سورة الْجَاثِیَة نام : آیت 28 کے فقرے وَتَرٰی کُلَّ اُمَّۃٍ جَاثِیَۃً سے ماخوذ ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ سورۃ جس میں لفظ جاثیہ آیا ہے ۔ زمانہ نزول : اس سورۃ کا زمانہ نزول بھی کسی معتبر روایت میں بیان نہیں ہوا ہے ۔ مگر اس کے مضامین سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ سورہ دُخان کے بعد قریبی زمانے میں نازل ہوئی ہے ۔ دونوں سورتوں کے مضامین میں ایسی مشابہت ہے جس سے یہ دونوں توام نظر آتی ہیں ۔ موضوع اور مباحث : اس کا موضوع توحید و آخرت کے متعلق کفار مکہ کے شبہات و اعتراضات کا جواب دینا اور اس رویے پر ان کو متنبہ کرنا ہے جو انہوں نے قرآن کی دعوت کے مقابلے میں اختیار کر رکھا تھا ۔ کلام کا آغاز توحید کے دلائل سے کیا گیا ہے ۔ اس سلسلے میں انسان کے اپنے وجود سے لے کر زمین و آسمان تک ہر طرف پھیلی ہوئی بے شمار نشانیوں کی طرف اشارہ کر کے بتایا گیا ہے کہ تم جدھر بھی نگاہ اٹھا کر دیکھو ، ہر چیز اسی توحید کی شہادت دے رہی ہے جسے ماننے سے تم انکار کر رہے ہو ۔ یہ طرح طرح کے حیوانات ، یہ شب و روز ، یہ بارشیں اور ان سے اگنے والی نباتات ، یہ ہوائیں ، اور یہ انسان کی اپنی پیدائش ، ان ساری چیزوں کو اگر کوئی شخص آنکھیں کھول کر دیکھے اور کسی تعصب کے بغیر اپنی عقل کو سیدھے طریقہ سے استعمال کر کے ان پر غور کرے تو یہ نشانیاں اسے اس امر کا یقین دلانے کے لیے بالکل کافی ہیں کہ یہ کائنات بے خدا نہیں ہے ، نہ بہت سے خداؤں کی خدائی میں چل رہی ہے ، بلکہ ایک ہی خدا نے اسے بنایا ہے ، اور وہی اکیلا اس کا مدبر اور فرماں روا ہے ۔ البتہ اس شخص کی بات دوسری ہے جو نہ ماننے کی قسم کھا کر بیٹھ گیا ہو ، یا شکوک و شبہات ہی میں پڑے رہنے کا فیصلہ کر چکا ہو ۔ اسے دنیا میں کہیں سے بھی یقین و ایمان کی دولت حاصل نہیں ہوسکتی ۔ آ گے چل کر دوسرے رکوع کی ابتدا میں پھر فرمایا گیا ہے کہ انسان اس دنیا میں جتنی چیزوں سے کام لے رہا ہے ، اور جو بے حد و حساب اشیاء اور قوتیں اس کائنات میں اس کے مفاد کی خدمت کر رہی ہیں ، وہ آپ سے آپ کہیں سے نہیں آ گئی ہیں ، نہ دیویوں اور دیوتاؤں نے انہیں فراہم کیا ہے ، بلکہ وہ ایک ہی خدا ہے جس نے یہ سب کچھ اپنے پاس سے اس کو بخشا اور اس کے لیے مسخر کر دیا ہے ۔ کوئی شخص صحیح غور و فکر سے کام لے تو اس کی اپنی عقل ہی پکار اٹھے گی کہ وہی خدا انسان کا محسن ہے اور اسی کا یہ حق ہے کہ انسان اس کا شکر گزار ہو ۔ اس کے بعد کفار مکہ کو اس ہٹ دھرمی ، استکبار ، استہزاء اور اصرار علی الکفر پر سخت ملامت کی گئی ہے جس سے وہ قرآن کی دعوت کا مقابلہ کر رہے تھے ، اور انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ یہ قرآن وہی نعمت لے کر آیا ہے جو پہلے بنی اسرائیل کو دی گئی تھی ، جس کی بدولت وہ تمام اقوام عالم پر فضیلت کے مستحق ہوئے تھے ۔ انہوں نے جب اس نعمت کی ناقدری کی اور دین میں اختلاف کر کے اسے کھو دیا ، تو اب یہ دولت تمہارے ہاں بھیجی گئی ہے ۔ یہ ایک ایسا ہدایت نامہ ہے جو دین کی صاف شاہراہ انسان کو دکھاتا ہے ۔ جو لوگ اپنی جہالت و حماقت سے اس کو رد کریں گے وہ اپنی ہی تباہی کا سامان کریں گے ۔ اور خدا کی تائید و رحمت کے مستحق صرف وہ لوگ ہوں گے جو اس کی پیروی قبول کر کے تقویٰ کی روش پر قائم ہو جائیں ۔ اسی سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کو ہدایت کی گئی ہے کہ یہ خدا سے بے خوف لوگ تمہارے ساتھ جو بیہودگیاں کر رہے ہیں ان پر درگزر اور تحمل سے کام لو ۔ تم صبر کرو گے تو خدا خود ان سے نمٹے گا اور تمہیں اس صبر کا اجر عطا فرمائے گا ۔ پھر عقیدہ آخرت کے متعلق کفار کے جاہلانہ خیالات پر کلام کیا گیا ہے ۔ وہ کہتے تھے کہ زندگی بس اسی دنیا کی زندگی ہے ، اس کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے ۔ ہم گردش ایام سے بس اسی طرح مرتے ہیں جس طرح ایک گھڑی چلتے چلتے رک جائے ۔ موت کے بعد کوئی روح باقی نہیں رہتی جسے قبض کیا جاتا ہو اور پھر کسی وقت دوبارہ لا کر انسانی جسم میں پھونک دیا جائے ۔ اس چیز کا اگر تمہیں دعویٰ ہے تو ہمارے مرے ہوئے آباؤ اجداد کو زندہ کر کے دکھاؤ ۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے پے در پے چند دلائل ارشاد فرمائے ہیں: ایک یہ کہ تم یہ بات کسی علم کی بنا پر نہیں کہہ رہے ہو بلکہ محض گمان کی بنیاد پر اتنا بڑا حکم لگا بیٹھے ہو ۔ کیا فی الواقع تمہیں یہ علم ہے کہ مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے اور روحیں قبض نہیں کی جاتیں بلکہ فنا ہو جاتی ہیں؟ دوسرے یہ کہ تمہارے اس دعوے کی بنیاد زیادہ سے زیادہ بس یہ ہے کہ تم نے کسی مرنے والے کو اٹھ کر دنیا میں آتے نہیں دیکھا ہے ۔ کیا یہ بات اتنا بڑا دعویٰ کر دینے کے لیے کافی ہے کہ مرنے والے پھر کبھی نہیں اٹھیں گے؟ کیا تمہارے تجربے اور مشاہدے میں کسی چیز کا نہ آنا یہ معنی رکھتا ہے کہ تمہیں اس چیز کے نہ ہونے کا علم حاصل ہے؟ تیسرے یہ کہ یہ بات سراسر عقل اور انصاف کے خلاف ہے کہ نیک اور بد ، فرمانبردار اور نافرمان ، ظالم اور مظلوم ، آخر کار سب یکساں کر دیے جائیں ، کسی بھلائی کا کوئی اچھا نتیجہ اور کسی برائی کا کوئی برا نتیجہ نہ نکلے ، نہ کسی مظلوم کی داد رسی ہو اور نہ کوئی ظالم اپنے کیے کی سزا پائے ، بلکہ سب ایک ہی انجام سے دوچار ہوں ۔ خدا کی اس کائنات کے متعلق جس نے یہ تصور قائم کیا ہے اس نے بڑا ہی غلط تصور قائم کیا ہے ۔ اس تصور کو ظالم اور بد کار لوگ تو اس لیے اختیار کرتے ہیں کہ وہ اپنے افعال کا برا نتیجہ نہیں دیکھنا چاہتے ، لیکن خدا کی یہ خدائی اندھیر نگری نہیں ہے بلکہ یہ ایک برحق نظام ہے جس میں نیک و بد کو بالآخر یکساں کر دینے کا ظلم ہرگز نہیں ہو سکتا ۔ چوتھے یہ کہ انکار آخرت کا عقیدہ اخلاق کے لیے سخت تباہ کن ہے ۔ اس کو اختیار وہی لوگ کرتے ہیں جو اپنے نفس کے بندے بنے ہوئے ہیں ، اور اس لیے کرتے ہیں کہ انہیں بندگیٔ نفس کی کھلی چھوٹ مل جائے ۔ پھر جب وہ اس عقیدے کو اختیار کر لیتے ہیں تو یہ انہیں گمراہ سے گمراہ تر کرتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ ان کی اخلاقی حِس بالکل مردہ ہو جاتی ہے اور ہدایت کے تمام دروازے ان کے لیے بند ہو جاتے ہیں ۔ یہ دلائل دینے کے بعد اللہ تعالیٰ پورے زور کے ساتھ فرماتا ہے کہ جس طرح تم آپ سے آپ زندہ نہیں ہو گئے ہو ، بلکہ ہمارے زندہ کرنے سے زندہ ہوئے ہو ، اسی طرح تم آپ سے آپ نہیں مر جاتے ، بلکہ ہمارے موت دینے سے مرتے ہو ، اور ایک وقت یقیناً ایسا آنا ہے جب تم سب بیک وقت جمع کیے جاؤ گے ۔ اس بات کو اگر آج تم اپنی جہالت و نادانی سے نہیں مانتے تو نہ مانو ، جب وہ وقت آجائے گا تو تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ اپنے خدا کے حضور پیش ہو اور تمہارا پورا نامہ اعمال بےکم و کاست تیار ہے جو تمہارے ایک ایک کرتوت کی شہادت دے رہا ہے ۔ اس وقت تم کو معلوم ہو جائے گا کہ عقیدہ آخرت کا یہ انکار اور اس کا یہ مذاق جو تم اڑا رہے ہو ، تمہیں کس قدر مہنگا پڑا ہے ۔
تعارف سورۃ الجاثیہ اس سورت میں بنیادی طور پر تین باتوں پر زور دیا گیا ہے، ایک یہ کہ اس کائنات میں ہر طرف اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کی اتنی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں کہ ایک انسان اگر معقولیت کے ساتھ ان پر غور کرے تو اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس کائنات کے خالق کو اپنی خدائی کے انتظام میں کسی شریک کی کوئی ضرورت نہیں ہے، لہذا اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرا کر اس کی عبادت کرنا سراسر بے بنیاد بات ہے، دوسرے حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتایا گیا ہے کہ آپ کو شریعت کے کچھ ایسے احکام دئے گئے ہیں جو پچھلی امتوں کو دئے ہوئے احکام سے کسی قدر مختلف ہیں، چونکہ یہ سارے احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، اس لئے اس پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئیے، تیسرے اس سورت میں قیامت کے ہولناک مناظر کا نقشہ کھینچا گیا ہے، اسی سلسلے میں آیت نمبر : ٢٨ میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے دن لوگ اتنے خوف زدہ ہوں گے کہ ڈر کے مارے گھٹنوں کے بل بیٹھ جائیں گے، جاثیہ عربی زبان میں ان لوگوں کو کہتے ہیں جو گھٹنے کے بل بیٹھتے ہوں، اسی لفظ کو سورت کا نام بنادیا گیا ہے۔
سورة الجاثیہ : بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ ٭یہ کتاب اس زبردست حکمت والے اللہ کی طرف سے نازل کی گئی ہے جس نے زمین و آسمان اور ان کے درمیان جتنی مخلوقات ہیں ان سب میں بیشمار نشانیاں رکھ دی ہیں ۔ انسان اور جانوروں کی پیدائش ، رات اور دن کا آنا جانا ، بلندیوں سے بارش کا برسنا اور زمین میں ایک نئی ترو تازگی پیدا ہونا ۔ ہواؤں کا الٹنا پلٹنا یہ سب کی سب عقل و فہم رکھنے والوں اور ہر چیز کی حکمت سمجھنے والوں کے لئے بہترین دلائل ہیں۔ ٭ایسی کھلی اور واضح نشانیوں کے باوجود جھوٹ پر جمے رہنا اور مال و دولت سمیٹنے کی دھن میں دیوانوں کی طرح لگے رہنا ایک بھول ہے۔ موت کے ایک جھٹکے کے ساتھ ہی یہ سب چیزیں اسی دنیا میں رہ جائیں گی اور اس کے کسی کام نہ آسکیں گی ۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ جنت کی وہ راحتیں جو ہمیشہ کے لئے ہوں گی وہ اس سے محروم رہے گا ۔ ( نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) سے فرمایا گیا ہے کہ وہ کفار و مشرکین کی باتوں پر صبر اور برداشت سے کام لیں ۔ عفو و در گزر کا معاملہ فرمائیں اور ہر اس کام میں لگے رہیں جو نیک اور بھلا کام ہے ۔ اس پر اجر عظیم عطاء کیا جائے گا ۔ اگر کسی نے برائیاں اور گناہ کئے ہوں گے تو قیامت کے دن اس کو اپنے گناہوں کی سزا بھگتنا ہوگی۔ ) ٭جھوٹے معبودوں کے متعلق یہ گمان کہ وہ ان کو آخرت میں اللہ کے عذاب سے بچا لیں گے انتہائی بےبنیاد بات اور غلط فہمی ہے جسے دور کر کے اپنے کفر و شرک سے توبہ کرلی جائے ورنہ اللہ کے عذاب سے بچ نہ سکیں گے۔ ٭اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اسی اللہ نے سمندر کو ان کے لیے اس طرح مسخر ( تابع) کردیا ہے جس میں بڑے بڑے جہاز اور کشتیاں چلتی ہیں جو تجارت کا سامان ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچاتی ہیں۔ اسی نے چاند ، سورج اور ستاروں کو اور زمین کی تمام چیزوں کو انسان کے کام میں لگا رکھا ہے ۔ یہ وہ نعمتیں ہیں جن پر آدمی کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ ٭نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) سے فرمایا گیا ہے کہ وہ کفار و مشرکین کی باتوں پر صبر اور برداشت سے کام لیں عفو و در گزر کا معاملہ فرمائیں اور ہر ایک نیک اور بھلے کام میں لگے رہیں کیونکہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ جو شخص نیک اور بھلا کام کرتا ہے اس پر اسے اجر عطاء کیا جاتا ہے اور جو برائیاں اور گناہ کرتا ہے اس کا وبال اس پر پڑتا ہے۔ تمام لوگ جب پلٹ کر اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے تو ہر ایک کو اپنی زندگی کا حساب دینا ہوگا ۔ (کفار یہ کہتے تھے کہ بس یہ دنیا ہی سب کچھ ہے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا عقل و فہم سے دور کی بات ہے ، وہ کہتے کہ ہمارا مرنا جینا یہ سب گردش زمانہ کا اثر ہے ۔ اگر یہ سچ ہوتا کہ ہم دوبارہ پیدا ہوں گے تو ہمارے مرے ہوئے باپ دادا زندہ ہو کر ہمیں نہ بتا دیتے کہ قیامت قائم ہوگی ؟ اللہ نے فرمایا کہ اللہ ہی کے ہاتھ میں زندگی اور موت ہے سب کو اسی طرف لوٹ کر جانا ہے) ٭بنی اسرائیل اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو کتاب ، حکمت ، نبوت اور دین و دنیا کی ہر نعمت سے نوازا تھا جس سے وہ دنیا کی ایک عظیم قوم بن کر ابھرے تھے لیکن انہوں نے آپس کی ضد بندی اور عداوت کی وجہ سے دین میں شدید اختلافات پیدا کیے جس کے نتیجے میں اللہ نے ان سے ہر نعمت کو چھین کر ان پر عذاب مسلط کردیا ۔ پھر اللہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کو اس شرف سے نوازا ، تمام نعمتیں ، ہدایت اور صراط مستقیم عطاء فرمائی امت محمدیہ سے فرمایا گیا ہے کہ تمہارا کام یہ ہے کہ تم دین حنیف کو اپنا کر صراط مستقیم پر چلو اور سچائی کے اصولوں کو اپنائو ۔ منکرین اور مخالفین کی خواہشات کی پیروی نہ کرو کیونکہ یہ ظالم اور مشرک آپس میں ایک ہیں اور اسلام دشمنی پر متفق ہیں لہٰذا تمہارا اور ان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے تم تقویٰ اور پرہیز گاری کی زندگی اختیار کرو کیونکہ اللہ ان ہی کا دوست ہے جو نیکی اور تقویٰ کی زندگی کو اختیار کرتے ہیں ۔ فرمایا کہ جو لوگ دن رات گناہ سمیٹ رہے ہیں اور جو لوگ ایمان اور عمل صالح اختیار کر کے تقویٰ اور پرہیز گاری کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں یہ دونوں کبھی انجام میں یکساں اور برابر نہیں ہو سکتے۔ ٭اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور کائنات کے نظام کو بےکار اور بےفائدہ نہیں بنایا اس کے پیدا کرنے کا مقصد انسان کا امتحان ہے۔ جن لوگوں نے اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنا رکھا ہے جن کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی ہر خواہش کے پیچھے چل پڑتے ہیں انہوں نے اللہ کی ہدایت کو بھلا دیا ہے ان کو غور کرنا چاہیے کہ اگر وہ اللہ کی طرف سے دی گئی ہدایت پر نہ چلے تو پھر آخر کون ان کو ہدایت دے کر صراط مستقیم پر چلائے گا ۔ ٭کفار یہ کہتے ہیں کہ پس سب کچھ یہی دنیا ہے ۔ اس کے سوا کوئی دوسری زندگی نہیں ہے۔ ہمارا مرنا جینا یہ سب گردش زمانہ کا اثر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ سچ ہے کہ آدمی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا تو آخر ہمارے باپ دادا جو بہت پہلے گزر چکے ہیں ان کو زندہ کرکے ہمارے سامنے کیوں نہیں لایا جاتا کہ ہم ان سے پوچھ کر یقین کرلیں کہ واقعی مر کر دوبارہ زندہ ہونا ہے ؟ ٭زمین اور آسمان کی سلطنت اور بادشاہت صرف ایک اللہ کی ہے وہی قیامت کو قائم کرے گا لیکن ان کفار کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ قیامت کا دن ان کے لیے بڑے نقصان کا دن ہوگا کیونکہ اس دن ہر ایک سے پورا پوراحساب لیا جائے گا ۔ جب آدمی اس دن اللہ کے سامنے حاضر ہوگا تو اس سے کہا جائے گا کہ آج تمہیں ان کاموں کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے تھے۔ ہم نے اپنے فرشتوں کے ذریعے تمہارے سا رے اعمال کو لکھوا رکھا تھا۔ فرمایا جائے گا کہ اللہ کا وعدہ سچا تھا اور یہ قیامت کا دن ہے جو تمہارے سامنے ہے ۔ اگر تم اس دن کا مذاق نہ اڑاتے اور پیغمبروں کی باتوں کو مانتے تو تمہیں یہ برا دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا ۔ تم دنیا کی زندگی کے فریب میں آ کر بہترین اعمال سے غافل ہوگئے تھے۔ اب تم اس جہنم میں رہو ۔ تمہیں بچانے والا کوئی نہ آئے گا ۔ اب توبہ کرنے کا وقت نہیں ہے کیونکہ وہ وقت دنیا میں گزر چکا تم نے جو گناہ کیے تھے ان کی سزا بھگتنا ہی پڑے گا ۔
سورة الجاثیہ کا تعارف الجاثیہ کا نام اس سورة کی ٢٨ آیت میں آیا ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ قیامت کے دن ایک مرحلہ ایسا آئے گا کہ جب ہر امت رب ذوالجلال کے حضور گھٹنوں کے بل جھکی ہوئی ہوگی۔ اس سورة کی سینتس (٣٧) آیات ہیں اور یہ چار رکوعات پر مشتمل ہیں۔ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ ربِط سورة : الدّخان کا اختتام اس فرمان پر ہوا کہ قرآن مجید کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اطہر پر آسان کردیا گیا تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ الجاثیہ کی ابتداء میں ارشاد ہوا کہ قرآن ” اللہ “ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پہچان کے لیے زمین و آسمانوں میں بیشمار نشانیاں ہیں مگر ان لوگوں کے لیے جو ایمان لانے والے ہیں۔ الجاثیہ کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی نشانیاں ذکر فرما کر یہ بتلایا ہے کہ جھوٹا اور مغرور انسان جان بوجھ کر حقیقت کو جھٹلاتا ہے۔ جو لوگ حقیقت کو جھٹلاتے اور اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ مذاق کرتے ہیں انہیں ذلت آمیز عذاب دیا جائے گا۔ اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تمہارے لیے سمندر کو مسخر کردیا تاکہ تم بحری جہازوں اور کشتیوں کے ذریعے اس کا فضل تلاش کرو۔ اس نے انسانوں کے لیے صرف سمندر اور کشتیوں کو تابع نہیں کیا بلکہ زمین و آسمانوں کی ہر چیز کو ان کی خدمت میں لگا رکھا ہے تاکہ لوگ اس پر غوروفکر کریں۔ اس کا ارشاد ہے کہ جس نے اچھے اعمال اختیار کیے۔ ان کا فائدہ صرف اسی کو ہوگا اور جس نے برے اعمال کیے ان کا وبال اس پر ہوگا۔ اور تم سب نے اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ حقیقت بتلائی کہ اللہ تعالیٰ زندگی اور موت کے حوالے سے نیک اور برے لوگوں کو برابر نہیں کرے گا وہ ہر کسی کو اس کے اعمال کا بدلہ دے گا اور کسی پر ذرّہ برابر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ جس شخص نے اپنے نفس کو الٰہ کا درجہ دے دیا حقیقت میں اس نے اپنے آپ کو گمراہ کرلیا ہے۔ ایسے لوگوں کے دلوں پر اللہ تعالیٰ گمراہی کی مہر ثبت کردیتا ہے جس وجہ سے یہ ہدایت پانے سے محروم ہوجاتے ہیں الجاثیہ کے آخر میں فرمایا کہ زمین و آسمانوں کی بادشاہی ” اللہ “ کے ہاتھ میں ہے۔ قیامت کے دن جھوٹے لوگ ذلیل ہوں گے اور نیک لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا جو لوگ اپنے رب کی آیات کا مذاق اڑاتے ہیں انہیں جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ وہاں ان کی کوئی مدد کرنے والا نہیں ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام تعریفات اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو زمین و آسمانوں اور پوری کائنات کا رب ہے اور زمین و آسمانوں میں ہر قسم کی کبریائی اسی کو زیب دیتی ہے کیونکہ وہ ہر کام کرنے پر غالب اور اس کے ہر فرمان اور کام میں حکمت ہوتی ہے۔
سورة الجاثیہ ایک نظر میں یہ بھی مکی سورت ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ مکہ میں مشرکین نے دعوت اسلامی کا استقبال کس طرح کیا اور دعوت اسلامی کی آیات و دلائل کا مقابلہ کس انداز سے کیا۔ دعوت اسلامی کے حقائق اور مسائل اور نظریات کے مقابلے میں ان کا رد عمل کیا رہا۔ غرض انہوں نے بغیر کسی شرم و حیا کے اور واضح سچائی کو دیکھتے ہوئے اور بین دلائل کو سنتے ہوئے بھی پوری طرح اپنی خواہشات کی پیروی کی۔ پھر یہ سورت تصویر بھی دکھاتی ہے کہ قرآن مجید نے ان سنگدل اور ہوا وہوس کے پیچھے سر پٹ دوڑنے والے لوگوں کی اصلاح کے لئے کیا کیا طریقے اختیار کئے۔ ایسے لوگوں کی اصلاح کی خاطر جن کے دل پردوں اور غلافوں میں لپٹے ہوئے تھے اور ہدایت قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ ایسے لوگوں کے سامنے قرآن کریم نے نہایت ہی گہرے اثر والے دلائل اور نہایت ہی فیصلہ کن براہین پیش کئے۔ ان کو عذاب الٰہی سے ڈرایا ، ان کے سامنے جنت کی تصویر پیش کی۔ اللہ کے سنن گنوائے اور اس کائنات میں چلنے والے نوامیس فطرت بتائے۔ اس سورت کی آیات اور اس کے مناظر کے درمیان ہمیں اس قسم کے کردار بھی نظر آتے ہیں جن کو گمراہی پر اصرار ہے ، جو حق کے مقابلے میں ناحق ڈٹے ہوئے ہیں ، دعوت اسلامی کے ساتھ سخت عناد رکھتے ہیں ، اللہ کے حق میں اور اللہ کے کلام کے حق میں نازیبا باتیں کرتے ہیں۔ یہ آیات ایسے لوگوں کی تصویر حقیقی رنگ میں پیش کرتی ہیں اور ان کو مناسب سرزنش کرتی ہے۔ اللہ کے عذاب الیم و عظیم سے ڈراتی ہیں اور نہایت ہی توہین آمیز انجام کے بارے میں بتاتی ہیں۔ ویل لکل افاک اثیم (٧) یسمع ایت ۔۔۔۔۔۔ بعذاب الیم (٨) واذا علم من ۔۔۔۔۔۔ عذاب مھین (٩) من ورائھم ۔۔۔۔ عذاب عظیم (١٠) (٤٥ : ٧ تا ١٠) ” تباہی ہے ہر اس جھوٹے بد اعمال شخص کے لئے جس کے سامنے اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں ، اور وہ ان کو سنتا ہے ، پھر پورے غرور کے ساتھ اپنے کفرپر اس طرح اڑا رہتا ہے کہ گویا اس نے ان کو سنا ہی نہیں۔ ایسے شخص کو دردناک عذاب کا مژدہ سنا دو اور ہماری آیات میں سے کوئی بات جب اس کے علم میں آتی ہے تو وہ اس کا مذاق بنا لیتا ہے ۔ ایسے سب لوگوں کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔ ان کے آگے جہنم ہے جو کچھ بھی انہوں نے دنیا میں کمایا ہے اس میں سے کوئی چیز ان کے کام نہ آئے گی۔ نہ ان کے وہ سرپرست ہی ان کے کچھ کام آئیں گے جنہیں اللہ کو چھوڑ کر انہوں نے اپنا ولی بنا رکھا تھا ان کے لئے بڑ عذاب ہے۔ اس سورت میں ہم ایک ایسے گروہ سے بھی ملتے ہیں جن کا تصور اور جن کے اندازے بالکل غلط ہیں۔ غالباً یہ اہل کتاب ہیں۔ یہ لوگ خالص ایمان کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے ، نہایت بدکار لوگ ہیں یہ اور ان کے مقابلے میں اہل ایمان نہایت ہی اچھے لوگ ہیں لیکن وہ اس فرق کو نہیں سمجھتے۔ قرآن کریم انہیں سمجھاتا ہے کہ ایسے دونوں گروہوں کے درمیان اللہ تعالیٰ کے پیمانوں کے مطابق بہت بڑا فرق ہے اور ان کو بتایا جاتا ہے کہ ان کا نظریہ اور ان کے یہ فیصلے کس قدر غلط ہیں ، اللہ کے پیمانوں کے مطابق تمام معاملے اس میزان عدل کے مطابق ہوتے ہیں جس کو اس پوری کائنات کے لئے ریڑھ کی ہڈی بنایا گیا ہے۔ ام حسب الذین ۔۔۔۔۔ ما یحکمون (٢١) وخلق اللہ السموت ۔۔۔۔۔ ۔ (٢٢) (٤٥ : ٢١ تا ٢٢) “ کیا وہ لوگ جنہوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا ہے ، یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم انہیں اور ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ایک جیسا کردیں گے کہ ان کا جینا اور مرنا یکساں ہوجائے گا ؟ بہت برے حکم ہیں جو یہ لوگ لگاتے ہیں۔ اللہ نے تو آسمان اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے اور اس لیے ہے کہ ہر متنفس کو اس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے ، لوگوں پر ظلم ہرگز نہ کیا جائے گا ”۔ ایک کردار ایسا بھی ہمارے سامنے آتا ہے جو صرف نفس کے قاضی کے فیصلے مانتا ہے۔ گویا اس کا الٰہ اس کے اندر ہے اور یہ اسی کا مطیع فرمان ہے۔ ایسے کرداروں کی ایک انوکھی تصویر کھینچی گئی ہے۔ یہ شخص اپنی اس روش پر خوب اتراتا ہے۔ افرء یت من اتخذ ۔۔۔۔۔ افلا تذکرون (٤٥ : ٢٣) “ پھر کبھی تو نے اس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہی میں پھینک دیا اور اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اسے ہدایت دے کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے ”۔ یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ قیامت کے منکر ہیں اور وہ حشر ونشر کے بارے میں پوری طرح شک میں مبتلا ہیں۔ اور نہایت ہی ہٹ دھرمی کے ساتھ اس قسم کی دلیل طلب کرتے جس کا مظاہرہ اس دنیا میں زمین پر نہیں ہو سکتا۔ قرآن کریم ایسے لوگوں کے سامنے بھی ایسے دلائل پیش کرتا ہے جو موجود ہیں۔ یہ نہایت ہی دل پذیر دلائل ہیں۔ لیکن یہ لوگ ان سے منہ موڑتے ہیں۔ وقالوا ما بھی ۔۔۔۔۔۔ الا یظنون (٢٤) واذا تتلی علیھم ۔۔۔۔۔۔ ان کنتم صدقین (٢٥) قل اللہ یحییکم ثم۔۔۔۔۔ لا یعلمون (٢٦) (٤٥ : ٢٤ تا ٢٦) “ یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے۔ یہیں ہمارا مرنا اور جینا ہے۔ اور گردش ایام کے سوا کوئی چیز نہیں جو ہمیں ہلاک کرتی ہو۔ در حقیقت اس معاملہ میں ان کے پاس کوئی علم نہیں۔ یہ محض گمان کی بنا پر باتیں کرتے ہیں اور جب ہماری واضح آیات انہیں سنائی جاتی ہیں تو ان کے پاس کوئی حجت اس کے سوا نہیں ہوتی کہ اٹھا لاؤ ہمارے باپ دادا کو اگر تم سچے ہو۔ اے نبی ؐ ان سے کہو اللہ ہی تمہیں زندگی بخشتا ہے۔ پھر وہی موت دیتا ہے پھر وہی تم کو قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شک نہیں مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ”۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سب لوگ ایک ہی گروہ ہوں اور یہی گروہ یہ سب باتیں کرتا ہو اور قرآن کریم جگہ جگہ ، ان کی بات کرتا ہو ، لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ مختلف گروہ ہوں اور مکہ میں اپنی اپنی جگہ میں کام کرتے ہوں اور ان میں بعض اہل کتاب بھی ہوں۔ اگرچہ اہل کتاب مکہ میں بہت ہی قلیل تھے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اشارہ انہی اہل کتاب کی طرف ہو اور اہل مکہ کو نصیحت کے لئے یہ بات کہی جا رہی ہو۔ اگرچہ وہ مکہ میں موجود نہ ہوں۔ بہرحال قرآن کریم نے ان لوگوں کی یہ صفات دے کر یہاں ان کی تردید کی۔ اور اس سورت میں ان کے بارے میں مفصل بات کی۔ قرآن کریم نے ان کے سامنے آفاق اور انفس کے دلائل بھی پیش کئے اور ان کو قیامت کے دن سے ڈرایا اور یہ بھی بتایا کہ ذرا تاریخ انسانی کے جھروکوں میں سے دیکھو کہ مکذبین کس انجام سے دوچار ہوتے رہے۔ ان کے سامنے قرآن مجید نے نہایت ہی سادہ اور پر تاثیر اسلوب میں بات پیش کی : ان فی السموت ۔۔۔۔۔۔ للمومنین (٣) وفی خلقکم ۔۔۔۔۔۔ یوقنون (٤) واختلاف الیل ۔۔۔۔۔ لقوم یعقلون (٥) تلک ایت اللہ ۔۔۔۔۔۔ وایتہ یومنون (٦) (٤٥ : ٣ تا ٦) “ حقیقت یہ ہے کہ آسمان اور زمین میں بیشمار نشانیاں ہیں ، ایمان لانے والوں کے لئے۔ اور تمہاری اپنی پیدائش میں اور ان حیوانات میں جن کو اللہ پھیلا رہا ہے ، بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو یقین لانے والے ہیں اور شب و روز کے فرق و اختلاف میں اور اس رزق میں جسے اللہ آسمانوں سے نازل فرماتا ہے پھر اس کے ذریعہ سے مردہ زمین کو جلا اٹھاتا ہے اور ہواؤں کی گردش میں ، بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جو ہم تمہارے سامنے ٹھیک ٹھیک بیان کر رہے ہیں۔ آخر اللہ اور اس کی آیات کے بعد اور کون سی بات ہے جس پر یہ لوگ ایمان لائیں گے ”۔ اور یہ دلائل و نشانات اللہ ان کے سامنے اپنے انعامات میں سے کسی نہ کسی شکل میں پیش فرماتا ہے ، جن کو انہوں نے بھلا دیا تا کہ وہ انہیں یاد کریں اور ان پر غور کریں۔ اللہ الذی سخرلکم ۔۔۔۔۔۔۔ تشکرون (١٢) وسخرلکم ۔۔۔۔۔ یتفکرون (١٣) (٤٥ : ١٢ تا ١٣) “ وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے سمندر کو مسخر کیا تا کہ اس کے حکم سے کشتیاں اس میں چلیں اور تم اس کا فضل تلاش کرو ، اور شکر گزار ہو۔ اس نے زمین و آسمان کی ساری ہی چیزوں کو تمہارے لیے مسخر کردیا۔ سب کچھ اپنے پاس سے۔ اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غوروفکر کرنے والے ہیں ”۔ پھر اللہ نے ان کے سامنے ان حالات کا خوبصورت نقشہ بھی رکھ دیا ہے اس دن کا جس یہ انکار کرتے ہیں اور جس میں ان کو گہرا شک ہے۔ وللہ ملک السموت ۔۔۔۔۔ یخسر المبطلون (٢٧) وتری کل امۃ ۔۔۔۔۔۔ کنتم تعملون (٢٨) ھذا کتابنا ینطق ۔۔۔۔۔ تعملون (٢٩) فاما الذین امنوا ۔۔۔۔۔۔ الفوز المبین (٣٠) واما الذین کفروا۔۔۔۔۔۔ مجرمین (٣١) واذا قیل ان ۔۔۔۔۔۔ بمستقنین (٣٢) وبدالھم سیات ما عملوا ۔۔۔۔۔۔۔ یستھزءون (٣٣) وقیل الیوم ۔۔۔۔۔۔۔ من نصرین (٣٤) ذلکم بانکم اتخذتم ۔۔۔۔۔۔۔ ھم یستعتبون (٣٥) (٤٥ : ١٧ تا ٣٥) “ اور جس روز قیامت کی گھڑی ہوگی اس دن باطل پرست خسارے میں پڑجائیں گے۔ اس دن ہر گر وہ کو گھٹنوں کے بل گرا دیکھو گے۔ ہر گروہ کا پکارا جائے گا کہ آئے اور اپنا نامہ اعمال دیکھے۔ ان سے کہا جائے گا ، آج تم لوگوں کو تمہارے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا جو تم کر رہے تھے۔ یہ ہمارا تیار کیا ہوا اعمال نامہ ہے ، جو تمہارے اوپر ٹھیک ٹھیک شہادت دے رہا ہے ، جو کچھ بھی تم کرتے تھے ، اسے ہم لکھواتے جا رہے تھے۔ پھر جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تھے۔ انہیں ان کا رب اپنی رحمت میں داخل کرے گا اور یہی صریح کامیابی ہے اور جن لوگوں نے کفر کیا تھا ۔ کیا میری آیات تم کو نہیں سنائی جاتی تھیں مگر تم نے تکبر کیا اور مجرم بنے رہے اور جب کہا جاتا تھا کہ اللہ کا وعدہ برحق ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں تو تم کہتے تھے کہ ہم نہیں جانتے قیامت کیا ہوتی ہے۔ ہم تو بس ایک گمان سا رکھتے ہیں۔ یقین ہم کو نہیں ”۔ اس وقت ان پر ان کے اعمال کی برائیاں کھل جائیں گی اور وہ اس چیز کے پھیر میں آجائیں گے جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے اور ان سے کہہ دیا جائے گا کہ “ آج ہم بھی اس طرح تمہیں بھلائے دیتے ہیں جس طرح تم اس دن کی ملاقات کو بھول گئے تھے تمہارا ٹھکانا اب دوزخ ہے۔ اور کوئی تمہاری مدد کرنے والا نہیں ہے۔ یہ تمہارا انجام اس لیے ہوا کہ تم نے اللہ کی آیات کا مذاق بنا لیا تھا اور تمہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا تھا۔ لہٰذا آج نہ یہ لوگ دوزخ سے نکالے جائیں گے اور نہ ان سے کہا جائے گا کہ معافی مانگ کر اپنے رب کو راضی کرو ”۔ اس طرح اللہ نے منصفانہ جزاء و سزا اور ہر شخص کی انفرادی ذمہ داری کے اصول میں کوئی شک نہیں رہنے دیا اس لیے یہ بتایا گیا کہ یہ اصول اس کائنات کے وجود میں بہت ہی گہرا ہے۔ اس اصول پر یہ کائنات قائم ہے۔ اس آیت میں کہا گیا : من عمل صالحا۔۔۔۔۔۔ ربکم ترجعون (٤٥ : ١٥) “ جو کوئی نیک عمل کرے گا اپنے ہی لیے کرے گا اور جو برائی کرے گا وہ آپ ہی اس کا خمیازہ بھگتے گا۔ پھرجانا تو سب کو رب ہی کی طرف ہے ”۔ اور جو لوگ بدکاریاں کرتے ہیں اور پھر یہ زعم رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کے ہاں مومنین ہی کی طرح ہوں گے جو نیک کام کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ وخلق اللہ ۔۔۔۔۔۔ لا یظلمون (٤٥ : ٢٢) “ اللہ نے تو آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے اور اس لیے کیا ہے کہ ہر متنفس کو اس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے اور لوگوں پر ظلم نہ کیا جائے ”۔ یہ پوری سورت ایک ہی ٹکڑا ہے لیکن ہم نے تشریح کی سہولت کے لئے اسے دو شعبوں میں تقسیم کردیا ہے۔ اس کا آغاز حروف مقطعات حاء میم سے ہوتا ہے۔ پھر قرآن کریم کے نزول کی طرف اشارہ ہے۔ تنزیل الکتب ۔۔۔۔۔ الحکیم (٤٥ : ٢) “ کتاب کا نزول اللہ کی طرف سے ہے جو زبردست اور حکم ہے ”۔ اور اس کا خاتمہ بھی حمد الٰہی اور اللہ کی عام ربوبیت سے بیان ہوتا ہے۔ نیز اللہ کی پاکی اور عظمت کے بیان پر ہوتا ہے اور یہ حمد و ثنا اور عظمت اور تمجید ان لوگوں کے خیالات کے مقابلے میں بیان کی گئی جو اللہ کی آیات کا مذاق اڑاتے ہیں اور ٹھٹھے مارتے ہیں۔ فللہ الحمد۔۔۔۔۔ رب العلمین (٤٥ : ٣٦) ولہ الکبریاء ۔۔۔۔۔ العزیز الحکیم (٤٥ : ٣٧) “ پس تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو زمین اور آسمانوں کا مالک ہے اور سارے جہاں والوں کا پروردگار ہے۔ زمین و آسمانوں میں بڑائی اسی کے لئے ہے اور وہی زبردست اور دانا ہے ”۔ اس سورت کا انداز بیان سورت دخان کے مقابلے میں سہل ، دھیما ، واضح اور گہرا اور سنجیدہ ہے جبکہ سورة دخان نہایت پر شوکت اور شدید اور رعب دار انداز میں تھی۔ جس میں قلب و ضمیر اور دل و دماغ پر شدید ضربات لگائی گئی تھیں۔ اللہ تمام دلوں کا خالق ہے۔ قرآن کا نازل کرنے والا ہے ، بعض اوقات اصلاح کے لئے سخت انداز اختیار کرتا ہے اور بعض اوقات نہایت ہی نرم و نازک ، درشتی و نرمی ، بہم درجہ است۔ موقع و محل اور حالات کے مطابق۔ اللہ لطیف وخبیر ہے اور عزیز و حکیم ہے۔ اب تفصیلات تشریح۔ ٭٭٭٭