Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 85

سورة الزخرف

وَ تَبٰرَکَ الَّذِیۡ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا ۚ وَ عِنۡدَہٗ عِلۡمُ السَّاعَۃِ ۚ وَ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ ﴿۸۵﴾

And blessed is He to whom belongs the dominion of the heavens and the earth and whatever is between them and with whom is knowledge of the Hour and to whom you will be returned.

اور وہ بہت برکتوں والا ہے جس کے پاس آسمان اور زمین اور ان کے درمیان کی بادشاہت ہے اور قیامت کا علم بھی اسی کے پاس ہے اور اسی کی جانب تم سب لوٹائے جاؤ گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَتَبَارَكَ الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ... And Blessed be He to Whom belongs the kingdom of the heavens and the earth, and all that is between them, means, He is their Creator and Sovereign, the One Who is controlling them with none to resist or oppose His rule. Blessed and exalted be He far above the notion of His having a child. He is eternally free of all faults and shortcomings, because He is the Lord, the Exalted, the Almighty, the Sovereign of all things, Who is in control of all affairs. ... وَعِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ ... and with Whom is the knowledge of the Hour, means, no one knows when it will happen except Him. ... وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ and to Whom you (all) will be returned. means, and each person will be requited for his deeds; if they are good, then he will be rewarded, and if they are bad, then he will be punished. The Idols have no Power of Intercession Allah exalted says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

85۔ 1 جس کو اپنے وقت پر ظاہر فرمائے گا۔ 85۔ 2 جہاں وہ ہر ایک کو اس کے عملوں کے مطابق جزا و سزا دے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وتبرک الذی لہ ملک السموت والارض …: یہ بھی اللہ تعالیٰ کے اکیلا معبود ہونے کی دلیل ہے کہ بیشمار خیر و خربی کا مالک ہے وہ کہ آسمانوں میں اور زمین میں ہر جگہ اسی کی بادشاہی ہے۔ قیامت کا علم بھی اسی کے پاس ہے اور تم اسی کی طرف لوٹ جاؤ گے، نہ کہ کسی اور کی طرف۔ لہٰذا وہی ہے جو تمہیں تمہارے نیک یا بد اعمال کا بدلا دے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَتَبٰرَكَ الَّذِيْ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَہُمَا۝ ٠ ۚ وَعِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ۝ ٠ ۚ وَاِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَ۝ ٨٥ برك أصل البَرْك صدر البعیر وإن استعمل في غيره، ويقال له : بركة، وبَرَكَ البعیر : ألقی بركه، واعتبر منه معنی اللزوم، فقیل : ابْتَرَكُوا في الحرب، أي : ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمکان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة : وقفت وقوفا کالبروک، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ : ثبوت الخیر الإلهي في الشیء . قال تعالی: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] ( ب رک ) البرک اصل میں البرک کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں ( جس پر وہ جم کر بیٹھ جاتا ہے ) گو یہ دوسروں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے سینہ کو برکۃ کہا جاتا ہے ۔ برک البعیر کے معنی ہیں اونٹ اپنے گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا پھر اس سے معنی لزوم کا اعتبار کر کے ابترکوا ا فی الحرب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور جم کر لڑنے کے ہیں براکاء الحرب الحرب وبروکاءھا سخت کا ر زار جہاں بہ اور ہی ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔ ابترکت الدبۃ چو پائے کا جم کر کھڑا ہوجانا برکۃ حوض پانی جمع کرنے کی جگہ ۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الہٰی ثابت ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات ( کے دروازے ) کھول دیتے ۔ یہاں برکات سے مراد بارش کا پانی ہے اور چونکہ بارش کے پانی میں اس طرح خیر ثابت ہوتی ہے جس طرح کہ حوض میں پانی ٹہر جاتا ہے اس لئے بارش کو برکات سے تعبیر کیا ہے ۔ ملك) بادشاه) المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور وَالمِلْكُ ضربان : مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل/ 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة/ 20] ( م ل ک ) الملک ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے . اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔ دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل/ 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة/ 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ ساعة السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] ( س و ع ) الساعۃ ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور وہ ذات بڑی عالی شان اور اولاد اور شرک سے پاک ہے، جس کے لیے آسمانوں کی اور زمین کی اور جو مخلوق ان کے درمیان ہے اس کی سلطنت ثابت ہے اور اسی کو قیامت کی بھی خبر ہے اور تم سب آخرت میں اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٥ { وَتَبٰرَکَ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا } ” اور بہت بابرکت ہے وہ ذات جس کے اختیار میں ہے بادشاہی آسمانوں کی اور زمین کی اور ان دونوں کے درمیان کی ساری چیزوں کی۔ “ فرعون کا خدائی کا دعویٰ تو صرف مصر کی حکومت تک محدود تھا ‘ مگر اللہ کی حکومت واقعتا آسمانوں اور دنیا ومافیہا پر محیط ہے۔ { وَعِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِج وَاِلَـیْہِ تُرْجَعُوْنَ } ” اور اسی کے پاس ہے قیامت کا علم ‘ اور اسی کی طرف تم لوٹا دیے جائو گے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

66 That is, "He is far above it that another should be His associate in Godhead and may have any share whatever in ruling this great universe. Whatever is there in the earth and the heavens, whether the Prophets, the saints, the angels, jinn, spirits, stars or planets, they are His servants and slaves and subjects.. It is impossible for them to be characterized with a Divine attribute or be possessed with a Divine power." 67 That is, "You may have taken anyone as your helper and patron in the world, but after death you will have to face only One God and render an account of your deeds before Him alone."

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :66 یعنی اس کی ہستی اس سے بدرجہا بلند و برتر ہے کہ کوئی خدائی میں اس کا شریک ہو اور اس عظیم کائنات کی فرماں روائی میں کچھ بھی دخل رکھتا ہو ۔ زمین و آسمان میں جو بھی ہیں ، خواہ وہ انبیاء ہوں یا اولیا ، فرشتے ہوں یا جن یا ارواح ، ستارے ہوں یا سیارے ، سب اس کے بندے اور غلام اور تابع فرمان ہیں ۔ ان کا کسی خدائی صفت سے متصف یا خدائی اختیار کا حامل ہونا قطعی ناممکن ہے ۔ سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :67 یعنی دنیا میں تم خواہ کسی کو اپنا حامی و سرپرست بناتے پھرو ، مگر مرنے کے بعد تمہارا سابقہ اسی ایک خدا سے پڑنا ہے اور اسی کی عدالت میں تم کو اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٥۔ ٨٩۔ مشرکین مکہ کی یہ مورتیں ہیں وہ فرشتے اللہ کے رو برو اپنی پوجا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جو کوئی ان مورتوں کی پوجا کرے گا تو جن فرشتوں کی یہ مورتیں ہیں وہ فرشتے اللہ کے رو برو اپنی پوجا کرنے والوں کی سفارش کریں گے۔ یہ مشرک لوگ قیامت کے توقائل نہیں تھے اس لئے اس سفارش کا مطلب ان لوگوں کے نزدیک یہ تھا کہ دنیا کی بہبودی کے باب میں فرشتے ان لوگوں کی سفارش کریں گے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس طرح زمین میں اللہ کی مخلوقات ہے اسی طرح آسمان پر فرشتے ہیں کیونکہ آسمان و زمین دونوں میں اللہ کا ہی راج ہے اور اس کے حکم کے آگے سب عاجز اور بےاختیار ہیں اس واسطے ایسی بےاختیار مخلوقات میں سے نہ کسی کو اس کی عبادت میں شریک ٹھہرایا جاسکتا ہے نہ اس کی بغیر مرضی کوئی کسی کی سفارش کرسکتا ہے سورة الانبیا میں گزر چکا ہے کہ فرشتے رات دن اللہ کی عبادت سے کبھی نہیں تھکتے۔ معتبر سند کی ابوذر کی روایت ترمذی ١ ؎ اور ابن ماجہ کے حوالہ سے ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول۔ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سارے آسمانوں میں کہیں چار انگل کی جگہ بھی ایسی خالی نہیں ہے جہاں کوئی فرشتہ عبادت الٰہی میں مصروف نہ ہو سورة انبیاء کی آیتوں اور ابوذر کی اس حدیث سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ سارے آسمانوں کے فرشتوں کا ہر وقت کا مشغلہ جب خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے تو وہ ان مشرکوں کے شرک کو کب پسند کرسکتے ہیں چناچہ سورة السبا میں گزرا کہ جن فرشتوں کی مورتوں کو یہ مشرک پوجتے ہیں قیامت کے دن وہ فرشتے ان مشرکوں کی صورت سے بیزار ہوجائیں گے اسی واسطے فرمایا کہ بارگاہ الٰہی میں سفارش تو وہ کرسکتا ہے کہ جس کے دل میں اللہ کی وحدانیت کا یقین اور زبان پر اس وحدانیت کا اقرار ہو ان مشرکوں کی صورت سے بیزار ہیں پھر ان مشرکوں کی سفارش کون کرے گا اس کو یہ مشرک کسی سند سے بیان کریں اور یہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں قیامت کے آنے کا جو وقت ٹھہر چکا ہے اس وقت قیامت ضرور آنے والی ہے اور اس دن اس شرک کی جواب دہی کے لئے اللہ تعالیٰ کے رو برو ضرور حاضر ہونا پڑے گا اور سوا پچھاتے کے اس دن ان لوگوں کو اور کچھ کام نہ ہوگا لیکن وہ بےوقت کا پچھتاوا ان لوگوں کے کچھ کام نہ آئے گا پھر اپنے رسول کو مخاطب ٹھہرا کر فرمایا اے رسول اللہ کے اگر تم ان لوگوں سے پوچھو گے کہ تم لوگوں کو کس نے پیدا کیا تو سوا اس کے ان کے پاس اور کچھ جواب نہیں کہ یہ لوگ اللہ کو اپنا خالق بتائیں گے اس کے بعد اپنے خالق کو چھوڑ کر غیروں کو معبود ٹھہرانے کا ان کے پاس کچھ جواب نہیں ہے۔ وقیلہ یا رب ان ھو لاء قوم لا یومنون مفسروں نے اس کے دو مطلب بیان کئے ایک تو یہ کہ وقیلہ میں داؤقسم کا لیا جائے اس صورت میں آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شکایت کے طور پر یہ جو کہا کہ اے رب یہ لوگ باوجود ہر وقت کی نصیحت کے کسی طرح راہ راست پر نہیں آتے اللہ کے رسول کا یہ قول ایسا سچا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی قول کی قسم کھا کر اس کی صداقت کو جتلاتا ہے۔ آیت کا یہ مطلب تفسیر ١ ؎ مدارک کے موافق ہے اور شاہ صاحب نے اپنے مرادی ترجمہ میں اسی تفیر کو لیا ہے۔ مشہور سات قرأتوں میں عاصم بن بہدلہ کی قرأت بھی یہ ہے۔ قرأت کے باب میں ان عاصم بن بہدلہ کے قول کا بڑا اعتبار ہے اوپر گزر چکا ہے کہ حدیث کے باب میں اگرچہ بعض علما نے ان عاصم کو ضعیف کہا ہے لیکن امام احمد اور ابوزرعہ نے ان عاصم کو ثقہ اور ابوحاتم نے معتبر قرار دیا ہے۔ دوسرا مطلب آیت کا یہ ہے کہ وقیلہ کو انا لا نسمع سرھم و نجواھم سے متعلق کیا جائے۔ اس صورت میں آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ ان مشرکوں کا یہ خیال بالکل غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے بھید اور مشوروں اور اپنے رسول کی شکایت کو نہیں سنتا وہ سب کچھ سنتا ہے لیکن اس کے انتظام میں ہر کام کا وقت مقرر ہے اس واسطے اس نے وقت مقررہ کے آنے تک ان سرکش لوگوں کو مہلت عطا کرکے اپنے رسول کو درگزر کا حکم دیا ہے مہلت کے زمانہ میں اگر اگر یہ لوگ اپنی سرکشی سے باز نہ آئے تو وقت مقررہ پر اپنی اسی سرکشی کا نتیجہ اچھی طرح معلوم کرلیں گے۔ یہ مطلب تفسیر ابن جریر کے موافق ہے۔ صحیح بخاری ٢ ؎ و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ (رض) اشعری کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ پہلے نافرمان لوگوں کو مہلت دیتا ہے جب مہلت کے زمانہ میں وہ لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہیں آتے تو ان کو ایسے عذاب میں پکڑ لیتا ہے جس سے وہ پھر بچ نہیں سکتے اسی طرح صحیح بخاری ٣ ؎ و مسلم کے حوالہ سے انس بن مالک کی حدیث بھی ایک جگہ گزر چکی ہے کہ بدر کی لڑائی میں مشرکین مکہ میں کے بڑے بڑے سرکش نہایت ذلت سے مارے گئے اور مرنے کے ساتھ ہی آخرت کے عذاب میں گرفتار ہوگئے جس عذاب کے جتلانے کے لئے اللہ کے رسول نے ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے وعدہ کو سچا پا لیا۔ ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عادت کے موافق چودہ پندرہ برس تک اہل مکہ کو مہلت دی لیکن جب مہلت کے زمانہ میں مشرکین مکہ کے سرکش لوگ اپنی سرکشی سے باز نہ آئے تو بدر کی لڑائی کے وقت دنیا و آخرت کے عذاب میں گرفتار ہوگئے جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے جدا ہوتے وقت سلام کا برتاؤ کیا تھا جس کا ذکر سورة مریم میں گزرا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کے برتاؤکا حکم دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب باوجود رات دن کی نصیحت کے اے قوم کے سرکش لوگو تم اپنی عادتوں سے باز نہیں آئے تو تم کو اور تمہاری عادتوں کو سلام ہے تم جانو اور تمہاری عادتیں اب آخر وہ وقت آنے والا ہے کہ تم لوگ اپنی ان بدعادتوں کا نتیجہ معلوم کرلو گے۔ اگرچہ بعض مفسروں نے جہاد کے حکم سے آیت کے ٹکڑے فاصفح عنہم کو منسوخ قرار دیا ہے لیکن اس تفسیر میں ایک جگہ یہ بیان کردیا گیا ہے کہ جہاد کے حکم سے در گزر کی کوئی آیت منسوخ نہیں ہے۔ (١ ؎ ترمذی شریف باب لو تعلمون ما اعلم الخ ص ٦٦ ج ٢۔ ) (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ١٣٧ ج ٤۔ ) (٢ ؎ بخاری شریف باب وکذلک اخذربک اذا اخذ القرے ص ٦٧٨ ج ٢۔ ) (٣ ؎ تفسیر ہذا جلد ہذا ص ١٦٩۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:85) تبارک۔ وہ بہت برکت والا ہے۔ وہ بڑی برکت والا ہے تبارک (تفاعل) مصدر۔ جس کے معنی بابرکت ہونے کے ہیں۔ ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ۔ اس فعل کی گردان نہیں آتی۔ صرف ماضی کا ایک صیغہ مستعمل ہے اور وہ بھی صرف اللہ تعالیٰ کے لئے آتا ہے اسی لئے بعض لوگ اس کو اسم فعل بتاتے ہیں۔ لہ میں لام تملیک (ملکیت جتانے کے لئے) کا ہے لہ ملک السموت والرض وما بینھما آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب کی بادشاہت اسی کی ہے۔ ما موصولہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی ہر جگہ اسی کی بادشاہی اور فرماروائی ہے۔ 2 ” نہ کہ کسی اور کی طرف، لہٰذا وہی ہے جو تمہیں تمہارے نیک یا بد اعمال کا بدلہ دے گا “۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : پچھلی آیات میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اولاد کی کیا ضرورت ہے ؟ جبکہ زمین و آسمانوں کا وہی بادشاہ ہے اور ہر چیز اس کے تابع فرمان ہے۔ اس کے باوجود کچھ لوگ ملائکہ یا کسی اور کو اللہ تعالیٰ کا شریک یا اس کی اولاد ٹھہراتے ہیں تاکہ وہ ان کی قیامت کے دن سفارش کریں۔ اہل مکہ کے سامنے جب بھی قیامت کا ذکر کیا جاتا تو وہ چلّا کر کہتے کہ قیامت کب آئے گی ؟ ہر موقع پر انہیں اس بات کا شافی جواب دیا گیا۔ مگر پھر بھی وہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی پہ قائم رہتے تھے۔ اس بار یہ جواب دیا گیا کہ اللہ کی ذات بڑی بابرکت ہے اور زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اسی کی ملک ہیں۔ وہی قیامت کا علم رکھنے والا ہے اور اسی کی طرف تمہیں لوٹ کر جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا جن لوگوں کو یہ پکارتے ہیں وہ اس کے ہاں سفارش کرنے کا کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ سفارش وہی لوگ کرسکیں گے جو علم و یقین کے ساتھ حق کی گواہی دیں گے اور ان کا اپنا عقیدہ اور عمل ٹھیک ہوگا۔ قرآن مجید نے یہ مسئلہ بھی بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی شخص اس کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں کرسکے گا۔ جس کو اس کے حضور سفارش کی اجازت ملے گی وہ بھی وہی بات کرے گا جو حق اور ٹھوس معلومات پر مبنی ہوگی۔ مفسرین نے ” اِلَّا مَنْ شَھِدَ بالْحَقِّ “ کا یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ سفارش کرنے والا خود بھی حق کی گواہی دینے والا ہو یعنی اس کا کلمہ طیبہ پر پورا یقین اور اس پر عمل کرنے والا ہو جس کے متعلق گواہی دے گا وہ بھی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والا ہو۔ اس حقیقت کا وہ مفسر بھی اعتراف کرتے ہیں جو من دون اللہ اور من دونہٖ کے الفاظ کو مخصوص معانی پہناتے ہیں۔ یہاں اس مفسر کا حوالہ دیا جاتا ہے جو قرآن مجید کے اکثر مقامات پر من دون اللہ اور من دونہٖ کی تفسیر اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔ کفار اس گھمنڈ میں تھے کہ یہ بت اور فرشتے ان کی شفاعت کریں گے۔ بتادیا کہ ایسا نہیں ہوگا ہر ایک کی مجال نہیں کہ بارگاہِ رب العزت میں شفاعت کرنے کی جرأت کرسکے اور نہ ہر شخص اس قابل ہے کہ اس کی شفاعت کی جائے۔ شفاعت کرنے کا وہ مجاز ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی توحید کی گواہی بھی دے اور اس کی یہ گواہی علم یقین پر مبنی ہو۔ اسی طرح شفاعت اس کی کی جائے گی جس کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہو۔ یہ بات خوب ذہن نشین رہے کہ شفاعت صرف ان گناہگاروں کے لیے ہوگی جو ایمان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوئے اور جن کا خاتمہ کفر یا شرک پر ہوگا ان کے لیے شفاعت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔ ( ضیاء القرآن : جلد ٤۔ مولانا پیر کرم شاہ بریلوی) یہاں بھی موصوف مفسر نے اپنے مشرکانہ عقیدہ کی تائید کے لیے (مِنْ دُوْنِہٖ الشَّفَاعَۃَ ) سے مراد بت لیے ہیں۔ حالانکہ اگلی آیت میں واضح طور پر بتلایا گیا ہے کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے سوال کریں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو یہ جواب دیں گے کہ ہمیں ” اللہ “ نے پیدا کیا ہے ان سے فرمائیں پھر تم کیوں بہکے پھر رہے ہو۔ 1 کیا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتوں سے سوال کرنا تھا ؟ 2 کیا بتوں نے کہا تھا کہ ہمیں ” اللہ “ نے پیدا کیا ہے ؟ 3 کیا پتھروں کو کہا تھا گمراہی میں کیوں بھٹکے پھر رہے تھے ؟ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِکُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَۃٌ مُسْتَجَابَۃٌ فَتَعَجَّلَ کُلُّ نَبِيٍّ دَعْوَتَہٗ وَإِنِّي اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِيْ شَفَاعَۃً لِأُمَّتِيْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَھِيَ نَآءِلَۃٌ إِنْ شَآء اللّٰہُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِيْ لَایُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا) [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب اختباء النبی دعوۃ الشفاعۃ لأمتہ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر نبی کی ایک مقبول دعا ہوتی ہے ہر نبی نے اپنی دعا کرنے میں جلدی کی میں نے اپنی دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی سفارش کے لیے بچا کر رکھا ہوا ہے وہ میری امت کے ہر اس شخص کو فائدہ دے گی جو اس حال میں مرا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی بھی اس کے حضور سفارش نہیں کرسکے گا۔ ٢۔ سفارش کرنے والے کے لیے لازم ہے کہ وہ خود بھی کلمہ پر یقین اور اس کا علم رکھنے والا ہو۔ ٣۔ سفارش کرنے والا اسی کی سفارش کرسکے گا جس کا کلمہ پر پورا ایمان ہو۔ ٤۔ ” اَلْحَقُّ “ سے مراد کلمہ طیبہ کو سمجھ کر پڑھنا اور حتّٰی المقدور اس کے تقاضے پورے کرنا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا ﴿وَ تَبٰرَكَ الَّذِيْ﴾ اور وہ ذات عالی شان ہے جس کے لیے آسمانوں کی اور زمین کی اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان سب کی سلطنت ہے اور اس کے پاس قیامت کا یعنی اس کے وقت مقرر کا علم ہے اور اسی کی طرف تم کو لوٹ کر جانا ہے وہاں ایمان اور اعمال صالحہ کی جزا اور کفر و معاصی کی سزا سامنے آجائے گی۔ مشرکین سے جب یہ کہا جاتا تھا کہ شرک بری چیز ہے تو شیطان کے پٹی پڑھا دینے سے یوں کہہ دیتے تھے کہ ہم ان کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ یہ اللہ کے نزدیک ہمارے لیے سفارش کردیں گے۔ یہ ان کا ایک بہانہ تھا اللہ تعالیٰ شانہٗ نے جن کو شفاعت کرنے کی اجازت نہیں دی وہ کیا سفارش کرسکتے ہیں اور بےجان کیسے سفارش کریں گے جس کی بارگاہ میں سفارش کی ضرورت ہوگی اس نے کب فرمایا کہ یہ میرے ہاں سفارشی بنیں گے، اللہ تعالیٰ جل شانہٗ نے صرف اپنی عبادت کا حکم دیا ہے اس کے نبیوں نے توحید کی دعوت دی اور شرک سے روکا ان کی بات نہ مانی مشرک بنے اور جواز شرکت کا حیلہ بھی تراش لیا ان لوگوں کو واضح طور پر بتادیا کہ جنہیں اللہ کے سوا پکارتے ہو اور اللہ کے سوا جن کی عبادت کرتے ہو یہ اللہ کی بارگاہ میں کوئی سفارش نہیں کرسکیں گے ہاں اللہ تعالیٰ کے جو نیک بندے ہیں وہ شفاعت کرسکیں گے انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت دی جائے گی لیکن وہ بھی ہر شخص کی سفارش نہیں کریں گے جس کے حق میں سفارش کرنے کی اجازت ہوگی اس کی سفارش کریں گے اس مضمون کو یہاں سورة زخرف میں ﴿اِلَّا مَنْ شَهِدَ بالْحَقِّ وَ هُمْ يَعْلَمُوْنَ ٠٠٨٦﴾ اور سورة بقرہ میں ﴿مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖ﴾ میں اور سورة انبیاء کی آیت ﴿وَ لَا يَشْفَعُوْنَ ١ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى﴾ میں بیان فرمایا ہے۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ ﴿اِلَّا مَنْ شَهِدَ بالْحَقِّ وَ هُمْ يَعْلَمُوْنَ ٠٠٨٦﴾ سے حضرات ملائكہ اور حضرت عیسیٰ اور حضرت عزیر اور ان جیسے حضرات مراد ہیں گو ان حضرات کی عبادت کی گئی لیکن اس میں ان کا کوئی دخل نہ تھا یہ حضرات شفاعت کرسکیں گے لیکن کافروں کے لیے شفاعت نہ کریں گے اور نہ ہی انہیں اس کی اجازت ہوگی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(85) اور اس کی ذات بڑی برکت والی اور بڑی عالیشان ہے جس کے لئے آسمانوں کی اور زمین کی اور جو کچھ ان دونوں کے مابین ہے اس سب کی حکومت ثابت ہے اور قیامت کا علم اسی کے پاس ہے اور تم سب کی بازگشت اسی کی طرف ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جائو گے۔ یعنی آسمان و زمین اور ان دونوں کے مابین جو کچھ ہے سب پر اسی کی بادشاہی اور اسی کا راج ہے اور اسی کی حکومت ہے اس کا علم اتنا وسیع ہے کہ قیامت کا علم اسی کے پاس ہے اس کی مخلوق میں سے کوئی بھی نہیں جانتا کہ قیامت کب آئیگی پھر اس کی قدرت اتنی وسیع ہے کہ تم سب کی بازگشت بھی اسی کے پاس ہے حکومت علم قدرت سب چیزوں میں کامل ہے وہ ذات بڑی بابرکت اور بڑی عالیشان ہے ۔ آگے جن کو یہ دین حق کے منکر پوجتے ہیں ان کی کمزوری اور عاجزی کا اظہار ہے۔