن عباس (رض) کو خط لکھ کر اس کی صحیح تفسیر و تعبیر پوچھی۔ آپ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ نبی کریم حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قریش کے ایسے نسب سے تعلق رکھتے تھے کہ ان کے ہر چھوٹے بڑے قبیلے سے رشتہ داری کے تعلقات قائم تھے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ ان مشرکین قریش سے کہہ دیجئے کہ میں جو بھی اللہ کی طرف دعوت دے رہا ہوں میں تم سے اس پر کوئی معاوضہ یا بدلہ اس کے سوا نہیں مانگتا کہ تم مجھ سے قرابت داری کی مروت ولحاظ کا معاملہ کر کے بغیر کسی تکلیف کے اپنے درمیان رہنے دو اور میری حفاظت کرو۔ ( بیہقی) ۔ رافضیوں نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنو قریش سے کہہ رہے ہیں کہ میں اس تبلیغ دین پر کوئی معاوضہ تو نہیں چاہتا صرف اس کا صلہ یہ مانگتا ہوں کہ علی (رض) اور فاطمہ (رض) سے محبت کی جائے۔ اس آیت کی یہ تفسیر کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ آیات مکہ مکرمہ میں اس وقت نازل ہوئی ہیں جب حضرت علی (رض) اور حضرت فاطمہ (رض) کی شادی تک نہیں ہوئی تھی ۔ یہ دونوں تو بچے تھے عرب معاشرہ میں ان سے کوئی نفرت تھی نہ مخالفت ۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ بات تو تقریباً ہر نبی نے کہی ہے کہ ہم دین کا جو بھی پیغام پہنچا رہے ہیں اس پر ہمارا اجر اللہ کے ذمے ہے ہم تم سے کسی معاوضے کا مطالبہ نہیں کرتے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کی شان تمام انبیاء کرام سے افضل و اعلیٰ ہے کیا آپ ایسی بات فرما سکتے تھے۔ لوگو ! مجھے تم سے کچھ نہیں چاہیے صرف علی (رض) و فاطمہ (رض) سے محبت کی جائے۔ یہ کہنا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بےلوث اور بےغرض جذبے کی توہین ہے اور تفسیر میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ پورے عرب میں صرف حضرت علی (رض) اور حضرت فاطمہ (رض) ہی آپ کے قرابت دار نہ تھے بلکہ اور سیکڑوں رشتہ دار تھے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی ثواب آخرت کا طالب ہو۔ 7۔ یعنی اعمال پر اس کو ثواب دیں گے اور اس ثواب کو مضاعف کریں گے۔ 8۔ یعنی تدبر و سعی سے غرض اس کی متاع دنیا ہو، اور آخرت کے لئے کچھ سعی نہ کرے حتی کہ ایمان بھی نہ لاوے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف ” اللہ “ ہی رزق دینے والا ہے۔ لیکن اس نے انسان کو رزق کے حصول کے لیے محنت کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت کی کامیابی کے لیے محنت کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا ارشاد ہے کہ انسان وہی کچھ پائے گا جس کے لیے وہ محنت کرے گا۔ (النّجم : ٣٩) دنیا ا... ور آخرت کے حصول کو ” حرث “ کہا گیا ہے۔ ” حرث “ کا معنٰی کھیتی ہے۔ جس میں ہر قسم کی فصل اور پودا جات شامل ہیں۔ کھیتی پر غور فرمائیں تو اس سے غلّہ حاصل کرنے میں زمیندار کو کتنے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ بار بار ہل چلاکر زمین کو بیج کے قابل بنانا، صحیح وقت پر اسے سیراب کرنا، جڑی بوٹیوں اور کیڑوں مکوڑوں سے اس کی حفاظت کرنا، مناسب مقدار میں کھاد لگانا اس طرح بہت سے مراحل طے کرنے کے بعد انسان لقمہ کھانے کے قابل ہوتا ہے۔ یہی حال پھل اور میوہ جات کا ہے کہ کتنی محنت کے بعد انسان اس قابل ہوتا ہے کہ ان سے لطف اندوزہوسکے۔ اللہ تعالیٰ نے ” حَرْثَ “ کا لفظ بول کر انسان کو دنیا اور آخرت کے لیے محنت کرنے کی ترغیب دی ہے۔ بیشک دنیا کے رزق کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہے۔ لیکن آخرت کی کامیابی اسی شخص کو حاصل ہوگی جو اس کے لیے اخلاص اور قرآن و سنت کے مطابق کوشش کرے گا۔ آخرت کی کامیابی کا حصول دنیا کی کامیابی کے مقابلے میں نسبتاً مشکل ہے۔ اس لیے ارشاد فرمایا ہے کہ جو آخرت کی کھیتی کے لیے کوشش کرے گا ہم اس کی کھیتی میں اضافہ کریں گے اور جو دنیا کی کھیتی کے لیے کوشش کرے گا ہم اسے دنیا کا حصہ دیں گے۔ لیکن جس نے صرف دنیا کے لیے کوشش کی اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آخرت کی کھیتی کے اضافہ کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍ مِّنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ وَّلَا یَقْبَلُ اللّٰہُ إِلَّا الطَّیِّبَ فَإِنَّ اللّٰہَ یَتَقَبَّلُھَا بِیَمِیْنِہٖ ثُمَّ یُرَبِّیْھَا لِصَاحِبِہٖ کَمَا یُرَبِّیْ أَحَدُکُمْ فُلُوَّہٗ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکوۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو آدمی کھجور کے برابر اپنی پاک کمائی سے صدقہ کرتا ہے اور اللہ کے ہاں صرف پاک چیز ہی قبول ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول کرتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ میں لے کر اس کو اس طرح پالتا اور بڑھاتا ہے جیسے تم میں سے کوئی بچھڑے کو پالتا ہے یہاں تک کہ صدقہ پہاڑ کی مانند ہوجاتا ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ انسان کی محنت کے مطابق اسے دنیا اور آخرت کا صلہ دیتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ مسلمان کو آخرت میں اس کی محنت سے زیادہ اجر عطا فرمائے گا۔ ٣۔ جس نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو ترجیح دی اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ تفسیر بالقرآن دنیا اور آخرت کا تقابل : ١۔ دنیا کھیل اور تماشا ہے۔ (الانعام : ٣٢) ٢۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی عارضی ہے۔ (الرعد : ٢٦) ٣۔ دنیا عارضی اور آخرت پائیدار ہے۔ (المؤمن : ٣٩) ٤۔ دنیا کی زندگی محض دھوکے کا سامان ہے۔ (الحدید : ٢٠) ٥۔ دنیا آخرت کے مقابلہ میں بہت کمتر ہے۔ (التوبۃ : ٣٨) ٦۔ جو چیز تم دیے گئے ہو یہ تو دنیا کا سامان اور زینت ہے۔ (القصص : ٦٠) ٧۔ نہیں ہے دنیا کی زندگی مگر دھوکے کا سامان۔ (آل عمران : ١٨٥) ٨۔ مال اور اولاد دنیا کی زندگی کی زینت ہیں۔ (الکہف : ٤٦) ٩۔ مال اور اولاد تمہارے لیے فتنہ ہے۔ (التغابن : ١٥) ١٠۔ آپ فرما دیں کہ دنیا کا سامان تھوڑا ہے اور آخرت بہتر ہے۔ (النساء : ٧٧) ١١۔ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو جبکہ آخرت اس سے بہتر ہے۔ (الاعلیٰ : ١٧)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

طالب آخرت کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اضافہ ہوگا اور طالب دنیا کو آخرت میں کچھ نہ ملے گا اس آیت کریمہ میں آخرت کے طلب گاروں اور دنیا داروں کی نیتوں کا اور اعمال کا اور ان کا جو بدلہ ملے گا اس کا تذکرہ فرمایا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ جو شخص آخرت کی کھیتی چاہتا ہے یعنی دنیا میں ایمان سے متصف ہے اور اعما... ل صالحہ میں لگا رہتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ میرے اعمال کا آخرت میں ثواب دیا جائے اللہ تعالیٰ اسے بہت زیادہ ثواب دے گا ایک نیکی کی کم از کم دس نیکیاں تو لکھی ہی جاتی ہیں اور ایک نیکی کا عوض سات سو گناہ دینے کا قرآن مجید میں ذکر ہے ﴿كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِيْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ﴾ سات سو گناہ ثواب بتانے کے بعد ﴿وَ اللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَآءُ﴾ بھی فرما دیا حضرت علماء کرام نے اس سے یہ ثابت کیا ہے کہ نیکیوں میں اضافہ ہونا اور بڑھا چڑھا کر ان کا ثواب ملنا کوئی سات سو پر منحصر نہیں ہے اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ دے گا جس کی تفصیلات احادیث شریف میں وارد ہوئی ہیں علم و عمل پھیلانے والوں اور دین کا چرچا کرنے والوں اور اعمال صالحہ کو آگے بڑھانے والوں کا ثواب تو بہت ہی زیادہ ہے، جب تک معلمین و مبلغین کے بتائے ہوئے اعمال اور پڑھائے ہوئے امور کے مطابق لوگ عمل کرتے رہیں گے ان حضرات کو ان کے عمل کا بھی ثواب ملتا رہے گا اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں سے کچھ بھی کمی نہ ہوگی جس طرح دانہ ڈالنے کے بعد کھیتی بڑھتی ہے اور ایک دانہ بونے سے بہت سے دانے حاصل ہوجاتے ہیں اسی طرح آخرت کے اعمال میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے اسی لیے آخرت کے لیے عمل کرنے والوں کے عمل کو آخرت کی کھیتی سے تعبیر فرمایا کہ یہ لوگ دنیا کے طالب ہیں دنیا ہی کو چاہتے ہیں اسی کے لیے عمل کرتے ہیں ہم انہیں دنیا میں سے کچھ دے دیں گے جتنا وہ چاہتے ہیں اتنا دیں یا اس سے کم و بیش دیں بہرحال جو کچھ ملے گا تھوڑا ہی ہوگا آخرت کے اجر وثواب کے مقابلے میں تو کسی دنیا دار کا بڑے سے بڑا حصہ پاسنگ کے درجہ میں بھی نہیں آسکتا جتنی بھی دنیا مل جائے تھوڑی ہی ہوگی اور یہ بھی ضروری نہیں کہ طالب دنیا کو دنیا مل ہی جائے جو کچھ ملے گا اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے اور چونکہ اصلی دنیا دار مومن نہیں ہوئے اس لیے آخرت میں انہیں کچھ بھی نہیں ملنا۔ سورة الاسراء کی آیت کی تصریح اور تشریح دوبارہ پڑھ لیں ارشاد فرمایا : ﴿مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِيْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِيْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ ١ۚ يَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا ٠٠١٨ وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْيَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىِٕكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَّشْكُوْرًا ٠٠١٩﴾ (جو شخص دنیا کی نیت رکھے گا ہم ایسے شخص کو دنیا میں جتنا چاہیں گے جس کے لیے چاہیں گے دے دیں گے پھر ہم اس کے لیے جہنم تجویز کریں گے وہ اس میں بدحال راندہ ہوا داخل ہوگا اور جو شخص آخرت کی نیت رکھے گا اور اس کے لیے کوشش کرے گا جیسی کوشش اس کے لیے ہونی چاہیے اور وہ مومن بھی ہوگا سو یہ لوگ ہیں جن کی کوشش کی قدر دانی کی جائے گی۔ )  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

19:۔ ” من کان یرید۔ الایۃ “ اس میں آخرت کی ترغیب اور دنیا سے تنفیر و تزہید ہے۔ جو شخص آخرت کی کھیتی چاہتا ہے اور اس کے لیے نیک کام کرتا ہے، تو ہم اس کے ثواب میں اضافہ کردیتے ہیں، اور ایک نیکی کے بدلے دس سے لے کر سات سو گنا اور اس سے بھی زیادہ ثواب دیتے ہیں اور جو لوگ دنیا چاہتے ہیں اور آخرت سے انہیں...  کوئی واسطہ نہیں انہیں دنیا ہی میں سے تھوڑا سا حصہ دے دیتے ہیں لیکن آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہوگا، وہاں جہنم کی آگ کے سوا ان کے حصے میں کچھ نہیں آئے گا۔ تائید : ” من کان یرید العاجلۃ عجلنا لہ فیہا ما نشاء لمن نرید ثم جعلنا لہ جہنم “ (بنی سرائیل رکوع 2) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(20) جو شخص آخرت کی کھیتی کا خواہش مند ہو اور آخرت کی کھیتی چاہتا ہو ہم اس کے لئے اس کی کھیتی بڑھا دیتے ہیں اور ترقی کردیتے ہیں اور جو شخص دنیا کا خواستگار ہو اور دنیا کی کھیتی چاہتا ہو تو ہم اسی میں سے اس کو کچھ دے دیتے ہیں اور آخرت میں اس شخص کا کوئی حصہ نہ ہوگا۔ اعمال پر جو اثر مرتب ہوتا ہے اس کو...  کھیتی سے تعبیر کیا جس طرح بیج ڈالنے سے کھیتی پیدا ہوتی ہے اسی طرح اعمال سے جزا ملتی ہے اس لئے فرمایا جو شخص عمل آخرت کے نفع کے لئے کرتا ہے اور اس عالم کا فائدہ چاہتا ہے تو ہم اس کو کھیتی کو ترقی دیتے ہیں یعنی اعمال خیر کو مزید توفیق ملتی ہے یا ثواب دو چندوسہ چند اور اس سے بھی زیادہ بڑھا دیا جاتا ہے یا یہ کہ دنیا اور آخرت دونوں عطا فرمادیں اور جس شخص کا عمل اور اس کی جدوجہد صرف دنیا کے لئے ہو تو اس کو دنیا میں ہی جس قدر چاہیں گے دے دیں گے اور وہ آخرت میں محروم ہوگا۔ جیسا کہ بنی اسرائیل میں ہم عرض کرچکے ہیں۔ یہ ان لوگوں کا ذکر ہے جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کا کوئی عمل آخرت کے غرض سے نہیں ہوتا وہ آخرت میں محروم ہوں گے۔ پھر دنیا دینے میں بھی یہ وعدہ نہیں کہ ان کی تمنا اور ان کی منشا کے موافق دیدیں گے بلکہ جس قدرہم چاہیں گی اس قدر دیں گے اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ حدیث میں آتا ہے جس نے صرف ایک آخرت کا فکر اپنے ذمے لے لیا تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام افکار کے لئے کافی ہوگا اور جو شخص دنیاوی ہموم اور احوال کے تفکرات اپنے ذمے لے لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی پروا نہیں کہ وہ کونسی وادی میں ہلاک ہوگیا یعنی جس کو آخرت کا غم ہے اس کی کفالت فرمائی جاتی ہے اور جو دنیاوی ہموم لئے پھرتا ہے اور دنیا حاصل کرنے کا اس کو غم لگا ہوا ہے تو اس سے بےپروائی کا اظہار ہے۔  Show more