Surat ul Jasiya

Surah: 45

Verse: 17

سورة الجاثية

وَ اٰتَیۡنٰہُمۡ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ ۚ فَمَا اخۡتَلَفُوۡۤا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ ۙ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ اِنَّ رَبَّکَ یَقۡضِیۡ بَیۡنَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فِیۡمَا کَانُوۡا فِیۡہِ یَخۡتَلِفُوۡنَ ﴿۱۷﴾

And We gave them clear proofs of the matter [of religion]. And they did not differ except after knowledge had come to them - out of jealous animosity between themselves. Indeed, your Lord will judge between them on the Day of Resurrection concerning that over which they used to differ.

اور ہم نے انہیں دین کی صاف صاف دلیلیں دیں پھر انہوں نے اپنے پاس علم کے پہنچ جانے کے بعد آپس کی ضد بحث سے ہی اختلاف برپا کر ڈالا یہ جن جن چیزوں میں اختلاف کر رہے ہیں ان کا فیصلہ قیامت والے دن ان کے درمیان ( خود ) تیرا رب کرے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَاتَيْنَاهُم بَيِّنَاتٍ مِّنَ الاْاَمْرِ ... And gave them clear proofs in matters. i.e. `We gave them evidences, proofs and unequivocal signs.' ... فَمَا اخْتَلَفُوا إِلاَّ مِن بَعْدِ مَا جَاءهُمْ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ... And they differed not until after the knowledge came to them, through envy among themselves. Therefore, the proof has been established against them, yet they differed among themselves after the proof came to them, out of transgression against each other, ... إِنَّ رَبَّكَ ... Verily, your Lord (`O Muhammad'), ... يَقْضِي بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ will judge between them on the Day of Resurrection about that wherein they used to differ. He will judge between them by His just judgement. Warning to this Ummah against following the Ways of the Children of Israel This Ayah contains a warning to the Muslim Ummah as well. It warns them not to take the path the Jews took nor adopt their ways. This is why Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 آپس میں ایک دوسرے سے حسد اور بغض وعناد کا مظاہرہ کرتے ہوئے یا جاہ و منصب کی خاطر۔ انہوں نے اپنے دین میں، علم آجانے کے باوجود، اختلاف یا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت سے انکار کیا۔ 17۔ 2 یعنی اہل حق کو اچھی جزا اور اہل باطل کو بری جزا دے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٢] یہاں امر سے مراد اقامت دین ہے۔ کہ اللہ کے دین کو دنیا میں قائم اور نافذ کرنے کے لیے انہیں تمام ہدایات دے دی گئی تھیں اور یہ ہدایت بالکل واضح تھیں۔ [٢٣] فرقہ بازی کی اصل وجوہ نفسانی خواہشات :۔ یعنی اختلافات یا تفرقہ بازی کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ کسی اختلاف کا فیصلہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح ہدایات موجود نہیں ہوتیں اور معاملہ اختلافی بن جاتا ہے۔ بلکہ ان اختلافات اور تفرقہ بازی کی وجوہ کچھ اور ہی ہوتی ہیں۔ ان وجوہ کو پوری طرح سمجھنے کے لیے مسلمانوں کے موجودہ فرقوں پر ہی نظر ڈال لیجئے۔ کتاب و سنت ایک ہی ہے۔ اور وہ سب فرقوں کے پاس موجود ہے اور ہر فرقہ کتاب و سنت سے ہی استدلال کرکے اپنے فرقہ کے مخصوص عقائد و اعمال کو برحق ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر کوئی تو کتاب اللہ کی غلط سلط تاویل کرکے اسے اپنے نظریہ کے مطابق بنا لیتا ہے۔ کوئی کتاب و سنت کو اپنے اماموں کے اقوال کے تحت رکھ کر ان سے وہی مفہوم اخذ کرتا ہے جو اس کے امام کے قول کے مطابق ہو۔ پھر اس میں اپنے اپنے ذاتی مفادات یعنی طلب مال اور جاہ کا حصول بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ ہر ایک کو اپنا اپنا جھنڈا بلند رکھنے کی فکر ہوتی ہے۔ پھر فرقوں کی آپس میں باہمی کھینچا تانی اور ضدم ضدی سے ان میں اختلافات کی خلیج مزید وسیع ہوتی جاتی ہے۔ پھر کچھ اختلافات مذہبی قسم کے ہوتے ہیں اور کچھ سیاسی قسم کے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کتاب و سنت ایک ہونے کے باوجود امت مسلمہ بیسیوں فرقوں میں بٹ گئی ہے۔ یہی حال بنی اسرائیل کا تھا۔ [٢٤] کوئی بھی تعصب چھوڑنا گوارا نہیں کرتا :۔ یہ فرقے اپنے اپنے مخصوص نظریات و عقائد میں اس قدر متشدد ہوجاتے ہیں اور اس قدر تعصب ان میں پیدا ہوجاتا ہے کہ ان کے لیے اختلاف کو ختم کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ اس دنیا میں تو وہ کبھی ان اختلافات کو چھوڑنا تو درکنار، یہ سننے کے لیے بھی آمادہ نہیں ہوتے کہ ان کا فلاں عقیدہ یا فلاں مسئلہ کتاب وسنت کی رو سے غلط ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان پر خوب واضح کر دے گا کہ میں نے تو یہ حکم اس طرح دیا تھا اور تم نے اس حکم کے الفاظ کو غلط جامہ پہنچا کر اپنا الو سیدھا کرلیا تھا یا تمہارے اختلاف کی اصل وجہ دین کی اشاعت نہ تھی بلکہ اصل وجہ یہ تھی۔ پھر اس وقت وہ اللہ کے فیصلہ کے سامنے چوں و چرا تک نہ کرسکیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) واتینم بینت من الامر : یعنی ہم نے انھیں دنی کے بارے میں واضح احکام دیئے، جن میں کوئی ابہام یا پیچیدگی نہیں تھی، نہ ان سے اختلاف یا ان سے فرار کی کوئی صورت تھی۔ (٢) فما اختلفوا الا من بعد ماجآء ھم العلم…: یعنی ان میں جو اختلاف رونما ہوا وہ جہل یا ناواقفیت کی بنا پر نہ تھا، بلکہ دیکھیے سورة یونس (٩٣) اور سورة شوریٰ (١٥) کی تفسیر۔ اس آیت میں ہماری امت کے لئے بھی زبردست تنبیہ ہے کہ اگر انہوں نے اللہ کی طرف سے آنے والے علم یعنی قرآن و سنت کیے ساتھ وہی برتاؤ کیا جو یہود و نصاریٰ نے کیا تھا تو ان کا انجام بھی انہی جیسا ہوگا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary These verses purport to confirm the risalah of the Final Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Under this subject-matter, the Prophet of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is consoled for the persecution carried out by the enemies against him. إِنَّ رَ‌بَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ (|"...Surely your Lord will judge between them, on the Day of Judgment, in the matters in which they used to differ... 45:17) |" This far the verses confirm two points: This verse purports to say, firstly, that the Book of Musa (علیہ السلام) contains many clear prophecies about the advent of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and, secondly to comfort the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that the Israelites rejected him not because there was any dearth of arguments, signs and Divine prophecies to support and establish his claim, but because of jealousy, love of the world and personal desires, that is, they did not like the very idea that the Final Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) should have appeared from among the non-Israelites . (Bayan-ul-Qur’ an).

معارف و مسائل ان آیات کا موضوع آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا اثبات ہے اور اس کے ضمن میں کفار کی ایذا رسانیوں پر آپ کی تسلی بھی فرمائی گئی ہے۔ (آیت) اِنَّ رَبَّكَ يَقْضِيْ بَيْنَهُمْ الخ یہاں تک کے مضمون آیات سے دو باتیں مستفاد ہوئیں، ایک تو بنی اسرائیل کو کتاب و نبوت دینے سے آپ کی نبوت کی تائید، دوسرے آپ کی تسلی کہ بنی اسرائیل کو اختلاف کی وجہ جو پیش آئی تھی وہی آپ کی قوم کو آپ کے ساتھ اختلاف کرنے میں پیش آئی ہے یعنی حب دنیا اور حسد و نفسانیت یہ نہیں کہ آپ کے دلائل میں کچھ کمی ہو پس آپ غم نہ کریں۔ (بیان القرآن)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاٰتَيْنٰہُمْ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْاَمْرِ۝ ٠ ۚ فَمَا اخْتَلَفُوْٓا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَہُمُ الْعِلْمُ۝ ٠ ۙ بَغْيًۢا بَيْنَہُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّ رَبَّكَ يَقْضِيْ بَيْنَہُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ فِــيْمَا كَانُوْا فِيْہِ يَخْتَلِفُوْنَ۝ ١٧ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی بينات يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] ، وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] ، ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 55] ، قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة/ 256] ، قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران/ 118] ، وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف/ 63] ، وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل/ 39] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات . والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «2» ، وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ( ب ی ن ) البین کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 55] اور اس لئے کہ گنہگاروں کا رستہ ظاہر ہوجائے ۔ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة/ 256] ہدایت صاف طور پر ظاہر ( اور ) گمراہی سے الگ ہوچکی ہو ۔ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران/ 118] ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنا دیں ۔ وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف/ 63] نیز اس لئے کہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کررہے ہو تم کو سمجھا دوں وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادت ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل/ 39] تاکہ جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں وہ ان پر ظاہر کردے ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ اور بیان کرنے والے کے اعتبار ہے آیت کو مبینۃ نجہ کہا جاتا ہے کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے الاختلافُ والمخالفة والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا بغي البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، والبَغْيُ علی ضربین : - أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع . - والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری/ 42] ( ب غ ی ) البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ بغی دو قسم پر ہے ۔ ( ١) محمود یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔ ( 2 ) مذموم ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شبہات میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ { السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ } ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے قضی الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی: وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] أي : أمر بذلک، ( ق ض ی ) القضاء کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ قِيامَةُ والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] ، القیامتہ سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔ كان كَانَ «3» : عبارة عمّا مضی من الزمان، وفي كثير من وصف اللہ تعالیٰ تنبئ عن معنی الأزليّة، قال : وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب/ 40] ، وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب/ 27] وما استعمل منه في جنس الشیء متعلّقا بوصف له هو موجود فيه فتنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له، قلیل الانفکاک منه . نحو قوله في الإنسان : وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء/ 67] وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء/ 100] ، وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف/ 54] فذلک تنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له قلیل الانفکاک منه، وقوله في وصف الشّيطان : وَكانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا [ الفرقان/ 29] ، وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء/ 27] . وإذا استعمل في الزمان الماضي فقد يجوز أن يكون المستعمل فيه بقي علی حالته كما تقدّم ذكره آنفا، ويجوز أن يكون قد تغيّر نحو : كَانَ فلان کذا ثم صار کذا . ولا فرق بين أن يكون الزمان المستعمل فيه کان قد تقدّم تقدما کثيرا، نحو أن تقول : کان في أوّل ما أوجد اللہ تعالی، وبین أن يكون في زمان قد تقدّم بآن واحد عن الوقت الذي استعملت فيه کان، نحو أن تقول : کان آدم کذا، وبین أن يقال : کان زيد هاهنا، ويكون بينک وبین ذلک الزمان أدنی وقت، ولهذا صحّ أن يقال : كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] فأشار بکان أنّ عيسى وحالته التي شاهده عليها قبیل . ولیس قول من قال : هذا إشارة إلى الحال بشیء، لأنّ ذلك إشارة إلى ما تقدّم، لکن إلى زمان يقرب من زمان قولهم هذا . وقوله : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران/ 110] فقد قيل : معنی كُنْتُمْ معنی الحال «1» ، ولیس ذلک بشیء بل إنما ذلک إشارة إلى أنّكم کنتم کذلک في تقدیر اللہ تعالیٰ وحكمه، وقوله : وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة/ 280] فقد قيل : معناه : حصل ووقع، والْكَوْنُ يستعمله بعض الناس في استحالة جو هر إلى ما هو دونه، وكثير من المتکلّمين يستعملونه في معنی الإبداع . وكَيْنُونَةٌ عند بعض النّحويين فعلولة، وأصله : كَوْنُونَةٌ ، وكرهوا الضّمة والواو فقلبوا، وعند سيبويه «2» كَيْوِنُونَةٌ علی وزن فيعلولة، ثم أدغم فصار كَيِّنُونَةً ، ثم حذف فصار كَيْنُونَةً ، کقولهم في ميّت : ميت . وأصل ميّت : ميوت، ولم يقولوا كيّنونة علی الأصل، كما قالوا : ميّت، لثقل لفظها . و «الْمَكَانُ» قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل : تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] . ( ک و ن ) کان ۔ فعل ماضی کے معنی کو ظاہر کرتا ہے پیشتر صفات باری تعا لےٰ کے متعلق استعمال ہو تو ازلیت ( یعنی ہمیشہ سے ہے ) کے معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب/ 40] اور خدا ہر چیز واقف ہے ۔ وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب/ 27] اور خدا ہر چیز پر قادر ہے ۔ اور جب یہ کسی جنس کے ایسے وصف کے متعلق استعمال ہو جو اس میں موجود ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ یہ وصف اس اسم کے ساتھ لازم وملزوم رہتا ہے اور بہت ہی کم اس علیحدہ ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات : ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء/ 67] اور انسان ہے ہی ناشکرا ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء/ 100] اور انسان دل کا بہت تنگ ہے ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف/ 54] اور انسان سب چیزوں سے بڑھ کر جھگڑا لو ہے ، میں تنبیہ کی ہے کہ یہ امور انسان کے اوصاف لازمہ سے ہیں اور شاذ ونا ور ہی اس سے منفک ہوتے ہیں اسی طرح شیطان کے متعلق فرمایا : ۔ كانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا[ الفرقان/ 29] اور شیطان انسان کی وقت پر دغا دینے والا ہے ۔ وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء/ 27] اور شیطان اپنے پروردگار کی نعمتوں کا کفران کرنے والا یعنی نا قدرا ہے ۔ جب یہ فعل زمانہ ماضی کے متعلق استعمال ہو تو اس میں یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ وہ چیز تا حال اپنی پہلی حالت پر قائم ہو اور یہ بھی کہ اس کی وہ حالت متغیر ہوگئی ہو مثلا کان فلان کذا ثم صار کذا ۔ یعنی فلاں پہلے ایسا تھا لیکن اب اس کی حالت تبدیل ہوگئی ہے نیز یہ ماضی بعید کے لئے بھی آتا ہے جیسے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فلاں چیز پیدا کی تھی اور ماضی قریب کے لئے بھی حتی کہ اگر وہ حالت زمانہ تکلم سے ایک لمحہ بھی پہلے ہوتو اس کے متعلق کان کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے لہذا جس طرح کان ادم کذا کہہ سکتے ہیں اسی طرح کان زید ھھنا بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس بنا پر آیت : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا[ مریم/ 29]( وہ بولے کہ ) ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے کیونکہ بات کریں ۔ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جو ابھی گو د کا بچہ تھا یعنی کم عمر ہے اور یہ بھی کہ جو ابھی گود کا بچہ ہے یعنی ماں کی گود میں ہے لیکن یہاں زمانہ حال مراد لینا بےمعنی ہے اس میں زمانہ قریب ہے جیسے آیت : ۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران/ 110] جتنی امتیں ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو ۔ میں بھی بعض نے کہا ہے کہ کنتم زمانہ حالپر دلالت کرتا ہے لیکن یہ معنی صحیح نہیں ہیں بلکہ معنی یہ ہیں کہ تم اللہ کے علم اور حکم کے مطابق بہتر تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة/ 280] اور اگر ( قرض لینے والا ) تنگ دست ہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں کان کے معنی کسی چیز کا واقع ہوجانا کے ہیں اور یہ فعل تام ہے ۔ یعنی اگر وہ تنگدست ہوجائے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کون کا لفظ کسی جوہر کے اپنے سے پست تر جو میں تبدیل ہونے کے لئے آتا ہے اور اکثر متکلمین اسے معنی ابداع میں استعمال کرتے ہیں بعض علامائے نحو کا خیال ہے کہ کینونۃ کا لفظ اصل میں کو نو نۃ بر وزن فعلولۃ ہے ۔ ثقل کی وجہ سے واؤ سے تبدیل ہوگئی ہے مگر سیبو کے نزدیک یہ اصل میں کیونو نۃ بر وزن فیعلولۃ ہے ۔ واؤ کو یا میں ادغام کرنے سے کینونۃ ہوگیا پھر ایک یاء کو تخفیف کے لئے گرادیا تو کینونۃ بن گیا جیسا کہ میت سے میت بنا لیتے ہیں جو اصل میں میوت ہے ۔ فرق صرف یہ ہے ۔ کہ کینو نۃ ( بتشدید یاء کے ساتھ اکثر استعمال ہوتا ہے المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ہم نے دین کے بارے میں انہیں واضح دلیلیں دیں مگر انہوں نے اپنی کتاب کے ذریعے علم آجانے کے بعد رسول اکرم اور قرآن کریم اوردین اسلام میں اختلاف کیا اور آپس کے حسد کی وجہ سے ان کا انکار کیا۔ اے نبی اکرم آپ کا پروردگار یہود و نصاری اور مسلمانوں کے درمیان قیامت کے دن ان امور میں جن میں یہ دنیا میں باہم مختلف تھے فیصلہ کردے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ { وَاٰتَیْنٰہُمْ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْاَمْرِ } ” اور ہم نے انہیں عطا کیں دین کے معاملہ میں واضح ہدایات۔ “ یہاں ” امر “ سے مراد دین و شریعت ہے۔ یعنی ان کے انبیاء کو وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام ضروری ہدایات مسلسل ملتی رہیں۔ اس کے علاوہ انہیں تورات ‘ زبور اور انجیل جیسی کتابیں بھی عطا گئیں۔ { فَمَا اخْتَلَفُوْٓا اِلَّا مِنْم بَعْدِ مَا جَآئَ ہُمُ الْعِلْمُ لا بَغْیًام بَیْنَہُمْ } ” اور انہوں نے نہیں اختلاف کیا مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس علم آچکا تھا ‘ محض باہمی ِضدم ّضدا کے سبب سے۔ “ کتاب اللہ کی واضح تعلیمات ان لوگوں تک پہنچ چکی تھیں۔ اس کے باوجود ضد بازی کی بنیاد پر ان کے اندر شدید اختلافات پیدا ہوگئے اور انہی اختلافات کی وجہ سے یہ قوم مختلف گروہوں میں بٹ گئی۔ پہلے یہودی اور نصاریٰ الگ الگ ہوئے اور پھر ان دونوں گروہوں کے اندر باہمی ضدم ضدا کے باعث مزید کئی کئی فرقے بن گئے۔ دراصل کسی بھی قوم کی صفوں میں اختلاف کی بنیادی وجہ غلبہ حاصل کرنے کی وہ خواہش (urge to dominate) ہوتی ہے جو اس کے ہر دھڑے میں پائی جاتی ہے۔ ان اختلافات سے تفرقہ بازی جنم لیتی ہے جس کے باعث بالآخر اس قوم کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ { اِنَّ رَبَّکَ یَقْضِیْ بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ } ” یقینا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب فیصلہ کر دے گا ان کے مابین قیامت کے دن ان تمام باتوں کا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

22 For explanation, see AI-Baqarah: 213, AI-'Imran: 19 and E.N.'s 22, 23 of Ash-Shura.

سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :22 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، البقرہ ، حاشیہ ۲۳ ، آل عمران ، حواشی ۱۷ ۔ ۱۸ ۔ جلد چہارم ، الشوریٰ ، حواشی نمبر 22 ۔ 23 ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

5: یعنی بنو اسرائیل کو تورات کا علم دیا گیا تھا، اس کے باوجود انہوں نے ایک دوسرے سے حسد اور ضد کی وجہ سے آپس میں پھوٹ ڈال لی، اور اختلافات میں پڑگئے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(45:17) بینت من الامر : بینت کھلی ہوئی دلیلیں۔ روشن اور واضح دلیلیں۔ بینۃ کی جمع۔ کھول کر بیان کی ہوئی۔ تبیین (تفعیل مصدر سے) الامر سے مراد امر دین ہے۔ یعنی امر دین کی واضح دلیلیں و احکام۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان تمام امور کا علم عطا فرما دیا تھا جن کو جانن اور ان پر عقیدہ رکھنا ضرور تھا۔ یہاں تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اور بعثت کی نشانیاں بھی بتادی تھیں۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اتنا ہی یقینی طور پر جانتے اور پہچانتے تھے جتنا کہ اپنی اولاد کو پہچانتے تھے۔ بغیا : تمیز ۔ ضد ، زیادتی، بینھم۔ مضاف مضاف الیہ ایک دوسرے کے مابین ۔ باہمی ۔ ترجمہ : اور ہم نے ان کو دین کے بارے میں روشن اور واضح احکام دیدئے۔ پس انہوں نے اختلاف نہ کیا مگر بعد اس کے کہ اس کا علم ان کو ہوچکا تھا۔ محض آپس میں ضد کی وجہ سے دوسرے پر زیادتی کرنے کی خواہش تھی۔ یقضی مضارع واحد مذکر غائب قضاء مصدر باب ضرب۔ وہ فیصلہ کردیگا۔ یوم القیامۃ۔ مضاف مضاف الیہ۔ یوم منصوب بوجہ مفعول فیہ ہے۔ فیما کانوا فیہ یختلفون : فی بابت، متعلق۔ ما موصولہ۔ کانوا یختلفون صلہ۔ فیہ (جار مجرور۔ ہ ضمیر امر کی طرف راجع ہے۔ جس امر میں۔ بیشک تیرا رب قیامت کے دن ان کے درمیان جس امر دین کے متعلق وہ باہمی اختلاف رکھتے تھے اس کا فیصلہ فرما دیگا۔ یعنی جزاو سزا کی شکل میں عملی فیصلہ کر دیگا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی ان میں جو اختلاف رونما ہوا وہ جہالت اور ناواقفیت کی بنا پر نہ تھا بلکہ وہ انبیاء کے ذریعہ صحیح راہ کا علم آجانے کے بعد رونما ہوا اور اس کی بنیاد سراسر ضد اور خودپسندی پر تھی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ غرض سب ہی طرح کی نعمتیں ان کو دیں۔ 5۔ اس مضمون سے مراد دو امر مستفاد ہوگئے، ایک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی تائید بنی اسرائیل کی کتاب اور احکام اور نبوت ملنے سے، دوسرا آپ کا تسلیہ کہ بنی اسرائیل کو جو وجہ اختلاف کی پیش آئی تھی وہی آپ کی قوم کو آپ کے ساتھ خلاف کرنے میں پیش آئی ہے، یعنی حب دنیا اور حسد و نفسانیت یہ نہیں کہ آپ دلائل یا احکام کے وضوح میں کچھ کمی ہو، پس آپ غم نہ کریں، یہ قصہ مذکورہ یاد کرلیا کریں کہ بنی اسرائیل کے ساتھ کیا کیا معاملات ہوئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿وَ اٰتَيْنٰهُمْ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْاَمْرِ ١ۚ ﴾ (اور ہم نے انہیں دین کے بارے میں کھلے ہوئے واضح دلائل عطا فرمائے) جن میں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات بھی تھے۔ صاحب روح المعانی نے بعض حضرات کا قول نقل کیا ہے کہ اس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کی نشانیاں مراد ہیں یہودیوں کو آپ کی بعثت کی نشانیاں معلوم تھیں لیکن جب آپ تشریف لائے تو یہ لوگ جانتے ہوئے آپ کی بعثت اور رسالت کا یقین ہوتے ہوئے منکر ہوگئے۔ ﴿ فَلَمَّا جَآءَهُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖ﴾ (پھر جب وہ چیز آپہنچی جس کو وہ پہچانتے ہیں اس کا انکار کر بیٹھے۔ ) ﴿فَمَا اخْتَلَفُوْۤا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُ ١ۙ بَغْيًۢا بَيْنَهُمْ ١ؕ﴾ (سو انہوں نے آپس میں اختلاف نہیں کیا مگر اس کے بعد ان کے پاس علم آگیا آپس کی ضدا ضدی کی وجہ سے) ﴿بَغْیًا﴾ کا ایک مطلب تو یہی ہے کہ آپس کی ضدا ضدی کی وجہ سے اختلاف میں لگ گئے دلائل واضح سامنے ہوتے ہوئے حق سے منہ موڑا اور ریاست اور چوہدراہٹ کی وجہ سے اختلافات میں پڑگئے اور ایک معنی یہ ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حسد کرتے ہوئے آپس میں اختلاف کیا پہلے تو آپ کی آمد کے منتظر تھے۔ جب آپ تشریف لے آئے تو کہنے لگے کہ عرب میں سے کیسے کوئی شخص نبی ہوسکتا ہے ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بتایا گیا ہے کہ تم میں سے ہمیشہ نبی آتا رہے گا ان میں سے صرف چند ہی آدمی مسلمان ہوئے اور آج تک اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ علامہ قرطبی (رض) فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل نے دنیاوی ریاست اور چوہدراہٹ کی وجہ سے آپس میں ایک دوسرے سے بغاوت کی اور انبیاء کرام کو قتل کردیا یہی حال آپ کے زمانہ کے مشرکین کا ہے ان کے پاس کھلی ہوئی دلیلیں آگئی ہیں لیکن دنیاوی ریاست کے چلے جانے کے ڈر سے اسلام قبول نہیں کرتے ﴿ اِنَّ رَبَّكَ يَقْضِيْ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فِيْمَا كَانُوْا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ ٠٠١٧ ﴾ (بلاشبہ آپ کا رب قیامت کے دن ان امور میں فیصلہ فرمائے گا جن میں وہ آپس میں اختلاف کرتے تھے۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(17) اور ہم نے ان کو دین کے بارے میں واضح دلائل اور کھلی باتیں عطا فرمائیں پھر انہوں نے صحیح علم آجانے کے بعد محض آپس کی ضد بحث میں باہم ایک دوسرے سے اختلاف کیا اور پھوٹ ڈال لی۔ بیشک آپ کا پروردگار قیامت کے دن ان کے مابین ان امور کا فیصلہ کردے گا جن میں یہ باہم اختلاف کیا کرتے تھے۔ واضح دلائل اور کھلی باتوں سے مراد شاید حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دیگر معجزات ہوں مثلاً دریا کا پھٹ جانا اور لکڑی مار کر پتھر سے پانی نکالنا وغیرہ پھر یہ آپس میں مختلف نہیں ہوتے مگر صحیح علم آجانے کے بعد اور وہ اختلاف بھی محض آپ کے حسد اور ضد بحث کی بنا پر اختلاف ڈالا اور ٹولیاں ٹولیاں بن گئے صحیح علم یعنی علم شریعت اور علم توریت حاصل ہونے کے بعد صرف اپنی ضد اور اپنے حسد کی بنا پر آپس میں پھوٹ ڈال لی۔ بہرحال اس اختلاف کا عملی فیصلہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کے مابین کردے گا۔