Surat ud Dukhaan
Surah: 44
Verse: 43
سورة الدخان
اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوۡمِ ﴿ۙ۴۳﴾
Indeed, the tree of zaqqum
بیشک زقوم ( تھوہر ) کا درخت ۔
اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوۡمِ ﴿ۙ۴۳﴾
Indeed, the tree of zaqqum
بیشک زقوم ( تھوہر ) کا درخت ۔
The Condition of the Idolators and Their Punishment on the Day of Resurrection Allah tells us how He will punish the disbelievers who deny the meeting with Him: إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ طَعَامُ الاَْثِيمِ
زقوم ابو جہل کی خوراک ہوگا منکرین قیامت کو جو سزا وہاں دی جائے گی اس کا بیان ہو رہا ہے کہ ان مجرموں کو جو اپنے قول اور فعل کو نافرمانی سے ملوث کئے ہوئے تھے آج زقوم کا درخت کھلایا جائے گا ۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد ابو جہل ہے ۔ گو دراصل وہ بھی اس آیت کی وعید میں داخل ہے لیکن یہ نہ سمجھا جائے کہ آیت صرف اسی کے حق میں نازل ہوئی ہے ۔ حضرت ابو درداء ایک شخص کو یہ آیت پڑھا رہے تھے مگر اس کی زبان سے لفظ ( اثیم ) ادا نہیں ہوتا تھا اور وہ بجائے اس کے یتیم کہہ دیا کرتا تھا تو آپ نے اسے ( طعام الفاجر ) پڑھوایا یعنی اسے اس کے سوا کھانے کو اور کچھ نہ دیا جائے گا ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ اگر زقوم کا ایک قطرہ بھی زمین میں ٹپک جائے تو تمام زمین والوں کی معاش خراب کر دے ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ آیا ہے جو پہلے بیان ہو چکی ہے ، یہ مثل تلچھٹ کے ہو گا ۔ اپنی حرارت بدمزگی اور نقصان کے باعث پیٹ میں جوش مارتا رہے گا اللہ تعالیٰ جہنم کے داروغوں سے فرمائے گا کہ اس کافر کو پکڑ لو وہیں ستر ہزار فرشتے دوڑیں گے اسے اندھا کر کے منہ کے بل گھسیٹ لے جاؤ اور بیچ جہنم میں ڈال دو پھر اس کے سر پر جوش مارتا گرم پانی ڈالو ۔ جیسے فرمایا آیت ( يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِمُ الْحَمِيْمُ 19ۚ ) 22- الحج:19 ) ، یعنی ان کے سروں پر جہنم کا جوش مارتا گرم پانی بہایا جائے گا جس سے ان کی کھالیں اور پیٹ کے اندر کی تمام چیزیں سوخت ہو جائیں گی اور یہ بھی ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ فرشتے انہیں لوہے کے ہتھوڑے ماریں گے جن سے ان کا دماغ پاش پاش ہو جائیں گے پھر اوپر سے یہ حمیم ان پر ڈالا جائے گا یہ جہاں جہاں پہنچے گا ہڈی کو کھال سے جدا کر دے گا یہاں تک کہ اس کی آنتیں کاٹتا ہوا پنڈلیوں تک پہنچ جائے گا ۔ اللہ ہمیں محفوظ رکھے پھر انہیں شرمسار کرنے کے لئے اور زیادہ پشیمان بنانے کے لئے کہا جائے گا کہ لو مزہ چکھو تم ہماری نگاہوں میں نہ عزت والے ہو نہ بزرگی والے ۔ مغازی امویہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو جہل ملعون سے کہا کہ مجھے اللہ کا حکم ہوا ہے کہ تجھ سے کہدوں تیرے لئے ویل ہے تجھ پر افسوس ہے پھر مکرر کہتا ہوں کہ تیرے لئے خرابی اور افسوس ہے ۔ اس پاجی نے اپنا کپڑا آپ کے ہاتھ سے گھسیٹتے ہوئے کہا جا تو اور تیرا رب میرا کیا بگاڑ سکتے ہو؟ اس تمام وادی میں سب سے زیادہ عزت و تکریم والا میں ہوں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے اسے بدر والے دن قتل کرایا اور اسے ذلیل کیا اور اس سے کہا جائے گا کہ لے اب اپنی عزت کا اور اپنی تکریم کا اور اپنی بزرگی اور بڑائی کا لطف اٹھا اور ان کافروں سے کہا جائے گا کہ یہ ہے جس میں ہمیشہ شک شبہ کرتے رہے ۔ جیسے اور آیتوں میں ہے کہ جس دن انہیں دھکے دے کر جہنم میں پہنچایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ وہ دوزخ ہے جسے تم جھٹلاتے رہے کیا یہ جادو ہے یا تم دیکھ نہیں رہے ؟ اسی کو یہاں بھی فرمایا ہے کہ یہ جس میں تم شک کر رہے تھے ۔
ان شجرت الزقوم :” الزقوم “ کی تفسیر کے لئے دیکھیے سورة صافات (٦٢ تا ٦٥)
Commentary Punishment and Reward of the Hereafter In these verses, according to the style of the Qur&an, Allah describes Hell and the way the unbelievers will be punished, and Paradise and the way the believers will be rewarded. Punishment of the Dwellers of Hell |"Indeed the tree of zaqqum... (44:43) |". Some necessary information regarding the reality of zaqqum has been given in Surah As-Saffat. Please see under (37:64-65). Here the Qur&an apparently indicates that the infidels will be given zaqqum to eat even before they enter Hell, because in this verse the Qur&an says that after having fed them with zaqqum they will be seized by the keepers of Hell and dragged into the middle of the blazing fire of Hell. According to some commentators, this is the meaning of (56:56) Surah –Al-Waqi&ah هَـٰذَا نُزُلُهُمْ يَوْمَ الدِّينِ (This will be their entertainment on the Day of Requital|". They argue that the word nuzul (entertainment) originally refers to the starter food and provision served to guests to make them feel welcome before the main course of entertainment is served. The main course of food and provision served later on is called diyafah or ma&dubah. The wordings of the Qur&an do carry the possibility that the feeding of zaqqum could be after the entry into Hell. In this case the word nuzul would refer, by extension, to the main course of meals and provisions served. The verse under comment which speaks about &dragging the dweller of Hell towards the middle of the blazing fire& means, he would already be in Hell but after feeding him zaqqum he will be dragged towards the middle of the fire to expose him to a greater degree of disgrace and torture. Allah knows best! (Condensed from Bayan-ul-Qur&an).
خلاصہ تفسیر بیشک زقوم کا درخت (جس کی تحقیق سورة صافات کے دوسرے رکوع میں گزر چکی ہے) بڑے مجرم (یعنی کافر) کا کھانا ہوگا جو (صورت کے مکروہ ہونے میں) تیل کی تلچھن جیسا ہوگا (اور) وہ پیٹ میں ایسا کھولے گا جیسا تیز گرم پانی کھولتا ہے (اور فرشتوں کو حکم ہوگا کہ) اس کو پکڑو پھر گھسیٹتے ہوئے دوزخ کے بیچوں بیچ تک لے جاؤ، پھر اس کے سر کے اوپر تکلیف دینے والا گرم پانی چھوڑو (اور اس سے بطور استہزاء کہا جائے گا کہ) لے چکھ، تو بڑا معزز مکرم ہے (یہ تیری تعظیم ہو رہی ہے جیسا تو دنیا میں اپنے آپ کو معظم و مکرم سمجھ کر ہمارے احکام سے عار کیا کرتا تھا اور دوزخیوں سے کہا جائے گا کہ) یہ وہی چیز ہے جس میں تم شک (و انکار) کیا کرتے تھے (یہ تو کافر دوزخیوں کا حال ہوا آگے اہل ایمان کا ذکر ہے کہ) بیشک خدا سے ڈرنے والے امن (چین) کی جگہ میں ہوں گے یعنی باغوں میں اور نہروں میں (اور) وہ لباس پہنیں گے باریک اور دبیز ریشم کا، آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے (اور یہ) بات اسی طرح ہے اور ہم ان کا گوری گوری بڑی بڑی آنکھوں والیوں سے بیاہ کردیں گے ( اور) وہاں اطمینان سے ہر قسم کے میوے منگاتے ہوں گے (اور) وہاں وہ بجز اس موت کے جو دنیا میں آ چکی تھی اور موت کا ذائقہ بھی نہ چکھیں گے (یعنی مریں گے نہیں) اور اللہ تعالیٰ ان کو دوزخ کے عذاب سے (بھی) بچالے گا (اور) یہ سب کچھ آپ کے رب کے فضل سے ہوگا، بڑی کامیابی یہی ہے (اور اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کا کام اتنا ہے کہ آپ ان کو کہتے رہئے) سو (اسی غرض سے ہم نے اس قرآن کو آپ کی زبان (عربی) میں آسان کردیا تاکہ یہ (اس کو سمجھ کر اس سے) نصیحت قبول کریں تو (اگر یہ لوگ نہ مانیں تو) آپ (ان پر مصائب کے نزول کے) منتظر رہئے، یہ لوگ بھی (آپ پر مصائب کے نزول کے) منتظر ہیں (پس آپ تبلیغ سے زیادہ فکر میں نہ پڑئیے، نہ مخالفت پر رنج کیجئے، ان کا معاملہ خدا کے سپرد کر کے صبر کیجئے وہ خود سمجھ لے گا۔ ) معارف و مسائل ان آیات میں آخرت کے کچھ احوال بیان کئے گئے ہیں، اور عادت کے مطابق یہاں بھی قرآن کریم نے دوزخ اور جنت دونوں ہی کے احوال یکے بعد دیگرے بیان فرمائے ہیں۔ (آیت) اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ ۔ زقوم کی حقیقت سے متعلق کچھ ضروری باتیں سورة صافات کی تفسیر میں لکھی جا چکی ہیں وہاں ملاحظہ فرمائی جائیں۔ یہاں اتنی بات قابل ذکر ہے کہ قرآن کریم کی آیات سے بظاہر یہ مترشح ہوتا ہے کہ کفار کو زقوم دوزخ میں داخل ہونے سے پہلے ہی کھلایا جائے گا کیونکہ یہاں زقوم کھلانے کے بعد یہ حکم مذکور ہے کہ ” اسے کھینچ کر دوزخ کے بیچوں بیچ لے جاؤ۔ “ اس کے علاوہ سورة واقعہ کی (آیت) ھذا نزلھم یوم الدین سے بھی بعض حضرات نے یہی سمجھا ہے کیونکہ ” نزل “ ان کے نزدیک اصلاً مہمان کی اس خاطر تواضع کو کہا جاتا ہے جو اصل دعوت سے پہلے کی جائے، بعد کے کھانے کو ’ ضیافۃ “ یا ” مأدبۃ “ کہتے ہیں۔ یوں قرآنی الفاظ میں احتمال اس کا بھی ہے کہ زقوم کا کھلانا دخول جہنم کے بعد ہو۔ اس صورت میں ” نزل “ کا استعمال دعوت کے اصل کھانے کے معنی میں تو سعاً ہوگا اور آیت زیر تفسیر میں جو اس کے بعد جہنم کی طرف گھسیٹ لے جانے کا ذکر ہے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ تھا تو پہلے بھی جہنم ہی میں، لیکن زقوم کھلانے کے بعد اسے مزید تذلیل اور ایذا رسانی کے لئے دوزخ کے وسط میں لیجایا جائے گا۔ واللہ اعلم (ملخص، ازبیان القرآن)
اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ ٤٣ ۙ شجر الشَّجَرُ من النّبات : ما له ساق، يقال : شَجَرَةٌ وشَجَرٌ ، نحو : ثمرة وثمر . قال تعالی: إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح/ 18] ، وقال : أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة/ 72] ، وقال : وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن/ 6] ، لَآكِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة/ 52] ، إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان/ 43] . وواد شَجِيرٌ: كثير الشّجر، وهذا الوادي أَشْجَرُ من ذلك، والشَّجَارُ الْمُشَاجَرَةُ ، والتَّشَاجُرُ : المنازعة . قال تعالی: حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء/ 65] . وشَجَرَنِي عنه : صرفني عنه بالشّجار، وفي الحدیث : «فإن اشْتَجَرُوا فالسّلطان وليّ من لا وليّ له» «1» . والشِّجَارُ : خشب الهودج، والْمِشْجَرُ : ما يلقی عليه الثّوب، وشَجَرَهُ بالرّمح أي : طعنه بالرّمح، وذلک أن يطعنه به فيتركه فيه . ( ش ج ر ) الشجر ( درخت وہ نبات جس کا تنہ ہو ۔ واحد شجرۃ جیسے ثمر و ثمرۃ ۔ قرآن میں ہے : إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح/ 18] جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے ۔ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة/ 72] کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن/ 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدہ کررہے ہیں ۔ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة/ 52] ، تھوہر کے درخت سے إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان/ 43] بلاشبہ تھوہر کا درخت گنجان درختوں والی وادی ۔ بہت درختوں والی جگہ ۔ ھذا الوادی اشجر من ذالک اس وادی میں اس سے زیادہ درخت ہیں ۔ الشجار والمشاجرۃ والتشاجر باہم جھگڑنا اور اختلاف کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء/ 65] اپنے تنازعات میں ۔ شجرنی عنہ مجھے اس سے جھگڑا کرکے دور ہٹا دیا یا روک دیا حدیث میں ہے ۔ (189) فان اشتجروا فالسلطان ولی من لا ولی لہ اگر تنازع ہوجائے تو جس عورت کا ولی نہ ہو بادشاہ اس کا ولی ہے الشجار ۔ ہودہ کی لکڑی چھوٹی پالکی ۔ المشجر لکڑی کا اسٹینڈ جس پر کپڑے رکھے یا پھیلائے جاتے ہیں ۔ شجرہ بالرمح اسے نیزہ مارا یعنی نیزہ مار کر اس میں چھوڑ دیا ۔ زقم إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان/ 43- 44] ، عبارة عن أطعمة كريهة في النار، ومنه استعیر : زَقَمَ فلان وتَزَقَّمَ : إذا ابتلع شيئا كريها . ( ز ق م ) الزقوم تھوہر کا درخت ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان/ 43- 44] بیشک سینڈھ کا درخت ۔ میں زقوم سے دوزخ کے کریہہ کھانے مراد ہیں اور اس سے استعارہ کے طور پر کہا جاتا ہے ۔ زقم فلان وتزقم اس نے کوئی کریہہ چیز نگل لی ۔
(٤٣۔ ٤٨) زقوم کا درخت دوزخ میں بڑے فاجروں یعنی ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کا کھانا ہوگا تیل کی تلچھٹ جیسا سیاہ یا کہ پگھلی ہوئی چاندی کی طرح سخت گرم ہوگا وہ پیٹ میں ایسا کھولے گا جیسا تیز گرم پانی کھولتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دے گا کہ اس ابو جہل کو پکڑو اور گھسیٹتے ہوئے دوزخ کے درمیان میں لے جاؤ اور اس کے سر کو لوہے کے گرزوں سے مارنے کے بعد جلتا ہوا گرم پانی ڈالو۔ شان نزول : اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ (الخ) سعد بن منصور نے ابو مالک سے روایت کیا ہے کہ ابو جہل کھجور اور مکھن لے کر آتا تھا اور کہتا تھا کہ اس کو کھاؤ یہ وہی زقوم ہے جس سے محمد تمہیں ڈراتے ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اور اموی نے مغازی میں عکرمہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم ابوجہل سے ملنے گئے اور آپ نے اس سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تجھ سے یہ کہوں اولی لک فاولی ثم اولی لک فاولی۔ تیری کم بختی پر کم بختی آنے والی ہے اور پھر تیری کم بختی پر کم بختی آنے والی ہے۔ تو اس نے اپنے ہاتھ کو کپڑے سے نکالا اور کہنے لگا کہ میرے متعلق آپ اور آپ کے صاحب یعنی اللہ کسی بھی چیز کی قدرت نہیں رکھتا اور آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں بطحاء والوں کو روک سکتا ہوں اور میں العزیز الکریم ہوں، اللہ تعالیٰ نے اسے بدر کے دن مار ڈالا اور ذلیل و خوار کیا اور اسی کو اس جملہ کے ساتھ عار دلائی اور اس کے بارے میں نازل کیا کہ دوزخ میں اس سے کہا جائے گا ذق انک انت العزیز الکریم۔ اور ابن جریر نے بھی قتادہ سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
38 For the explanation of zaqqum, see E.N. 34 of Surah As-Saaffat.
سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :38 زقوم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، سورہ صافات ، حاشیہ 34 ۔
(44:43) شجرت الزقوم۔ مضاف مضاف الیہ۔ تھوہر کا درخت۔ شجرت منصوب بوجہ عمل ان : ای اسم ان۔ جمع ہے شجرۃ کی لیکن بمعنی واحد مؤنث آیا ہے درخت۔ مختلف نسخوں میں شجرۃ ہی تحریر ہے۔ الزقوم : تھوہر۔
آیات ٤٣ تا ٥٩۔ اسرار ومعارف۔ کفار کا یہ حال ہوگا کہ کھانے کو انہیں زقوم (تھوہر کیکٹس) ملے گا اور بدکاروں کا کھاناایسا ہی ہوناچاہیے پھر وہ زقوم دوزخ کا ہوگا جبکہ دنیا کا بھی بہت کڑوا کسیلا اور بدشکل کانٹوں سے بھرپور ہوتا ہے وہ تو پیٹ میں ایسے کھولے گا جیسے پگھلا ہواتانبا ہو یا جی سے پانی کھولتا ہے اور حکم ہوگا کہ انہیں پکڑ لو اور گھسیٹتے ہوئے دوزخ کے درمیان لے جاؤ اور ان پر دوزخ کے جلتے پانی کا عذاب چھوڑ دو اور انہیں کہو اب اپنی کرتوتوں کا مزہ چکھو کہ تم تو بہت بڑے آدمی بنتے تھے اور تمہیں اللہ کی اطاعت اور نبی کی اتباع کرنے میں عار آتی تھی یہ وہی دوزخ ہے جس کا تمہین یقین نہ آتا تھا اور وہی عذاب ہیں جن کو تم بھولے ہوئے تھے۔ ان کے مقابل وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی اطاعت کی تقوی اختیار کیا وہ امن کے گھر میں ہوں گے جہاں باغوں اور چشموں پہ خوبصورت ریشمی پتلی اور دبیز پوشاکیں پہن کر بڑی شان سے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے اور ان کے جوڑے بنادیں گے حوروں سے جو بہت خوبصورت آنکھوں والی ہوں گی مزے سے پھل منگوائیں گے اور بےخطر بیٹھے کھائیں گے وہاں کوئی موت نہ آئے گی بس وہی پہلی تھی جس سے گزر کر یہاں پہنچ گئے اور دوزخ کے عذاب اور اس کے خطرے سے بھی محفوظ ہوگئے۔ حور۔ وہ خوبصورت صنف نازک جو جنت ہی کی مخلوق ہے اپنے حسن و کمال میں اللہ کی شان کا مظہر ہے اور ہل جنت کو ہبہ کی جائیں گی مگر یہ یاد رہے کہ خواتین جو انسانیت کا حصہ ہیں جو دنیا میں آئیں اللہ کی اطاعت کی یہ جب جنت میں پہنچیں گی تو ان کا مرتبہ ان سے بہت بلند ہوگاجی سے مالکن اور خادمہ کا ہوتا ہے اور یقینا ان سے زیادہ حسن عطا کیا جائے گا کہ انہوں نے اتباع رسالت ماب کیا ہوگا ، یہ سب آپ کے پروردگار کا کرم ہے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے جس کا راستہ قرآن کریم بتاتا ہے جس کو ہم نے آپ کی زبان میں آسان کردیا ہے کہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں اور دوزخ کے راستے سے بچ کر جنت کی راہ اختیار کریں اب اگر یہ نہ مانیں تو آپ کا کام پہنچانا تھا ، اب انتظار کیجئے یہ بھی تو راہ دیکھ رہے ہیں ہر کام کا انجام سامنے آجائے گا۔
لغات القرآن آیت نمبر 43 تا 59 : شجرت الزقوم ( زقوم ( جہنمیوں کی غذا) کا درخت) الاثیم ( گناہ گار) المھل (پگھلا ہوا تانبہ) یغلی (ابل رہا ہے ، کھول رہا ہے) البطون ( بطن) ( پیٹ) الحمیم (کھولتا پانی) اعتلوا ( گھسیٹتے لے جائو) صبوا (انڈیل دو ) ذق (چکھ) مقام امین ( امن و سکون کی جگہ) سندس ( باریک ریشم) استبرق (دبیر ریشم) تشریح : آیت نمبر 43 تا 59 : اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو نصیحت و عبرت کے لئے نہایت آسان اور سہل بنا کر بھیجا ہے جس میں اس حقیقت کو نہایت وضاحت سے بیان کردیا ہے کہ برے اور اچھے اعمال کا نتیجہ کیا ہے۔ جو لوگ دنیا میں زندگی بھر وقتی لذتوں ، خواہشوں ، تمناؤں اور جھوٹی عزت کے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں انہیں اپنا ہر عمل اچھا ہی لگتا ہے اور انہیں اس بات پر سوچنے کی فرصت ہی نہیں ہوتی کہ آخرت کی زندگی میں ان کا انجام کیا ہوگا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں انہیں جو کچھ حاصل ہے وہ ہمیشہ ان کے ساتھ رہے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے غافل اور برے اعمال میں بد مست لوگوں کو بتایا ہے کہ اگر انہوں نے اپنے برے اعمال سے توبہ نہ کی تو قیامت کے دن ان کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا جہاں ان کی غذا زقوم کا درخت ہوگا جس کا مزہ پگھلی ہوئی دھات ، پیپ ، لہو اور تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا ۔ کہتے ہیں کہ مکہ معظمہ میں کسی جگہ یہ درخت پایا جاتا ہے جس کا مزہ بہت کڑوا اور تلخ ہوتا ہے وہ جہنمیوں کی غذا ہوگی ۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کی جنہیں ” زبانیہ “ کہا جاتا ہے اور وہ جہنم پر مقرر ہیں حکم دیا جائے گا کہ اس مجرم کو پکڑو اور گھسیٹتے ہوئے اس کو جہنم کے بیچ میں لے جائو اور اس پر کھولتا ہوا پانی انڈیل دو اور پھر اس سے کہو کہ تو دنیا میں بڑا آبرو مند ، عزت والا اور رتبے والا تھا ۔ تجھے آخرت اور اس برے انجام کا یقین نہ تھا اب اس کا مزہ چکھ ۔ زقوم کا درخت کیا ہے اس کی تفصیل سورة صافات میں بیان کردی گئی ہے۔ جب ابو جہل کو معلوم ہوا کہ کافروں کو سزا کے طور پر زقوم کا درخت کھلایا جائے گا تو اس نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ اب آگ کے اندر بھی درخت پیدا ہوں گے ۔ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں کھجوریں اور مکھن لائو ہمارا زقوم تو یہی ہے جس کا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم سے وعدہ کر رہے ہیں ۔ اس کے بر خلاف وہ لوگ جو دنیا میں خوف الٰہی رکھتے تھے اور انہیں اللہ کے وعدوں کا یقین کامل تھا ان کو ایسی راحت بھری جنتوں میں داخل کیا جائے گا جہاں حسین ترین باغ ، بہتی ہوئی نہریں اور چشمے ہر طرح کی غذائیں ، باریک اور دبیز ریشم کا لباس ہوگا ۔ وہ مسہریوں پر تکیہ لگائے ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے ۔ بڑی بڑی آنکھوں والی حسین ترین حوریں ان کی زوجیت میں دے دی جائیں گی وہاں جس نعمت کو طلب کریں گے جو چاہیں گے وہ ان کو اسی وقت عطاء کیا جائے گا ۔ وہ نہایت امن و سکون سے جنت کی راحتوں سے لطف اندوز ہوں گے نہ ان کو جنتوں سے نکلنے کا خوف ہوگا اور وہ موت جو دنیا میں آ چکی تھی اب دوبارہ اس کے آنے کا اندیشہ تک نہ ہوگا ۔ اگرچہ یہ بات جہنم والوں کو بھی حاصل ہوگی کہ ان کو موت نہ آئے گی مگر فرق یہ ہوگا کہ اہل جنت کو ابدی اور ہمیشہ رہنے والی زندگی انعام کے طور پر دی جائے گی جب کہ اہل جہنم کو سزا کے طور پر ہمیشہ کی زندگی دی جائے گی۔ جنت ایک ایسے امن و سکون کی جگہ ہوگی جہاں کسی قسم کا غم ، پریشانی ، خطرہ ، اندیشہ اور کوئی محبت ، مشقت اور تکلیف نہ ہوگی۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ۔ اہل جنت سے کہا جائے گا کہ تم یہاں ہمیشہ تندرست رہو گے کبھی بیمار نہ ہو گے ۔ ہمیشہ زندہ رہو گے کبھی نہ مرو گے ۔ ہمیشہ خوش حال رہو گے کبھی خستہ حال نہ رہو گے۔ ہمیشہ جوان رہو گے اور کبھی بوڑھے نہ ہو گے۔ ( صحیح مسلم) فرمایا گیا کہ ہم نے نصیحت کے لئے اس قرآن مجید کو آسان کردیا ہے۔ آپ بھی ان کے سامنے ساری حقیقت کو رکھ دیجئے اگر یہ مانتے ہیں تو ان کی زبردست کامیابی ہوگی لیکن اگر وہ اس سے منہ پھیر تے ہیں تو آپ ان کی پرواہ نہ کیجئے اور اس بات کا انتظار کیجئے کہ اللہ کی لعنت ان پر کس طرح مسلط ہوتی ہے۔ وہ بھی آپ کی تحریک اور کام کو دیکھ رہے ہیں کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ بہر حال اللہ آپ کے ساتھ ہے آپ اسی پر بھروسہ کیجئے وہی انجام بخیر کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔۔۔۔ ۔
فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ کائنات کو کھیل تماشا سمجھتے ہیں اور آخرت کا انکار کرتے ہیں انہیں جہنّم میں داخل کیا جائے گا جس میں انہیں یہ سزائیں دی جائیں گی۔ جہنمی جہنّم میں اس لیے جائیں گے کہ انہوں نے اپنے رب کی نافرمانی کی انتہا کی ہوگی۔ ایسے نافرمانوں کو کھانے کے لیے تھوہر کا درخت دیا جائے گا وہ اسے کھانے کی کوشش کریں گے لیکن ان کے حلق میں اٹک جائے گا۔ اسے حلق سے اتارنے کے لیے پانی طلب کریں گے انہیں پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی اور جہنمیوں کی پیپ دی جائے گی۔ جونہی تھوہر کا درخت ان کے حلق سے نیچے اترے گا تو وہ اس طرح ان کے پیٹوں میں ہول پیدا کرے گا جس طرح پگھلا ہوا تانبا زمین پر انڈیلا جائے تو زمین ابل پڑتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی جہنمیوں کے سروں پر بےانتہا گرم پانی ڈالا جائے گا۔ جہنمی چیخ و پکار اور آہ و زاریاں کرے گا تو فرشتے اسے مزید سزا دیتے ہوئے کہیں گے اپنے اعمال کا مزہ چکھ ! کیونکہ تو دنیا میں اپنے آپ کو بڑا اور عزت والا سمجھتا تھا۔ یہ وہی دن ہے جس کے بارے میں تو شک کیا کرتا تھا۔ جہنم کے عذاب کے بارے میں دوسرے مقام پر بتلایا گیا ہے کہ اس میں صرف ایک ہی قسم کا عذاب نہیں ہوگا بلکہ جہنمیوں کو مختلف قسم کے عذاب دیئے جائیں گے۔ (ص : ٥٧) قرآن مجید نے یہ بات کئی مرتبہ ارشاد فرمائی ہے کہ شیطان لوگوں کے لیے ان کے گناہوں کو خوبصورت بنا دیتا ہے۔ جسے لوگ فیشن کے طور پر اختیار کرتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ فیشن انسان اپنی عزت اور خوبصورتی کے لیے کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کو گناہ سے روکا جائے تو وہ اپنی بےعزتی سمجھتے ہیں۔ ان کی یہ سزا ہوگی کہ ملائکہ ان کے سروں پر شدید ترین ابلتا ہوا پانی انڈلیتے ہوئے کہیں گے کہ یہ تیرے کیے کی سزا ہے کیونکہ دنیا میں تو اپنے آپ کو بڑا اور عزت والا سمجھتا تھا۔ مسائل ١۔ جہنمیوں کو کھانے کے لیے تھوہر کا درخت دیا جائے گا۔ ٢۔ جہنمیوں کے پیٹوں میں تھوہر طوفان برپا کردے گا۔ ٣۔ ملائکہ جہنمیوں کے سروں پر شدید ترین کھولتا ہوا پانی انڈیلتے ہوئے کہیں گے کہ اپنے کیے کی سزا پاؤ کہ تم دنیا میں اپنے آپ کو بڑا اور عزت والا سمجھتے تھے۔ ٤۔ جہنمیوں کو اس لیے سزا دی جائے گی کہ وہ قیامت کے بارے میں شک کیا کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن جہنّم میں جہنمیوں کی مختلف سزائیں : ١۔ اس دن ہم ان کا مال جہنم کی آگ میں گرم کریں گے اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں، کروٹوں اور پیٹھوں کو داغاجائے گا۔ (التوبہ : ٣٥) ٢۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب آگ ہلکی ہونے لگے گی تو ہم اسے مزید بھڑکا دیں گے۔ (بنی اسرائیل : ٩٧) ٣۔ اس میں وہ کھولتا ہوا پانی پیئیں گے اور اس طرح پیئیں گے جس طرح پیا سا اونٹ پیتا ہے۔ (الواقعہ : ٥٤ تا ٥٥) ٤۔ ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کی ہے جو انہیں گھیرے ہوئے ہوگی اور انہیں پانی کی جگہ پگھلا ہو اتانبا دیا جائے گا جو ان کے چہروں کو جلا دے گا۔ (الکہف : ٢٩) ٥۔ ان کے پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی اور درد ناک عذاب ہوگا۔ (الانعام : ٧٠) ٧۔ تھور کا درخت گنہگاروں کا کھانا ہوگا۔ (الدخان : ٤٣، ٤٤) ٨۔ جہنمیوں کو پیپ اور لہو پلایا جائے گا۔ (ابراہیم : ١٦) ٩۔ ان کے لیے کھانے کی کوئی چیز نہیں ہوگی مگر ضریع ہے۔ جو نہ موٹا کرے گا اور نہ بھوک ختم کرے گا۔ (الغاشیۃ : ٦۔ ٧) ١٠۔ جہنمیوں کے جسم بار، بار بدلے جائیں گے تاکہ انہیں پوری، پوری سزا دی جائے۔ (النساء : ٥٦)
آیت نمبر ٤٣ تا ٥٧ یہ منظر زقوم کے درخت کے پیش کرنے سے شروع ہوتا ہے اور یہ بدکاروں کی خوراک ہوگا۔ اور یہ اس قدر کڑوا ہوگا جس طرح تیل کی تلچھٹ کڑوی ہوتی ہے۔ یہ جہنمیو کی خوراک کی خوفناک تصویر کشی ہے اور یہ تلچھت پیٹ میں یوں جوش مارے گا جس طرح پتیلے میں پانی کھولتا ہے۔ ان بدکاروں کے پیٹ میں ، جو برتری دکھاتے تھے رب پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امین پر۔ فرمان الٰہی یوں ان ” شرفاء “ کے لئے صادر ہوتا ہے۔ خذوہ فاعتلوہ الی سواء الجحیم (٤٤ : ٤٧) ثم صبوا فوق راسہ من عذاب الحمیم (٤٤ : ٤٨) ” پکڑو اسے اور رگیدنے ہوئے لے جاؤ اس کو جہنم کے بیچوں بیچ اور انڈیل دو اس کے سر پر کھولتے پانی کا عذاب “۔ یعنی پکڑو اسے سخت بےدردی کے ساتھ۔ کس کر باندھو اسے اور پھر رگیدتے ہوئے جہنم کی طرف لے جاؤ، کوئی نرمی اور کوئی باعزت گرفتاری نہ ہو۔ اور ان کے سروں پر اس قدر سخت گرم پانی انڈیل دو کہ ان کو بھون کر رکھ دے ، اس سختی ، کھینچنے ، دھکیلنے ، رگید نے گرم پانی سے جلانے اور داغ دینے کے ساتھ جہنم کے اندر گراؤ اور پھر یہ بھی کہہ دو : ذق انک انت العزیز الکریم (٤٤ : ٤٩) ” چکھ اس کا مزا ، بڑا زبردست عزت دار آدمی ہے تو “۔ جو لوگ عزت اور شرافت کے بغیر عزیز وکریم بنتے ہیں ان کی سزا ویسی ہی ہے ۔ تم اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں یہی کچھ کرتے تھے۔ تم اس دن میں شک کرتے تھے اور مذاق اڑاتے تھے اور ٹھٹھے کرتے تھے۔ اس منظر میں ایک طرف تو پکڑ دھکڑ ، باندھنا اور داغنا ہے اور گرم پانی گرانا ہے اور دوسری طرف وہ حقیقی شریف و کریم لوگ ہیں جو متقین تھے ، جو ہر وقت اس دن سے ڈرتے تھے۔ یہ لوگ نہایت ہی امن کے مقام میں کھڑے ہیں ، نہ در ہے اور فریاد و فغاں ہے نہ کھینچا تانی ہے اور نہ دھکم پیل ہے ، اور نہ ان پر سختی اور گرم پانی گرانا ہے۔ بلکہ وہ نہایت ہی بہتر پوزیشن میں ہیں۔ باغات میں جہاں ہر طرف چشمے بہہ رہے ہیں۔ یہ نرم و باریک ریشم اور موٹے ریشم کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں وہ ایک دوسرے کے بالمقابل تکیوں پر بیٹھے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ شریک محفل ہیں۔ پھر ان کو وہاں ایسی بیویاں دی جائیں گی جو نہایت ہی خوبصورت آنکھوں والی ہوں گی۔ یوں یہ نعمت اور فرحت تمام ہوگی اور وہ جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مقیم ہوں گے جو بھی وہاں چاہیں گے ، ملے گا۔ یدعون فیکھا بکل فاکھۃ امنین (٤٤ : ٥٥) ” وہاں وہ اطمینان سے ہر طرح کی لذیذ چیزیں طلب کریں گے “۔ یعنی ان کو ان نعمتوں کے ختم ہونے کا کوئی اندیشہ نہ ہوگا ، نہ موت ہوگی جبکہ ایک بار وہ مرچکے ۔ اور اس کے سوا کوئی اور موت ہوگی ہی نہیں۔ مشرکین تو یہ کہتے تھے کہ یہی پہلی موت ہے اور حشر و نشر نہ ہوگا ، اس کے جواب میں ہے کہ ٹھیک ہے یہی پہلی موت ہے لیکن حشر ونشر ہوگیا ، اب کوئی موت نہیں ، اگرچہ تم موت چاہتے ہو۔ اور اللہ نے اہل ایمان کو جہنم سے بچا لیا ، محض اپنے فضل وکرم سے کیونکہ نجات تو اللہ کے فضل وکرم سے موقوف ہے۔ فضلا من ربک ذلک ھو الفوز العظیم (٤٤ : ٥٧) ” اور اللہ اپنے فضل سے ان کو موت سے بچائے گا ، یہی بڑی کامیابی ہے “۔ اور نہایت ہی عظیم کامیابی ! اس شدید منظر کے بعد اب سورت کا خاتمہ اسی بات پر ہوتا ہے جس سے اس کا آغاز ہوا تھا کہ یہ قرآن اور یہ رسالت اللہ کی طرف سے نعمت عظمیٰ ہے اور اس نعمت کا انکار اور رسول کی تکذیب کے نتائج سے متنبہ کیا جاتا ۔
دوزخیوں کے لیے طرح طرح کا عذاب ہے، زقوم ان کا کھانا ہوگا، سروں پر گرم پانی ڈالا جائے گا گذشتہ آیات میں منکرین قیامت کا انکار ذکر فرمایا پھر قیامت کا اثبات فرمایا قیامت قائم ہونے پر جو کافروں کی دوزخ میں بدحالی ہوگی ان آیات میں اس کو بیان فرمایا۔ دوزخیوں کو جہنم میں سخت بھوک لگے گی اور وہ کھانے کے لیے طلب کریں گے انہیں کھانے کے لیے جو چیزیں دی جائیں گی ان میں سے زقوم کا درخت بھی ہوگا۔ سورة صافات میں بیان ہوچکا ہے کہ یہ درخت دوزخ کے درمیان میں سے نکلے گا اس کے گھپے ایسے ہوں جیسے سانپوں کے پھن ہوتے ہیں یہ بہت زیادہ کڑوا ہوگا جب ان کو کھانے کو دیا جائے گا تو تیل کی تلچھٹ کی طرح ہوگا (کسی بوتل وغیرہ میں ایک عرصہ تک تیل رکھا جائے اور تیل میں دوسری کسی چیز کے ذرات تیل کے گاڑھے حصے میں جم جائیں اسے تلچھٹ کہتے ہیں) زقوم دیکھنے میں بھی زیادہ بد نما ہوگا اور مزے میں بھی بہت زیادہ برا ہوگا لیکن بھوک کی مجبوری میں دوزخیوں کو کھانا ہی پڑے گا وہ پیٹ میں پہنچ جائے گا تو وہاں جاکر تیز گرم پانی کی طرح کھولے گا اس سب کے باوجود پیٹ بھر کر کھائیں گے جیسا کہ سورة الواقعہ میں فرمایا ﴿ فَمَالِـُٔوْنَ مِنْهَا الْبُطُوْنَؕ٠٠٦٦﴾ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت کریمہ ﴿ اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ٠٠١٠٢﴾ تلاوت فرمائی پھر فرمایا کہ زقوم کا ایک قطرہ دنیا میں ٹپک جائے تو دنیا والوں کی کھانے کی چیزوں کو بگاڑ کر رکھ دے اب غور کرلو کہ اس کا کیا حال ہوگا جس کا کھانا زقوم ہوگا۔ (الترغیب والترہیب ج ٤: ص ٤٨٠) اہل دوزخ کو دوزخ میں جو زقوم کھانے کو ملے گا وہ پیٹ میں جاکر گرم پانی کی طرح کھولے گا پھر اوپر سے ان کے سر پر گرم پانی ڈالنے کا حکم ہوگا یہ گرم پانی ڈالا جانا مستقل عذاب ہوگا یہاں فرمایا ﴿ ثُمَّ صُبُّوْا فَوْقَ رَاْسِهٖ مِنْ عَذَابِ الْحَمِيْمِؕ٠٠٤٨﴾ اور سورة حج میں فرمایا ﴿ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِمُ الْحَمِيْمُۚ٠٠١٩ يُصْهَرُ بِهٖ مَا فِيْ بُطُوْنِهِمْ وَ الْجُلُوْدُؕ٠٠٢٠ ﴾ (ان کے سروں کے اوپر سے گرم پانی ڈالا جائے گا جو کاٹ دے گا ان چیزوں کو ان کے پیٹوں میں ہوگی اور ان کے چمڑوں کو۔ ) قال القرطبی والعتل ان تاخذ بتلابیب الرجل فتعتلہ ای تجرہٗ الیک لتذھب بہ الی حبس اوبلیة عتلت الرجل اعتلہ واعتلہ عتلاً اذا جذبتہ جذبا عنیفا (علامہ قرطبی کہتے ہیں عتل کا معنی یہ ہے کہ تو کسی آدمی کو اس کے گریبان سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچے تاکہ اسے جیل میں یا آزمائش میں لے جائے، عتلت الرجل اعتلہ واعتلہ عتلاً (جب تو اسے سختی کے ساتھ کھینچے۔ )
25:۔ ” ان شجرت الزقوم “ یہ تخویف اخروی ہے۔ زقوم دوزخ کا ایک نہایت ہی کر یہ المنظر اور خبیث درخت ہے جس کا ادنی سا نمونہ دنیا کا خاردار تھوہر ہے۔ الاثیم سے مراد کافر ہے (روح، ابن کثیر ) ۔ ” المھل “ پگھلی ہوئی دھات (روح، بحر) دوزخ میں کافروں کی خوراک شجرہ خبیثہ زقوم (تھوہر) ہوگی اور وہ پگھلی ہوئی دھات کی طرح گرم ہوگا اور ان کے پیٹ میں اس طرح کھولے گی جس طرح سخت گرم پانی کھولتا ہے۔ خذوہ الخ ای یقال للزبانیۃ (مدارک) ۔ ” فاعتلوہ “ اسے گھسیٹ کرلے جاؤ۔ فجروہ بقہر (روح) دوزخ کے فرشتوں کو حکم ہوگا کہ اس مجرم کو گھسیٹ کر بھرکتی آگ کے وسط میں لے جاؤ اور اس کے سر پر کھولتا ہوا پانی ڈالو تاکہ اوپر سے بھی وہ عذاب کا مزہ چکھے یا مطلب یہ ہے کہ ان کے سروں کے اوپر سے ان کے مونہوں میں کھولتا ہوا پانی ڈالو قالہ الشیخ (رح) تعالی۔ ” ذق “ ای ویقال (روح) ۔ اور اس سے کہا جائیگا اس عذاب کا مزہ چکھ تو دنیا میں بڑا عزیز و کریم بنا ہوا تھا اور کہا کرتا تھا بھلا عزت و عظمت اور شان و کرامت میں مجھ سے بھی کوئی بڑا تھا۔ یا یہ اہانت و تحقیر اور استہزاء و تمسخر کے طور پر کہا جائیگا۔ وقیل علی معنی الاستخفاف والتوبیخ والاستہزاء والاھانۃ والتنقیص (قرطبی ج 16 ص 151) ۔ ” ان ھذا ماکنتم بہ تمترون “ یہ وہی عذاب ہے جس سے دنیا میں تمہیں ڈرایا گیا، لیکن تم برابر اس میں شک کرتے رہے اور تمہیں ڈرانے والوں کی باتوں پر یقین نہ آیا۔