Surat ud Dukhaan

Surah: 44

Verse: 55

سورة الدخان

یَدۡعُوۡنَ فِیۡہَا بِکُلِّ فَاکِہَۃٍ اٰمِنِیۡنَ ﴿ۙ۵۵﴾

They will call therein for every [kind of] fruit - safe and secure.

دل جمعی کے ساتھ وہاں ہر طرح کے میووں کی فرمائشیں کرتے ہونگے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They will call therein for every kind of fruit in peace and security; means, whatever kinds of fruit they ask for will be brought to them, and they will have the security of knowing that this supply will never come to an end or be withheld; these fruits will be brought to them whenever they want.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

55۔ 1 آمِنِیْنَ (بےخوفی کے ساتھ) کا مطلب ان کے ختم ہونے کا اندیشہ ہوگا نہ کے کھانے سے بیماری وغیرہ کا خوف یا موت، تھکاوٹ اور شیطان کا کوئی خوف نہیں ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یدعون فیھا بکل فاکھۃ امنین : بےخوف ہو کر منگوانے کا مطلب یہ ہے کہ نہ انھیں یہ فکر ہوگا کہ وہ چیز موجود نہ ہو نہ یہ کہ قیمت کہاں سے ادا کریں گے، نہ یہ کہ ختم ہوجائے گی، نہ یہ کہ کھانے سے بدہضمی نہ ہوجائے، پھر نہ قبض کا خوف نہ اسہال ۔ غرض جو چاہیں گے بےفکر ہو کر جنت کے خادموں کو لانے کا حکم دیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَدْعُوْنَ فِيْہَا بِكُلِّ فَاكِہَۃٍ اٰمِنِيْنَ۝ ٥٥ ۙ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ فكه الفَاكِهَةُ قيل : هي الثّمار کلها، وقیل : بل هي الثّمار ما عدا العنب والرّمّان . وقائل هذا كأنه نظر إلى اختصاصهما بالذّكر، وعطفهما علی الفاکهة . قال تعالی: وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ [ الواقعة/ 20] ، وَفاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ [ الواقعة/ 32] ، وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس/ 31] ، فَواكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ [ الصافات/ 42] ، وَفَواكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ المرسلات/ 42] ، والفُكَاهَةُ : حدیث ذوي الأنس، وقوله : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ«1» قيل : تتعاطون الفُكَاهَةَ ، وقیل : تتناولون الْفَاكِهَةَ. وکذلک قوله : فاكِهِينَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ [ الطور/ 18] . ( ف ک ہ ) الفاکھۃ ۔ بعض نے کہا ہے کہ فاکھۃ کا لفظ ہر قسم کے میوہ جات پر بولا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ انگور اور انار کے علاوہ باقی میوہ جات کو فاکھۃ کہاجاتا ہے ۔ اور انہوں نے ان دونوں کو اس لئے مستثنی ٰ کیا ہے کہ ( قرآن پاک میں ) ان دونوں کی فاکہیہ پر عطف کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فاکہہ کے غیر ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ [ الواقعة/ 20] اور میوے جس طرح کے ان کو پسند ہوں ۔ وَفاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ [ الواقعة/اور میوہ ہائے کثیر ( کے باغوں ) میں ۔ وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس/ 31] اور میوے اور چارہ ۔ فَواكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ [ الصافات/ 42] ( یعنی میوے اور ان اعزاز کیا جائیگا ۔ وَفَواكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ المرسلات/ 42] اور میووں میں جوان کو مرغوب ہوں ۔ الفکاھۃ خوش طبعی کی باتیں خوش گئی ۔ اور آیت کریمہ : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ«1»اور تم باتیں بناتے رہ جاؤ گے ۔ میں بعض نے تفکھونکے معنی خوش طبعی کی باتیں بنانا لکھے ہیں اور بعض نے فروٹ تناول کرنا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فاكِهِينَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ [ الطور/ 18] جو کچھ ان کے پروردگار نے ان کو بخشا اس کی وجہ سے خوش حال ۔۔۔ میں فاکھین کی تفسیر میں بھی دونوں قول منقول ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٥ { یَدْعُوْنَ فِیْہَا بِکُلِّ فَاکِہَۃٍ اٰمِنِیْنَ } ” وہ طلب کریں گے اس میں ہر طرح کے پھل اطمینان کے ساتھ۔ “ جنت کے پھلوں میں سے جس پھل کی وہ خواہش کریں گے وہ ان کے سامنے پیش کر دیاجائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

43 That is, they will order the attendants in Paradise to bring anything they would like in any measure they would demand, and it will be presented before them. In this world, a man cannot ask for a thing in a hotel, or even his own things in his own house, with the freedom and satisfaction as he will ask for these in Paradise, for in the world nothing is found anywhere in un-limited measure; whatever man uses here, he has to pay for it. In Paradise, things will belong to Allah, and the servants will enjoy full freedom to use them. Neither will there be the danger of the failure of the supply, nor the necessity of a bill to pay.

سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :43 اطمینان سے طلب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز جتنی چاہیں گے بے فکری کے ساتھ جنت کے خادموں کو اس کے لانے کا حکم دیں گے اور وہ حاضر کر دی جائے گی ۔ دنیا میں کوئی شخص ہوٹل تو درکنار ، خود اپنے گھر میں اپنی چیز بھی اس اطمینان سے طلب نہیں کرسکتا جس طرح وہ جنت میں طلب کرے گا ۔ کیونکہ یہاں کسی چیز کے بھی اتھاہ ذخیرے کسی کے پاس نہیں ہوتے ، اور جو چیز بھی آدمی استعمال کرتا ہے اس کی قیمت بہرحال اس کی اپنی جیب ہی سے جاتی ہے ۔ جنت میں مال اللہ کا ہوگا اور بندے کو اس کے استعمال کی کھلی اجازت ہوگی ۔ نہ کسی چیز کے ذخیرے ختم ہو جانے کا خطرہ ہوگا نہ بعد میں بل پیش ہونے کا کوئی سوال ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(44:55) یدعون مضارع جمع مذکر غائب۔ دعوۃ باب نصر۔ مصدر۔ وہ طلب کرتے ہیں یا طلب کریں گے۔ بکل فاکہۃ۔ یعنی پھلوں میں سے جس پھل کو پسند کریں گے۔ طلب کریں گے۔ امنین۔ اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر بحالت نصب بوجہ حال۔ امن باب سمع مصدر سے محفوظ ہونا۔ امنین مطمئن ہونا۔ دل جمع۔ بےخوف۔ یعنی ان کو نہ پھلوں کے ختم ہونے کا کوئی اندیشہ ہوگا اور نہ کسی پھل کے کھانے سے کسی مضرت کا کوئی پہلو ہوگا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 اطمینان سے منگوانے کا مطلب یہ ہے کہ انہیں بدہضمی یا کسی قسم کی مضرت کا اندیشہ لاحق نہ ہوگا۔ اس لئے وہ جس مقدار میں جو میوہ منگوانا چاہیں گے بےفکری کے ساتھ منگوائیں گے اور وہ فوراً حاضر کردیا جائے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

27:۔ ” یدعون فیہا “ وہ جنت میں جو میوہ چاہیں گے طلب کریں گے یعنی وہاں انہیں ہر منہ مانگا میوہ ملے گا اور وہ ہر ضرر و تکلیف سے محفوظ ہوں گے۔ ” لایذوقون الخ “ جنت میں ان پر موت نہیں آئیگی ایک بار جو موت ان کے لیے مقدر تھی اس کا مزہ وہ دنیا میں چکھ چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں دوزخ کے عذاب سے بھی بچائیگا۔ یہ ساری نعمتیں انہیں محض اللہ کے فضل و کرم سے حاصل ہوں گی اور اصل میں یہی بڑی کامیابی ہے کہ جنت میں ہر نعمت میسر ہو، تکلیف کا شائبہ تک نہ ہو، نہ نعیم جنت کو زوال ہو، جنت والوں پر فنا آئے، دائمی راحت اور دائمی زندگی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(55) وہ ان باغوں میں اطمینان سے ہر قسم کے میوے طلب کرتے ہوں گے۔ یعنی ہر قسم کا اطمینان میسر ہوگا اور درآنحالیکہ وہ امن والے ہوں گے وہاں کے باغوں میں ہر قسم کے میوے خدام سے منگا رہے ہوں گے۔