Surat ud Dukhaan
Surah: 44
Verse: 50
سورة الدخان
اِنَّ ہٰذَا مَا کُنۡتُمۡ بِہٖ تَمۡتَرُوۡنَ ﴿۵۰﴾
Indeed, this is what you used to dispute."
یہی وہ چیز ہے جس میں تم شک کیا کرتے تھے ۔
اِنَّ ہٰذَا مَا کُنۡتُمۡ بِہٖ تَمۡتَرُوۡنَ ﴿۵۰﴾
Indeed, this is what you used to dispute."
یہی وہ چیز ہے جس میں تم شک کیا کرتے تھے ۔
Verily, this is that whereof you used to doubt! It is like His saying: يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلَى نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا هَـذِهِ النَّارُ الَّتِى كُنتُم بِهَا تُكَذِّبُونَ أَفَسِحْرٌ هَـذَا أَمْ أَنتُمْ لاَ تُبْصِرُونَ The Day when they will be pushed down by force to the fire of Hell, with a horrible, forceful pushing. This is the Fire which you used to deny. In this magic, or do you not see? (52: 13-15) Similarly Allah said: إِنَّ هَذَا مَا كُنتُم بِهِ تَمْتَرُونَ (Verily, this is that where of you used to doubt!)
ان ھذا ما کنتم بہ تمترون : یعنی یہ ہے وہ جہنم جس کا تمہیں یقین نہیں تھا۔ فرشتے انھیں جہنم کی مار دے دے کر جتلائیں گے کہ یہ وہ آگ ہے جس میں تم شک کرتے تھے اور جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔ دیکھیے سورة طور (١٣ تا ١٥) ۔
اِنَّ ھٰذَا مَا كُنْتُمْ بِہٖ تَمْتَرُوْنَ ٥٠ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ مری المِرْيَةُ : التّردّد في الأمر، وهو أخصّ من الشّكّ. قال تعالی: وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج/ 55] ، فَلا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِمَّا يَعْبُدُ هؤُلاءِ [هود/ 109] ، فَلا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقائِهِ [ السجدة/ 23] ، أَلا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقاءِ رَبِّهِمْ [ فصلت/ 54] والامتراء والممَارَاة : المحاجّة فيما فيه مرية . قال تعالی: قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم/ 34] ، بِما کانُوا فِيهِ يَمْتَرُونَ [ الحجر/ 63] ، أَفَتُمارُونَهُ عَلى ما يَرى[ النجم/ 12] ، فَلا تُمارِ فِيهِمْ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف/ 22] وأصله من : مَرَيْتُ النّاقةَ : إذا مسحت ضرعها للحلب . ( م ر ی) المریۃ کے معنی کسی معاملہ میں تردد ہوتا ہے ۔ کے ہیں اور یہ شک سے خاص قرآن میں ہے : وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج/ 55] اور کافر لوگ ہمیشہ اس سے شک میں رہیں گے۔ الامتراء والمماراۃ کے معنی ایسے کام میں جھگڑا کرنا کے ہیں ۔ جس کے تسلیم کرنے میں تردد ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم/ 34] یہ سچی بات ہے جس میں لوگ شک کرتے ہیں بما کانوا فِيهِ يَمْتَرُونَ [ الحجر/ 63] جس میں لوگ شک کرتے تھے ۔ أَفَتُمارُونَهُ عَلى ما يَرى[ النجم/ 12] کیا جو کچھ وہ دیکھتے ہیں تم اس میں ان سے جھگڑتے ہو ۔ فَلا تُمارِ فِيهِمْ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف/ 22] تو تم ان کے معاملے میں گفتگو نہ کرنا ۔ مگر سرسری سی گفتگو ۔ دراصل مریت الناقۃ سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی ہیں اونٹنی کے تھنوں کو سہلانا تاکہ دودھ دے دے ۔ ( مریم ) علیماالسلام ۔ یہ عجمی لفظ ہے اور حضرت عیسیٰ اعلیہ السلام کی والدہ کا نام ( قرآن نے مریم بتایا ہے
اور یہ وہی عذاب ہے جس میں دنیا میں تم شک کیا کرتے تھے کہ یہ نہیں ہوگا۔
آیت ٥٠ { اِنَّ ہٰذَا مَا کُنْتُمْ بِہٖ تَمْتَرُوْنَ } ” یقینایہی ہے وہ چیز جس کے بارے میں تم شک کرتے تھے۔ “
(44:50) ھذا : ای ھذا العذاب۔ یہ عذاب (جو اب تمہیں مل رہا ہے) ۔ ما موصولہ ۔ بمعنی الذی۔ کنتم تمترون : ماضی استمراری جمع مذکر حاضر۔ جس کے متعلق تم شک کیا کرتے تھے۔ امتراء (افتعال) مصدر ۔ جس کے معنی کسی ایسی چیز کی بابت حجت کرنے اور جھگڑنے کے ہیں کہ جس میں شک اور شبہ و تردد ہو۔
(50) یہی وہ چیز ہے جس میں تم لوگ شک اور شبہ کیا کرتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ زقوم کا درخت جس کی تفصیل سورة الصافات میں گزر چکی یہ اہل جہنم کی خوراک ہوگی۔ ہندوستان میں اس کے تین نام لئے گئے ہیں۔ کہتے ہیں مکہ معظمہ کے کسی جانب میں پیدا ہوتا ہے اس کا مزہ سخت کڑوا ہوتا ہے جہنم میں زقوم کی کیا شکل ہوگی وہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ قرآن کریم میں سیاہ تیل کی تلچھٹ سے تشبیہ دی گئی ہے پھر پیٹ میں جاکر اس کا کھولنا بیان کیا گیا ہے جس طرح گرم پانی کھولتا اور جوش مارتا ہے پھر زبانیہ جو دوزخ پر متعین فرشتے ہیں ان کو حکم ہوگا کہ اس کو گھسیٹے ہوئے وسط جہنم تک لے جائو پھر اس پر عذاب اور تکلیف کا گرم کھولتا ہوا پانی ڈالو اسی کے ساتھ یہ بھی کہا جائے گا اس عذاب کا مزہ چکھ تو بڑا آبرو دار اور بڑے مرتبے والا ہے۔ غرض ان آیتوں میں انواع عذاب اور دوزخ میں طرح طرح کی تکالیف کا ذکر فرمایا ہے۔ العیاذ باللہ اللھم انا نعوذبک من عذاب جھنم۔ کہتے ہیں ان آیتوں کا تعلق ابوجہل اور اس کے ہم نشینوں کے ساتھ ہے وہ کھجوریں اور مکھن لاکر دوستوں کے سامنے رکھتا اور کہتا تزقموا یعنی کھائو یہ وہ زقوم ہے جس کا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم سے وعدہ کرتا ہے اور بطور فخر اور تکبر کہا کرتا تھا انا اعزاہل الوادی واکرمھم ، یعنی میں تمام وادی مکہ میں سب سے زیادہ عزت دار اور بزرگ تر ہوں عذاب کے وقت یہی کہا جائے گا۔ ذق انک انت العزیز الکریم۔ آخر میں عام طور پر اہل جہنم کو خطاب ہے کہ بلاشبہ یہی تو وہ عذاب ہے جس میں تم شکوک و شبہات پیدا کیا کرتے تھے۔ کلام میں جو زور ہے اور جس غصے کے ساتھ عذاب کا نقشہ اور مجرم کی کیفیت بیان کی گئی ہے اس کو ہندوستان کی زبان میں ادا کرنا مشکل ہے اس کا خط وہی لوگ حاصل کرسکتے ہیں جو عربی ادب سے واقف ہیں۔ نعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیات اعمالنا۔ اللھم اجرنا من خزی الدنیا و عذاب الاخرۃ آگے اہل تقویٰ اور پرہیزگاروں کے ساتھ جو سلوک ہوگا اس کا ذکر فرمایا۔