Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 52

سورة الزخرف

اَمۡ اَنَا خَیۡرٌ مِّنۡ ہٰذَا الَّذِیۡ ہُوَ مَہِیۡنٌ ۬ ۙ وَّ لَا یَکَادُ یُبِیۡنُ ﴿۵۲﴾

Or am I [not] better than this one who is insignificant and hardly makes himself clear?

بلکہ میں بہتر ہوں بہ نسبت اس کے جو بے توقیر ہے اور صاف بول بھی نہیں سکتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَمْ أَنَا خَيْرٌ مِّنْ هَذَا الَّذِي هُوَ مَهِينٌ ... Am I not better than this one who is despicable? As-Suddi said, "He was saying, `indeed I am better than this one, who is despicable'." Some of the grammarians of Basrah said that Fir`awn -- may the curse of Allah be upon him -- was saying that he was better than Musa, peace be upon him. But this is an obvious lie, may continued curses be upon him until the Day of Resurrection. By describing Musa as despicable he meant -- as Sufyan said -- insignificant. Qatadah and As-Suddi said, "He meant, weak." Ibn Jarir said, "He meant, he had no power, authority or wealth." ... وَلاَ يَكَادُ يُبِينُ and can scarcely express himself clearly. means, he cannot speak clearly, he stammers and cannot speak well. Fir`awn's description of Musa as "despicable" is a lie; rather it is he who was despicable and insignificant, lacking in physical, moral and religious terms, and it is Musa who was noble, truthful, righteous and upright. وَلاَ يَكَادُ يُبِينُ (and can scarcely express himself clearly). This was also a lie. Although something happened to Musa's tongue when he was a child, when it was burnt by a coal. He asked Allah to loosen the knot from his tongue (i.e., to correct his speech defect) so that they could understand what he said, and Allah had answered his prayer and said: قَدْ أُوتِيتَ سُوْلَكَ يمُوسَى You are granted your request, O Musa, (20:36). It may be the case that some problem remained which he had not asked to be relieved of, as Al-Hasan Al-Basri suggested, and that he had asked only to be relieved of that which stood in the way of his conveying the Message. A person cannot be blamed for physical matters over which he has no control. Even though Fir`awn had the intelligence to understand that, he wanted to confuse and mislead his people, who were ignorant and stupid. So he said:

فرعون کے دعوے فرعون کی سرکشی اور خود بینی بیان ہو رہی ہے کہ اس نے اپنی قوم کو جمع کر کے ان میں بڑی باتیں ہانکنے لگا اور کہا کیا میں تنہا ملک مصر کا بادشاہ نہیں ہوں ؟ کیا میرے باغات اور محلات میں نہریں جاری نہیں ؟ کیا تم میری عظمت و سلطنت کو دیکھ نہیں رہے ؟ پھر موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو دیکھو جو فقراء اور ضعفاء ہیں ۔ کلام پاک میں اور جگہ ہے اس نے جمع کر کے سب سے کہا میں تمہارا بلند و بالا رب ہوں جس پر اللہ نے اسے یہاں کے اور وہاں کے عذابوں میں گرفتار کیا ( ام ) معنی میں ( بل ) کے ہے ۔ بعض قاریوں کی قرأت ( اما انا ) بھی ہے امام ابن جریر فرماتے ہیں اگر یہ قرأت صحیح ہو جائے تو معنی تو بالکل واضح اور صاف ہو جاتے ہیں لیکن یہ قرأت تمام شہروں کی قرأت کے خلاف ہے سب کی قرأت ( ام ) استفہام کی ہے ۔ حاصل یہ ہے کہ فرعون ملعون اپنے آپ کو حضرت کلیم اللہ سے بہتر و برتر بنا رہا ہے اور یہ دراصل اس ملعون کا جھوٹ ہے ۔ ( مھین ) کے معنی حقیر ، ضعیف ، بےمال ، بےشان ۔ پھر کہتا ہے موسیٰ تو صاف بولنا بھی نہیں جانتا اس کا کلام فصیح نہیں وہ اپنا ما فی الضمیر ادا نہیں کر سکتا بعض کہتے ہیں بچپن میں آپ نے اپنے منہ میں آگ کا انگارہ رکھ لیا تھا جس کا اثر زبان پر باقی رہ گیا تھا ۔ یہ بھی فرعون کا مکر جھوٹ اور دجل ہے ۔ حضرت موسیٰ صاف گو صحیح کلام کرنے والے ذی عزت بارعب و وقار تھے ۔ لیکن چونکہ ملعون اپنی کفر کی آنکھ سے نبی اللہ کو دیکھتا تھا اس لئے اسے یہی نظر آتا تھا ۔ حقیقتاً ذلیل و غبی تھا ۔ گو حضرت موسیٰ کی زبان میں بوجہ اس انگارے کے جسے بچپن میں منہ میں رکھ لیا تھا کچھ لکنت تھی لیکن آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی اور آپ کی زبان کی گرہ کھل گئی تاکہ آپ لوگوں کو باآسانی اپنا مدعا سمجھا سکیں ۔ اور اگر مان لیا جائے کہ تاہم کچھ باقی رہ گئی تھی کیونکہ دعا کلیم میں اتنا ہی تھا کہ میری زبان کی اس قدر گرہ کھل جائے کہ لوگ میری بات سمجھ لیں ۔ تو یہ بھی کوئی عیب کی بات نہیں اللہ تعالیٰ نے جس کسی کو جیسا بنا دیا وہ ویسا ہی ہے اس میں عیب کی کونسی بات ہے ؟ دراصل فرعون ایک کلام بنا کر ایک مسودہ گھڑ کر اپنی جاہل رعایا کو بھڑکانا اور بہکانا چاہتا تھا ، دیکھئے وہ آگے چل کر کہتا ہے کہ کیوں جی اس پر آسمان سے ہن کیوں نہیں برستا مالداری تو اسے اتنی ہونی چاہیے کہ ہاتھ سونے سے پر ہوں لیکن یہ محض مفلس ہے اچھا یہ بھی نہیں تو اللہ اس کے ساتھ فرشتے ہی کر دیتا جو کم از کم ہمیں باور کرا دیتے کہ یہ اللہ کے نبی ہیں ، غرض ہزار جتن کر کے لوگوں کو بیوقوف بنا لیا اور انہیں اپنا ہم خیال اور ہم سخن کر لیا ۔ یہ خود فاسق فاجر تھے فسق و فجور کی پکار پر فوراً ریجھ گئے پس جب ان کا پیمانہ چھلک گیا اور انہوں نے دل کھول کر رب کی نافرمانی کر اور رب کو خوب ناراض کر دیا تو پھر اللہ کا کوڑا ان کی پیٹھ پر برسا اور اگلے پچھلے سارے کرتوت پکڑ لئے گئے یہاں ایک ساتھ پانی میں غرق کر دئیے گئے وہاں جہنم میں جلتے جھلستے رہیں گے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب کسی انسان کو اللہ دنیا دیتا چلا جائے اور وہ اللہ کی نافرمانیوں پر جما ہوا ہو تو سمجھ لو کہ اللہ نے اسے ڈھیل دے رکھی ہے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی ( ابن ابی حاتم ) حضرت عبداللہ کے سامنے جب اچانک موت کا ذکر آیا تو فرمایا ایمان دار پر تو یہ تخفیف ہے اور کافر پر حسرت ہے ۔ پھر آپ نے اسی آیت کو پڑھ کر سنایا حضرت عمر بن عبدالعزیز فرماتے ہیں انتقام غفلت کے ساتھ ہے ۔ پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں نمونہ بنا دیا کہ ان کے سے کام کرنے والے ان کے انجام کو دیکھ لیں اور یہ مثال یعنی باعث عبرت بن جائے کہ ان کے بعد آنے والے ان کے واقعات پر غور کریں اور اپنا بچاؤ ڈھونڈیں ۔ ( واللہ سبحانہ وتعالیٰ الموفق للصواب والیہ المرجع والماب )

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

52۔ 1 یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی لکنت کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ سورة طہ میں گزرا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥١] فرعون کا اپنی قوم میں پروپیگنڈہ :۔ فرعون کے اس اعلان سے واضح طور پر یہ معلوم ہو رہا ہے کہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کی جڑیں اندر ہی اندر کافی مضبوط ہوچکی تھیں۔ اور وہ اس دعوت سے خائف تھا مگر اپنی رعایا میں اپنا بھرم قائم رکھنا چاہتا تھا۔ اور اپنی قوم سے اسی طرح کا استصواب چاہتا تھا۔ جیسے الیکشن کے دنوں میں امیدوار اپنی خوبیاں اور اپنے حریف کے نقائص بیان کیا کرتے ہیں۔ اس نے اپنا اور سیدنا موسیٰ کا تقابل پیش کرتے ہوئے کہا۔ دیکھو ! یہ ملک مصر میں میری حکومت کس قدر مضبوط ہے۔ آبپاشی کا نظام بہت عمدہ ہے۔ جس پر تمہاری معیشت کا دارومدار ہے۔ ہم لوگوں نے دریائے نیل سے کئی نہریں ملک بھر میں جابجا بچھا دی ہیں۔ یہ سب کچھ تو میرے نظام کے تحت ہو رہا ہے۔ پھر تم ایک ایسے شخص کے پیچھے کیوں لگے جارہے ہو جو میرے مقابلہ میں نہایت کمتر درجہ کا آدمی ہے۔ نہ اس کے پاس مال و دولت ہے اور نہ حکومت اور وہ کھل کر صاف صاف باتیں بھی نہیں کرسکتا۔ تمہیں کچھ تو سوچ و بچار سے کام لینا چاہئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ام انا خیر من ھذا الذی ھو مھین :” مھن یمھن مھانہ “ (ؐ) کے معنی ہیں ” خضر و ضعف “” مھین “ بروزن ” فعیل ‘ حقیر، ضعیف۔ ” ام “ سے پہلے ایک جملہ ہمزہ استفہام پر مشتمل ہوتا ہے، جو یہاں اس مفہوم کا ہوگا کہ ” کیا یہ شخص یعنی موسیٰ (علیہ السلام) بہتر ہے یا میں بہتر ہوں…؟ “” ام “” بل “ کے معنی میں بھی آتا ہے، اس صورت میں معنی یہ ہوگا۔” بلکہ میں بہتر ہوں…۔ “ (٢) فرعون موسیٰ (علیہ السلام) کی تحقیر کے لئے زیادہ سے زیادہ جو الفاظ استعمال کرسکتا تھا اس نے وہ کئے۔ ان میں سے لفظ ” ھذا “ بھی حقارت کے اظہار کے لئے ہے، یعنی ” اس شخص سے جو حقیر ہے۔ “ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کو اسلئے حقیر کہہ رہا تھا کہ ان کے پاس اس جیسی نہ دولت تھی نہ قوت و سلطنت ، بلکہ وہ اس کی غلام قوم کے ایک فرد تھے اور غلام توحقیر ہی سمجھا جاتا ہے۔ مگر یہ عجیب حقیر شخص تھا جس سے فرعون بھی شدید خوف زدہ تھا، ہر عذاب پر اس کے سامنے دعا کے لئے منت و سماجت کرتا تھا، اپنی ساری شان و شوکت، قوت و اقتدار اور افواج قاہرہ کے باوجود اسے اپنے دربار میں داخل ہونے سے نہیں روک سکتا تھا، جب کہ اس کے پاس فوج تھی نہ سالحہ، صرف ایک عصا ہاتھ میں لئے جب چاہتا اس کے سر پر پہنچ جاتا اور یہ عجیب حقیر شخص تھا جس کے متعلق وہ اپنے سرداروں سے کہتا تھا :” مجھے چھوڑ دو کہ میں موسیٰ کو قتل کر دوں۔ “ (دیکھیے مومن ، ٢٦) حالانکہ کسی نے اسے قتل کرنے سے نہیں روکا تھا اور فرعون میں یہ جرأت نہیں تھی کہ انھیں ہاتھ بھی لگا سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا مال یا اقتدار حقارت یا عظمت کا پیمانہ ہے ہی نہیں اور نہ ہی موسیٰ (علیہ السلام) حقیر تھے، بلکہ وہ ظالم خود ہی حقیر و ذلیل تھا جو دنیا کے عارضی متاع پر مغرور ہو کر حق سے انکار پر اڑا ہوا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے کفار بھی دنیا کی دولت نہ ہونے کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت عطا ہونا قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ (٣) ولا یکاد یبین : بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس کا اشارہ اس لکنت کی طرف تھا جو موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان میں پائی جاتی تھی، مگر یہ بات درست نہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کے بعد وہ لکنت دور ہوگئی تھی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ موسیٰ ! تمہاری دعا قبول کرلی گی ہے۔ (دیکھیے طہ : ٣٦) قرآن مجید میں فرعون کیساتھ موسیٰ (علیہ السلام) کے کئی مناظرے مذکور ہیں، جن میں انہوں نے نہایت فصیح و بلیغ الفاظ میں اپنا مدعا بیان فرمایا اور ہر موقع پر فرعون کو لاجواب کیا ۔ اگر چہ انہوں نے اپنی مدد کے لئے ہارون (علیہ السلام) کو زیادہ فصیح اللسان ہونے کی وجہ سے مانگ کرلیا تھا، مگر کہیں بھی انھیں اظہار مقصد کے لئے ہارون (علیہ السلام) کی ضرورت نہیں پڑی۔ رہاف رعون کا ان کے متعلق کہنا کہ ” قریب نہیں کہ وہ اپنی بات واضح کرسکے “ تو اس کی وجہ یہ تھی کہ کفار و مشرکین کی سمجھ میں پیغمبروں کی بات آتی ہی نہیں، جیسا کہ شعیب (علیہ السلام) جیسے زبردست خطیب کو ان کی قوم نے کہا :(یشعیب ما نفقہ کثیراً مما تقول وانا لنئک فینا ضعیفاً (ھود : ٩١)” اے شعیب ! ہم اس میں سے بہت سے باتیں نہیں سمجھتے جو تو کہتا ہے اور بیشک ہم تو تجھے اپنے دریمان بہت کمزور دیکھتے ہیں۔ “ فرعون موسیٰ (علیہ السلام) پر وہی دو طعن کر رہا تھا جو اس سے پہلے شعیب (علیہ السلام) پر ان کی قوم نے کئے تھے کہ بات سمجھ میں نہ آنا اور ان کی نگاہ میں ان کا حقیر اور ضعیف ہونا۔ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات بھی مشرکین کی سمجھ میں نہیں آتی تھی، نہ ہی وہ اپنے جیسے دلوت مندوں کی موجودگی میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبی ماننے کے لئے تیار تھے، فرمایا :(وعجبوا ان جآء ھم منذر منھم وقال الکفرون ھذا سحر کذاب اجعل الا لھۃ الھا واحداً ان ھذا لشیء عجاب وانطلق الملامنھم ان امشوا واصبروا علی الھتکم ان ھذا لشیء یراد ما سمعنا مھدا فی الملکۃ عذاب عندھم خرآئن رحمۃ ربک العزیز الوہاب) (ص : ٣ تا ٩)” اور انہوں نے اس پر تعجب کیا کہ ان کے معبود بنا ڈالا ؟ بلا شبہ یہ یقینا بہت عجیب بات ہے اور ان کے سرکردہ لوگ چل کھڑے ہوئے کہ چلو اور اپنے معبودوں پر ڈٹے رہو، یقینا یہ تو ایسی بات ہے جس کا ارادہ کیا جاتا ہے۔ ہم نے یہ بات آخری ملت میں نہیں سنی، یہ تو محض بنائی ہوئی بات ہے۔ کیا ہمارے درمیان میں سے اسی پر نصیحت نازل کی گئی ہے ؟ بلکہ وہ میری نصیحت سے شک میں ہیں، بلکہ انہوں نے ابھی تک میرا عذاب نہیں چکھا ۔ کیا انھی کے پاس تیرے رب کی رحمت کے خزانے ہیں، جو سب پر غالب ہے، بہت عطا کرنے والا ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَلَا يَكَادُ يُبِينُ (and can hardly express himself - 43:52). Although as a result of his own supplication, the stammering of Sayyidna Musa (علیہ السلام) had been removed by Allah Ta` ala, Fir&aun remembered his previous state only, and hence this aspersion. And it is possible also that by saying this, Fir&aun did not mean stammering in speech, but he meant that Sayyidna Musa (علیہ السلام) could not put forward adequate logical arguments to satisfy him, although this was nothing but a false accusation, because Sayyidna Musa (علیہ السلام) had completely overwhelmed Fir&aun through his arguments and proofs against which he had no answer. (Tafsir Kabir and Ruh-ul-Ma’ ani).

(آیت) وَّلَا يَكَادُ يُبِيْنُ (اور جو قوت بیانہ بھی نہیں رکھتا) اگرچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے ان کی زبان کی لکنت دور کردی تھی لیکن فرعون کو ان کا پہلا منظر ہی یاد تھا اس لئے اس نے حضرت موسیٰ پر یہ عیب لگایا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہاں ” قوت بیانیہ “ سے مراد زبان کی روانی کے بجائے دلائل کی قوت و وضاحت ہو اور فرعون کا مطلب یہ ہو کہ حضرت موسیٰ کے پاس ایسے کافی دلائل نہیں ہیں جو مجھے مطمئن کرسکیں۔ حالانکہ یہ فرعون کا نرا اتہام تھا، ورنہ حضرت موسیٰ نے دلائل وبراہین کے مقابلہ میں فرعون کو قطعی لاجواب کردیا تھا۔ (تفسیر کبیر و روح المعانی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ اَنَا خَيْرٌ مِّنْ ھٰذَا الَّذِيْ ہُوَمَہِيْنٌ۝ ٠ۥۙ وَّلَا يَكَادُ يُبِيْنُ۝ ٥٢ أَمْ»حرف إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه : أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص/ 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ } ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ هين الْهَوَانُ علی وجهين : أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن» الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ بهفيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام/ 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت/ 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة/ 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران/ 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج/ 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج/ 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم/ 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم/ 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور/ 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل . ( ھ و ن ) الھوان اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے المؤمن هَيِّنٌ ليّن» کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے دوم ھان بمعنی ذلت اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کر اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام/ 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت/ 17] تو۔ کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة/ 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران/ 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج/ 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج/ 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے ولاا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم/ 21] کہ یہ مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم/ 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور/ 15] اور تم اسے ایک ہلکی بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ قاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔ كَادَ ووُضِعَ «كَادَ» لمقاربة الفعل، يقال : كَادَ يفعل : إذا لم يكن قد فعل، وإذا کان معه حرف نفي يكون لما قد وقع، ويكون قریبا من أن لا يكون . نحو قوله تعالی: لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء/ 74] ، وَإِنْ كادُوا[ الإسراء/ 73] ، تَكادُ السَّماواتُ [ مریم/ 90] ، يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة/ 20] ، يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج/ 72] ، إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات/ 56] ولا فرق بين أن يكون حرف النّفي متقدما عليه أو متأخّرا عنه . نحو : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة/ 71] ، لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء/ 78] . وقلّما يستعمل في كاد أن إلا في ضرورة الشّعر «1» . قال قد كَادَ من طول البلی أن يمصحا«2» أي : يمضي ويدرس . ( ک و د ) کاد ( س ) فعل مقارب ہے یعنی کسی فعل کے قریب الوقوع ہون کو بیان کرنے کے لئے آتا ہے مثلا کا دیفعل قریب تھا وہ اس کا م کو گزرتا یعنی کرنے والا تھا مگر کیا نہیں قرآن میں لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء/ 74] تو تم کسی قدر ان کی طرف مائل ہونے ہی لگے تھے ۔ وَإِنْ كادُوا[ الإسراء/ 73] قریب تھا کہ یہ ( کافر) لگ تم اس سے بچلا دیں ۔ تَكادُ السَّماواتُ [ مریم/ 90] قریب ہے کہ ( اس فتنہ ) سے آسمان پھٹ پڑیں ۔ ؛ يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة/ 20] قریب ہے ک کہ بجلی کی چمک ان کی آنکھوں کی بصاحب کو اچک لے جائے ۔ يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج/ 72] قریب ہوتے ہیں کہ ان پر حملہ کردیں إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات/ 56] تو تو مجھے ہلا ہی کرچکا تھا ۔ اور اگر ا ن کے ساتھ حرف نفی آجائے تو اثباتی حالت کے برعکدس فعل وقوع کو بیان کرنے کیلئے آتا ہے جو قوع کے قریب نہ ہوا اور حروف نفی اس پر مقدم ہو یا متاخر دونوں صورتوں میں ایک ہی معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة/ 71] اور وہ ا یسا کرنے والے تھے نہیں ۔ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء/ 78] کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اور کاد کے بعد ا ان کا استعمال صرف ضرورت شعری کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 387 ) قد کاد من طول البلیٰ ان یمصحا قریب تھا کہ زیادہ بوسیدہ گی کے باعث وہ سٹ جائے البیان البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] . ( ب ی ن ) البین البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

کہ میں بہتر ہوں اس شخص سے جو کہ کمزور ہے اور بات کرنے کی طاقت بھی نہیں رکھتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٢ { اَمْ اَنَا خَیْرٌ مِّنْ ہٰذَا الَّذِیْ ہُوَ مَہِیْنٌ} ” کیا میں بہتر نہیں ہوں اس سے جو ایک بےعزت آدمی ہے ؟ “ میں مصر کی حکومت اور اس کے معاشی وسائل کا بلاشرکت ِغیرے مالک ہوں۔ کیا یہ موسیٰ میرا مقابلہ کرسکتا ہے جو محض ہماری محکوم قوم کا ایک فرد ہے ! { وَّلَا یَکَادُ یُبِیْنُ ۔ } ” اور صاف بات بھی نہیں کرسکتا ! “ یہ خطابت پر بھی قادر نہیں ہے اور اپنا مدعا واضح طور پر بیان نہیں کرسکتا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

47 "Wretched person" : the person who has neither wealth, power nor authority. This same objection had been raised by the disbelieving Quraish against the Holy Prophet Muhammad (upon whom be Allah's peace). 48 Some commentators have expressed the opinion that Pharaoh referred to the impediment of speech from which the Prophet Moses suffered since childhood. But this is not a correct opinion. As has been mentioned in Surah Ta Ha above, when the Prophet Moses was being appointed to Prophet hood, he had implored Allah Almighty to remove the defect from his tongue so that the people might understand his speech, and at that very time his request had also been granted along with his other requests (vv. 27-36). Moreover, orations of the Prophet Moses that have been cited at different places in the Qur'an, point to his perfect eloquence and fluency. Therefore, the basis of Pharaoh's objection was not any impediment of speech from which Moses might be suffering but what he meant was: "This person talks confusedly at least I have never been able to understand what he says."

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :47 یعنی جس کے پاس نہ مال و دولت ہے نہ اختیار و اقتدار ۔ وہی اعتراض جو کفار قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا تھا ۔ سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :48 بعض مفسرین نے یہ خیال کیا ہے کہ فرعون کا اعتراض اس لُکنت پر تھا جو حضرت موسیٰ کی زبان میں بچپن سے تھی ۔ لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے ۔ سورہ طٰہٰ میں گزر چکا ہے کہ حضرت موسیٰ کو جب نبوت کے منصب پر سرفراز کیا جا رہا تھا اس وقت انہوں نے حق تعالیٰ سے درخواست کی تھی کہ میری زبان کی گرہ کھول دیجیے تاکہ لوگ میری بات اچھی طرح سمجھ لیں ، اور اسی وقت ان کی دوسری درخواستوں کے ساتھ یہ درخواست بھی قبول کر لی گئی تھی ( آیات 27 تا 36 ) ۔ پھر قرآن مجید میں مختلف مقامات پر حضرت موسیٰ کی جو تقریریں نقل کی گئی ہیں وہ کمال درجے کی طاقت لسانی پر دلالت کرتی ہیں ۔ لہٰذا فرعون کے اعتراض کی بنا کوئی لکنت نہ تھی جو آنحضرت کی زبان میں ہو ، بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ شخص نہ معلوم کیا الجھی باتیں کرتا ہے ، مابدولت کی سمجھ میں تو کبھی اس کا مدعا آیا نہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:52) ام انا خیر من ھذا۔ (1) ام منقطعہ ہے اس کے اندر ہمزہ استفہامیہ کا معنی ہے اور استفہام تقریری ہے (یعنی مخاطب کو آمادہ کیا گیا ہے کہ وہ اقرار کرے کہ ایسا ہی ہے) یعنی میں بہتر ہوں۔ (2) ام متصلہ ہے اور تقدیر کلام ہے افلا تبصروں، ام تبصرون انا خیر من ھذا الذی ھو مہین (کشاف) کیا تم دیکھتے ہو یا نہیں کہ میں اس حقیر اور ذلیل سے بہتر ہوں۔ (3) ام زائدہ ہے (شوکانی ، لین، لسان اور تقدیر کلام ہے افلا تبصرون انا خیر من ھذا الذی ھو مھین۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں اس شخص سے جو حقیر اور ذلیل ہے بہتر ہوں۔ خیر افعل التفضیل کا صیغہ ہے۔ بہتر۔ ھذا الذی۔ یہ شخص یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام۔ مھین : ھون ھوان مھانۃ سے صفت مشبہ کا صیغہ واحد مذکر ۔ ذلیل و خوار۔ حقیر۔ بےوقعت۔ ہ و ن مادہ۔ اھان واھانۃ (افعال) مصدر سے بمعنی ذلیل کرنا۔ جیسے دوسری جگہ قرآن مجید می ہے فیقول ربی اھانن (89:16) تو کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کیا ۔ ھون سکون۔ نرمی۔ وقار اور حیاء کو بھی کہتے ہیں۔ چناچہ قرآن مجید میں ہے : وعباد الرحمن الذین یمشون علی الارض ھونا (25:63) اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر نرمی اور وقار سے (متواضع ہوکر) چلتے ہیں۔ لایکاد۔ مضارع منفی واحد مذکر غائب کود (باب سمع کرد یکور جو تحلیل صرفی کے بعد کاد یکاد ہوگیا) کاد یکاد افعال مقاربہ میں سے ہے۔ فعل مضارع پر داخل ہوتا ہے۔ اگر بصورت اثبات مذکور ہو تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں آنے والا فعل واقع نہیں ہوا۔ قریب الوقوع ضرور تھا۔ مثلا یکاد البرق یخطف ابصارھم (2:20) قریب ہے کہ بجلی کی چمک ان کی آنکھوں کی بصارت کو لیجائے۔ یعنی ابھی بجلی کی چمک نے ان کی بصارت کو اچک نہیں لے گی لیکن قریب تھا کہ وہ اچک لیجائے۔ اور اگر بصورت نفی مذکور ہو تو معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں آنے والا فعل واقع ہوگیا مگر عدم وقوع کے قریب تھا۔ جیسے قرآن مجید میں ہے فذبحوھا وما کادوا یفعلون (2:71) غرض (بڑی مشکل سے) انہوں نے اس بیل کو ذبح کیا اور وہ ایسا کرنے والے تھے نہیں۔ آیت ہذا ولا یکاد یبین۔ کا مطلب یہ ہے کہ وہ بات کھول کر بیان تو کرلیتا ہے لیکن معلوم یوں ہوتا ہے کہ بیان نہیں کرسکے گا۔ یبین مضارع واحد واحد مذکر غائب البیان (افعال) مصدر سے۔ وہ کھول کر بیان کرتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی حقیہ جس کے پاس نہ مال و دولت ہے اور نہ قوت و اقتدار۔ 5 علمائے تفسیر (رح) نے لکھا ہے کہ فرعون کی مراد وہ لکنت ( عقدہ) ہے جو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی زبان میں تھی اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے دعا کرنے سے وہ دور ہوگئی تھی۔ لہٰذا فرعون کا یہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) پر طعن اور جھوٹ ہے۔ ( ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یعنی موسیٰ (علیہ السلام) سے۔ 1۔ یعنی باعتبار مال و ترفع کے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(52) بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ میں اس شخص سے کہیں بہتر ہوں جس کی کوئی عزت نہیں اور نہ وہ صاف طور سے بول ہی سکتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بےقدر کہا اور ان کی زبان کی لکنت پر طعن کیا اور اس طرح اپنی برتری جتائی۔