Commentary Another name of Surah Muhammad is Surah Al-Qital [ Surah of war ] because this Surah lays down the rules of Jihad and Qital [ i.e. armed struggle in the cause of Allah ]. This Surah was revealed immediately after migration to Madinah. Ibn ` Abbas (رض) is reported to have said regarding Verse 13 كَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ “ And how many a city ... have We destroyed!,...|" that it was revealed in Makkah, because it was revealed at a time when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) left Makkah with the intention of migration, and looked at the sacred city of Makkah and the Holy Ka&bah and said: |"You are the dearest of all cities to me in the world. Had it not been for Makkans driving me out from this place, I would never have given up this Holy City.|" According to the technical parlance of the Qur&anic commentators, verses revealed in the course of migration from Makkah to Madinah are regarded as Makki. In sum, the Surah was revealed immediately after migration to Madinah, reaching shere, ordinances relating to jihad and war with infidels were revealed. In the phrase صَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّـهِ |"prevented (others) from Allah&s way|" (47:1), |"Allah&s way|" refers to Islam. The phrase أَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ |"He (Allah) has rendered their deeds vain|" (47:1) includes actions which are good in themselves, as for instance, helping and assisting the destitute, supporting and protecting the neighbours, generosity, charity and other good deeds. These deeds are, though, good and righteous in themselves, in the Hereafter they will yield benefit only if blessed with faith, because faith is a necessary condition for the credibility of good actions. Thus these righteous deeds will be of no use to the infidels in the Hereafter. The disbelievers take their comfort in this worldly life as a reward of their good deeds. In the Hereafter they will be punished with Hell-fire.
خلاصہ تفسیر جو لوگ ( خود بھی) کافر ہوئے اور (دوسروں کو بھی) اللہ کے راستہ سے روکا (جیسا رؤسائے کفار کی عادت تھی کہ جان و مال سے ہر طرح کی کوشش اسلام کا راستہ روکنے میں کرتے تھے سو) خدا نے ان کے عمل کالعدم کردیئے (یعنی جن کاموں کو وہ نیک سمجھ رہے ہیں بوجہ عدم ایمان کے وہ مقبول نہیں بلکہ ان میں سے بعضے کام اور الٹے موجب عتاب ہیں جیسے اللہ کے راستے پر چلنے سے روکنے میں خرچ کرنا، کما قال تعالیٰ (آیت) فسینفقونھا ثم تکون علیھم حسرة الخ) اور (برخلاف ان کے) جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے اور (ان کے ایمان کی کیفیت تفصیلی یہ ہے کہ) وہ اس سب پر ایمان لائے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا ہے اور وہ ( جو نازل کیا گیا ہے وہ) ان کے رب کے پاس سے (آیا ہوا) امر واقعی (بھی) ہے (جس کا ماننا ہے بھی ضروری سو) اللہ تعالیٰ ان کے گناہ ان پر سے اتارے گا (یعنی معاف کر دے گا) اور (دونوں جہان میں) ان کی حالت درست رکھے گا (دنیا میں تو اس طرح کہ ان کو اعمال صالحہ کی توفیق بڑھتی جاوے گی اور آخرت میں اس طرح کہ ان کو عذاب سے نجات اور جنت میں داخلہ ملے گا اور) یہ (جو مومنین کی خوشحالی اور کفار کی بدحالی بیان کی گئی) اس وجہ سے ہے کہ کافر تو غلط راستہ پر چلے اور اہل ایمان صحیح راستہ پر چلے جو ان کے رب کی طرف سے (آیا) ہے، (اور غلط راستہ کا موجب ناکامی ہونا اور صحیح راستہ کا سبب کامیابی ہونا ظاہر ہے اس لئے وہ ناکام ہوئے اور یہ کامیاب ہوئے اور اگر اسلام کے صحیح راستہ ہونے میں کوئی شبہ ہو تو من ربہم سے اس کا جواب ہوگیا کہ دلیل اس کی صحیح ہونے کی یہ ہے کہ وہ من جانب اللہ ہے اور من جانب اللہ ہونا تمام معجزات نبویہ سے بالخصوص اعجاز قرآنی سے ثابت ہے اور) اللہ تعالیٰ اسی طرح (جیسے یہ حالت بیان فرمائی) لوگوں کے (نفع و ہدایت کے) لئے ان (مذکورین) کے حالات بیان فرماتا (تاکہ ترغیب و ترہیب کے دونوں طریقوں سے ہدایت کی جائے) معارف و مسائل سورة محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دوسرا نام سورة قتال بھی ہے کیونکہ جہاد و قتال کے احکام اس میں بیان ہوئے ہیں۔ ہجرت مدینہ کے فوراً بعد ہی یہ سورت نازل ہوئی یہاں تک کہ اس کی ایک (آیت) وکاین من قریة کے متعلق حضرت ابن عباس سے یہ منقول ہے کہ وہ مکی آیت ہے کیونکہ اس کا نزول اس وقت ہوا ہے جبکہ آپ ہجرت کی نیت سے مکہ معظمہ سے نکلے اور مکہ مکرمہ کی بستی اور بیت اللہ پر نظر کر کے آپ نے فرمایا کہ ساری دنیا کے شہروں میں مجھے تو ہی محبوب ہے اگر اہل مکہ مجھے یہاں سے نہ نکالتے تو میں خود اپنے اختیار سے مکہ مکرمہ کو نہ چھوڑتا، اور اصطلاح مفسرین کی مطابق جو آیات سفر ہجرت مدینہ کے دوران میں نازل ہوئی ہیں وہ مکی کہلاتی ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ سورت ہجرت مدینہ کے فوراً بعد نازل ہوئی ہے اور یہیں پہنچ کر کفار سے جہاد و قتال کے احکام نازل ہوئے ہیں (آیت) وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ، سبیل اللہ سے مراد اسلام ہے اَضَلَّ اَعْمَالَهُمْ میں ان کفار کے وہ اعمال مراد ہیں جو فی نفسہ نیک کام ہیں جیسے مساکین کی امداد و اعانت، پڑوسی کی حمایت و حفاظت، سخاوت اور صدقہ خیرات وغیرہ کہ یہ اعمال اگرچہ اپنی ذات میں نیک اور اچھے عمل ہیں لیکن آخرت میں ان کا فائدہ ایمان لانے کے ساتھ مشروط ہے کافروں کے ایسے نیک اعمال آخرت میں ان کے کچھ کام نہ آئیں گے البتہ دنیا میں ہی ان کو ان کے نیک کاموں کے بدلے میں راحت و آرام دے دیا جاتا ہے۔