Surat ul Ehkaaf

Surah: 46

Verse: 1

سورة الأحقاف

حٰمٓ ۚ﴿۱﴾

Ha, Meem.

حم

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Qur'an is a Revelation from Allah and the Universe is His True Creation Allah says, حم Ha Mim. تَنْزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

حم : حروف مقطعات کی تفصیل کے لئے دیکھیے سورة بقرہ کی پہلی آیت کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر حمہ (اس کے معنی اللہ کو معلوم ہیں) یہ کتاب اللہ زبردست حکمت والے کی طرف سے بھیجی گئی ہے، (اس لئے اس کے مضامین قابل غور ہیں، آگے توحید اور معاد کا بیان ہے کہ) ہم نے آسمان اور زمین کو اور ان چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں حکمت کے ساتھ اور ایک میعاد معین (تک) کے لئے پیدا کیا ہے اور جو لوگ ک... افر ہیں، ان کو جس چیز سے ڈرایا جاتا ہے (مثلاً یہ کہ توحید کے انکار پر تم کو قیامت میں عذاب ہوگا) وہ اس سے بےرخی (اور بےالتفاتی) کرتے ہیں (اور توحید کو قبول نہیں کرتے) آپ (ان سے توحید کے بارہ میں) کہئے کہ یہ تو بتلاؤ جن چیزوں کی تم خدا (کی توحید) کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو (ان کے مستحق عبادت ہونے کی کیا دلیل ہے، اگر دلیل عقلی ہے تو) مجھ کو یہ دکھلاؤ کہ انہوں نے کون سی زمین پیدا کی ہے یا ان کا آسمانوں (کے پیدا کرنے) میں کچھ حصہ ہے (اور ظاہر ہے کہ تم بھی ان کو خالق نہیں مانتے جو کہ دلیل ہو سکتی ہے مستحق عبادت ہونے کی، بلکہ مخلوق کہتے ہو جو کہ مستحق عبادت ہونے کے منافی ہے پس دلیل عقلی تو مفقود ہوئی اور اگر تمہارے پاس دلیل نقلی ہے تو) میرے پاس کوئی (صحیح) کتاب (لاؤ جس میں شرک کا حکم ہو اور) جو اس (قرآن) سے پہلے کی ہو (کیونکہ تم بھی جانتے ہو کہ قرآن میں شرک کی نفی ہے پس کسی اور ہی کتاب کی ضرورت ہوگی) یا (اگر کتاب نہ ہو تو) کوئی اور (معتبر) مضمون (جو زبانی) منقول (ہوتا چلا آتا ہو اور کتاب میں مدون نہ ہو) لاؤ اگر تم (دعویٰ شرک میں) سچے ہو (مطلب یہ کہ دلیل نقلی کا قابل تصدیق اور مستند ہونا ضروری ہے کسی نبی کی کتاب ہو یا ان کا زبانی قول ہو) اور (ظاہر ہے کہ ایسی دلیل کوئی پیش نہیں کرسکتا مگر جو اپنے باطل عقیدے سے پھر بھی باز نہ آئے ایسے شخص کے بارے میں فرماتے ہیں کہ) اس شخص سے زیادہ کون گمرا ہوگا جو (دلیل سے عاجز ہونے اور اس کے خلاف پر دلیل قائم ہونے کے باوجود) خدا کو چھوڑ کر ایسے معبود کو پکارے جو قیامت تک بھی اس کا کہنا نہ کرے اور ان کو ان کے پکارنے (تک) کی بھی خبر نہ ہو اور (پھر) جب (قیامت میں) سب آدمی (حساب کے لئے) جمع کئے جائیں تو وہ (معبود) ان (عبادت کرنے والوں کے دشمن ہوجائیں اور ان کی عبادت ہی کا انکار کر بیٹھیں (پس ایسے معبودوں کی عبادت کرنے سے بڑھ کر کیا غلطی ہے کہ عبادت کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں اور عبادت نہ کرنے سے اسباب و وجوہ بکثرت ہیں)   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١۔ ٢) حم، یعنی جو ہونے والا تھا اس کو اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے یا یہ بطور تاکید کے قسم کھائی گئی یہ کتاب اس اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو کہ کفار کو سزا دینے میں زبردست اور اپنے حکم و فیصلہ میں حکمت والا ہے کہ اس چیز کا اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کی جائے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١ { حٰمٓ ” ح ‘ م۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1 For explanation, sec E. N. 1 of Surah Az-Zumar, E. N. 1 of AI-Jathiyah and also E. N. 1 of As-Sajdah for understanding the true spirit of this introduction.

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ٨۔ شروع سورة سے العزیز الحکیم کی تفسیر سورة الجاثیہ کے شروع میں گزر چکی ہے بالحق اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ دنیا کے ختم ہونے کے بعد دوسرا جہان پیدا کیا جائے جس میں نیکی اور بدی کی جزا و سزا کا فیصلہ کیا جائے ” اجل مسمی “ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام دنیا کی عمر پ... ہلے صور تک ہے جس کا ذکر سورة زمر میں گزر چکا اور ہر شخص کی زندگی اس کی عمر کے آخر ہونے تک ہے چناچہ صحیحین ١ ؎ کی حضرت عبد (رض) اللہ بن مسعود کی حدیث گزرچکی ہے کہ جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اسی وقت اس کی عمر اس کے رزق سب کی ایک میعاد مقرر کردی جاتی ہے غرض جب یہ اللہ اور اللہ کے رسول کے بتانے سے معلوم ہوگیا کہ انسان کو دنیا میں ہمیشہ نہیں رہنا ہے ہر انسان کی عمر کی ایک میعاد مقرر ہے اور جس طرح اللہ اور اللہ کے رسول نے بتایا تھا وہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے کہ کوئی بڑی عمر پا کر اور کوئی چھوٹی، آگے پیچھے سب دنیا سے چلے جاتے ہیں ہمیشہ کوئی دنیا میں رہنے والا نہیں پھر جس اللہ اور اللہ کے رسول کے فرمانے کے موافق دنیا سے یہ چل چلاؤسب کی آنکھوں کے سامنے ہے اسی اللہ اور اللہ کے رسول نے یہ بھی فرمایا ہے کہ دنیا کی یہ چند روز کی زیست اللہ تعالیٰ نے بےفائدہ نہیں بنائی ہے بلکہ اس چند روزہ زیست کے بعد اور ہمیشہ کی زیست اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے اور اس دنیا کی چند روز کی نیکی اور بدی کی جزا و سزا اسی ہمیشہ کی زیست میں پیش آنے والی ہے اور اس سزا سے ان منکروں کو طرح طرح سے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں ڈرایا ہے لیکن ان منکروں کے دل ایسے سخت ہوگئے ہیں کہ جس قدر ان کو عقبیٰ کی خرابی سے ڈرایا جاتا ہے اسی قدر یہ لوگ اس نصیحت الٰہی سے منہ موڑے چلے جاتے ہیں اسی واسطے ان آیتوں میں فرمایا کہ جو لوگ کافر ہیں جس سے ان کو ڈرایا جاتا ہے وہ اس کو دھیان نہیں کرتے پھر فرمایا جن بتوں کی پرستش کے میں یہ بت پرست لوگ اللہ اور اللہ کے رسول کی نصیحت کو نہیں سنتے اے رسول اللہ کے ان مشرکوں بت پرستوں سے ذرا یہ تو پوچھو کہ کس استحقاق یتیم بت پرستوں نے ان بتوں کو اللہ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے اللہ تعالیٰ نے تو زمین و آسمان اور تم پیدا کیا تمہارے بتوں نے زمین یا آسمان پر کوئی چیز پیدا کی ہو تو اس کو ثابت کرو پھر فرمایا کہ اب دنیا میں تو یہ بت پرست لوگ ان بتوں کو اپنا معبود گنتے ہیں قیامت کے دن جن چیزوں کو یہ گمراہ لوگ پوجتے ہیں وہ الٹی ان سے بیزاری ظاہر کریں گے پھر ان گمراہوں کی گمراہی بیان فرمائی کہ جو بت ان منکروں سے قیامت میں بیزاری ظاہر کریں گے ان کی حمایت میں یہ لوگ اللہ کے کلام کو جاود بتاتے ہیں اور اللہ کے رسول پر یہ بہتان باندھتے ہیں کہ انہوں نے یہ قرآن اپنی طرف سے گھڑ کر بنا لیا ہے پھر اپنے رسول سے فرمایا کہ اے رسول اللہ کے تم ان بہتان باندھنے والوں کو اسی قدر جواب دے دو کہ یہ قرآن میں سے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہوگا تو خدا مجھ سے سمجھ لے گا خدا کے مواخذہ کے وقت تم میں سے کوئی میری مدد نہ کرنا اور اگر تم جھوٹ بہتان باندھتے ہو تو تم سے خدا سمجھے گا کیونکہ خدا کہ ہر ایک کا حال معلوم ہے پھر ان منکروں کو توبہ کی رغبت دلا کر فرمایا کہ اب تک جو کچھ تم نے کیا سو کیا اب بھی اگر اپنے کئے سے آئندہ باز آؤ گے تو اللہ تعالیٰ ہر طرح کے گناہوں کو بخشنے والا ہے۔ معتبر سند سے ترمذی ١ ؎ میں انس (رض) بن مالک سے روایت ہے۔ جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس شخص کا خاتمہ توحید پر ہوا اس شخص کے گناہ اگر اس قدر بھی ہوں کہ جن سے زمین اور آسمان بھر جائے تو بھی مجھے ایسے شخص کے سب گناہوں کو بخش دینے میں دریغ نہیں ہے مشرکین مکہ اپنے آپ کو ملت ابراہیمی پر بتاتے تھے اسی واسطے فرمایا اے رسول اللہ کے ان مشرکوں سے کہو کہ اس زمانہ کی کوئی کتاب یا کوئی سچی زبانی روایت ایسی ہو جس سے ان بتوں کا کسی آسمان یا زمین کا پیدا کرنا جدا یا اللہ کے ساتھ شریک ہو کر ثابت ہوتا ہو تو وہ کتاب یا روایت لا کر میرے رو برو پیش کرو اثارۃ من علم کی تفسیر مجاہد ٢ ؎ کے قول کے موافق پرانی سچی روایت کی ہے ترجمہ میں بھی یہی قول لیا گیا ہے عرب میں یہ بھی ایک دستور تھا کہ فال کے طور پر کسی نابالغ لڑکے سے زمین پر بہت سے خط کھنچوا کر ان میں سے دو دو خطوں کو مٹانا شروع کرتے تھے اب مٹاتے مٹاتے اگر آخر کو دو خط باقی رہتے تو اچھی فال سمجھتے اور اگر مٹاتے مٹاتے ایک خط باقی رہ جاتا تھا تو اس فال کو مرضی کے موافق نہیں گنتے تھے۔ معتبر سند ٣ ؎ سے امام مستدرک حاکم تفسیر ابن جریر وغیرہ میں حضرت عبد (رض) اللہ بن عباس کا جو قول ہے اس میں اسی خطوں کی فال کو او اثارۃ من علم کی تفسیر قرار دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان مشرکوں نے خط کشی کی فال سے کیا یہ بات جان لی ہے کہ ان مشرکوں کے بتوں نے کوئی آسمان یا زمین جدا یا اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ہو کر پیدا کئے ہیں۔ صحیح ٤ ؎ مسلم میں معاویہ بن حکم کی حدیث ہے جس میں انہوں نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس خط کشی کی فال کا مسئلہ پوچھا تھا آپ نے فرمایا پہلے پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر کے زمانہ میں یہ فال جائز بھی تھی اب جائز نہیں ہے ‘ بعض علما نے ان پیغمبر کا نام دانیال لکھا ہے اور بعضوں نے ادریس مگر معاویہ بن الحکم کی روایت میں کسی پیغمبر کا نام نہیں ہے یہ معاویہ بن الحکم مدنی صحابہ میں ہیں صحیح بخاری میں ان کی کوئی روایت نہیں ہے ہود (علیہ السلام) اور صالح (علیہ السلام) کے مابین کے زمانہ میں یہ دانیال پیغمبر تھے ان کے علاوہ بنی اسرائیل میں بھی ایک دانیال ہوئے ہیں مشرکین مکہ کے بت پتھر یا لکڑی کے تھے اس یواسطے فرمایا یہ پتھر و لکڑی کی چیزیں کسی کی التجا کو قیامت تک نہیں پورا کرسکتیں۔ سورة یونس میں نیک لوگوں کی بیزاری کا ذکر گزر چکا ہے اسی کو فرمایا کہ جن فرشتوں اور نیک لوگوں کی مورتوں کی یہ مشرک پوجا کرتے ہیں قیامت کے دن وہ فرشتے اور نیک لوگ ان مشرکوں کی صورت سے بیزار ہوجائیں گے۔ (١ ؎ صحیح بخاری کتاب القدر ٩٧٥ ج ٢۔ ) (١ ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی فضل التوبۃ والا ستغفار ص ٢١٦ ج ٢۔ ) (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ١٥٤ ج ٤۔ ) (٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ١٥٤ ج ٤۔ ) (٤ ؎ صحیح مسلم باب تحریم الکھانۃ واتیان الکھان ص ٣٣٢ ج ٢۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(46:1) حم۔ حروف مقطعات ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ١ تا ١٠۔ اسرار ومعارف۔ حم۔ اللہ کی طرف سے یہ عظیم کتاب نازل کی گئی ہے جو غالب ہے جو چاہے کرسکتا ہے مگر اس کی حکمت ہے کہ لوگوں کو مہلت عطا فرمائی اور ہدایت کے لیے کتاب عطا فرمائی جسے اللہ کے رسول برحق بنی آدم کو پہنچایا۔ اور جس نے دلائل مہیافرمادیے کہ ہم نے ارض وسماء کو اور ان میں جو کچھ ہے سب ک... و ٹھیک ٹھیک اور انصاف پر پیدا فرمایا اور اس کا نتیجہ یقینی ہے یعنی سب کچھ خود تقاضا کرتا ہے کہ آخر کو ایک روز نتیجے پر پہنچے ورنہ حق کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے۔ اور جو لوگ انکار کرتے ہیں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں بلکہ جب آخرت کے ہولناک عذابوں سے بچنے کے لیے کہا جاتا ہے تو محض منہ پھیر کر چل دیتے ہیں ان سے کہیے کہ اللہ کے علاوہ جن کو تم پکارتے ہو جن کی عبادت کرکے ان سے نفع نقصان کا اندیشہ رکھتے ہوذرا یہ تودکھا کہ انہوں نے زمین میں کیا کچھ پیدا کیا ہے یا ان کی کوئی آسمان میں شراکت ہے اگر عقلا ثابت نہیں کرسکتے تو کسی پہلی کتاب سے ثابت کرو کہ کسی بھی آسمانی کتاب میں اس کی کوئی دلیل ہو یا کسی اللہ کے نبی اور رسول کے قول سے یہ ثابت ہوسکتا ہو تو بتاؤ تمہارے دعوے میں کیا صداقت ہے۔ دلائل کی تین اقسام۔ دلائل کی تین قسمیں ہیں اول کتب سماوی کہ اللہ نے بات کسی کتاب میں نازل فرمائی ہو یا اثرۃ من علم کوئی علمی اثر یا ذخیرہ یقینا اس بارے میں وہی علم معتبر ہوگا جو کسی نبی سے منقول ہو اور یا پھر عقلا ثابت کیا جائے جب کفار اپنی بات ان تینوں طریقوں سے ثابت نہیں کرسکتے تو جو کچھ وہ کر رہے ہیں اس سے بڑی گمراہی تو کوئی ہو نہیں سکتی کہ اللہ کو چھوڑ کر جن معبودان باطلہ کو یہ پکارتے ہیں وہ تو قیامت تک بھی ان کی پکار سن ہی نہیں سکتے بلکہ انہیں یہ بھی خبر نہیں کہ کوئی انہیں پکاررہا ہے اور جب قیامت قائم ہوگی تو وہ بجائے دوست ان کے دشمن ثابت ہوں گے اور ان کے عبادت کرنے کا انکار کردیں گے۔ آج جب ان پر اللہ کی واضح آیات پیش کی جاتی ہیں اور ان کفار کے سامنے جب حق کی بات کی جاتی ہے تو کہہ دیتے ہیں یہ تو جادو ہے صاف پتہ چل رہا ہے یاپھرکہتے ہیں کہ آپ نے از خود یہ باتیں جوڑ کر اللہ پر بہتان باندھا ہے ان سے کہیے کہ اگر میں نے معاذ اللہ بہتان باندھا ہے تو تم مجھے اللہ سے نہیں بچاسکتے کہ میں تمہاری خاطر اللہ پر بہتان باندھوں کہ یہ قانون ہے نبوت کا جھوٹا مدعی ہمیشہ ذلیل ہوتا ہے اور ہلاک ہوجاتا ہے۔ کذاب ہمیشہ خوار ہوتا ہے۔ اللہ کریم اس بات پر مہلت نہیں دیتے کہ مخلوق کی گمراہی کا سبب بنتا رہے اور جب آپ کو ہر آن نصرت الٰہی حاصل ہے اور آپ کے دشمن خوار ہو رہے ہیں تو یہ نبوت صداقت کی بہت بڑی دلیل ہے اور جو کچھ تم کر رہے ہو اور جن باتوں میں لگے ہو وہ بھی اللہ سے چھپی ہوئی نہیں میرے اور تمہارے درمیان وہی بہتر گواہ ہے کہ اگر تم کہو ہم بھی ہلاک تو نہیں ہوئے لہذا ہم سچے ہیں تو یہ درست نہیں کہ اللہ کی کتاب تمہارے عقائد باطلہ کو رد فرمارہی ہے ہاں یہ الگ بات کہ اگر توبہ کرلو تو وہ بخشنے والا ہے اور معاف کردینے والا ہے۔ اور وہ رحیم ہے کہ کافر بھی اسکی رحمت عامہ سے اپنے کفر کے باوجود حیات دنیا سے فائدہ اٹھاتا ہے آپ فرمادیجئے کہ میں کوئی پہلا رسول نہیں ہوں یا کوئی عجیب بات نہیں مجھ سے پہلے اللہ کے نبی اور رسول تشریف لائے یہ حقیقت تم خوب جانتے ہو اور نہ ہی میرا غیب دانی کا دعوی ہے کہ میں اپنی طرف سے کچھ کہہ دوں کہ میرے ساتھ کیا ہوگا اور تمہارانجام کیا ہوگا بلکہ یہ سب کچھ جو میں کہتا ہوں اللہ کریم وحی کرکے مجھے بتلاتے ہیں اور میرامنصب یہ ہے کہ میں تمہیں آنے والے مشکل وقت سے بروقت مطلع کردوں۔ نبی کریم اور علم غیب۔ یہ مسئلہ بڑا معرکوں میں بیان کیا جاتا ہے حالانکہ علماء حق کے نزدیک ایسا کہنا نبی کریم غیب نہ جانتے تھے یا آپ کی ذات کو موضوع بحث بنانا ہرگز ہرگز جائز نہیں اور سوء ادب سے ایمان ضائع ہونے کا خطرہ ہے یہ حق ہے کہ آپ ذات وصفات میں اللہ کے شریک نہیں نہ کوئی اور ہے اور جس قدر علوم مخلوق کو عطا ہوئے ان سب سے زیادہ اپ کو عطا ہوئے یہاں جو ارشاد ہوا اس کا مفہوم بھی یہی ہے۔ میرایہ دعوی نہیں کہ میں غیب دان ہوں یہ تو میں اپنے بارے بھی نہیں کہتا کہ کل کیا پیش آئے ہاں وہ سب کہتا ہوں جس کا علم اللہ عطا فرماتا ہے ان سے کہیے کہ دیکھ لو کہ اگر یہ قرآن من جانب اللہ ہے اور تم اس کا انکار کر رہے ہو تو انجام کیا ہوگا ، اور یہ یقینا ہے کہ عقلا اور نقلا بھی ثابت ہوچکا ہے اور بنی اسرائیل میں طبع سلیم رکھنے والے علماء جو بھی پہلی کتابوں کا علم رکھتے تھے ایمان لے آئے اور اس کی صداقت پہ شہادت دے رہے اور تم باوجود اپنی جہالت اور بےعلمی کے محض اکڑ رہے ہو اور تکبر کرکے اس کا انکار کر رہے ہو تو اس کی سزابڑی سخت ہے کہ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت سے محروم فرمادیتے ہیں ۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تشریح : آیات نمبر 1 تا 6 سورۃ الاحقاف کی بھی ” حم “ سے شروع کیا گیا ہے جو حروف مقطعات میں سے ہیں ۔ اس کی تفصیل کئی سورتوں کی ابتداء میں بتادی گئی ہے کہ یہ وہ حروف ہیں جن کے معنی کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے ۔ دوسرے یہ کہ ” حم “ سے شروع کی جانے والی سات سورتوں میں سے یہ آخری سورت ہے۔ یہ بھی بتا دیا گیا ہ... ے کہ ان سات سورتوں کی احادیث میں بہت سی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں۔ فرمایا گیا کہ جہنم کے سات دروازے ہیں اور حم سے شروع کی جانے والی یہ سات سورتیں ہیں جو لوگ ان سورتوں کو پڑھنے کا اہتمام کریں گے تو ساتوں سوتیں جہنم کے پر دروازے پر موجود ہوں گی اور وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں درخواست کریں گہ کہ الہٰی انہوں نے مجھے پڑھا اور مجھے پر ایمانا لائے تو آپ ان کو جہنم میں داخل نہ کیجئے یقینا ان سورتوں کی سفارش سے وہ جہنم کی آگ سے بچ جائیں گے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگو ! یہ کتاب (قرآن مجید) اس اللہ نے بندوں کی ہدایت کے لئے نازل کی ہے جو زبردست طاقت و قوت والا اور ہر علم و حکمت کی بات کو اچھی طرح جاننے والا ہے۔ زمین و آسمان اور ان کے درمیان جو کچھ بھی ہے اس کے پیدا کرنے کا عظیم مقصد ہے کوئی چیز اس نے بیکار اور فضول پید انہیں کی بلکہ ہر چیز کے پیدا کرنے میں ایک خاص مصلحت پوشیدہ ہے۔ یہ سب اللہ کے نظام کے تحت جاری ہے جو اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک وہ مدت پوری نہ ہوجائے جس کو اللہ نے متعین فر مادیا ہے ۔ اس کے پیدا کرنے اور اس کا نظام چلانے میں وہ کسی کا محتاج بھی نہیں ہے بلکہ سب ساس کے محتاج ہیں وہی ہر طرح کی عبادت و بندگی کے لائق ہے لیکن وہ لوگ جنہوں نے کائنات کے خالق ومالک اللہ کو چھوڑ کے بےحقیقت چیزوں کو اپنا معبود بنا رکھا ہے جب ساری حقیقت ان کے سامنے کھل کر آجائے گی تو ان کے سامنے سوائے شرمندگی اور پچھتاوے کے اور کچھ بھی نہ ہوگا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ آپ ذرا ان سے پوچھئے کہ جن چیزوں کو انہوں نے اپنا معبود قرار دے رکھا ہے انہوں نے کائنات میں سے کس چیز کو پیدا کیا ہے ؟ کہئے کہ اگر انہوں نے کچھ پیدا کیا ہے تو ذرا مجھے بھی تو دکھائو یا قرآن کریم سے پہلے جتنی کتابیں نازل کیں یا انبیاء کرام (علیہ السلام) تشریف لائے انہوں نے تو ان کو توحید درس ہی دیا ہے جسے قرآن کریم پیش کر رہا ہے ۔ وہ نہ تو دنیا میں ان کے کسی کام آئیں گے اور نہ آخرت میں۔ بلکہ وہ آخرت میں ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے اور کہیں گے کہ الہٰی ہمیں تو نہیں معلوم کہ یہ لوگ ہماری عبادت کیوں کرتے تھے۔ انہوں نے جو بھی عبادت کی ہے وہ انہوں نے اپنی مرضی اور خوشی سی کی ہے اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے۔ فرمایا کہ وہ وقت ان لوگوں کے لئے کس قدر حسرت اور ندامت کا ہوگا جب ان کے جھوٹے معبود بھی ان کی مخالفت پر اتر آئیں گے وہ ان جھوٹے معبودوں کو پکاریں گے مگر وہ ان کو ان کی پکار کا کوئی جواب نہ دے سکیں گے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورت : سورة الجاثیہ کے آخر میں ارشاد ہوا ہے کہ جس رب نے زمین و آسمان پیدا کیے ہیں وہی رب العالمین ہے اور زمین و آسمانوں میں صرف وہی ایک کبریا ہے۔ الاحقاف کا آغاز اس بات سے ہوا ہے کہ اس کی کبریائی کا عالم یہ ہے کہ زمین و آسمانوں میں کوئی ایسی ہستی نہیں جو کسی چیز کی تخلیق میں اس کی شر... یک ہو یا اسے اس کی خدائی میں کوئی اختیار حاصل ہو۔ حمٓ سورتوں میں سے ساتویں سورت ہے۔ حمٓ کا لفظ حروف مقطعات میں شامل ہے۔ اس کا معنٰی صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے یا اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جانتے تھے۔ الکتاب سے مراد قرآن مجید ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے جو ہر اعتبار سے اپنی مخلوق پر غلبہ رکھنے والا اور اپنا ہر حکم نافذ کرنے پر قادر ہے۔ کائنات پر قوت وسطوت رکھنے اور ہر اعتبار سے غالب ہونے کے باوجود اس کے ہر کام میں حکمت پائی جاتی ہے۔” اَلْحَکِیْمِ “ کا لفظ ” حُکْمَ “ سے نکلا ہے جس کا دوسرا معنٰی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا حاکم ہے اس لیے 3 جن و انس کا فرض بنتا ہے کہ وہ دل وجان سے اس کے حکم کو تسلیم کریں اور ہر حال میں اس کی بندگی کرتے رہیں۔ قرآن مجید کے مخالف باربار پراپیگنڈہ کرتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قرآن کو اپنی طرف سے بنالیا ہے۔ اس الزام کے کافی اور شافی جواب دیئے گئے مگر پھر بھی وہ یہی کہتے تھے کہ ” محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ نے قرآن اپنی طرف سے بنالیا ہے۔ ان کی ہٹ دھرمی کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بار بار ارشاد فرمایا ہے کہ قرآن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خود ساختہ یا کسی کا بنایا ہوا نہیں بلکہ اس کا ایک ایک حرف اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے۔ مسائل ١۔ حروف مقطعات کا معنٰی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ٢۔ قرآن مجید ” اللہ “ غالب حکمت والے نے نازل فرمایا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے اپنی مخلوق پر غالب ہے : (یوسف : ٢١) (البقرۃ : ١١٧) (الانعام : ٦١) ( المجادلہ : ٢١) (البقرۃ : ٢٠) (الحشر : ١) (الانفال : ٤٩)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٢٣٧ تشریح آیات ١۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔ ١٤ آیت نمبر ١ تا ٣ یہ اس سورت کا پہلا زمزمہ ہے کہ یہی عربی حروف تہجی ہیں جنہیں تم استعمال کرتے ہو اور انہی سے یہ کلام بنا ہے جو عربوں کے مروج اسالیب کلام سے معجز و ممتاز ہے۔ اس لیے یہ کلام الٰہی ہے اور ایک زبردست حکمت والی ذات کا کلام ہے اور اس کتاب میں جو ... سچائی ہے ، اس سچائی پر یہ کائنات بھی بنی ہے ، جسے تم دیکھتے ہو۔ یہ کلام بھی اس کا بنایا ہوا ہے اور یہ پیچیدہ کائنات بھی اس کی بنی ہوئی ہے۔ یہ کائنات بھی ایک کتاب ہے جسے کھلی آنکھیں اور کھلے دل پڑھ سکتے ہیں۔ دونوں کتابوں کا کلام حق پر مبنی ہے۔ یہ کتاب ایک زبردست اور حکیم ہستی العزیز الحکیم (٤٦ : ٢) کا کلام ہے۔ اس لیے یہ کتاب مظہر قدرت الٰہیہ ہے اور مشتمل پر حکمت الٰہیہ ہے۔ اور زمین و آسمان کی تخلیق بھی اسی حق پر ہے۔ ما خلقنا السموت ۔۔۔۔۔ واجل مسمی (٤٦ : ٣) “ ہم نے زمین و آسمان کو اور ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں ، برحق اور ایک مدت خاص کے تعین کے ساتھ پیدا کیا ہے ”۔ اس عرصے میں وہ مقصد پورا ہوگا جو اس مخلوق کے پیدا کرنے سے مطلوب ہے۔ اور اللہ نے اس کائنات اور اس کے اندر پائی جانے والی مخلوقات کے بارے میں جو اندازے رکھے تھے وہ ظاہر ہوں گے۔ یہ دونوں کتابیں کھلی ہیں۔ تمہاری نظروں کے سامنے ہیں ، اللہ کی قدرتوں کی کہانیاں بتا رہی ہیں۔ اللہ کی حکمتوں پر گواہ ہیں ، اور اللہ کی تدبیر اور تقدیر ان سے عیاں ہے اور یہ کائناتی کتاب اس پڑھی جانے والی وحی کی کتاب کی تائید کرتی ہے اور اس میں جو ڈراوا اور جو خوشخبری ہے اس کی بھی تائید یہ کائنات کرتی ہے لیکن۔ والذین کفروا عما انذروا معرضون (٤٦ : ٣) “ مگر یہ کافر لوگ اس حقیقت سے منہ موڑ رہے ہیں جس سے ان کو خبردار رکھا گیا ہے ”۔ اور ان کا یہ رویہ قابل تعجب ہے کیونکہ منزل کتاب اور نظارہ دکھانے والی کتاب دونوں کتابیں پکار پکار کر ان کو دعوت دے رہی ہیں۔ یہ کتاب جو نازل کی گئی ہے یہ بتاتی ہے کہ اللہ ایک ہے ، وہ ہر چیز کا رب ہے کیونکہ وہی خالق ہے ، ہر چیز کی تدبیر کرنے والا ہے ، ہر چیز کو ایک اندازے سے پیدا کرنے والا ہے اور یہ کتاب کائنات ان سب چیزوں کی تصدیق کررہی ہے۔ اس کائنات کے نظام کا پوری طرح ہم آہنگ ہونا اور اس کی حرکات کا نہایت ہی منضبط ہونا اس بات پر گواہ ہے کہ اس کا ایک ہی بنانے والا ہے ، چلانے والا اور تدبیر کرنے والا ہے۔ جس نے ہر چیز کو بنایا اور بڑی مہارت سے ہر چیز کو بنایا۔ چناچہ ہر پیدا کردہ چیز اور اس کی ماہیت اور وجود اور اس کی رفتار کی ایک ہی ساخت اور طرز ہے۔ لوگ پھر کس بنیاد پر متعدد الہوں کے قائل ہیں ؟ یہ بات حیرت انگیز ہے۔ آخر ان لوگوں کے الہوں نے کیا بنایا ہے اور وہ کیا کرتے ہیں ؟ یہ کائنات جو اللہ کی بنائی ہوئی ہے یہ تو تمہارے سامنے کھلی کتاب ہے۔ اس میں تمہارے خود ساختہ معبودوں کا کیا حصہ ہے ؟ اس مخلوقات میں سے اگر کوئی ایک قسم کی مخلوق بھی انہوں نے بنائی ہے تو دعویٰ کرو اور بتاؤ !  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) حٰم ٓ