Surat us Shooraa

Surah: 42

Verse: 44

سورة الشورى

وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ وَّلِیٍّ مِّنۡۢ بَعۡدِہٖ ؕ وَ تَرَی الظّٰلِمِیۡنَ لَمَّا رَاَوُا الۡعَذَابَ یَقُوۡلُوۡنَ ہَلۡ اِلٰی مَرَدٍّ مِّنۡ سَبِیۡلٍ ﴿ۚ۴۴﴾

And he whom Allah sends astray - for him there is no protector beyond Him. And you will see the wrongdoers, when they see the punishment, saying, "Is there for return [to the former world] any way?"

اور جسے اللہ تعالٰی بہکا دے اس کا اس کے بعد کوئی چارہ ساز نہیں ، اور تو دیکھے گا کہ ظالم لوگ عذاب کو دیکھ کر کہہ رہے ہوں گے کہ کیا واپس جانے کی کوئی راہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The State of the Wrongdoers on the Day of Resurrection Allah says, وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِن وَلِيٍّ مِّن بَعْدِهِ ... And whomsoever Allah sends astray, for him there is no protector after Him. Allah tells us that whatever He wills happens and whatever He does not will does not happen, and no one can make it happen. Whomever He guides, none can lead astray, and whomever He leads astray, none can guide, as He says: وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا but he whom He sends astray, for him you will find no protecting to lead him. (18:17) Then Allah tells us about the wrongdoers, i.e., the idolators who associate others in worship with Allah: ... وَتَرَى الظَّالِمِينَ ... And you will see the wrongdoers, ... لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ ... when they behold the torment, i.e., on the Day of Resurrection, they will wish that they could go back to this world. ... يَقُولُونَ هَلْ إِلَى مَرَدٍّ مِّن سَبِيلٍ they will say: "Is there any way of return?" This is like the Ayah: وَلَوْ تَرَى إِذْ وُقِفُواْ عَلَى النَّارِ فَقَالُواْ يلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلاَ نُكَذِّبَ بِـَايَـتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُوْمِنِينَ بَلْ بَدَا لَهُمْ مَّا كَانُواْ يُخْفُونَ مِن قَبْلُ وَلَوْ رُدُّواْ لَعَـدُواْ لِمَا نُهُواْ عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَـذِبُونَ If you could but see when they will be held over the (Hell) Fire! They will say: "Would that we were but sent back! Then we would not deny the Ayat of our Lord, and we would be of the believers!" Nay, it has become manifest to them what they had been concealing before. But if they were returned, they would certainly revert to that which they were forbidden. And indeed they are liars. (6:27-28)

اللہ تعالیٰ کو کوئی پوچھنے والا نہیں اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ وہ جو چاہتا ہے ہوتا ہے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جو نہیں چاہتا نہیں ہوتا اور نہ اسے کوئی کر سکتا ہے وہ جسے راہ راست دکھا دے اسے بہکا نہیں سکتا اور جس سے وہ راہ حق گم کر دے اسے کوئی اس راہ کو دکھا نہیں سکتا اور جگہ فرمان ہے آیت ( وَمَنْ يُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ وَلِيًّا مُّرْشِدًا 17۝ۧ ) 18- الكهف:17 ) جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی چارہ ساز اور رہبر نہیں ۔ پھر فرماتا ہے یہ مشرکین قیامت کے عذاب کو دیکھ کر دوبارہ دنیا میں آنے کی تمنا کریں گے جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ وُقِفُوْا عَلَي النَّارِ فَقَالُوْا يٰلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰيٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ 27؀ ) 6- الانعام:27 ) ، کاش کہ تو انہیں دیکھتا جب کہ یہ دوزخ کے پاس کھڑے کئے جائیں گے اور کہیں گے ہائے کیا اچھی بات ہو کہ ہم دوبارہ واپس بھیج دئیے جائیں تو ہم ہرگز اپنے رب کی آیتوں کو جھوٹ نہ بتائیں بلکہ ایمان لے آئیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ لوگ جس چیز کو اس سے پہلے پوشیدہ کئے ہوئے تھے وہ ان کے سامنے آگئی ۔ بات یہ ہے کہ اگر یہ دوبارہ بھیج بھی دیئے جائیں تب بھی وہی کریں گے جس سے منع کئے جاتے ہیں یقینا یہ جھوٹے ہیں پھر فرمایا یہ جہنم کے پاس لائے جائیں گے اور اللہ کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان پر ذلت برس رہی ہو گی عاجزی سے جھکے ہوئے ہوں گے اور نظریں بچاکر جہنم کو تک رہے ہوں گے ۔ خوف زدہ اور حواس باختہ ہو رہے ہوں گے لیکن جس سے ڈر رہے ہیں اس سے بچ نہ سکیں گے نہ صرف اتنا ہی بلکہ ان کے وہم و گمان سے بھی زیادہ عذاب انہیں ہوگا ۔ اللہ ہمیں محفوظ رکھے اس وقت ایمان دار لوگ کہیں گے کہ حقیقی نقصان یافتہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ساتھ اپنے والوں کو بھی جہنم واصل کیا یہاں کی آج کی ابدی نعمتوں سے محروم رہے اور انہیں بھی محروم رکھا آج وہ سب الگ الگ عذاب میں مبتلا ہیں دائمی ابدی اور سرمدی سزائیں بھگت رہے ہیں اور یہ ناامید ہو جائیں آج کوئی ایسا نہیں جو ان عذابوں سے چھڑا سکے یا تخفیف کرا سکے ان گمراہوں کو خلاصی دینے والا کوئی نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٢] یعنی ان لوگوں کو کتاب وہ دی گئی جو ہدایت انسانی کے لیے بہترین کتاب ہے اور رسول وہ بھیجا گیا جس کی سیرت و کردار کی بلندی میں ان کو بھی کوئی شک نہیں۔ پھر بھی اگر یہ لوگ ہدایت قبول نہیں کرتے تو اللہ ایسے لوگوں کو کبھی ہدایت نہیں دیا کرتا۔ [٦٣] یعنی آج دنیا میں یہ اپنی سرکشی کی حالت کو چمٹ تو سکتے ہیں مگر پلٹتے نہیں اور اس دن اپنی حالت کو پلٹنے کی کوئی گنجائش نہ ہوگی تو اس دن پلٹنے کی راہ پوچھیں گے اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ پوچھیں گے کیا ہمارے دوبارہ واپس دنیا میں جانے کی کوئی صورت ہے تاکہ ہم بھی نیک عمل کرسکیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ومن یضلل اللہ فما لہ من ولی من بعدہ : یعنی جس شخص کی ضد اور ہٹ دھرمی کا یہ حال ہو کہ نہ وہ عفو و درگزر کا اعلیٰ درجہ اختیار کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو اور نہ کم از کم عدل و انصاف سے کام لینے پر تیار تو ظاہر ہے کہ وہ خیر سے محروم اور محض شر ہے، ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ بھی خیر کی توفیق نہیں دیتا، بلکہ گمراہی میں دھکیل دیتا ہے اور جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کر دے پھر اس کا کوئی مددگار نہیں جو اسے ہدایت پر لے آئے۔ مزید دیکھیے سورة اعراف (١٧٨، ١٨٦) اور سورة کہف (١٧) ۔ (٢) وتری الظلمین : اور تو ان ظالموں کو دیکھے گا جو عذاب دیکھنے سے پہلے ظلم و فساد اور زمین میں سرکشی سے باز آنے پر کسی طرح تیار نہیں تھے، اس لئے یہ ظالم نہ اپنے مالک کی گرفت سے ڈرتے تھے اور نہ انھیں حساب کتاب کا کوئی خوف تھا۔ ” الظلمین “ سے مراد یہاں کفار و مشرکین ہیں، کیونکہ قرآن کی اصطلاح میں انھی کے لئے یہ لفظ آتا ہے۔ یہاں اس کی دلیل ایک تو یہ ہے کہ آگے ان کے متعلق فرمایا :(الا ان الظلمین فی عذاب مقیم) (الشوری : ٣٥)” سن لو ! بیشک ظالم لوگ ہمیشہ رہنے والے عذاب میں ہوں گے۔ “ اور یہ بات طے شدہ ہے کہ دائمی عذاب کفار و مشرکین ہی کو ہوگا۔ دوسری دلیل یہ کہ ان کے قول کے مقابلے میں مومنون کا قول ذکر فرمایا :(وقال الذین امنوا ان الخسرین الذین خسروآ انفسھم واھلیھم یوم القیمۃ) (الشوری : ٣٥)” اور وہ لوگ جو ایمان لائے ، کہیں گے اصل خسارے والے تو وہ ہیں جنہوں نے قیامت کے دن اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو خسارے میں گنوا دیا۔ “ (٣) لما راو العذاب یقولون…: وہی متکبر اور ظالم لوگ جو پہلے نہ رب تعالیٰ سے ڈرتے تھے اور نہ اس کے عذاب یا حساب کتاب سے ڈرتے تھے، جب عذاب دیکھیں گے تو ان کی ساری اکڑ ختم ہوجائے گی اور کہیں گے، کیا واپس جانے کا کوئی راستہ ہے کہ ہم دنیا میں جا کر اپنی کوتاہی کی تلافی کرلیں ؟ مزید دیکھیے سورة انعام (٢٧، ٢٨) اور سورة اعراف (٥٣) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر (یہ حال تو اہل ہدایت کا تھا کہ وہ دنیا میں اللہ کی طرف سے ہدایت اور آخرت میں ثواب سے مشرف ہوئے) اور (آگے اہل ضلالت کا حال سنو، وہ یہ ہے کہ) جس کو اللہ تعالیٰ گمراہ کر دے تو اس کے بعد اس شخص کا (دنیا میں بھی) کوئی چارہ ساز نہیں (کہ اس کو راہ پر لے آوے) اور (قیامت میں بھی برا حال ہوگا، چناچہ اس روز) آپ (ان) ظالموں کو دیکھیں گے کہ جس وقت ان کے عذاب کا معائنہ ہوگا کہ (نہایت حسرت) سے کہتے ہوں گے کیا (دنیا میں) واپس جانے کی کوئی صورت (ہو سکتی) ہے، (تا کہ پھر اچھے عمل کر کے آئیں) اور (نیز) آپ ان کو اس حالت میں دیکھیں گے کہ وہ دوزخ کے رو برو لائے جاویں گے، مارے ذلت کے جھکے ہوئے ہوں گے (اور وہ اس کو) سست (سست) نگاہ سے دیکھتے ہوں گے (جیسے خوف زدہ آدمی دیکھا کرتا ہے، اور ایک دوسری آیت میں جو نابینا ہونے کی خبر دی ہے وہ حشر کے وقت ہے اور یہ اس کے بعد کا واقعہ ہے، چناچہ وہاں لفظ نحشرہ کی تصریح ہے) اور (اس وقت) ایمان والے (اپنے بچنے پر شکر کرنے کے لئے اور ان پر ملامت کرنے کے لئے) کہیں گے کہ پورے خسارے والے وہ لوگ ہیں جو اپنی جانوں سے اور اپنے متعلقین سے (آج) قیامت کے روز خسارہ میں پڑے (اس کی تفسیر سورة زمر کے دوسرے رکوع میں گزر چکی ہے) یاد رکھو کہ ظالم (یعنی مشرک و کافر) لوگ عذاب دائمی میں (گرفتار) رہیں گے اور (وہاں) ان کے کوئی مددگار نہ ہوں گے جو خدا سے الگ (ہو کر) ان کی مدد کریں اور جس کو خدا گمراہ کر دے اس کی (نجات) کے لئے کوئی رستہ ہی نہیں، (یعنی نہ معذرت، نہ کسی کی مدد نہ اور کچھ۔ آگے کافروں سے خطاب ہے کہ اے لوگو جب تم نے قیامت کے یہ ہولناک حالات سن لئے تو) تم اپنے رب کا حکم (ایمان وغیرہ کا) مان لو قبل اس کے کہ ایسا دن آپہنچے جس کے لئے خدا کی طرف سے ہٹنا نہ ہوگا (یعنی جس طرح دنیا میں عذاب ہٹتا جاتا ہے، آخرت میں ایسی کوئی صورت نہ ہوگی) نہ تم کو اس روز کوئی (اور) پناہ ملے گی اور نہ تمہارے بارے میں کوئی (خدا سے) روک ٹوک کرنے والا ہے (کہ اتنا ہی پوچھ لے کہ ان کا یہ حال کیوں بنایا گیا اور اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کو یہ سنا دیجئے) پھر اگر یہ لوگ (یہ سن کر بھی) اعراض کریں (اور ایمان نہ لائیں) تو (آپ فکر اور غم میں نہ پڑیں، کیونکہ) ہم نے آپ کو ان پر نگران کر کے نہیں بھیجا (جس سے باز پرس کا احتمال ہو کہ آپ کی نگرانی میں ان سے یہ امور کیوں صادر ہوئے، بلکہ) آپ کے ذمہ تو صرف (حکم کا) پہنچا دینا ہے (جس کو آپ کر رہے ہیں، پھر آپ اس سے زیادہ فکر کیوں کریں) اور (ان کے حق سے اعراض کرنے کا سبب تعلق مع اللہ کی کمزوری ہے، جس کی علامت یہ ہے کہ) ہم جب (اس قسم کے) آدمی کو کچھ اپنی عنایت کا مزہ چکھا دیتے ہیں تو وہ اس پر (اترا کر) خوش ہوجاتا ہے (اور منعم پر نگاہ کر کے شکر نہیں کرتا) اور اگر (ایسے) لوگوں پر ان کے (ان) اعمال (بد) کے بدلے میں جو پہلے اپنے ہاتھوں کرچکے ہیں کوئی مصیبت آپڑتی ہے تو (ایسا) آدمی ناشکری کرنے لگتا ہے (اور ایسا نہیں کرتا کہ گناہوں سے توبہ و استغفار کر کے عبادت و اطاعت کے ذریعہ اللہ کی طرف رجوع ہو، اور یہ دونوں حالتیں اس بات کی علامت ہیں کہ اس کا تعلق اپنی نفسانی لذتوں کے ساتھ زیادہ اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ معدوم یا کمزور ہے اور اسی سے وہ کفر میں مبتلا ہوا ہے۔ اور چونکہ یہ حالت ان لوگوں کی طبیعت ثانیہ بن گئی ہے۔ اس لئے ان سے آپ ایمان کی توقع ہی کیوں رکھیں جو موجب غم ہو۔ آگے پھر توحید کا بیان ہے کہ) اللہ ہی کی ہے (سب) سلطنت آسمانوں کی اور زمین کی، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے (چنانچہ) جس کو چاہتا ہے بیٹیاں عطا فرماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے عطا فرماتا ہے یا ان کو (جس کے لئے چاہے) جمع کردیتا ہے (کہ) بیٹے بھی (دیتا ہے) اور بیٹیاں بھی اور جس کو چاہے بےاولاد رکھتا ہے، بیشک وہ بڑا جاننے والا بڑی قدرت والا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ يُّضْلِلِ اللہُ فَمَا لَہٗ مِنْ وَّلِيٍّ مِّنْۢ بَعْدِہٖ۝ ٠ ۭ وَتَرَى الظّٰلِـمِيْنَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ يَقُوْلُوْنَ ہَلْ اِلٰى مَرَدٍّ مِّنْ سَبِيْلٍ۝ ٤٤ ۚ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ ولي والوَلَايَةُ : تَوَلِّي الأمرِ ، وقیل : الوِلَايَةُ والوَلَايَةُ نحو : الدِّلَالة والدَّلَالة، وحقیقته : تَوَلِّي الأمرِ. والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] ( و ل ی ) الولاء والتوالی الوالایتہ ( بکسر الواؤ ) کے معنی نصرت اور والایتہ ( بفتح الواؤ ) کے معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دلالتہ ودلالتہ کی طرح ہے یعنی اس میں دولغت ہیں ۔ اور اس کے اصل معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ الوالی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے ولي والوَلَايَةُ : تَوَلِّي الأمرِ ، وقیل : الوِلَايَةُ والوَلَايَةُ نحو : الدِّلَالة والدَّلَالة، وحقیقته : تَوَلِّي الأمرِ. والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] ( و ل ی ) الولاء والتوالی الوالایتہ ( بکسر الواؤ ) کے معنی نصرت اور والایتہ ( بفتح الواؤ ) کے معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دلالتہ ودلالتہ کی طرح ہے یعنی اس میں دولغت ہیں ۔ اور اس کے اصل معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ الوالی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں رد الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( رد د ) الرد ( ن ) اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جسے اللہ تعالیٰ اپنے دین سے گمراہ کردے اس کو اللہ کے علاوہ اور کوئی راہ پر لانے والا نہیں اور آپ قیامت کے دن مشرکین یعنی ابو جہل اور اس کے ساتھیوں کو دیکھیں گے کہ جس وقت وہ عذاب کو دیکھیں گے تو وہ کہیں گے کہ دنیا میں واپس جانے کی کوئی تدبیر ہوسکتی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٤ { وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَمَالَــہٗ مِنْ وَّلِیٍّ مِّنْم بَعْدِہٖ } ” اور جس کو اللہ نے ہی گمراہ کردیا ہو تو اس کے بعد اس کے لیے کوئی مدد گار نہیں۔ “ جس کی گمراہی پر اللہ تعالیٰ نے ہی مہر ثبت کردی ہو تو ایسے شخص کا ایسا کوئی حمایتی اور دوست ممکن نہیں جو اسے راہ راست پر لے آئے۔ { وَتَرَی الظّٰلِمِیْنَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ یَقُوْلُوْنَ ہَلْ اِلٰی مَرَدٍّّّ مِّنْ سَبِیْلٍ } ” اور تم دیکھو گے ظالموں کو کہ جب وہ عذاب کو دیکھیں گے تو کہیں گے : کیا واپس لوٹ جانے کا بھی کوئی راستہ ہے ؟ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

69. That is, Allah sent the best Book like the Quran for the guidance of the people, which is giving them the knowledge of the reality in a rational and effective way and guiding them to the right way of life. He sent a Prophet like Muhammad (peace be upon him) for their guidance, a man of better character than whom they had never seen before. And then Allah also showed them the results of the teaching and training of this Book and this Messenger in the lives of the believers. Now, if after witnessing all this, a person turns away from the guidance, Allah casts him into the same deviation from which he has no desire to come out. And when Allah Himself has driven him away, who else can take the responsibility of bringing him to the right way. 70. That is, today when there is a chance of coming back, they are refusing to come back. Tomorrow when the judgment will have been passed and the sentence enforced, then seeing their fate they will wish to come back.

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :69 مطلب یہ ہے کہ اللہ نے قرآن جیسی بہترین کتاب ان لوگوں کی ہدایت کے لیے بھیجی جو نہایت معقول اور نہایت مؤثر و دل نشین طریقہ سے ان کو حقیقت کا علم دے رہی ہے اور زندگی کا صحیح راستہ بتا رہی ہے ۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا نبی ان کی رہنمائی کے لیے بھیجا جس سے بہتر سیرت و کردار کا آدمی کبھی ان کی نگاہوں نے نہ دیکھا تھا ۔ اور اس کتاب اور اس رسول کی تعلیم و تربیت کے نتائج بھی اللہ نے ایمان لانے والوں کی زندگیوں میں انہیں آنکھوں سے دکھا دیے ۔ اب اگر کوئی شخص یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ہدایت سے منہ موڑتا ہے تو اللہ پھر اسی گمراہی میں اسے پھینک دیتا ہے جس سے نکلنے کا وہ خواہش مند نہیں ہے ۔ اور جب اللہ ہی نے اسے اپنے دروازے سے دھتکار دیا تو اب کون یہ ذمہ لے سکتا ہے کہ اسے راہ راست پر لے آئے گا ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :70 یعنی آج جبکہ پلٹ آنے کا موقع ہے ، یہ پلٹنے سے انکار کر رہے ہیں ۔ کل جب ، فیصلہ ہو چکے گا اور سزا کا حکم نافذ ہو جائے گا اس وقت اپنی شامت دیکھ کر یہ چاہیں گے کہ اب انہیں پلٹنے کا موقع ملے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٤۔ ٥٠۔ اوپر اچھے لوگوں کی عادتوں کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں فرمایا یہ اچھی عادتوں کے وہی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں نیک قرار پا چکے ہیں اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں بد قرار پا چکے ہیں وہ اپنے ارادہ سے تو اچھی عادتوں کو اختیار نہیں کرتے اور مجبور کرکے کسی کو راہ راست پر لانا اللہ کو منظور نہیں ہے اس واسطے مرتے دم تک ایسے لوگ اپنی بد عاتوں پر رہیں گے اور قیامت کے دن ان لوگوں کا حال دیکھنے کے قابل ہوگا کہ میدان حشر میں جب جہنم کو اس طرح لایا جائے گا کہ جہنم کی ستر ہزار نکیلیں اونٹ کی سی ہوں گی اور ہر ہر نکیل پر ستر ستر ہزار فرشتے ہوں گے اور ان نکیلوں کو کھینچ رہے ہوں گے جس کی صراحت صحیح ١ ؎ مسلم میں حضرت عبد اللہ (رض) بن مسعود کی روایت سے آئی ہے غرض جہنم کو اس حالت میں دیکھ کر وہ لوگ بہت گھبرائیں گے اور یہ تمنا کریں گے کہ ان کو دوبارہ دنیا میں جانے کی پروانگی مل جائے تاکہ وہ دوبارہ دنیا میں جا کر نیک کام کریں اور عذاب دوزخ سے نجات پائیں اور جس طرح یہ اللہ اور اللہ کے رسول کے نافرمان لوگ جہنم کو دیکھ کر دنیا میں دوبارہ آنے کی تمنا اور آرزو کریں گے اسی طرح موت کے وقت عذاب کے فرشتوں کو خوفناک حالت میں دیکھ کر بھی یہی آرزو کریں گے جس کا ذکر قد افلح المومنون میں گزرا کہ حتی اذا جاء احدھم الموت قال رب ارجعون لعلی اعمال صالحا جس مطلب یہ ہے کہ موت کے وقت ایسے لوگوں کو جب عذاب کے فرشتے نظرآئیں گے تو وہ دنیا میں رہ جانے اور نیک عمل کرنے کی تمنا ظاہر کریں گے بعض مفسروں نے اس آیت کی تفسیر میں موت کے وقت کی تمنا کا جو ذکر کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے صحیح تفسیر یہی ہے کہ موت کے وقت کی تمنا قد افلح المومنون کی آیت سے متعلق ہے اور حشر کے وقت کی تمنا اس آیت سے متعلق ہے یہ تو ان نافرمان لوگوں کی دو دفعہ کی تمنا دنیا میں دوبارہ آنے اور نیک عمل کرنے کی ہوئی جب یہ بد لوگ اپنے بدعملوں کی سزا بھگتنے کے لئے دوزخ میں جا پڑیں گے اور عذاب دوزخ کی تکلیف برداشت نہ کرسکتے گے تو تیسری دفعہ پھر بھی خواہش اور تمنا کریں گے جس کا ذکر سورة فاطر میں گزرا کہ ہھم یطخون فیھا ربنا اخرجنا نعمل صالحا غیر الذی کنانعمل۔ اور میدان حشر میں نیک لوگ جب ان نافرمان لوگوں کا حال دیکھیں گے کہ یہ نافرمان لوگ دوزخ کو کن انکھیوں سے دیکھ کر پھر دوبارہ دنیا میں جانے اور نیک عمل کرنے کی آرزو کر رہے ہیں تو اس وقت نیک لوگ ان نافرمان لوگوں کو قائل کرنے کے طور پر کہیں گے کہ جو وقت نیک عمل کرنے کا تھا وہ تم نافرمان لوگوں نے ہاتھ سے کھو دیا اور سرکشی کے سبب سے دنیا میں ایسی تجارت کی جس کے سبب سے اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو ٹوٹے میں ڈالا یہاں گھر والوں میں مشرکوں کی نابالغ اولاد داخل نہیں ہے کیونکہ امام نووی ١ ؎ نے بڑی تحقیق کے بعد قرآن اور حدیث سے یہی بات صحیح ثابت کی ہے کہ مشرکوں کی نابالغ اولاد جنت میں جائے گی اور جن حدیثوں میں اولاد مشرکین کا دوزخ میں جانے کا ذکر ہے ان روایتوں کو ضعیف قرار دیا ہے یہ جو ایک بات مشہور ہے کہ مشرکوں کی نابالغ اولاد اہل جنت کی خادم اور خدمت گار بنائی جائے گی۔ یہ روایت مسند بزار اور مسند ابو یعلی موصلی اور طبرانی ٢ ؎ وغیرہ میں ہے لیکن کوئی روایت ضعف سے خالی نہیں ہے اب نافرمان لوگوں کا عقبیٰ کا بےکسی کا حال ذکر فرما کر پھر فرمایا ہے کہ گمراہی کے سبب سے ان نافرمان لوگوں نے دنیا میں بتوں یا پیروں کو یا قبروں کو غرض جس کسی کو سوا اللہ کے اپنا حمایتی قرار دے رکھا ہے وہ کوئی ان کی بےکسی کے وقت کام نہ آئے گا اور عذاب الٰہی سے کوئی ان کو بچا نہ سکے گا پھر نصیحت کے طور پر فرمایا کہ اس بےکسی کے وقت کے آنے سے پہلے یہ نافرمان لوگ اللہ اور اللہ کے رسول کی فرمانبرداری قبول کرلیں تو ابھی وقت ہاتھ سے نہیں گیا ہے جب وقت ہاتھ سے جاتا رہے گا تو پھر پچھتانا کچھ کام نہ آئے گا پھر فرمایا کہ اے رسول اللہ کے اس نصیحت کے بعد بھی اگر یہ نافرمان لوگ نہ مانیں تو تمہارا کام فقط اتنا ہی ہے کہ تم ان کو اللہ کی نصیحت پہنچا دو پھر اگر یہ نہ مانیں گے تو اللہ ان سے سمجھ لے گا۔ بعض مفسروں نے اس آیت کو جہاد کے حکم سے منسوخ قراردیا ہے لیکن یہ اوپر گزر چکا ہے کہ جہاد کے حکم سے کوئی آیت منسوخ نہیں ہے پھر فرمایا کہ ان نافرمان لوگوں کے اللہ کی نصیحت نہ ماننے کا بڑا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا میں کسی قدر فراغت دے رکھی ہے اور یہ انسان کی جبلی عادت ہے کہ فراغت کے وقت بجائے اللہ کے شکر کے اترانے لگتا ہے اور تکلیف کے وقت اللہ کی تمام نعمتوں کو بھول کر بجائے خدا سے ڈرنے کے خدا کی ناشکری کرنے لگتا ہے پھر فرمایا کہ زمین اور آسمان سب ملک اللہ کا ہے کسی کی ناشکری اور نافرمانی سے اللہ کے ملک میں کوئی فتور نہیں پڑتا جس طرح دنیا کے بادشاہوں کا حال ہے کہ رعیت اور ملازموں کے نافرمان ہوجانے سے ان کی بادشاہت میں فتور پڑجاتا ہے خدا کی بادشاہت ایسی نہیں ہے خدا ایسا زبردست بادشاہ ہے کہ اس کو کسی نافرمانی اور ناشکری اور مخالفت کی کچھ پورا نہیں ہے جس طرح اس کی حکومت غریب لوگوں پر ہے ویسی ہی بادشاہوں پر ہے بڑے بڑے بادشاہوں میں سے جس کو چاہے بےاولاد رکھے جس کو چاہے بجائے لڑکے کے لڑکی دے کسی کا اس پر کچھ روز اور بس نہیں چل سکتا۔ صحیح بخاری و مسلم ٣ ؎ کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ لکھا لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کتنے آدمی جنت میں جانے کے قابل کام کریں گے اور کتنے دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل اب جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل پیدا ہوئے ہیں ان کو نافرمانی کے کام اچھے معلوم ہوتے ہیں اور ان کاموں کے چھوڑنے کے لئے کسی کی کوئی نصیحت ان لوگوں کے دل میں کچھ اثر پیدا نہیں کرتی۔ ابن ماجہ ١ ؎ کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی صحیح حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے لئے ایک مقام جنت میں اور ایک دوزخ میں پیدا کیا ہے جو لوگ قیامت کے دن ہمیشہ کے لئے دوزخی قرار پائیں گے ان کے جنت میں کے خالی مکانات اہل جنت کو مل جائیں گے۔ صحیح ٢ ؎ مسلم کے حوالہ سے انس (رض) بن مالک کی حدیث بھی ایک جگہ گزر چکی ہے کہ جو لوگ اپنی مالداری کے غرور میں مرتے دم تک نافرمانی میں گرفتار رہے قیامت کے دن جب ان کو دوزخ میں جھونکا جائے گا تو پہلے ہی جھونکے کے بعد فرشتے ان سے پوچھیں گے کہ جس مالداری کے غرور نے تم کو اس عذاب میں پھنسایا وہ مالداری تم کو کچھ یاد ہے وہ لوگ قسم کھا کر کہیں گے کہ اس عذاب کے آگے دنیا کی وہ مالداری ہم کو کچھ یاد نہیں ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آیتوں میں جن لوگوں کا ذکر ہے کہ وہ لوگ دوزخ کا عذاب دیکھ کر بہت گھبرائیں گے اور یہ تمنا کریں گے کہ ان کو دوبارہ دنیا میں جانے کی پروانگی مل جائے تاکہ دوبارہ دنیا میں جا کر نیک کام کریں اور دوزخ کے عذاب سے نجات پائیں یہ وہی لوگ ہیں جو حضرت علی (رض) کی حدیث کے موافق اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں دوزخی قرار پا چکے تھے ایسے لوگوں کے ٹوٹے کا ذکر جو آیتوں میں ہے یہ وہی ٹوٹا ہے جس کا ذکر ابوہریرہ (رض) کی حدیث میں ہے کہ ان لوگوں کے جنت کے مقامات دوسروں کے قبضہ میں چلے جائیں گے راحت کے وقت ایسے لوگوں کی ناشکری کا ذکر جو آیتوں میں ہے۔ انس بن مالک کی حدیث سے اس راحت کا انجام اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ دوزخ کے عذاب کے آگے وہ راحت ان لوگوں کو بالکل یاد بھی نہ رہے گی۔ ومالھم من نکیر کی تفسیر میں نکیر کے معنی مجاہد نے مددگار ٣ ؎ اور حمایتی کے لئے ہیں اس تفسیر میں ایک جگہ ذکر کردیا گیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس کے شاگردوں میں مجاہد کے قول کا بڑا اعتبار ہے اسی واسطے فارسی کے ترجمہ میں یہی قول لیا گیا ہے۔ اردو کے لفظی ترجمہ میں ابن جریر کا اور مرادی ترجمہ میں سدی کا قول اختیار کیا گیا ہے۔ الوپ ہوجانا اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کی آفتوں سے کوئی چھپ کر نہیں بچ سکتا الوپ انجن اس سرمہ کو کہتے ہیں جس کے لگانے سے آدمی لوگوں کی نظروں سے غائب ہوجاتا ہے۔ اس مرادی ترجمہ کا مطلب یہ ہے کہ محشر کی زمین میں کسی پہاڑ یا مکان کی آڑ نہ ہوگی کہ الوپ انجن لگانے والے شخص کی طرح کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی نگاہ سے غائب ہوجائے مرادی ترجمہ کا یہ مطلب صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم کی سہل (رض) بن سعد کی حدیث کے موافق ہے کیونکہ اس حدیث کا مطلب بھی یہ ہے کہ محشر کی زمین میں کسی پہاڑ یا مکان کی آڑ نہ ہوگی۔ (١ ؎ صحیح مسلم باب جھنم اعاذنا اللہ منھا۔ ص ٣٨١ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم مع شرح نووی کتاب القدر ص ٣٣٧ ج ٢۔ ) (٢ ؎ طبرانی اوسط ص ١١٣ ج ١۔ ) (٣ ؎ صحیح بخاری باب وکان امر اللہ قدرا مقدورا۔ صد ٩٧٧ ج ٢۔ ) (١ ؎ ابن ماجہ باب صفۃ الجنۃ ص ٣٣٢ ) (٢ ؎ صحح مسلم باب فی الکفار ص ٣٧٤ ج ٢۔ ) (٣ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ١٢ ج ٦۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم باب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار۔ ص ٣٧١ ج ٢ و صحیح بخاری باب یقبض اللہ الارض ص ٩٦٥ ج ٢۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(42:44) فمن یضلل اللّٰہ۔ جملہ شرط ہے اور اگلا جملہ فمالہ ۔۔ من بعدہ جواب شرط۔ یضلل مضارع مجزوم (بوجہ عمل من شرطیہ) واحد مذکر غائب اضلال (افعال) مصدر (جس کو) وہ گمراہ کر دے۔ فما لہ : ف جواب شرط کے لئے ہے ما نافیہ ہے لہ میں ضمیر ہ واحد مذکر غائب کا مرجع وہ شخص ہے جسے اللہ نے گمراہ کردیا ہے اور من بعدہ میں ہ کا مرجع اللہ ہے۔ تری۔ مضارع واحد مذکر حاضر۔ رؤیۃ (باب فتح) مصدر تو دیکھتا ہے یا تو دیکھے گا مہموز العین وناقص یائی ہے۔ رء ی مادہ ہے۔ لما۔ جب (کلمہ ظرف) رأوا العذاب : راوا اصل میں راوا تھا واؤ ساکن کو لام سے وصل کے لئے ضمہ دیا گیا۔ رأوا رویۃ (باب فتح) مصدر سے اصل میں رایوا تھا۔ ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب ی متحرک ماقبل اس کا مفتوح اس ی کو الف سے بدلا۔ اب الف اور واؤ دو ساکن جمع ہوئے الف کو حذف کردیا گیا ۔ رأوا ہوگیا۔ انہوں نے دیکھا۔ یہاں اس آیت میں بمعنی مستقبل آیا ہے یعنی وہ دیکھیں گے چونکہ آئندہ قیامت کے دن عذاب کو دیکھنا یقینی ہے اس لئے بجائے مستقبل کے ماضی کا صیغہ استعمال کیا گیا۔ العذاب فعل رأوا کا مفعول ہے۔ مرد۔ رد سے مصدر میمی۔ پھرنا۔ لوٹنا۔ ہل الیٰ مرد من سبیل۔ کیا (دنیا کی طرف) لوٹ جانے کی کوئی راہ ہے ؟ یعنی دنیا کی طرف لوٹ جانے کی درخواست کریں گے۔ تری فعل الظلمین مفعول بہ یقولون ہل الی مرد من سبیل جملہ حالیہ الظلمین سے حال۔ لما رأوا العذاب شرط یقولون ۔۔ من سبیل جواب شرط۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 15 یعنی جس کی ضد اور ہٹ دھرمی کا اللہ تعالیٰ یہ بدلہ دے کہ اسے عدل و انصاف صبر اور عفو و درگزر جیسے اعلیٰ اخلاق کی توفیق نہ دے۔ 1 تاکہ وہاں برائیوں کی بجائے نیکیاں کریں اور نیک بن کر خدا کے حضور پیش ہوں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٤٤ تا ٥٣۔ اسرار ومعارف۔ اور جس شخص کے کردار کے باعث اللہ نے ہی اس پر ہدایت کے دروازے بند کردیے اور گمراہی مقدر کردی پھر اسے کوئی بھی راہ پر نہیں لاسکتا بلکہ اسے مخاطب ایسے لوگ اپنے انجام کو پہنچیں گے اور تو دیکھے گا کہ ان ظالموں کو جب عذاب کا مشاہدہ ہوگا تو پکار اٹھیں گے کہ کیا کوئی ایسا طریقہ کہ ہم دنیا میں واپس جاسکیں تاکہ اب نیکیاں کرکے لائیں اور ایمان کی حالت میں یہاں پہنچیں اور دیکھو گے کہ جب دوزخ کی آگ کے روبرو ہوں گے توشرمندگی اور ذلت کے سبب نظریں جھکائے ہوئے ہوں گے اور کن اکھیوں سے دوزخ کی آگ کو ڈرتے ڈرتے دیکھیں گے تب مومن کہیں گے خسارہ اور بہت بڑا نقصان حقیقتا یہ ہے کہ جن لوگوں نے آج قیامت کے دن خود کو نقصان میں رکھا اور اپنے گھروالوں کو بھی لے ڈوبے کہ وہ بھی انہی پر راہ چلتے تھے یادرکھو ایسے ظالم ہمیشہ کے عذاب میں رہیں گے اور کوئی ایسا حمایتی نہ پائیں گے جو ان کی کچھ بھی مدد کرسکے۔ ان سب لوگوں میں سے بھی نہیں جنہیں اللہ کو چھوڑ کر یہ پوجا کرتے تھے اور اللہ ہی جسے گمراہ کردے پھر اس کے لیے کوئی راہ باقی نہیں رہتی یعنی گناہ میں اس بات سے ڈرناچاہیے ، کہ کہیں ناراض ہو کر اللہ کریم ہدایت کی توفیق ہی سلب نہ کرے۔ اور لوگوں اللہ کی اور اللہ کے رسول کی دعوت قبول کرلو ایسانہ ہو کہ وہ دن آپہنچے جس دن اللہ کی بارگاہ میں پیشی ہو اور بچنے کا کوئی راستہ نہ ہو نہ کوئی ایسی ہستی نظر آئے جو یہ پوچھ ہی لے بھلا ان کو یہ سزا کیوں دی جارہی ہے۔ اور اے حبیب اگر یہ سب سن اور جان کر بھی آپ کی بات نہیں مانتے تو پھر آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں کہ ان کی طرف سے فکرمند ہوں آپ کی ذمہ داری تو اللہ کا پیغام پہنچانے تک تھی سو آپ نے پوری کردی اور لوگوں کا یہ حال ہے کہ اگر انہیں تھوڑی سی نعمت عطا ہوجائے تو پھولے نہیں سماتے اور اکڑنے لگتے ہیں عطا کرنے والے کا شکر نہیں کرتے ہیں اور اگر ان کی بداعمالیوں کے باعث کوئی مصیبت آجائے تو اللہ کی ناشکری کرنے لگتے ہیں اور گناہوں سے توبہ نہیں کرتے یعنی لطف و راحت یابیماری ومصیبت ہر حال میں ان کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں اور محض لذات نفس کی خاطر زندگی بسر کیے جاتے ہیں۔ اللہ کو بھی ان کی پرواہ نہیں وہ ایسا حاکم ہے جس کی سلطنت ارض وسما پر محیط ہے ، اور وہ ہر شے کا خالق ہے جو چاہتا ہے جب چاہتا ہے پیدافرماتا ہے انسانوں میں تو جسے چاہے صرف بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہے بیٹے عطا کرتا ہے جسے چاہے بیٹیاں بیٹے دونوں طرح کی اولاد دیتا ہے۔ اور بعض کو بانجھ بنادیتا ہے کہ ان سے اولاد ہو ہی نہیں سکتی تو یہ نہ ماننے والے اس کی حکومت میں تو کچھ مداخلت نہیں کرسکتے وہ سب کچھ جانتا ہے اور ہر شے پر قادر ہے۔ کسی بشر میں موجودہ صورت میں تو یہ طاقت نہیں کہ اسے اللہ سے ہم کلام ہونے کا شرف نصیب ہو اس کے تین طریقے ہیں وحی کی بات اس کے دل میں القا کردے یا پردے کے پیچھے سے اسے آواز سنائی دے یاپھرفرشتہ اللہ کریم کی طرف سے وحی لے کرآئے۔ اللہ کی طرف سے کلام کے تین طریقے۔ پہلی صورت بات کو دل میں ڈال دینے کی ہے یہ جاگتے ہوئے بھی ہوسکتی ہے اور نیند میں بھی۔ انبیاء (علیہم السلام) کے خواب بھی وحی ہوتے ہیں اور یہ دل میں ڈالنے یا القاء کی صورت ولی کو بھی نصیب ہوتی ہے جیسے ام موسیٰ (علیہ السلام) کو ہوئی جو نبی نہ تھیں ، اسی کو القا یا الہام کہتے ہیں نبی کو غلطی نہیں لگ سکتی جبکہ ولی کو لگ سکتی ہے اگر اسے ایسی بات سمجھ میں آئے جو نبی کی بات سے ٹکراتی ہو تو اس کی بات درست نہ ہوگی نبی کی بات ساری امت کو ماننا پڑتی ہے جبکہ ولی کی بات کے دوسرے لوگ مکلف نہیں ہوتے۔ دوسرا طریقہ پردے کے پیچھے سے آواز سنائی دینے کا ہے جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کو طور پر سنائی دیتی تھی مگر زیارت نہ ہوتی تھی تب ہی زیارت کے لیے دعا کی تو لن ترانی یعنی آپ اس حال میں دیکھ نہ سکیں گے ارشاد ہوا۔ اس لیے کوئی ایسا پردہ نہیں جس نے اللہ تعالیٰ کو چھپا رکھا ہو اور اپنے اندر سمولیا ہو بلکہ خود انسان کو قوت بصارت کی کمزوری زیارت حق کے لیے حجاب بن گئی ہے اس لیے آخرت اور جنت میں جب بینائی کو مضبوط اور طاقتور کردیاجائے گا تو دیکھ سکے گا یہ قانون دار دنیا کا ہے نیز کوئی فرشتہ بھی بالمشافہ ہم کلام نہیں ہوسکتا اور شب معراج اگر رسول اللہ کو زیارت ہوئی تو وہ اس عالم کی بات نہ تھی۔ وہ آسمانوں کے اوپر کا اللہ ہی جانے کونسا عالم تھا۔ اور تیسری صورت ہے کہ اللہ کریم فرشتے کو جبرائیل (علیہ السلام) کو کلام عطا کرکے روانہ فرمائے اور وہ پڑھ کر سنادے کبھی انسانی شکل میں آکر کبھی کشف میں نبی کو دکھائی دے کر۔ یہ کشف کی صورت کہ اسرار الٰہی کا مشاہدہ ہو بھی باتباع نبی اولیاء اللہ کو نصیب ہوتی ہے۔ اور اللہ بہت بڑی شان والا ہے جسے جو نعمت چاہے عطا کرے کہ وہ بہت بڑا حکمت والا ہے۔ ہرنبی ایمان پر پیدا ہوتا ہے۔ اسی اللہ کے حکم سے آپ پر وحی کا نزول ہوا اور آپ اللہ ہی کے بتلانے سے جانتے ہیں ورنہ آپ کو کتاب کے بارے میں کیا پتہ تھا اور ایمان کی تفصیلات اور اس کا یہ اعلی مقام جو وحی کے بعد ہے بھلا آپ کو اس کی کیا خبر تھی کہ باجماع امت ہر نبی ایمان پر پیدا ہوتا ہے اور قبل نبوت کا ایک خاص ولایت حاصل ہوتی ہے جسے راہ سلوک میں بھی ولایت انبیاء کہا جاتا ہے اور ولی ایسے داخل ہوسکتا ہے جیسے بادشاہ کے ساتھ محل میں خادم۔ انبیاء کو کفار نے طرح طرح کے طعنے دیے مگر کسی نبی کو یہ نہیں کہا کہ کل تک تو آپ بھی ہمارے ساتھ بتوں کو پوجتے تھے آج غلط کہہ رہے ہو اس لیے نبی پیداہی ایمان پر کیا جاتا ہے ہاں کمال ایمان وہ درجہ یقینا بہت بڑا ہے جو نزول وحی کے بعد ہوتا ہے۔ اور ہم نے اس وحی اور کلام باری کو ایک روشنی اور نور بنادیا ہے اپنے بندوں میں سے جسے چاہیں اس کی راہیں روشن کردیتے ہیں اور آپ تو ہدایت کا راستہ دکھاتے ہیں وہ راستہ جو اللہ کا اور اس کی بارگاہ میں حاضری کا راستہ ہے جو آسمانوں اور زمینوں کو ہر ہرشے کا مالک ہے اور ہر امر اسی کی طرف لوٹنے والا اور ہر ایک کو واپس اس کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 44 تا 46 : مرد (لوٹ جانے کی جگہ) طرف خفی (چھپی نظر ، کن انکھیوں سے دیکھنا) مقیم ( قائم رہنے والا) سبیل ( راستہ) تشریح : آیت نمبر 44 تا 46 : اہل ایمان پر یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے زندگی کی راہوں میں ہدایت و رہنمائی کے لئے قرآن کریم جیسی عظیم کتاب عطاء فرمائی اور اطاعت و فرماں بردری کے لئے خاتم الانبیاء احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات پاک اور بہترین نمونہ زندگی عطاء فرمایا ۔ یہ ایسی سچائی ہے کہ اگر کوئی اس کو آنکھ سے دیکھ کر بھی ایمان قبول نہیں کرتا اور وہ کفر و شرک کی جس زندگی کو اختیار کئے ہوئے ہے اس سے توبہ نہیں کرتا تو اللہ بھی بےنیاز ذات ہے وہ اس کو اس گمراہی میں پڑا رہنے دیتا ہے کیونکہ جو شخص خود اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار رہا ہو تو اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ دنیا کی زندگی کے عیش و آرام میں اس کو برے انجام کا اندازہ نہ ہو لیکن آخرت میں اپنے کئے ہوئے اعمال کو عذاب کی شکل میں دیکھے گا تب وہ کہہ اٹھے گا کہ واقعی اس نے دنیا کے عیش و آرام میں آخرت کو بھلا رکھا تھا ۔ وہ اس بات کی تمنا کرے گا کہ اگر اس کو دنیا میں جانے کا ایک اور موقع دے دیا جائے تو وہ حسن کا پیکر بن جائے گا ۔ لیکن اس کی یہ تمنا پوری نہ ہو سکے گی ۔ ان کو اپنے جرم کا پوری طرح احساس ہوجائے گا جس سے ان کے سر جھکے ہوئے ہوں گے۔ ذلت و ندامت کے آنسو بہا رہے ہوں گے اور کن انکھیوں سے اس عذاب کو دیکھ رہے ہوں گے جو انکی طرف بڑھتا چلا آ رہا ہوگا ۔ اس کے بر خلاف وہ لوگ جنہوں نے ایمان اور عمل صالح کے ساتھ زندگی گزاری ہوگی وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہیں گے اللہ ہی نے ہماری رہنمائی فرمائی تھی کہ ہم اس ذلت و رسوائی سے بچ گئے ورنہ ہمارا انجام بھی یہی ہوتا ۔ وہ ہدایت سے محروم ظالموں پر ملامت کرتے ہوئے کہیں گے کہ اصل خسارہ اور نقصان تو در حقیقت ان کا ہوا ہے جو خود بھی ذلت و رسوائی کے سمندر میں ڈوب گئے اور انہوں نے اپنے اہل و عیال اور گھر والوں کو بھی ڈبو دیا ۔ اللہ کی رحمت سے خود بھی محروم رہے اور اپنے متعلقین کو بھی محروم کردیا ۔ کیونکہ وہاں کوئی کسی کو سہارا نہ دے گا اور نہ حمایت و مدد کرسکے گا ۔ واقعی جو لوگ اللہ کی رحمت کی قدر نہیں کرتے اور گمراہی میں زندگی گزارتے ہیں اور اسی پر اصرار کرتے ہیں تو اللہ بھی ایسوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا ۔ ہدایت تو ان کو ملتی ہے جو اس روشنی کو حاصل کرنے کی تڑپ اور تمنا رکھتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین پر فساد برپا کرتے ہیں درحقیقت وہ صحیح راستے سے گمراہ ہوجاتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کردے اس کی کوئی راہنمائی کرنے والا نہیں ہوتا۔ جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کردے اس کا کوئی خیرخواہ اور دوست نہیں ہوگا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ظالموں کو دیکھیں گے کہ جب یہ جہنم کے عذاب کو دیکھیں گے تو آہ وزاریاں کرتے ہوئے کہیں گے کہ کیا جہنّم سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ ہے۔ آپ انہیں دیکھیں گے کہ جب وہ جہنّم کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے تو ذلّت کی وجہ سے اپنی نگا ہوں کو نیچے کیے ہوئے ترشی آنکھوں سے اسے دیکھ رہے ہوں گے اس وقت مومن کہیں گے۔ یقیناً یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے اہل و عیال کو آج کے دن کے بارے میں نقصان میں رکھا۔ آگاہ ہوجاؤ کہ ظالم ہمیشہ رہنے والے عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا ان کا کوئی دوست اور خیر خواہ نہیں ہوگا۔ جو ان کی مدد کرسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کردے اس کے لیے ہدایت کا کوئی راستہ اور طریقہ باقی نہیں رہتا۔ فہم القرآن میں کئی مرتبہ اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو گمراہ نہیں کرتا۔ اس کے گمراہ کرنے کا معنٰی یہ ہے کہ جو شخص اپنے لیے گمراہی کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے کھلا چھوڑ دیتا ہے۔ گمراہی کو اپنی طرف منسوب کرنے کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ ہر شخص کو اللہ تعالیٰ سے ہدایت مانگتے ہوئے گمراہی سے بچنے کی توفیق بھی مانگنا چاہیے۔ کیونکہ ہدایت اور گمراہی اسی کے اختیار میں ہے۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ گمراہی میں کھلا چھوڑ دیتا ہے۔ قیامت کے دن ان کی حالت یہ گی کہ وہ ذلّت کے مارے اپنی نگاہوں کو نیچے کیے ہوئے جہنّم کو ترشی نظروں کے ساتھ دیکھ رہے ہوں گے۔ جس طرح مجرم سزا کے وقت دیکھتا ہے اس حالت میں فریاد کریں گے کہ کاش ! جہنّم سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ نکل آئے۔ جنہیں دنیا میں اپنا نجات دہندہ سمجھتے تھے ان میں سے کوئی بھی انہیں بچانے والا نہیں ہوگا۔ جن لوگوں نے اپنے آپ اور اپنے اہل و عیال کو گمراہ کیا انہیں ہمیشہ رہنے والے عذاب میں داخل کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ برے سے برا شخص بھی اپنی اولاد کے نقصان کے لیے نہیں سوچتا۔ مگر اس کے فکر و عمل سے متاثر ہو کر اس کی اولاد اس طرح ہی ہوجاتی ہے جس قسم کا اس نے ماحول دیا ہوتا ہے۔ اگر ماں باپ فکرو عمل کے اعتبار سے صالح لوگ ہیں تو غالب امکان ہے کہ ان کی اولاد بھی صالح ہوگی۔ بصورت دیگر جیسے ماں باپ ہوں گے ویسی ہی اولاد ہوگی۔ اسی بنا پر قیامت کے دن جنتی جہنمیوں کے بارے میں کہیں گے کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ اور اپنی اولاد کو ناقابل تلافی نقصان میں ڈال دیا ہے۔ یعنی یہ لوگ جہنم میں داخل ہوچکے ہیں۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا مِنْ مَّوْلُوْدٍ اِلَّا ےُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ ےُھَوِّدَانِہٖ اَوْ ےُنَصِّرَانِہٖ اَوْ ےُمَجِّسَانِہٖ کَمَا تُنْتَجُ الْبَھِےْمَۃُ بَھِےْمَۃً جَمْعَآءَ ھَلْ تُحِسُّوْنَ فِےْھَا مِنْ جَدْعَآءَ ثُمَّ ےَقُوْلُ ” فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَےْھَا لَا تَبْدِےْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذَالِکَ الدِّےْنُ الْقَےِّمُ “ ) [ رواہ البخاری : باب اذا اسلم الصبی فمات ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے والدین اس کو یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جس طرح چارپائے اپنے بچے کو تام الخلقت جنم دیتے ہیں۔ کیا تم ان میں سے کسی بچے کو کان کٹا پاتے ہو ؟ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت کی۔” اللہ کی فطرت ہے جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے یہ بالکل سیدھا اور درست دین ہے۔ “ ( ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْا اَنفُسَکُمْ وَاَہْلِیکُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْہَا مَلاَءِکَۃٌ غلاَظٌ شِدَادٌ لاَ یَعْصُون اللّٰہَلاَ یَعْصُون اللّٰہَ مَا اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ ) [ التحریم : ٦] اے ایمان والو ! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچا لو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اور جس پر تند خو اور سخت مزاج فرشتے مقرر ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جو حکم کرتا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم ان کو دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔ “ مسائل ١۔ قیامت کے دن جہنمی ذلّت کے مارے نگاہیں نیچے کیے ہوئے جہنّم کو دیکھیں گے۔ ٢۔ جہنمی اس بات کی خواہش اور اظہار کریں گے کہ کاش ! یہاں سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ مل جائے۔ ٣۔ اہل ایمان جہنمیوں کو کہیں گے کہ تم نے اپنے آپ اور اپنے اہل و عیال کو بڑے نقصان میں مبتلا کردیا ہے۔ ٤۔ جہنمی ہمیشہ اذیّت ناک عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ ٥۔ جہنمیوں کی کوئی خیر خواہی اور مدد نہیں کرسکے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا : ١۔ نہیں ہے تمہارا کوئی اللہ کے سوا دوست اور نہ مددگار۔ (البقرۃ : ١٠٧) ٢۔ نہ ملے ان کو اللہ کے سوا کوئی دوست اور نہ مددگار۔ (الاحزاب : ١٧) ٣۔ اللہ کے سوا کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ (ھود : ٣٠، ٦٣) ٤۔ نہیں ہے ان کے لیے زمین میں کوئی دوست اور نہ کوئی مدد گار۔ (التوبۃ : ٧٤) ٥۔ نہیں ہے تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی دوست اور سفارشی پھر تم نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے۔ (السجدۃ : ٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٤٤ تا ٤٦ اللہ کے فیصلے کو رد نہیں کیا جاسکتا اور اللہ مشیت کی راہ کوئی روک نہیں سکتا۔ ومن یضلل اللہ فما لہ من ولی من بعدہ (٤٢ : ٤٤) “ جس کو اللہ گمراہی میں پھینک دے ، اس کا کوئی سنبھالنے والا اللہ کے بعد نہیں ”۔ جب اللہ کے علم میں یہ بات آجاتی ہے کہ یہ بندہ گمراہی کا مستحق ہے تو اللہ کا فیصلہ ہوجاتا ہے کہ یہ گمراہ ہوگا۔ اس کے بعد پھر کوئی ولی اسے ہدایت دینے کی طاقت نہیں رکھتا۔ نہ اس کی مدد یوم الحساب میں عذاب سے بچانے میں کرسکتا ہے۔ باقی آیت میں ایک منظر ! وتری الظلمین ۔۔۔۔۔ مرد من سبیل ( ٤٢ : ٤٤) وترھم یعرضون ۔۔۔۔۔ طرف خفی (٤٢ : ٤٤) “ تم دیکھو گے کہ یہ ظالم جب عذاب دیکھیں گے تو کہیں گے اب پلٹنے کی کوئی سبیل ہے ؟ اور تم دیکھو گے کہ یہ جہنم کے سامنے جب لائے جائیں گے ، ذلت کے مارے جھکے جا رہے ہوں گے۔ اور اس کو نظریں بچا کر کن اکھیوں سے دیکھیں گے ”۔ ظالم چونکہ سرکش اور باغی تھے تو اللہ تعالیٰ نے یوم الجزاء میں انہیں بظاہر ذلت کی حالت میں رکھا۔ یہ عذاب دیکھتے ہیں تو ان کی بڑائی دھڑام سے گرتی ہے اور نہایت ہی ذلت اور انکسار سے باہم بات کرتے ہیں کہ کوئی راستہ ہے پلٹنے کا ہے۔ اس بےتابانہ مایوسی کے مکالمے اور اس ذلت و خواری کی حالت میں جب آگ کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں تو حالت خشوع میں ہیں۔ تقویٰ اور احترام کی وجہ سے نہیں بلکہ ذلت اور خواری کی وجہ سے ، وہ خود بھی سہمے ہوئے ، جھکے ہوئے ہیں اور نظریں بھی نیچی ہیں۔ ذلت اور شرمندگی کی وجہ سے نظریں اٹھا کر نہ دیکھ سکیں گے۔ ینظرون من طرف خفی (٤٢ : ٤٤) “ اور نظریں بچا بچا کر کن اکھیوں سے دیکھیں گے ”۔ یہ اس وقت نہایت ہی توہین آمیز حالت میں ہوں گے۔ اور اس وقت یہ معلوم ہوگا کہ یہ دن اہل ایمان کا ہے۔ وہ بات کرتے ہیں اور تبصرے کرتے ہیں۔ وقال الذین امنوا ۔۔۔۔۔۔ یوم القیمۃ (٤٢ : ٤٥) “ اس وقت وہ لوگ جو ایمان لائے تھے کہیں گے کہ واقعی اصل زیاں کار وہی ہیں جنہوں نے آج قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے متعلقین کو خسارے میں ڈال دیا ”۔ اور یہ کفار واقعی سب کچھ ہار گئے۔ اور یہ لوگ ذلت سے جھکے کھڑے ہیں وہ بھی باہم تبصرہ کرتے ہیں مگر یوں کہ کیا ایسی کی کوئی راہ ہے ؟ ۔۔۔۔ اب ایک عام تبصرہ آتا ہے اس پورے منظر پر کہ یہ لوگ جن کو آگ پر پیش کیا گیا ان کا انجام کیا ہوگا۔ الا ان الظلمین فی عذاب مقیم (٤٢ : ٤٥) وما کان لھم ۔۔۔۔۔۔ من سبیل (٤٢ : ٤٦) “ خبردار رہو ، ظالم لوگ مستقل عذاب میں ہوں گے اور ان کے کوئی حامی و سرپرست نہ ہوں گے ، جو اللہ کے مقابلے میں ان کی مدد کو آئیں اور جسے اللہ گمراہی میں پھینک دے اس کے لئے بچاؤ کی کوئی سبیل نہیں ”۔ نہ کوئی مددگار ہے اور نہ نکلنے کا کوئی راستہ ہے۔ لہٰذا اب ان کے لئے عذاب مقیم ہی ہے۔ ٭٭٭ اس منظر کی روشنی میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاندین اور مغرور مخاطبین کو اب نہایت ہی ہمدردی سے خطاب کیا جاتا ہے کہ اللہ کی بات کو قبول کرلو ، قبل اس کے کہ اچانک تم پر یہ دن آجائے ، جس سے پھر کوئی پناہ تمہیں نہ ملے ، کوئی مدد گار نہ ملے جو اس برے انجام پر اجتجاج کرسکے ، اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اگر یہ اس مخلصانہ تنبیہ کو نہیں مانتے اور منہ موڑتے ہیں تو آپ کا فرض پورا ہوگیا۔ آپ کا فریضہ صرف یہ ہے کہ بات پہنچا دیں ، آپ ان کی ہدایت کے مکلف اور ذمہ دار نہیں نہ ان کے ٹھیکہ دار ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت کے دن ظالموں کی بدحالی، ہلاکت اور ذلت کا سامنا یہ چار آیات کا ترجمہ ہے پہلی آیت میں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ جسے گمراہ کردے یعنی ہدایت سے محروم فرما دے تو اس کے لیے کوئی ایسا نہیں ہے جو اس کا ولی اور کارساز بنے، کوئی شخص اسے ہدایت نہیں دے سکتا اور کوئی اس کی مدد نہیں کرسکتا پھر ظالموں یعنی کافروں کی بدحالی کا تذکرہ فرمایا کہ قیامت کے دن جب وہ عذاب کو دیکھیں گے تو یوں کہیں گے کہ کیا ایسا کوئی راستہ ہے کہ ہم واپس کردئیے جائیں یعنی دنیا میں چلے جائیں پھر وہاں ایمان لائیں کفر اختیار نہ کریں، لیکن وہاں سے واپسی کا کوئی قانون نہیں مزید فرمایا کہ یہ لوگ جب دوزخ پر پیش کیے جائیں گے یعنی اس میں داخل کیے جانے لگیں گے تو ذلت سے جھکے ہوئے ہوں گے اور نیچی نظر سے دیکھ رہے ہوں گے اہل ایمان کہیں گے کہ آج تو علی الاعلان پتہ چل گیا کہ اہل کفر سراسر خسارہ میں ہیں یہ اپنی جانوں کا بھی نقصان کر بیٹھے اور اپنی اہل و عیال کا بھی ان کی جانیں بھی ہلاک ہوئیں اور ان کے متعلقین کی بھی، تمام کافروں کے لیے دوزخ ہے چھوٹے درجہ کے لوگ ہوں یا سردار ہوں یہ لوگ اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے اور اہل و عیال سے بھی اور وہاں کا عذاب تھوڑا سا نہیں اور تھوڑے سے دن کا نہیں ان کے لیے بڑا عذاب ہے اور دائمی ہے اور اسی کو فرمایا ﴿اَلَاۤ اِنَّ الظّٰلِمِيْنَ فِيْ عَذَابٍ مُّقِيْمٍ ٠٠٤٥﴾ اور اس کے بعد فرمایا ﴿وَ مَا كَانَ لَهُمْ مِّنْ اَوْلِيَآءَ يَنْصُرُوْنَهُمْ۠ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ١ؕ﴾ (اور ان کے لیے مددگار نہ ہوں گے جو ان کی مدد کریں اللہ کو چھوڑ کر) یعنی کوئی شخص اگر یہ چاہے کہ اللہ کے فیصلے کے خلاف کوئی ان کی مدد کرے یعنی انہیں دوزخ سے چھڑا دے تو ایسا نہیں ہوسکتا۔ ﴿ ٖوَ مَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ سَبِيْلٍؕ٠٠٤٦﴾ (اور جسے اللہ گمراہ کردے اس کے لیے کوئی راستہ ہی نہیں) یعنی اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ كما قال تعالیٰ فی سورة الکھف ﴿وَ مَنْ يُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ وَلِيًّا مُّرْشِدًا (رح) ٠٠١٧﴾ اس آیت میں سابق مضمون کو دہرا دیا ہے جو تاکید کے لیے ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

35:۔ ” ومن یضلل اللہ “ یہ دوسرے دعوے سے متعلق ہے جو شخص انصاف کی آنکھیں بند کر کے اور محض ضد وعناد کی وجہ سے باغی اور گمراہی پھیلانے والے پیشواؤں کی تحریفات کو دیکھ کر گمراہی پھیلانے والے پیشواؤں کی تحریفات کو دیکھ کر گمراہ ہوگیا، شرک کرنے لگا اور حاجات میں غیر اللہ کو پکارنے لگا اور اللہ نے اسے توفیق ہدایت سے محروم کردیا، تو اب اس کا کوئی حمایتی اور مددگار نہیں جو اسے راہ راست پر لاسکے یا اسے اللہ کے عذاب سے بچا کسے۔ ” وتری الظلمین الخ “ یہ تخویف اخروی ہے۔ قیامت کے دن تم یہ منظر دیکھو گے کہ جب مشرکین عذاب جہنم کا مشاہدہ کریں گے تو التجا کریں گے کہ کیا دنیا میں واپس جانے کی کوئی سبیل ہے ؟ تاکہ ہم وہاں جا کر نیک عمل کریں ؟ اور تم یہ بھی دیکھو گے کہ جب ان کو دوزخ میں ڈال دیا جائیگا تو وہ ذلت و خواری سے سرجھکائے ہوں گے اور جھکی جھکی آنکھوں سے دیکھیں گے ان پر ذلت و رسوائی اس قدر غالب ہوگی کہ آنکھ اٹھا کر دیکھ بھی نہیں سکیں گے۔ ” وقال الذین امنوا الخ “ اس وقت ایمان والے خوش ہوں گے اور کہیں گے یا دنیا میں یوں کہتے ہیں۔ ” یوم القیامۃ “ ، خسروا کے متعلق ہے (روح) ۔ یعنی دراصل تو خسارے میں وہ لوگ ہیں جو قیامت کے دن اپنی جانوں اور اپنے اہل و عیال کا خسارہ اٹھائیں گے جب خود بھی اور ان کے مشرک اہل و عیال جہنم میں ڈالیں جائیں گے اور دائمی عذاب میں گرفتار ہوجائیں گے سن لو، بیشک مشرکین دائمی عذاب میں مبتلا ہوں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(44) اور جس شخص کو اللہ تعالیٰ راہ نہ دے اور گمراہ رکھے تو اللہ تعالیٰ کے بعد اس شخص کا کوئی چارہ ساز اور کار ساز نہیں اور کام بنانے والا نہیں چناچہ اے پیغمبر آپ ظالموں کو دیکھیں گے کہ جس وقت وہ عذاب کا معائنہ کریں گے اور جس وقت عذاب کو دیکھیں گے تو یوں کہیں گے کیا یہاں سے واپس ہوجانے پر لوٹ جانے کی بھی کوئی راہ اور کوئی سبیل ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہی جس کی رہنمائی نہ فرمائے تو اللہ تعالیٰ کے سوا اس کا کوئی سرپرست اور کارساز نہیں اور جس وقت یہ دین کے منکر عذاب کو دیکھیں گے تو آپ ان مشرکوں کو دیکھیں گے کہ یوں کہیں گے کہ یہاں سے واپس لوٹ جانے کا بھی کوئی طریق ہے۔