سورة مُحَمَّد نام : آیت نمبر 2 کے فقرے وَاٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰي مُحَمَّدٍ سے ماخوذ ہے ۔ مراد یہ ہے کہ یہ وہ سورت ہے جس میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اسم گرامی آیا ہے ۔ اس کے علاوہ اس کا ایک اور مشہور نام قتال بھی ہے جو آیت 20 کے فقرے وَّذُكِرَ فِيْهَا الْقِتَالُ سے ماخوذ ہے ۔ زمانۂ نزول : اس کے مضامین یہ شہادت دیتے ہیں کہ یہ ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں اس وقت نازل ہوئی جب جنگ کا حکم تو دیا جا چکا تھا مگر ابھی جنگ عملا شروع ہوئی نہ تھی ۔ تاریخی پس منظر : جس زمانے میں یہ سورت نازل ہوئی ہے اس وقت صورتحال یہ تھی کہ مکہ معظمہ میں خاص طور پر اور عرب کی سرزمین میں بالعموم ہر جگہ مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا تھا ۔ مسلمان ہر طرف سے سمٹ کر مدینہ طیبہ کے دارالامان میں جمع ہو گئے تھے ، مگر کفار قریش یہاں بھی ان کو چین سے بیٹھنے کے لیے تیار نہ تھے ۔ مدینے کی چھوٹی سی بستی ہر طرف سے کفار کے نرغے میں گھری ہوئی تھی اور وہ اسے مٹا دینے پر تلے ہوئے تھے ۔ مسلمانوں کے لیے اس حالات میں دو ہی چارہ کار باقی رہ گئے تھے ۔ یا تو وہ دین حق کی دعوت و تبلیغ ہی سے نہیں بلکہ اس کی پیروی تک سے دست بردار ہو کر جاہلیت کے آگے سپر ڈال دیں ، یا پھر مرنے مارنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور سر دھڑ کی بازی لگا کر ہمیشہ کے لیے اس امر کا فیصلہ کر دیں کہ عرب کی سرزمین میں اسلام کو رہنا ہے یا جاہلیت کو ۔ اللہ تعالی نے اس موقع پر مسلمانوں کو اسی عزیمت کی راہ دکھائی جو اہل ایمان کے لیے ایک ہی راہ ہے ۔ اس نے پہلے سورہ حج ( آیت 39 ) میں ان کو جنگ کی اجازت دی ، اور پھر سورہ بقرہ ( آیت 190 ) میں اس کا حکم دے دیا ۔ مگر اس وقت ہر شخص جانتا تھا کہ ان حالات میں جنگ کے معنی کیا ہیں ۔ مدینے میں اہل ایمان کی ایک مٹھی بھر جمعیت تھی جو پورے ایک ہزار مردان جنگی بھی فراہم کرنے کے قابل نہ تھی ، اور اس سے کہا جا رہا تھا کہ سارے عرب کی جاہلیت سے ٹکرا جانے کے لیے تلوار لے کر کھڑی ہو جائے ۔ پھر لڑائی کے لیے جس سروسامان کی ضرورت تھی وہ اپنا پیٹ کاٹ کر بھی ایک ایسی ہستی مشکل سے ہی فراہم کر سکتی تھی جس کے اندر سینکڑوں بے خانماں مہاجر ابھی پوری طرح بسے بھی نہ تھے اور چاروں طرف سے اہل عرب نے معاشی مقاطعہ کر کے اس کی کمر توڑ رکھی تھی ۔ موضوع اور مضمون : یہ حالات تھے جن میں یہ سورت نازل فرمائی گئی ۔ اس کا موضوع اہل ایمان کو جنگ کے لیے تیار کرنا اور ان کو اس سلسلے میں ابتدائی ہدایات دینا تھا ۔ اسی مناسبت سے اس کا نام سورہ قتال بھی رکھا گیا ہے ۔ اس میں ترتیب وار حسب ذیل مضامین ارشاد ہوئے ہیں: آغاز میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت دو گروہوں کے درمیان مقابلہ درپیش ہے ۔ ایک گروہ کی پوزیشن یہ ہے کہ وہ حق کو ماننے سے انکار کر چکا ہے اور اللہ کے راستے میں سد راہ بن کر کھڑا ہو گیا ہے اور دوسرے گروہ کی پوزیشن یہ ہے کہ وہ اس حق کو مان گیا ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے اس کے بندے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوا تھا ۔ اب اللہ تعالی کا دو ٹوک فیصلہ یہ ہے کہ پہلے گروہ کی تمام سعی و عمل کو اس نے رائیگاں کر دیا اور دوسرے گروہ کے حالات درست کر دیے ۔ اس کے بعد مسلمانوں کو ابتدائی جنگی ہدایات دی گئی ہیں ۔ ان کو اللہ کی مدد اور راہنمائی کا یقین دلایا گیا ہے ۔ ان کو اللہ کی راہ میں قربانیاں کرنے پر بہترین اجر کی امید دلائی گئی ہے اور انہیں اطمینان دلایا گیا ہے کہ راہ حق میں ان کی کوششیں رائیگاں نہیں جائیں گی بلکہ دنیا سے لے کر آخرت تک وہ ان کا اچھے سے اچھا پھل پائیں گے ۔ پھر کفار کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ اللہ کی تائید و راہنمائی سے محروم ہیں ۔ ان کی کوئی تدبیر اہل ایمان کے مقابلے میں کارگر نہ ہوگی اور دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بہت برا انجام دیکھیں گے ۔ انہوں نے اللہ کے نبی کو مکہ سے نکال کر یہ سمجھا کہ انہیں بڑی کامیابی نصیب ہوئی ہے حالانکہ دراصل یہ کام کر کے انہوں نے اپنی تباہی کو خود اپنے اوپر دعوت دے دی ۔ اس کے بعد منافقین کی طرف روئے سخن پھرتا ہے جو جنگ کا حکم آنے سے پہلے تو بڑے مسلمان بنے پھرتے تھے ، مگر یہ حکم آ جانے کے بعد ان کے ہوش اڑ گئے تھے اور وہ اپنی عافیت کی فکر میں کفار سے ساز باز کرنے لگے تھے تاکہ اپنے آپ کو جنگ کے خطرات سے بچا لیں ۔ ان کو صاف صاف خبردار کیا گیا ہے کہ اللہ اور اس کے دین کے معاملے میں منافقت اختیار کرنے والوں کا کوئی عمل بھی اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہے ۔ یہاں تو بنیادی سوال جس پر تمام مدعیان ایمان کی آزمائش ہو رہی ہے یہ ہے کہ آدمی حق کے ساتھ ہے یا باطل کے ساتھ؟ اس کی ہمدردیاں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ہیں یا کفر اور کفار کے ساتھ؟ وہ اپنی ذات اور اپنے مفاد کو عزیز رکھتا ہے یا اس حق کو جس پر ایمان لانے کا وہ دعوی کر رہا ہے؟ اس آزمائش میں جو شخص کھوٹا نکلتا ہے وہ مومن ہی نہیں ہے ، کجا کہ اس کی نماز اور اس کا روزہ اور اس کی زکوۃ خدا کے ہاں کسی اجر کی مستحق ہو ۔ پھر مسلمانوں کو تلقین کی گئی ہے کہ وہ اپنی قلت تعداد اور بے سروسامانی اور کفار کی کثرت اور ان کے سروسامان کی فراوانی دیکھ کر ہمت نہ ہاریں ، ان کے آگے صلح کی پیشکش کر کے کمزوری کا اظہار نہ کریں جس سے ان کی جراتیں اسلام اور مسلمانوں کے مقابلے میں اور زیادہ بڑھ جائیں ، بلکہ اللہ کے بھروسے پر اٹھیں اور کفر کے اس پہاڑ سے ٹکرا جائیں ۔ اللہ مسلمانوں کے ساتھ ہے ، وہی غالب رہیں گے اور یہ پہاڑ ان سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے گا ۔ آخر میں مسلمانوں کو انفاق فی سبیل اللہ کی دعوت دی گئی ہے ۔ اگرچہ اس وقت مسلمانوں کی معاشی حالت بہت پتلی تھی ، مگر سامنے مسئلہ یہ درپیش تھا کہ عرب میں اسلام اور مسلمانوں کو زندہ رہنا ہے یا نہیں ۔ اس مسئلے کی اہمیت و نزاکت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمانوں اپنے آپ کو اور اپنے دین کو کفر کے غلبہ سے بچانے اور اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے اپنی جانیں بھی لڑائیں اور جنگی تیاری میں اپنے مالی وسائل بھی پوری امکانی حد تک کھپا دیں ۔ اس لیے مسلمانوں سے فرمایا گیا کہ اس وقت جو شخص بھی بخل سے کام لے گا وہ دراصل اللہ کا کچھ نہ بگاڑے گا بلکہ خود اپنے آپ ہی کو ہلاکت کے خطرے میں ڈال لے گا ۔ اللہ تو انسانوں کا محتاج نہیں ہے ۔ اس کے دین کی خاطر قربانیاں دینے سے ایک گروہ اگر جی چرائے گا تو اللہ اسے ہٹا کر دوسرا گروہ اس کی جگہ لے آئے گا ۔
تعارف سورۃ محمد یہ سورت مدنی زندگی کے ابتدائی دور میں، اور بیشتر مفسرین کی رائے میں جنگ بدر کے بعد نازل ہوئی، یہ وہ وقت تھا جب عرب کے کفار مدینہ منورہ کی ابھرتی ہوئی اسلامی حکومت کو کسی نہ کسی طرح زیر کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے، اور اس پر حملے کرنے کی تیاریاں کررہے تھے، اس لئے اس سورت میں بنیادی طور پر جہاد وقتال کے احکام بیان فرمائے گئے ہیں، اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے دین کا کلمہ بلند رکھنے کے لئے جہاد کرتے ہیں، ان کی فضیلت بیان فرمائی گئی ہے، مدینہ منورہ میں ایک بڑی تعداد ان منافقوں کی تھی جو زبان سے تو اسلام لے آئے تھے، لیکن دل سے وہ کافر تھے، ایسے لوگوں کے سامنے جب جہاد اور لڑائی کی بات کی جاتی تو اپنی بزدلی اور دل کے کھوٹ کی وجہ سے لڑائی سے بچنے کے بہانے تلاش کرتے تھے، اس سورت میں ان کی مذمت کرکے ان کا برا انجام بتایا گیا ہے، جنگ کے دوران جو قیدی گرفتار ہوں ان کے احکام بھی اس سورت میں بیان ہوئے ہیں، چونکہ اس سورت کی دوسری ہی آیت میں حضور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مبارک نام لیا گیا ہے، اس لئے اس کا نام سورۂ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے، چونکہ اس میں جہاد وقتال کے احکام بیان فرمائے گئے ہیں اس لئے اس کو سورۂ قتال بھی کہا جاتا ہے۔
اعلان نبوت کے بعد کفار و مشرکین کی طرف سے طرح طرھ کے اعتراضات، الزامات اور سوالات کے ذریعہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور جو لوگ ایمان لے آئے تھے ان کو پریشان کیا جارہا تھا۔ پروپیگنڈہ اس قدر زہریلا اور تیز تھا کہ اس کا مقابلہ ایک تیز آندھی کے سامنے کھڑے ہونے کے برابر تھا۔ مقصد یہ تھا کہ اہل ایمان حق و صداقت کا راستہ چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں ۔ کفار مکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کے راستے سے روکنے کے لیے ہر طرح کی سازشیں کررہے تھے یہاں تک کہ انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کی سازش تک کر ڈالی تھی لیکن حق و صداقت کی آواز سے ہر شخص متاثر ہوتا چلا جارہا تھا اور دین اسلام کی عظمت ہر ایک دل میں بیٹھتی چلی جارہی تھی۔ کفار مکہ اپنی اوچھی حرکتوں پر اتر آئے۔ ایک دن جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ میں نماز پڑھ رہے تھے توعقبہ ابن ابی معیط نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گے میں اپنی چادر ڈال کر بل دینا شروع کیا جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دم گھٹنے لگا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے دیکھا تو انہوں نے عقبہ کو دھکا دے کر فرمایا ؛ کیا تم اس شخص کو مار ڈالنا چاہتے ہو جو (اللہ کے گھر میں ) یہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔ (نسائی ۔ سیرت ابن ہشام) جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کرام (رض) نے مکہ مکرمہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو کفار نے وہاں بھی اپنی سازشوں کا جا پھلا دیا تھا۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے سورة محمد کو نازل کرکے اہل ایمان کو تسلی دی ہے کہ کفار کچھ بھی کرلیں گے لیکن اللہ کا دین سر بلند ہو کر رہے گا ۔ اس سورة کا خلاصہ یہ ہے ۔ ٭فر مایا جو لوگ دین کی سچائی سے خود بھی رک رہے ہیں اور دوسروں کو بھی روک رہے ہیں ان کا انجام یہ ہے کہ آخرت میں ان کے اعمال غارت کرکے ان کو جنت کی ابدی راحتوں سے محروم کردیا جائے گا۔ البتہ اگر وہ ان کی خطائیں معاف کی جاسکتی ہیں۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت و فرما نبرداری کریں گے اللہ ان کو ایسی جنتی راحتیں عطا فرمائے گا جس میں صاف صاف شفاف پانی ، نہریں بہہ رہی ہوں گی جو انتہائی لذیذ اور دل پسند ہوں گی۔ کھانے کے لیے ہر طرح کے بہترین پھل اور میوے ہوں گے۔ کفار و مشرکین کا حال یہ ہوگا کہ ان کے لیے کھولتا ہوا گرم پانی کا چشمہ ہوگا جس کا پانی پینے کے بعد ان کی آنتیں بھی با ہر آجائیں گی ۔ فرمایا لوگو ! دنیا میں تو بہ اور اطاعت کا موقع ہے اگر یہ نکل گیا تو پھر آخرت میں سوائے پچھتانے اور شرمندگی کے کچھ بھی ہاتھ نہ آئیگا۔ ٭ کفار مکہ سے فرمایا گیا کہ کیا وہ اپنے سے پہلے لوگوں کے برے انجام سے بیخبر ہیں کہ جب انہوں نے کفر اور نافرمانی کا راستہ اختیار کیا تو اللہ نے ان کو غارت کر کے رکھ دیا ۔ کیونکہ اہل ایمان کا مالک تو اللہ ہے لیکن کافروں کا تو کوئی مولیٰ اور حمایتی نہیں ہے۔ ٭فرمایا یہ کفار دنیا کی چند روزہ زندگی کے عیش و آرام کے مزے اڑالیں اور جانوروں کی طرح خوب کھا پی لیں لیکن ان کا انجام بہت عبرت ناک اور بھیانک ہوگا۔ ٭ ان کفار کے بر خلاف وہ لوگ جو ایمان اور عمل صالح کی زندگی گذاریں گے ان کے لیے جنت میں صاف شفاف پانی کی نہریں ، دودھ ، شراب اور شہد کی صافس ستھری نہریں ہوں گی۔ ان کو کھانے کی ہر چیز اور ہر نعمت عطا کی جائے گی۔ ٭کفار کے لیے فرمایا کہ ان کو ایسا کھولتا ہوا گرم پانی پلایا جائے گا جس کے پینے کے بعد ان کی آنتیں بھی باہر آجائیں گی اور ان کے منہ جھلس جائیں گے۔ ٭ اللہ تعالیٰ نے ان منافقین سے جو دکھاوے کے مسلمان ہیں تو پوچھا ہے کہ کیا وہ قیامت کا انتظار کررہے ہیں ؟ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ قیامت اس طرح اچانک آجائے گی پھر کسی کو حسن عمل اور تو بہ کا موقع نصیب نہ ہوگا۔ ٭ فرمایا کہ جس طرح اہل ایمان اس بات کے منتظر رہتے ہیں کہ اللہ کی آیتیں نازل ہوتے ہی ان پر عمل کیا جائے ۔ منافقین کا یہ حال ہے کہ جب اللہ کی طرف سے جہاد کا حکم دیا جاتا ہے تو ان کی یہ حالت ہوتی ہے جیسے ان پر موت کی بےہوشی طاری ہوگئی ہے۔ فرمایا کہ منافقین بےفکر ہو کر نہ رہیں بہت جلد ان کی بدبختی کے دن شروع ہونے والے ہیں کیونکہ اللہ نے ان کو اپنی رحمت سے دور کردیا ہے اسی لیے وہ بہرے گونگے بن کر رہ گئے ہیں نہ انہیں حق کی آواز سنائی دیتی ہے نہ ان کو سیدھا راستہ سوجھتا ہے۔ وہ جب اسلام کے خلاف سازشیں کرتے ہیں تو ان کا گمان یہ ہوتا ہے کہ ان کی حرکتوں کو دیکھنے والا کوئی نہیں ہے حالانکہ اللہ ان کی ایک ایک حرکت اور سازش کو دیکھ رہا ہے۔ ان کو اپنی موت کے وقت معلوم ہوگا جب فرشتے ان کو روح کو قبض کر کے ان کے چہروں اور پیٹھ پر مارتے ہوں گے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ ہر وہ کام کرتے ہن جس سے اللہ ناخوش تھا اور ان کے نزدیک اللہ کی رضا و خوشنودی کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ فرمایا کہ اللہ نے جہاد کا حکم اسی لیے دیا ہے تاکہ منافقین جو اپنے آپ کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں ان کے حالات سب کے سامنے کھل کر آجائیں گے اور ہم بھی جانچ لیں گے کہ کس کے دل میں کتنا ایمان ہے۔ ٭ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ا اے مومنو ! تم اللہ و رسول کی اطاعت کرتے رہو اور کسی حکم کی خلاف ورزی کرکے اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو کیونکہ اللہ کا یہ قانون ہے کہ جو لوگ اللہ و رسول کی اطاعت نہیں کرتے اور وہ اسی حال میں مر جاتے ہیں تو ان کی بخشش نہیں ہوتی۔ ٭فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان جہاد کی طرف آمادہ کرتے رہیے اور صلح کرنے میں ایسا انداز اختیارنے کیجئے جس کو کفار کمزوری سمجھیں گے کیونکہ اگر جہاد ہوگا تو اللہ اہل ایمان ہی کو غالب فرمائے گا۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اللہ تمہارے ساتھ ہے اللہ تمہارے اجر وثواب میں ذرا بھی کمی نہ کرے گا ۔ لہذا تم جہاد سے کبھی اپنی جان مت چرانا، دنیا کی زند گی جو کھیل کود سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی اس کی رنگینیوں میں کھو کر جہاد سے منہ مت پھیرنا۔ فرمایا کہ اگر تم نے ایمان اور تقویٰ کا راستہ اختیار کیا تو آخرت میں اس کا بہترین اجر وثواب عطا کیا جائے گا ۔ تم اللہ کے راستے میں خرچ کرو۔ بخل اور کنجوسی اختیار نہ کرو کیونکہ جو لوگ اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے کتراتے ہیں تو یہ ان کی شان کے خلاف ہے کیونکہ ایسا تو وہ لوگ کرتے ہیں جنہیں آخرت اور اللہ پر بھروسہ نہیں ہے۔ اللہ بےنیاز ذات ہے وہ کسی کا محتاج نہیں ہے ۔ یہ سب کچھ تمہاری ہی بھلائی کے لئے ہیں ۔ ٭ آخر میں فرمایا کہ یاد رکھو ! اگر تم نے جہاد سے جان چھڑائی یا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت نہ کی تو وہ اس بات پر پوری قدرت رکھتا ہے کہ تمہارے بدلے دوسری قوم کو اٹھادے جو اللہ کی باتوں کو مانیں گے اس کے راستے میں جان و مال کو بےدریغ خرچ کریں گے اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔
سورة محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تعارف اس سورت کا نام نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسم مبارک پر رکھا گیا ہے جو اس کی دوسری آیت میں موجود ہے۔ اسکے چار رکوع اور اڑتیس (٣٨) آیات ہیں، اور یہ مدنی سورت ہے۔ اس سورت میں پہلے کفار کے عقیدہ اور کردار کا مسلمانوں کے افکار اور کردار کے ساتھ تقابل کیا گیا ہے اس کے بعد منافقوں کا مسلمانوں کے ساتھ موازنہ کیا ہے۔ کفار کے بارے میں ارشاد ہے کہ یہ لوگ نہ صرف اپنے کفرپہ اڑے ہوئے ہیں بلکہ اپنے عقائد اور اعمال کے ذریعے لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اس وجہ سے انکے تمام اعمال ضائع کر دئیے جائیں گے کیونکہ یہ حق کی بجائے باطل کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ تمہاری جنگ ہو تو ان کی اچھی طرح پٹائی کرو اور ان کی گردنیں اڑادو۔ ان میں جو باقی بچیں ان کو قیدی بنا لو پھر تمہیں اختیار ہے کہ انہیں فدیہ لے کر چھوڑ دو یا بغیر فدیے کے رہا کردیا جائے۔ کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کا کردار بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ اللہ پر حقیقی ایمان لائیں، صالح اعمال اختیار کرتے رہیں اور جو کچھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا اس پر یقین رکھیں کہ یہ سب کچھ ہمارے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے ان کے صالح عقیدہ اور عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نہ صرف ان کے گناہوں کو معاف کرے گا بلکہ ان کے حالات بھی درست کر دے گا۔ لہٰذا مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اللہ کے دین کی مدد کریں اللہ تعالیٰ انکی مدد فرماے گا۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مدد کرتا ہے اور کفار کی مدد نہیں کرتا۔ وجہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کا خیر خواہ ہے اور کفار کی خیر خواہی نہیں کرتا۔ کفار تو اس طرح زندگی گزار رہے ہیں جس طرح چوپائے زندگی گزارتے ہیں ان لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہوگا اس سورت کے آخر میں بنی (علیہ السلام) کو یہ حکم ہوا ہے کہ آپ کو لا الہ الا اللہ کا عقیدہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے اور اس پر قائم رہنا چاہیے۔ آپ اپنے لیے اور مومن مردوں اور عورتوں کے لیے استغفار کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے کو جانتا ہے اس کے بعد منافقوں کا مسلمانوں کے ساتھ موازنہ کیا گیا ہے منافقین کی حالت یہ ہے کہ قتال فی سبیل اللہ کی آیت نازل ہوتی ہے تو یہ مرنے کے خوف سے ایک دوسرے کی طرف یوں دیکھتے ہیں جیسے ان پر موت کی غشی طاری ہو ان کی سوچ اور کردار یہ ہے کہ اگر انہیں اختیار مل جائے تو یہ رشتہ داریوں کو توڑ ڈالیں گے اور زمین میں فساد کریں گے حقیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کی ہے جس وجہ سے یہ اندھے اور بہرے ہوچکے ہیں جب انہیں موت آئے گی تو فرشتے ان کے چہرے اور پیٹوں پر ماریں گے۔ اس کے بعد مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہیں اور اپنے اعمال کو باطل ہونے سے بچائیں آخر میں فرمایا کہ حالت جنگ میں کفار کے مقابلے میں کمزوری دکھانے کی بجائے ان کے خلاف ڈٹ جانا چاہیے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ تم ہی سر بلند رہو گے اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری جگہ کوئی اور قوم لے آئے گا جو تمہارے جیسے نہیں ہوں گے۔
سورة محمد ایک نظر میں یہ مدنی سورت ہے اور اس کا ایک نام دوسرا بھی ہے وہ ہے ” سورة قتال “ کیونکہ اس کا موضوع اور محور دراصل قتال ہے۔ قتال کی صورتیں اور اس کے حالات اور اس کے انداز تعبیر اور صوتی اثرات سب میں قتال کا رنگ غالب ہے۔ اس کے مضمون کا آغاز ہی ان لوگوں کے تعارف سے ہوتا ہے جنہوں نے کفر اختیار کیا ہے اور ان لوگوں کے تعارف سے جو ایمان لائے۔ کفار پر تنقید کی گئی ہے۔ اور اہل ایمان کی تعریف کی گئی ہے۔ اور یہ اعلان کہ اللہ اہل کفر کا دشمن ہے اور اہل ایمان کا دوست ہے۔ اور اس بات کی اللہ کے ہاں بڑی اہمیت ہے۔ پس گویا یہ اعلان ہے کہ اللہ اپنے اور اپنے دین کے دشمنوں کے ساتھ برسر جنگ ہے۔ آغاز ہی میں : الذین کفروا ۔۔۔۔ ۔ اضل اعمالھم (١) والذین امنوا ۔۔۔۔۔۔ واصلح بالھم (٢) ذلک بان الذین ۔۔۔۔۔ للناس امثالھم (٣) (٤٧ : ١ تا ٣) ” جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستے سے روکا ، اللہ نے ان کے اعمال کو رائیگاں کردیا۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور اس چیز کو مان لیا جو محمد پر نازل ہوئی ہے۔ اور ہے وہ سراسر حق ان کے رب کی طرف سے ۔۔۔۔ اللہ نے ان کی برائیاں ان سے دور کردیں اور ان کا حال درست کردیا۔ یہ اس لیے کہ کفر کرنے والوں نے باطل کی پیروی کی اور ایمان لانے والوں نے حق کی پیروی کی جو ان کے رب کی طرف سے آیا ہے۔ اس طرح اللہ لوگوں کو ان کی ٹھیک ٹھیک حیثیت بتائے دیتا ہے “۔ کافروں کے ساتھ اس اعلان جنگ کے متصلا بعد اہل ایمان کو حکم دیا جاتا ہے کہ ان کے خلاف جنگ شروع کر دو ، یہ حکم نہایت ہی زور دار اور سخت الفاظ میں ہے اور اس میں جنگ کے اندر مخالفین کو خوب کچل دینے کے بعد گرفتار کرنے اور گرفتار شدگان کے احکام بتائے گئے ہیں۔ فاذا لقیتم الذین کفروا ۔۔۔۔۔ الحرب اوزارھا (٤٧ : ٤) ” پس جب کافروں سے تمہاری مڈبھیڑ ہو تو پہلا کام گردنیں اڑانا ہے ، یہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو ، اس کے بعد احسان کرو یا فدیے کا معاملہ کرو تا آنکہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے “۔ اس حکم کے بعد حکمت قتال کا بیان ہے۔ مسلمانوں کو قتال پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ اور یہ بتایا جاتا ہے کہ جو لوگ شہید ہوئے وہ نہایت ہی باعزت لوگ ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کا اکرام کرے گا۔ اور جو لوگ یہ جنگ صرف اللہ کی خاطر لڑتے ہیں ان کے ساتھ اللہ کی مدد شامل حال ہوتی ہے۔ اور اللہ کافروں کو ہلاک کر کے ان کے اعمال کو ضائع کردیتا ہے۔ ذلک ولو یشاء ۔۔۔۔ یضل اعمالھم (٤٧ : ٤) سیھدیھم ویصلح بالھم (٤٧ : ٥) و یدخلھم الجنۃ عرفھا لھم (٤٧ : ٦) یایھا الذین امنوا ۔۔۔۔۔ اقدامکم (٤٧ : ٧) والذین کفروا ۔۔۔۔۔ اعمالھم (٤٧ : ٨) ذلک بانھم ۔۔۔۔۔۔ اعمالھم (٤٧ : ٩) ” یہ ہے تمہارے کرنے کے کا کام ، اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے نمٹ لیتا مگر تا کہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ آزمائے۔ اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں گے۔ اللہ ان کے اعمال ہرگز ضائع نہ کرے گا۔ وہ ان کی راہنمائی فرمائے گا ، ان کا حال درست کر دے گا اور ان کو اس جنت میں داخل کر دے گا جس سے وہ ان کو واقف کرا چکا ہے۔ اے لوگوں جو ایمان لائے ہو ، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا۔ رہے وہ لوگ ، جنہوں نے کفر کیا ہے ، تو ان کے لئے ہلاکت ہے۔ اور اللہ نے ان کے اعمال کو بھٹکا دیا ہے کیونکہ انہوں نے اس چیز کو ناپسند کیا جسے اللہ نے نازل کیا ہے لہٰذا اللہ نے ان کے اعمال ضائع کر دئیے “۔ یہاں کفار کو شدید دھمکی دی جاتی ہے اور اعلان کیا جاتا ہے کہ اللہ مومنین کا والیو ناصر ہے۔ اور اہل کفر کا کوئی ناصر و مددگار نہیں ، وہ یکہ و تنہا چھوڑ دئیے گئے ہیں۔ افلم یسیروا ۔۔۔۔۔ وللکفرین امثالھا (٤٧ : ١٠) ذلک بان اللہ ۔۔۔۔۔ مولی لھم (٤٧ : ١١ ” کیا وہ زمین میں چلے پھرے نہ تھے کہ ان لوگوں کا انجام دیکھتے جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں ، اللہ نے ان کا سب کچھ ان پر الٹ دیا اور ایسے ہی نتائج ان کافروں کے لئے مقدر ہیں۔ یہ اس لیے کہ ایمان لانے والوں کا حامی اور ناصر اللہ ہے اور کافروں کا حا می وناصر کوئی نہیں “۔ اس کھلے اعلان جنگ اور زبردست دھمکی کے بعد ایمان اور کفر کے متعلق دوسرے اہم امور لیے جاتے ہیں۔ دنیا اور آخرت میں اہل ایمان کے شب و روز اور اہل کفر کے حالات بیان کئے جاتے ہیں ۔ مومنین کو دنیا و آخرت میں طبیب متاع حیات دیا جاتا ہے اور کافروں کو کہا جاتا ہے کہ دنیا میں تو وہ حیوانوں کی طرح کھاتے ہیں۔ کوئی اعلیٰ مقصد ان کے سامنے نہیں۔ ان اللہ یدخل الذین ۔۔۔۔۔۔ والنار مثوی لھم (٤٨ : ١٢) ” ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو اللہ ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور کفر کرنے والے بس دنیا کی چند روزہ زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں ، جانوروں کی طرح کھا پی رہے ہیں اور ان کا آخری ٹھکانا جہنم ہے “۔ جبکہ اہل ایمان کی جنتوں میں پشندیدہ پینے کی چیزیں ہوں گی ، پانی تازہ اور صاف ، تازہ دودھ ، لذیذ شراب ، صاف شدہ شہد بڑی مقدار میں اور کثرت سے نہروں کی شکل میں۔ پھر مختلف قسم کے پھل اور اللہ کی مغفرت اور رضا مندی۔ آخر میں پوچھا جاتا ہے۔ کمن ھو خالد فی الناس وسقوا ماء حمیما فقطع امعاءھم (٤٨ : ١٥) ” کیا یہ شخص ان لوگوں کی طرح ہے جو جہنم میں رہیں گے اور ج ہیں ایسا گرم پانی پلایا جا ئے گا جو ان کی آنتیں تک کاٹ دے گا “۔ جب سورت کے آغاز میں کافروں کے ساتھ یہ باتیں ہوگئیں اور مومنوں اور کافروں کا تعلق اور انجام صاف صاف بتا دیا گیا تو پھر منافقین کے ساتھ بھی چند باتیں ضروری تھیں۔ مدینہ میں یہ لوگ یہودیوں کے ساتھ مل کر نئی اٹھنے والی اسلامی جماعت اور حکومت کے لئے شدید خطرہ بن رہے تھے۔ یہ لوگ ان مشرکین مکہ کے مقابلے میں زیادہ خطرناک تھے جو باہر سے اسلام کے خلاف برسر پیکار تھے۔ خصوصاً غزوۂ بدر کے بعد اور غزوۂ احزاب سے پہلے کے دور میں جبکہ یہودیوں کی قوت کا زور توڑ دیا گیا تھا اور منافقین کی مرکزی قوت بھی کمزور ہوگئی تھی جیسا کہ ہم نے سورت احزاب میں تفصیلات دے دی ہیں۔ اس سورت میں منافقین کے ساتھ مکالنے کا خاص رنگ ہے ۔ آغاز ہی سے سخت حملے اور جنگ کا انداز ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں باتوں کو غور سے نہیں سنتے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ درحقیقت یہ گمراہ ہیں۔ ومنھم من یستمع الیک ۔۔۔۔۔۔ وتبعوا اھوائھم (٤٧ : ١٦) ” اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کان لگا کر تمہاری بات سنتے ہیں اور پھر جب تمہارے پاس سے نکلتے ہیں تو ان لوگوں سے جنہیں علم کی نعمت بخشی گئی ہے۔ پوچھتے ہیں کہ ابھی ابھی انہوں نے کیا کہا تھا ؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے ٹھپہ لگا دیا ہے اور یہ اپنی خواہشات کے پیرو بنے ہوئے ہیں “۔ ایسے لوگوں کو دھکمی دی جاتی ہے کہ کیا یہ قیامت کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہاں تو ان کے ہوش ٹھکانے نہ ہوں گے۔ فھل ینظرون الا الساعۃ ۔۔۔۔۔ ذکرھم (٤٧ : ١٨) ” اب کیا یہ لوگ قیامت ہی کے منتظر ہیں کہ وہ اچانک ان پر آجائے ؟ اس کی علامات تو آچکی ہیں جب وہ خود آجائے گی تو ان کے لئے نصیحت قبول کرنے کا کون سا موقعہ رہ جائے گا “۔ اس کے بعد منافقین کی حالت کی تصویر کشی یوں کی گئی ہے کہ جب قتال کا حکم آتا ہے تو ان کی پریشانی ، بزدلی اور ہلکا پن واضح ہو کر سامنے آجاتا ہے ، کیونکہ یہ تو دکھاوے کے مسلمان ہیں ۔ حکم قتال سے اصل اور نقلی مسلمانوں کے درمیان امتیاز ہوتا ہے۔ ویقول الذین امنوا ۔۔۔۔۔ علیہ من الموت (٤٧ : ٢٠) ” جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ کہہ رہے تھے کہ کوئی سورت کیوں نہیں نازل کی جاتی مگر جب ایک پختہ سورت نازل کردی گئی جس میں جنگ کا ذکر تھا تو تم نے دیکھا کہ جن کے دلوں میں بیماری تھی ، وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے کسی پر موت چھا گئی ہو “۔ ایک بار پھر ان منافقین کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اطاعت اختیار کریں ، معروف طریقہ اپنائیں اور جب کسی معاملے کا عزم بالجز ہوجائے تو مناسب تو یہ ہے کہ یہ اپنے وعدوں میں سچے ہوں ورنہ ان کے خلاف بھی اعلان جنگ ہوگی۔ فاولی لھم (٤٧ : ٢٠) طاعۃ وقول ۔۔۔۔۔ خیرا لھم (٤٧ : ٢١) فھل عسیتم ۔۔۔۔۔۔ ارحامکم (٤٧ : ٢٢) اولئک الذین لعنھم ۔۔۔۔۔ ابصارھم (٤٧ : ٢٣) ” ان کے لئے بہتر ہے کہ وہ اطاعت کریں اور معروف باتیں کریں اور اب جب قطعی حکم دے دیا گیا ہے تو اس وقت یہ اللہ سے اپنے عہد میں سچے نکلتے تو انہی کے لئے بہتر ہوتا۔ اب کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جاسکتی ہے کہ تم الٹے منہ پھرگئے تو زمین میں فساد برپا کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے۔ یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان کو اندھا اور بہرہ بنا دیا “۔ بتایا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے شیطان کی رفاقت اختیار کرلی ہے ، یہ یہودیوں کی سازشوں میں شریک ہیں اور موت کے وقت ان کے ساتھ فرشتوں کا سلوک بہت سخت ہوگا اور دنیا میں بھی ان کے راز فاش ہوں گے۔ یہ بطور سازش اسلامی معاشرے کے فرد بنے ہوئے ہیں اور مفادات حاصل کر رہے ہیں۔ ان الذین ارتدوا ۔۔۔۔۔ ۔ واملی لھم (٤٧ : ٢٥) ذلک بانھم قالوا ۔۔۔۔۔۔ یعلم اسرارھم (٤٧ : ٢٦) فکیف اذا توفتھم ۔۔۔۔۔ وادبارھم (٤٧ : ٢٧) ذلک بانھم ۔۔۔۔۔۔ فاحبط اعمالھم (٤٧ : ٢٨) ام حسب الذین ۔۔۔۔۔ اضغانھم (٤٧ : ٢٩) ولو نشاء لا ۔۔۔۔۔ یعلم اعمالکم (٤٧ : ٣٠) ولنبلونکم حتی۔۔۔۔۔۔ اخبارکم (٤٧ : ٣١) ” حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہدایت واضح ہوجانے کے بعد اس سے پھرگئے ، ان کے لئے شیطان نے اس روش کو سہل بنا دیا ہے۔ اور جھوٹی توقعات کا سلسلہ ان کے لئے دراز کر رکھا ہے۔ اسی لیے انہوں نے اللہ کے نازل کردہ دین کو ناپسند کرنے والوں سے کہہ دیا کہ بعض مقامات میں ہم تمہاری مانیں گے اللہ ان کی یہ خفیہ باتیں خوب جانتا ہے۔ پھر اس وقت کیا حال ہوگا جب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے اور ان کے منہ اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے انہیں لے جائیں گے ؟ یہ اسی لیے تو ہوگا کہ انہوں نے اس طریقے کی پیروی کی جو اللہ کو ناراض کرنے والا ہے اور اس کی رضا کا راستہ اختیار کرنا پسند نہ کیا۔ اسی بنا پر اس نے ان سب کے اعمال ضائع کر دئیے ۔ کیا وہ لوگ جن کے دل میں بیماری ہے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ اللہ ان کے دلوں کی کھوٹ ظاہر نہیں کرے گا۔ ہم چاہیں تو انہیں تم کو آنکھوں سے دکھا دیں اور ان کے چہروں سے تم ان کو پہچان لوگے مگر ان کے انداز کلام سے تو تم ان کو جان ہی لوگ گے۔ اللہ تم سب کے اعمال سے خوب واقف ہے۔ ہم ضرور تم لوگوں کو آزمائش میں ڈالیں گے تا کہ تمہارے حالات کی جانچ کریں اور دیکھ لیں کہ تم میں مجاہد اور ثابت قدم کون ہے “۔ اس سورت کے تیسرے سبق میں روئے سخن پھر مشرکین مکہ اہل قریش اور یہودیوں کی طرف ہے اور ان پر تنقید کی گئی ہے۔ ان الذین کفروا وصدوا ۔۔۔۔۔۔ وسیحبط اعمالھم (٤٨ : ٣٢) ” جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھگڑا کیا جبکہ ان پر براہ راست واضح ہوچکی تھی۔ درحقیقت وہ اللہ کا کوئی نقصان بھی نہیں کرسکتے بلکہ اللہ ہی ان کا سب کیا کرایا غارت کر دے گا “۔ اور اہل ایمان کو بھی ڈرایا جاتا ہے کہ یہ نہ ہو کہ نافرمانی کی وجہ سے ان کے اعمال بھی غارت ہوجائیں۔ یایھا الذین امنوا ۔۔۔۔۔۔ اعمالھم (٤٧ : ٣٣) ان الذین کفروا ۔۔۔۔۔۔ یغفر اللہ لھم (٤٧ : ٣٤) ” اے لوگوں جو ایمان لائے ہو تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو ، کفر کرنے والوں اور خدا سے روکنے والوں اور مرتے دم تک کفر پر جمے رہنے والوں کو تو اللہ ہرگز معاف نہ کرے گا “۔ مسلمانوں کو جنگ کے وقت ثابت قدم رہنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ فلا تھنوا وتدعوا ۔۔۔۔۔ اعمالکم (٤٧ : ٣٥) ” پس تم بودے نہ بنو اور صلح کی درخواست نہ کرو ، تم ہی غالب رہنے والے ہو ، اللہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے اعمال کو ہرگز ضائع نہ کرے گا “۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ دنیا اور اس کا سازوسامان کچھ حقیقت بھی نہیں رکھتا اور حسب توفیق خرچ کرو ، اللہ نے تم پر مہربانی کر کے یہ فرض نہیں کیا کہ اپنے پورا مال خرچ کردو ، کیونکہ اللہ کو معلوم تھا کہ وہ انسانوں کی کنجوسی سے واقف ہے ۔ اگر اللہ سب کا سب مال طلب فرماتا تو تم دل تنگی اور کنجوسی اختیار کرتے۔ انما الحیوۃ الدنیا ۔۔۔۔۔ اموالکم (٤٧ : ٣٦) ان یسئلکموھا ۔۔۔۔۔ اصغانکم (٤٧ : ٣٧) ” یہ دنیا کی زندگی تو ایک کھیل تماشا ہے۔ اگر تم ایمان رکھو اور تقویٰ کی روش پر چلتے رہو تو اللہ تمہارے اجر تم کو دے گا ، اور وہ تمہارا مال تم سے نہ مانگے گا اور اگر وہ کہیں تمہارے مال تم سے مانگ لے اور سب کا سب تم سے طلب کرلے تو تم بخل کرو گے اور وہ تمہارے کھوٹ ابھار لائے گا “۔ اور سورت کا خاتمہ مسلمانوں کو سخت تنبیہہ پر ہوتا ہے۔ اگر تم نے بخل کیا اور اپنے مال اللہ کی جنگ میں خرچ نہ کیا تو پھر تم معزول ! ھانتم ھولاء تدعون ۔۔۔۔۔۔ یکونوا امثالکم (٤٧ : ٣٨) ” دیکھو ، تم لوگوں کو دعوت دی جارہی ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو ، اس پر تم میں سے کچھ لوگ ہیں جو بخل کر رہے ہیں حالانکہ جو بخل کرتا ہے وہ درحقیقت اپنے آپ ہی سے بخل کر رہا ہے۔ اللہ غنی ہے ، تم ہی اس کے محتاج ہو۔ اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے “۔ ٭٭٭ غرض سورت کے آغاز سے آخر تک مسلسل جنگی ماحول اور حق و باطل کی کشمکش ہے۔ ہر فقرے سے یہ بات پھولتی ہے کہ باطل کا سر پھوڑ کر رکھ دو ۔ آیات کے خاتمے پر آواز کی شوکت یہ تاثر دیتی ہے کہ گویا توپ کے گولے برس رہے ہیں۔ الفاظ بھی بھاری اور رعب دار ہیں مثلاً ۔ اعمالھم ، بالھم ، امثالھم ، اھواءھم ، امعاء ھم اور جب الفاظ نرم بھی ہوں تو یوں نظر آتا ہے کہ کسی میدان جنگ میں تلواریں چمک رہی ہیں مثلاً اوزارھا ، امثالھا اقفالھا۔ جس طرح اس سورت کے الفاظ سخت پر شوکت اور آرمی کمانڈز جیسے ہیں اسی طرح اس کے اندر پیش کردہ مناظر بھی سخت ہیں مثلاً قتل و مقاتلہ کے بارے میں کہا گیا ہے : فاذا لقیتم الذین کفروا فضرب الرقاب (٤٧ : ٤) ” پس جب کافروں کے ساتھ تمہارا آمنا سامنا ہو تو گردنیں اڑا دو “۔ اور خوب قتل کرنے کے بعد گرفتاری کے لئے یہ الفاظ ہیں : حتی اذا اتختموھم فشدوا الوثاق (٤٧ : ٤) ” اور جب خوب کچل دو تم ان کو تب رہے سہے قیدیوں کو جکر کر باندھو “۔ اور کافروں کے لئے بدعا بھی نہایت ہی سخت الفاظ میں ہے : فتعسالھم واضل اعمالھم (٤٧ : ٨) ” ہلاک ہوجائیں اور ان کے اعمال کو اللہ اکارت کر دے “۔ سابقہ اقوام کی ہلاکت بھی اسی طرح دھماکہ خیزی کے ساتھ بیان ہوئی۔ دمر اللہ علیھم وللکفرین امثالھم (٤٧ : ١٠) ” اللہ نے ان کا سب کچھ ان پر الٹ دیا اور ایسے ہی نتائج ان کافروں کے لئے مقدر ہیں “۔ اور جہنم میں ان کی حالت یہ ہوگی۔ وسقوا ماء حمیما فقطع امعاءھم (٤٧ : ١٥) ” اور انہیں ایسا گرم پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا “۔ اور منافقین کی بزدلی اور ان کے خوف وہراس کو جبکہ انہوں نے قتال کا حکم سنا یوں بیان کیا گیا۔۔۔۔ الیک نظر المغشی علیہ من الموت (٤٧ : ٢٠) ” وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے ان پر حالت موت چھا گئی “ اور اگر مسلمان بھی جہاد سے منہ موڑیں تو اللہ ان کو ان سخت الفاظ میں دھمکی دیتا ہے۔ وان تتولوا یستبدل قوما غیرکم ثم لایکونوا امثالکم (٤٧ : ٣٨) ” اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے “۔ یوں اس سورت کے مضامین و موضوعات ، اس کے الفاظ ، فوجی انداز گفتگو ، سخت قسم کے مناظر اور قتال اور جنگ کے دو ٹوک احکام اس سورت کی فضا اور اس کے ماحول کو سخت دو ٹوک اور شدید بنا دیتے ہیں۔