Surat Muahammad

Surah: 47

Verse: 25

سورة محمد

اِنَّ الَّذِیۡنَ ارۡتَدُّوۡا عَلٰۤی اَدۡبَارِہِمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الۡہُدَی ۙ الشَّیۡطٰنُ سَوَّلَ لَہُمۡ ؕ وَ اَمۡلٰی لَہُمۡ ﴿۲۵﴾

Indeed, those who reverted back [to disbelief] after guidance had become clear to them - Satan enticed them and prolonged hope for them.

جو لوگ اپنی پیٹھ کے بل الٹے پھر گئے اس کے بعد کہ ان کے لئے ہدایت واضح ہو چکی یقیناً شیطان نے ان کے لئے ( ان کے فعل کو ) مزین کر دیا ہے اور انہیں ڈھیل دے رکھی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِهِم ... Verily, those who have turned back, meaning, they departed from the faith and returned to disbelief. ... مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى الشَّيْطَانُ سَوَّلَ لَهُمْ ... ... after guidance had become clear to them -- Shaytan has enticed them, meaning he adorned and beautified that (apostasy) for them. ... وَأَمْلَى لَهُمْ and filled them with false hopes. meaning, he tempted them, and deceived them.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

25۔ 1 اس سے مراد منافقین ہی ہیں جنہوں نے جہاد سے گریز کر کے کفر و ارتداد کو ظاہر کردیا۔ 25۔ 2 اس کا فاعل بھی شیطان ہے یعنی مدلھم فی الامل ووعدھم طول العمر یعنی انہیں لمبی آرزوؤں اور اس دھوکے میں مبتلا کردیا کہ ابھی تو تمہاری بڑی عمر ہے کیوں لڑائی میں اپنی جان گنواتے ہو یا فاعل اللہ ہے اللہ نے انہیں ڈھیل دی یعنی فورا ان کا مواخذہ نہیں فرمایا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٩] یعنی شیطان نے انہیں یہ پٹی پڑھائی ہے کہ اگر تم نے جہاد میں شمولیت کی تو یہ اپنی موت کو خود دعوت دینے کے مترادف ہے۔ علاوہ ازیں مال کا بھی نقصان ہوگا۔ پھر اگر مسلمانوں کو فتح ہو بھی جائے تو موت کی صورت میں انہیں کیا فائدہ ہوگا ؟ لہذا مالی نقصان سے بچنے، اپنی جان سلامت رکھنے اور تادیر زندہ رہنے کا نسخہ کیمیا یہی ہے کہ جہاد سے گریز کی راہ اختیار کی جائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ان الذین ارتدوا علی ادبارھم …: ان سے مراد منافقین ہی ہیں جنہوں نے راہ حق واضح ہونے اور سالام کا اقرار کرنے کے بعد جہاد سے گریز کرتے ہوئے کفر و ارتداد کی راہ اختیار کی۔ (٢) الشیطن سول لھم و املی لھم : یعنی شیطان نے ان کے لئے ان کے کفر و ارتداد اور جہاد سے فرار کو خوش نما بنادیا اور ان کے لئے مہلت لمبی بتائی، یعنی ان کے دلوں میں ڈال دیا کہ اگر جہاد نہ کرو گے تو لمبی مدت تک زندہ رہو گے اور دنیا کے عیش و آرام سے فائدہ اٹھاؤ گے۔ شیطان کا کام ہی خواہش اور آرزوئیں دلا کر گمراہ کرنا ہے۔ (دیکھیے نسائ :120-119) حالانکہ انہیں سمجھنا چاہیے تھا کہ موت اپنے وقت آتی ہے، اس میں لمحہ بھر تقدیم و تاخیر نہیں وہتی، پھر جہاد سے بھاگنے کا کیا فائدہ ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

الشَّيْطَانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلَىٰ لَهُمْ (it is Satan who has tempted them and involved them in far-fetched fancies. - 47:25). In this sentence, two acts have been ascribed to the devil: - taswil [ meaning the act of decking out evil works fair to some people, and imla& meaning the act of giving respite. First, he made their evil works look good and beautiful to them, and then prolonged their false hopes which will never be fulfilled.

(آیت) الشَّيْطٰنُ سَوَّلَ لَهُمْ ۭ وَاَمْلٰى لَهُمْ ، اس میں شیطان کی طرف دو کاموں کی نسبت کی گئی۔ ایک تسویل جس کے معنی تزئین کے ہیں کہ بری چیز یا برے عمل کو کسی کی نظروں میں اچھا اور مزین کر دے۔ دوسرا املاء، جس کے معنے امہال اور مہلت دینے کے ہیں مراد یہ ہے کہ شیطان نے اول تو ان کے برے اعمال کو ان کی نظروں میں اچھا اور مزین کر کے دکھلایا پھر ان کو ایسی طویل آرزوؤں اور امیدوں میں الجھا دیا جو پوری ہونے والی نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ ارْتَدُّوْا عَلٰٓي اَدْبَارِہِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُمُ الْہُدَى۝ ٠ ۙ الشَّيْطٰنُ سَوَّلَ لَہُمْ۝ ٠ ۭ وَاَمْلٰى لَہُمْ۝ ٢٥ ردت والارْتِدَادُ والرِّدَّةُ : الرّجوع في الطّريق الذي جاء منه، لکن الرّدّة تختصّ بالکفر، والارتداد يستعمل فيه وفي غيره، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلى أَدْبارِهِمْ [ محمد/ 25] وقوله عزّ وجلّ : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ أَلْقاهُ عَلى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيراً [يوسف/ 96] ، أي : عاد إليه البصر، ( رد د ) الرد ( ن ) الارتدادؤالردۃ اس راستہ پر پلٹنے کو کہتے ہیں جس سے کوئی آیا ہو ۔ لیکن ردۃ کا لفظ کفر کی طرف لوٹنے کے ساتھ مختض ہوچکا ہے اور ارتداد عام ہے جو حالت کفر اور دونوں کی طرف لوٹنے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلى أَدْبارِهِمْ [ محمد/ 25] بیشک جو لوگ اپنی پشتوں پر لوٹ گئے ( اس کے ) بعد کہ ان کے سامنے ہدایت واضح ہوگئی ۔ فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ أَلْقاهُ عَلى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيراً [يوسف/ 96] پھر جب ( یوسف (علیہ السلام) کے زندہ و سلامت ہونے ) خوشخبری دینے والا ( یعقوب (علیہ السلام) کے پاس ) آپہنچا تو اس نے آنے کے ساتھ ہی یوسف (علیہ السلام) کا کرتہ ) یعقوب (علیہ السلام) ) کے چہرہ پر ڈال دیا تو وہ فورا بینا ہوگئے ۔ یعنی ان کی بینائی ان کی طرف لوٹ آئی دبر ( پيٹھ) دُبُرُ الشّيء : خلاف القُبُل وكنّي بهما عن، العضوین المخصوصین، ويقال : دُبْرٌ ودُبُرٌ ، وجمعه أَدْبَار، قال تعالی: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال/ 16] ، وقال : يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال/ 50] أي : قدّامهم وخلفهم، وقال : فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال/ 15] ، وذلک نهي عن الانهزام، وقوله : وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق/ 40] : أواخر الصلوات، وقرئ : وَإِدْبارَ النُّجُومِ ( وأَدْبَار النّجوم) فإدبار مصدر مجعول ظرفا، ( د ب ر ) دبر ۔ بشت ، مقعد یہ قبل کی ضد ہے اور یہ دونوں لفظ بطور کنایہ جائے مخصوص کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں دبر ا اور دبر دولغات ہیں اس کی جمع ادبار آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال/ 16] اور جو شخص جنگ کے روز ان سے پیٹھ پھیرے گا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال/ 50] ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر ( کوڑے و ہیتھوڑے وغیرہ ) مارتے ہیں ۔ فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال/ 15] تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔ یعنی ہزیمت خوردہ ہوکر مت بھاگو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق/ 40] اور نماز کے بعد ( بھی ) میں ادبار کے معنی نمازوں کے آخری حصے ( یا نمازوں کے بعد ) کے ہیں . وَإِدْبارَ النُّجُومِ«1»میں ایک قرات ادبارالنجوم بھی ہے ۔ اس صورت میں یہ مصدر بمعنی ظرف ہوگا یعنی ستاروں کے ڈوبنے کا وقت جیسا کہ مقدم الجام اور خفوق النجم میں ہے ۔ اور ادبار ( بفتح الحمزہ ) ہونے کی صورت میں جمع ہوگی ۔ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ مبینبَيَان والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] . وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة/ 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص/ 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات/ 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف/ 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] . اور جهگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو سول والتَّسْوِيلُ : تزيين النّفس لما تحرص عليه، وتصویر القبیح منه بصورة الحسن، قال : بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْراً [يوسف/ 18] ( س و ل ) التسویل ۔ کے معنی نفس کے اس چیز کو مزین کرنا کے ہیں جس پر اسے حرص بھی ہو اور اس کے قبح کو خوشنما بناکر پیش کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْراً [يوسف/ 18] بلکہ تم اپنے دل سے ( یہ ) بات بنا لائے ۔ ملي الْإِمْلَاءُ : الإمداد، ومنه قيل للمدّة الطویلة مَلَاوَةٌ من الدّهر، ومَلِيٌّ من الدّهر، قال تعالی: وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم/ 46] وتملّيت دهراً : أبقیت، وتملّيت الثَّوبَ : تمتّعت به طویلا، وتملَّى بکذا : تمتّع به بملاوة من الدّهر، ومَلَاكَ اللهُ غير مهموز : عمّرك، ويقال : عشت مليّا . أي : طویلا، والملا مقصور : المفازة الممتدّة والمَلَوَانِ قيل : اللیل والنهار، وحقیقة ذلک تكرّرهما وامتدادهما، بدلالة أنهما أضيفا إليهما في قول الشاعر نهار ولیل دائم ملواهما ... علی كلّ حال المرء يختلفان فلو کانا اللیل والنهار لما أضيفا إليهما . قال تعالی: وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ [ الأعراف/ 183] أي : أمهلهم، وقوله : الشَّيْطانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلى لَهُمْ [ محمد/ 25] أي : أمهل، ومن قرأ : أملي لهم «3» فمن قولهم : أَمْلَيْتُ الکتابَ أُمْلِيهِ إملاءً. قال تعالی: أَنَّما نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ [ آل عمران/ 178] . وأصل أملیت : أمللت، فقلب تخفیفا قال تعالی: فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان/ 5] ، وفي موضع آخر : فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ [ البقرة/ 282] . ( م ل ی ) الا ملاء کے معنی امداد یعنی ڈھیل دینے کے ہیں اسی سے ملا وۃ من الدھر یا ملی من الدھر کا محاورہ ہے جس کے معنی عرصہ دراز کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم/ 46] اور تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہوجا ۔ تملیت الثوب میں نے اس کپڑا سے بہت فائدہ اٹھایا ۔ تملیٰ بکذا اس نے فلاں چیز سے عرصہ تک فائدہ اٹھا یا ۔ ملاک اللہ ( بغیر ہمزہ ) اللہ تیری عمر دراز کرے ۔ چناچہ اسی سے غشت ملیا کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں تم عرصہ دراز تک جیتے رہو ۔ الملا ( اسم مقصود ) وسیع ریگستان ۔ بعض نے کہا ہے کہ الملوان کے معنی ہیں لیل ونہار مگر اصل میں یہ لفظ رات دن کے تکرار اور ان کے امتداد پر بولا جاتا ہے ۔ کیونکہ لیل ونہار کی طرف اس کی اضافت ہوتی ہے ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( 413 ) مھار ولیل دائم ملوا ھما علیٰ کل جال المرء یختلفان رات دن کا تکرار ہمیشہ رہتا ہے اور ہر حالت میں یہ مختلف ہوتے رہتے ہیں ۔ اگر ملوان کا اصل لیل ونہار ہوات تو ان کی ضمیر کی طرف مضاف ہو کر استعمال نہ ہوتا اور آیت کریمہ : ۔ وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ [ الأعراف/ 183] اور میں ان کو مہلت دیئے جاتا ہوں ۔ میری تدبیر ( بڑی ) مضبوط ہے میں املی لھم کے معنی ( بڑی مضبوط ہے میں املی لھم کے معنی مہلت دینے کے ہیں ۔ نیز فرمایا : ۔ أَنَّما نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ [ آل عمران/ 178] کہ ہم ان کو مہلے دیئے جاتے ہیں تو یہ ان کے حق میں اچھا ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ الشَّيْطانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلى لَهُمْ [ محمد/ 25] طول ( عمر کا وعدہ دیا ۔ میں املا کے معنی امھل یعنی مہلت دینے کے ہیں ۔ ایک قراءت میں املا لھم ہے جو املیت الکتاب املیہ املاء سے مشتق ہے اور اس کے معنی تحریر لکھوانے اور املا کروانے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان/ 5] اور وہ صبح شام اس کو پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اصل میں املیت املک ( مضاف ) ہے دوسرے لام کو تخفیف کے لئے یا سے تبدیل کرلیا گیا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ [ البقرة/ 282] تو جو اس کا ولی ہو وہ انصاف کے ساتھ مضمون لکھوائے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جو لوگ یعنی یہود اپنے آبائی دین کی طرف پھرگئے باوجود اس کے کہ توحید اور قرآن کریم اور رسول اکرم کی نعت و صفت بذریعہ قرآن ان کو صاف معلوم ہوگئی تو شیطان نے ان کو اپنے آبائی دین کی طرف پھرنے کا دھوکہ دیا ہے اور حق تعالیٰ نے ان کو ڈھیل دی ہے جس کی وجہ سے ابھی تک ان کو ہلاک نہیں کیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥ { اِنَّ الَّذِیْنَ ارْتَدُّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِہِمْ مِّنْم بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْہُدَی الشَّیْطٰنُ سَوَّلَ لَہُمْ وَاَمْلٰی لَہُمْ } ” یقینا وہ لوگ جو پھرگئے اپنی پیٹھوں کے َبل ‘ اس کے بعد کہ ان پر ہدایت واضح ہوچکی ‘ شیطان نے ان کے لیے (ارتداد کا یہ مرحلہ) آسان کردیا ہے اور انہیں لمبی لمبی امیدیں دلائی ہیں۔ “ ” طولِ امل “ کے اس شیطانی چکر میں پڑ کر انسان آخرت کو بالکل ہی فراموش کردیتا ہے۔ ظاہر ہے جس شخص نے لمبی لمبی امیدیں قائم کر کے اپنی زندگی میں بڑے بڑے منصوبے بنا رکھے ہوں ‘ اس کے دل میں شہادت کی تمنا کیسے پیدا ہوسکتی ہے ‘ اور ایسا شخص میدان جنگ میں جانا بھلا کیونکر پسند کرے گا !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٥۔ ٢٨۔ حضرت عبد (رض) اللہ بن عباس کے شاگردوں میں قتادہ ٢ ؎ کا قول ہے کہ یہ آیتیں یہود کی شان میں ہیں مطلب یہ ہے کہ نبی آخر الزمان کی صفتیں جو توراۃ میں تھیں ان سے یہ لوگ نبی آخر الزمان کو خوب پہچانتے تھے لیکن نبی آخر الزمان کے نبی ہونے اور ہجرت کرکے مدینہ میں آنے کے بعد آپ کی نبوت کے منکر ہوگئے خود حضرت عبد (رض) اللہ بن عباس ٣ ؎ کا یہ قول ہے کہ یہ آیتیں منافقوں کی شان میں ہیں سورة الحشر میں آئے گا کہ مدینہ کے منافقوں نے یہود بنی نضیر اور بنی قریظہ سے یہ کہلا بھیجا تھا کہ ہم تمہارا ہر طرح ساتھ دیں گے اور ان آیتوں میں بھی سنطیعکم فی بعض الامر فرمایا ہے اس لئے صحیح قول یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیتیں منافقوں کی شان میں ہیں حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ جو لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو کر پھر پچھلے قدم پلٹ گئے اور منافق بن گئے اس کا سبب یہی ہے کہ وسوسہ شیطانی کے موافق منافق پنے اور جہاد سے جی چرانے میں انہوں نے اپنا دیر تک کا بچاؤ سمجھا اور اس خیال سے انہوں نے درپردہ یہود سے میل جول کا پیغام کہلا بھیجا کہ مسلمان اور یہود دونوں سے دوستی بنی رہے پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ بھید کی باتیں خوب معلوم ہیں ایک دن ان لوگوں سے ان دغا کی باتوں کی پرسش ہوگی پھر فرمایا اب تو یہ لوگ موت کو ٹالنے کے لئے دین کی لڑائی سے جان چراتے ہیں لیکن جب موت ان کے سامنے آجائے گی اور اللہ کے فرشتے ان کے منہ اور ان کی پیٹھ پر لوہے کی موگریاں مار مار کر ان کی جان نکالیں گے اس وقت یہ کیونکر جان بچائیں گے پھر فرمایا یہ وبال ان پر اس لئے پڑا کہ انہوں نے اللہ کی رضا مندی کے کاموں کو چھوڑ کر اس کی بیزاری کے کام کئے اس لئے اوپری دل سے جو کچھ نیک کام انہوں نے کئے تھے وہ تو بارگاہ الٰہی میں نامقبول ٹھہرے اور برے کاموں کا خمیازہ ان کو بھگتنا پڑا مسند امام ١ ؎ احمد اور ابو داؤود کے حوالہ سے براء بن العازب کی صحیح حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ نافرمان لوگوں کی قبض روح کے لئے عذاب کے فرشتے آتے اور غضب الٰہی سے نافرمان شخص کی روح کو ڈراتے ہیں جس سے وہ روح جگہ جگہ جسم میں چھپتی ہے آخر بڑی سختی سے وہ فرشتے اس روح کو جسم سے نکالتے ہیں آیتوں میں یہ جو ذکر ہے کہ نافرمان لوگوں کی قبض روح کے وقت فرشتے ایسے لوگوں کے منہ اور ان کی پیٹھ پر مارتے ہیں اس کا مطلب اس حدیث سے اھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ غضب الٰہی سے ڈر کر ایسے لوگوں کی روح جسم میں جگہ جگہ چھپتی ہے اس لئے اس روح کو جسم سنے نکالنے کے لئے فرشتے مار دھاڑ اور طرح طرح کی سختی کرتے ہیں۔ (٢ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٦٦ ج ٦۔ ) (٣ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٦٦ ج ٦۔ ) (١ ؎ بحوالہ مشکوٰۃ فیما یقال عند مزحضرہ الموت ص ١٤٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(47:25) ارتدوا ماضی جمع مذکر غائب ارتداد (افتعال) مصدر۔ جس کے معنی جس راستہ سے آیا اسی راستہ سے واپس جانے کے ہیں۔ وہ لوٹ گئے۔ وہ الٹے پھرے۔ ادبارہم مضاف مضاف الیہ ادبار جمع دبر واحد۔ ان کی پیٹھیں دبر ، پیٹھ، پشت، پچھلا حصہ۔ ارتدوا علی ادبارہم وہ پیٹھ دے کر پھرگئے۔ انہوں نے راہ ارتداد اختیار کیا۔ تبین۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ تبین (تفعل) مصدر ۔ جس کے معنی ظاہر ہونے اور واضح ہوجانے کے ہیں۔ بیان کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک تو خود دلالت حال۔ کہ صورت بہ ہیں حالت مپرس۔ دوسرے آزمائش کے ذریعہ کسی چیز کا کھلنا اور واضح ہوجانا۔ خواہ آزمائش بذریعہ نطق ہو یا کتابۃ یا اشارۃ۔ سول۔ ماضی واحد مذکر غائب تسویل (تفعیل) مصدر جس کے معنی نفس کا اس چیز کو کہ جس پر وہ حریص ہے مزین کرنا اور بری کو اچھی شکل میں پیش کرنے کے ہیں۔ سول لہ الشیطن۔ ای اغواہ وزین لہ وسھل لہ ان یفعل الشیئ۔ شیطان نے اس کو گمراہ کیا اور اس کو مزین کر کے دکھایا۔ اور کسی کام کا کرنا سہل کردیا۔ سولت لہ نفسہ کذا : اس کے نفس نے اس کو مزین کردیا اور جگہ قرآن مجید میں ہے وکذلک سولت لی نفسی (30:96) اور مجھے میرے جی نے (اس کام کو) اچھا بتایا تھا۔ واملی لہم : وائو عاطفہ املی۔ ماضی واحد مذکر غائب املاء (افعال) مصدر۔ جس کے معنی مہلت دینے کے ہیں۔ ڈھیل دینے اور لمبی امیدیں دلانے کے ہیں ۔ اور اس نے ان کو لمبی لمبی امیدیں دلائیں۔ (جھوٹی امیدوں کے خوشنما قلعے کھڑے کر دئیے) اور جگہ قرآن مجید میں ہے وکاین من قریۃ املیت لھا (22:48) اور بہت سی بستیاں ہیں کہ میں ان کو مہلت دیتا رہا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی ان کے دلوں میں یہ ڈال دیا ہے کہ اگر جہاد نہ کرو گے تو مدت دراز تک زندہ رہو گے اور دنیا کے عیش و آرام سے لطف اٹھائو گے۔ حالانکہ انہیں سجھنا چاہیے تھا کہ موت اپنے وقت پر آتی ہے اور اس میں لمحہ پھر بھی تقدم یا تاخیر نہیں ہوسکتا، پھر جہاد سے بھاگنے کا کیا فائدہ ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافق قرآن مجید سنتے ہیں مگر اس پر غور نہ کرنے کی وجہ سے ہدایت سے منہ پھیرلیتے ہیں جس وجہ سے گمراہی میں مبتلا رہتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ شیطان ان کو ان کے برے اعمال خوبصورت کرکے دکھلاتا ہے اور انہیں جھوٹی امیدیں دلائے رکھتا ہے۔ شیطان کی شیطینت کی وجہ سے منافقین، یہود و نصاریٰ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم کچھ کاموں میں تمہاری بات تسلیم کریں گے اور کچھ کاموں میں دوسروں کی بات مانیں گے۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کے راز جانتا ہے۔ اس وقت ان کا کیا حال ہوگا جب ان کی موت کے وقت ملائکہ ان کے چہروں پر تھپڑ ماریں گے اور ان کی کمروں پر کوڑے برسائیں گے۔ اسی حالت میں انہیں دنیا سے عالم برزخ میں لے جائیں گے۔ یہ سزا اس لیے ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کی پیروی کرنے کا انہیں حکم دیا وہ اسے برا سمجھتے ہیں اور اپنے رب کی رضا مندی کو اچھا نہیں جانتے۔ جس وجہ سے ان کے اچھے کاموں کو بھی غارت کردیا جائے گا۔ (وَ لَوْ تَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلآءِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْہَہُمْ وَ اَدْبَارَہُمْ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ ) (الانفال : ٥٠) ” کاش ! آپ دیکھیں جب فرشتے کفار کی جان قبض کرتے ہیں تو ان کے چہروں اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے کہتے ہیں کہ جلا دینے والا عذاب چکھو۔ “ (عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ الْعَبْدَ الْکَافِرَ إِذَا کَانَ فِی انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْیَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الآخِرَۃِ نَزَلَ إِلَیْہِ مِنَ السَّمَآءِ مَلَآءِکَۃٌ سُوْدُ الْوُجُوْہِ مَعَہُمُ الْمُسُوْحُ فَیَجْلِسُوْنَ مِنْہُ مَدَّ الْبَصَرِ ثُمَّ یَجِیْءُ مَلَکُ الْمَوْتِ حَتّٰی یَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِہٖ فَیَقُولُ أَیَّتُہَا النَّفْسُ الْخَبِیْثَۃُ اخْرُجِیْٓ إِلَی سَخَطٍ مِّنَ اللّٰہِ وَغَضَبٍ قَالَ فَتُفَرَّقُ فِی جَسَدِہِ فَیَنْتَزِعُہَا کَمَا یُنْتَزَعُ السَّفُّودُ مِنَ الصُّوفِ الْمَبْلُولِ فَیَأْخُذُہَا فَإِذَا أَخَذَہَا لَمْ یَدَعُوہَا فِی یَدِہِ طَرْفَۃَ عَیْنٍ حَتَّی یَجْعَلُوہَا فِی تِلْکَ الْمُسُوحِ وَیَخْرُجُ مِنْہَا کَأَنْتَنِ ریح جیفَۃٍ وُجِدَتْ عَلَی وَجْہِ الأَرْضِ فَیَصْعَدُونَ بِہَا فَلاَ یَمُرُّونَ بِہَا عَلَی مَلأٍ مِنَ الْمَلاَءِکَۃِ إِلاَّ قَالُوا مَا ہَذَا الرُّوحُ الْخَبِیثُ فَیَقُولُونَ فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ بِأَقْبَحِ أَسْمَاءِہِ الَّتِی کَانَ یُسَمَّی بِہَا فِی الدُّنْیَا حَتَّی یُنْتَہَی بِہِ إِلَی السَّمَاء الدُّنْیَا فَیُسْتَفْتَحُ لَہُ فَلاَ یُفْتَحُ لَہُ ثُمَّ قَرَأَ رَسُول اللَّہِ (لاَ تُفَتَّحُ لَہُمْ أَبْوَاب السَّمَاءِ وَلاَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ حَتَّی یَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَاطِ ) فَیَقُول اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ اکْتُبُوا کِتَابَہُ فِی سِجِّینٍ فِی الأَرْضِ السُّفْلَی فَتُطْرَحُ رُوحُہُ طَرْحاً ثُمَّ قَرَأَ (وَمَنْ یُشْرِکْ باللَّہِ فَکَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ أَوْ تَہْوِی بِہِ الرِّیحُ فِی مَکَانٍ سَحِیقٍ ) ۔۔ ) (رواہ أحمد : مسند براء بن عازب (رض) ، ھذا حدیث صحیح ) ” حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کافر کا دنیا سے رخصت ہونے اور اس کی موت کا وقت آتا ہے تو آسمان سے کالے چہروں والے فرشتے اترتے ہیں۔ ان کے پاس کھردرا لباس ہوتا ہے۔ وہ فوت ہونے والے کافر سے حد نگاہ تک دور بیٹھ جاتے ہیں۔ ملک الموت اس کے سرہانے آکر کہتا ہے۔ اے خبیث جان ! اللہ کی ناراضگی اور غضب کا سامنا کر پھر روح اس کے جسم سے الگ کی جاتی ہے، اور اس کو اس طرح کھینچا جاتا ہے جیسے گرم سلاخ کو روئی سے کھینچا جاتا ہے پھر اس روح کو فرشتے پکڑتے ہیں اور کوئی فرشتہ اسے اپنے ہاتھ میں آنکھ جھپکنے سے زیادہ دیر نہیں رکھتا۔ اسے بدبودار ٹاٹ میں لپیٹ لیتے ہیں اور اس سے مردار جیسی گندی بدبو نکلتی ہے جس طرح تم مردار کی بدبو زمین پر محسوس کرتے ہو۔ وہ اسے لیکر آسمانوں کی طرف جاتے ہیں ان کا گذر جس فرشتے کے ہاں ہوتا تو وہ کہتا ہے یہ کس کی گندی روح ہے تو وہ جواب دیتے ہیں وہ فلاں ابن فلاں ہے اس کے برے برے نام لیتے ہیں جن کے ساتھ اسے دنیا میں پکارا جاتا تھا حتیٰ کہ اسے آسمان دنیا کی طرف لے جایا جاتا ہے۔ اس کے لیے دروازہ کھولنے کے لیے کہا جاتا ہے تو دروازہ نہیں کھولا جاتا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی ( ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور نہ ہی وہ جنت میں داخل ہو سکیں گے حتی کہ اونٹ کو سوئی کے سوراخ میں داخل کردیں۔ ) اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اس کے اعمال نامہ سجین میں لکھ دو جو زمین کی سب سے نچلی جگہ ہے اس کی روح کو پھینکا جائے گا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت کی ( اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے گویا کہ وہ آسمان سے گرگیا پرندے اسے اچک رہے ہیں یا ہوا اس کو دور جگہ میں پھینک رہی ہے۔ ) “ مسائل ١۔ ہدایت واضح ہونے کے باوجود منافق اسے قبول نہیں کرتا۔ ٢۔ شیطان منافق کو اس کا برا کردار اچھا کرکے دکھلاتا ہے اور اسے جھوٹی امیدیں دلائے رکھتا ہے۔ ٣۔ منافق کفار اور مسلمانوں کو اپنی رفاقت کی یقین دہانی کرواتا ہے۔ ٤۔ ملائکہ منافق کی موت کے وقت اس کے چہرے اور کمر پر مارتے اور جھڑکیاں دیتے ہیں۔ ٥۔ منافق اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے کی بجائے اللہ کی ناراضگی کے کاموں پر خوش ہوتا ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ منافق کے تمام اعمال غارت کردیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن کن لوگوں کے اعمال غارت ہوجائیں گے : ١۔ آخرت کا انکار کرنے والوں کے اعمال ضائع ہوجا تے ہیں۔ (الاعراف : ١٤٧) ٢۔ مشرکین کے اعمال ضائع کردئیے جائیں گے۔ (التوبہ : ١٧) ٣۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخی کرنے والے کے اعمال ضائع کر دئیے جائیں گے۔ (الحجرات : ٢) ٤۔ ایمان کے ساتھ کفر اختیار کرنے والوں کے اعمال ضائع کر دئیے جاتے ہیں۔ (المائدۃ : ٥) ٥۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت نہ کرنے والوں کے اعمال برباد کردئیے جاتے ہیں۔ (محمد : ٣٣) ٦۔ وہ لوگ جو اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں ان کے اعمال غارت کر دئیے جائیں گے۔ (آل عمران : ٢١۔ ٢٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مرتدین کے لیے شیطان کی تسویل اور موت کے وقت ان کی تعذیب حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ ان آیات میں بھی منافقین کا ذکر ہے ان سے جو مخالفانہ اور باغیانہ حرکتیں ظاہر ہوئیں ان کی وجہ سے ان کے لیے دعوائے اسلام پر باقی رہنے کا بھی کوئی راستہ نہ رہا اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے اہل کتاب مراد ہیں جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کے ان اوصاف کو دیکھ کر پہچان لیا جو اپنی کتابوں میں پاتے تھے پھر بھی کفر پر جمے رہے (اس کو ارْتَدُّوْا عَلٰی اَدْبَارِھِمْ سے تعبیر فرمایا کیونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری سے پہلے دعویٰ کیا کرتے تھے کہ ہم ضرور اتباع کریں گے اس دعوے کے مطابق جو کچھ کرنا تھا اس سے پھرگئے) آیات کا نزول جن لوگوں کے بارے میں بھی ہوا الفاظ کا عموم ہر طرح کے مرتدین کو شامل ہے ارشاد فرمایا کہ بیشک جو لوگ پشت پھیر کر دین حق سے پھرگئے حالانکہ ان پر ہدایت واضح ہوگئی تھی شیطان نے ان کا ناس کھویا اس نے کفر اور ارتداد کو اور برے اعمال کو ان کے سامنے اچھا کرکے پیش کیا حق اور حقیقت کو جانتے ہوئے دنیا کی ظاہری زینت کو انہوں نے ترجیح دی شیطان نے مزید یہ کیا کہ ان کو یہ بتایا کہ دیکھو ابھی دنیا میں تمہیں بہت رہنا اور زیادہ دن جینا ہے اسلام قبول کرکے یہ لمبی زندگی آرام سے کیسے گزارو گے ؟ دیکھو جو لوگ اسلام قبول کرلیتے ہیں کتنی تکلیفوں میں پڑجاتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(25) جو لوگ دین حق سے پیٹھ پھیر کر الٹے لوٹ گئے اور چلے گئے بعد اس کے ان پر صحیح راہ حق دلائل عقلیہ اور نقلیہ سے واضح ہوچکی تھی اور صاف طور پر حق کا راستہ ان کو معلوم ہوچکا تھا پھر بھی لوٹ گئے تو یہ بات ان کو شیطان نے آراستہ کرکے دکھائی اور شیطان نے ان کے دل میں بات بنائی اور ان کے امیدوں کو دراز کردیا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی منافق قرآن کو نہیں سمجھتے کہ جہاد میں کتنے فائدے ہیں اور قرار ایمان سے پھرے جاتے ہیں کہ لڑائی میں نہ جاویں گے تو دیر تک جیویں گے۔ خلاصہ : یہ ہے کہ ان منافقین مرتدین سے مراد اگر اہل کتاب ہیں تب تو یہ معنی ہیں کہ ان کو اپنی کتابوں سے بھی اسلام کی حقانیت اور قرآن کی سچائی واضح ہوچکی ہے پھر بھی الٹے پھرے جاتے ہیں اور جہاد سے بچنا چاہتے ہیں اور اگر منافق غیر اہل کتاب ہیں تو معنی یہ ہیں کہ قرآن کے اعجاز اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات سے اسلام کی حقانیت اور قرآن کی سچائی ان کو صاف طور سے معلوم ہوچکی ہے پھر بھی الٹے پھرتے ہیں تو یہ شیطان کی فریب دہی کا اثر ہے۔ تسویل کسی کو فرضی چیز پر ملمع کرکے اور آراستہ کرکے دھوکہ دینا تو شیطان نے ان کو فریب اور دھوکے میں مبتلا کیا ہے املی لھم یعنی مدلھم فی الامال والامافی یعنی زندگی آرزوئوں اور امیدوں میں الجھا کر مہلت دے دینا۔ بعض ق راتوں میں واملی لھم بھی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے ان کو مہلت دے رکھی ہے۔ لیکن یہ قرات حفص (رح) کی نہیں ہے۔