Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 74

سورة الزخرف

اِنَّ الۡمُجۡرِمِیۡنَ فِیۡ عَذَابِ جَہَنَّمَ خٰلِدُوۡنَ ﴿۷۴﴾ۚ ۖ

Indeed, the criminals will be in the punishment of Hell, abiding eternally.

بیشک گنہگار لوگ عذاب دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Punishment of the Doomed The description of the state of the blessed is followed by a description of the state of the doomed. إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي عَذَابِ جَهَنَّمَ خَالِدُونَ

دوزخ اور دوزخیوں کی درگت: اوپر چونکہ نیک لوگوں کا حال بیان ہوا تھا اس لئے یہاں بدبختوں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ یہ گنہگار جہنم کے عذابوں میں ہمیشہ رہیں گے ایک ساعت بھی انہیں ان عذابوں میں تخفیف نہ ہو گی اور اس میں وہ ناامید محض ہو کر پڑے رہیں گے ہر بھلائی سے وہ مایوس ہو جائیں گے ہم ظلم کرنے والے نہیں بلکہ انہوں نے خود اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے اپنی جان پر آپ ہی ظلم کیا ہم نے رسول بھیجے کتابیں نازل فرمائیں حجت قائم کر دی لیکن یہ اپنی سرکشی سے عصیان سے طغیان سے باز نہ آئے اس پر یہ بدلہ پایا اس میں اللہ کا کوئی ظلم نہیں اور نہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرتا ہے یہ جہنمی مالک کو یعنی داروغہ جہنم کو پکاریں گے ، صحیح بخاری میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا یہ موت کی آرزو کریں گے تاکہ عذاب سے چھوٹ جائیں لیکن اللہ کا یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ ( وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ 36؀ۚ ) 35- فاطر:36 ) یعنی نہ تو انہیں موت آئے گی اور نہ عذاب کی تخفیف ہو گی اور فرمان باری ہے آیت ( وَيَتَجَنَّبُهَا الْاَشْقَى 11۝ۙ ) 87- الأعلى:11 ) یعنی وہ بد بخت اس نصیحت سے علیحدہ ہو جائے گا جو بڑی سخت آگ میں پڑے گا پھر وہاں نہ مرے گا اور نہ جئے گا ۔ پس جب یہ داروغہ جہنم سے نہایت لجاجت سے کہیں گے کہ آپ ہماری موت کی دعا اللہ سے کیجئے تو وہ جواب دے گا کہ تم اسی میں پڑے رہنے والے ہو مرو گے نہیں ۔ ابن عباس فرماتے ہیں مکث ایک ہزار سال ہے ۔ یعنی نہ مرو گے نہ چھٹکارا پاؤ گے نہ بھاگ سکو گے پھر ان کی سیاہ کاری کا بیان ہو رہا ہے کہ جب ہم نے ان کے سامنے حق کو پیش کر دیا واضح کر دیا تو انہوں نے اسے ماننا تو ایک طرف اس سے نفرت کی ۔ ان کی طبیعت ہی اس طرف مائل نہ ہوئی حق اور حق والوں سے نفرت کرتے رہے اس سے رکتے رہے ہاں ناحق کی طرف مائل رہے ناحق والوں سے ان کی خوب بنتی رہی ۔ پس تم اپنے نفس کو یہی ملامت کرو اور اپنے ہی اوپر افسوس کرو لیکن آج کا افسوس بھی بےفائدہ ہے پھر فرماتا ہے کہ انہوں نے بدترین مکر اور زبردست داؤ کھیلنا چاہا تو ہم نے بھی ان کے ساتھ یہی کیا حضرت مجاہد کی یہی تفسیر ہے اور اس کی شہادت اس آیت میں ہے ( وَمَكَرُوْا مَكْرًا وَّمَكَرْنَا مَكْرًا وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ 50؀ ) 27- النمل:50 ) یعنی انہوں نے مکر کیا اور ہم نے بھی اس طرح مکر کیا کہ انہیں پتہ بھی نہ چلا ۔ مشرکین حق کو ٹالنے کے لئے طرح طرح کی حیلہ سازی کرتے رہتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں دھوکے میں ہی رکھا اور ان کا وبال جب تک ان کے سروں پر نہ آگیا اور ان کی آنکھیں نہ کھلیں اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ کیا ان کا گمان ہے کہ ہم ان کی پوشیدہ باتیں اور خفیہ سرگوشیاں سن نہیں رہے ؟ ان کا گمان بالکل غلط ہے ہم تو انکی سرشت تک سے واقف ہیں بلکہ ہمارے مقرر کردہ فرشتے بھی ان کے پاس بلکہ ان کے ساتھ ہں جو نہ صرف دیکھ ہی رہے ہیں بلکہ لکھ بھی رہے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ان المجرمین فی عذاب جھنم خلدون : ایمان والوں کا حسن انجام بیان کرنے کے بعد کفار کا انجام بد بیان فرمایا۔ یہاں ” المجرمین “ سے مراد کفار ہیں، کیونکہ ان کا ذکر ” مسلمین “ کے مقابلے میں آیا ہے اور جہنم میں ہمیشہ رہنے والے کفار ہی ہیں۔ سورة مطففین میں بھی کفار کے لئے ” الذین اجرفوا “ کا لفظ استعمال ہوا ہے، فرمایا :(ان الذین اجرموا کانوا من الذین امنوا یضحکون) (المطففین : ٢٩) ” بیشک وہ لوگ جنہوں نے جرم کئے، ان لوگوں پر جو ایمان لائے، ہنسا کرتے تھے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور نافرمان لوگ جیسا کہ ابو جہل اور اس کے ساتھی وہ دوزخ کے عذاب میں ہمیشہ رہیں گے نہ وہاں موت آئے گی اور نہ وہاں سے نکالے جائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٤ { اِنَّ الْمُجْرِمِیْنَ فِیْ عَذَابِ جَہَنَّمَ خٰلِدُوْنَ } ” (اس کے برعکس) جو مجرم ہوں گے وہ جہنم کے عذاب میں ہمیشہ رہیں گے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٤۔ ٨٠۔ اوپر اہل جنت کا ذکر تھا ان آیتوں میں اہل دوزخ کا ذکر فرمایا یہ وہ منکر شریعت لوگ ہیں جو سب شفاعتوں کے بعد ہمیشہ کے لئے دوزخ میں رہیں گے کیونکہ صحیح بخاری ٤ ؎ و مسلم کے حوالہ سے ابو سعید (رض) خدری کی شفاعت کی حدیث جو ایک جگہ گزر چکی ہے اس میں ہے کہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا وہ ہمیشہ دوزخ میں نہ رہے گا سورة النسا میں گزر چکا ہے کہ دوزخ میں ہمیشہ رہنے والے لوگوں کی پہلی کھال جب جل جائے گی تو اسی وقت ان کی دوسری کھال پیدا ہوجائے گی ان آیتوں میں عذاب کے ہلکے نہ ہونے کا جو ذکر ہے سورة النساء کی آیتوں سے اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے۔ صحیح ١ ؎ مسلم کے حوالہ سے ابوذر (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم کو اپنی ذات پاک پر حرام ٹھہرا لیا ہے ان آیتوں میں یہ جو ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر ظلم سے عذاب نہیں کیا بلکہ ان کے اعمال کی سزا میں ان کو یہ عذاب کیا گیا ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے مستدرک ٢ ؎ حاکم بیہقی کی بعث و نشور تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں عبد اللہ (رض) بن عباس سے روایت ہے کہ جب یہ دوزخی لوگ دوزخ کے داروغہ سے یہ التجا کریں گے کہ مالک ان لوگوں کی موت کی اللہ تعالیٰ سے دعا کرے تو ہزار برس تک ان لوگوں کی التجا کا کچھ جواب نہ ملے گا پھر ہزار برس کے بعد یہ جواب ملے گا کہ دنیا میں تم لوگوں نے اللہ کے حکموں کو جھٹلایا اس لئے اب یہی تمہاری سزا ہے کہ تم ہمیشہ اسی عذاب میں گرفتار رہو گے۔ حاکم نے حضرت عبد اللہ (رض) بن عباس کی اس روایت کو صحیح کہا ہے مشرکین کا یہ اعتقاد تھا کہ بھید کے طور پر اسلام کی مخالفت میں جو باتیں کی جاتی ہیں اللہ تعالیٰ ان باتوں کی نہیں سنتا اس کے جواب میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی بھید کی باتیں اور مشہورے سب سنتا ہے اسی واسطے یہ لوگ بھید کے مشورہ کے بعد جو بات ٹھہراتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنی تدبیر سے اسی بات کو مٹا دیتا ہے۔ مثلاً بھید کے مشورہ کے بعد ان لوگوں نے مکہ کے مسافروں کے ذریعہ سے اسلام کو ترقی دی۔ صحیح بخاری ٣ ؎ و مسلم وغیرہ میں عباد (رض) بن الصامت سے روایت ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ اہل مدینہ میں سے قبیلہ خزرج کے کچھ لوگ حج کے ارادہ سے مکہ کو آئے اور منیٰ پہاڑ کی گھاٹی میں انہوں نے اسلام کی بیعت کی اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں میں سے بارہ شخص چودہری اسلام کے پھیلانے کے لئے مقرر کئے ان چودہریوں کو نقیب کہتے ہیں۔ اس بیعت کے کرنے والے اہل مدینہ کا نام انصار قرار پایا جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اسلام کے مددگار ہیں عبادہ (رض) بن الصامت بھی ان بارہ چودہریوں میں سے ہیں۔ ان چودہریوں نے مدینہ اور اطراف مدینہ میں بڑی کوشش سے اسلام پھیلایا ہجرت سے پہلے دو ہزار کے قریب مسلمان نظر آنے لگے حاصل کلام یہ ہے کہ مشرکین مکہ نے جن مسافرین مکہ کو اسلام سے روکنا چاہا تھا اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے منصوبہ کو بگاڑ کر انہیں مسافرین مکہ کے ذریعہ سے جس طرح اسلام کو ترقی دی اس کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ (١ ؎ صحیح ملمر باب تحریم الظلم ص ٣١٩ ج ٢۔ ) (٢ ؎ تفسیر فتح القدیر ص ٥٥٢ ج ٤۔ ) (٣ ؎ صحیح بخاری باب وفود الانصار الی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وبیعۃ العقبۃ ص ٥٥٠ ج ١۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:74) ان المجرمین ۔۔ الآیۃ۔ متقین کو دی جانیوالی نعمتوں کا ذکر ختم ہوا۔ اب مجرمین اور ان کے اعمال سوء کے نتیجہ میں جو عذاب ان کو ملے گا اس کا احوال شروع ہوتا ہے المجرمین بمعنی الکافرین۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جنتیوں کے انعامات کے مقابلے میں جہنمیوں کی سزائیں۔ جنتی جنت میں ہر قسم کی نعمتوں اور خوشیوں سے سرفراز ہوں گے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان کے مقابلے میں جن پر فرد جرم ثابت ہوجائے گی وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان کی آہ زاریوں کے باوجود ان پر عذاب ہلکا نہیں کیا جائے گا۔ وہ جہنّم سے نجات پانے میں مایوس ہوجائیں گے اور اسی مایوسی میں ہمیشہ مبتلا رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ جہنم کا عذاب ان کی اپنی زیادتیوں کا نتیجہ ہوگا۔ جہنمی جہنم کی اذیّت ناکیوں سے تنگ آکر بالآخر جہنّم کے سردار فرشتے جس کا نام مالک ہے اس سے درخواست کریں گے کہ اے مالک ! ہماری کوئی فریاد بھی قبول نہیں ہوئی اب آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنے رب کے حضور ہماری طرف سے درخواست پیش کریں کہ اللہ تعالیٰ ہماری موت کا فیصلہ کردے۔ جہنمیوں کے جواب میں جہنمکا فرشتہ کہے گا کہ ہم تمہارے پاس حق لے کر آئے مگر تم نے ہمیشہ حق سے کراہت کا اظہار کیا۔ ان الفاظ کے مفسرین نے دو مفہوم اخذ کیے ہیں۔ پہلا مفہوم یہ ہے۔” لَقَدْ جِءْنٰکُمْ بالْحَقِّ “ ہم تمہارے پاس حق لے کر آئے۔ اس سے مراد ملائکہ ہیں جو ملائکہ میں شامل ہونے کی وجہ سے وحی لانے والے فرشتے کی ترجمانی کریں گے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جہنمیوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ جواب دیا جائے گا کہ تم دنیا میں حق کی مخالفت کرتے رہے۔ جب کہ ہم نے تم تک حق پہنچا دیا تھا، لہٰذا اب تمہیں ہمیشہ کے لیے سزا بھگتنا ہوگی۔ دنیا میں انسان مایوس ہوجائے تو وہ خودکشی کے ذریعے اپنی جان ختم کرلیتا ہے۔ مگر قیامت کے دن جہنّمی خود کشی بھی نہیں کرسکیں گے۔ کیونکہ موت کو موت دے دی جائے گی۔ ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن موت مینڈھے کی شکل میں لائی جائے گی۔ ابو کریب نے کچھ الفاظ زیادہ بیان کیے ہیں کہ اسے جنت اور جہنم کے درمیان روک لیا جائے گا۔ پھر جنتیوں سے کہا جائے گا کیا تم اسے پہچانتے ہو تو وہ اسے پہچاننے کی کوشش کریں گے اور اس کی طرف دیکھیں گے اور کہیں گے ہاں یہ موت ہے۔ جہنمیوں سے کہا جائے گا کیا تم اسے پہچانتے ہو وہ بھی پہچاننے کی کوشش کریں گے۔ اچھی طرح دیکھ کر کہیں گے ہاں یہ موت ہے پھر حکم ہوگا اور اسے ذبح کردیا جائے گا اسکے بعد اعلان ہوگا اے جنتیو ! جنت میں ہمیشہ رہو تمہیں موت نہیں آئے گی۔ اے جہنمیو ! جہنم میں ہمیشہ رہو تمہیں بھی موت نہیں آئے گی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت کی اور انہیں حسرت والے دن سے ڈرایئے جب فیصلہ کیا جائے گا۔ وہ غفلت میں ہیں اور ایمان نہیں لائیں گے۔ “ [ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ ] مسائل ١۔ مجرم ہمیشہ جہنّم کے عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ ٢۔ ان پر کبھی بھی عذاب ہلکا نہیں کیا جائے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی یہ لوگ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرنے والے تھے۔ ٤۔ جہنّی جہنّم سے نجات کے بارے میں مایوس ہوجائیں گے۔ ٥۔ جہنّمی اس لیے جہنّم میں جائیں گے کیونکہ وہ حق کو ٹھکرایا کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن جہنمیوں کی آہ و بکا اور فریادیں : ١۔ ہمارے رب ہمیں تھوڑی سی مہلت دے ہم تیری دعوت قبول اور تیرے رسول کی بات کو تسلیم کریں گے۔ (ابراہیم : ٤٤) ٢۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ : ١٢) ٣۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر : ٣٧) ٤۔ اے ہمارے رب ! ہمیں یہاں سے نکال اگر دوبارہ ایسا کریں تو بڑے ظالم ہوں گے۔ (المومنون : ١٠٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مجرمین ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے، ان کا عذاب ہلکا نہ کیا جائے گا، دوزخ کے داروغہ سے ان کا سوال و جواب اہل ایمان کی نعمتیں بیان فرمانے کے بعد ان آیات میں کافروں کے عذاب کا تذکرہ فرمایا ہے ارشاد فرمایا کہ مجرمین یعنی کافر لوگ دوزخ کے عذاب میں پڑے ہوں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے یہ عذاب بہت سخت ہوگا جیسا کہ دوسری آیت میں ذکر فرمایا ذرا دیر کو بھی ہلکا نہیں کیا جائے گا اور وہ اس میں ناامید ہوکر پڑے رہیں گے یہ مبلسون کا ایک ترجمہ ہے اور بعض حضرات نے اس کا ترجمہ فرمایا ہے : حَزِیْنُوْنَ مِنْ شِدَّةِ الْبَاْسِ یعنی سخت عذاب کی وجہ سے رنجیدہ ہوں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

43:۔ ” ان المجرمین “ تا ” انکم ماکثون “ یہ تخویف اخروی ہے۔ مشرکین جہنم کے عذاب میں ہمیشہ رہیں گے، جہنم کا عذاب نہ کبھی ختم ہوگا اور نہ اس میں کوئی تخفیف اور کمی ہی ہوگی اور وہ عذاب میں نجات سے مایوس ہو کر خاموش ہوں گے جس طرح ایک آدمی مایوس اور نامید ہو کر خاموش ہوجاتا ہے۔ والمبلس الیائس الساکت سکوت یائس من فرج (کبیر ج 7 ص 455) ۔ اس دائمی عذاب میں مبتلا کر کے ہم نے ان پر کوئی زیادتی اور ان سے کوئی بےانصافی نہیں، بلکہ دنیا میں ہمارے احکام کی خلاف ورزی کر کے انہوں نے خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کیا اور یہ عذاب ان کے اپنے ہی گناہوں کی سزا ہے۔ جب وہ ہر طرف سے ناامید ہوجائیں گے تو خازن جہنم سے التجاء کریں گے کہ اللہ کی بارگاہ میں درخواست کرے کہ وہ موت سے ہمارا خاتمہ کردے تاکہ ہم اس عذاب اور مصیبت سے بچ جائیں، تو وہ جواب دے گا کہ موت تمہیں نہیں آئیگی کیونکہ موت تو عذاب سے نجات کی ایک صورت ہے اور تمہارے لیے نجات نہیں ہے۔ انما لا یفعلہ لانہ نجاۃ ولا نجاۃ لکم (مہائمی ج 2 ص 259) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(74) بلا شبہ جو لوگ مجرم اور گناہ گار ہیں وہ ہمیشہ عذاب میں رہنے والے ہیں۔