Surat ul Ehkaaf

Surah: 46

Verse: 29

سورة الأحقاف

وَ اِذۡ صَرَفۡنَاۤ اِلَیۡکَ نَفَرًا مِّنَ الۡجِنِّ یَسۡتَمِعُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ ۚ فَلَمَّا حَضَرُوۡہُ قَالُوۡۤا اَنۡصِتُوۡا ۚ فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّوۡا اِلٰی قَوۡمِہِمۡ مُّنۡذِرِیۡنَ ﴿۲۹﴾

And [mention, O Muhammad], when We directed to you a few of the jinn, listening to the Qur'an. And when they attended it, they said, "Listen quietly." And when it was concluded, they went back to their people as warners.

اور یاد کرو! جبکہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف متوجہ کیا کہ وہ قرآن سنیں ، پس جب ( نبی کے ) پاس پہنچ گئے تو ( ایک دوسرے سے ) کہنے لگے خاموش ہو جاؤ پھر جب پڑھ کر ختم ہوگیا تو اپنی قوم کو خبردار کرنے کے لئے واپس لوٹ گئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Story of the Jinns listening to the Qur'an Imam Ahmad recorded from Az-Zubayr that he commented on the Ayah; وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْانَ ... And (remember) when We sent towards you a group of the Jinn, to listen to the Qur'an. "They were at a place called Nakhlah while Allah's Messenger was performing the `Isha' prayer... , and كَادُواْ يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَداً they crowded on top of each other to hear him. (72:19)" Sufyan said, "They stood on top of each other like piled wool." Ahmad was alone in recording this. Imam Ahmad and the famous Imam, Al-Hafiz Abu Bakr Al-Bayhaqi in his book Dala'il An-Nubuwwah, both recorded that Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, said, "Allah's Messenger never recited Qur'an to the Jinns, nor did he see them. Allah's Messenger was heading with a group of his Companions towards the `Ukaz market. At that time, the devils had been prevented from eavesdropping on the news of the heavens, and they were being attacked by burning flames (whenever they tried to listen). When the devils went back to their people, they asked them what happened to them, and they answered, `We have been prevented from eavesdropping on the news of the heavens, and burning flames now attack us.' Their people told them, `You have only been prevented from eavesdropping on the information of the heavens because of something (major) that has happened. So go all over the earth, east and west, and see what is it that has obstructed you from eavesdropping on the news of the heavens.' Thus they traveled all over the earth, east and west, seeking that which had obstructed them from eavesdropping on the news of the heavens. A group of them went towards Tihamah, and found Allah's Messenger while he was at a place called Nakhlah along the way to the `Ukaz market. He was leading his Companions in the Fajr prayer. When the Jinns heard the recitation of the Qur'an, they stopped to listen to it, and then they said: `By Allah! This is what has prevented you from eavesdropping on the news of the heavens.' Then they returned to their people and told them: `Our people! We certainly have heard an amazing recitation (the Qur'an), it guides to the right path. So we have believed in it, and we will join none in worship with our Lord.' So Allah revealed to His Prophet, قُلْ أُوحِىَ إِلَىَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ Say: It has been revealed to me that a group of Jinns have listened (to the Qur'an). (72:19) Thus, what was revealed to him was only the saying of the Jinns." Al-Bukhari recorded a similar narration, and Muslim recorded it (as it is here). At-Tirmidhi also recorded it, as did An-Nasa'i in his Tafsir. Abdullah bin Mas`ud reported that; the Jinns came down upon the Prophet while he was reciting the Qur'an at a place called Nakhlah. When they heard him, قَالُوا أَنصِتُوا (They said: "Listen quietly.") meaning, hush! They were nine in number, and one of them was called Zawba`ah. So Allah revealed, وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْانَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنصِتُوا فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَى قَوْمِهِم مُّنذِرِينَ And when We sent toward you a group of Jinns, to listen to the Qur'an. When they attended it, they said: "Listen quietly!" And when it was concluded, they returned to their people as warners. until His saying: ضَلَلٍ مُّبِينٍ manifest error. (Ayah 29-32) Thus, this report along with the above one by Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, indicate that Allah's Messenger was not aware of the presence of the Jinns at that time. They only listened to his recitation and went back to their people. Later on, they came to him in groups, one party after another, and one group after another. As for Allah's saying, ... وَلَّوْا إِلَى قَوْمِهِم مُّنذِرِينَ they returned to their people as warners. It means that they went back to their people and warned them about what they heard from Allah's Messenger. This is similar to Allah's saying, لِّيَتَفَقَّهُواْ فِى الدِّينِ وَلِيُنذِرُواْ قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ ...that they may obtain understanding in religion and warn their people when they return to them, so that they might be cautious (of evil). (9:122) This Ayah has been used as evidence that the Jinns have warners from among themselves, but no Messengers. There is no doubt that Allah did not send Messengers from among the Jinns, because He says, وَمَأ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِى إِلَيْهِمْ مِّنْ أَهْلِ الْقُرَى And We did not send before you as Messengers any but men, to whom We revealed from among the people of cities. (12:109) And Allah says, وَمَأ أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلاَّ إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِى الاٌّسْوَاقِ And We never sent before you any of the Messengers but verily they ate food and walked in the markets. (25:20) And He says about Ibrahim Al-Khalil, upon him be peace, وَجَعَلْنَا فِى ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَـبَ ...And We placed in his descendants Prophethood and Scripture. (29:27) Thus, every Prophet whom Allah sent after Ibrahim was from his offspring and progeny. As for Allah's saying in Surah Al-An`am, يَـمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالاِنْسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ O company of Jinns and human beings! Did there not come to you Messengers from among you? (6:130) It only applies to the two kinds collectively, but specifically pertains to just one of them, which is the human. This is like Allah's saying, يَخْرُجُ مِنْهُمَا الُّلوْلُوُ وَالمَرْجَانُ From both of them (salty and fresh waters) emerge pearl and Marjan. (55:22) Although He said "both of them" this applies to only one of the two types of water (the salty water). Allah then explains how the Jinns warned their people. He says,   Show more

طائف سے واپسی پر جنات نے کلام الہٰی سنا ، شیطان بوکھلایا مسند امام احمد میں حضرت زبیر سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ یہ واقعہ نخلہ کا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نماز عشاء ادا کر رہے تھے ، یہ سب جنات سمٹ کر آپ کے اردگرد بھیڑ کی شکل میں کھڑے ہو گئے ابن عباس کی روایت میں ہے کہ یہ جن... ات ( نصیبین ) کے تھے تعداد میں سات تھے کتاب دلائل النبوۃ میں بروایت ابن عباس مروی ہے کہ نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جنات کو سنانے کی غرض سے قرآن پڑھا تھا نہ آپ نے انہیں دیکھا آپ تو اپنے صحابہ کے ساتھ عکاظ کے بازار جا رہے تھے ادھر یہ ہوا تھا شیاطین کے اور آسمانوں کی خبروں کے درمیان روک ہوگئی تھی اور ان پر شعلے برسنے شروع ہوگئے تھے ۔ شیاطین نے آکر اپنی قوم کو یہ خبر دی تو انہوں نے کہا کوئی نہ کوئی نئی بات پیدا ہوئی ہے جاؤ تلاش کرو پس یہ نکل کھڑے ہوئے ان میں کی جو جماعت عرب کی طرف متوجہ ہوئی تھی وہ جب یہاں پہنچی تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوق عکاظ کی طرف جاتے ہوئے نخلہ میں اپنے اصحاب کی نماز پڑھا رہے تھے ان کے کانوں میں جب آپ کی تلاوت کی آواز پہنچی تو یہ ٹھہر گئے اور کان لگا کر بغور سننے لگے اسکے بعد انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ بس یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے تمہارا آسمانوں تک پہنچنا موقوف کر دیا گیا ہے یہاں سے فورا ہی واپس لوٹ کر اپنی قوم کے پاس پہنچے اور ان سے کہنے لگے ہم نے عجیب قرآن سنا جو نیکی کا رہبر ہے ہم تو اس پر ایمان لاچکے اور اقرار کرتے ہیں کہ اب ناممکن ہے کہ اللہ کے ساتھ ہم کسی اور کو شریک کریں ۔ اس واقعہ کی خبر اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی کو سورہ جن میں دی ، یہ حدیث بخاری و مسلم وغیرہ میں بھی ہے ۔ مسند میں ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جنات وحی الہٰی سنا کرتے تھے ایک کلمہ جب ان کے کان میں پڑ جاتا تو وہ اس میں دس ملا لیا کرتے پس وہ ایک تو حق نکلتا باقی سب باطل نکلتے اور اس سے پہلے ان پر تارے پھینکے نہیں جاتے تھے ۔ پس جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو ان پر شعلہ باری ہونے لگی یہ اپنے بیٹھنے کی جگہ پہنچتے اور ان پر شعلہ گرتا اور یہ ٹھہر نہ سکتے انہوں نے آکر ابلیس سے یہ شکایت کی تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نخلہ کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان نماز پڑھتے ہوئے پایا اور جا کر اسے خبر دی اس نے کہا بس یہی وجہ ہے جو آسمان محفوظ کر دیا گیا اور تمہارا جانا بند ہوا ۔ یہ روایت ترمذی اور نسائی میں بھی ہے ۔ حسن بصری کا قول بھی یہی ہے کہ اس واقعہ کی خبر تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ تھی جب آپ پر وحی آئی تب آپ نے یہ معلوم کیا ۔ سیرت ابن اسحاق میں محمد بن کعب کا ایک لمبا بیان منقول ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طائف جانا انہیں اسلام کی دعوت دینا ان کا انکار کرنا وغیرہ پورا واقعہ بیان ہے ۔ حضرت حسن نے اس دعا کا بھی ذکر کیا ہے جو آپ نے اس تنگی کے وقت کی تھی جو یہ ہے ( اللھم الیک اشکوا ضعف قوتی وقلتہ حیلتی وھوانی علی الناس یا ارحم الراحمین انت الرحم الراحمین وانت رب المستضعفین وانت ربی الی من تکلنی الی عدو بعید یتجھمنی ام الی صدیق قریب ملکتہ امری ان لم یکن بک غضب علی فلا ابالی غیر ان عافیتک اوسع لی اعوذ بنور وجھک الذی اشرقت لہ الظلمات وصلح علیہ امر الدنیا والاخرۃ ان ینزل بی غضبک او یحل بی سخطک ولک العتبیٰ حتی ترضیٰ ولا حول ولا قوۃ الا بک ) یعنی اپنی کمزوری اور بےسروسامانی اور کسمپرسی کی شکایت صرف تیرے سامنے کرتا ہوں ۔ اے ارحم الراحمین تو دراصل سب سے زیادہ رحم و کرم کرنے والا ہے اور کمزوروں کا رب تو ہی ہے میرا پالنہار بھی تو ہی ہے تو مجھے کس کو سونپ رہا ہے کسی دوری والے دشمن کو جو مجھے عاجز کر دے یا کسی قرب والے دوست کو جسے تو نے میرے بارے اختیار دے رکھا ہو اگر تیری کوئی خفگی مجھ پر نہ ہو تو مجھے اس درد دکھ کی کوئی پرواہ نہیں لیکن تاہم اگر تو مجھے عافیت کے ساتھ ہی رکھ تو وہ میرے لئے بہت ہی راحت رساں ہے میں تیرے چہرے کے اس نور کے باعث جس کی وجہ سے تمام اندھیریاں جگمگا اٹھی ہیں اور دین و دنیا کے تمام امور کی اصلاح کا مدار اسی پر ہے تجھ سے اس بات کی پناہ طلب کرتا ہوں کہ مجھ پر تیرا عتاب اور تیرا غصہ نازل ہو یا تیری ناراضگی مجھ پر آجائے ، مجھے تیری ہی رضامندی اور خوشنودی درکار ہے اور نیکی کرنے اور بدی سے بچنے کی طاقت تیری ہی مدد سے ہے ۔ اسی سفر کی واپسی میں آپ نے نخلہ میں رات گذاری اور اسی رات قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے ( نصیبین ) کے جنوں نے آپ کو سنا یہ ہے تو صحیح لیکن اس میں قول تامل طلب ہے اس لئے کہ جنات کا کلام اللہ شریف سننے کا واقعہ وحی شروع ہونے کے زمانے کا ہے جیسے کہ ابن عباس کی اوپر بیان کردہ حدیث سے ثابت ہو رہا ہے اور آپ کا طائف جانا اپنے چچا ابو طالب کے انتقال کے بعد ہوا ہے جو ہجرت کے ایک یا زیادہ سے زیادہ دو سال پہلے کا واقعہ ہے جیسے کہ سیرت ابن اسحاق وغیرہ میں ہے واللہ اعلم ۔ ابن ابی شیبہ میں ان جنات کی گنتی نو کی ہے جن میں سے ایک کا نام زویعہ ہے ۔ انہی کے بارے میں یہ آیتیں نازل ہوئی ہیں پس یہ روایت اور اس سے پہلے کی حضرت ابن عباس کی روایت کا اقتضاء یہ ہے کہ اس مرتبہ جو جن آئے تھے ان کی موجودگی کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو علم نہ تھا یہ تو آپ کی بےخبری میں ہی آپ کی زبانی قرآن سن کر واپس لوٹ گئے اس کے بعد بطور وفد فوجیں کی فوجیں اور جتھے کے جتھے ان کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جیسے کہ اس ذکر کے احادیث و آثار اپنی جگہ آرہے ہیں انشاء اللہ ، بخاری و مسلم میں ہے حضرت عبدالرحمن نے حضرت مسروق سے پوچھا کہ جس رات جنات نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سنا تھا اس رات کس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا ذکر کیا تھا ؟ تو فرمایا مجھ سے تیرے والد حضرت ابن مسعود نے کہا ہے ان کی آگاہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک درخت نے دی تھی تو ممکن ہے کہ یہ خبر پہلی دفعہ کی ہو اور اثبات کو ہم نفی پر مقدم مان لیں ۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ جب وہ سن رہے تھے آپ کو تو کوئی خبر نہ تھی یہاں تک کہ اس درخت نے آپ کو ان کے اجتماع کی خبر دی واللہ اعلم ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ واقعہ اس کے بعد والے کئی واقعات میں سے ایک ہو واللہ اعلم ۔ امام حافظ بیہقی فرماتے ہیں کہ پہلی مرتبہ تو نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنوں کو دیکھا نہ خاص ان کے سنانے کے لئے قرآن پڑھا ہاں البتہ اس کے بعد جن آپ کے پاس آئے اور آپ نے انہیں قرآن پڑھ کر سنایا اور اللہ عزوجل کی طرف بلایا جیسے کہ حضرت ابن مسعود سے مروی ہے ۔ اس کی روایتیں سنئے ۔ حضرت علقمہ حضرت ابن مسعود سے پوچھتے ہیں کہ کیا تم میں سے کوئی اس رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ کوئی نہ تھا آپ رات بھر ہم سے غائب رہے اور ہمیں رہ رہ کر بار بار یہی خیال گذرا کرتا تھا کہ شاید کسی دشمن نے آپ کو دھوکا دے دیا اللہ نہ کرے آپ کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا ہو وہ رات ہماری بڑی بری طرح کٹی صبح صادق سے کچھ ہی پہلے ہم نے دیکھا کہ آپ غار حرا سے واپس آرہے ہیں پس ہم نے رات کی اپنی ساری کیفیت بیان کر دی ہے ۔ تو آپ نے فرمایا میرے پاس جنات کا قاصد آیا تھا جس کے ساتھ جا کر میں نے انہیں قرآن سنایا چنانچہ آپ ہمیں لے کر گئے اور ان کے نشانات اور ان کی آگ کے نشانات ہمیں دکھائے ۔ شعبی کہتے ہیں انہوں نے آپ سے توشہ طلب کیا تو عامر کہتے ہیں یعنی مکے میں اور یہ جن جزیرے کے تھے تو آپ نے فرمایا ہر وہ ہڈی جس پر اللہ کا نام ذکر کیا گیا ہو وہ تمہارے ہاتھوں میں پہلے سے زیادہ گوشت والی ہو کر پڑے گی ، اور لید اور گوبر تمہارے جانوروں کا چارہ بنے گا پس اے مسلمانو! ان دونوں چیزوں سے استنجا نہ کرو یہ تمہارے جن بھائیوں کی خوراک ہیں دوسری روایت میں ہے کہ اس رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پا کر ہم بہت ہی گھبرائے تھے اور تمام وادیوں اور گھاٹیوں میں تلاش کر آئے تھے اور حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج رات میں جنات کو قرآن سناتا رہا اور جنوں میں ہی اسی شغل میں رات گذاری ۔ ابن جریر میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا تم میں سے جو چاہے آج کی رات جنات سے دلچسپی لینے والا میرے ساتھ رہے ۔ پس میں موجود ہو گیا آپ مجھے لے کر چلے جب مکہ شریف کے اونچے حصے میں پہنچے تو آپ نے اپنے پاؤں سے ایک خط کھینچ دیا اور مجھ سے فرمایا بس یہیں بیٹھے رہو پھر آپ چلے اور ایک جگہ پر کھڑے ہو کر آپ نے قرأت شروع کی پھر تو اس قدر جماعت آپ کے اردگرد ٹھٹ لگا کر کھڑی ہوگئی کہ میں تو آپ کی قرأت سننے سے بھی رہ گیا ۔ پھر میں نے دیکھا کہ جس طرح ابر کے ٹکڑے پھٹتے ہیں اس طرح وہ ادھر ادھر جانے لگے اور یہاں تک کہ اب بہت تھوڑے باقی رہ گئے پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت فارغ ہوئے اور آپ وہاں سے دور نکل گئے اور حاجت سے فارغ ہو کر میرے پاس تشریف لائے اور پوچھنے لگے وہ باقی کے کہاں ہیں ؟ میں نے کہا وہ یہ ہیں پس آپ نے انہیں ہڈی اور لید دی ۔ پھر آپ نے مسلمانوں کو ان دونوں چیزوں سے استنجا کرنے سے منع فرما دیا اس روایت کی دوسری سند میں ہے کہ جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود کو بٹھایا تھا وہاں بٹھا کر فرما دیا تھا کہ خبردار یہاں سے نکلنا نہیں ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے ۔ اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کے وقت آکر ان سے دریافت کیا کہ کیا تم سو گئے تھے ؟ آپ نے فرمایا نہیں نہیں اللہ کی قسم میں نے تو کئی مرتبہ چاہا کہ لوگوں سے فریاد کروں لیکن میں نے سن لیا کہ آپ انہیں اپنی لکڑی سے دھمکا رہے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ بیٹھ جاؤ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم یہاں سے باہر نکلتے تو مجھے خوف تھا کہ ان میں کے بعض تمہیں اچک نہ لے جائیں ، پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ اچھا تم نے کچھ دیکھا بھی ؟ میں نے کہا ہاں لوگ تھے سیاہ انجان خوفناک سفید کپڑے پہنے ہوئے آپ نے فرمایا یہ ( نصیبین ) کے جن تھے انہوں نے مجھ سے توشہ طلب کیا تھا پس میں نے ہڈی اور لید گوبر دیا میں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس سے انہیں کیا فائدہ ؟ آپ نے فرمایا ہر ہڈی ان کے ہاتھ لگتے ہی ایسی ہو جائے گی جیسی اس وقت تھی جب کھائی گئی تھی یعنی گوشت والی ہو کر انہیں ملے گی اور لید میں بھی وہی دانے پائیں گے جو اس روز تھے جب وہ دانے کھائے گئے تھے پس ہم میں سے کوئی شخص بیت الخلا سے نکل کر ہڈی لید اور گوبر سے استنجا نہ کرے اس روایت کی دوسری سند میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پندرہ جنات جو آپس میں چچازاد اور پھوپھی زاد بھائی ہیں آج رات مجھ سے قرآن سننے کیلئے آنے والے ہیں ۔ اس میں ہڈی اور لید کے ساتھ کوئلے کا لفظ بھی ہے ۔ ابن مسعود فرماتے ہیں دن نکلے میں اسی جگہ گیا تو دیکھا کہ وہ کوئی ساٹھ اونٹ بیٹھنے کی جگہ ہے اور روایت میں ہے کہ جب جنات کا اژدھام ہو گیا تو ان کے سرداران نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں انہیں ادھر ادھر کر کے آپ کو اس تکلیف سے بچا لیتا ہوں تو آپ نے فرمایا اللہ سے زیادہ مجھے کوئی بچانے والا نہیں ۔ آپ فرماتے ہیں جنات والی رات میں مجھ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے پاس پانی ہے ؟ میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پانی تو نہیں البتہ ایک ڈولچی نبیذ ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمدہ کھجوریں اور پاکیزہ پانی ( ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ ) مسند احمد کی اس حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا مجھے اس سے وضو کراؤ چنانچہ اپنے وضو کیا اور فرمایا یہ تو پینے کی اور پاک چیز ہے ، جب آپ لوٹ کر آئے تو سانس چڑھ رہا تھا میں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا میرے پاس میرے انتقال کی خبر آئی ہے ۔ یہی حدیث قدرے زیادتی کے ساتھ حافظ ابو نعیم کی کتاب دلائل النبوۃ میں بھی ہے اس میں ہے کہ میں نے یہ سن کر کہا پھر یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد کسی کو خلیفہ نامزد کر جائیے آپ نے کہا کس کو ؟ میں نے کہا ابو بکر کو ۔ اس پر آپ خاموش ہوگئے چلتے چلتے پھر کچھ دیر بعد یہی حالت طاری ہوئی ۔ میں نے وہی سوال کیا آپ نے وہی جواب دیا ۔ میں نے خلیفہ مقرر کرنے کو کہا آپ نے پوچھا کسے ؟ میں نے کہا عمر کو ( رضی اللہ عنہ ) اس پر آپ خاموش ہوگئے کچھ دور چلنے کے بعد پھر چلنے کے بعد پھر یہی حالت اور یہی سوال جواب ہوئے اب کی مرتبہ میں نے حضرت علی بن ابی طالب کا نام پیش کیا تو آپ فرمانے لگے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر یہ لوگ ان کی اطاعت کریں تو سب جنت میں چلے جائیں گے لیکن یہ حدیث بالکل ہی غریب ہے اور بہت ممکن ہے کہ یہ محفوظ نہ ہو اور اگر صحت تسلیم کر لی جائے تو اس واقعہ کو مدینہ کا واقعہ ماننا پڑے گا ۔ وہاں بھی آپ کے پاس جنوں کے وفود آئے تھے جیسے کہ ہم عنقریب انشاء اللہ تعالیٰ بیان کریں گے اس لئے کہ آپ کا آخری وقت فتح مکہ کے بعد تھا جب کہ دین الٰہی میں انسانوں اور جنوں کی فوجیں داخل ہوگئیں اور سورہ ( اذا جاء ) الخ ، اتر چکی جس میں آپ کو خبر انتقال دی گئی تھی ۔ جیسے کہ حضرت ابن عباس کا قول ہے اور امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب کی اس پر موافقت ہے جو حدیثیں ہم اسی سورت کی تفسیر میں لائیں گے ان شاء اللہ واللہ اعلم ۔ مندرجہ بالا حدیث دوسری سند سے بھی مروی ہے لیکن اس کی سند بھی غریب ہے اور سیاق بھی غریب ہے ۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں یہ جنات جزیرہ موصل کے تھے ان کی تعداد بارہ ہزار کی تھی ابن مسعود اس خط کشیدہ کی جگہ میں بیٹھے ہوئے تھے لیکن جنات کے کھجوروں کے درختوں کے برابر کے قد و قامت وغیرہ دیکھ کر ڈر گئے اور بھاگ جانا چاہا لیکن فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم یاد آگیا کہ اس حد سے باہر نہ نکلنا ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکر کیا تو آپ نے فرمایا اگر تم اس حد سے باہر آجاتے تو قیامت تک ہماری تمہاری ملاقات نہ ہو سکتی اور روایت میں ہے کہ جنات کی یہ جماعت جن کا ذکر آیت ( وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۚ فَلَمَّا حَضَرُوْهُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا ۚ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِهِمْ مُّنْذِرِيْنَ 29؀ ) 46- الأحقاف:29 ) ، میں ہے نینویٰ کی تھی آپ نے فرمایا تھا کہ مجھے حکم دیا گیا کہ انہیں قرآن سناؤں تم میں سے میرے ساتھ کون چلے گا ؟ اس پر سب خاموش ہوگئے دوبارہ پوچھا پھر خاموشی رہی تیسری مرتبہ دریافت کیا تو قبیلہ ہذیل کے شخص حضرت ابن مسعود تیار ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ساتھ لے کر حجون کی گھاٹی میں گئے ۔ ایک لکیر کھینچ کر انہیں یہاں بٹھا دیا اور آپ آگے بڑھ گئے ۔ یہ دیکھنے لگے کہ گدھوں کی طرح کے زمین کے قریب اڑتے ہوئے کچھ جانور آرہے ہیں تھوڑی دیر بعد بڑا غل غپاڑہ سنائی دینے لگا یہاں تک کہ مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ڈر لگنے لگا ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو میں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ شوروغل کیا تھا ؟ آپ نے فرمایا ان کے ایک مقتول کا قصہ تھا جس میں یہ مختلف تھے ان کے درمیان صحیح فیصلہ کر دیا گیا یہ واقعات صاف ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قصدًا جا کر جنات کو قرآن سنایا انہیں اسلام کی دعوت دی اور جن مسائل کی اس وقت انہیں ضرورت تھی وہ سب بتا دئیے ۔ ہاں پہلی مرتبہ جب جنات نے آپ کی زبانی قرآن سنا اس وقت آپ کو نہ معلوم تھا نہ آپ نے انہیں سنانے کی غرض سے قرآن پڑھا تھا جیسے کہ ابن عباس فرماتے ہیں اس کے بعد وہ وفود کی صورت میں آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم عمدًا تشریف لے گئے اور انہیں قرآن سنایا ۔ حضرت ابن مسعود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت نہ تھے جبکہ آپ نے ان سے بات چیت کی انہیں اسلام کی دعوت دی البتہ کچھ فاصلہ پر دور بیٹھے ہوئے تھے ۔ آپ کے ساتھ اس واقعہ میں سوائے حضرت ابن مسعود کے اور کوئی نہ تھا اور دوسری تطبیق ان روایات میں جن میں ہے کہ آپ کے ساتھ ابن مسعود اور جن میں ہے کہ نہ تھے یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پہلی دفعہ نہ تھے دوسری مرتبہ تھے ۔ واللہ اعلم ، یہ بھی مروی ہے کہ نخلہ میں جن جنوں نے آپ سے ملاقات کی تھی وہ نینویٰ کے تھے اور مکہ شریف میں جو آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے وہ ( نصیبین ) کے تھے ۔ اور یہ جو روایتوں میں آیا ہے کہ ہم نے وہ رات بہت بری بسر کی اس سے مراد ابن مسعود کے سوا اور صحابہ ہیں جنہیں اس بات کا علم نہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جنات کو قرآن سنانے گئے ہیں ۔ لیکن یہ تاویل ہے ذرا دور کی واللہ اعلم ۔ بیہقی میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حاجت اور وضو کے لئے آپ کے ساتھ حضرت ابو ہریرہ پانی کی ڈولچی لئے ہوئے جایا کرتے تھے ایک دن یہ پیچھے پیچھے پہنچے آپ نے پوچھا کون ہے ؟ جواب دیا کہ میں ابو ہریرہ ہوں فرمایا میرے استنجے کے لئے پتھر لاؤ لیکن ہڈی اور لید نہ لانا میں اپنی جھولی میں پتھر بھر لایا اور آپ کے پاس رکھ دئیے جب آپ فارغ ہو چکے اور چلنے لگے میں بھی آپ کے پیچھے چلا اور پوچھا حضور کیا وجہ ہے جو آپ نے ہڈی اور لید سے منع فرما دیا ؟ آپ نے جواب دیا میرے پاس ( نصیبین ) کے جنوں کا وفد آیا تھا اور انہوں نے مجھ سے توشہ طلب کیا تھا تو میں نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا کی کہ وہ جس لید اور ہڈی پر گذریں اسے طعام پائیں ۔ صحیح بخاری میں بھی اسی کے قریب قریب مروی ہے پس یہ حدیث اور اس سے پہلے کی حدیثیں دلالت کرتی ہیں کہ جنات کا وفد آپ کے پاس اس کے بعد بھی آیا تھا اب ہم ان احادیث کو بیان کرتے ہیں جو دلالت کرتی ہیں کہ جنات آپکے پاس کئی دفعہ حاضر ہوئے ۔ ابن عباس سے جو روایت اس سے پہلے بیان ہو چکی ہے اس کے سوا بھی آپ سے دوسری سند سے مروی ہے ابن جریر میں ہے آپ فرماتے ہیں یہ سات جن تھے ( نصیبین ) کے رہنے والے انہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے قاصد بنا کر جنات کی طرف بھیجا تھا مجاہد کہتے ہیں یہ جنات تعداد میں سات تھے ( نصیبین ) کے تھے ان میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین کو اہل حران سے کہا اور چار کو اہل ( نصیبین ) سے ان کے نام یہ ہیں ۔ حسی ، حسا ، منسی ، ساحر ، ناصر ، الاردوبیان ، الاحتم ۔ ابو حمزہ شمالی فرماتے ہیں انہیں بنو شیصیان کہتے ہیں یہ قبیلہ جنات کے اور قبیلوں سے تعداد میں بہت زیادہ تھا اور یہ ان میں نصب کے بھی شریف مانے جاتے تھے اور عموماً یہ ابلیس کے لشکروں میں سے تھے ابن مسعود فرماتے ہیں یہ نو تھے ان میں سے ایک کا نام ردیعہ تھا اصل نخلہ سے آئے تھے ۔ بعض حضرات سے مروی ہے کہ یہ پندرہ تھے اور ایک روایت میں ہے کہ ساٹھ اونٹوں پر آئے تھے اور ان کے سردار کا نام وردان تھا اور کہا گیا ہے کہ تین سو تھے اور یہ بھی مروی ہے کہ بارہ ہزار تھے ان سب میں تطبیق یہ ہے کہ چونکہ وفود کئی ایک آئے تھے ممکن ہے کہ کسی میں چھ سات نو ہی ہوں کسی میں زیادہ کسی میں اس سے بھی زیادہ ۔ اس پر دلیل صحیح بخاری شریف کی یہ روایت بھی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب جس چیز کی نسبت جب کبھی کہتے کہ میرے خیال میں یہ اس طرح ہو گی تو وہ عمومًا اسی طرح نکلتی ایک مرتبہ آپ بیٹھے ہوئے تھے تو ایک حسین شخص گذرا آپ نے اسے دیکھ کر فرمایا اگر میرا گمان غلط نہ ہو تو یہ شخص اپنے جاہلیت کے زمانہ میں ان لوگوں کا کاہن تھا جانا ذرا اسے لے آنا جب وہ آگیا تو آپ نے اپنا یہ خیال اس پر ظاہر فرمایا وہ کہنے لگا مسلمانوں میں اس ذہانت و فطانت کا کوئی شخص آج تک میری نظر سے نہیں گذرا ۔ حضرت عمر نے فرمایا اب میں تجھ سے کہتا ہوں کہ تو اپنی کوئی صحیح اور سچی خبر سنا ، اس نے کہا بہت اچھا سنئے میں جاہلیت کے زمانہ میں ان کا کاہن تھا میرے پاس میرا جن جو سب سے زیادہ تعجب خیز خبر لایا وہ سنئے ۔ میں ایک مرتبہ بازار جا رہا تھا تو وہ آگیا اور سخت گھبراہٹ میں تھا اور کہنے لگا کیا تو نے جنوں کی بربادی مایوسی اور انکے پھیلنے کے بعد سمٹ جانا اور ان کی درگت نہیں دیکھی؟ حضرت عمر فرمانے لگے یہ سچا ہے میں ایک مرتبہ ان کے بتوں کے پاس سویا ہوا تھا ایک شخص نے وہاں ایک بچھڑا چڑھایا کہ ناگہاں ایک سخت پُر زور آواز آئی ایسی کہ اتنی بلند اور کرخت آواز میں نے کبھی نہیں سنی اس نے کہا اے جلیح نجات دینے والا امر آچکا ایک شخص ہے جو فصیح زبان سے آیت ( لا الہ الا اللہ ) کی منادی کر رہا ہے ۔ سب لوگ تو مارے ڈر کے بھاگ گئے لیکن میں وہیں بیٹھا رہا کہ دیکھوں آخر یہ کیا ہے؟ کہ دوبارہ پھر اسی طرح وہی آواز سنائی دی اور اس نے وہی کہا پس کچھ ہی دن گذرے تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی آوازیں ہمارے کانوں میں پڑنے لگیں ۔ اس روایت سے ظاہر الفاظ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ خود حضرت فاروق نے یہ آوازیں اس ذبح شدہ بچھڑے سے سنیں اور ایک ضعیف روایت میں صریح طور پر یہ آبھی گیا ہے لیکن باقی اور روایتیں یہ بتلا رہی ہیں کہ اسی کاہن نے اپنے دیکھنے سننے کا ایک واقعہ یہ بھی بیان کیا واللہ اعلم ، امام بیہقی نے یہی کہا ہے اور یہی کچھ اچھا معلوم ہوتا ہے اس شخص کا نام سواد بن قارب تھا جو شخص اس واقعہ کی پوری تفصیل دیکھنا چاہتا ہو وہ میری کتاب سیرۃ عمر دیکھ لے ، ( وللہ الحمد المنہ ) ۔ امام بیہقی فرماتے ہیں ممکن ہے یہی وہ کاہن ہو جس کا ذکر بغیر نام کے صحیح حدیث میں ہے حضرت عمر بن خطاب منبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک مرتبہ خطبہ سنا رہے تھے اسی میں پوچھا کیا سواد بن قارب یہاں موجود ہیں لیکن اس پورے سال تک کسی نے ہاں نہیں کہی اگلے سال آپ نے پھر پوچھا تو حضرت براء نے کہا سواد بن قارب کون ہے ؟ اس سے کیا مطلب ہے ؟ آپ نے فرمایا اس کے اسلام لانے کا قصہ عجیب و غریب ہے ابھی یہ باتیں ہو ہی رہیں تھیں جو حضرت سواد بن قارب آگئے حضرت عمر نے ان سے کہا سواد اپنے اسلام کا ابتدائی قصہ سناؤ آپ نے فرمایا سنئے میں ہند گیا ہوا تھا میرا ساتھی جن ایک رات میرے پاس آیا میں اس وقت سویا ہوا تھا مجھے اس نے جگا دیا اور کہنے لگا اٹھ اور اگر کچھ عقل و ہوش ہیں تو سن لے سمجھ لے اور سوچ لے قبیلہ لوی بن غالب میں سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہو چکے ہیں میں جنات کی حس اور ان کے بوریہ بستر باندھنے پر تعجب کر رہا ہوں اگر تو طالب ہدایت ہے تو فورا مکے کی طرف کوچ کر ۔ سمجھ لے کہ بہتر اور بدتر جن یکساں نہیں جا جلدی جا اور بنو ہاشم کے اس دلارے کے منور مکھڑے پر نظریں تو ڈال لے مجھے پھر غنودگی سی آگئی تو اس نے دوبارہ جگایا اور کہنے لگا اے سواد بن قارب اللہ عزوجل نے اپنا رسول بھیج دیا ہے تم ان کی خدمت میں پہنچو اور ہدایت اور بھلائی سمیٹ لو دوسری رات پھر آیا اور مجھے جگا کر کہنے لگا مجھے جنات کے جستجو کرنے اور جلد جلد پالان اور جھولیں کسنے پر تعجب معلوم ہوتا ہے اگر تو بھی ہدایت کا طالب ہے تو مکے کا قصد کر ۔ سمجھ لے کہ اس کے دونوں قدم اس کی دموں کی طرح نہیں تو اٹھ اور جلدی جلدی بنو ہاشم کے اس پسندیدہ شخص کی خدمت میں پہنچ اور اپنی آنکھیں اس کے دیدار سے منور کر ۔ تیسری رات پھر آیا اور کہنے لگا مجھے جنات کے باخبر ہو جانے اور ان کے قافلوں کے فورا تیار ہو جانے پر تعجب آرہا ہے وہ سب طلب ہدایت کے لئے مکہ کی طرف دوڑے جا رہے ہیں ان میں کے برے بھلوں کی برابری نہیں کر سکتے تو بھی اٹھ اور اس بنو ہاشم کے چیدہ شخص کی طرف چل کھڑا ہو ۔ مومن جنات کافروں کی طرح نہیں تین راتوں تک برابر یہی سنتے رہنے کے بعد میرے دل میں بھی دفعتًہ اسلام کا ولولہ اٹھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وقعت اور محبت سے دل پر ہو گیا میں نے اپنی سانڈنی پر کجاوہ کسا اور بغیر کسی جگہ قیام کئے سیدھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ اس وقت شہر مکہ میں تھے اور لوگ آپ کے آس پاس ایسے تھے جیسے گھوڑے پر ایال ۔ مجھے دیکھتے ہی یکبارگی اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سواد بن قارب کو مرحبا ہو آؤ ہمیں معلوم ہے کہ کیسے اور کس لئے اور کس کے کہنے سننے سے آرہے ہو ، میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں نے کچھ اشعار کہے ہیں اگر اجازت ہو تو پیش کروں ؟ آپ نے فرمایا سواد شوق سے کہو تو حضرت سواد نے وہ اشعار پڑھے جن کا مضمون یہ ہے کہ میرے پاس میرا جن میرے سو جانے کے بعد رات کو آیا اور اس نے مجھے ایک سچی خبر پہنچائی تین راتیں برابر وہ میرے پاس آتا رہا اور ہر رات کہتا رہا کہ لوی بن غالب میں اللہ کے رسول مبعوث ہو چکے ہیں ، میں نے بھی سفر کی تیاری کر لی اور جلد جلد راہ طے کرتا یہاں پہنچ ہی گیا اب میری گواہی ہے کہ بجز اللہ کے اور کوئی رب نہیں اور آپ اللہ کے امانتدار رسول ہیں آپ سے شفاعت کا آسرا سب سے زیادہ ہے اے بہترین بزرگوں اور پاک لوگوں کی اولاد اے تمام رسولوں سے بہتر رسول جو حکم آسمانی آپ ہمیں پہنچائیں گے وہ کتنا ہی مشکل اور طبیعت کے خلاف کیوں نہ ہو ناممکن کہ ہم اسے ٹال دیں آپ قیامت کے دن ضرور میرے سفارشی بننا کیونکہ وہاں بجز آپ کے سواد بن قارب کا سفارشی اور کون ہو گا ؟ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہنسے اور فرمانے لگے سواد تم نے فلاح پالی ۔ حضرت عمر نے یہ واقعہ سن کر پوچھا کیا وہ جن اب بھی تیرے پاس آتا ہے اس نے کہا جب سے میں نے قرآن پڑھا وہ نہیں آتا اور اللہ کا بڑا شکر ہے کہ اسکے عوض میں نے رب کی پاک کتاب پائی ۔ اور اب جس حدیث کو ہم حافظ ابو نعیم کی کتاب دلائل النبوۃ سے نقل کرتے ہیں اس میں بھی اس کا بیان ہے کہ مدینہ شریف میں بھی جنات کا وفد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں باریاب ہوا تھا ۔ حضرت عمرو بن غیلان ثقفی ، حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس جا کر ان سے دریافت کرتے ہیں کہ مجھے یہ معلوم ہوا کہ جس رات جنات کا وفد حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوا تھا اس رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ بھی تھے ؟ جواب دیا کہ ہاں ٹھیک ہے میں نے کہا ذرا واقعہ تو سنائیے ۔ فرمایا صفہ والے مساکین صحابہ کو لوگ اپنے اپنے ساتھ شام کا کھانا کھلانے لے گئے اور میں یونہی رہ گیا میرے پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا پوچھا کون ہے ؟ میں نے کہا ابن مسعود فرمایا تمہیں کوئی نہیں لے گیا کہ تم بھی کھا لیتے ؟ میں نے جواب دیا نہیں کوئی نہیں لے گیا فرمایا اچھا میرے ساتھ چلو شاہد کچھ مل جائے تو دے دوں گا میں ساتھ ہو لیا آپ حضرت ام سلمہ کے حجرے میں گئے میں باہر ہی ٹھہر گیا تھوڑی دیر میں اندر سے ایک لونڈی آئی اور کہنے لگی حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہم نے اپنے گھر میں کوئی چیز نہیں پائی تم اپنی خواب گاہ میں چلے جاؤ ۔ میں واپس مسجد میں آگیا اور مسجد میں کنکریوں کا ایک چھوٹا سا ڈھیر کر کے اس پر سر رکھ کر اپنا کپڑا لپیٹ کر سو گیا تھوڑی ہی دیر گذری ہو گی تو وہی لونڈی پھر آئیں اور کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو یاد فرما رہے ہیں ساتھ ہو لیا اور مجھے امید پیدا ہو گئی کہ اب تو کھانا ضرور ملے گا جب میں اپنی جگہ پہنچا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے آپ کے ہاتھ میں کھجور کے درخت کی ایک چھڑی تھی جسے میرے سینے پر رکھ کر فرمانے لگے جہاں میں جا رہا ہوں کیا تم بھی میرے ساتھ چلو گے؟ میں نے کہا جو اللہ نے چاہا ہو تین مرتبہ یہی سوال جواب ہوئے پھر آپ چلے اور میں بھی آپ کے ساتھ چلنے لگا تھوڑی دیر میں بقیع غرقد چا پہنچے پھر قریب قریب وہی بیان ہے جو اوپر کی روایتوں میں گذر چکا ہے اس کی سند غریب ہے اور اس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے جس کا نام ذکر نہیں کیا گیا ۔ دلائل نبوت میں حافظ ابو نعیم فرماتے ہیں کہ مدینہ کی مسجد میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز ادا کی اور لوٹ کر لوگوں سے کہا آج رات کو جنات کے وفد کی طرف تم میں سے کون میرے ساتھ چلے گا ؟ کسی نے جواب نہ دیا تین مرتبہ فرمان پر بھی کوئی نہ بولا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گذرے اور میرا ہاتھ تھام کر اپنے ساتھ لے چلے مدینہ کی پہاڑوں سے بہت آگے نکل کر صاف چٹیل میدان میں پہنچ گئے اب نیزوں کے برابر لانبے لانبے قد کے آدمی نیچے نیچے کپڑے ہوئے آنے شروع ہوئے ہیں ۔ میں تو انہیں دیکھ کر مارے ڈر کے کانپنے لگا پھر اور واقعہ مثل حدیث ابن مسعود کے بیان کیا ۔ یہ حدیث بھی غریب ہے واللہ اعلم ۔ اسی کتاب میں ایک غریب حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ کے ساتھی حج کو جا رہے تھے راستے میں ہم نے دیکھا کہ ایک سفید رنگ سانپ راستے میں لوٹ رہا ہے اور اس میں سے مشک کی خوشبو اڑ رہی ہے ، ابراہیم کہتے ہیں میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم تو سب جاؤ میں یہاں ٹھہر جاتا ہوں دیکھوں تو اس سانپ کا کیا ہوتا ہے ؟ چنانچہ وہ چل دئیے اور میں ٹھہر گیا تھوڑی ہی دیر گذری ہو گی جو وہ سانپ مر گیا میں نے ایک سفید کپڑا لے کر اس میں لپیٹ کر راستے کے ایک طرف دفن کر دیا اور رات کے کھانے کے وقت اپنے قافلے میں پہنچ گیا اللہ کی قسم میں بیٹھا ہوا تھا جو چار عورتیں مغرب کی طرف آئیں ان میں سے ایک نے پوچھا عمرو کو کس نے دفن کیا ؟ ہم نے کہا کون عمرو؟ اس نے کہا تم میں سے کسی نے ایک سانپ کو دفن کیا ہے ؟ میں نے کہا ہاں میں نے دفن کیا ہے کہنے لگی قسم ہے اللہ کی تم نے بڑے روزے دار بڑے پختہ نمازی کو دفن کیا ہے جو تمہارے نبی کو مانتا تھا اور جس نے آپ کے نبی ہونے سے چار سو سال پیشتر آسمان سے آپ کی صفت سنی تھی ابراہیم کہتے ہیں اس پر ہم نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر حج سے فارغ ہو کر جب ہم فاروق اعظم کی خدمت میں پہنچے اور میں نے آپ کو یہ سارا واقعہ سنایا تو آپ نے فرمایا اس عورت نے سچ کہا ۔ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ مجھ پر ایمان لایا تھا میری نبوت کے چار سو سال پہلے ۔ یہ حدیث بھی غریب ہے واللہ اعلم ۔ ایک روایت میں ہے کہ دفن کفن کرنے والے حضرت صفوان بن معطل تھے کہتے ہیں کہ یہ صاحب جو یہاں دفن کئے گئے یہ ان نو جنات میں سے ایک ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قرآن سننے کے لئے وفد بن کر آئے تھے ان کا انتقال ان سب سے اخیر میں ہوا ۔ ابو نعیم میں ایک روایت ہے کہ ایک شخص حضرت عثمان ذوالنورین کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے امیرا لمومنین میں ایک جنگل میں تھا میں نے دیکھا کہ دو سانپ آپس میں خوب لڑ رہے ہیں یہاں تک کہ ایک نے دوسرے کو مار ڈالا ۔ اب میں انہیں چھوڑ کر جہاں معرکہ ہوا تھا وہاں گیا تو بہت سے سانپ قتل کئے ہوئے پڑے ہیں اور بعض سے اسلام کی خوشبو آرہی ہے پس میں نے ایک ایک کو سونگھنا شروع کیا یہاں تک کہ ایک زرد رنگ کے دبلے پتلے سانپ سے مجھے اسلام کی خوشبو آنے لگی ، میں نے اپنے عمامے میں لپیٹ کر اسے دفنا دیا اب میں چلا جا رہا تھا جو میں نے ایک آواز سنی کہ اے اللہ کے بندے تجھے اللہ کی طرف سے ہدایت دی گئی ۔ یہ دونوں سانپ جنات کے قبیلہ بنو شیعبان اور بنو قیس میں سے تھے ۔ ان دونوں میں جنگ ہوئی اور پھر جس قدر قتل ہوئے وہ تم نے خود دیکھ لئے انہی میں ایک شہید جنہیں تم نے دفن کیا وہ تھے جنہوں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی وحی الہٰی سنی تھی ۔ حضرت عثمان اس قصے کو سن کر فرمانے لگے اے شخص اگر تو سچا ہے تو اس میں شک نہیں کہ تو نے عجب واقعہ دیکھا اور اگر تو جھوٹا ہے تو جھوٹ کا بوجھ تجھ پر ہے ۔ اب آیت کی تفسیر سنئے ارشاد ہے کہ جب ہم نے تیری طرف جنات کے ایک گروہ کو پھیرا جو قرآن سن رہا تھا جب وہ حاضر ہوگئے اور تلاوت شروع ہونے کو تھی تو انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کو یہ ادب سکھایا کہ خاموشی سے سنو ۔ ان کا ایک اور ادب بھی حدیث میں آیا ہے ترمذی وغیرہ میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے سامنے سورہ رحمٰن کی تلاوت کی پھر فرمایا کیا بات ہے ؟ جو تم سب خاموش ہی رہے تم سے تو بہت اچھے جواب دینے والے جنات ثابت ہوئے جب بھی میرے منہ سے انہوں نے آیت ( فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ 13 ؀ ) 55- الرحمن:13 ) سنی انہوں نے جواب میں کہا ( ولا بشیءٍ من الائک او نعمک ربنا نکذب فلک الحمد ) پھر فرماتا ہے جب فراغت حاصل کی گئی ( قضی ) کے معنی ان آیتوں میں بھی یہی ہیں آیت ( فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ 10؀ ) 62- الجمعة:10 ) اور آیت ( فَقَضٰهُنَّ سَبْعَ سَمٰوَاتٍ فِيْ يَوْمَيْنِ وَاَوْحٰى فِيْ كُلِّ سَمَاۗءٍ اَمْرَهَا ۭ وَزَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ ڰ وَحِفْظًا ۭ ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ 12؀ ) 41- فصلت:12 ) اور آیت ( فَاِذَا قَضَيْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ ٢٠٠؁ ) 2- البقرة:200 ) وہ اپنی قوم کو دھمکانے اور انہیں آگاہ کرنے کے لئے واپس ان کی طرف چلے جیسے اللہ عزوجل و علا کا فرمان ہے آیت ( فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــةٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْهِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ ١٢٢؀ۧ ) 9- التوبہ:122 ) ، یعنی وہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور جب واپس اپنی قوم کے پاس پہنچیں تو انہیں بھی ہوشیار کر دیں بہت ممکن ہے کہ وہ بچاؤ اختیار کرلیں ۔ اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ جنات میں بھی اللہ کی باتوں کو پہنچانے والے اور ڈر سنانے والے ہیں لیکن ان میں سے رسول نہیں بنائے گئے یہ بات بلاشک ثابت ہے کہ جنوں میں پیغمبر نہیں ہیں ۔ فرمان باری ہے آیت ( وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ فَسْــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ Ċ۝ ) 21- الأنبياء:7 ) ، یعنی ہم نے تجھ سے پہلے بھی جتنے رسول بھیجے وہ سب بستیوں کے رہنے والے انسان ہی تھے جن کی طرف ہم نے اپنی وحی بھیجا کر تے تھے اور آیت میں ہے آیت ( وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّآ اِنَّهُمْ لَيَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَيَمْشُوْنَ فِي الْاَسْوَاقِ ۭ وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً ۭ اَتَصْبِرُوْنَ ۚ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيْرًا 20؀ۧ ) 25- الفرقان:20 ) یعنی تجھ سے پہلے ہم نے جتنے رسول بھیجے وہ سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے ۔ ابراہیم خلیل اللہ کی نسبت قرآن میں ہے آیت ( وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ وَاٰتَيْنٰهُ اَجْرَهٗ فِي الدُّنْيَا ۚ وَاِنَّهٗ فِي الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِيْنَ 27؀ ) 29- العنكبوت:27 ) یعنی ہم نے ان کی اولاد میں نبوۃ اور کتاب رکھ دی پس آپ کے بعد جتنے بھی نبی آئے وہ آپ ہی کے خاندان اور آپ ہی کی نسل میں سے ہوئے ہیں ۔ لیکن سورہ انعام کی آیت ( يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ وَيُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَ ١٣٠؁ ) 6- الانعام:130 ) یعنی اے جنوں اور انسانوں کے گروہ کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے ؟ اس کا مطلب اور اس سے مراد یہ دونوں جنس ہیں پس اس کا مصداق ایک جنس ہی ہو سکتی ہے جیسے فرمان ( يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ 22۝ۚ ) 55- الرحمن:22 ) یعنی ان دونوں سمندروں میں سے موتی اور مونگا نکلتا ہے حالانکہ دراصل ایک میں سے ہی نکلتا ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

29۔ 1 صحیح مسلم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مکہ کے قریب نخلہ وادی میں پیش آیا، جہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحاب اکرام کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے۔ جنوں کو تجسس تھا کہ آسمان پر ہم پر بہت زیادہ سختی کردی گئی ہے اب ہمارا وہاں جانا تقریبًا ناممکن بنادیا گیا ہے، کوئی بہت ہی اہم واقعہ رون... ما ہوا ہے جس کے نتیجے میں ایسا ہوا ہے۔ چناچہ مشرق و مغرب کے مختلف اطراف میں جنوں کی ٹولیاں واقعے کا سراغ لگانے کے لئے پھیل گئیں ان میں سے ایک ٹو لی نے یہ قرآن سنا اور یہ بات سمجھ لی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا یہ واقعہ ہی ہم پر آسمان کی بندش کا سبب ہے اور جنوں کی یہ ٹولی آپ پر ایمان لے آئی اور جا کر اپنی قوم کو بھی بتلایا (مسلم بخاری) (صحیح بخاری) ۔ میں بھی بعض باتوں کا تذکرہ ہے کتاب مناقب الانصار باب ذکر الجن بعض دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد آپ جنوں کی دعوت پر ان کے ہاں بھی تشریف لے گئے اور انہیں جا کر اللہ کا پیغام سنایا اور متعدد مرتبہ جنوں کا وفد آپ کی خدمت میں بھی حاضر ہوا (فتح الباری، تفسیر ابن کثیر) 29۔ 2 یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے تلاوت قرآن ختم ہوگی۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤١] انسان سے پہلے زمین پر جنوں کی آبادی :۔ اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق میں سے دو نوع ایسی ہیں جو شریعت الٰہی کی مکلف ہیں۔ ایک جن، دوسرے انسان۔ پھر انسانوں کی پیدائش سے پہلے جن ہی اس زمین پر آباد تھے۔ اور ان کی طرف بھی پیغمبر مبعوث ہوتے تھے۔ اور جس طرح انسانوں کی اکثریت اللہ تعالیٰ کی نافرمان ہی رہی ... ہے۔ اسی طرح جنوں کی اکثریت بھی نافرمان ہی تھی اور اب بھی ہے۔ خ بعد میں نبوت صرف انسانوں میں :۔ جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا تو اسے بھی اشرف المخلوقات بنایا اور جنوں کی حیثیت انسان کے بالتبع بن جانے کی ہوگئی۔ نبوت کا سلسلہ جنوں کی طرف سے بند ہو کر انسانوں کی طرف منتقل ہوگیا۔ اب جو پیغمبر انسانوں کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ بھیجتے رہے وہی جنوں کے لیے بھی پیغمبر ہوتے تھے گویا ہمارے نبی آخرالزمان جس طرح ہمارے لیے اللہ کے پیغمبر تھے، جنوں کے لئے بھی تھے & جنوں کے آپ سے قرآن سننے کا ذکر ایک تو اس مقام پر آیا ہے اور دوسرا سورة جن میں۔ لیکن روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مکی دور میں تقریباً چھ دفعہ ایسا موقع آیا تھا۔ جب آپ سے جنوں نے قرآن سنا تھا۔ ان میں سے ہم چند روایات درج کرتے ہیں۔ ان میں جو کچھ اختلاف معلوم ہوتا ہے۔ وہ صرف الگ الگ موقع کی وجہ سے ہے۔: ١۔ جنوں کا آپ کی زبان سے قرآن سننا :۔ سیدنا عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں، ایک دفعہ آپ اپنے چند صحابہ کے ہمراہ عکاظ کے بازار جانے کے ارادہ سے روانہ ہوئے۔ ان دنوں شیطانوں کو آسمانوں کی خبر ملنا بند ہوگئی اور ان پر انگارے پھینکے جاتے تھے۔ وہ (زمین کی طرف) لوٹے اور (آپس میں) کہنے لگے۔ یہ کیا ہوگیا۔ ہمیں آسمان کی خبر ملنابند ہوگئی اور ہم پر انگارے پھینکے جاتے ہیں۔ ضرور کوئی بات واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہمیں آسمان کی خبر ملنا بند ہوگئی ہے اب یوں کرو کہ ساری زمین کے مشرق و مغرب میں پھر کر دیکھو کہ وہ کیا نئی بات واقع ہوئی ہے ان میں سے کچھ شیطان تہامہ (حجاز) کی طرف بھی آئے اور آپ تک پہنچ گئے۔ اس وقت آپ نخلہ میں تھے اور عکاظ کے بازار جانے کا قصد رکھتے تھے۔ آپ اپنے صحابہ کو نماز فجر پڑھا رہے تھے جب ان جنوں نے قرآن سنا تو ادھر کان لگا دیا۔ پھر کہنے لگے : یہ وہی چیز ہے جس کی وجہ سے ہم پر آسمان کی خبر بند کردی گئی۔ پھر اسی وقت وہ اپنی قوم کی طرف لوٹے اور کہنے لگے ( قُلْ اُوْحِيَ اِلَيَّ اَنَّهُ اسْتَـمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْٓا اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا ۝ ۙ ) 72 ۔ الجن :1) تک اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر سورة جن نازل فرمائی۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جنوں کی گفتگو آپ کو وحی کے ذریعہ معلوم ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورة الجن) ٢۔ جنو کی خوراک :۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ کے ساتھ تھے کہ آپ یک دم ہم سے غائب ہوگئے۔ ہم نے آپ کو پہاڑ کی وادیوں اور گھاٹیوں میں تلاش کیا، مگر آپ نہیں ملے۔ ہم سمجھے کہ آپ کو جن اڑا لے گئے یا کسی نے چپکے سے مار ڈالا اور رات ہم نے بڑی پریشانی میں بسر کی جب صبح ہوئی تو دیکھا کہ آپ حرا کی طرف سے آرہے ہیں۔ ہم نے عرض کیا یارسول اللہ رات کو آپ ہم سے غائب ہوگئے ہم نے آپ کو تلاش کیا مگر آپ نہ ملے تو رات ہم نے بڑی پریشانی میں گزاری۔ آپ نے فرمایا :&& مجھے جنوں کی طرف سے ایک بلانے والا آیا، میں اس کے ساتھ گیا اور جنوں کو قرآن سنایا۔ پھر وہ ہم کو اپنے ساتھ لے گئے اور ان کی نشانیاں اور ان کی آگ کے نشان ہمیں بتائے۔ پھر جنوں نے آپ سے توشہ کا مطالبہ کیا۔ آپ نے فرمایا : اس جانور کی ہر ہڈی جو اللہ کے نام پر کاٹا جائے، تمہاری خوراک ہے۔ تمہارے ہاتھ میں پڑتے ہی وہ گوشت سے پر ہوجائے گی اور ہر اونٹ کی مینگنی تمہارے جانوروں کی خوراک ہے۔ پھر آپ نے فرمایا : ہڈی اور مینگنی سے استنجا مت کرو۔ کیونکہ وہ تمہارے بھائی جنوں اور ان کے جانوروں کی خوراک ہے۔ && عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ && میں لیلۃ الجن کو رسول اللہ کے ساتھ نہ تھا لیکن مجھے آرزو رہی کاش میں آپ کے ساتھ ہوتا && نیز ایک دوسری روایت میں ہے کہ عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ آپ کو جنوں کے آنے کی خبر ایک درخت نے دی تھی۔ (مسلم۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب الجھر بالقرآۃ فی الصبح والقراءۃ علی الجن) [٤٢] جو روایات حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے مختلف کتب احادیث میں مذکور ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جنوں کی پہلی حاضری کا یہ واقعہ جس کا اس آیت میں ذکر ہے وادی نخلہ میں پیش آیا تھا۔ اور ایک دوسری روایت کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب آپ اہل طائف سے مایوس ہو کر مکہ معظمہ کی طرف واپس آرہے تھے۔ راستہ میں آپ نے وادی نخلہ میں قیام فرمایا وہاں عشاء یا فجر یا تہجد کی نماز میں آپ قرآن کی تلاوت فرما رہے تھے کہ جنوں کے ایک گروہ کا ادھر سے گزر ہوا اور وہ آپ کی قرائت سننے کے لیے وہاں ٹھہر گیا۔ اس موقعہ پر جن رسول اللہ کے سامنے نہیں آئے تھے۔ نہ آپ نے ان کی آمد کو محسوس کیا تھا بلکہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ وحی ان کے آنے اور قرآن سننے کی خبر دی جیسا کہ سیدنا ابن عباس (رض) کی روایت یا مذکورہ حدیث نمبر ١ سے معلوم ہوتا ہے۔ [٤٣] سننے والے جنوں کی تبلیغ سے بہت سے جنوں کا ایمان لے آنا :۔ جنوں کے اس گروہ نے قرآن سنا تو اس سے بہت متاثر ہوئے اور فوراً رسول اللہ کی رسالت پر اور قرآن کے منزل من اللہ ہونے پر ایمان لے آئے۔ (یہ واقعہ ان کفار مکہ کو سنایا جارہا ہے جو دل سے قرآن کی عظمت کو تسلیم کرنے کے باوجود اسے بہرحال نہ ماننے پر ادھار کھائے بیٹھے تھے) یہ جن صرف خود ہی ایمان نہیں لائے بلکہ اپنی قوم میں جاکر انہیں قرآن کا پیغام سنایا۔ جنوں نے قرآن کی کون سی آیات سنی تھیں ؟ اس کی صراحت کہیں مذکور نہیں البتہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کچھ ایسی ہی آیات تھیں جن میں اللہ کے نافرمانوں اور مشرکوں کو ان کے برے انجام سے ڈرایا گیا ہو۔ چناچہ جنوں کی اپنی قوم کو تبلیغ کے نتیجہ میں ایک کثیر تعداد میں جن مسلمان ہوگئے۔ جو بعد میں کئی بار وفود کی شکل میں آپ کے پاس حاضر ہوتے رہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) واذ صرفنا الیک نفراً من الجن…:” اذ “ سے پہلے ” اذکر “ محذوف ہے جس کا عطف اس سے پہلے مذکور آیت ” واذکر احاعاد “ پر ہے۔ یعنی کفار مکہ کے لئے ہود (علیہ السلام) اور ان کی قوم عاد کا ذکر کیجیے جو ان سے کہیں زیادہ قوت و شوکت والے تھے کہ اپنے رسول کو جھٹلانے پر ان کا کیا حال ہوا، اسی طرح اہل مکہ کے ارد... گرد کی بستیوں کے کفر پر اصرار کا انجام کیا ہوا، تاکہ اہل مکہ کو ان کے انجام سے عبرت ہو اور وہ کفر و شرک سے باز آجائیں۔” واذ صرفنا الیک نفراً من الجن یستعون القرآن “ اور ان کفار کے لئے اس وقت کا ذکر کیجیے جب ہم نے جنوں کے ایک گروہ کا رخ آپ کی طرف پھیرا اور انہوں نے آپ سے قرآن سنا۔ مقصد کفار مکہ کو شرم دلانا ہے کہ اپنی جنس انسان، اپنی نسل عرب، اپنی قوم قریش اور اپنے شہر مکہ میں مبعوث رسول کی زبان سے ان پر نازل شدہ قرآن جیسی فصیح و بلیغ اور معجز کتاب مدت سے سننے کے باوجود نہ تم پر قرآن کا کچھ اثر ہوا، نہ تم رسول پر ایمان لائے اور نہ شرک کی نجاست سے پاک ہو سکے، ذرا جنوں کے اس گروہ کو بھی دیکھو جو اچانک اس موقع پر پہنچا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن پڑھ رہے تھے، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جنس یا قوم کے فرد نہیں تھے بلکہ ایک الگ جنس سے تھے، شہر بھی ان کا کوئی اور تھا، راستے میں انہیں قرآن سننے کا اتفاق ہوا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم بھی نہ تھا کہ جنوں کا کوئی گروہ میرا قرآن سن رہا ہے ، اس کے باوجود ان کے طرز عمل اور اپنے طرز عمل کا موازنہ کرلو۔ (٢) فلما حضروہ قالوا انصبوا : جب وہ اس موقع پر حاضر ہوئے تو ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ خاموش ہوجاؤ، تاکہ ہم غور سے قرآن سن سکتیں۔ ان جنوں کو دیکھو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ توفیق سے خود ہی اس حکم پر عمل کر رہے ہیں جو سورة اعراف میں ہے :(واذا قری القرآن فاستمعوا لہ و انصتوا لعلکم ترحمون) (الاعراف :203)” اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور چپ رہو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ “ اور اپنے آپ کو دیکھو، تمہاری روش وہ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے حم السجدہ میں فرمایا ہے :(وقال الذین کفروا لاتسمعوا لھذا القرآن والغوا فیہ لعلکم تعلمون) (حم السجدہ : ٢٦)” اور ان لوگوں نے کہا جنہوں نے کفر کیا، اس قرآن ک ومت سنو اور اس میں شور کرو، تاکہ تم غالب رہو۔ “ وہ ایک دوسرے کو خاموش رہ کر سننے کی تلقین کر رہے ہیں اور تم ایک دوسرے کو سننے سے روک رہے ہو۔ کم از کم سن تو لو، تاکہ ان کی طرح رحم کا دروازہ تمہارے لئے بھی کھل سکے، صرف تکبر اور غلبے کی ہوس میں نہ پڑے رہو۔ ایسا نہ ہو کہ یہ ہوس قوم عاد کی طرح تمہیں بھی برباد کر دے۔ (٣) فلما قضی ولوا الی قومھم منذرین : جب قرآن کی قرأت پوری ہوچکی تو وہ نہ صرف یہ کہ خود ایمان لے آئے بلکہ اپنی قوم کو بھی کفر کے انجام سے خبردار کرنے کے لئے ان کی طرف واپس پلٹ گئے، کیونکہ ایمان کی تکمیل اسی سے ہوتی ہے۔ ابوہریرہ (رض) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چند نصیحتیں فرمائیں، ان میں سے ایک یہ تھی :(واحب للناس ماتحب لنفسک تکن مومنا) (ابن ماجہ، الزھد، باب الورع والتفوی :3218)” لوگوں کے لئے وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو ، ممن بن جاؤ گے۔ “ (٤) طبری نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ انہوں نے ’ و اذ صرفنا الیک نفراً من الجن “ کے بارے میں فرمایا : ” یہ اہل نصیین میں سے سات (مرد جن) تھے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اپنی قوم کی طرف پیغام پہنچانے والا بناک ر بھیجا۔ “ (الطبری :31583 ابن کثیر کے محقق نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔ (٥) جنوں کا یہ گروہ کس موقع پر آیا ؟ اس کی تفصیل کیلئے دیکھیے سورة جن کی شان نزول اور اس کی ابتدائی آیات کی تفسیر۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The previous verses have condemned the infidelity and the arrogant attitude of the infidels and its destructive results. In these verses, the people of Makkah are being put to shame by telling them that even jinn, who are even more proud and haughty than you, had their hearts softened after hearing the Qur&an, and they became Muslims; Allah has given the humans more sense and intell... igence than jinns, and despite that they do not embrace faith. The incident of the jinn listening to the Qur&an and then embracing faith is stated in authentic ahadith. When the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was blessed with prophethood, the jinns were stopped from listening to the news of the heavens, and if a jinn ventured to go upwards to overhear the heavenly news, was chased away by a meteor directed towards him. The jinns consulted each other to find out the cause of this new phenomenon that has stopped them from listening to the news from the heavens. They believed that some new event happening in the world may have been the cause. In order to discover that event, various groups of jinns spread out in different parts of the world to investigate this phenomenon. One of the groups reached Hijaz also when the Holy Prophet along with some of his companions was present at a place called Batn Nakhlah and was intending to go to the fair of ` Ukaz&. (Arabs used to setup trade-fairs on special days in various places for commercial and social purposes where people of all areas used to assemble, set up shops and arrange meetings and social gatherings much like the exhibitions of our days. One such fair used to be set up in ` Ukaz where the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was intending to go probably for preaching and calling towards Islam.) The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was leading the morning prayers in Batn nakhlah when the jinns reached there. After hearing the Qur&an, they exclaimed that this was that new matter which has come between them and the heavenly news. (Ahmad, Bukhari, Muslim, Tirmidhi, Nasa&i, etc., with the authority of Ibn ` Abbas (رض) According to another narration, when the jinns came there, they directed each other to keep quiet and listen to the Qur&an. When the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) finished his prayers, they put their belief in Islam, embraced it, went back to their people and informed them of the real cause of the new phenomenon. They also told their people that they had become Muslims and advised them that they should also embrace the faith. But the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) did not become aware of the jinns coming and going and of their embracing the faith after listening to the Qur&an until Surah jinn was revealed wherein he was informed of this incident. (Ibn-ul-Mundhir quoting ` Abdul Malik) Another narration states that these jinns were inhabitants of Nasibin, either seven or nine in number. When they told their nation about it and motivated them to embrace faith, three hundred of them presented themselves for embracing Islam. (Abu Nu&aim, Al-Waqidi, quoting Ka` b al-Ahbar, as in Ruh-ul-Ma’ ani). There are diverse narrations in other ahadith also, but since they are about various incidents at different times, there is no contradiction between them. That these are different incidents is supported by a statement of Ibn ` Abbas reported by Tabarani in Awsat and by Ibn Marduwaih that the jinns came to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) many times. Khafaji has said that the cumulative outcome of various ahadith is that jinn presented themselves to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) six times for benefiting from his teachings. (Ruh-ul-Ma ani and Bayan-ul-Qur an)   Show more

خلاصہ تفسیر اور (ان سے) اس وقت کا قصہ ذکر کیجئے) جبکہ ہم جنات کی ایک جماعت کو آپ کی طرف لے آئے جو (اخیر میں یہاں پہنچ کر) قرآن سننے لگے تھے غرض جب وہ لوگ قرآن (کے پڑھے جانے کے موقع) کے پاس آپہنچے تو (آپس میں) کہنے لگے کہ خاموش رہو (اور اس کلام کو سنو) پھر جب قرآن پڑھا جا چکا (یعنی جتنا اس وقت پیغم... بر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز میں پڑھنا تھا ختم ہوچکا) تو وہ لوگ (اس پر ایمان لے آئے اور) اپنی قوم کے پاس (اسکی) خبر پہنچانے کے واسطے واپس گئے (اور جا کر ان سے) کہنے لگے اے بھائیو ہم ایک (عجیب) کتاب سن کر آئے ہیں جو موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نازل کی گئی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے (اور دین) حق اور راہ راست کی طرف رہنمائی کرتی ہے (یہ تو دین اسلام کی حقانیت کا اثبات و اظہار ہے، آگے امر ہے اس کے قبول کرنے کا اول ترغیباً پھر تھیباً یعنی) اے بھائیو تم اللہ کی طرف بلانے والے کا کہنا مانو (مراد داعی سے قرآن یا نبی ذیشان ہیں) اور (کہنا ماننا یہ ہے کہ) اس پر ایمان لے آؤ تم ایسا کرو گے تو) اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور تم کو عذاب درد ناک سے محفوظ رکھے گا اور جو شخص اللہ کی طرف بلانے والے کا کہنا مانے گا تو وہ زمین (کے کسی حصہ) میں بھاگ کر خدا کو) ہرا نہیں سکتا (یعنی اس طرح کہ ہاتھ نہ آئے) اور (جیسا وہ خود نہیں بچ سکتا اسی طرح) خدا کے سوا اور کوئی اس کا حامی بھی نہ ہوگا ( کہ وہ اس کو بچا سکے اور) ایسے لوگ صریح گمراہی میں (مبتلا) ہیں (کہ بوجود قیام دلائل کے داعی کے حق ہونے پر پھر بھی اس کی اجابت نہ کریں۔ معارف و مسائل کفار مکہ کو سنانے کے لئے اس سے پہلی آیات میں کفر اور استکبار کی مذمت اور انکا مہلک ہونا بیان ہوا ہے۔ مذکور الصدر آیات میں اہل مکہ کو عار دلانے کے لئے جنات کے ایمان لانے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ جناب تو تکبر و غرور میں تم سے بھی زیادہ ہیں مگر قرآن سن کر ان کے دل بھی موم ہوگئے وہ مسلمان ہوگئے تمہیں تو اللہ تعالیٰ نے جنات سے زیادہ عقل و شعور بخشا ہے مگر اس کے باوجود تم ایمان نہیں لاتے اور واقعہ جنات کے قرآن سننے اور ایمان لانے کا احادیث صحیحہ میں اس طرح آیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے وقت جب جنات کو آسمانی خبریں سننے سے روک دیا گیا تو آپ کی نبوت و بعثت کے بعد جو جن آسمانی خبریں سننے کے لئے اوپر جاتا تو اس پر شہاب ثاقب پھینک کر دفع کردیا جانے لگا۔ جنات میں اس کا تذکرہ ہوا کہ اس کا سبب معلوم کرنا چاہئے کہ کون سا نیا واقعہ دنیا میں ہوا ہے جس کی وجہ سے جنات کو آسمانی خبروں سے روک دیا گیا۔ جنات کے مختلف گروہ دنیا کے مختلف خطوں میں اس کی تحقیقات کے لئے پھیل گئے، ان کا ایک گروہ حجاز کی طرف بھی پہنچا اس روز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے چند صحابہ کے ساتھ مقام بطن نخلہ میں تشریف فرما تھے اور سوق عکاظ کی طرف جانے کا قصد تھا۔ (عرب کے لوگ تجارتی اور معاشرتی امور کے لئے مختلف مقامات پر خاص خاص ایام میں بازار لگاتے تھے جس پر ہر خطے کے لوگ جمع ہوتے دکانیں لگتیں اور اجتماعات اور جلسے ہوتے تھے جیسے ہمارے زمانے میں اسی طرح کی نمائشیں جا بجا ہوتی ہیں، انہیں میں سے ایک بازار مقام عکاظ میں لگتا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غالباً دعوت و تبلیغ اسلام کے لئے تشریف لے جا رہے تھے) اس مقام بطن نحلہ میں آپ صبح کی نماز پڑھا رہے تھے کہ وہ جنات یہاں پہنچے، قرآن سن کر کہنے لگے کہ بس وہ نئی بات یہی ہے جو ہمارے اور آسمانی خبروں کے درمیان حائل ہوئی ہے (رواہ الامام احمد والبخاری و مسلم والترمذی و النسائی و جماعتہ عن ابن عباس) اور ایک روایت میں ہے کہ وہ جنات جب یہاں آئے تو باہم کہنے لگے کہ خاموش ہو کر قرآن سنو، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو اسلام کی حقانیت پر یقین و ایمان لا کر اپنی قوم کے پاس واپس گئے اور ان کو اس واقعہ کے اصلی سبب کی اور اس کی خبر دی کہ ہم تو مسلمان ہوگئے تم کو بھی چاہئے کہ ایمان لے آؤ، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان جنات کے آنے جانے اور قرآن سن کر ایمان لے آنے کی خبر نہیں ہوئی یہاں تک کہ سورة جن کا نزول ہوا جس میں آپ کو اس واقعہ کی خبر دی گئی۔ (رواہ ابن المنذر عن عبدالمالک) اور ایک روایت میں ہے کہ یہ جنات مقام نصبین کے رہنے والے تھے اور کل نو یا بعض روایات کے مطابق سات تھے۔ جب انہوں نے اپنی قوم کو یہ خبر سنائی اور ایمان لانے کی ترغیب دی تو پھر ان میں سے تین سو اشخاص اسلام لانے کے لئے حاضر خدمت ہوئے (رواہ ابو نعیم والواقدی عن کعب الاحبار والروایات کلہا فی الروح) اور دوسری حدیثوں میں جنات کے آنے کی روایت دوسری طرح کی بھی آئی ہیں مگر چونکہ یہ متعدد واقعات مختلف اوقات میں پیش آئے ہیں اس لئے کوئی تعارض نہیں اور اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو طبرانی نے اوسط میں اور ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس سے نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بار بار حاضر ہوئے۔ خفاجی نے فرمایا کہ احادیث کی روایات جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنات کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر استفادہ کرنے کے واقعات چھ مرتبہ پیش آئے ہیں (کذا فی الروح واخذتہ عن بیان القرآن) اسی واقعہ کی تفصیل مذکور الصدر آیات میں بیان کی گئی ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ۝ ٠ ۚ فَلَمَّا حَضَرُوْہُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا۝ ٠ ۚ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِہِمْ مُّنْذِرِيْنَ۝ ٢٩ صرف الصَّرْفُ : ردّ الشیء من حالة إلى حالة، أو إبداله بغیره، يقال : صَرَفْتُهُ فَانْصَرَفَ. قال تعالی: ثُمَّ صَ... رَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] ( ص ر ف ) الصرف کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا یا کسی اور چیز سے بدل دینا ۔ محاور ہ ہے ۔ صرفتہ فانصرف میں نے اسے پھیر دیا چناچہ وہ پھر گیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] پھر خدا نے تم کو ان کے مقابلے سے پھیر کر بھگادیا ۔ نفر النَّفْرُ : الانْزِعَاجُ عن الشیءِ وإلى الشیء، کالفَزَعِ إلى الشیء وعن الشیء . يقال : نَفَرَ عن الشیء نُفُوراً. قال تعالی: ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر/ 42] ، وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء/ 41] ونَفَرَ إلى الحربِ يَنْفُرُ ويَنْفِرُ نَفْراً ، ومنه : يَوْمُ النَّفْرِ. قال تعالی: انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا [ التوبة/ 41] ، إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة/ 39] ، ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 38] ، وَما کانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة/ 122] . ( ن ف ر ) النفر ( عن کے معی کسی چیز سے رو گردانی کرنے اور ( الی کے ساتھ ) کسی کی طرف دوڑنے کے ہیں جیسا کہ نزع کا لفظ الیٰ اور عن دونوں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے محاورہ ہے نفر عن الشئی نفورا کسی چیز سے دور بھاگنا ۔ قرآن میں ہے ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر/ 42] تو اس سے ان کی نفرت ہی بڑھی ۔ وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء/ 41] مگر وہ اس سے اور بدک جاتے ہیں ۔ نفر الی الحرب ( ض ن ) نفر لڑائی کیلئے نکلنا اور اسی سی ذی الحجہ کی بار ھویں تاریخ کو یوم النفر کہا جاتا ہے کیوں کہ اس روز حجاج منیٰ سے مکہ معظمہ کو واپس ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا[ التوبة/ 41] تم سبکسار ہو یا گراں بار ( یعنی مال واسباب تھوڑا رکھتے ہو یا بہت گھروں سے نکل آؤ ۔ إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة/ 39] اگر نہ نکلو گے تو خدا تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا ۔ ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 38] تمہیں کیا ہوا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو وما کان الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة/ 122] اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے جِنَّة : جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] ، وقال تعالی: وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158] . ۔ الجنتہ جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔ اسْتِمَاعُ : الإصغاء نحو : نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء/ 47] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد/ 16] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس/ 42] ، وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق/ 41] ، وقوله : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] ، أي : من الموجد لِأَسْمَاعِهِمْ ، وأبصارهم، والمتولّي لحفظها ؟ والْمِسْمَعُ والْمَسْمَعُ : خرق الأذن، وبه شبّه حلقة مسمع الغرب «1» . اسمامع اس کے معنی غور سے سننے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء/ 47] ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ جب تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو جس سے یہ سنتے ہیں ۔ ہم اسے خوب جانتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد/ 16] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری ( باتوں کی) طرف کان رکھتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس/ 42] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق/ 41] اور سنو ( ن پکارنے والا پکارے گا ۔ اور آیت : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] یا ( تماہرے ) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے ۔ یعنی ان کا پیدا کرنے والا اور ان کی حفاظت کا متولی کون ہے ۔ اور مسمع یا مسمع کے معنی کان کے سوراخ کے ہیں اور اسی کے ساتھ تشبیہ دے کر ڈول کے دستہ کو جس میں رسی باندھی جاتی ہے مسمع الغرب کہا جاتا ہے قرآن والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء/ 78] أي : قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ( ق ر ء) قرآن القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء/ 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ حضر الحَضَر : خلاف البدو، والحَضَارة والحِضَارَة : السکون بالحضر، کالبداوة والبداوة، ثمّ جعل ذلک اسما لشهادة مکان أو إنسان أو غيره، فقال تعالی: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة/ 180] ، نحو : حَتَّى إِذا جاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ الأنعام/ 61] ، وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء/ 8] ، وقال تعالی: وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] ، عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير/ 14] ، وقال : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون/ 98] ، وذلک من باب الکناية، أي : أن يحضرني الجن، وكني عن المجنون بالمحتضر وعمّن حضره الموت بذلک، وذلک لما نبّه عليه قوله عزّ وجل : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] ، وقوله تعالی: يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آياتِ رَبِّكَ [ الأنعام/ 158] ، وقال تعالی: ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران/ 30] ، أي : مشاهدا معاینا في حکم الحاضر عنده، وقوله عزّ وجلّ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف/ 163] ، أي : قربه، وقوله : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة/ 282] ، أي : نقدا، وقوله تعالی: وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس/ 32] ، وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ/ 38] ، شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ، أي : يحضره أصحابه، والحُضْر : خصّ بما يحضر به الفرس إذا طلب جريه، يقال : أَحْضَرَ الفرس، واستحضرته : طلبت ما عنده من الحضر، وحاضرته مُحَاضَرَة وحِضَارا : إذا حاججته، من الحضور، كأنه يحضر کلّ واحد حجّته، أو من الحضر کقولک : جاریته، والحضیرة : جماعة من الناس يحضر بهم الغزو، وعبّر به عن حضور الماء، والمَحْضَر يكون مصدر حضرت، وموضع الحضور . ( ح ض ر ) الحضر یہ البدو کی ضد ہے اور الحضارۃ حاد کو فتحہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ آتا ہے جیسا کہ بداوۃ وبداوۃ اس کے اصل شہر میں اقامت کے ہیں ۔ پھر کسی جگہ پر یا انسان وگیرہ کے پاس موجود ہونے پر حضارۃ کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة/ 180] تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے ۔ وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء/ 8] اور جب تم میراث کی تقسیم کے وقت ۔۔۔ آمو جود ہوں ۔ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] اور طبائع میں بخل ودیعت کردیا گیا ہے ۔ عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير/ 14] تب ہر شخص معلوم کرلے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے اور آیت کریمہ : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون/ 98] میں کنایہ کہ اے پروردگار میں پناہ مانگتا ہوں کہ جن و شیاطین میرے پاس آھاضر ہوں ۔ اور بطور کنایہ مجنون اور قریب المرگ شخص کو محتضر کہا جاتا ہے جیسا کہ آیت : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] اور آیت کریمہ : یوم یاتی بعض ایات ربک میں اس معنی پر متنبہ کیا گیا ہے اور آیت کریمہ ۔ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران/ 30] کے معنی یہ ہیں کہ انسان جو نیکی بھی کرے گا ۔ قیامت کے دن اس کا اس طرح مشاہدہ اور معاینہ کرلے گا جیسا کہ کوئی شخص سامنے آموجود ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف/ 163] اور ان سے اس گاؤں کا حال پوچھ جواب دریا پر واقع تھا ۔ میں حاضرۃ البحر کے معنی دریا کے قریب یعنی ساحل کے ہیں اور آیت کریمہ : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة/ 282] میں حاضرۃ کے معنی نقد کے ہیں ۔ نیز فرمایا : وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس/ 32] اور سب کے سب ہمارے روبرو حاضر کئے جائیں گے ۔ وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ/ 38] وی عذاب میں ڈالے جائیں گے ۔ اور آیت کریمہ : شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ، ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہئے میں بانی کی باری کے محتضر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ باڑی والے اس گھاٹ پر موجود ہوں ۔ الحضر ۔ خاص کر گھوڑے کی تیز دوڑے کو کہتے ہیں کہا جاتا ہے : احضر الفرس گھوڑا دوڑا استحضرتُ الفرس میں نے گھوڑے کو سرپٹ دوڑایا ۔ حاضرتہ محاضرۃ وحضارا باہم جھگڑنا ۔ مباحثہ کرنا ۔ یہ یا تو حضور سے ہے گویا ہر فریق اپنی دلیل حاضر کرتا ہے اور یا حضر سے ہے جس کے معنی تیز دوڑ کے ہوتے ہیں جیسا کہ ۔۔۔۔۔۔ جاریتہ کہا جاتا ہے ۔ الحضیرۃ ُ لوگوں کی جماعت جو جنگ میں حاضر کی جائے اور کبھی اس سے پانی پر حاضر ہونے والے لوگ بھی مراہ لئے جاتے ہیں ۔ المحضرُ ( اسم مکان ) حاضر ہونے کی جگہ اور حضرت ُ ( فعل ) کا مصدر بھی بن سکتا ہے ۔ انصتوا ۔ امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر انصات ( افعال) مصدر جس کے معنی خاموشی کے ساتھ کان لگا کر سننے کے ہیں۔ یعنی تم سب خاموشی کے ساتھ کان لگا کر سنو ! ۔ فلما۔ پس جب۔ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ قضی الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی: وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] أي : أمر بذلک، ( ق ض ی ) القضاء کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ ولي وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه . فمن الأوّل قوله : وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] . ومن الثاني قوله : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] ، ( و ل ی ) الولاء والتوالی اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جبکہ نو جنات آپ کی طرف آئے وہ آکر قرآن کریم سننے لگے اور جب وہ بطن نخلہ میں رسول اکرم جہاں قرآن کریم پڑھ رہے تھے پہنچے تو ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ خاموش رہو تاکہ رسول اکرم کے قرآن پڑھنے کو سنیں۔ چناچہ جب رسول اکرم اپنی تلاوت اور اپنی نماز سے فارغ ہوئے تو وہ رسول اکرم اور قرآن پر ایمان لے آئے۔ چن... اچہ وہ ایمان سے سرفراز ہو کر اپنی قوم کے پاس ان کو ڈرانے والے بن کر پہنچے۔ شان نزول : وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ (الخ) ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن مسعود سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم بطن نخلہ میں قرآن کریم پڑھ رہے تھے آپ کے پاس نو جن اترے جب انہوں نے قرآن کریم سنا تو وہ آپس میں کہنے لگے خاموش رہو ایک ان میں ذوبقہ تھے اللہ تعالیٰ نے اسی چیز کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی ہے، یعنی اور جبکہ ہم جنات کی ایک جماعت کو آپ کی طرف لے آئے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩ { وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَیْکَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ } ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) جب ہم نے آپ کی طرف متوجہ کردیا جنات کی ایک جماعت کو کہ وہ قرآن سننے لگے۔ “ { فَلَمَّا حَضَرُوْہُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا } ” تو جب وہ وہاں پہنچے تو انہوں نے کہا : چپ ہو ... جائو ! “ تلاوتِ قرآن کی سماعت کے بارے میں خود قرآن کا بھی یہی حکم ہے : { وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ } (الاعراف) ” اور جب قرآن پڑھا جار ہا ہو تو اسے پوری توجہ کے ساتھ سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے “۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ طبعاً نیک اور شریف قسم کے ِجنات ّ تھے۔ اگلی آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ماننے والے اہل کتاب جن تھے۔ چناچہ وہ فوراً ہی اللہ کے کلام کو پہچان گئے اور اس کو پورے ادب و احترم سے سننے لگے۔ { فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّــوْا اِلٰی قَوْمِہِمْ مُّنْذِرِیْنَ } ” پھر جب (قراءت) ختم ہوئی تو وہ پلٹے اپنی قوم کی طرف خبردار کرنے والے بن کر۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

33 The traditions that have been related from Hadrat `Abdullah bin Mas'ud, Hadrat Zubair, Hadrat 'Abdullah bin 'Abbas, Hasan Basri, Said bin Jubair, Zarr bin Hubaish, Mujahid, 'ikrimah and others in connection with the commentary of this verse concur that this incident of the first visit of the jinns, which has been mentioned in this verse, had occurred in the valley of Nakhlah. And according to I... bn Ishaq, Abu Nu`aim Isfahaini and Waqidi, this incident occurred during the Holy Prophet's return journey from Ta'if to Makkah. On the way, when he halted at Nakhlah, and was reciting the Qur'an in the 'Isha' or the Fajr or the Tahajjud Prayer, a group of the jinns happened to pass by and stopped to listen to him. In this connection, all the traditions agree that on this occasion the jinns did not appear before the Holy Prophet, nor did he feel their presence, but AIIah informed him afterwards by revelation that they had come and listened to the Qur'anic recitation. The place where this incident took place was either Az-Zaimah or AsSayl-ul-Kabir, for both these places are situated in the valley of Nakhlah and at both water is available and are green; if the travellers from Ta'if have to halt in this valley, they can halt at either of the places. Please see the map for the location of these places.  Show more

سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :33 اس آیت کی تفسیر میں جو روایات حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت زبیر ، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرات حسن بصری ، سعید بن حبیر ، زر بن حبیش ، مجاہد ، عکرمہ اور دوسرے بزرگوں سے منقول ہیں وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ جنوں کی پہلی حاضری کا واقعہ ، جس کا اس آیت میں ذکر ہ... ے ، بطن نخلہ میں پیش آیا تھا ۔ اور ابن اسحاق ، ابو نعیم اصفہانی اور واقدی کا بیان ہے کہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے مایوس ہو کر مکہ معظمہ کی طرف واپس ہوئے تھے ۔ راستہ میں آپ نے نخلہ میں قیام کیا ۔ وہاں عشاء یا فجر یا تہجد کی نماز میں آپ قرآن کی تلاوت فرما رہے تھے کہ جنوں کے ایک گروہ کا ادھر سے گزر ہوا اور وہ آپ کی قرأت سننے کے لیے ٹھہر گیا ۔ اس کے ساتھ تمام روایات اس بات پر بھی متفق ہیں کہ اس موقع پر جن حضور کے سامنے نہیں تھے ، نہ آپ نے ان کی آمد کو محسوس فرمایا تھا بلکہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے آپ کو ان کے آنے اور قرآن سننے کی خبر دی ۔ یہ مقام جہاں یہ واقعہ پیش آیا ، یا تو الزیمہ تھا ، یا اسیل الکبیر ، کیونکہ یہ دونوں مقام وادی نخلہ میں واقع ہیں ، دونوں جگہ پانی اور سرسبزی موجود ہے اور طائف سے آنے والوں کو اگر اس وادی میں پڑاؤ کرنے کی ضرورت پیش آئے تو وہ ان ہی دونوں میں سے کسی جگہ ٹھہر سکتے ہیں ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

15: حضور سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے علاوہ جنات کے لئے بھی پیغمبر بنایا تھا، چنانچہ یہ واقعہ جس کا اس آیت میں تذکرہ ہے، اس وقت پیش آیا جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طائف والوں کو تبلیغ فرمانے اور ان سے دکھ اٹھانے کے بعد مکہ مکرمہ واپس تشریف لے جارہے تھے، را... ستے میں ایک مقام کا نام نخلہ ہے وہاں آپ نے قیام فرمایا اور فجر کی نماز میں قرآن کریم کی تلاوت شروع کی، اس وقت جنات کی ایک جماعت وہاں سے گزررہی تھی، اس نے یہ کلام سنا تو وہ اسے سننے کے لئے رک گئے، اور توجہ سے سننے کے لئے ایک دوسرے کو خاموش رہنے کی تلقین کی، قرآن کریم کا پُر اثر کلام، اور فجر کے وقت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی، اس نے ان جنات پر ایسا اثر کیا کہ وہ اپنی قوم کے پاس بھی اسلام کے داعی بن کر پہنچے اور پھر ان کے کئی وفود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مختلف اوقات میں آئے، آپ نے ان کی تبلیغ اور تعلیم کا فریضہ انجام دیا، جن راتوں میں جنات سے آپ کی ملاقاتیں ہوئیں ان میں سے ہر ایک کو لیلۃ الجن کہا جاتا ہے، اور ان میں سے بعض راتوں میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بھی آپ کے ساتھ تھے، جنات کے اسلام قبول کرنے کی مزید تفصیل انشاء اللہ سورۂ جن میں آئے گی۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٩۔ ٣٢۔ صحیح ٢ ؎ مسلم میں عبد (رض) اللہ بن مسعود سے جو روایت ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنات سے ملاقات کی اور ان کو قرآن شریف سکھایا۔ صحیح بخاری ١ ؎ اور مسلم میں حضرت عبد (رض) اللہ بن عباس سے جو روایت ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)...  نے جنات سے ملاقات نہیں کی بلکہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیخبر ی میں جنات قرآن شریف سن کر چلے گئے ‘ بیہقی حافظ ابن حجر اور علما نے اس اختلاف کو یوں رفع کیا ہے کہ ان دونوں روایتوں کا قصہ جدا جدا ہے پہلے پہل جنات نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیخبر ی میں قرآن شریف سنا اور ایمان لائے اسی کا ذکران آیتوں اور حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت میں ہے ‘ اس دفعہ جنات کے آنے کا سبب معتبر سند سے ترمذی ٢ ؎ نسائی مسند امام احمد وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت سے جو بیان کیا گیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نیک ہونے سے پہلے جنات آسمان کی کچھ خبریں چوری سے سن آیا کرتے تھے اور کاہنوں سے کہہ دیا کرتے تھے ‘ کاہن وہی لوگ تھے جو اسلام سے پہلے لوگوں کو کچھ آئندہ کی باتیں بتایا کرتے تھے اور اس زمانہ میں عرب کے بہت سے کاموں کا دارومدار ان ہی کاہنوں کی پیشن گوئی پر تھا اس کے بعد جب خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی ہوئے اور قرآن شریف اترنا شروع ہوا تو چوری سے جا کر آسمان کی خبر سننے والے جنات کی روک ٹوک زیادہ ہوگی اور بہ نسبت پہلے کے ان پر انگارے زیادہ برسنے لگے اور آسمان کی خبروں کے بند ہوجانے سے کاہنوں میں جنات کی آؤبھگت کم ہونے لگی تو آسمان کی خبروں کے بند ہوجانے اور انگاروں کے زیادہ برسنے کا سبب دریات کرنے کے لئے جنات کی ٹکڑیاں زمیان میں چاروں طرف چکر لگاتی پھرتی تھیں انہیں میں کی ایک ٹکڑی ادھر نکل آئی جہاں مکہ سے طائف کو جو راستہ جاتا ہے اس راستہ میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کی نماز قرأت سے پھر رہے تھے یہی قرأت ان جنات نے سنی اور پھرجا کر اپنی قوم سے قرآن کی تعریف کی اس پر بہت بڑا قافلہ جنات کا مکہ کے جنگل میں دین اسلام کی باتیں سیکھنے آیا اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنات کے اس قافلہ میں جا کر ان کو سورة الرحمن سنائی اور دین کی باتیں سکھائیں اس دوسری دفعہ جنات کے آنے کا صحیح مسلم ترمذی مستدرک حاکم وغیرہ میں عبد (رض) اللہ بن مسعود اور جابر (رض) بن عبد (رض) اللہ کی روایتوں میں تفصیل سے ذکر ہے غرض حضرت عبد (رض) اللہ بن عباس کی روایت میں پہلا قصہ ہے اور عبد (رض) الہ بن مسعود کی روایت میں دوسرا قصہ ہے امام مسلم نے صحیح ٣ ؎ مسلم میں پہلے حضرت عبد (رض) اللہ بن عباس کی حدیث کو روایت (٣ ؎ صحیح مسلم باب الجھر بالقراءۃ فی الصبح والقراءۃ علی الجن ص ١٨٤ ج ١۔ ) کرکے اس کے بعد عبد (رض) اللہ بن مسعود (رض) کی حدیث کو روایت کیا ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ پہلی روایت کا قصہ پہلے کا ہے اور دوسری روایت کا قصہ مابعد کا حضرت عبد (رض) اللہ بن عباس کی روایت میں یہ لفظ جو تھے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ جنات کو دیکھا نہ قصداً جناب کو قرآن سنایا ‘ امام بخاری ١ ؎ نے سورة جن کی تفسیر میں اس روایت کو اس طرح مختصر کیا (١ ؎ دیکھئے صفحہ گزشتہ) ہے کہ ان لفظوں کو چھوڑ دیا ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ دوسری دفعہ کے قصے میں اور روایتیں ایسی بھی ہیں جن میں یہ لفظ نہیں ہیں حاصل مطلب یہ ہے کہ امام مسلم نے جو مطلب عبد (رض) اللہ بن مسعود کی روایت سے نکالا ہے امام بخاری نے حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت کو مختصر کرکے وہی مطلب نکالا ہے جنات کے قصہ سے قریش کو یہ بات جتلائی گئی ہے کہ جنات جیسی سخت مخلوقات پر ایک دفعہ سننے سے قرآن کا اثر ہوا لیکن قریش میں بعض انسان ایسے سخت دل ہیں کہ گھڑی گھڑی سننے بھی ان کے دل پر قرآن کا کچھ اثر نہیں ہوتا اس کا سبب یہی ہے کہ ایسے لوگ اللہ کے علم غیب میں دوزخی قرار پا چکے ہیں اس لئے ان کو دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل کام اچھے نظر آتے ہیں اور جنت میں جانے کے قابل کاموں کی رغبت ان کے دل میں کسی طرح پیدا نہیں ہوتی۔ صحیح بخاری ٢ ؎ و مسلم کے حوالہ سے (٢ ؎ صحیح بخاری باب کان امر اللہ قدر امقدورا ص ٩٧٧ ج ٢۔ ) حضرت علی (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اپنے علم غیب کے موافق اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کون شخص جنت میں جانے کے قابل کام کرے گا اور کون شخص دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل اب جس مقام کے لائق جو پیدا ہوا ہے دنیا میں ویسے ہی کام اس کو اچھے اور آسان معلوم ہوتے ہیں تجربہ کے موافق کسی کام کا نتیجہ پہلے سے دریافت کرلینا اور بات ہے اور کسی کام پر کسی شخص کو مجبور کرنا اور بات ہے اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ لوح محفوظ میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے کسی شخص کو کسی کام پر مجبور کیا گیا ہے کیونکہ لوح محفوظ میں تو اس کا نتیجہ لکھا گیا ہے جو ہر شخص اپنے اختیار سے کر رہا ہے باقی رہی یہ بات کہ زبردستی ہر شخص کو نیک و بد کے امتحان کے لئے پیدا کیا ہے چناچہ تبارک الذے میں آئے گا لنبلو کم ایکم احسن عملا۔ جس کا مطلب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جزا و سزا کا مدار اپنے علم پر نہیں رکھا بلکہ اس علم کے ظہور پر رکھا ہے اور اس ظہور کی صورت یہی تھی کہ نیک و بد کی جانچ کے لئے دنیا کو پیدا کیا گیا اب زبردستی کی حالت میں اس نیک و بد کی جانچ کا موقع باقی نہیں رہتا اس واسطے زبردستی کرکے کسی شخص کو نیک راہ سے لگا دینا انتظام الٰہی کے برخلاف ہے حاصل کلام یہ ہے کہ قریش کے جو لوگ ایسے تھے کہ قرآن کی نصیحت کا کچھ اثر مرتے دم تک ان کے دل پر نہیں ہوا اس کا سبب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ وہ لوگ اللہ کے علم غیب میں دوزخی قرار پا چکے تھے اس لئے مرتے دم تک ان کو برے کام اچھے معلوم ہوتے رہے اور آخر کو اسی حال میں دنیا سے اٹھ گئے اور مرتے ہی آخرت کے عذاب میں گرفتار ہوگئے جس عذاب کے جتلانے کے لئے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے لوگوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ کے وعدہ کو سچا پایا۔ چناچہ اس باب میں صحیح بخاری ٣ ؎ و مسلم کے حوالہ سے انس (رض) (٣ ؎ صحیح بخاری باب قتل ابی جھل ص ٥٦٦ ج ٢۔ ) بن مالک کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ اے رسول اللہ کے وہ قصہ یاد کرو جو اللہ تعالیٰ نے جنات کی ایک ٹکڑی کو قرآن سننے کے لئے تمہارے پاس بھیج دیا اور جب وہ جنات اس جگہ پہنچ گئے جہاں تم قرآن پڑھ رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں قرآن کے سننے کا ایسا شوق پیدا کردیا کہ وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے چپ رہو یہ کلام اچھی طرح سننے دو اور جب وہ جنات قرآن کی نصیحت سن کر اپنی قوم کے پاس الٹے پھرے تو قوم کے لوگوں کو یہ نصیحت کی کہ اے قوم کے لوگو توراۃ کے بعد ایسی کتاب سنی ہے جس میں پہلی آسمانی کتابوں کی صداقت اور دین کا سیدھا راستہ بتایا گیا ہے اے قوم کے لوگو اللہ کے رسول کا کہنا مانو اور اللہ کے حکم کی فرمانبرداری کرو تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے پچھلے گناہوں کو معاف کرکے تمہیں دوزخ کے عذاب سے بچائے اور قوم کے لوگوں میں سے جو کوئی اس نصیحت کو نہ مانے گا تو وہ زمین بھر میں بھاگ کر اللہ کے عذاب کو نہیں ٹال سکتا اور جو لوگ اپنے پیدا کرنے والے کو اپنا معبود نہیں جانتے وہ کھلم کھلا گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(46:29) واذ : اس سے قبل اذکر الوقت : محذوف ہے : ای واذکر الوقت اذ ۔۔ اور یاد کرو وہ وقت جب ۔۔ صرفنا۔ ماضی جمع متکلم صرف (باب ضرب) مصدر۔ ہم نے پھیرا۔ ہم نے متوجہ کیا۔ الیک تیری طرف۔ ؎ نفرا۔ اسم جمع ہے دس سے کم تعداد کی جماعت کو نفر کہتے ہیں، صرف آدمیوں کے لئے بولا جاتا ہے عورتوں یا کسی دوسری مخلوق ... کے لئے نہیں بولا جاتا۔ ترجمہ آیت :۔ اور یاد کرو وہ وقت یا اس واقعہ کو جب ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو آپ کی طرف متوجہ کیا۔ مولانا مودودی اس واقعہ کے متعلق لکھتے ہیں :۔ اس آیت کی تفسیر میں جو روایات حضرت عبداللہ بن مسعود (رض)، حضرت زبیر، حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اور حضرات حسن بصری (رح) ، سعید بن جبیر (رض) ، زربن جیش ، مجاہد، عکرمہ اور دوسرے بزرگوں سے منقول ہیں وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ جنوں کی پہلی حاضری کا یہ واقعہ جس کا اس آیت میں ذکر ہے بطن نخلہ میں پیش آیا تھا۔ اور ابن اسحاق، ابو نعیم اصفہانی اور واقدی کا بیان ہے کہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طائف سے مایوس ہو کر مکہ معظمہ کی طرف واپس ہوئے تھے راستہ میں آپ نے نخلہ میں قیام کیا وہاں عشاء یا فجر یا تہجد کی نماز میں آپ قرآن کی تلاوت فرما رہے تھے کہ جنوں کے ایک گروہ کا ادھر سے گذر ہوا وہ آپ کی قرات سننے کے لئے ٹھہر گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام روایات اس بات پر بھی متفق ہیں کہ اس موقع پر جن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے نہیں آئے تھے نہ آپ نے ان کی آمد کو محسوس کیا تھا۔ بلکہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے آپ کو ان کے آنے اور قرآن سننے کی خبر دی تھی۔ (تفہیم القرآن جلد 4) ۔ یستمعون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ استماع (افتعال) مصدر۔ بمعنی سننا۔ یستمعون القران۔ ای لاجل استماع القران۔ (قرآن سننے کے لئے) ۔ فلما۔ پس جب۔ حضروہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب اس جگہ کے لئے ہے جہاں قرآن پڑھا جا رہا تھا یعنی جب وہ اس جگہ پہنچے جہاں قرآن کی تلاوت ہو رہی تھی۔ قالوا۔ ایک دو سرے سے کہنے لگے۔ انصتوا۔ امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر انصات (افعال) مصدر جس کے معنی خاموشی کے ساتھ کان لگا کر سننے کے ہیں۔ یعنی تم سب خاموشی کے ساتھ کان لگا کر سنو ! ۔ فلما۔ پس جب۔ قضی۔ ماضی مجہول واحد مذکر غئاب، جب قرات ختم کردی گئی۔ ولوا۔ ماضی جمع مذکر غائب تولیۃ (تفعیل) مصدر منہ پھیر کر چل دینا یعنی جب قرات ختم ہوگئی تو وہ واپس اپنی قوم کی طرف چل دئیے۔ منذرین۔ اسم فاعل جمع مذکر ۔ انذار (افعال) مصدر۔ ڈرانے والے۔ بحالت نصب ای دا عین لہم الی الایمان ومخوفین لہم المخالفۃ اپنی قوم کو ایمان کی طرف دعوت دیتے ہوئے اور مخالفت کی صورت میں ڈراتے ہوئے منصوب بوجہ حال ہے  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی جہاں قرآن پڑھا جا رہا تھا۔ یہ بطن نخلہ کا واقعہ ہے۔ جب آنحضرت اپنے چند صحابہ کے ساتھ بغرض تبلیغ تشریف لے گئے۔ راستہ میں نخلہ کے مقام پر رات بسر کی اور صبح کی نماز میں قرآن پڑھ رہے تھے کہ جن نصیبن سے آٹھ افراد پر مشتمل ایک وفد وہاں پہنچا۔ 6 اس سے معلمو ہوتا ہے کہ وہ جن آنحضرت پر ایمان لے آئے...  تھے۔ بعد کی آیات بھی اس پر دلیل ہیں۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جن متعدد مرتبہ آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں اور ایک یا دو مرتبہ آپ ان کو تعلیم دینے کے لئے باہر بھی تشریف لے گئے۔ (قرطبی ابن کثیر)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اہل مکہ اور اہل طائف کا قرآن مجید سے انحراف مگر جنوں کا قرآن مجید کی طرف متوجہ ہونا۔ اکثر مفسرین نے اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ والوں سے مایوس ہو کر اہل طائف کی طرف گئے اور انہیں اپنی دعوت پیش کی مگر انہوں نے مکہ والوں سے بھی ... شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پتھرمار مار کر لہو لہان کردیا۔ اس کی تفصیل تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں دیکھنی چاہیے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طائف سے شکستہ دل اور زخمی جسم کے ساتھ واپس آ ہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ وادی میں جنوں کو آپ کی طرف متوجہ فرمایا۔ جب جنوں کی جماعت نے آپ کی زبان اطہر سے قرآن مجید کی تلاوت سنی تو وہ ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ یہ ” اللہ “ کا کلام ہے۔ لہٰذا نہایت ادب اور خاموشی کے ساتھ اس کی تلاوت سنو ! جن آپ کی زبان اطہر سے قرآن مجید سن کر اپنی قوم کی طرف گئے تو انہوں نے اپنی قوم کو کہا کہ بیشک ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ایسی کتاب سنی ہے جو پہلی کتابوں کی تائید اور تصدیق کرتی ہے یہ کتاب حق ہے اور صرا طِ مستقیم کی راہنمائی کرتی ہے۔ اے ہماری قوم ! آپ سے ہماری اپیل ہے کہ اس داعی الیٰ اللہ کی دعوت قبول کرو اور اس پر ایمان لاؤ ! اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو معاف کرے گا اور تمہیں جہنم کے اذّیت ناک عذاب سے محفوظ رکھے گا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار اور جنوں کے رد عمل کا موازنہ کیا ہے۔ 1 ۔ مکہ کے سردار ! اپنی قوم سے کہتے تھے کہ قرآن سن کر شورو غوغا کیا کرو۔ جبکہ جنوں نے قرآن کی تلاوت سن کر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ اللہ کا کلام ہے اسے نہایت ادب اور توجہ سے سنو ! 2 ۔ اہل مکہ لوگوں کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متنفر کرتے تھے ان کے مقابلے میں جنوں نے اپنے ساتھیوں کو قرآن اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف متوجہ کیا۔ 3 ۔ اہل مکہ قرآن مجیدکو پہلے لوگوں کی کہانیاں قرار دیتے تھے، جنوں نے قرآن مجید کو اللہ کی کتاب سمجھا اور پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا تسلیم کیا۔ 4 ۔ اہل مکہ قرآن مجید کی دعوت کو گمراہی سمجھتے تھے۔ جنوں نے قرآن مجید کو حق اور صراط مستقیم کی راہنمائی کرنے والا قرار دیا۔ 5 ۔ اہل مکہ اور طائف والوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بدسلوکی کی اور آپ کی دعوت کو ٹھکرایا۔ جنوں کے وفد نے واپس جا کر اپنے ساتھیوں کے سامنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو داعی الیٰ اللہ کے طور پر پیش کیا اور آپ پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ 6 ۔ اہل مکہ قرآن اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کی بجائے آپ سے عذاب لانے کا مطالبہ کرتے تھے۔ جنوں نے اپنے ساتھیوں کو ایمان لانے کی دعوت دی اور انہیں یقین دلایا کہ ایمان لانے سے ہمارے گناہ معاف ہوجائیں گے اور ہم اللہ کے عذاب سے محفوظ رہیں گے۔ ان آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف انسانوں کے لیے نہیں بلکہ جنوں کے لیے بھی نبی مبعوث کیے گئے ہیں۔ اس لیے آپ پر جن ایمان لائے جو پہلے موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لا چکے تھے۔ جنوں نے موسیٰ اور ان پر نازل ہونے والی تورات کا اس لیے حوالہ دیا تھا کیونکہ تورات کے بعد قرآن مجید ہی جامع اور مفصل کتاب ہے۔ جہاں تک انجیل کا معاملہ ہے اس کے بارے میں انجیل میں موجود ہے کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تورات کی تکمیل کرنے کے لیے آیا ہوں۔ (تدبر قرآن جلد ٧، ص : ٣٧٨) یہ بھی ممکن ہے کہ جنوں کو عیسیٰ ( علیہ السلام) کی دعوت کا علم نہ ہو اس لیے انہوں نے انجیل کی بجائے تورات کا حوالہ دیا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کے پاس حاضر ہونے والے جن عیسیٰ (علیہ السلام) کو نہ مانتے ہوں۔ جہاں تک جن اور ہماری شریعت کا معاملہ ہے۔ اس کے بنیادی ارکان جن وانس کے لیے ایک ہیں مگر ان کے عملی تقاضوں میں فرق ہوسکتا ہے کیونکہ جنوں اور انسانوں کی ضروریات کے درمیان بڑا فرق ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تائید اور حوصلہ افزائی کے لیے جنوں کو آپکی طرف متوجہ فرمایا۔ ٢۔ جنوں نے قرآن مجید کو نہایت ادب اور خاموشی کے ساتھ سنا اور اس پر ایمان لائے۔ ٣۔ جن ایمان لا کر اپنی قوم کے لیے داعی ثابت ہوئے۔ ٤۔ تورات کے بعد قرآن مجید ہی جامع اور مفصل کتاب ہے۔ ٥۔ قرآن مجید لوگوں کی حق اور صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ ٦۔ جو لوگ قرآن مجید پر ایمان لاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف کرتا ہے اور انہیں عذاب سے بچالیتا ہے۔ ٧۔ جو لوگ جنوں کے وجود کا انکار کرتے ہیں انہیں اس واقعہ پر غور کرنا چاہیے اور درج ذیل تفسیر بالقرآن کے دلائل پر توجہ کرنی چاہیے تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں جنوں کا تذکرہ : ١۔ جن اور انسان اللہ کی عبادت کے لیے پیدا کئے گئے ہیں۔ (الذاریات : ٥٦) ٢۔ جن غیب نہیں جانتے۔ (سبا : ١٤) ٣۔ جن اور انسان مل کر اس جیسا قرآن بنا لائیں۔ (بنی اسرائیل : ٨٨) ٤۔ جن و انس مل کر قیامت تک ایک سورة بھی اس جیسی نہیں بناسکتے۔ (البقرۃ : ٢٣) ٥۔ اے انسانوں اور جنوں اگر تم خدا کی خدائی سے نکل سکتے ہو نکل جاؤ۔ ( الرّحمن : ٣٣) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے جنوں کو سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردیا۔ ( سبا : ١٢) ٧۔ جنوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن سن کر تعجب کا اظہار کیا۔ (الجن : ١) ٨۔ پہلے دور میں انسان جنوں سے پناہ لیا کرتے تھے۔ (الجن : گ ٦) ٩۔ جنوں کو یقین نہیں تھا کہ جن وانس میں سے کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرسکتا ہے۔ (الجن : ٥)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٢٤٠ ایک نظر میں اس سورت کا یہ آخری سبق ہے اس سورت کے موضوع کی وضاحت کے لئے یہ ایک نئی وادی میں سفر ہے۔ ایک واقعہ کہ جنوں نے قرآن کی دعوت کو سنا۔ تو انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ خاموشی سے سنو۔ اور سن کر یہ طے کیا کہ ہم ایمان لاتے ہیں۔ وہ ایمان لائے اور اپنی قوم میں جا کر انہوں نے دعوت دین ... کے کام کا آغاز کردیا۔ اپنی قوم کو عذاب جہنم سے ڈرانا اور جنت کی خوشخبری دینا شروع کردیا۔ اور انہوں نے اپنی قوم کو متنبہ کیا کہ اگر تم نے منہ موڑا اور گمراہی اختیار کی تو نتائج اچھے نہیں ہوں گے جنوں کی خبر کو یہاں اس انداز سے پیش کرنا اور یہ دکھانا کہ قرآن مجید کا ان کے دلوں پر کس طرح اثر ہوا اور انہوں نے ایک دوسرے سے کہا خاموش ہو کر سنو ، پھر جس گہرے تاثر کے ساتھ انہوں نے قرآن مجید کی تعلیمات کو اپنی قوم کے سامنے پیش کیا۔ یہ سب امور انسانی دلوں کو متاثر کرنے والے ہیں کیونکہ اصل میں تو قرآن انسانوں کی ہدایت کے لئے آیا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ جنوں کے تاثرات جس طرح قرآن نے قلم بند کئے ہیں ، وہ بہت ہی پر تاثیر انداز ہے۔ خصوصاً جبکہ جن بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ٹھیک موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد یہ تعلیمات آرہی ہیں۔ قرآن کا اشارہ یہ ہے کہ اس حقیقت کو جنوں نے تو پالیا مگر انسان اس سے غافل ہیں کہ قرآن جو دعوت دے رہا ہے وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد پہلی دعوت ہے۔ چناچہ یہ بات پوری سورت کے مضمون کے ساتھ گہرا ربط اور مناسبت رکھتی ہے۔ پھر جنوں نے بھی اس کائنات کی کھلی کتاب کی نشانیوں کی طرف اشارہ کیا ہے کہ تعلیمات قرآن کی تصدیق خلق سموات وارض سے ہو سکتی ہے۔ اور یہی تخلیق کائنات دوبارہ تخلیق پر بھی شاہد عادل ہے۔ یہی وہ مسئلہ ہے جس پر انسانوں نے ہمیشہ بحث اور جدال کیا ہے۔ ویوم یعرض الذین کفروا علی النار (٤٦ : ٣٤) “ جس روز یہ کافر آگ کے سامنے لائے جائیں گے ”۔ آخر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وصیت کی جاتی ہے کہ ان کی ایذا رسانیوں پر صبر کریں اور ان پر عذاب لانے کے لئے جلدی نہ فرمائیں اور ان کو چھوڑ دیں۔ قیامت کی گھڑی قریب ہے۔ اور جس دن برپا ہوگی تو وہ کہیں گے ہم تو دنیا میں ایک گھڑی بھر ہی رہے ، بس ہلاکت سے قبل تبلیغ ہی کی گئی۔ جنوں نے نہایت خشوع اور خضوع کے ساتھ قرآن کو سنا اور اس کے بعد انہوں نے جو تبصرہ کیا اور قرآن نے یہاں اسے نقل کیا ، اس میں اسلامی نظریہ حیات کی تمام بنیادی باتیں آگئی ہیں۔ یعنی وحی الٰہی کی تصدیق ، تو رات اور قرآن کے تصورات میں وحدت ، یہ اعتراف کہ ہم ایمان لاتے ہیں اور تصدیق کرتے ہیں ، اور آخرت پر ایمان اور ان اعمال کی تصدیق جو جنت کو لے جانے والے ہیں اور ان اعمال کی تصدیق جو جہنم کو لے جانے والے ہیں اور ان اعمال کی تصدیق جو جہنم کو لے جانے والے ہیں۔ یہ اعتراف کہ اللہ پوری کائنات کا خالق ہے ، وہی مخلوقات کا ولی ہے۔ اور یہ کہ تخلیق کائنات سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کرے گا۔ یہی وہ مضامین ہیں جو اس پوری سورت میں لیے گئے ہیں اور سورت کے تمام اسباق کا موضوع ہیں۔ اور یہی موضوعات جنوں کی زبانی ، جو انسانوں کے مقابلے میں ایک الگ مخلوق ہے ، دوبارہ لائے گئے۔ ان آیات کی تشریح سے پہلے دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے ، یہ کہ جن کیا ہیں اور یہ کہ یہ واقعہ کہاں اور کب ہوا۔ قرآن مجید کی طرف سے یہ ذکر کرنا کہ جنوں کے کچھ لوگوں نے قرآن کو سنا اور اس کے بعد یہ کہا اور یہ کیا ، جنوں کے وجود کے لئے بس یہی کافی شافی دلیل ہے۔ اور نہ اس واقعہ کے بارے میں کچھ مزید کہنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات ثابت ہونے کے بعد کہ جن اس قابل ہیں کہ رسول خدا کی زبانی عربی قرآن کو سنیں اور عربی زبان کو سمجھیں۔ اور یہ کہ وہ ایک مخلوق ہیں جو ایمان اور کفر کے قابل ہیں ، ہدایت اور ضلالت کے قابل ہیں ، جنوں کی حقیقت اور انہیں ایک مخلوق ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جب اللہ ایک حقیقت کی تصدیق کردے تو اس کے بعد اس مخلوق کی حقیقت کو مزید ثابت کرنا ایک بےمعنی حرکت ہے۔ لیکن یہاں کلام کرنے کا ہمارا مقصد یہ ہے کہ انسانی تصور میں اس کی وضاحت ہوجائے۔ ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی اس کائنات میں ، رازوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ اس کے اندر ایسی مخلوقات موجود ہیں جن کی حقیقت ، صفات اور اثرات سے ہم بالکل واقف نہیں ۔ اور ہم جن قوتوں اور رازوں کے اندر رہتے ہیں۔ ان میں سے صرف چند رازوں اور بھیدوں سے ابھی تک ہم واقف ہوئے ہیں۔ بہرحال آئے دن ہم ان بھیدوں کے انکشافات کرتے رہتے ہیں۔ اور اللہ کی مخلوقات میں سے بعض مخلوق کے بارے میں دریافت کرلیتے ہیں۔ بعض کی ذات معلوم کرلیتے ہیں۔ بعض کی صفات ہمیں معلوم ہوجاتی ہے۔ اور بعض چیزوں کے تو صرف ہمارے اردگرد آثار ہی پائے جاتے ہیں۔ ابھی تک ہم نے اس کائنات کی شاہراہ پر ، جس کے اندر ہم رہتے ہیں ، اس کے رازوں کو معلوم کرنے کے سلسلے میں چند قدم ہی لئے ہیں۔ اس کائنات میں ہمارے آباء و اجداد رہ کر چلے گئے اور ہماری اولاد ان کی اولاد آنے والی ہے۔ ان سب لوگوں کو اس کائنات کے ایک چھوٹے سے ڈرے کے اوپر رہنا ہے۔ اگر اس پوری کائنات کے حجم اور وزن کا تصور کیا جائے تو اس حجم اور وزن میں اس زمین کی حیثیت ایک ذرے کے برابر بھی نہیں ہے۔ آج تک جو معلومات ہم فراہم کرسکے ہیں ، اگر ان معلومات کو آج سے صرف پانچ سو سال پہلے کی حالت کے مقابلے میں دیکھا جائے تو ہم جنوں سے بھی زیادہ بڑے بڑے عجائبات دریافت کرسکے ہیں۔ آج ہم ایٹم کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں۔ اگر آج سے پانچ سو سال پہلے کوئی ایسی باتیں کرتا تو لوگ کہتے کہ یہ مجنون ہے۔ یا کم از کم اسے جنات کے مقابلے میں زیادہ عجیب و غریب بات سمجھا جاتا۔ ہمارا علم و ادراک ہمارے انسانی حدود ادراک کے محدود دائرے کے اندر ہے اور ادراک کی یہ قوت ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس زمین پر وہ مقاصد پورے کرنے کے لئے دی گئی ہے جن کو ہم نے زمین کے اوپر منصب خلافت کے فرائض کی ادائیگی کے سلسلے میں یہاں حاصل کرنا تھا۔ صرف اس محدود دائرے میں کہ زمین کی قوتیں ہمارے لیے مسخر ہوں ، ہمارے تابع ہوں تا کہ وہ فرائض ہم بحسن و خوبی ادا کرسکیں۔ ہمارے جس قدر انکشافات ہیں وہ اس دائرہ فرائض کے اندر ہیں اور ہم جس قدر بھی آگے بڑھ جائیں ہم اسی دائرے کے اندر ہی رہیں گے۔ یعنی اس دائرے کے اندر ہی رہیں گے جو اللہ نے ہمارے یہاں قیام اور خلافت ارضی کے لئے مقرر اور مقدر کردیا ہے۔ نہ اس سے ہم آگے بڑھ سکتے ہیں اور نہ ہمیں اس کی کوئی ضرورت ہے۔ مستقبل میں ہم مزید انکشافات کریں گے۔ ہم بہت کچھ جانیں گے ، اس قدر ہمارے علوم میں اضافہ ہوگا کہ ایٹم کے راز ہمارے لیے بچوں کا کھیل بن جائے گا۔ لیکن ان انکشافات کے باوجود ہم اس محدود دائرے کے اندر ہی رہیں گے جو اللہ نے ہمارے لئے مقدر کردیا ہے۔ انسانی دائرے کے اندر رہیں گے۔ جس کے بارے میں اللہ نے فرمایا : وما اوتیتم من العلم الا قلیلاً “ اور تمہیں جو علم دیا گیا ہے وہ بہت ہی قلیل ہے ”۔ یعنی ان اسرار اور محقیات کے مقابلے میں جو تمہارے علم سے باہر ہیں۔ صرف خالق کائنات ہی ان غائب باتوں کو جانتا ہے۔ کیونکہ اللہ کا علم غیر محدود ہے۔ اور انسانوں کا علم اور اس کے ذرائع علم محدود ہیں۔ ولو ان ما فی الارض ۔۔۔۔۔۔ کلمات اللہ “ اگر زمین میں جس قدر درخت ہیں وہ قلم بن جائیں اور سمندر کو سات اور سمندر سیاہی بن کر مدد کے لئے آپہنچیں تو اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں ”۔ اگر بمقابلہ علم الٰہی ہماری حالت یہ ہے تو ہم صرف اپنی لا علمی کی بنا پر بالجزم نہ کسی بات کی نفی کرسکتے ہیں اور ۔۔۔۔ نہ ان کا تصور کرسکتے ہیں اور نہ عدم تصور۔ یہ بہرحال اللہ کی کائنات کے غائب علاقوں کی باتیں ہیں اور کائنات کی ان قوتوں اور ان اسرار میں سے ہیں جن کا ہمیں علم نہیں ہے۔ اس بنا پر ایسی کسی شے کے بارے میں ہم کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے ہیں جو ہمارے علم سے باہر ہے۔ جبکہ ابھی تک ہمیں خود اپنی ذات سے متعلق مکمل اسرار و رموز کا پتہ نہیں ہے کہ ہماری روح اور ہماری قوت مدرکہ کے حالات کیا ہیں۔ حقیقت جن تو بڑی بات ہے۔ بعض ایسے راز بھی ہو سکتے ہیں جن کا ہمارے لیے انکشاف مقدر ہی نہ کیا گیا ہو۔ مثلاً وہ تمام حقائق جن کے وجود کی قرآن نے اطلاع دی ہے ، یا آثار بتائے ہیں کیونکہ ان حقائق کا جاننا ہمارے لیے ضروری نہیں ہے اس لیے کہ اس زمین پر انسان نے جو فریضہ ادا کرنا ہے اس کے لئے اس کی کوئی افادیت نہیں ہے۔ اگر اللہ نے اپنے کلام کے ذریعہ ہمیں کچھ اسرار بتا دئیے ہیں ، اور ان تک ہم اپنے تجربات کے ذریعے نہیں پہنچے تو ہمارا فرض یہ ہے کہ جس قدر علم اللہ نے دے دیا ہے (بذریعہ اطلاع) ہم شکر اور تسلیم و رضا کے ساتھ اسے قبول کرلیں۔ ہم اس کے بارے میں اسی قدر عقیدہ رکھیں جس قدر اللہ نے بتا دیا ہے۔ نہ اس میں کمی کریں اور نہ اس میں اضافہ کریں۔ اور یہ کہیں کہ اس سلسلے میں حقیقت جاننے والے نے ہمیں اسی قدر بتایا ہے ، اس سے زیادہ کچھ نہیں بتایا۔ دوسرا کوئی ذریعہ علم بھی نہیں ہے اور اس میدان میں ہمارا تجربہ بھی نہیں ہے۔ قرآن کریم کی ان آیات سے اور سورت جن کی آیات سے (اور راجح بات یہ ہے کہ سورت جن بھی اسی واقعہ کے بارے میں ہے) اور ان نصوص سے جو قرآن کریم میں جگہ جگہ جنوں کے بارے میں وارد ہیں اور ان احادیث سے جو جنوں کے بارے میں وارد ہیں اور صحیح ہیں۔ ہمیں جو حقائق معلوم ہوتے ہیں وہ یہ ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مخلوق ہے جسے جن کہا جاتا ہے۔ یہ مخلوق آگ سے پیدا شدہ ہے۔ کیونکہ قرآن نے ابلیس کے بارے میں یہ کہا ہے۔ انا خیر منہ خلقتنی من نار و خلقتہ من طین “ میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے ”۔ اور یہ بھی قرآن بتاتا ہے کہ ابلیس جنوں میں سے تھا۔ الا ابلیس کان من الجن ففسق عن امر ربہ “ ماسوائے ابلیس کے یہ جنوں سے تھا۔ تو اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی ”۔ غرض ابلیس کی ماہیت جنوں سے ہے۔ اس مخلوق کی خصوصیات انسانوں سے مختلف ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ آگ سے ہی ہے۔ یہ کہ وہ لوگ کو دیکھتے ہیں اور لوگ انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ انہ یراکم ھو و قبیلہ من حیث لا ترونھم “ بیشک وہ اور اس کا قبیلہ تمہیں دیکھتا ہے ، جبکہ تم ان کو نہیں دیکھ رہے ”۔ اور یہ کہ انسانوں کی طرح ان کی بھی سوسائٹیاں اور قبیلے ہیں۔ جس طرح آیت سابقہ میں قبیلے کا ذکر ہوا۔ اور یہ کہ یہ جن اسی زمین پر بستے ہیں اور بس سکتے ہیں۔ لیکن ان کی آبادیاں کہاں ہیں۔ اس کا ہمیں علم نہیں ہے۔ اس لیے کہ اللہ نے جب آدم اور ابلیس سے کہا کہ تم جنت سے نکلو اور زمین پر جاؤ تو الفاظ یہ تھے : اھبطوا بعضکم لبعض۔۔۔۔۔۔ الی حین “ اترو ، تم میں سے بعض ، بعض دوسروں کے دشمن ہیں اور تمہیں حق ہوگا کہ زمین میں ٹھہرو اور ایک وقت تک متاع حیات کا بھی ”۔ وہ جن جو سلیمان (علیہ السلام) کے لئے مسخر کر دئیے گئے تھے ، وہ آپ کے لئے کام بھی کرتے تھے ، یہاں ان کو زندہ رہنے کی قدرت بھی دی گئی ہوگی تب ہی وہ کام کرتے ہوں گے۔ یہ کہ جن اس کرۂ ارض سے باہر بھی رہ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جنوں کی یہ بات نقل کی ہے۔ وانا لمسنا ۔۔۔۔ شدیداً وشھبا (٨) وانا کنا نقعد ۔۔۔۔۔ شھابا رصدا (٩) (٧٢ : ٨- ٩) “ اور یہ کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو دیکھا کہ وہ پہریداروں سے پٹا پڑا ہے اور شہابوں کی بارش ہو رہی ہے ، اور یہ کہ پہلے ہم سن گن لینے کے لئے آسمانوں میں بیٹھنے کی جگہ پا لیتے تھے مگر اب جو چوری چھپے سننے کی کوشش کرتا ہے وہ اپنے لیے ایک شہاب ثاقب لگا ہوا پاتا ہے ”۔ یہ کہ یہ جن انسانوں کو متاثر کر کے گمراہ کرسکتے ہیں اور مسلمانوں میں سے اللہ کے بندوں پر تو ان کا اثر نہیں ہوتا۔ البتہ گمراہ لوگوں پر وہ اثرات ڈال سکتے ہیں کیونکہ : قال فبعزتک ۔۔۔۔۔ منھم المخلصین “ اس نے کہا بس تیری عزت کی قسم میں ان سب کو گمراہ کر کے چھوڑوں گا ، ماسوائے ان میں ، تیرے مخلص بندوں کے ”۔ اس قسم کی تمام دوسری آیات سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ انسان پر اثر انداز ہوتے ہیں ، البتہ یہ معلوم نہیں ہے کہ شیطانوں اور جنوں کی وسوسہ اندازہ کس طرح ہوتی ہے ۔ اور یہ کہ یہ جن انسانوں کی آواز سنتے ہیں۔ ان کی زبان کو سمجھتے ہیں کیونکہ جنوں کے ایک گروہ نے قرآن سنا ، اس کو سمجھا اور اس سے متاثر ہوئے۔ اور یہ کہ انسانوں کی طرح جن بھی ہدایت اور گمراہی کے قابل ہیں۔ کیونکہ جنوں نے خود یہ اعتراف کیا۔ وانا منا المسلمون ۔۔۔۔۔ تحروا رشدا (١٤) واما القسطون فکانوا لجھنم حطبا (١٤) (٧٢ : ١٤- ١٥) “ اور یہ کہ ہم میں سے کچھ مسلم ہیں اور کچھ حق سے منحرف تو جنہوں نے اسلام اختیار کرلیا۔ انہوں نے نجات کی راہ ڈھونڈ لی اور جو حق سے منحرف ہیں وہ جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں ”۔ اور یہ کہ پھر وہ اپنی قوم کی طرف گئے اور ان کو ڈرانے لگے اور ان کو دعوت ایمان دینے لگے۔ جبکہ انہوں نے خود ایمان قبول کرلیا۔ اور ان کو معلوم ہوگیا کہ ان کی قوم دولت ایماں سے محروم ہے۔ یہ باتیں تو جنوں کے بارے میں یقینی ہیں۔ اور یہی ان کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے کافی ہیں۔ اور اس پر ہم جو اضافہ کریں گے اس پر ہمارے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی۔ رہا وہ واقعہ جس کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے۔ جس کی طرف راجح روایات کے مطابق سورت جن بھی اشارہ کر رہی ہے۔ تو اس بارے میں متعدد روایات وارد ہیں۔ امام بخاری نے مسدد سے ، مسلم نے شیبان ابن فرح سے انہوں نے ابو عوانہ سے اور امام احمد نے اپنی سند میں کہا : عفان سے انہوں نے ابو عوانہ سے ، ابوبکر بیہقی نے اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں ابو الحسن علی ابن احمد ابن عیدان سے انہوں نے احمد ابن عبید الصفار سے انہوں نے اسماعیل قاضی سے ، انہوں نے مسدد سے انہوں نے ابو عوانہ سے انہوں نے ابو بشر سے انہوں نے سعید ابن جبیر سے کہ ابن عباس سے فرماتے ہیں : “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنوں پر کلام الٰہی نہیں پڑھا۔ اور نہ ان کو دیکھا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھیوں کی ایک جماعت کے ساتھ عکاظ کی طرف جا رہے تھے۔ اس وقت شیاطین اور آسمانوں کی خبروں کے درمیان رکاوٹ ڈال دی گئی اور ان پر شہاب ثاقب کی بارش کردی گئی۔ تو شیاطین اپنی قوم کی طرف واپس آگئے قوم نے کہا تمہیں کیا ہوگیا ہے۔ تو انہوں نے کہا ، ہمارے اور آسمانوں کی خبروں کے درمیان رکاوٹ ڈال دی گئی ہے۔ اور ہم پر شہاب ثاقب چھوڑے گئے ۔ تو انہوں نے کہا کہ تمہارے اور آسمانوں کی خبروں کے درمیان جو رکاوٹ ڈال دی گئی ہے اس کی کوئی وجہ ہوگی تو چاہئے کہ زمین کے مشرق و مغرب میں پھیل گئے یعنی اطراف عالم میں ، وہ معلوم کرنے لگے کہ وہ کیا سبب ہے جس کی وجہ سے ہمارے اور آسمانوں کی خبروں کے درمیان پابندی لگ گئی۔ تو وہ گروہ جو تہامہ کی طرف جا رہا تھا ، وہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف متوجہ ہوگئے اور اس وقت آپ نخلہ میں تھے اور عکاظ کے بازار کی طرف جا رہے تھے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت اپنے ساتھیوں کے ساتھ نماز فجر پڑھ رہے تھے۔ جب ان جنوں نے قرآن سنا تو متوجہ ہو کر سننے لگے۔ تو انہوں نے کہا خدا کی قسم یہ ہے وہ حقیقی سبب جس کی وجہ سے تم پر آسمانوں کی خبریں لینے پر پابندی لگ گئی ہے۔ جب یہ لوگ اپنی قوم کی طرف لوٹے تو انہوں نے یہ رپورٹ دی۔ فقالوا انا سمعنا قرانا عجبا (١) یھدی الی الرشد فامنا بہ ولن نشرک بربنا احدا (٢) (٧٢ : ١- ٢) “ اے ہماری قوم کے لوگو ، ہم نے ایک بڑا عجیب قرآن سنا ہے جو راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اس لیے ہم اس پر ایمان لائے ہیں اور اب ہم ہرگز اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے ”۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع دی گئی۔ قل اوحی الی انہ استمع نفر من الجن (٧٢ : ١) “ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہو میری طرف وحی بھیجی گئی کہ جنوں کے ایک گروہ نے قرآن کو غور سے سنا ”۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف دراصل جنوں کے اقوال وحی کئے گئے۔ امام مسلم ، ابو داؤد اور ترمذی نے علقمہ سے روایت کی ہے۔ انہوں نے کہا میں نے حضرت ابن مسعود سے پوچھا کہ جنوں کی رات تم میں سے کوئی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھا۔ انہوں نے کہا : رات ہم میں سے کوئی بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہ تھا۔ ہوا یوں کہ ایک رات ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غائب ہوگئے۔ تو ہم نے پہاڑیوں اور وادیوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلاش کرنا شروع کیا۔ ہم نے کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی چیز لے اڑی یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اچک لیا گیا۔ ہم نے یہ رات بہت ہی بری طرح گزاری۔ جب صبح ہوئی تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حرا کی طرف سے چلے آرہے ہیں۔ ہم نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے رات کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلاش اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہ پایا ۔ اس وجہ سے ہم نے یہ رات اس قدر تکلیف میں گزاری جس قدر کوئی تکلیف سے کوئی رات گزار سکتا ہے۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے پاس جنوں کا ایک شخص دعوت لے کر آیا تھا۔ میں اس کے ساتھ چلا گیا۔ میں نے ان پر قرآن پڑھا تو یہ سن کر ہم نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے ساتھ تشریف لے چلیں اور ہمیں ان کے آثار بتائیں اور ان کی آگ کے آثار بتائیں۔ اور جنوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی خوراک کے بارے میں پوچھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : “ ہر وہ ہڈی جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو جو تمہارے ہاتھ آئے اور جس پر زیادہ گوشت ہو وہ تمہاری خوراک ہے۔ اور ہر مینگنی یا لید تمہارے جانوروں کے لئے ہے ”۔ اس کے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا “ لہٰذا ان دونوں چیزوں کے ساتھ استنجا نہ کرو ، کہ یہ تمہارے بھائیوں کی خوراک ہے ”۔ ابن اسحاق اور ابن ہشام نے جنوں کے واقعہ کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سفر طائف کے بعد نقل کیا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طائف جا کر بنی ثقیف سے مدد چاہی۔ یہ آپ کے چچا ابو طالب کی موت کے بعد کا واقعہ ہے۔ اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور مسلمانوں پر مکہ میں بہت ہی تشدد ہو رہا تھا۔ بنی ثقیف نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو برے انداز میں رد کردیا اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس ہونے لگے تو بچوں اور نادانوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے لگا دیا۔ یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دونوں پاؤں مبارک پتھروں سے لہولہان ہوگئے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس موقعہ پر یہ گہری اور موثر دعا فرمائی۔ “ اے اللہ میں تجھ ہی سے اپنی قوت کی کمزوری کی شکایت کرتا ہوں ، اپنی قلت تدبیر کی شکایت کرتا ہوں ، اور لوگوں پر اپنی کمزوری کی شکایت کرتا ہوں ، اے ارحم الراحمین ، تو کمزوروں کا رب ہے ، اور میرا رب ہے ، تو مجھے کس کے حوالے کر رہا ہے ؟ کسی ایسے شخص کے جو مجھ پر حملہ آور ہو ؟ تو نے میرا معاملہ کسی دشمن کے حوالے کردیا ہے ؟ لیکن اے اللہ ، اگر تو ناراض نہیں ہے تو مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے۔ لیکن تیرا دامن تو میرے لیے بہت وسیع ہے۔ میں تیرے چہرے کی روشنی میں پناہ لیتا ہوں جس نے تمام تاریکیوں کو روشن کردیا ہے۔ اور اس نور کی وجہ سے دنیا وآخرت اچھی ہوجاتی ہے۔ اس بات سے کہ مجھ پر تیرا غصب ہو یا مجھ پر تیرا عذاب آجائے۔ تجھے اختیار ہے کہ تو مجھے مشقت میں ڈالے جب تک تو راضی نہ ہو۔ تیرے سوا کوئی قوت اور جائے پناہ نہیں ہے۔ کہتے ہیں اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ کی طرف لوٹنے لگے۔ جب آپ بنی ثقیف کی طرف سے کسی بھلائی سے مایوس ہوگئے۔ جب رات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نخہ میں آئے تو رات کو آپ نماز کے لئے اٹھے تو اس وقت جنوں کا ایک گروہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے گزرا جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی تعداد سات بتائی جو دوحصوں میں بٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات توجہ سے سنی۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز سے فارغ ہوئے تو یہ جن اپنی قوم کی طرف چلے گئے اور ان کو ڈرانے لگے۔ یہ خود ایمان لائے تھے اور جو کچھ انہوں نے سنا ، اسے قبول کرچکے تھے۔ اللہ نے یہ کہانی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائی۔ واذ صرفنا الیک نفرا من الجن یستمعون القران (٤٦ : ٢٩) “ اور جب ہم جنوں کے ایک گروہ کو تمہاری طرف لے آئے تھے تا کہ قرآن سنیں ”۔ ویجرکم من عذاب الیم (٤٦ : ٣١) “ اور تمہیں عذاب الیم سے بچائے گا ”۔ اور سورة جن میں فرمایا قل اوحی الی انہ ۔۔۔۔ الی اخرہ (٧٢ : ١) علامہ ابن کثیر نے روایت ابن اسحاق پر یوں تبصرہ کیا ہے “ یہ تو صحیح ہے لیکن ان کا کہنا کہ جنوں کے ساتھ خطاب بھی اسی رات کو ہوا۔ یہ بات قابل بحث ہے کیونکہ جنوں کا قرآن مجید سننا آغاز وحی کے زمانے میں تھا جس طرح حضرت ابن عباس کی روایت میں ہے۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سفر طائف تو اس وقت ہوا جب آپ کے چچا محترم حضرت ابو طالب فوت ہوگئے تھے۔ اور یہ وفات ہجرت سے ایک یا دو سال قبل ہوئی تھی۔ واللہ اعلم ! ان کے علاوہ اور بھی بہت سی روایات ہیں ، ہم سمجھتے ہیں کہ حضرت ابن عباس کی روایت سب سے زیادہ قابل اعتماد ہے۔ کیونکہ یہ روایت پوری طرح نصوص قرآن کے ساتھ متفق ہے۔ قل اوحی الی انہ استمع نفر من الجن (٧٢ : ١) “ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دے کہ میری طرف یہ وحی آئی ہے کہ جنوں میں سے کچھ لوگوں نے قرآن کو غور سے سنا ”۔ یہ آیت قطعاً بتاتی ہے کہ اس واقعہ کا علم حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل فرمائی۔ اور یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنوں کو دیکھا نہ تھا۔ اور نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ احساس ہوا کہ جن سن رہے ہیں۔ پھر اسناد کے اعتبار سے بھی یہ روایت سب سے قوی ہے۔ اور ابن اسحاق کی روایت بھی اس کے ساتھ متفق ہے۔ جس طرح قرآن مجید نے ہمیں جنوں کی صفات میں بتایا کہ انہ یراکم ھو وقبیلہ من حیث لا ترونھم “ یہ اور اس کا قبیلہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے جبکہ تم انہیں نہیں دیکھ رہے ”۔ میں سمجھتا ہوں اس حادثہ کی تحقیق میں اس قدر بات کافی ہے۔ واذ صرفنا الیک نفرا ۔۔۔۔۔ قومھم منذرین (٤٦ : ٢٩) “ اور وہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ جب ہم جنوں کے ایک گروہ کو تمہاری طرف لے آئے تھے تا کہ قرآن سنیں۔ جب وہ اس جگہ پہنچے تو انہوں نے آپس میں کہا خاموش ہوجاؤ۔ پھر جب وہ پڑھا جا چکا تو وہ خبردار کرنے والے بن کر اپنی قوم کی طرف پلٹے ”۔ یہ اللہ کی ایک خاص تدبیر تھی کہ اس نے جنوں کو قرآن کی طرف موڑ دیا۔ محض کوئی انفاقی بات نہ تھی۔ ان کی تقدیر میں یہ تھا کہ جن بھی نبی آخر الزمان کی رسالت سے اسی طرح خبردار ہوجائیں جس طرح وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت سے خبردار تھے اور ان میں سے ایک فریق آگ سے بچ جائے جسے شیطان اور جنوں کے لئے تیار کیا گیا ہے اور انسانی شیاطین کے لئے بھی۔ قرآن کریم نے ان کی تعداد کی طرف بھی اشارہ کردیا ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن سننے والے جنوں کی تعداد تین سے دس تک تھی اور قرآن نے یہ بھی بتا دیا کہ ان کے پردہ احساس پر قرآن کے کیا اثرات بیٹھے یعنی خوشی ، اچھا تاثر ، خضوع اور خشوع۔ فلما حضروہ قالوا نصتوا (٤٦ : ٢٩) “ اب وہ اس جگہ پہنچے ( جہاں تم پڑھ رہے تھے) تو انہوں نے آپس میں کہا خاموش ہوجاؤ ”۔ یوں اس پورے عرصے میں وہ بڑی خاموشی سے سنتے رہے۔ فلما قضی ولوا الی قومھم منذرین (٤٦ : ٢٩) “ پھر جب وہ پڑھا جا چکا تو وہ خبردار کرنے والے بن کر اپنی قوم کی طرف پلٹے ”۔ یہ اثر بھی ان پر اس لیے ہوا کہ انہوں نے قرآن کو نہایت غور سے سنا تھا۔ خاموش ہو کر سنا اور آخر تک سنتے رہے۔ جب تلاوت ختم ہوئی تو وہ فوراً اپنی قوم کے پاس گئے اور ان کے شعور نے وہ بات اپنا لی تھی جو اگر کسی کے شعور میں داخل ہوجائے تو وہ خاموش نہیں ہو سکتا۔ اور نہ اس کی تبلیغ اور لوگوں کے ڈرانے کے کام میں شف شف کرسکتا ہے۔ یہ ایک ایسی حالت ہے کہ جب کسی شخص کے احساس میں ایک نئی بات بیٹھ گئی ہو۔ اور اس کے احساسات کو ایک نہایت ہی موثر ، غالب اور چھا جانے والے نظریہ نے اپنی گرفت میں لے لیا ہو ، تو وہ فوراً حرکت میں آجاتا ہے ، ہر جگہ اسی کی بات کرتا ہے اور بڑے اہتمام کے ساتھ دوسروں تک پہنچانا چاہتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جنات کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہونا، پھر واپس جاکر اپنی قوم کو ایمان کی دعوت دینا ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رسول الثقلین تھے یعنی آپ انسانوں کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور جنات کی طرف بھی یہاں سورة الاحقاف میں اور سورة الجن میں جنات کا خدمت عالی میں حاضر ہونا اور آپ ... سے قرآن مجید سننا مذکور ہے علماء حدیث نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنات کی آبادی میں تشریف لے گئے اور انہیں احکام دینیہ کی تبلیغ فرمائی محدثین کی اصطلاح میں اس کو لیلۃ الجن کہتے ہیں حضرات محدثین کرام نے فرمایا ہے کہ لیلۃ الجن کا واقعہ چھ مرتبہ پیش آیا، معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ جنات کو تبلیغ کریں انھیں ایمان لانے کی دعوت دیں اور قرآن سنائیں پھر اللہ تعالیٰ نے نینوا بستی کے رہنے والے جنات میں سے ایک جماعت کو آپ کے پاس بھیج دیا آپ تشریف لے جانے لگے تو حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) بھی ساتھ چلے گئے یہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ ہم چلتے چلتے شعب الحجون پہنچ گئے (المعلیٰ کے علاقے کا پرانا نام ” الحجون “ ہے) وہاں پہنچ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خط کھینچ کر میرے لیے جگہ تجویز فرما دی اور ارشاد فرمایا کہ میرے واپس آنے تک اسی جگہ رہنا آپ مجھے چھوڑ کر آگے تشریف لے گئے وہاں قرآن کریم پڑھنا شروع کیا، آپ کے پاس پاس گدھوں جیسی چیزیں جمع ہوگئیں اور میں نے طرح طرح کی سخت آوازیں سنیں یہاں تک کہ مجھے آپ کی جان کا خطرہ ہوگیا آپ کی آواز بھی مجھ سے اوجھل ہوگئی پھر میں نے دیکھا کہ وہ لوگ بادلوں کے ٹکڑوں کی طرح واپس جا رہے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے فارغ ہوکر فجر کے بعد تشریف لائے اور فرمایا کیا تمہیں نیند آگئی تھی میں نے عرض کیا کہ مجھے نیند کیا آتی مجھے تو آپ کی جان عزیز کا خیال آ رہا تھا بار بار خیال ہوا کہ میں لوگوں کو بلاؤں تاکہ آپ کا حال معلوم کریں فرمایا اگر تم اپنی جگہ سے چلے جاتے تو اس کا کچھ اطمینان نہیں تھا کہ ان میں سے تمہیں کوئی اچک لیتا، پھر فرمایا کیا تم نے کچھ دیکھا عرض کیا کہ میں نے کالے رنگ کے لوگوں کو دیکھا جو سفید کپڑے لپیٹے ہوئے تھے آپ نے فرمایا کہ یہ شہر نصیبین کے جنات تھے انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہمارے لیے کچھ بطور خوراک تجویز فرما دیجیے لہٰذا میں نے ان کے لیے ہڈی اور گھوڑے وغیرہ کی لید نیز اونٹ اور بکری وغیرہ کی مینگنی تجویز کردی میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان چیزوں سے ان کا کیا کام چلے گا ؟ فرمایا کہ جو بھی کوئی ہڈی پائیں اس پر اتنا ہی گوشت ملے گا جتنا اس دن تھا جس دن اس سے گوشت چھڑایا گیا اور جو بھی لید پائیں گے انہیں اس پر وہ دانے ملیں گے جو جانوروں نے کھائے تھے (جن کی لید بن گئی تھی) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں نے سخت آوازیں سنیں یہ کیا بات تھی ؟ فرمایا جنات میں ایک قتل ہوگیا تھا وہ اسے ایک دوسرے پر ڈال رہے تھے وہ میرے پاس فیصلہ کرنے کے لیے آئے تھے میں نے ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردیا۔ بعض روایات میں ہے کہ ہڈی کو جنات کی خوراک اور مینگنی کو ان کے جانوروں کی خوراک تجویز کیا اور اس کی وجہ سے ان سے استنجا کرنے کی ممانعت فرما دی۔ ایک روایت میں حضرت ابن مسعود (رض) کا بیان یوں بھی نقل کیا گیا ہے کہ لیلۃ الجن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غار حرا کی طرف سے تشریف لائے ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم رات بھر آپ کو ڈھونڈتے پھرے آپ سے ملاقات نہ ہوسکی، فکر اور غم میں ہم نے پوری رات گزاری آپ نے فرمایا کہ جنات کی طرف سے ایک بلانے والا میری طرف آیا تھا میں اس کے ساتھ چلا گیا تھا۔ اور ان کو قرآن مجید سنایا۔ جنات نے قرآن مجید سنا تو آپس میں کہنے لگے کہ خاموش رہو دھیان سے سنو جب آپ نے تلاوت ختم فرما دی تو جنات واپس ہوگئے اور ساتھ ہی مبلغ اور داعی بھی بن گئے واپس ہوکر انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم نے ایسی کتاب سنی ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نازل ہوئی ہے یہ کتاب واقعی اللہ کی کتاب ہے جو کتابیں اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئیں ان کی تصدیق کرنے والی اور حق کی طرف اور راہ مستقیم کی طرف ہدایت دیتی ہے اس سے بعض مفسرین نے یہ بات ثابت کی کہ یہ جنات جنہوں نے آپ سے قرآن مجید سنا پھر واپس ہوکر اپنی قوم کو دین اسلام کی دعوت دی یہ لوگ یہودی تھے جنات کی مذکورہ بالا جماعت نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ اللہ کے داعی یعنی سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات مانو ان پر ایمان لاؤ جب ایمان لے آؤ گے اللہ تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور تمہیں درد ناک عذاب سے بچا دے گا جو جنات ایمان لے آئے ان کا اجر وثواب یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف فرما دے گا اور عذاب سے محفوظ فرما دے گا اس میں داخلہ جنت کا ذکر نہیں ہے چونکہ مومن جنات کے جنت میں داخل ہونے کا کسی آیت کریمہ میں واضح اور صریح تذکرہ نہیں ہے اور کوئی حدیث مرفوع صحیح صریح بھی اس بارے میں نہیں ملتی اس لیے مسئلہ اختلافی ہوگیا ہے بعض حضرات کہتے ہیں کہ وہ جنت میں داخل ہوں گے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کے ایمان کا صلہ بس یہی ہے کہ دوزخ سے محفوظ کردئیے جائیں اور ان سے کہہ دیا جائے گا کہ مٹی ہوجاؤ جیسا کہ جانوروں کے لیے یہی ارشاد ہوگا لہٰذا وہ مٹی ہوجائیں گے۔ حضرت امام ابوحنیفہ (رض) اللہ نے اس میں توقف فرمایا ہے جنت میں داخل ہونے نہ ہونے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ واللّٰہ اعلم الصواب  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

24:۔ ” واذ صرفنا “ یہ چوتھی تفصیلی نقلی دلیل ہے از جنات۔ جنات نے بھی کلام الٰہی سن کر اس کو مان لیا اور اللہ کی توحید پر ایمان لے آئے اور واپس جا کر اپنی قوم کو بھی تبلیغ کرنے لگے اور دلائل عقل ونقل اور وحی سے قوم کے سامنے مسئلہ بیان کرنے لگے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوق عکاظ کی طرف جاتے ہو... ئے راستے میں وادی نخلہ میں فجر کی نماز پڑھا رہے تھے کہ جنوں کی ایک جماعت جو سات یا نو افراد پر مشتمل تھی وہاں سے گذری، جب تلاوت قرآن کی آواز ان کے کانوں میں پڑی تو نہایت خاموشی سے اسے سننے لگے (ابن کثیر) جب تلاوت ختم ہوئی تو ان کے سینے نور ایمان سے روشن ہوچکے تھے اس لیے اب وہ واپس پہنچ کر ازراہ خیر خواہی و ہمدردی اپنی قوم کو بھی اسلام کی دعوت دینے لگے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(29) اور اے پیغمبر آپ ان سے اس واقعہ کا ذکر کیجئے کہ جب ہم نے جنات کی ایک جماعت کو آپ کی جانب متوجہ کردیا درآنحالیکہ وہ قرآن سننے لگے قرآن کی آواز ان کو پہنچنے لگی اور انہوں نے قریب پہنچنے کی کوشش کی غرض جب وہ قران کی تلاوت کے پاس آپہنچے تو کہنے لگے چپ رہو اور خاموش ہوجائو پھر جب قرآن کی تلاوت پوری ... ہوگئی اور تلاوت ہوچکی تو وہ جن اپنی قوم کو آگاہ کرنے اور ڈرانے کی غرض سے قوم کے پاس واپس گئے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت نکلے تھے حج کے دنوں میں شہر مکہ سے باہر نماز صبح پڑھنے کے لئے اپنے یاروں کے ساتھ اس وقت کتنے جن سن گئے اور مسلمان ہوئے اپنی قوم کو جاکر سمجھایا اس بار حضرت (علیہ السلام) سے نہیں ملے پھر بہت لوگ مسلمان ہوکر ایک رات مکہ سے باہر آئے حضرت (علیہ السلام) اکیلے باہر گئے سب نے قرآن سیکھا اور دین قبول کیا سورة جن میں ان کی باتیں مفصل ہیں اور جب سے حضرت کو وحی آئی تب سے جنوں پر خبر آسمان سے بند ہوئی، ان کو سبب معلوم نہ تھا قرآن جب سنا تو جانا اس کا نزول ہوتا ہے اس سے خبر بند کی ہے۔ خلاصہ : یہ ہے کہ پہلے جن آسمان پر جاکر فرشتوں کی باتیں سنتے تھے اور غیبی خبریں اڑلاتے تھے یہاں انہوں نے کاہن لگا رکھے تھے جو خبریں لے کر آتے تھے ان میں کچھ اور اپنی طرف سے ملا کر کاہنوں کو بتادیا کرتے تھے کاہن ان خبروں کو دوسرے لوگوں کو بتادیا کرتے تھے اس طرح لوگ خوب گمراہ ہوتے تھے اور شیاطین کا مقصد خوب پورا ہوتا تھا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد یہ سلسلہ بند کردیا گیا اور ان جنات کو مار مار کر بھگایا جانے لگا جنات میں اس کا چرچا تھا اس لئے مختلف ٹولیاں جنات کی اس معاملہ کی تحقیق کے لئے نکلیں شاید ان میں سے کوئی ٹولی جو سات نفر کو شامل تھی مکہ میں بھی آنکلی ہو مکہ سے باہر اس کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرآن پڑھنے کی آواز سنائی دی آپ صبح کی نماز پڑھ رہے تھے یا تہجد کی نماز پڑھ رہے تھے۔ بہرحال وہ سمٹ کر قرآن کی آواز کے قریب پہنچ گئے یہ جن شاید نصیبین کے تھے یا نینوا کے یہ واقعہ وادی نخلہ میں پیش آیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان جنات کے آنی کی خبر نہ ہوئی۔ وہ جنات کی ٹولی قرآن سن کر متاثر ہوئی اور اپنی قوم کو سمجھانے اور ڈرانے کے لئے واپس ہوگئی۔ بعض حضرات نے فرمایا وہ جماعت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ے ملی اور مشرف باسلام ہوکر اپنی قوم کی طرف واپس ہوئی۔ بعض نے کہا کہ سال بھر کے بعد آکر ایک کافی تعداد جنات کی مسلمان ہوئی۔ بہرحال جنوں کے واقعات احادیث میں کتنی ہی جگہ آئے ہیں اس لئے ان آیات کے متعلق مفسرین کے مختلف اقوال ہیں ہم نے انہی اقوال کا خلاصہ عرض کیا۔ یعنی مکہ سے باہر وادی نخلہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھ رہے تھے یا جماعت کی نماز پڑھا رہے تھے جنات کی ایک جماعت آئی اس نے قرآن سنا اور قرآن کا اثر لے کر یا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کرکے مشرف باسلام ہوکر واپس اپنی قوم کی طرف گئی اور وہاں جاکر اس نے قرآن سننے اور اپنے تاثرات کو بیان کیا۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔  Show more