Surat Muahammad

Surah: 47

Verse: 1

سورة محمد

اَلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَضَلَّ اَعۡمَالَہُمۡ ﴿۱﴾

Those who disbelieve and avert [people] from the way of Allah - He will waste their deeds.

جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا اللہ نے ان کے اعمال برباد کر دیئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Reward of the Disbelievers and the Believers, Allah says. الَّذِينَ كَفَرُوا ... Those who disbelieve, (meaning, in the Ayat of Allah). ... وَصَدُّوا ... and hinder (men) (Others). ... عَن سَبِيلِ اللَّهِ أَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ from the path of Allah, He will render their deeds vain. meaning, He renders their deeds vain and futile, and He denies them any rewards or blessings for them. This is similar to His saying, وَقَدِمْنَأ إِلَى مَا عَمِلُواْ مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَأءً مَّنثُوراً And We will approach what they have done of deeds and make them as dispersed dust. (25:23) Allah then says,

ارشاد ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے خود بھی اللہ کی آیتوں کا انکار کیا اور دوسروں کو بھی راہ اللہ سے روکا اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال ضائع کر دئیے ان کی نیکیاں بیکار ہوگئیں ، جیسے فرمان ہے ہم نے ان کے اعمال پہلے ہی غارت وبرباد کر دئیے ہیں اور جو لوگ ایمان لائے دل سے اور شرع کے مطابق اعمال کئے بدن سے یعنی ظاہر و باطن دونوں اللہ کی طرف جھکا دئیے ۔ اور اس وحی الہٰی کو بھی مان لیا جو موجودہ آخر الزمان پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری گئی ہے ۔ اور جو فی الواقع رب کی طرف سے ہی ہے اور جو سراسر حق و صداقت ہی ہے ۔ ان کی برائیاں برباد ہیں اور ان کے حال کی اصلاح کا ذمہ دار خود اللہ ہے اس سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہو چکنے کے بعد ایمان کی شرط آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور قرآن پر ایمان لانا بھی ہے ۔ حدیث کا حکم ہے کہ جس کی چھینک پر حمد کرنے کا جواب دیا گیا ہو اسے چاہیے کہ دعا ( یھدیکم اللہ ویصلح بالکم ) کہے یعنی اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہاری حالت سنوار دے پھر فرماتا ہے کفار کے اعمال غارت کر دینے کی مومنوں کی برائیاں معاف فرما دینے اور ان کی شان سنوار دینے کی وجہ یہ ہے کہ کفار تو ناحق کو اختیار کرتے ہیں حق کو چھوڑ کر اور مومن ناحق کو پرے پھینک کر حق کی پابندی کرتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے انجام کو بیان فرماتا ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ خوب جاننے والا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 بعض نے اس سے مراد کفار قریش اور بعض نے اہل کتاب لئے ہیں۔ لیکن یہ عام ہے ان کے ساتھ سارے ہی کفار اس میں داخل ہیں۔ 1۔ 2 اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف جو سازشیں کیں اللہ نے انہیں ناکام بنادیا اور انہی پر ان کو الٹ دیا دوسرا مطلب ہے کہ ان میں جو بعض مکارم اخلاق پائے جاتے تھے مثلا صلہ رحمی قیدیوں کو آزاد کرنا مہمان نوازی وغیرہ یا خانہ کعبہ اور حجاج کی خدمت ان کا کوئی صلہ انہیں آخرت میں نہیں ملے گا۔ کیونکہ ایمان کے بغیر اعمال پر اجر وثواب مرتب نہیں ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢] صدّ کا لغوی مفہوم :۔ صَدَّ کا لفظ لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ اس کا معنی اعراض کرنا اور خودرک جانا بھی ہے۔ اور دوسروں کو روکنا بھی۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے کفر کیا۔ پھر کفر کی حمایت میں دوسروں کو اسلام لانے سے روکتے رہے۔ مسلمانوں کو ایذائیں اور دکھ پہنچانے اور اسلام کی اشاعت کو روکنے کے لیے خفیہ تدبیریں اور سازشیں تیار کرتے رہے اور معاندانہ سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔ ان کی یہ سرگرمیاں یہاں بےنتیجہ اور بےاثر ثابت ہوں گی۔ اور وہ اپنی ان کوششوں میں ناکام رہیں گے۔ اللہ ان کی کوششوں کو برباد کر دے گا اور کبھی بار آور نہ ہونے دے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) الذین کفروا و صدوا عن سبیل اللہ …: چونکہ اس سورت کا اکثر حصہ مشرکین کے خلاف جنگ کے لئے ابھارنے پر مشتمل ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے سورت کا آغاز کفار پر اپنے غصب اور ایمان والوں پر اپنی رحمت کے اظہار کے ساتھ کیا ہے، تاکہ ان کے کفر اور اللہ کی راہ سے روکنے کے جرم کی بنا پر مسلمانوں کو ان سے لڑنے کی ترغیب دی جاسکے۔ چناچہ اس تمہید کے بعد فرمایا :(فاذا لقیتم الذین کفروا فضرب الرقاب) (محمد : ٣)” تو جب تم ان لوگوں سے ملو جنہوں نے کفر کیا تو خوب گردنیں مارنا ہے۔ “ (٢) صدوا عن سبیل اللہ اضل اعمالھم :” صدوا “ ” صد یصد “ (ن) لازم بھی آتا ہے ” اعراض کرنا “ اس کی بات تو ” الذین کفروا “ میں آگئی، بلکہ کفر اعراض سے زیادہ سخت ہے۔ اس لئے مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے ایمان لانے سے انکار کردیا اور دوسرے لوگوں کو بھی اللہ کے راستے یعنی اسلام قبول کرنے سے روکا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال ضائع اور برباد کردیے۔ یعنی کافر رہتے ہوئے ان لوگوں نے جو بظاہر اچھے کام کئے تھے، جیسے صدقہ و خیرات ، مہمان نوازی، صلہ رحمی، خانہ کعبہ کی مرمت اور اس کا حج، مظلوم کی مدد وغیرہ، ان پر اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کو کوئی اجر نہیں ملے گا کیونکہ ایمان کے بغیر کسی عمل کی کوئی قیمت نہیں۔ مزید دیکھیے سورة فرقان (٢٣) کی تفسیر۔ کافروں کے اعال برباد کرن کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے وہ تمام اعمال یعنی سازشیں اور منصوبے ناکام کردیئے جو وہ اسلام کو نیچا دکھانے کے لئے کام میں لاتے تھے۔ (٣) صدوا عن سبیل اللہ : اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنے کی کئی صورتیں ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی کسی کو زبردست ی ایمان لانے سے روک دے۔ دوسری یہ کہ وہ ایمان لانے والوں پر ایسا ظلم و ستم ڈھائے کہ ان کے لئے ایمان پر قائم رہنا مشکل ہوجائے اور ان کی حالت زار دیکھ کر ایمان لانے کا ارادہ رکھنے والے ایمان لانے کی جرأت نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے لفظ ” فتنہ “ استعمال فرمایا ہے۔ تیسری یہ کہ وہ مختلف طریقوں سے اسلام کے خلاف لوگوں کو ورغلائے اور ان کے دلوں میں ایسے وسوسے ڈالے کہ وہ دین اسلام سے بدظن ہوجائیں ۔ چوتھی یہ کہ ہر کافر اپنے بچوں اور زیر کفالت لوگوں کی تربیت کفر پر کرتا ہے جس سے ان کے لئے دین حق قبول کرنا مشکل ہوتا ہے، اس طرح وہ اللہ کے راستی سے روکنے کا مجرم بنتا ہے۔ اللہ کے راستے سے رونے کی ان تمام صورتوں کو ختم کرنے کے لئے کفار سے لڑنے کا حکم دیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Another name of Surah Muhammad is Surah Al-Qital [ Surah of war ] because this Surah lays down the rules of Jihad and Qital [ i.e. armed struggle in the cause of Allah ]. This Surah was revealed immediately after migration to Madinah. Ibn ` Abbas (رض) is reported to have said regarding Verse 13 كَأَيِّن مِّن قَرْ‌يَةٍ “ And how many a city ... have We destroyed!,...|" that it was revealed in Makkah, because it was revealed at a time when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) left Makkah with the intention of migration, and looked at the sacred city of Makkah and the Holy Ka&bah and said: |"You are the dearest of all cities to me in the world. Had it not been for Makkans driving me out from this place, I would never have given up this Holy City.|" According to the technical parlance of the Qur&anic commentators, verses revealed in the course of migration from Makkah to Madinah are regarded as Makki. In sum, the Surah was revealed immediately after migration to Madinah, reaching shere, ordinances relating to jihad and war with infidels were revealed. In the phrase صَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّـهِ |"prevented (others) from Allah&s way|" (47:1), |"Allah&s way|" refers to Islam. The phrase أَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ |"He (Allah) has rendered their deeds vain|" (47:1) includes actions which are good in themselves, as for instance, helping and assisting the destitute, supporting and protecting the neighbours, generosity, charity and other good deeds. These deeds are, though, good and righteous in themselves, in the Hereafter they will yield benefit only if blessed with faith, because faith is a necessary condition for the credibility of good actions. Thus these righteous deeds will be of no use to the infidels in the Hereafter. The disbelievers take their comfort in this worldly life as a reward of their good deeds. In the Hereafter they will be punished with Hell-fire.

خلاصہ تفسیر جو لوگ ( خود بھی) کافر ہوئے اور (دوسروں کو بھی) اللہ کے راستہ سے روکا (جیسا رؤسائے کفار کی عادت تھی کہ جان و مال سے ہر طرح کی کوشش اسلام کا راستہ روکنے میں کرتے تھے سو) خدا نے ان کے عمل کالعدم کردیئے (یعنی جن کاموں کو وہ نیک سمجھ رہے ہیں بوجہ عدم ایمان کے وہ مقبول نہیں بلکہ ان میں سے بعضے کام اور الٹے موجب عتاب ہیں جیسے اللہ کے راستے پر چلنے سے روکنے میں خرچ کرنا، کما قال تعالیٰ (آیت) فسینفقونھا ثم تکون علیھم حسرة الخ) اور (برخلاف ان کے) جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے اور (ان کے ایمان کی کیفیت تفصیلی یہ ہے کہ) وہ اس سب پر ایمان لائے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا ہے اور وہ ( جو نازل کیا گیا ہے وہ) ان کے رب کے پاس سے (آیا ہوا) امر واقعی (بھی) ہے (جس کا ماننا ہے بھی ضروری سو) اللہ تعالیٰ ان کے گناہ ان پر سے اتارے گا (یعنی معاف کر دے گا) اور (دونوں جہان میں) ان کی حالت درست رکھے گا (دنیا میں تو اس طرح کہ ان کو اعمال صالحہ کی توفیق بڑھتی جاوے گی اور آخرت میں اس طرح کہ ان کو عذاب سے نجات اور جنت میں داخلہ ملے گا اور) یہ (جو مومنین کی خوشحالی اور کفار کی بدحالی بیان کی گئی) اس وجہ سے ہے کہ کافر تو غلط راستہ پر چلے اور اہل ایمان صحیح راستہ پر چلے جو ان کے رب کی طرف سے (آیا) ہے، (اور غلط راستہ کا موجب ناکامی ہونا اور صحیح راستہ کا سبب کامیابی ہونا ظاہر ہے اس لئے وہ ناکام ہوئے اور یہ کامیاب ہوئے اور اگر اسلام کے صحیح راستہ ہونے میں کوئی شبہ ہو تو من ربہم سے اس کا جواب ہوگیا کہ دلیل اس کی صحیح ہونے کی یہ ہے کہ وہ من جانب اللہ ہے اور من جانب اللہ ہونا تمام معجزات نبویہ سے بالخصوص اعجاز قرآنی سے ثابت ہے اور) اللہ تعالیٰ اسی طرح (جیسے یہ حالت بیان فرمائی) لوگوں کے (نفع و ہدایت کے) لئے ان (مذکورین) کے حالات بیان فرماتا (تاکہ ترغیب و ترہیب کے دونوں طریقوں سے ہدایت کی جائے) معارف و مسائل سورة محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دوسرا نام سورة قتال بھی ہے کیونکہ جہاد و قتال کے احکام اس میں بیان ہوئے ہیں۔ ہجرت مدینہ کے فوراً بعد ہی یہ سورت نازل ہوئی یہاں تک کہ اس کی ایک (آیت) وکاین من قریة کے متعلق حضرت ابن عباس سے یہ منقول ہے کہ وہ مکی آیت ہے کیونکہ اس کا نزول اس وقت ہوا ہے جبکہ آپ ہجرت کی نیت سے مکہ معظمہ سے نکلے اور مکہ مکرمہ کی بستی اور بیت اللہ پر نظر کر کے آپ نے فرمایا کہ ساری دنیا کے شہروں میں مجھے تو ہی محبوب ہے اگر اہل مکہ مجھے یہاں سے نہ نکالتے تو میں خود اپنے اختیار سے مکہ مکرمہ کو نہ چھوڑتا، اور اصطلاح مفسرین کی مطابق جو آیات سفر ہجرت مدینہ کے دوران میں نازل ہوئی ہیں وہ مکی کہلاتی ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ سورت ہجرت مدینہ کے فوراً بعد نازل ہوئی ہے اور یہیں پہنچ کر کفار سے جہاد و قتال کے احکام نازل ہوئے ہیں (آیت) وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ، سبیل اللہ سے مراد اسلام ہے اَضَلَّ اَعْمَالَهُمْ میں ان کفار کے وہ اعمال مراد ہیں جو فی نفسہ نیک کام ہیں جیسے مساکین کی امداد و اعانت، پڑوسی کی حمایت و حفاظت، سخاوت اور صدقہ خیرات وغیرہ کہ یہ اعمال اگرچہ اپنی ذات میں نیک اور اچھے عمل ہیں لیکن آخرت میں ان کا فائدہ ایمان لانے کے ساتھ مشروط ہے کافروں کے ایسے نیک اعمال آخرت میں ان کے کچھ کام نہ آئیں گے البتہ دنیا میں ہی ان کو ان کے نیک کاموں کے بدلے میں راحت و آرام دے دیا جاتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللہِ اَضَلَّ اَعْمَالَہُمْ۝ ١ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ صدد الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] ( ص د د ) الصدود والصد ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جن لوگوں نے رسول اکرم اور قرآن کریم کا خود بھی انکار کیا یعنی عتبہ، شیبہ، بنیہ بن حجاج، ابو البختری بن ہشام اور ابو جہل وغیرہ اور دوسروں کو بھی حق تعالیٰ کے دین اور اس کی پیروی سے روکا ان کے تمام اعمال اور خرچے بدر کے دن ضائع کردیے گئے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١ { اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَضَلَّ اَعْمَالَہُمْ } ” جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستے سے روکا (اور خود بھی رکے) اللہ نے ان کی ساری جدوجہد کو رائیگاں کردیا۔ “ صَدَّ یَـصُدُّ کے بارے میں قبل ازیں بھی وضاحت کی جا چکی ہے کہ یہ فعل لازم بھی ہے اور متعدی بھی۔ یعنی اس کے معنی خود رکنے اور باز رہنے کے بھی ہیں اور دوسرے کو روکنے کے بھی۔ یہ آیت اپنے مفہوم میں اہل ِایمان کے لیے ایک بہت بڑی خوش خبری ہے کہ دعوت حق کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے اب تک مخالفین حق نے جو جدوجہد بھی کی ہے وہ سب اکارت ہوچکی ہے اور تمام تر مخالفتوں کے باوجود انقلابِ نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قافلہ عنقریب اپنی منزل مقصود پر خیمہ زن ہونے والا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1. Those who disbelieved: Those who refused to accept the teachings and guidance presented by Muhammad (peace be upon him). 2. The verb sadd (from which saddu of the original is derived) is used both as a transitive and as an intransitive verb in Arabic. Therefore, the sentence would mean “they themselves refrained from adopting Allah’s Way” as well as “they prevented others from adopting this way.” There are several ways of preventing others from adopting Allah’s Way: (1) That one should forcibly prevent another from believing. (2) That one should so persecute the believers that it should become difficult for them to remain steadfast on the faith and for others to embrace the faith in view of the dreadful conditions. (3) That one should mislead the people against the religion and its followers in different ways and create doubts in the hearts so that the people may become suspicious of the religion itself. Besides, every disbeliever prevents others from the way of Allah in the sense that he brings up his children on the way of disbelief, and then it becomes difficult for his future generation to give up the ancestral faith and accept Islam. Likewise, every unbelieving society is an obstruction to the Way of Allah, for it creates obstacles in the way of the progress of the faith by its system of education and training, its government and its customs and prejudices. 3. The words adalla aamala-hum (led their deeds astray, let them go to waste) are very comprehensive in meaning. Their one meaning is: Allah deprived them of the grace that their efforts and their labors should be spent in the right way. Now, whatever they do, they will do that for wrong aims and objects in wrong ways. All their endeavors will be directed to the way of error and deviation instead of guidance. Their second meaning is: The works that they have been performing as pious deeds, e.g. guardianship of the Kabah, entertaining the guests, treating the kindred well and such other works, which are counted among religious services and noble actions morally, were rendered fruitless by Allah. They will get no reward for them, for when they refuse to accept Tauhid and to adopt the way of Allah’s service and worship and also stop others from adopting Islam, none of their works can be acceptable to Allah. The third meaning is Allah rendered fruitless and vain the efforts they were making to obstruct the way of the truth and to keep their creed of disbelief alive in Arabia as against the Prophet Muhammad (peace be upon him). All their designs and endeavors now are aimless, they will never attain their goals by these designs.

سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :1 1 ۔ یعنی اس تعلیم و ہدایت کو ماننے سے انکار کر دیا جسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیش فرما رہے تھے ۔ سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :2 2 ۔ اصل میں صَدُّوْا عَنْ سَبِیلِ اللہِ کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں ۔ صَدّ عربی زبان میں لازم اور متعدی ، دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ۔ اس لیے ان الفاظ کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ خود اللہ کے راستے پر آنے سے باز رہے ، اور یہ بھی کہ انہوں نے دوسروں کو اس راہ پر آنے سے روکا ۔ دوسروں کو خدا کی راہ سے روکنے کی بہت سی صورتیں ہیں ۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی زبردستی کسی کو ایمان لانے سے روک دے ۔ دوسری صورت یہ کہ وہ ایمان لانے والوں پر ایسا ظلم و ستم ڈھائے کہ ان کے لیے ایمان پر قائم رہنا اور دوسروں کے لیے ایسے خوفناک حالات میں ایمان لانا مشکل ہو جائے ۔ تیسری صورت یہ کہ وہ مختلف طریقوں سے دین اور اہل دین کے خلاف لوگوں کو ورغلائے اور ایسے وسوسے دلوں میں ڈالے جس سے لوگ اس دین سے بدگمان ہو جائیں ۔ اس کے علاوہ ہر کافر اس معنی میں خدا کی راہ سے روکنے والا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو کفر کے طریقے پر پرورش کرتا ہے اور پھر اس کی آئندہ نسل کے لیے دین آبائی کو چھوڑ کر اسلام قبول کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح ہر کافر معاشرہ خدا کے راستے میں ایک سنگ گراں ہے ، کیونکہ وہ اپنی تعلیم و تربیت سے ، اپنے اجتماعی نظام اور رسم و رواج سے ، اور اپنے تعصبات سے دین حق کے پھیلنے میں شدید رکاوٹیں ڈالتا ہے ۔ سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :3 3 ۔ اصل الفاظ ہیں اَضَلَّ اَعْمَالَہُمْ ۔ ان کے اعمال کو بھٹکا دیا ۔ گمراہ کر دیا ۔ ضائع کر دیا ۔ یہ الفاظ بڑے وسیع مفہوم کے حامل ہیں ۔ ان کا ایک مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان سے یہ توفیق سلب کر لی کہ ان کی کوششیں اور محنتیں صحیح راستے میں صرف ہوں ۔ اب وہ جو کچھ بھی کریں گے غلط مقاصد کے لیے غلط طریقوں ہی سے کریں گے ، اور ان کی تمام سعی و جہد ہدایت کے بجائے ضلالت ہی کی راہ میں صرف ہوگی ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو کام اپنے نزدیک وہ خیر کے کام سمجھ کر کرتے رہے ہیں ، مثلا خانۂ کعبہ کی نگہبانی ، حاجیوں کی خدمت ، مہمانوں کی ضیافت ، رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی ، اور ایسے ہی دوسرے کام جنہیں عرب میں مذہبی خدمات اور مکارم اخلاق میں شمار کیا جاتا تھا ۔ اللہ تعالی نے ان سب کو ضائع کر دیا ۔ ان کا کوئی اجر و ثواب ان کو نہ ملے گا ، کیونکہ جب وہ اللہ کی توحید اور صرف اسی کی عبادت کا طریقہ اختیار کرنے سے انکار کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس راہ پر آنے سے روکتے ہیں تو ان کا کوئی عمل بھی اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہو سکتا ۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ راہ حق کو روکنے اور اپنے کافرانہ مذہب کو عرب میں زندہ رکھنے کے لیے جو کوششیں وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے میں کر رہے ہیں ، اللہ نے ان کو رائیگاں کر دیا ۔ ان کی ساری تدبیریں اب محض ایک تیر بے ہدف ہیں ۔ ان تدبیروں سے وہ اپنے مقصد کو ہرگز نہ پہنچ سکیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: کافر لوگ جو کوئی اچھے کام دنیا میں کرتے ہیں، جیسے غریبوں کی امداد وغیرہ، اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ انہیں دنیا ہی میں دے دیتے ہیں، لیکن آخرت میں ثواب حاصل کرنے کے لئے ایمان شرط ہے، اس لئے آخرت کے لحاظ سے وہ اعمال اکارت چلے جاتے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ٣۔ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی عبادت میں غیروں کو شریک کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اللہ کی وحدانیت کے راستہ سے روکتے ہیں وہ مثلاً رشتہ داروں کے ساتھ سلوک یا حاجیوں کو پانی پلانا یا اور بعض ایسے نیک کام جو دنیا کی رسم کے طور پر کرتے ہیں عقبیٰ کے اجر کے لحاظ سے ایسے لوگوں کے وہ سب نیک عمل رائیگاں ہیں کیونکہ قیامت اور عقبیٰ کے اجر کے یہ لوگ قائل نہیں ہیں اس لئے ان کے جو نیک عمل ہیں وہ فقط دنیا کی رسم کے طور پر ہیں جو بارگاہ الٰہی میں قبول ہونے اور عقبیٰ کے اجر کے قائل نہیں ہیں۔ صحیح بخاری ٢ ؎ و مسلم میں حضرت عمر (رض) کی مشہور حدیث ہے۔ جس میں اللہ کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شریعت کے ہر کام میں نیت معتبر ہے نیت دل کے ارادہ کا نام ہے مشرک کے دلی ارادہ میں نیک عمل کرتے وقت اللہ کی توحید نہیں ہوتی اس لئے نہ مشرک شخص اللہ کی شان کو پہچان سکتا ہے نہ خالص اللہ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے اس کا کوئی نیک کام ہوتا ہے بلکہ شرک میں گرفتار ہونے کے سبب سے ایسے لوگ جو کچھ کرتے ہیں وہ شیطان کے بہکانے سے کرتے ہیں جو بارگاہ الٰہی میں کسی طرح قبول ہونے کے قابل نہیں حاصل کلام یہ ہے کہ مشرکین مکہ نہ اللہ تعالیٰ کی شان پہچانتے تھے نہ عقبیٰ کے اجر کے قائل تھے اسی واسطے فرمایا ایسے لوگ شرک اور انکار حشر کے سبب سے کسی نیک عمل کا اجر عقبیٰ میں نہیں پاسکتے آگے ان مشرکوں کے مقابلہ میں ان لوگوں کا ذکر فرمایا جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اللہ کے کلام اللہ کے رسول اور عقبیٰ کی سزا و جزا کو مانتے ہیں تو ان کے نیک عمل اللہ کی بارگاہ میں ایسے مقبول ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو نیک عملوں کے طفیل سے ان کے گناہوں کو معاف فرما کر ہمیشہ نیک کاموں میں لگے رہنے کی ان کو توفیق دیتا ہے صحیح مسلم کے ١ ؎ کے حوالہ سے عمرو (رض) بن اعلاص کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ جو شخص شرک سے باز آ کر دائرہ اسلام میں داخل ہو اس کے اسلام سے پہلے کے کبیرہ صغیرہ سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ صحیح بخاری ٢ ؎ و مسلم میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس طرح کسی شخص کے دروازہ پر نہر ہو اور وہ دن میں پانچ دفعہ نہائے تو اس کے بدن پر کچھ میل نہیں رہتا اسی طرح پانچوں وقت کی نمازوں سے صغیرہ گناہ باقی نہیں رہتے صحیح بخاری ٣ ؎ و مسلم میں ابوہریرہ کی دوسری حدیث ہے جس میں خالص دل کی توبہ سے کبیرہ گناہوں کے معاف ہوجانے کا ذکر ہے حاصل کلام یہ ہے کہ آیتوں میں ایمان اور نیک عملوں کے بعد گناہوں کے معاف ہوجانے کا ذکر ہے اس کی تفسیر ان حدیثوں سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص شرک سے باز آ کر دائرہ اسلام میں داخل ہو اس کے اسلام سے پہلے کے صغیرہ کبیرہ سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور اسلام کے بعد صغیرہ گناہوں کے معافی کے لئے نماز روزہ کی پابندی کافی ہے اور کبیرہ گناہوں کی معافی کے لئے خالص دل کی توبہ ضرور ہے آگے فرمایا کہ منکر شریعت لوگوں کے نیک عملوں کا رائیگاں جانا اور ایماندار لوگوں کے نیک عملوں کے طفیل سے ان کے گناہوں کا معاف ہونا اس سبب سے ہے کہ منکر شریعت لوگ شیطان کے کہنے پر چلتے ہیں اور ایماندار لوگ اللہ کے حکم پر چلتے ہیں پھر فرمایا اللہ تعالیٰ یوں مثالیں بیان کرکے لوگوں کو سمجھاتا ہے تاکہ لوگ اپنے بھلے برے کو سمجھیں۔ (٢ ؎ صحیح بخاری باب کیف کان بدء الوحی الخ ص ٢ ج ١۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم باب کون الاسلام یھدم ما قبلہ الخ ص ٧٦ ج ١۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری باب الصلوۃ الخمس کفارۃ الخ ص ٧٦ ج ١۔ ) (٣ ؎ صحیح مسلم باب قبول التوبۃ من الذنوب ص ٢٣٥٧ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(47:1) الذین : اسم موصول جمع مذکر : کفروا وصدوا عن سبیل اللہ صلہ۔ وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا۔ وصدوا وائو عاطفہ ہے صدوا ماضی جمع مذکر غائب۔ صدو صدود (باب نصر ) مصدر بمعنی روکنا۔ اور صد کا مفعول محذوف ہے ای غیرہم اور دوسروں کو (خدا کے راستہ سے ) روکا۔ اضل اعمالہم۔ ای اضل اللہ اعمالہم اضل ماضی واحد مذکر غائب اس نے برباد کردیا۔ اس نے گمراہ کردیا۔ اس نے بہکایا۔ اعمالہم مضاف مضاف الیہ مل کر اضل کا مفعول ۔ اس (اللہ ) نے ان کے اعمال کو برباد کردیا۔ الذین کفروا ۔۔ مبتدا۔ اضل اعمالہم خبر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی کافر رہتے ہوئے ان لوگوں نے جو بظاہر اچھے کام کئے ہیں جیسے صدقہ و خیرات، خانہ کعبہ کی مرمت وغیرہ ان پر اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کو کوئی اجر نہیں ملے گا کیونکہ ایمان کے بغیر کسی عمل کی کوئی قیمت نہیں۔ کافروں کے کام اکارت کردینے کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے وہ تمام مکروہ فریب ناکام کردیئے جو وہ اسلام کو سچا دکھانے کے لئے کام میں لاتے تھے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ١ تا ١١۔ اسرار ومعارف۔ کہ جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور دوسروں کو بھی اسلام سے روکنے کی کوشش میں لگے رہے ان سے اگر بھلائی کا کام ہوا تو بھی آخرت میں اکارت گیا کہ آخرت پر تو ایمان ہی تھا نہ آخرت کے لیے عمل کیا تھا ہاں جو لوگ ایمان لائے اور اپنے اعمال بھی ایمان کے مطابق درست کرلیے اور جو کچھ بھی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ان کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا اسے قبول کرلیا یعنی آپ کی تمام تعلیمات کو صدق دل سے قبول کرنا شرط ایمان ہے ان لوگوں کی خطائیں جو بتقاضائے بشریت ہوسکتی ہیں یا ایمان لانے سے پہلے تھیں معاف کردیں گے اور ان کا ظاہر و باطن سنوار دیں گے ان کی ظاہری زندگی بھی خوبصورت ہوگی اور قلبی کیفیات بھی شاندار یہ سب اس لیے کہ کفار کی طرف سے نازل ہونے والے حق کا اتباع اختیار کیا لہذا اس کا انجام انعامات ہوئے اور اس طرح کی مثالیں اللہ لوگوں کی ہدایت ک لیے بیان فرماتے ہیں جبکہ کفار ومومنین دوقومیں ہیں جو دوراستوں پر گامزن ہیں اور کفار اسلام کی راہ روکنے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو اگر ایسا ہوا اور مقابلہ ہوجائے کہ مسلمان اسلام کو پھیلانے کی سعی کرتا ہے تو خوب جم کر لڑو اور انہیں بےدریغ قتل کر وہاں انہیں جب شکست ہوجائے تو پھر جو قابو آجائیں انہیں قید کرلو یعنی مقصد بندے مارنا نہیں بلکہ کفار کو اس بات سے روکنا ہے کہ وہ کفر پھیلا کر اسلام کا راستہ روکیں ۔ اس کے بعد تمہیں اختیار ہے کہ احسان کرکے قیدیوں کو چھوڑ دو فدیہ لے کر آزاد کردو اور اگر ہتھیار ڈال دیں مسلمان ہوکریاجذبہ دینا قبول کرلے توقتال نہ ہوگا۔ جنگی قیدیوں کے بارے میں امام المسلمین کا اختیار۔ جنگی قیدیوں کے بارے سورة انفال میں بدر کے قیدیوں کے بارے اور اس سورة کی آیات سے علماء تفسیر نے تمام بحثوں کا حاصل یہ لکھا ہے کہ وقت کا تقاضا اور مسلمانوں کی مصلحت کو سامنے رکھ کر حاکم کو اختیار ہے کہ انہیں قتل کردے یا غلام بنالیاجائے تیسرے یہ کہ معاوضہ لے کر آزاد کردیاجائے یا ان پر احسان کرکے انہیں آزاد کردے یہ فیصلہ موقع کے مطابق ہوگا عہد نبوری سے خلفائے راشدین تک ان چاروں فیصلوں پر حالات کے مطابق عمل کیا گیا ۔ اسلام اور غلامی۔ غلام کا لفظ جب آتا ہے تو اہل مغرب کو وہ غلام نظر آتے ہیں جو انگریزوں نے افریقہ سے پکڑ کر زنجیریں اور بیڑیاں ڈال کر جہازوں میں جانوروں کی طرح بھر کر امریکہ میں جاکرفروخت کیے جبکہ اسلام میں غلام وکوصرف آزادی سلب کرکے اس قدر حقوق دیے گئے کہ غلامی بھائی چارے کی صورت اختیار کرگئی ان کو آزاد کرنے کی فضیلت اس قدر بیان کی گئی کہ بیشمار غلام لوگوں نے آزاد کیے کمالات کی راہ ان پر کھلی رکھی تئی تو مشہور علماء حق اور امام انہیں میں سے ہوئے حتی کہ غلامی سے لوگ حکمرانی تک بھی پہنچے لہذا اسلام میں غلامی کو اہل مغرب کی غلامی سمجھنا درست نہیں بلکہ وقت کے تقاضوں کے مطابق بہترین صورت حال ہے ورنہ اللہ چاہتا تو ان سے بدلہ لیتا یعنی قتل کے علاوہ اور ان پر عذاب نازل کرنے کے علاوہ کوئی راہ نہ چھوڑتا مگر اس سے جنگ تک ہمیشہ کے لیے ختم فرما کر جہاد کا حکم دیا جو اس کی بہت بڑی رعایت ہے کہ آپ سے پہلے کفار ہمیشہ تباہ ہوا کرتے تھے جنگ اور جہاد۔ اور جنگ بھی عذاب الٰہی کا ایک نمونہ ہے مگر جہاد لوگوں کو مارنے کے لیے نہیں بلکہ ظلم سے روکنے کے لیے ہے نیز مومن کے لیے امتحان ہے کہ کون راہ حق میں جان قربان کرنے کو نکلتا ہے اور کافر کے لیے بھی کہ ظلم سے رک کر اسلام قبول کرنے کا موقع ملتا ہے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں کام آجاتے ہیں اور شہید ہوگئے ان کے اعمال ٹھکانے لگ گئے اللہ ان کی یہ محنت ضائع نہ فرمائے گا بلکہ ان کے اعمال سنوار دے گا اور اس جنت میں داخل فرمائے گا ، جن کے بارے انہیں بتایا گیا تھا اے جماعت مومنین اگر تم اللہ کے دین کی مدد میں کمربستہ رہو گے تو اللہ تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔ اللہ کی مدد شرط۔ یہاں کفار کے مقابلے میں اللہ کی مدد جو ہم شب وروز طلب کیا کرتے ہیں کیسے حاصل ہوبتادیا کہ اگر تم اللہ کی مدد کرو گے یعنی دین اسلام جو رسول اللہ کے ارشادات اور لایا ہوا دین اس کی مدد کرو گے کہ خود اس پر عمل کی بھرپور کوشش کرو گے اور دوسروں تک پہنچانے کا پورا اہتمام کروگے تو اللہ کریم تمہاری مدد فرمائیں گے اور تمہیں ثابت قدمی نصیب ہوگی کہ کفار کا سیاسی یامعاشی غلبہ تم پر نہ ہوسکے گا مگر افسوس آج ہم دین سے عملا دور اور کفار کے نقش قدم پر چل کر اللہ سے مدد کی دعا کرتے ہیں اللہ ہمیں سیدھے رست پر چلنے کی توفیق دے۔ رہے کافر تو وہ اپنے کفر کے سبب ہی تباہ ہوگئے اور ان کی ساری محنت جس کی بنیاد کفر پر تھی اکارت گئی ۔ دنیا میں بھی ذلت اور آخرت میں عذاب پایا اس لیے کہ احکام الٰہی سے تو انہیں چڑ تھی لہذا ان سے اگر کوئی بھلائی کا کام صادر ہوا بھی تو وہ ضائع ہوگیا۔ اور یہ نتائج اس قدر واضح ہیں کہ یہ لوگ بھی دنیا میں گھوم پھر کر ظاہرا اپنے سے پہلے کافروں کا انجام اور ان کی بربادی کے نشانات دیکھ سکتے ہیں کہ اللہ نے انہیں کس طرح برباد کردیا اور کافروں کو یہی کچھ تو ملتا ہے اس لیے کہ ایمان داروں کا تو اللہ کارساز ہے ان کی نگہبانی فرماتا ہے جبکہ کفار اس پر ایمان نہ لاکر اس کی نگہبانی سے تو محروم ہوئے اور دوسرا کوئی ایسا ہے نہیں جو ان کی مدد کرسکے۔ صرف اللہ کریم ہی ہیں جو اس روز فیصلہ فرمائیں گے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تشریح آیت نمبر 1 تا 6 اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ کفر و انکار کی روش اختیار کرکے خود کو بھی ہر طرح کی سچائیوں سے دور رہے اور دوسروں کو بی اس راہ حق و صداقت پر چلنے سے روکنے کی جدو جہد اور کوشش کرتے رہے تو اللہ ایسے لوگوں کے تمام وہ اوعمال جنہیں وہ بہت نیک کام سمجھ کر کرتے ہیں ضائع کردے گا۔ وہ اعمال نہ تو دنیا میں کام آئیں گے اور نہ آخرت میں۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جنہوں نے ایمان لا کر عمل صالح اختیار کئے اور نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو کچھ نازل کیا گیا ہے اس کو انہوں نے پوری طرح مانا تو اللہ نہ صرف ان کے گناہوں کو معاف فرمادے گا بلکہ وہ دنیا اور آخرت میں ان کے ہر کام کو درست فرمادے گا جس کے ذریعہ ان کو اعمال صالحہ کی توفیق بھی نصیب ہوتی رہے گی ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ جن لوگوں نے کفر و انکار کیا انہوں نے باطل اور جھوٹ کی پیروی کی اور جن لوگوں نے ایمان کا راستہ اختیار کیا انہوں نے حق و صداقت کا دامن تھام لیا۔ باطل ایک بےحقیقت چیز ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ باطل پر ست نہ صرف ایک فتنہ اور فساد کی جڑ ہے بلکہ وہ انسانیت کے دشمن ہیں۔ ایسے لوگوں کو ختم کردینا اور ان کے خلاف جہاد کرنا ساری انسانیت کو سکون بخشنے کا ذریعہ ہے۔ لہذا جب تک یہ فتنہ دنیا سے مٹ نہ جائے اس وقت تک اس کا پیچھا کیا جائے۔ جب کفار کے دلوں میں اہل ایمان کی دھاک بیتھ جائے اور ان فسادیوں کا زور ٹوٹ جائے تو اس وقت ان کو گرفتار کر کے قیدی بنا لیا جائے لیکن ان قیدیوں کے ساتھ کوئی اس یا معاملہ نہ کیا جائے جو غیر انسانی اور ظالمانہ ہو بلکہ ان کے ساتھ بہترین سلوک کیا جائے تاکہ وہ اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کے اخلاق و کردار کو دیکھ کر ایمان اور سچائی کے راستے پر آسکیں۔ اب ان کفار کو قید کرنے کے بعد مسلمانوں کے امیر اپنی ذھانت اور مصلحت کی بنیاد پر ان کے ساتھ احسان کا معاملہ کر کرے ان کو چھوڑدیں یا فدیہ لے کر آزاد کردیں ۔ جب دشمن اپنے ہتھیار رکھ دے اور جنگ کے جو شعلے بھڑک رہے تھے وہ ٹھنڈے پڑجائیں اور کفار مسلمانوں کی مکمل اطاعت قبو ل کرلیں تو پھر قید و بند سلسلہ بھی ختم کردیا جائے۔ فرمایا کہ وہ لوگ جو اس جہاد میں شہید کردیئے جائیں گے اللہ تعالیٰ ان کی جدو جہد ، کوشش اور نیک اعمال کو ضائع نہ کرے گا بلکہ ان کو راہ ہدایت عطا کر کے ان کے سارے کاموں کو درست فرمادے گا اور ان کو ایسی جنتوں میں داخل فرمائے گا جو ان کے لئے جانی پہچانی جیسی جگہ ہوگی۔ ان آیات کے سلسلہ میں چند ضروری باتیں : الذین کفرو : جنہوں نے کفر اور انکار کیا یعنی وہ لوگ جنہوں نے دین اسلام کی تمام تر سچائیوں کو دیکھ کر محض اپنی ضد ہٹ دھرمی اور رسول دشمنی کی وجہ و سے انکاری کی کو اختیار کرکے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قدر کرنے کی بجائے ان کے خلاف ختم نہ ہونے والی ایسی جنگ چھیڑ دی کہ اس میں سوائے بغض اور حسد کے اور کچھ بھی نظر نہیں آتا ۔ ایسے لوگوں کے لئے فرمایا گیا جب ایسے لوگ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئیں اور جنگ چھیڑ دین تو ان سے لڑکا ان کا زور توڑ ڈالیں تاکہ وہ آئندہ دین اسلام کی دعوت و تبلیغ میں کوئی رکاوٹ نہ ڈال سکیں ۔ وصلو عن سبیل اللہ : اور وہ لوگ اللہ کے راستے سے روکتے ہیں یعنی وہ ظلم و ستم کی انتہا کردیں کہ لوگوں کے لئے ایمان لانا مشکل ہوجائے اور جو ایمان لے آئیں ان کے لئے زمین کو تنگ کردیاجائے اور زبر دستی دین کے راستے سے ان کو روک دیا جائے۔ کفار مکہ اہل ایمان کے خلاف ایسا بھیانک پر پیگنڈا کرتے تھے کہ ایک ناواقف آدمی ان کو دہشت گرد سمجھ کر ان کے قریب آنے سے گھبراتا تھا۔ لوگوں کے دلوں میں بےبنیاد گمانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے تاکہ سننے والوں کو ہر بات الٹی نظر آئے۔ ہمارا موجودہ دور جس میں اسلام دشمنوں کے ہاتھوں میں ایسا میڈیا ہے یعنی ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات جس کے ذریعہ ایک مومن، عالم ، مخلص اور مجاہد کو دنیا کی نظروں میں ذلیل کرنے اور دین کی تعلیمات کے قریب آنے سے روکنے کے لئے دن رات کی طرفہ پروپیگنڈا کرتے ہیں لیکناس وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ کا یہ آخری دین ہے جو اس نے اپنے آخری نبی اور رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا ہے۔ اسی میں ساری دنیا کے دکھوں کا علاج ہے اور اللہ نے اس دین اور عظمت مصطفیٰ کو حفاظت کا وعدہ کیا ہے۔ اگر یہ کفار اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو وہ وقت دور نہیں ہے جب ان پر آسمان سے ایسا قہر اور بلائیں نازل ہوں گی جن کے سامنے دشمنان اسلام بےبس ہو کر رہ جائیں گے۔ چونکہ اب ظلم انتہاؤں سے گذر گیا ہے لہذا یہ کفار اللہ سے معاملہ درست کرلیں گے اور تو بہ کرلیں گے ورنہ یہ دنیا اپنے بھیانک انجام تک پہنچ جائے گی اور چند ذہنی مریضوں اور اقتدار پر ستوں کی وجہ سے ساری دنیا کو عذاب جھیلنا پڑے گا۔ اضل اعمالھمـ: ان کے اعمال ضائع کردیئے جائیں گے یعنی وہ تما کام اور کوشش جنہیں وہ نیک اور بہتر سمجھ کر کررہے ہیں وہ تما کا ایمان نہ لانے کی وجہ سے ضائع اور برباد کردیئے جائیں گے ۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ کفار قریش حج کے موقع پر خانہ کعبہ کی حفاظت اور حجاج کی خدمت کرتے تھے ، مہمانوں کی ٖضیافت ، پانی پلانے کے لئے مشقت ، مسکینوں کی امداد و اعانت ، پڑوسی کی رعایت، اور حفاظت ، سخاوت اور صدقہ خیرات کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بیشک یہ کام بہت اچھے ہیں لیکن جب تک وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان نہ لائیں گے اس وقت تک یہ اعمال سن کے کسی کام نہ آسکی گے بلکہ رسول دشمنی کی وجہ سے ان کے اعمال ضائع کردیئے جائیں گے نہ ان کا فائدہ دنیا میں نصیب ہوگا اور نہ آخرت میں ۔ جب تک وہ اس پر ایمان نہ لائیں گے جو حق و صداقت کی روشنی ہے اور اس کو اللہ اللہ کے اخری نبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر آئے ہیں اس وقت تک ان کی نجات نہیں ہوسکتی۔ اذ ا اثخنتمو ھم : ان آیات میں ایک بہت ہی اہم بات کی طرف متوجہ کیا گیا ہے جس کی تفصیل تو بہت ہے لیکن مختصر بات یہ ہے کہ عربوں میں عام رواج یہ تھا کہ جب ان کی کسی سے جنگ ہوتی تو وہ تما جنگی قیدیوں کو غلام اور ان کی عورتوں کو باندیاں بنا لیا کرتے تھے۔ اور وہ بات میں آزاد تھی کہ وہ ان غلاموں کے ساتھ انسانی یا غیر انسانی جیسا چاہیں سلوک کریں اس میں کسی کو بولنے یا ٹوکنے کا کوئی اختیار نہ تھا لیکن جب کفار سے جنگوں کا آغاز ہوا تو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کو حکم دیا کہ جو لوگ جنگ میں قید ہو کر آئیں ان کے لئے ضروری نہیں کہ ان کو غلام ضرور بنایا جائے۔ بلکہ اگر ضرورت ہو تو جنگی قیدیوں کو غلام بنا کر اہل ایمان میں تقسیم کردینا محتسب ہے لیکن اگر امیر جماعت چاہے تو جنگی قیدیوں پر احسان رکھ کر یا مسلمان جنگی قیدیوں کے بدلے ان جنگی قیدیوں کو رہا کرسکتا ہے دوسری صورت یہ ہے کہ معاوضہ لے کر ان کو آزاد کردیا جائے خواہ وہ مالی معاوضہ ہو یا کسی قسم کی خدمت ہو۔ قرآن کریم نے اسلامی سلطنت کو کسی خاص اصول کا پابند نہیں کیا ہے۔ البتہ اگر امیر سلطنت جنگی قیدیوں کو غلام بنانا چاہے اور ان کو مسلمانوں میں تقسیم کردینا چاہے تو اس کو اس بات کی اجازت ہے لیکن کسی شخص کو اس بات کی قطعاً اجازت نہیں ہے کہ وہ ان غلاموں سے غیر انسانی اور ظلم وجبر کا کوئی معاملہ کرے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفاء راشدین اور ان کے بعد تمام صحابہ کرام نے اسی اصول کی پابندی کی ہے۔ چناچہ اسلامی تعلیمات اس بات کی گواہ ہیں کہ اس نے غلاموں کو نہ صرف تمام حقوق دیئے ہیں بلکہ غلاموں کے تمام حقوق کی ہمیشہ پاس داری کی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ غلام تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ نے تمہارے ماتحت کردیا ہے ۔ لہذا جس کا بھائی اس کے ہاتھ کے نیچے ہو اس کو چاہیے کہ وہ اس کو وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے ، اسے وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے اور اس کو اسیے کام کی زحمت نہ دے جو اس کے لئے ناقابل برداشت ہو اور اگر کوئی ایسا سخت کام ہو تو وہ خود بھی اس غلام کی مدد کرے۔ (بخاری ۔ مسلم ۔ ابو دائود) ایک حدیث میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر نے اپنے غلام کو تھپر مار دیا تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ اسے آزاد کردے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ کی زبان مبارک پر عین اس وقت کہ جب آپ اس دنیا سے تشریف لے جارہے تھے یہ الفاظ تھے ” الصلۃ ، الصلوۃ ، اتقو اللہ فیما ملکت ایمانکم “ نماز کا خیال رکھو ، نماز کا خیال رکھو اور اپنے ما تحت غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ (ابو دائود) اسی طرح کے بیشمار احادیث کے علاوہ قرآن کریم نے غلاموں کو آزاد کرنے کی تر غیب دیتے ہوئے غلاموں کو آزاد کرنا عبادت بنادیا چناچہ روزے کا کفارہ، قتل کرنے کا کفارہ ، ظہار کا کفارہ اور قسم کا کفارہ یہ بتا یا ہے کہ وہ اپنے غلام آزاد کردیں۔ اسی طرح زکوٰۃ خرچ کرنے کے آٹھ مصارف بیان کئے گئے ہیں ان میں سے ایک مصرف یہ ہے کہ غلاموں کی گردنیں چھڑائی جائیں۔ قرآن کریم اور احدیث کے ان کے ارشادات نے اہل ایمان کو اس بات کی طرف آمادہ کردیا کہ سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ کسی غلام کو آزاد کردیا جائے ۔ چناچہ صحابہ کرام (رض) نے اس کثرت سے غلام آزاد کئے ہیں جن کی مثا ل ساری دنیا کی تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔ ٭ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ نے ستر غلام آزاد کئے ٭حضرت عثمان غنی (رض) نے بیس غلام آزاد کئے ٭ حضرت عباس (رض) نے ستر غلام آزاد کئے ٭ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) نے ایک ہزار غلام آزاد کئے ٭حضرت ذو الکلاع نے آٹھ ہزار غلام آزاد کئے (صرف ایک دن میں ) ٭ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے تیس ہزار غلام آزاد کئے (فتح العلوم ) اگر صحابہ کرام ، تابعین اور ان کے بعد کے حضرات کی یہ تفصیل بیان کی جائے کہ انہوں نے کتنے کتنے غلام آزاد کئے تھے تو شاید ایک کتاب بن جائے۔ لہذا یہ کہنا بالکل برحق ہے کہ اللہ کے حکم اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات نہ ہوتے تو شاید دنیا سے کبھی غلامی ختم نہ ہوتی۔ ہمارے دور میں کسی کو غلام نہ بنایا یہ بھی اسلام ہی کا فیض ہے کیونکہ شریعت نے یہ اصول متعین کردیا ہے کہ اگر دو قوموں کے درمیان یہ معاہدہ ہوجائے کہ نہ وہ ہمارے جنگی قیدیوں کو غلام بنائیں اور نہ ہم ان کے قیدیوں کو تو پھر اس معاہدہ کی پابندی ضروری ہوگی اور اگر ان دونوں میں جنگ ہوجائے تو کوئی بھی کسی جنگی قیدی کو غلام نہیں بنائے گا۔ الذین قتلو فی سبیل اللہ : جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کے نہ صرف یہ کہ ان کے اعمال ضائع نہ ہوں گے بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے تمام حالات کو درست فرمادے گا۔ ید خلھم الجنۃ عر فھا لھم : وہ اللہ ان کو ایسی جنت میں داخل کرادے گا ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جسنے مجھے دین حق دے کر بھیجا کہ تم دنیا میں جس طرح اپنے بیوی بچوں اور گھروں کے پہنچانتے ہو اور ان سے انسیت و محبت محسوس کرتے ہو اس سے بھی زیادہ وہ جنت کی حوروں سے انسیت محسوس کروگے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی جن کاموں کو وہ نیک سمجھ رہے تھے بوجہ عدم ایمان کے وہ مقبول نہیں بلکہ ان میں سے بعضے کام اور الٹے موجب عقاب ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورت : الاحقاف کے آخر میں ارشاد ہوا کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! پہلے رسولوں کی طرح صبر کریں، وقت آنے والا ہے کہ یہ لوگ اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے تو اس قدر بد حواس ہوں گے کہ یہ کہیں گے کہ ہم دنیا میں چند گھڑیوں سے زیادہ نہیں ٹھہرے تھے سورة محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ یہ دنیا میں بھی ہلاکت کے گھڑے میں گرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں مسلمانوں کے ہاتھوں ذلیل کرے گا اور ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اس سورت میں کفار، منافقین اور مسلمانوں کے اعمال اور ان کے ا نجام کا موازنہ پیش کیا گیا ہے۔ ہوا یہ کہ اعلان نبوت کے بعد کفار اور مشرکین نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کو انتہائی اختلاف کا باعث سمجھتے تھے۔ اس کشمکش میں یہ سورت نازل ہوئی، اس کا نام آپ کے اسم مبارک پر رکھا گیا تاکہ کفار اور منافقین کو معلوم ہو کہ جس ذات اقدس کو وہ باعث اختلاف سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس ہستی اور اس کے ساتھیوں کو دنیا اور آخرت میں کیا مقام بخشا ہے۔ سورت کی ابتدا کفار کے رویے سے کی گئی ہے۔ کفار نے نہ صرف خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور دعوت کا انکار کیا بلکہ انہوں نے لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگادیا تھا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس لیے مبعوث فرمایا کہ دنیا کے باطل ادیان اور غلط نظریات پر اللہ کا دین غالب رہے اس لیے اس نے کفار کی کوششوں اور سازشوں کو ناکام کردیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالف نہ صرف دنیا میں ناکام ہوئے بلکہ آخرت میں بھی ذلیل ہوں گے۔ انہوں نے جو رفاہ عامہ اور اپنے دل کی تسکین کے لیے اچھے کام کیے ان کے کفر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں بھی ضائع کر دے گا۔ یعنی ان کے کسی اچھے کام کا بھی انہیں اجر نہیں دیا جائے گا۔ کیونکہ جس ذات کبریا نے انہیں اجر عطا کرنا ہے یہ اس کی ذات اور صفات کا انکار کرتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ اچھے اعمال کے اجر سے محر وم رہیں گے۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ پہلی کتابوں پر ایمان لائے اور صالح اعمال کرتے رہے اور اس حق پر بھی ایمان لائے جو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آپ کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا اور نیک عمل کرتے رہے اللہ تعالیٰ ان کے ایمان اور صالح اعمال کی وجہ سے ان کی بشری کمزوریوں کو دور کرے گا اور ان کے اعمال کی اصلاح فرمائے گا۔ بشری کمزوریوں کو دور کرنا اور ان کی اصلاح فرمانے سے مراد دنیا میں ان کے اعمال کی درستگی اور ان کی کمزوریوں کی تلافی کرنا ہے۔ اسی بنا پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی دنیا میں مثالی مسلمان بنے اور زندگی کے ہر محاذ پر کامیاب رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی خطاؤں کو معاف کردیا ہے اور انہیں قیامت کے دن جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے گا۔ اس آیت میں ” اٰمَنُوْا “ کا لفظ دو دفعہ استعمال ہوا ہے۔ دوسری دفعہ ” اٰمَنُوْا “ استعمال کرنے کا مقصد یہ ہے کہ صرف قرآن مجید پر ایمان نہیں لانا بلکہ حدیث کی صورت میں جو کچھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا ہے۔ اس پر بھی ایمان لانا ہے اس لیے ایمان لانے والے کا یہ بھی یقین ہونا چاہیے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن مجید کے علاوہ جو کچھ فرمایا ہے وہ بھی آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل ہوا ہے۔ اکثر اہل تفسیر نے اس کا مفہوم یہ لیا ہے کہ دوسری دفعہ ” اٰمَنُوْا “ کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ یہود و نصاریٰ سمجھتے تھے کہ ہم اللہ اور انبیاء کرام (علیہ السلام) پر ایمان رکھتے ہیں اس لیے ہم صاحب ایمان ہیں۔ ان کے دعویٰ کی تردید کے لیے یہ وضاحت کردی گئی کہ جو شخص حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائے گا اس کا ایمان قابل قبول نہیں ہوگا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) روایت کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین آدمیوں کے لیے دو گنا اجر ہوگا۔ (١) اہل کتاب میں وہ شخص جو پہلے اپنے نبی پر ایمان رکھتا تھا اب مجھ پر ایمان لے آیا۔ (٢) وہ غلام جو اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ اپنے مالک کے حقوق ادا کرتا ہے۔ (٣) جس شخص کے پاس لونڈی ہو اور وہ اس سے صحبت کرتا ہو۔ تو اس نے اس کی تعلیم و تربیت کا بہترین خیال رکھا اس کے بعد اسے آزاد کر کے اسے اپنے نکاح میں لے لیا۔ اس کے لیے بھی دو گنا ثواب ہے۔ (رواہ البخاری : باب تعلیم الرجل أمتہ وأہلہ) (عَنْ عَاءِشَۃ قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابْنُ جُدْعَانَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ فَہَلْ ذَاکَ نَافِعُہٗ قَالَ لَا یَنْفَعُہٗ إِنَّہُ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا رَبِ اغْفِرْلِیْ خَطِیْءَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِ ) (رواہ مسلم : باب الدلیل علی من مات علی الکفر لاینفعہ عمل) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ ابن جدعان جاہلیت میں صلہ رحمی اور مساکین کو کھانا کھلایا کرتا تھا کیا اسے یہ کام نفع دیں گے ؟ آپ نے فرمایا نہیں کیونکہ اس نے ایک دن بھی یہ نہیں کہا کہ اے میرے رب ! قیامت کے دن میری خطاؤں کو معاف فرمادینا۔ (یعنی اس کا اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں تھا۔ “ ) (عَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِےَدِہٖ لَا ےَسْمَعُ بِیْ اَحَدٌمِّنْ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ ےَھُوْدِیٌّ وَلَا نَصْرَانِیٌّ ثُمَّ ےَمُوْتُ وَلَمْ ےُؤْمِنْ بالَّذِیْ اُرْسِلْتُ بِہٖ اِلَّا کَانَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ ) (رواہ المسلم : باب وُجُوبِ الإِیمَانِ بِرِسَالَۃِ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَی جَمِیع النَّاسِ وَنَسْخِ الْمِلَلِ بِمِلَّتِہِ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ذکر کرتے ہیں اس ذات کبریا کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس امت میں جس یہودی یا عیسائی کو میری نبوت کی اطلاع ہوجائے۔ پھر جو کچھ مجھ پر نازل ہوا ہے وہ اس پر ایمان لائے بغیر مرجائے وہ ضرور جہنم میں داخل ہوگا۔ “ مسائل ١۔ قیامت کے دن کفر کرنے والوں کے اعمال ضائع کردیئے جائیں گے۔ ٢۔ جو لوگ دوسروں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں ان کے اعمال برباد کردیے جائیں گے۔ ٣۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اللہ تعالیٰ ان کی غلطیوں کو دور فرمائیں گے اور ان کے احوال کی اصلاح کردیں گے۔ ٤۔ ایمان لانے والوں کے لیے ضروری ہے کہ جو کچھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا ہے وہ اس پر بھی ایمان لائیں۔ تفسیر بالقرآن کفار کے اعمال ضائع کردیئے جائیں گے اور مومنوں کو ان کے ایمان اور اعمال کی جزا دی جائے گی : ١۔ آخرت کا انکار کرنے والوں کے اعمال ضائع ہوجا تے ہیں۔ (الاعراف : ١٤٧) ٢۔ مشرکین کے اعمال ضائع کردئیے جائیں گے۔ (التوبہ : ١٧) ٣۔ ایمان کے ساتھ کفر اختیار کرنے والوں کے اعمال ضائع کر دئیے جاتے ہیں۔ (المائدۃ : ٥) ٤۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت نہ کرنے والوں کے اعمال برباد کردئیے جاتے ہیں۔ (محمد : ٣٣) ٥۔ وہ لوگ جو اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں ان کے اعمال غارت کر دئیے جائیں گے۔ (آل عمران : ٢١۔ ٢٢) ٦۔ بیشک اللہ محسنین کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ (یوسف : ٩٠) ٧۔ صبر کرو ” اللہ “ محسنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ ( ھود : ١١٥) ٨۔ ” اللہ “ کا ارشاد ہے کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا۔ (آل عمران : ١٩٥) ٩۔ ہم تمہارے گناہ مٹا دیں گے اور عنقریب ہم احسان کرنے والوں کو زیادہ دیں گے۔ (البقرۃ : ٥٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سورت کا افتتاح یوں ہے جس طرح کوئی فوج حملہ آور ہوجاتی ہے ، کوئی مقدمہ نہیں ، کوئی تمہیں نہیں۔ اعلان ہوجاتا ہے کہ کافر بظاہر جو اچھے کام کر رہے ہیں وہ کالعدم ہیں جنہوں نے کفر کیا ہے ، اللہ کی راہ پر چلنے سے رکے ہیں اور دوسروں کو روکا ہے۔ اعلان ہوتا ہے کہ ان کے یہ اعمال کالعدم (void) ہیں ۔ لیکن یہ اعلان نہایت ہی موثر ، عام فہم اور مشخص انداز میں ہے۔ ان کے اعمال راستہ گم کر گئے ہیں اور اس وجہ سے ہلاک اور ضائع ہوگئے ، یوں کہ گویا یہ زندہ انسان یا حیوان ہیں اور انہوں نے راستہ گم کردیا ہے ، بہت دور نکل گئے ہیں اور ہلاک ہوگئے ہیں ، یہ مفہوم اور یہ نقشہ بتاتا ہے کہ گویا یہ اعمال لوگوں سے یا مویشیوں کے گلے سے الگ ہوگئے اور لوگ ان اعمال سے الگ ہوگئے اور دونوں کا انجام ہلاکت پر ہوا۔ یہ جن اعمال کے گم ہونے کا اعلان ایک فوجی فرمان کی شکل میں ہوا ہے۔ ان سے مراد وہ اعمال خیر یہ ہیں جو ایمان ، جہاد کے رنگ سے محروم ہیں اور کرنے والوں کی غرض نیکی ہے لہٰذا اعمال صالحہ کی قدروقیمت ایمان اور نظریہ جہاد کے سوا کچھ نہیں ، کیونکہ اس قسم کے اعمال جو بظاہر نیکی کے اعمال ہوتے ہیں لیکن ان کی تہہ میں داعیہ نیکی کا نہیں ہوتا۔ بعض اوقات داعیہ بھی نیکی کا ہوتا ہے لیکن ایمان پر مبنی نہیں ہوتا۔ اس طرح بغیر ایمان کے ایک عارضی ، سر سری جذبہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے کچھ اعمال صادر تو ہوجاتے ہیں لیکن ثبات و دوام سے محروم ہوتے ہیں ، وہ کسی مضبوط اور واضح منہاج اور نظریہ پر مبنی نہیں ہوتے ۔ اور زندگی کے طویل منصوبے سے باہر ہوتے ہیں۔ اس کائنات کے اندر پوشیدہ و ناموس الٰہی سے مربوط نہیں ہوتے ۔ اس لیے باطل ہوتے ہیں۔ لہٰذا اعمال کے لئے ایمان ضروری ہے تا کہ یہ اعمال اس سے بندھے ہوئے ایک صحیح رخ پر جا رہے ہوں اور عمل کرنے والا اس ایمانی داعیہ سے عمل کر رہا ہو اور یہ عمل اس کائناتی نظام سے بھی مربوط ہو ، جو انسان کو اس کائنات سے جوڑتا ہے۔ اور اس طرح اس کائنات میں ہر عمل کا ایک مقصد اور ایک اثر ہوتا ہے۔ اور وہ ایک منزل تک جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکنے والوں کی بربادی اور اہل حق پر انعام کا اعلان آیات مذکورہ بالا میں اہل کفر اور اہل ایمان کے درمیان فرق واضح فرمایا ہے اور اہل کفر کی سزا اور اہل ایمان کی جزا بیان فرمائی ہے اول تو یہ فرمایا کہ جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستے سے روکا اللہ نے ان کے اعمال ضائع كردئیے کفر و شرک پر تو کسی خیر کی امید رکھنے کا کوئی سوال ہی نہیں اہل کفر جو بعض مرتبہ صلہ رحمی یا خدمت خلق کے کام کرتے ہیں آخرت میں ان چیزوں کا بھی کچھ نہیں ملے گا اعمال ضائع کرنے کا سبب کفر ہی بہت ہے۔ پھر اوپر سے جنہوں نے اللہ کے راستے روکنے کا جو کام کیا یہ ان کے اعمال ضائع ہونے کا ایک مزید سبب بن گیا۔ مومنین کے بارے میں فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے اللہ ان کے گناہوں کا کفارہ فرما دے گا اور ان کے احوال کی اصلاح فرما دے گا آیت کریمہ میں ان کے ایمان کی تعریف فرماتے ہوئے ﴿ وَ اٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰى مُحَمَّدٍ ﴾ فرمایا اس میں یہ بتادیا کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تشریف لانے کے بعد کسی کا ایمان اس وقت تک معتبر نہیں جب تک کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ لائے اور ساتھ ہی ﴿ وَّ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ ﴾ فرمایا جس میں محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول ہونے کی اور جو کچھ آپ پر نازل ہوا ہے اللہ کی طرف سے اس کے اتارے جانے کی توثیق اور تصدیق فرمائی اور یہ بتادیا کہ آپ کا دعویٰ رسالت اور دعوی نزول کتاب من اللہ حق اور صحیح ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ حصہ اول تقابل احوال مومنین و کفار و حکم قتال :۔ ” الذین کفروا۔ الایۃ بیان حال مشرکین۔ ” صدوا “ لازم و متعدی دونوں طرح مستعمل ہے۔ خود اللہ کی راہ سے رک گئے اور اس پر نہ چلے یا دوسروں کو اللہ کی راہ پر چلنے سے روک دیا۔ اللہ کی راہ سے مراد اسلام ہے۔ ای اعرضوا عن الاسلام و سلوک طریقۃ او منعوا غیرھم عن ذلک علی ان صد لازم او متعد (روح ج 26 ص 36) ۔ جن لوگوں نے توحید کا انکار کیا، قبول اسلام سے اعراض کیا یا اور دل کو توحید اور اسلام سے روکا ان کے اعمال رائیگاں ہیں۔ ان سے مراد اہل مکہ ہیں۔ قال ابن عباس و مجاھد، ھم اھل مکۃ کفروا بتوحید اللہ، و صدوا انفسہم والموؤمنین عن دین اللہ وھو الالاسلام بنھیہم عن الدخول فیہ (قرطبی ج 16 ص 223) ۔ حاصل یہ ہے کہ مشرکین کی نیکیاں حق سے اعراض اور شرک کی وجہ سے برباد ہیں اور مومنوں کی برائیاں ایمان اور اعمال صالحہ کی برکت سے معاف ہوں گی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) وہ لوگ جنہوں نے کفر کا شیوہ اختیار کیا اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکا ان کے اعمال خدا تعالیٰ نے نیست ونابود اور ضائع کردیئے۔ یعنی خود بھی دین حق کے منکر ہوئے اور دوسروں کو بھی اسلام قبول کرنے سے روکا اور ان کے لئے طرح طرح کی مشکلات پیدا کیں تو ایسے لوگوں کے تمام وہ اعمال جن کو وہ اچھا سمجھ کر کیا کرتے ہیں ان کے وہ تمام اعمال کھودیئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو کالعدم کردیا۔