Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 8

سورة الزخرف

فَاَہۡلَکۡنَاۤ اَشَدَّ مِنۡہُمۡ بَطۡشًا وَّ مَضٰی مَثَلُ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿۸﴾

And We destroyed greater than them in [striking] power, and the example of the former peoples has preceded.

پس ہم نے ان سے زیادہ زورآوروں کو تباہ کر ڈالا اور اگلوں کی مثال گزر چکی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَأَهْلَكْنَا أَشَدَّ مِنْهُم بَطْشًا ... Then We destroyed men stronger than these, means, `We destroyed those who disbelieved in the Messengers, and they were stronger in power than these who disbelieve in you, O Muhammad.' This is like the Ayah: أَفَلَمْ يَسِيرُواْ فِى الاٌّرْضِ فَيَنظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَـقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ كَانُواْ أَكْـثَرَ مِنْهُمْ وَأَشَدَّ قُوَّةً Have they not traveled through the earth and seen what was the end of those before them? They were more in number than them and mightier in strength. (40:82) And there are many similar Ayat. ... وَمَضَى مَثَلُ الاَْوَّلِينَ and the example of the ancients has passed away. Mujahid said, "The way of their life." Qatadah said, "Their punishment." Others said, "Their lesson," i.e., `We made them a lesson for those disbelievers who came after them, that they would suffer the same end as them,' as in the Ayah at the end of this Surah: فَجَعَلْنَـهُمْ سَلَفاً وَمَثَلً لِّلٌّخِرِينَ And We made them a precedent, and an example to later generations. (43:56) سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِى قَدْ خَلَتْ فِى عِبَادِهِ this has been the way of Allah in dealing with His servants. (40:85) وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلً and you will not find any change in the way of Allah. (33:62)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 یعنی اہل مکہ سے زیادہ زور آور تھے جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (ۭكَانُوْٓا اَكْثَرَ مِنْهُمْ وَاَشَدَّ قُوَّةً ) 40 ۔ غافر :82) ' وہ ان سے تعداد اور قوت میں کہیں زیادہ تھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧] پہلی قومیں قدو قامت، ڈیل ڈول، طاقت و قوت غرض ہر لحاظ سے تم سے آگے تھیں۔ جب انہوں نے ہماری آیات اور ہمارے رسولوں کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں تباہ کرکے رکھ دیا تھا اور اب تم بھی وہی کام کر رہے ہو لہذا سمجھ لو کہ اب تمہاری تباہی کی باری آچکی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) فاھلکنا اشد منھم بطشاً : یعنی ان کفار کی کیا حیثیت ہے، جو لوگ قوت اور گرفتمیں ان سے کہیں زیادہ تھے ہم نے انھیں ہلاک کردیا۔ اگر یہ اپنی روش سے باز نہ آئے تو انھیں بھی اپنا انجام سوچ لینا چاہیے۔” ان کنتم قوماً مسرفین “ میں جن قریش مکہ کو مخاطب کیا تھا اب ” اشدمنھم بطشاً “ میں ان کا ذکر غائب کے صیغے کے ساتھ ہے۔ یہ التفات ہے، مقصود ناراضی کا اظہار ہے۔ 2 ۔ ومضی مثل الاولین : یعنی قرآن میں ایسے پہلے لوگوں کی مثال گزر چکی ہے۔ مثل کا معنی صفت اور حال بھی ہوتا ہے، یعنی پہلے لوگوں کا حال گزر چکا ہے، جیسے قوم نوح اور عاد وثمود وغیرہ۔ مضی یمضی کا معنی ہے جاری ہونا، یعنی پہلے لوگوں کی مثال چل پڑی اور ان کے قصے مشہور ہوگئے، جنہیں لوگ نسل در نسل بیان کرتے چلے آئے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَہْلَكْنَآ اَشَدَّ مِنْہُمْ بَطْشًا وَّمَضٰى مَثَلُ الْاَوَّلِيْنَ۝ ٨ هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔ شد الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء : قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] ، ( ش دد ) الشد یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ بطش البَطْشُ : تناول الشیء بصولة، قال تعالی: وَإِذا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ [ الشعراء/ 130] ، يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان/ 16] ، وَلَقَدْ أَنْذَرَهُمْ بَطْشَتَنا [ القمر/ 36] ، إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ [ البروج/ 12] . يقال : يد بَاطِشَة . ( ب ط ش ) البطش کے معنی کوئی چیز زبردستی لے لینا کے ہیں قرآن میں : { وَإِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ } ( سورة الشعراء 130) اور جب کسی کو پکڑتے تو ظالمانہ پکڑتے ہو ۔ يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان/ 16] جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے ۔ وَلَقَدْ أَنْذَرَهُمْ بَطْشَتَنا [ القمر/ 36] اور لوط نے ان کو ہماری گرفت سے ڈرایا ۔ إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ [ البروج/ 12] بیشک تمہاری پروردگار کی گرفت بڑی سخت ہے ید کا طشۃ سخت گیر ہاتھ ۔ مضی المُضِيُّ والمَضَاءُ : النّفاذ، ويقال ذلک في الأعيان والأحداث . قال تعالی: وَمَضى مَثَلُ الْأَوَّلِينَ [ الزخرف/ 8] ، فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ [ الأنفال/ 38] . ( م ض ی ) المضی والمضاء کسی چیز کا گذر جانا اور چلے جانا یہ اعیان واحد اث دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَمَضى مَثَلُ الْأَوَّلِينَ [ الزخرف/ 8] اور اگلے لوگوں کی مثال گذر گئی ۔ فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ [ الأنفال/ 38] رو اگلے لوگوں کی سنت گذر چکی ہے ( وہی ان کے حق میں برقی جائے گی ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

نتیجہ یہ ہوا کہ اہل مکہ میں جو زور اور طاقت میں بڑھے ہوئے تھے ہم نے ان کو پکڑ لیا اور پہلے لوگوں کی یہ حالت ہوچکی ہے کہ انبیاء کرام کی تکذیب کے وقت ان پر عذاب نازل ہوگیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨ { فَاَہْلَکْنَآ اَشَدَّ مِنْہُمْ بَطْشًا } ” پھر ہم نے انہیں ہلاک کردیا جو ان سے بہت زیادہ بڑھ کر تھے قوت میں “ ہم نے ماضی میں بہت سی ایسی قوموں کو بھی نیست و نابود کردیا جو قریش ِمکہ ّسے کہیں بڑھ کر زور آور تھیں اور ان کی پکڑ بہت مضبوط تھی۔ تو یہ کس کھیت کی مولی ہیں ؟ { وَّمَضٰی مَثَلُ الْاَوَّلِیْنَ } ” اور پہلے لوگوں کی مثالیں گزر چکی ہیں۔ “ اقوامِ ماضی کے تفصیلی واقعات اور ان کے انجام کے بارے میں حقائق ان لوگوں کو بار بار بتائے جا چکے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

6 That is, the result of the senselessness of some particular people could not be that the entire mankind should be deprived of the guidance of the Prophethood and the Book, but its result always has been that the worshippers of falsehood who, being drunk with the pride of power, did not desist from mocking the Prophets, were ultimately destroyed. When Allah's wrath descended even the people, who possessed thousands of times greater power than that possessed by the puny chiefs of the Quraish, were crushed to annihilation like mosquitoes and fleas.

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :6 یعنی خاص لوگوں کی بیہودگی کا نتیجہ یہ کبھی نہیں ہوا کہ پوری نوع انسانی کو نبوت اور کتاب کی رہنمائی سے محروم کر دیا جاتا ، بلکہ اس کا نتیجہ ہمیشہ یہی ہوا ہے کہ جو لوگ باطل پرستی کے نشے اور اپنی قوت کے گھمنڈ میں بد مست ہو کر انبیاء کا مذاق اڑانے سے باز نہ آئے انہیں آخر کار تباہ کر دیا گیا ۔ پھر جب اللہ کا قہر ٹوٹ پڑا تو جس قوت کے بل پر یہ قریش کے چھوٹے چھوٹے سردار اکڑ رہے ہیں اس سے ہزاروں گنی زیادہ طاقت رکھنے والے بھی مچھر اور پسو کی طرح مسل کر رکھ دیئے گئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:8) فاہلکنا اشد منھم بطشا ف سببیہ ہے اہلکنا ماضی جمع متکلم۔ اہلاک (افعال) مصدر اشد افعل التفضیل کا صیغہ ہے۔ قوی تر۔ نہایت قوی منھم میں ضمیر ہم جمع مذکر غائب المسرفین المخاطبین کی طرف راجع ہے جس سے مراد مکہ کے مسرفین ہیں بطشا بوجہ تمیز منصوب ہے۔ بطش بمعنی قوت، سختی۔ پکڑ، گرفت، مصدر بدیں سبب ہم نے ان لوگوں کو جو ان (موجودہ مخاطبین) سے بھی زیادہ زور آور تھے غارت کر ڈالا۔ فاہلکنا قوما اشد بطشا من کفار مکۃ الذین کذبوا نبینا بسبب تکذیبھم رسلہم فلیحذر الذین کذبوک ان نھلکہم بسبب ذلک کما اہلکنا الذین کانوا اشد منھم بطشا ای اکثر منھم عددا وعددا وجلدا (اضواء البیان) پس ہم نے ان لوگوں کو جو ہمارے نبی کی تکذیب کر رہے ہیں ان سے بھی زیادہ طاقتور اور شہ زور تھے ہلاک کر ڈالا۔ کیونکہ انہوں نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی تھی سو (اے نبی علیہ السلام) ان کفارکو جو آپ کی تکذیب کر رہے ہیں ان کو بچنا چاہیے کہ ہم اس تکذیب کے سبب ان کو بھی ہلاک نہ کریں۔ جیسا کہ ہم نے ان سے زیادہ طاقت ور لوگوں کو (ایسے ہی قصور پر) ہلاک کردیا تھا۔ جو تعدادی لحاظ دے۔ سامان حرب کے لحاظ سے۔ اور ہمت و استقلال کے لحاظ سے ان سے کہیں بڑے تھے۔ ومضی مثل الاولین۔ واؤ عاطفہ ہے مضی ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب مضی (باب ضرب) مصدر وہ گذر گیا۔ مضو (باب نصر) مصدر سے بھی اسی معنی میں آتا ہے مثل اسم مفرد امثال جمع حالت اور اگلے لوگوں کی (یہ) حالت (انسے پہلے) گزر چکی ہے۔ فائدہ : مثل قرآن مجید میں مندرجہ ذیل معانی میں آیا ہے۔ (1) جس جگہ مثل مرفوع آیا ہے اور اس کے بعد کمثل بھی آیا ہے۔ یعنی ممثل اور ممثل بہ دونوں مذکور ہیں تو مثل سے مراد صفت اور حالت ہے۔ (2) اگر لفظ مثل مرفوع مذکور ہے اور اس کے بعد کمثل نہیں ہے تو اس کا معنی بھی صفت ہے۔ ماسوائے آیت ام حسبتم ان تدخلوا الجنۃ ولما یاتکم مثل الذین خلوا من قبلکم (2:214) کے جہاں اس سے شبہ یعنی تشبیہی قصہ مراد ہے۔ ترجمہ :۔ کیا تم یہ گمان رکھتے ہو کہ جنت میں داخل ہوجاؤ گے درآں حالیکہ ابھی تم پر ان لوگوں کے حالاے جیسے حالات پیش نہیں آئے۔ (3) اگر مثل منصوب ہے خواہ اس کے بعد کمثل ہے یا نہیں بہرحال مثل سے مراد ہے صفت اور حالت۔ (4) اگر مثل مجرور بمعنی تنوین کے ہے وہ نادر معنی مراد ہے جو ندرت میں کہا وت کی طرح ہوگیا ہے صرف آیت ولایاتونک بمثل الا جئنک بالحق واحسن تفسیرا (25:33) اور یہ لوگ جیسا بھی عجیب سوال آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں ہم اس کا جواب ٹھیک اور وضاحت میں بڑھا ہوا آپ کو بتاتے ہیں۔ میں مثل کا معنی ہے اعتراض اور سوال عجیب۔ (5) اگر مثل مجرور بغیر تنوین کے ہو تو تشبیہی قصہ مراد ہے۔ (6) اور اگر المثل معرف باللام ہے اور ایسا حرف دو جگہ آیا ہے تو اس سے مراد ہے عظیم الشان صفت۔ (ماخوذ از لغات القرآن)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” پہلے لوگوں کی مثال چلی آئی “۔ یعنی ان کا قصہ زبان زد خلائق ہوگیا اور لوگ عبرت کے لئے اسے بیان کرتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ پس نہ آپ گم کریں کہ ان کا بھی ایسا ہی حال ہونا ہے، چناچہ بدر وغیرہ میں ہوا اور نہ یہ بےفکر ہوں کہ نمونہ موجود ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(8) پھر آخر کار ہم نے ان اگلے لوگوں کو جو ان کفار قریش سے زیادہ زور آور اور قوی تر تھے ہلاک کرڈالا اور تباہ و برباد کردیا اور پہلوں کی یہ حالت گزر چکی ہے۔ یعنی ہم نے ان کو باوجود زور آور ہونے کے تباہ کردیا اور کفار عرب تو اتنے زور آور ہیں بھی نہیں پھر ان کی ہلاکت اور ان کو تباہ کرنا کیا دشوار ہے اور پہلے لوگوں کی یہ حقیقت ہوتی چلی آئی ہے کہ حد سے گزر جانے پر ان کو ہلاک کیا جاتا رہا ہے۔ ان آیتوں میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے اور کفار کے لئے ترہیب ہے کہ وہ قرآن کی مخالفت سے باز آجائیں آگے توحید کے دلائل مذکور ہیں۔