Surat ul Jasiya

Surah: 45

Verse: 25

سورة الجاثية

وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ مَّا کَانَ حُجَّتَہُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوا ائۡتُوۡا بِاٰبَآئِنَاۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۲۵﴾

And when Our verses are recited to them as clear evidences, their argument is only that they say, "Bring [back] our forefathers, if you should be truthful."

اور جب ان کے سامنے ہماری واضح اور روشن آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے پاس اس قول کے سوا کوئی دلیل نہیں ہوتی کہ اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادوں کو لاؤ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ ايَاتُنَا بَيِّنَاتٍ ... And when Our Clear Ayat are recited to them, means, when the truth is made plain to them and used as evidence against them, asserting that Allah is able to resurrect the bodies after they have perished and disintegrated, ... مَّا كَانَ حُجَّتَهُمْ إِلاَّا أَن قَالُوا ايْتُوا بِأبَايِنَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ their ... argument is no other than that they say: "Bring back our fathers, if you are truthful!" `bring them back to life, if what you say is true.' Allah the Exalted said,   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

25۔ 1 یہ ان کی سب سے بڑی دلیل ہے جو ان کی کٹ حجتی کا مظہر ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٧] منکرین آخرت کا اعتراض & کوئی مردہ زندہ کرکے دکھاؤ :۔ لے دے کے ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ اچھا اگر مرنے کے بعد زندگی یقینی ہے تو ہمیں ہمارا کوئی بڑا بزرگ زندہ کرکے دکھا دو ۔ حالانکہ پیغمبروں کا دعویٰ یہ ہوتا ہی نہیں کہ جب کوئی انکار کرے تو قبر سے مردہ زندہ کرکے اسے دکھا سکتے ہیں تاکہ اسے پوری...  طرح یقین آجائے بلکہ ان کا دعویٰ صرف یہ ہوتا ہے کہ قیامت کے بعد اللہ تعالیٰ بیک وقت تمام انسانوں کو از سر نو زندہ کرے گا۔ یہ نہیں کہ قیامت سے پہلے بھی وقتاً فوقتاً مردے زندہ کئے جاتے رہیں گے۔ پھر جب وہ تمہارے آباء و اجداد کو زندہ کرے گا اس وقت تمہیں بھی زندہ کرے گا اور ساری حقیقت تم سب کے سامنے آجائے گی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) واذا تتلی علیھم ایتنا …: یہ کفار کی سب سے وزنی دلیل تھی جو وہ آخرت کی نفی کے لئے پیغمبروں کے سامنے پیش کرتے تھے کہ ” اگر تم اپنے اس عقیدہ میں سچے ہو کہ مرنے کے بعد ہم پھر جی اٹھیں گے تو ہمارے آبا و اجداد میں سے کسی کو لے آؤ۔ “ حالانکہ قیامت سے پہلے فرداً فرداً اس دنیا میں زندہ ہو کر واپس آنے کو ... قرآن نے محال اور ناممکن بنایا ہے، جبکہ قیامت کے دن دوبارہ زندگی کے امکان پر عقلی دلائل قائم کئے ہیں جو اٹل اور ناقابل انکار ہیں۔ رہا آخرت پر ایمان تو اس کا انحصار سراسر انبیاء (علیہ السلام) کی تصدیق پر ہے۔ اس آیت کی مفصل تفسیر سورة دخان کی آیت (٣٦) کے تحت گزر چکی ہے۔ (٢) ما کان حجتھم الا ان قالوا…: ظاہر ہے کہ ان کا یہ کہنا کہ ” اگر تم سچے ہو کہ قیامت آئے گی تو ابھی ہمارے آبادؤ اجداد کو زندہ کر کے لاؤ “ کوئی حجت یا دلیل نہیں، بلکہ نہایت فضول بات ہے، جیسا کہ سورة دخان (٣٦) میں تفصیل گزری۔ یہاں اسے حجت کہا گیا تو یہ واضح کرنے کے لئے کہ ان کے پاس کوئی حجت ہے ہی نہیں، کیونکہ اپنے گمان میں وہ جسے حجت سمجھ رہے ہیں فی الواقع اس کا حجت اور دلیل سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔ اسے ان کی حجت کہنے میں ان سے تہکم اور استہزا بھی مراد ہے کہ ان عقل مندوں کی حجت اور دلیل اس طرح کی ہوتی ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْہِمْ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ مَّا كَانَ حُجَّـتَہُمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوا ائْتُوْا بِاٰبَاۗىِٕنَآ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝ ٢٥ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما»...  نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ تلو تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] ( ت ل و ) تلاہ ( ن ) کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ بينات يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] ، وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] ، ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 55] ، قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة/ 256] ، قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران/ 118] ، وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف/ 63] ، وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل/ 39] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات . والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «2» ، وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ( ب ی ن ) البین کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 55] اور اس لئے کہ گنہگاروں کا رستہ ظاہر ہوجائے ۔ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة/ 256] ہدایت صاف طور پر ظاہر ( اور ) گمراہی سے الگ ہوچکی ہو ۔ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران/ 118] ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنا دیں ۔ وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف/ 63] نیز اس لئے کہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کررہے ہو تم کو سمجھا دوں وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادت ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل/ 39] تاکہ جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں وہ ان پر ظاہر کردے ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ اور بیان کرنے والے کے اعتبار ہے آیت کو مبینۃ نجہ کہا جاتا ہے کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا ۔ حجة : الدلالة المبيّنة للمحجّة، أي : المقصد المستقیم الذي يقتضي صحة أحد النقیضین . قال تعالی: قُلْ فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبالِغَةُ [ الأنعام/ 149] ، وقال : لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا [ البقرة/ 150] ، فجعل ما يحتجّ بها الذین ظلموا مستثنی من الحجة وإن لم يكن حجة، وذلک کقول الشاعر : 104- ولا عيب فيهم غير أنّ سيوفهم ... بهنّ فلول من قراع الکتائب ويجوز أنّه سمّى ما يحتجون به حجة، کقوله تعالی: وَالَّذِينَ يُحَاجُّونَ فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ ما اسْتُجِيبَ لَهُ حُجَّتُهُمْ داحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الشوری/ 16] ، فسمّى الداحضة حجّة، وقوله تعالی: لا حُجَّةَ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمُ [ الشوری/ 15] ، أي : لا احتجاج لظهور البیان، الحجۃ اس دلیل کو کہتے ہیں جو صحیح مقصد کی وضاحت کرے اور نقیضین میں سے ایک کی صحت کی مقتضی ہو ۔ قرآن میں ہے :۔ قُلْ فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبالِغَةُ [ الأنعام/ 149] کہدو کہ خدا ہی کی حجت غالب ہے ۔ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا [ البقرة/ 150]( یہ تاکید ) اس لئے کی گئی ہے ) کہ لوگ تم کو کسی طرح کا الزام نہ لگا سکیں ۔ مگر ان میں سے جو ظالم ہیں ( وہ الزام دیں تو دیں ۔ اس آیت میں ظالموں کے احتجاج کو حجۃ سے مستثنیٰ کیا ہے گو اصولا وہ حجت میں داخل نہیں ہے ۔ پس یہ استشہاد ایسا ہی ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (100) ولا عیب فیھم غیر ان سیوفھم بھن للول من قراع الکتاب ان میں صرف یہ عیب پایا جاتا ہے ک لشکروں کے ساتھ لڑنے سے ان کی تلواروں پر دندا نے پڑنے ہوئے ہیں ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے اس احتجاج کو حجت قرار دینا ایسا ہی ہو ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَالَّذِينَ يُحَاجُّونَ فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ ما اسْتُجِيبَ لَهُ حُجَّتُهُمْ داحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الشوری/ 16] اور جو لوگ خدا کے بارے ) میں بعد اس کے کہ اسے ( مومنوں نے ) مان لیا ہو جھگڑتے ہیں انکے پروردگار کے نزدیک ان کا جھگڑا لغو ہے ۔ میں ان کے باطل جھگڑے کو حجت قراد دیا گیا ہے اور آیت کریمہ : لا حُجَّةَ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمُ [ الشوری/ 15] اور ہم میں اور تم میں کچھ بحث و تکرار نہیں ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ ظہور بیان کی وجہ سے بحث و تکرار کی ضرورت نہیں ہے أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» . والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : 5- أتيت المروءة من بابها «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ أب الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] ( اب و ) الاب ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ { النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔ صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جس وقت ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کے سامنے ہماری اوامرو نواہی کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو ان کا اس پر سوائے اس کے اور کوئی عذر اور جواب نہیں ہوتا کہ وہ رسول اکرم سے کہتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا کو زندہ کر کے لاؤ ہم خود آپ کی بات کے بارے میں ان سے پوچھ لیں کہ یہ صحیح ہے یا غلط اگر آپ اپنے اس بعث بعد الم... وت کے دعوے میں سچے ہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥{ وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ مَّا کَانَ حُجَّتَہُمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوا ائْتُوْا بِاٰبَـآئِنَآ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ } ” اور جب انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ہماری روشن آیات تو نہیں ہوتی ان کی کوئی دلیل سوائے اس کے کہ وہ کہتے ہیں کہ (زندہ کر کے) لے آئو ہمارے آباء و اَجداد...  کو اگر تم سچے ہو ! “ اس ضمن میں ان کے پاس واحد حجت اور دلیل یہی ہوتی ہے کہ چلو اگر تم ہمارے فوت شدہ آباء و اَجداد کو زندہ کر کے ہمارے پاس لے آئو تو ہم بعث بعد الموت کے تمہارے دعوے کو مان لیں گے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

35 "Our clear Revelations": the Revelations in which strong arguments have been given for the possibility of the Hereafter and in which it has been stated that its occurrence is the demand of both wisdom and justice, and its nonoccurrence renders the whole system of the universe meaningless and absurd. 36 In other words, what they meant to say was: When somebody tells them that there is life afte... r death, he must raise a dead person from the grave and present him before them. And if this is not done, they cannot believe that the dead would ever be raised to life once again at same time in the future, whereas nobody ever told them that the dead would be raised to life in this world as and when required separately, but what was said was: On the Day of Resurrection Allah will raise . aII human beings to life simultaneously and will subject them to accountability and punish and reward them accordingly.  Show more

سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :35 یعنی وہ آیات جن میں آخرت کے امکان پر مضبوط عقلی دلائل دیے گئے ہیں ، اور جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس کا ہونا عین حکمت و انصاف کا تقاضا ہے اور اس کے نہ ہونے سے یہ سارا نظام عالم بے معنی ہو جاتا ہے ۔ سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :36 دوسرے الفاظ میں ان کی اس حجت کا...  مطلب یہ تھا کہ جب کوئی ان سے یہ کہے کہ موت کے بعد دوسری زندگی ہوگی تو اسے لازماً قبر سے ایک مردہ اٹھا کر ان کے سامنے لے آنا چاہیے ۔ اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو وہ یہ نہیں مان سکتے کہ مرے ہوئے انسان کسی وقت از سر نو زندہ کر کے اٹھائے جانے والے ہیں ۔ حالانکہ یہ بات سرے سے کسی نے بھی ان سے نہیں کہی تھی کہ اس دنیا میں متفرق طور پر وقتاً فوقتاً مردوں کو دوبارہ زندہ کیا جاتا رہے گا ۔ بلکہ جو کچھ کہا گیا تھا وہ یہ تھا کہ قیامت کے بعد اللہ تعالیٰ بیک وقت تمام انسانوں کو از سر نو زندہ کرے گا اور ان سب کے اعمال کا محاسبہ کر کے جزا اور سزا کا فیصلہ فرمائے گا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(45:25) تتلی مضارع مجہول واحد مؤنث غائب تلاوۃ (باب نصر) مصدر ت، ل، و، مادہ۔ وہ پڑھی جاتی ہے، وہ تلاوت کی جاتی ہے ما کان حجتہم : حجۃ منصوب ہے کیونکہ وہ کان خبر ہے کان کا اسم قولہ تعالیٰ الا ان قالوا ئتوا بابائنا ان کنتم صدقین اس ترکیب کی اور مثالیں قرآن مجید میں موجود ہیں۔ (7:82:27:56:69:29 پر ملا... حظہ فرما دیں۔ حجتہم : مضاف مضاف الیہ۔ ان کی دلیل۔ حجت کوئی ایسی بات جس سے استدلال کرسکیں۔ مشرکوں اور منکروں کے قول کو حجت صرف ان کے خیال کے اعتبار سے فرمایا ورنہ ان کا یہ قول واقع میں کوئی حجت یعنی انکار قیامت کی دلیل نہیں ہے۔ الا حرف استثناء ان مصدریہ ائتوا فعل امر۔ جمع مذکر حاضر۔ ایتان (باب ضرب) مصدر۔ ات ی مادہ۔ بمعنی آنا۔ ب کے صلہ کے ساتھ ۔ بمعنی فعل متعدی۔ لانا۔ تم لے آؤ۔ تم لاؤ۔ ابائنا : مضاف مضاف الیہ۔ ہمارے باب دادا۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی ان کو اتنا شعور نہیں کہ جس چیز کو وہ زمانہ کہتے ہیں وہ خود کوئی چیز نہیں ورنہ بجائے خود اسے آدمی پر کوئی اختیار ہے۔ زندگی اور موت کے جو ظاہری اسباب وہ دیکھتے ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ ہی نے بنایا ہے اور وہ اسی کے حکم کے تحت کام کر رہے ہیں۔ اسی حقیقت کو آنحضرت نے ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا ہے...  : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آدم کا بیٹا جب زمانہ کو برا بھلا کہتا ہے تو مجھے تکلیف دیتا ہے کیونکہ زمانہ خد کچھ نہیں میں ہی زمانہ نہ ہوں، میرے ہی ہاتھ میں معاملہ ہے اور میں ہی رات اور دن میں الٹ پھیر کرتا ہوں۔ (شوکانی بحوالہ صحیحین عن ابی ہریرہ) 5 یعنی اگر اپنے اس عقیدہ میں سچے ہو کر مرے کے بعد ہم پھر جی اٹھیں گے … یہ کفار کی سب سے وزنی دلیل تھی جو آخرت کی نفی کے لئے وہ پیغمبروں کے لئے سامنے پیش کرتے تھے حالانکہ قیامت سے پہلے فرداً فرداً اس دنیا میں زندہ ہو کر واپس آنے کو قرآن نے محال ور ناممکن بتایا ہے۔ قیامت کے دن دوبارہ زندگی کے مکاں پر عقلی دلائل قائم کئے ہیں جو اٹل اور ناقابل انکار ہیں، رہا آخرت پر ایمان تو اس کا انحصار سراسر انبیاء (علیہم السلام) کی تصدیق پر ہے۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تشریح آیات نمبر 25 تا 37 جو لوگ یہ کہتے تھے کہ ہمارا مرنا اور ہمارا جینا یہ سب کا سب گردش زمانہ کا کمال ہے وہی ہمیں زندگی دیتا ہے اور وہی ہمیں موت کی وادیوں میں دھکیل دیتا ہے نیکی ، بدی ، اچھائی ، برائی اور دین و آخرت یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ان سے فرمایا جارہا ہے کہ اس کائنات میں ہر چیز ہر حکومت و س... لنطت صرف اللہ کی ہے وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت کو طاری کرے گا۔ ہر چیز اس قبضہ قدرت میں ہے۔ اس نے اس دنیا کو اور زمین و آسمان کے نظام کو انسانوں کے لئے بنایا ہے ۔ جب اس کی ضرورت نہ رہے گی تو اس پورے نظام کائنات کو ختم کرکے ایک نیا جہان پیدا کردیا جائے گا جو قیامت کا اور انصاف کا دن ہوگا۔ وہ لوگ جو اس ہولناک دن کے منکر ہیں وہ اس دن شدید نقصان اور گھاٹے میں رہیں گے۔ ایسے لوگ عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے تو اس قدر خوف زدہ ہوجائیں گے کہ جب ان کے ہاتھ میں ان کا نامہ اعمال آجائے گا تو وہ گھٹنوں کے بل گر پڑیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک سے اس نامہ اعمال کے متعلق پوچھیں گے جو اللہ نے اپنے فرشتوں کے ذریعہ لکھوایا ہوگا۔ اس سچائی کے سامنے کوئی جھوٹ نہ بول سکے گا ۔ اگر اس نے جھوٹ بولنے کی کوشش کی تو یہ کتاب بو ل اٹھے گی ہاتھ، پیر اور زبان سب اس کے ایک ایک عمل کی گواہی دیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احادیث میں ارشاد فرمایا ہے کہ قیامت کے دن ہر شخص کا نامہ اعمال اس کے ہاتھوں میں پہنچادیا جائے گا ۔ جس کے نامہ اعمال کو اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ خوشی سے پھولا نہ سمائے اور ہر ایک کو دکھاتا پھرے گا کہ میررے نامہ اعمال کو پڑھو۔ اس کا چہرہ خوشی سے چمک اور دمک رہا ہوگا لیکن جس کے بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال تھمایا جائے گا اس کا چہرہ سیاہ اور تاریک ہوجائے گا۔ جن کے اعمال درست ہوں گے ان کو جنت کی ابدی راحتوں سے ہم کنار کیا جائے گا لیکن جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کو جھٹلایا ہوگا ان سے کہا جائے گا کہ کیا تمہیں آیات پڑھ کر سنائی نہ گئی تھیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ تم ان کو سنا تھا مگر تم نے اس کو کوئی اہمیت نہ دی تکبر اور غرور ان کی طرف سے منہ پھیرلیا اور اس طرح تم اللہ کے مجرم بن گئے۔ جب تم سے کہا جب تم سے کہا جاتا تھا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت کے آنے میں کسی طرح کا شک وشبہ نہیں ہے تو تم کہتے تھے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ قیامت کیا ہم تو بس ہلکا گمان رکھتے ہیں لیکن ہمیں اس کا یقین نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ آج ساری حقیقت تمہارے سامنے کھل کر آگئی ہے ۔ تم دنیا میں جس عذاب کا مذاق اڑایا کرتے تھے وہی آج تمہیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے ۔ ان سے کہا جائے گا کہ آج کے دن ہم بھی تمہیں اسی طرح نظر انداز کریں گے جس طرح تم اس دن کی ملاقات کو سن کر نظر انداز کردیا کرتے تھے۔ اب تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے ۔ تمہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال رکھا تھا۔ اب آج کے دن تم اپنے اعمال کا مزہ چکھو یہاں کوئی تمہاری مدد کے لئے نہیں آئے گا۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کائنات میں جتنی بھی خوبیاں اور بھلائیاں ہیں وہ سب کی سب اللہ کے لئے ہیں وہی زمین کا پروردگار ہے۔ وہی تمام جہانوں کا پالنے والا ہے ، آسمانوں اور زمین کا مالک وہی ہے ، وہی زبر دست حکمت والا ہے، اسی کی ساری قوت و طاقت ہے۔ واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منکرین قیامت کی حجت بازی ﴿وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ ﴾ اور جب ان کے اوپر ہماری آیات تلاوت کی جاتی ہیں جن میں قیامت واقع ہونے کا بھی تذکرہ ہوتا ہے اور اس کے امکان اور وقوع کے دلائل دئیے جاتے ہیں تو اصلی دلیل سے عاجز ہوکر کٹ حجتی پر اتر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قیامت آنے کی جو خبر دے رہے ہو اگر تمہا... را یہ خبر دینا سچ ہے تو ہمارے باپ دادوں کو سامنے لے آؤ جنہیں مرے ہوئے زمانہ دراز گزر چکا ہے اگر وہ لوگ زندہ ہوکر سامنے آجائیں تو ایک تو ہمیں موت کے بعد زندہ ہونے کا یقین آجائے گا دوسرے ہم ان سے پوچھ لیں گے کہ موت کے بعد کیا کیا ہوا اللہ تعالیٰ شانہٗ نے فرمایا ﴿قُلِ اللّٰهُ يُحْيِيْكُمْ ﴾ (آپ فرما دیجیے کہ اللہ تمہیں زندگی دیتا ہے) یعنی بےجان نطفہ سے پیدا فرماتا ہے ﴿ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ﴾ (پھر تمہیں موت دے گا) ﴿ ثُمَّ يَجْمَعُكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ لَا رَيْبَ فِيْهِ ﴾ پھر وہ تمہیں قیامت کے دن جمع فرمائے گا جس میں کوئی شک نہیں یعنی تم مانو یا نہ مانو ایسا ہونا ہی ہے اللہ تعالیٰ کسی کا پابند نہیں جو تمہارے کہنے کے مطابق تمہارے باپ دادوں کو زندہ فرمائے، اس نے وقوع قیامت کی خبر دے دی امکان اور وقوع کے دلائل بیان فرما دئیے سب پر حجت پوری ہوگئی ﴿ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ (رح) ٠٠٢٦﴾ اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور اس کے نبیوں نے جو وقوع قیامت کی خبر دی ہے وہ سچ ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

19:۔ ” واذا تتلی۔ الایۃ “ یہ دوسرا شکوی ہے جب اللہ تعالیٰ کی آیات بینات ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اور ان میں کہیں حشر و نشر کا ذکر آجاتا ہے تو اس کے انکار کیلئے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ کٹ حجتی کے طور پر کہنے لگتے ہیں کہ اگر تم اس دعوے میں سچے ہو کہ واقعی ہم مرنے کے بعد دوبارہ ... زندہ کیے جائیں گے تو ہمارے اطمینان کے لیے ہمارے باپ دادا کو زندہ کر کے دکھلا دو ۔ ” قل اللہ یحییکم۔ الایۃ “ یہ دونوں شکو وں کا جواب ہے کہ دنیا میں پیدا کرنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے اور عمر ختم ہوجانے کے بعد مارتا بھی وہی ہے اور تمام حوادث دہر اسی کے اختایر و تصرف میں ہیں اور جب قیامت قائم ہونے کا وقت آئے گا جس کی آمد میں کوئی شک نہیں تو تم سب کو زندہ کر کے میدان حشر میں جمع کردے گا۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے اور اس پر یقین نہیں کرتے حالانکہ یہ حقیقت ہے۔ باقی رہا ان کے مطالبے پر ان کے باپ دادا کو زندہ کرنا تو اللہ تعالیٰ اگرچہ اس پر بھی قادر ہے لیکن قیامت سے پہلے ان کو زندہ کرنا اس کی حکمت تشریعیہ کے خلاف ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(25) اور جب ان کے روبرو ہماری کھلی کھلی آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کے پاس سوائے اس کٹ حجتی کے اور کوئی جواب نہیں ہوتا اور ان کے پاس بجز اس کے کوئی جواب نہیں ہوتا کہ یوں کہتے ہیں اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادوں کو زندہ کرکے لے آئو۔ وہی بات جو سو رہ دخان میں گزر چکی ہے ہمارے بڑوں کو زندہ کر لائو۔