Surat Muahammad

Surah: 47

Verse: 9

سورة محمد

ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ کَرِہُوۡا مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاَحۡبَطَ اَعۡمَالَہُمۡ ﴿۹﴾

That is because they disliked what Allah revealed, so He rendered worthless their deeds.

یہ اس لئے کہ وہ اللہ کی نازل کردہ چیز سے ناخوش ہوئے پس اللہ تعالٰی نے ( بھی ) ان کے اعمال ضائع کر دیئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَرِهُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ ... That is because they hate that which Allah has sent down; which means that they did not want or like what Allah revealed. ... فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ so He made their deeds fruitless.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 یعنی قرآن اور ایمان کو انہوں نے ناپسند کیا۔ 9۔ 2 اعمال سے مراد وہ اعمال ہیں جو صورۃ اعمال خیر ہیں لیکن عدم ایمان کی وجہ سے اللہ کے ہاں ان پر اجر وثواب نہیں ملے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ذلک بانھم کرھوا ماانزل اللہ …: یعنی اس انجام کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت کو ناپسند کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال برباد کردیے، کیونکہ اعمال کے بار آور ہونے کی شرط ان کا اللہ کی نازل کردہ ہدایت کے مطابق ہونا ہے۔ مزید دیکھیے اسی سورت کی پہلی آیت کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ بِاَنَّہُمْ كَرِہُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَہُمْ۝ ٩ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [...  الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ كره قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ : ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة/ 33] ( ک ر ہ ) الکرہ ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة/ 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا حبط وحَبْط العمل علی أضرب : أحدها : أن تکون الأعمال دنیوية فلا تغني في القیامة غناء، كما أشار إليه بقوله : وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان/ 23] والثاني : أن تکون أعمالا أخروية، لکن لم يقصد بها صاحبها وجه اللہ تعالی، كما روي : «أنه يؤتی يوم القیامة برجل فيقال له : بم کان اشتغالک ؟ قال : بقراءة القرآن، فيقال له : قد کنت تقرأ ليقال : هو قارئ، وقد قيل ذلك، فيؤمر به إلى النار» «1» . والثالث : أن تکون أعمالا صالحة، ولکن بإزائها سيئات توفي عليها، وذلک هو المشار إليه بخفّة المیزان . وأصل الحبط من الحَبَطِ ، وهو أن تکثر الدابة أكلا حتی ينتفخ بطنها، وقال عليه السلام : «إنّ ممّا ينبت الربیع ما يقتل حبطا أو يلمّ» «2» . وسمّي الحارث الحَبَطَ «3» ، لأنه أصاب ذلك، ثم سمي أولاده حَبَطَات . ( ح ب ط ) الحبط حبط عمل کی تین صورتیں ہیں ۔ ( 1) اول یہ کہ وہ اعمال دینوی ہوں اس لئے قیامت کے دن کچھ کام نہین آئیں گے اسی کیطرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ۔ وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان/ 23] اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ ( 2 ) اعمال تو اخروی ہو لیکن انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے نہ کیا گیا ہو جیسا کہ مروی ہے کہ قیامت کے دن آدمی لایا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا کہ تو کس قسم کے عمل کرتا رہا وہ جواب دے گا کہ میں قرآن پاک پڑھتا رہا تو اس سے کہا جائے گا کہ تونے قرآن اس لئے پڑھا تھا کہ تجھے قاری کہا جائے سو لوگ تجھے قاری کہتے رہے حکم ہوگا کہ اس دوزخ میں لے جاؤ ۔ ( 3 ) تیسری صورت یہ ہے کہ اعمال صالحہ کئے ہوں گے لیکن ان کے بالمقابل گناہ کا بارا ستقدر ہوگا کہ اعمال صالحہ بےاثر ہوکر رہ جائیں گے اور گناہوں کا پلہ بھاری رہے گا اسی کی طرف خفۃ المیزان سے اشارہ فرمایا گیا ہے ۔ اصل میں حبط کا لفظ حبط سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کہ جانور اتنا زیادہ کھا جائے کہ اس کا پیٹ اپھر جائے ۔ حدیث میں ہے (70) ان مما ینبت الربیع مایقتل حبطا او یلم بعض اوقات موسم ربیع کی گھاس یا پیٹ میں ابھار کی وجہ سے قتل کردتی ہے اور یا بیمار کردیتی ہے ۔ ایک شخص حارث کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وہ نفخ بطن سے مرگیا تھا تو اس کا نام الحدث الحبط پڑگیا اور اس کی اولاد کو حبطات کہا جاتا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور یہ جھوٹا کرنا اس وجہ سے ہوگا کہ انہوں نے اس چیز کا انکار کیا جو بذریعہ جبریل امین محمد پر نازل کی گئی تو حق تعالیٰ نے ان کے تمام اعمال کو ضائع کردیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩ { ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَرِہُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَہُمْ } ” یہ اس لیے کہ انہوں نے اس چیز کو ناپسند کیا جو اللہ نے نازل کی تو اس نے ان کے تمام اعمال کو ضائع کردیا۔ “ ایسے لوگوں کے نامہ ہائے اعمال میں جو نیک اعمال ہوں گے وہ بھی سب کے سب ضائع کردیے جائیں گے۔ جیسے مشرکین میں...  سے بعض لوگ غریبوں کو کھانا کھلاتے تھے اور حاجیوں کی مہمان نوازی کا خصوصی اہتمام کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ بہت نیکی کے کام کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو سورة التوبہ کی آیت ١٩ میں دو ٹوک انداز میں بتادیا گیا : { اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰہَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِط لاَ یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰہِط } ” کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد ِحرام کو آباد رکھنے کو برابر کردیا ہے اس شخص (کے اعمال ) کے جو ایمان لایا اللہ پر اور یوم آخرت پر اور اس نے جہاد کیا اللہ کی راہ میں ؟ یہ برابر نہیں ہوسکتے اللہ کے نزدیک “۔ بہر حال یہ اللہ کا حتمی فیصلہ اور اٹل قانون ہے کہ اگر کوئی اللہ کے نازل کردہ قرآن کو ناپسند کرتا ہے تو اس کے تمام نیک اعمال بھی برباد ہوجائیں گے اور توشہ آخرت کے طور پر اس کے پاس کچھ بھی نہ بچے گا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

14 That is, "They preferred the whims, superstitions, customs and moral perversion of their former ignorance and did not like the teaching that Allah had revealed to guide them to the right way.

سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :14 یعنی انہوں نے اپنی پرانی جاہلیت کے اوہام و تخیلات اور رسم و رواج اور اخلاقی بگاڑ کو ترجیح دی اور اس تعلیم کو پسند نہ کیا جو اللہ نے ان کو سیدھا راستہ بتانے کے لیے نازل کی تھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(47:9) ذلک : ای الضلال والتعس۔ یہ بربادی اور خواری۔ بانہم میں ب سببیہ ہے یہ (بربادی و خواری) اس لئے کہ انہوں نے ۔۔ کرھوا ۔ ماضی جمع مذکر غائب کراھۃ (باب سمع) مصدر۔ انہوں نے ناپسند کیا۔ ما انزل اللہ ۔ جو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا۔ یعنی قرآن “۔ فاحبط اعمالہم۔ احبط ماضی واحد مذکر غائب۔ احباط (افعال)...  مصدر۔ اس نے اکارت کردیا (ان کے اعمال کو) ۔ حبط اعمال کی تین اقسام ہیں۔ (1) ایمان نہ ہونے کے باعث دنیا کے تمام اچھے کام مثلاً حسن معاشرت ، پاکیزہ اخلاق وغیرہ آخرت میں بالکل بےنتیجہ ہیں۔ (2) انسان میں ایمان موجود ہے لیکن جو اعمال خیر سر انجام دئیے وہ لوجہ اللہ نہیں تھے اس لئے اکارت ہوئے۔ (3) اعمال صالحہ تو موجود ہیں لیکن اس کے مقابل اس کثرت سے گناہ کئے کہ اعمال صالحہ بےاثر ہو کر رہ گئے اور گناہوں کا پلہ بھاری رہا  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ذلک بانھم ۔۔۔۔ اعمالھم (٤٧ : ٩) “ کیونکہ انہوں نے اس چیز کو ناپسند کیا جسے اللہ نے نازل کیا ہے۔ لہٰذا اللہ نے ان کے اعمال ضائع کر دئیے ”۔ اس سے اس بات کی بہت اچھی تصویر کشی ہوتی ہے کہ ان کے دلوں میں قرآن کریم کے بارے میں کس قدر کراہت ہے۔ اور اللہ کی شریعت اور نظام کو وہ کس قدر ناپسند کرتے ہیں اور یہ... ی کراہت ہی ان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ کفر کریں ، مسلمانوں سے دشمنی رکھیں اور جنگ وجدال اور تنازعات رکھیں۔ درحقیقت یہ ہے کہ اکثر لوگوں کی اسلام کے بارے میں ذہنی حالت یہی ہوتی ہے۔ وہ اسلام کو نہایت ہی مکروہ سمجھتے ہیں اور اس سے متصادم ہوتے ہیں اگرچہ یہ بہترین اور مستحکم نظام ہے ، لیکن ان لوگوں کو پسند نہیں ہوتا۔ یہ اس قسم کے لوگ ہیں جو ہر زمان و مکان میں پائے جاتے ہیں۔ اور آپ ان سے مل سکتے ہیں۔ جب آپ ایسے لوگوں سے ملیں گے تو ان کے منہ اور رویہ سے اسلام کے خلاف نفرت کا لاوا پھوٹ رہا ہوگا۔ بعض لوگوں کو تو اس قدر الرجی ہوتی ہے کہ محض اسلام کے ذکر ہی سے ان کو بچھو کاٹنے شروع کردیتے ہیں۔ اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی معاملے میں اور کسی مکالمے میں اسلام کا ذکر ہی نہ آئے۔ آج ہمارے دور کی ایسے بہت سے لوگ ملتے ہیں اور ان کا یہ طرز عمل کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کی سزا کیا ہے ؟ یہ کہ اللہ نے ان کے تمام اعمال کو باطل کردیا اور اعمال کے لئے حبط کے لفظ کا استعمال قرآن مجید کا مخصوص انداز ہے جس میں وہ کسی مفہوم کو نہایت ہی حسی انداز دے دیتا ہے۔ “ حیوط ” کا لفظی معنی ہے کسی جانور کا زہریلی گھاس کھا کر پھول جانا ، اس پھولنے سے جانور گھنٹوں میں ہلاک ہوجاتا ہے۔ اسی طرح کفار کے اعمال بھی پھول جاتے ہیں ، بظاہر وہ بہت ہی بڑے بڑے نظر آتے ہیں لیکن انجام ہلاکت و بربادی ہوتا ہے۔ یہ ایک تصویر ہے ، ایک حرکت ہے جس میں ان لوگوں کی حالت کو بتایا گیا ہے جو اسلام سے نفرت کرتے ہیں اور اپنے بڑے بڑے کاموں پر مغرور ہوتے ہیں اور یہ اعمال پھولے ہوئے ہوتے ہیں جس طرح جانور زہریلی گھاس کھا کر پھول جاتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(9) یہ تباہی اور اعمال کا بیکار ہوجانا اس سبب سے ہے کہ ان دین حق کے منکروں نے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کو پسند نہ رکھا اور ناپسند کیا لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال کو اکارت اور بیکار اور نابود کردیا۔ یعنی دین حق کی مخالفت اور مانزل اللہ سے بغاوت کرنے کا یہ قدرتی اثر ہے کہ اس کے اعمال ضائع ک... ردیئے جائیں اور ان اعمال پر جو اس نے بھلے سمجھ کر کئے ہیں کوئی مفید نتیجہ مرتب نہ ہو، دوسری قوموں کے حالات دیکھنے اور چل پھر کر دوسرے منکروں کے انجام سے عبرت پکڑنے کو فرمایا۔  Show more