Surat ul Fatah

The Victory

Surah: 48

Verses: 29

Ruku: 4

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

تفسیر سورۃ فتح صحیح بخاری ، صحیح مسلم اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن مغفل سے روایت ہے کہ فتح مکہ والے سال اثناء سفر میں راہ چلتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی پر ہی سورہ فتح کی تلاوت کی اور ترجیع سے پڑھ رہے تھے ۔ اگر مجھے لوگوں کے جمع ہو جانے کا ڈر نہ ہوتا تو میں آپ کی تلاوت کی طرح ہی تلاوت کر کے تمہیں سنا دیتا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الْفَتْح نام : پہلی ہی آیت کے الفاظ اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا سے ماخوذ ہے ۔ یہ محض اس سورت کا نام ہی نہیں بلکہ مضمون کے لحاظ سے بھی اس کا عنوان ہے کیونکہ اس میں اس فتح عظیم پر کلام کیا گیا ہے جو صلح حدیبیہ کی شکل میں اللہ تعالی نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں کو عطا فرمائی تھی ۔ زمانۂ نزول : روایات اس پر متفق ہیں کہ اس کا نزول ذی القعدہ 6ھ میں اس وقت ہوا تھا جب آپ کفار مکہ سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ کرنے کے بعد مدینہ منورہ واپس تشریف لے جا رہے تھے تاریخ پس منظر : جن واقعات کے سلسلے میں یہ سورت نازل ہوئی ان کی ابتداء اس طرح ہوئی ہے کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خواب میں دیکھا کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ مکہ معظمہ تشریف لے گئے ہیں اور وہاں عمرہ ادا فرمایا ہے ۔ پیغمبر کا خواب ظاہر ہے کہ محض خواب و خیال نہ ہو سکتا تھا وہ تو وحی کی اقسام میں سے ایک قسم ہے اور آگے چل کر آیت 27 میں اللہ تعالیٰ نے توثیق کر دی ہے کہ یہ خواب ہم نے اپنے رسول کو دکھایا تھا ۔ اس لیے درحقیقت یہ نرا خواب نہ تھا بلکہ ایک الہی اشارہ تھا جس کی پیروی کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ضروری تھا ۔ بظاہر اسباب اس ہدایت پر عمل کرنے کی کوئی صورت ممکن نظر نہ آتی تھی ۔ کفار قریش نے 6 سال سے مسلمانوں کے لیے بیت اللہ کا راستہ بند کر رکھا تھا اور اس پوری مدت میں کسی مسلمان کو انہوں نے حج اور عمرے تک کے لیے حدود حرم کے قریب نہ پھٹکنے دیا تھا ۔ اب آخر یہ کیسے توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی ایک جمعیت کے ساتھ مکہ میں داخل ہونے دیں گے ۔ عمرے کا احرام باندھ کر جنگی ساز و سامان ساتھ لیے ہوئے نکلنا گویا خود لڑائی کو دعوت دینا تھا اور غیر مسلح جانے کے معنی اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جان خطرے میں ڈالنے کے تھے ۔ ان حالات میں کوئی شخص یہ نہ سمجھ سکتا تھا کہ اللہ تعالی کے اس اشارے پر عمل کیا جائے تو کیسے ۔ مگر پیغمبر کا منصب یہ تھا کہ اس کا رب جو حکم بھی اس کو دے وہ بےکھٹکے اس پر عمل کر گذرے ۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بلا تامل اپنا خواب صحابہ کرام کو سنا کر سفر کی تیاری شروع کر دی ۔ آس پاس کے قبائل میں بھی آپ نے اعلان عام کرا دیا کہ ہم عمرے کے لیے جا رہے ہیں جو ہمارے ساتھ چلنا چاہے وہ آ جائے ۔ جن لوگوں کی نگاہ ظاہری اسباب پر تھی انہوں نے سمجھا کہ یہ لوگ موت کے منہ میں جا رہے ہیں ۔ ان میں سے کوئی آپ کے ساتھ چلنے پر آمادہ نہ ہوا ۔ مگر جو اللہ اور اس کے رسول پر سچا ایمان رکھتے تھے انہیں اس امر کی کوئی پروا نہ تھی کہ انجام کیا ہوگا ۔ ان کے لیے بس یہ کافی تھا کہ اللہ کا اشارہ ہے اور اس کا رسول تعمیل حکم کے لیے اٹھ کھڑا ہوا ہے ۔ اس کے بعد کوئی چیز ان کو رسول خدا کا ساتھ دینے سے روک نہ سکتی تھی ۔ 1400 صحابی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی معیت میں اس نہایت خطرناک سفر پر جانے کے لیے تیار ہو گئے ۔ ذی القعدہ 6ھ کے آغاز میں یہ مبارک قافلہ مدینہ سے روانہ ہوا ۔ ذوالحلیفہ پہنچ کر سب نے عمرے کا احرام باندھا ۔ قربانی کے لیے 70 اونٹ ساتھ لیے جن کی گردنوں میں ھدی کی علامت کے طور پر قلادے پڑے ہوئے تھے ۔ پرتلوں میں صرف ایک ایک تلوار رکھ لی جس کی تمام زائرین حرم کو عرب کے معروف قاعدے کے مطابق اجازت تھی اور اس کے سوا کوئی سامان جنگ ساتھ نہ لیا ۔ اس طرح یہ قافلہ لبیک لبیک کی صدائیں بلند کرتا ہوا بیت اللہ کی طرف چل پڑا ۔ اس وقت مکہ اور مدینے کے تعلقات کی جو نوعیت تھی ، عرب کا بچہ بچہ اس کو جانتا تھا ۔ ابھی پچھلے سال ہی تو شوال 5ھ میں قریش نے قبائل عرب کی متحدہ طاقت کے ساتھ مدینے پر چڑھائی کی تھی اور غزوہ احزاب کا مشہور معرکہ پیش آ چکا تھا ۔ اس لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اتنے بڑے قافلے کے ساتھ اپنے خون کے پیاسے دشمنوں کے گھر کی طرف روانہ ہوئے تو پورے عرب کی نگاہیں اس عجیب سفر کی طرف مرکوز ہو گئیں اور لوگوں نے یہ بھی دیکھ لیا کہ یہ قافلہ لڑنے کے لیے نہیں جا رہا ہے بلکہ ماہ حرام میں ، احرام باندھ کر ، ھدی کے اونٹ ساتھ لیے ہوئے بیت اللہ کا طواف کرنے جا رہا ہے اور قطعی طور پر غیر مسلح ہے ۔ قریش کے لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس اقدام نے سخت پریشانی میں ڈال دیا ۔ ذی القعدہ کا مہینہ ان حرام مہینوں میں سے تھا جو صدہا برس سے عرب میں حج و زیارت کے لیے محترم سمجھے جاتےتھے ۔ اس مہینے میں جو قافلہ احرام باندھ کر حج یا عمرے کے لیے جا رہا ہو اسے روکنے کا کسی کو حق نہ تھا ، حتی کہ کسی قبیلے سے اس کی دشمنی بھی ہو تو عرب کے مسلمہ قوانین کی رو سے وہ اپنے علاقے سے اس کے گذرنے میں مانع نہ ہو سکتا تھا ۔ قریش کے لوگ اس الجھن میں پڑ گئے کہ اگر ہم مدینے کے اس قافلے پر حملہ کر کے اسے مکہ معظمہ میں داخل ہونے سے روکتے ہیں تو پورے ملک میں اس پر شور مچ جائے گا ۔ عرب کا ہر شخص پکار اٹھے گا کہ یہ سراسر زیادتی ہے ۔ تمام قبائل عرب یہ سمجھیں گے کہ ہم خانہ کعبہ کے مالک بن بیٹھے ہیں ۔ ہر قبیلہ اس تشویش میں مبتلا ہو جائے گا کہ آئندہ کسی کو حج اور عمرہ کرنے دینا یا نہ کرنے دینا اب ہماری مرضی پر موقوف ہے ، جس سے بھی ہم ناراض ہو گے اسے بیت اللہ کی زیارت کرنے سے اسی طرح روک دیں گے جس طرح آج مدینے کے ان زائرین کو روک رہے ہیں ۔ یہ ایسی غلطی ہوگی کہ جس سے سارا عرب ہم سے منحرف ہو جائے گا ۔ لیکن اگر ہم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اتنے بڑے قافلے کے ساتھ بخیریت اپنے شہر میں داخل ہو جانے دیتے ہیں تو پورے ملک میں ہماری ہوا اکھڑ جائے گی اور لوگ کہیں گے کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مرعوب ہو گئے ۔ آخرکار بڑی شش و پنج کے بعد ان کی جاہلانہ حمیت ہی ان پر غالب آ کر رہی اور انہوں نے اپنی ناک کی خاطر یہ فیصلہ کر لیا کہ کسی قیمت پر بھی اس قافلے کو شہر میں داخل نہیں ہونے دینا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بنی کعب کے ایک شخص کو مخبر کی حیثیت سے آگے بھیج رکھا تھا تاکہ وہ قریش کے ارادوں اور ان کی نقل و حرکت سے آپ کو بروقت مطلع کرتا رہے ۔ جب آپ عسفان پہنچے تو اس نے آکر آپ کو اطلاع دی کہ قریش کے لوگ پوری تیاری کے ساتھ ذی طوی کے مقام پر پہنچ گئے ہیں اور خالد بن ولید کو انہوں نے 200 سواروں کے ساتھ کراع الغمیم کی طرف آگے بھیج دیا ہے تاکہ وہ آپ کا راستہ روکیں ۔ قریش کی چال یہ تھی کہ کسی نہ کسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں سے چھیڑ چھاڑ کر کے ان کو اشتعال دلائیں اور پھر اگر لڑائی ہو جائے تو پورے ملک میں یہ مشہور کر دیں کہ یہ لوگ دراصل آئے تھے لڑنے کے لیے ، مگر بہانہ انہوں نے عمرے کا کیا تھا اور احرام محض دھوکہ دینے کے لیے باندھ رکھا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ اطلاع پاتے ہی فورا راستہ بدل دیا اور ایک نہایت دشوار گذار راستہ سے سخت مشقت اٹھا کر حدیبیہ کے مقام پر پہنچ گئے جو عین حرم کی سرحد پر واقع تھا ۔ یہاں بنی خزاعہ کا سردار بدیل بن ورقا اپنے قبیلے کے چند آدمیوں کے ساتھ آپ کے پاس آیا اور اس نے پوچھا کہ آپ کس غرض کے لیے آئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے ، صرف بیت اللہ کی زیارت اور اس کا طواف ہمارے پیش نظر ہے ۔ یہی بات ان لوگوں نے جا کر قریش کے سرداروں کو بتا دی اور ان کو مشورہ دیا کہ وہ ان زائرین حرم کا راستہ نہ روکیں ۔ مگر وہ اپنی ضد پر اڑے رہے اور انہوں نے احابیش کے سردار حلی بن علقمہ کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بھیجا تاکہ وہ آپ کو واپس جانے پر آمادہ کرے ۔ سرداران قریش کا مقصد یہ تھا کہ جب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کی بات نہ مانیں گے تو وہ ان سے ناراض ہو کر پلٹے گا اور پھر احابیش کی پوری طاقت ہمارے ساتھ ہوگی ۔ مگر جب اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ سارا قافلہ احرام بند ہے ، ھدی کے اونٹ سامنے کھڑے ہیں جن کی گردنوں میں قلاوے پڑے ہوئے ہیں ، اور یہ لوگ لڑنے کے لیے نہیں بلکہ بیت اللہ کا طواف کرنے کے لیے آئے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کوئی بات کیے بغیر مکہ کی طرف پلٹ گیا اور اس نے جا کر قریش کے سرداروں سے صاف صاف کہہ دیا کہ یہ لوگ بیت اللہ کی عظمت مان کر اس کی زیارت کے لیے آئے ہیں اگر تم ان کو روکو گے تو احابیش اس کام میں تمہارا ساتھ ہرگز نہ دیں گے ۔ ہم تمہارے حلیف اس لیے نہیں بنے ہیں کہ تم حرمتوں کو پامال کرو اور ہم اس میں تمہاری حمایت کریں ۔ پھر قریش کی طرف سے عروہ بن مسعود ثقفی آیا اور اس نے اپنے نزدیک بڑی اونچ نیچ سمجھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس بات پر آمادہ کرنا چاہا کہ آپ مکہ میں داخل ہونے کے ارادے سے باز آجائیں ، مگر آپ نے اس کو بھی وہی جواب دیا جو بنی خزاعہ کے سردار کو دیا تھا کہ ہم لڑائی کے ارادے سے نہیں آئے ہیں بلکہ بیت اللہ کی تعظیم کرنے والے بن کر ایک دینی فریضہ بجا لانے کے لیے آئے ہیں ۔ واپس جا کر عروہ نے قریش کے لوگوں سے کہا کہ میں قیصر و کسری اور نجاشی کے درباروں میں بھی گیا ہوں ، مگر خدا کی قسم ، میں نے اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طرح محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کا فدائی دیکھا ہے ایسا منظر کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کے ہاں بھی نہیں دیکھا ۔ ان لوگوں کا حال تو یہ ہے کہ محمد وضو کرتے ہیں تو ان کے اصحاب پانی کا ایک قطرہ تک زمین پر نہیں گرنے دیتے اور سب اپنے جسم پر کپڑوں پر مل لیتے ہیں ۔ اب تو لوگ سوچ لو کہ تمہارا مقابلہ کس سے ہے ۔ اس دوران جبکہ ایلچیوں کی آمدورفت اور گفت و شنید کا یہ سلسلہ جاری تھا ، قریش کے لوگ بار بار یہ کوشش کرتے رہے کہ چپکے سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کیمپ پر چھاپے مار کر صحابہ کو اشتعال دلائیں اور کسی نہ کسی طرح ان سے کوئی ایسا اقدام کرا لیں جس سے لڑائی کا بہانہ ہاتھ آ جائے ۔ مگر ہر مرتبہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے صبر و ضبط اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حکمت و فراست نے ان کی ساری تدبیروں کو ناکام کر دیا ۔ ایک دفعہ ان کے چالیس پچاس آدمی رات کے وقت آئے اور مسلمانوں کے پڑاؤ پر پتھر اور تیر برسانے لگے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے ان سب کو گرفتار کر کے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے پیش کر دیا ۔ مگر آپ نے ان سب کو چھوڑ دیا ۔ ایک اور موقع پر تنعیم کی طرف سے 80 آدمی عین نماز فجر کے وقت آئے اور انہوں نے اچانک چھاپہ مار دیا ۔ یہ لوگ بھی پکڑے گئے ، مگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں بھی رہا کر دیا ۔ اس طرح قریش کی اپنی ہر چال اور ہر تدبیر میں ناکامی ہوتی چلی گئی ۔ آخر کار حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود اپنی طرف سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو ایلچی بنا کر مکہ بھیجا اور ان کے ذریعے سے سرداران قریش کو یہ پیغام دیا کہ ہم جنگ کے لیے نہیں بلکہ زیارت کے لیے ھدی ساتھ لے کر آئے ہیں ، طواف اور قربانی کر کے واپس چلے جائیں گے ۔ مگر وہ لوگ نہ مانے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مکہ ہی میں روک لیا ۔ اس دوران یہ خبر اڑ گئی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ قتل کر دیے گئے ہیں ، اور ان کے واپس نہ آنے سے مسلمانوں کو یقین ہو گیا کہ یہ خبر سچی ہے ۔ اب مزید تحمل کا کوئی موقع نہ تھا ۔ مکہ میں داخلہ کی بات تو دوسری تھی ، اس کے لیے طاقت کا استعمال ہرگز پیش نظر نہ تھا ۔ مگر جب نوبت سفیر کے قتل تک پہنچ گئی تو پھر اس کے سوا کوئی چارہ باقی نہ رہا کہ مسلمان جنگ کے لیے تیار ہو جائیں ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے تمام ساتھیوں کو جمع کیا اور ان سے اس بات پر بیعت لی کہ اب یہاں سے ہم مرتے دم تک پیچھے نہ ہٹیں گے ۔ موقع کی نزاکت نگاہ میں ہو تو آدمی سمجھ سکتا ہے کہ یہ کوئی معمولی بیعت نہ تھی ۔ مسلمان صرف 1400 تھے اور کسی سامان جنگ کے بغیر آئے تھے ۔ اپنے مرکز سے ڈھائی سو میل دور ، عین مکہ کی سرحد پر ٹھیرے ہوئے تھے ، جہاں دشمن اپنی پوری طاقت کے ساتھ ان پر حملہ آور ہو سکتا تھا اور گرد و پیش سے اپنے حامی قبیلوں کو لا کر بھی انہیں گھیرے میں لے سکتا تھا ۔ اس کے باوجود ایک شخص کے سوا پورا قافلہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ پر مرنے مارنے کی بیعت کرنے کے لیے بلا تامل آمادہ ہو گیا ۔ اس سے بڑھ کر ان لوگوں کو اخلاص ایمانی اور راہ خدا میں ان کی فدائیت کا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے ۔ یہی وہ بیعت ہے جو بیعت رضوان کے نام سے تاریخ اسلام میں مشہور ہے ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کی خبر غلط تھی ۔ وہ خود بھی واپس آ گئے اور قریش کی طرف سے سہیل بن عمرو کی قیادت میں ایک وفد بھی صلح کی بات چیت کرنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کیمپ میں پہنچ گیا ۔ اب قریش اپنی اس ضد سے ہٹ گئے تھے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اور آپ کے ساتھیوں کو سرے سے مکہ میں داخل ہی نہ ہونے دیں گے ۔ البتہ اپنی ناک بچانے کے لیے ان کا صرف یہ اصرار تھا کہ آپ اس سال واپس چلے جائیں ، آئندہ سال آپ عمرے کے لیے آ سکتے ہیں ۔ طویل گفت و شنید کے بعد جن شرائط پر صلح نامہ لکھا گیا وہ یہ تھیں: 1. دس سال تک فریقین کے درمیان جنگ بند رہے گی ، اور ایک دوسرے کے خلاف خفیہ اور علانیہ کوئی کاروائی نہ کی جائے گی ۔ 2. اس دوران قریش کا جو شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر بھاگ کر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جائے گا اسے آپ واپس کر دیں گے اور آپ کے ساتھیوں میں سے جو شخص قریش کے پاس چلا جائے گا اسے وہ واپس نہ کریں گے ۔ 3. قبائل عرب میں سے جو قبیلہ بھی فریقین میں سے کسی ایک کا حلیف بن کر اس معاہدے میں شامل ہونا چاہے گا اسے اس کا اختیار ہوگا ۔ 4. محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس سال واپس جائیں گے اور آئندہ سال وہ عمرے کے لیے آ کر تین دن مکہ میں ٹھیر سکتے ہیں ، بشرطیکہ پرتلوں میں صرف ایک ایک تلوار لے کر آئیں اور کوئی سامان حرب ساتھ نہ لائیں ۔ ان تین دنوں میں اہل مکہ ان کے لیے شہر خالی کر دیں گے ( تاکہ کسی تصادم کی نوبت نہ آئے ) ۔ مگر واپس جاتے ہوئے وہ یہاں کے کسی شخص کو اپنے ساتھ لے جانے کے مجاز نہ ہوں گے ۔ جس وقت اس معاہدے کی شرائط طے ہو رہی تھیں ، مسلمانوں کا پورا لشکر سخت مضطرب تھا ۔ کوئی شخص بھی ان مصلحتوں کو نہیں سمجھ رہا تھا جنہیں نگاہ میں رکھ کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ شرائط قبول فرما رہے تھے ۔ کسی کی نظر اتنی دور رس نہ تھی کہ اس صلح کے نتیجے میں جو خیر عظیم رونما ہونے والی تھی اسے دیکھ سکے ۔ کفار قریش اسے اپنی کامیابی سمجھ رہے تھے اور مسلمان اس پر بے تاب تھے کہ ہم آخر دب کر یہ ذلیل شرائط کیوں قبول کریں ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے بالغ النظر مدبر تک کا یہ حال تھا کہ وہ کہتے ہیں کہ مسلمان ہونے کے بعد کبھی میرے دل میں شک نے راہ نہ پائی تھی ، مگر اس موقع پر میں بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکا ۔ وہ بے چین ہو کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور کہا کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کے رسول نہیں ہیں؟ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ کیا یہ لوگ مشرک نہیں ہیں؟ پھر آخر ہم اپنے دین کے معاملے میں یہ ذلت کیوں اختیار کریں؟ انہوں نے جواب دیا اے عمر! وہ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ ان کو ہرگز ضائع نہ کرے گا ۔ پھر ان سے صبر نہ ہوا جاکر یہی سوالات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بھی کیے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی ان کو ویسا ہی جواب دیا جیسا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے دیا تھا ۔ بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدتوں اس پر نوافل اور صدقات ادا کرتے رہے تاکہ اللہ تعالی اس گستاخی کو معاف فرما دے جو اس روز ان سے شان رسالت میں ہو گئی تھی ۔ سب سے زیادہ دو باتیں اس معاہدے میں لوگوں کو بری طرح کھل رہی تھیں ۔ ایک شرط نمبر 2 جس کے متعلق لوگ کہتے تھے کہ یہ صریح نامساوی شرط ہے ۔ اگر مکہ سے بھاگ کر آنے والوں کو ہم واپس کریں تو مدینہ سے بھاگ کر جانے والے کو کیوں نہ واپس کریں؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس پر فرمایا جو ہمارے ہاں سے بھاگ کر ان کے پاس چلا جائے وہ آخر ہمارے کس کام کا ہے؟ اللہ اسے ہم سے دور ہی رکھے ۔ اور جو ان کے ہاں سے بھاگ کر ہمارے پاس آ جائے اسے اگر ہم واپس کر دیں گے تو اللہ اس کے لیے خلاصی کی کوئی اور صورت پیدا فرما دے گا ۔ دوسری چیز جو لوگوں کے دلوں میں کھٹک رہی تھی وہ چوتھی شرط تھی ۔ مسلمان یہ سمجھ رہے تھے کہ اسے ماننے کے معنی یہ ہیں کہ تمام عرب کے سامنے گویا ہم ناکام واپس جا رہے ہیں ۔ مزید براں یہ سوال بھی دلوں میں خلش پیدا کر رہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خواب میں دیکھا تھا کہ ہم مکہ میں طواف کر رہے ہیں ، مگر یہاں تو ہم طواف کیے بغیر واپس جانے کی شرط مان رہے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس پر لوگوں کو سمجھایا کہ خواب میں آخر اسی سال طواف کرنے کی صراحت تو نہ تھی ۔ شرائط صلح کے مطابق اس سال نہیں تو اگلے سال انشاء اللہ طواف ہوگا ۔ جلتی پر تیل کا کام جس واقعہ نے کیا وہ یہ تھا کہ عین اس وقت جب صلح کا معاہدہ لکھا جا رہا تھا ، سہیل بن عمرو کے اپنے صاحبزادے ابو جندل ، جو مسلمان ہو چکے تھے اور کفار مکہ نے ان کو قید کر رکھا تھا ، کسی نہ کسی طرح بھاگ کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کیمپ میں پہنچ گئے ۔ ان کے پاؤں میں بیڑیاں تھیں اور جسم پر تشدد کے نشانات تھے ۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فریاد کی کہ مجھے اس حبس بے جا سے نجات دلائی جائے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے لیے یہ حالت دیکھ کر ضبط کرنا مشکل ہو گیا ۔ مگر سہیل بن عمرو نے کہا کہ صلح نامے کی تحریر چاہے مکمل نہ ہوئی ہو ، شرائط تو ہمارے اور آپ کے درمیان طے ہو چکی ہیں ، اس لیے اس لڑکے کو میرے حوالے کیا جائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی حجت تسلیم فرمالی اور ابو جندل ظالموں کے حوالے کر دیے گئے ۔ صلح سے فارغ ہو کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے فرمایا کہ اب یہیں قربانی کر کے سر منڈواؤ اور احرام ختم کر دو ۔ مگر کوئی اپنی جگہ سے نہ ہلا ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین مرتبہ حکم دیا ، مگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم پر اس وقت رنج و غم اور دل شکستگی کا ایسا شدید غلبہ تھا کہ انہوں نے اپنی جگہ سے حرکت نہ کی ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پورے دور رسالت میں اس ایک موقع کے سوا کبھی یہ صورت پیش نہ آئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو حکم دیں اور وہ اس کی تعمیل کے لیے دوڑ نہ پڑیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس پر سخت صدمہ ہوا اور آپ نے اپنے خیمے میں جا کر ام المومنین حضرت ام سلمہ سے اپنی کبیدہ خاطری کا اظہار فرمایا ۔ انہوں نےعرض کیا کہ آپ بس خاموشی کے ساتھ تشریف لے جا کر خود اپنا اونٹ ذبح فرمائیں اور حجام کو بلا کر اپنا سر منڈوا لیں ۔ اس کے بعد لوگ خود بخود آپ کے عمل کی پیروی کریں گے اور سمجھ لیں گے کہ جو فیصلہ ہو چکا ہے وہ اب بدلنے والا نہیں ہے ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور آپ کے فعل کو دیکھ کر لوگوں نے بھی قربانیاں کر لیں ، سر منڈوا لیے یا بال ترشوا لیے اور احرام سے نکل آئے ۔ مگر دل ان کے غم سے کٹے جا رہے تھے ۔ اس کے بعد جب یہ قافلہ حدیبیہ کی صلح کو اپنی شکست اور ذلت سمجھتا ہوا مدینہ کی طرف واپس جا رہا تھا ، اس وقت ضجنان کے مقام پر ( یا بقول بعض کراع الغمیم کے مقام پر ) یہ سورت نازل ہوئی ، جس نے مسلمانوں کو بتایا کہ یہ صلح جس کو وہ شکست سمجھ رہے ہیں دراصل فتح عظیم ہے ۔ اس کے نازل ہونے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کو جمع کیا اور فرمایا آج مجھ پر وہ چیز نازل ہوئی ہے جو میرے لیے دنیا و مافیہا سے زیادہ قیمتی ہے ۔ پھر یہ سورت آپ نے تلاوت فرمائی اور خاص طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بلا کر اسے سنایا کیونکہ وہ سب سے زیادہ رنجیدہ تھے ۔ اگرچہ اہل ایمان تو اللہ تعالی کا یہ ارشاد سن کر ہی مطمئن ہو گئے تھے ، مگر کچھ زیادہ مدت نہ گذری تھی کہ اس صلح کے فوائد ایک ایک کرتے کھلتے چلے گئے یہاں تک کہ کسی کو بھی اس امر میں شک نہ رہا کہ فی الواقع یہ صلح ایک عظیم الشان فتح تھی ۔ 1. اس میں پہلی مرتبہ عرب میں اسلامی ریاست کا وجود باقاعدہ تسلیم کیا گیا ۔ اس سے پہلے تک عربوں کی نگاہ میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے ساتھیوں کی حیثیت محض قریش اور قبائل عرب کے خلاف خروج کرنے والے ایک گروہ کی تھی اور ان کو برادری سے باہر ( Outlaw ) سمجھتے تھے ۔ اب خود قریش ہی نے آپ سے معاہدہ کر کے سلطنت اسلامی کے مقبوضات پر آپ کا اقتدار مان لیا اور قبائل عرب کے لیے یہ دروازہ بھی کھول دیا کہ ان دونوں سیاسی طاقتوں میں سےجس کے ساتھ چاہیں حلیفانہ معاہدات کرلیں ۔ 2. مسلمانوں کے لیے زیارت بیت اللہ کا حق تسلیم کر کے قریش نے آپ سے آپ گویا یہ بھی مان لیا کہ اسلام کوئی بے دینی نہیں ہے جیسا کہ وہ اب تک کہتے چلے آ رہے تھے ، بلکہ عرب کے مسلمہ ادیان میں سے ایک ہے اور دوسرے عربوں کی طرح اس کے پیرو بھی حج و عمرہ کے مناسک ادا کرنے کا حق رکھتے ہیں ۔ اس سے اہل عرب کے دلوں کی وہ نفرت کم ہو گئی جو قریش کے پروپیگنڈا سے اسلام کے خلاف پیدا ہو گئی تھی ۔ 3. دس سال کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ ہو جانے سے مسلمانوں کو امن میسر آ گیا اور انہوں نے عرب کے تمام اطراف و نواح میں پھیل کر اس تیزی سے اسلام کی اشاعت کی کہ صلح حدیبیہ سے پہلے پورے 19 سال میں اتنے آدمی مسلمان نہ ہوئے تھے جتنے اس کے بعد دو سال کے اندر ہو گئے ۔ یہ اسی صلح کی برکت تھی کہ یا تو وہ وقت تھا جب حدیبیہ کے مقام پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ 1400 آدمی آئے تھے ، یا دو ہی سال کے بعد جب قریش کی عہد شکنی کے نتیجے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ پر چڑھائی کی تو دس ہزار کا لشکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب تھا ۔ 4. قریش کی طرف سے جنگ بند ہو جانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ موقع مل گیا کہ اپنے مقبوضات میں اسلامی حکومت کو اچھی طرح مستحکم کرلیں اور اسلامی قانون کے اجراء سے مسلم معاشرے کو ایک مکمل تہذیب و تمدن بنا دیں ۔ یہی وہ نعمت عظمی ہے جس کے متعلق اللہ تعالی نے سورہ مائدہ کی آیت 3 میں فرمایا کہ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے ۔ 5. قریش سے صلح کے بعد جنوب کی طرف سے اطمینان نصیب ہو جانے کا فائدہ یہ بھی ہوا کہ مسلمانوں نے شمال{زیر} عرب اور وسط عرب کی تمام مخالف طاقتوں کو با آسانی مسخر کر لیا ۔ صلح حدیبیہ پر تین ہی مہینے گذرے تھے کہ یہودیوں کا سب سے بڑا گڑھ خیبر فتح ہو گیا اور اس کے بعد فدک ، وادی القری ، تیما اور تبوک کی یہودی بستیاں اسلام کے زیر نگیں آتی چلی گئیں ۔ پھر وسط عرب کے وہ تمام قبیلے بھی ، جو یہود و قریش کے ساتھ گٹھ جوڑ رکھتے تھے ، ایک ایک کر کے تابع فرمان ہو گئے ۔ اس طرح حدیبیہ کی صلح نے دو ہی سال کے اندر عرب میں قوت کا توازن اتنا بدل دیا کہ قریش اور مشرکین کی طاقت دب کر رہ گئی اور اسلام کا غلبہ یقینی ہو گیا ۔ یہ تھیں وہ برکات جو مسلمانوں کو اس صلح سے حاصل ہوئیں جسے وہ اپنی ناکامی اور قریش اپنی کامیابی سمجھ رہے تھے ۔ سب سے زیادہ جو چیز اس صلح میں مسلمانوں کو ناگوار ہوئی تھی اور جسے قریش نے اپنی جیت سمجھا تھا کہ مکہ سے بھاگ کر مدینہ جانے والوں کو واپس کر دیا جائے گا اور مدینہ سے بھاگ کر مکہ جانے والوں کو واپس نہ کیا جائے گا ۔ مگر تھوڑی ہی مدت گذری تھی کہ یہ معاملہ بھی قریش پر الٹا پڑا اور تجربہ نے بتا دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نگاہ دور رس نے اس کے کن نتائج کو دیکھ کر یہ شرط قبول کی تھی ۔ صلح کے کچھ دنوں بعد مکہ سے ایک مسلمان ابو بصیر قریش کی قید سے بھاگ نکلے اور مدینہ پہنچے ۔ قریش نے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے معاہدے کے مطابق انہیں ان لوگوں کے حوالے کر دیا جو ان کی گرفتاری کے لیے مکہ سے بھیجے گئے تھے ۔ مگر مکہ جاتے ہوئے راستے میں وہ پھر ان کی گرفت سے بچ نکلے اور ساحل بحیرہ احمر کے اس راستے پر جا بیٹھے جس سے قریش کے تجارتی قافلے گذرتے تھے ۔ اس کے بعد جس مسلمان کو بھی قریش کی قید سے بھاگ نکلنے کا موقع ملتا وہ مدینہ جانے کے بجائے ابو بصیر کر ٹھکانے پر پہنچ جاتا ، یہاں تک کہ 70 آدمی جمع ہو گئے اور انہوں نے قریش کے قافلوں پر چھاپے مار مار کر ان کا ناطقہ تنگ کر دیا ۔ آخرکار قریش نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے درخواست کی کہ ان لوگوں کو مدینہ بلا لیں اور حدیبیہ کے معاہدے کی وہ شرط آپ سے آپ ساقط ہو گئی ۔ یہ تاریخی پس منظر نگاہ میں رکھ کر اس سورت کو پڑھا جائے تو اسے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

تعارف سورۃ الفتح یہ سورت صلح حدیبیہ کے موقع پر نازل ہوئی تھی، جس کا واقعہ مختصراً یہ ہے کہ ہجرت کے چھٹے سال حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ارادہ فرمایا کہ اپنے صحابہ کے ساتھ عمرہ ادا فرمائیں، آپ نے یہ خواب بھی دیکھا تھا کہ آپ مسجد حرام میں اپنے صحابہ کے ساتھ داخل ہورہے ہیں، چنانچہ آپ چودہ سو صحابہ کے ساتھ مکہ مکرمہ روانہ ہوئے، جب مکہ مکرمہ کے قریب پہنچے تو آپ کو پتہ چلا کہ قریش کے مشرکین نے ایک بڑا لشکر تیار کیا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روکے، اس خبر کے ملنے پر آپ نے اپنی پیش قدمی روک دی، اور مکہ مکرمہ سے کچھ دور حدیبیہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا، (یہ جگہ آج کل شمیسی کہلاتی ہے) وہاں سے آپ نے حضرت عثمان (رض) کو اپنا ایلچی بناکر مکہ مکرمہ بھیجا کہ وہ وہاں کے سرداروں کو بتائیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی جنگ کے ارادے سے نہیں آئے ہیں، وہ صرف عمرہ کرنا چاہتے ہیں اور عمرہ کرکے پر امن طور پر واپس چلے جائیں گے، حضرت عثمان (رض) مکہ مکرمہ گئے تو ان کے جانے کے کچھ ہی بعد یہ افواہ پھیل گئی کہ مکہ مکرمہ کے کافروں نے انہیں قتل کردیا ہے، اس موقع پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو جمع کرکے ان سے یہ بیعت لی،(یعنی ہاتھ میں ہاتھ لے کر یہ عہد لیا) کہ اگر کفار مکہ مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے تو وہ ان کے مقابلے میں اپنی جانوں کی قربانی پیش کریں گے، اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبیلہ خزاعہ کے ایک سردار کے ذریعے قریش کے سرداروں کو یہ پیشکش کی کہ اگر وہ ایک مدت تک جنگ بندی کا معاہدہ کرنا چاہیں تو آپ اس کے لئے تیار ہیں، جواب میں مکہ مکرمہ سے کئی ایلچی آئے، اور آخر کار ایک معاہدہ لکھا گیا، جس میں محمد بن اسحاق کی روایت کے مطابق یہ طے ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قریش آئندہ دس سال تک ایک دوسرے کے خلاف کوئی جنگ نہیں کریں گے،(سیرت ابن ہشام ٢: ٣١٧ وفتح الباری ٨۔ ٢٨٣) اسی معاہدے کو صلح حدیبیہ کا معاہدہ کہا جاتا ہے، صحابہ کرام اس موقع پر کافروں کے طرز عمل سے بہت غم وغصے کی حالت میں تھے، اور کافروں نے صلح کی یہ شرط رکھی تھی کہ اس وقت مسلمان واپس مدینہ منورہ چلے جائیں اور اگلے سال آکر عمرہ کریں، تمام صحابہ احرام باندھ کر آئے تھے، اور کافروں کی ضد کی وجہ سے احرام کھولنا ان کو بہت بھاری معلوم ہورہا تھا، اس کے علاوہ کافروں نے ایک شرط یہ بھی رکھی تھی کہ اگر مکہ مکرمہ کا کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ منورہ جائے گا تو مسلمانوں کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اسے واپس مکہ مکرمہ بھیجیں، اور اگر کوئی شخص مدینہ منورہ چھوڑ کر مکہ مکرمہ آئے گا تو قریش کے ذمے یہ نہیں ہوگا کہ وہ اسے واپس مدینہ منورہ بھیجیں، یہ شرط بھی مسلمانوں کے لئے بہت تکلیف دہ تھی، اور اس کی وجہ سے وہ یہ چاہتے تھے کہ ان شرائط کو قبول کرنے کے بجائے ان کافروں سے ابھی ایک فیصلہ کن معرکہ ہوجائے، لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ اسی صلح کے نتیجے میں آخر کار قریش کا اقتدار ختم ہو، اس لئے اللہ تعالیٰ کے حکم سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ شرائط منظور کرلیں، صحابہ کرام اس وقت جہاد کے جوش سے سرشار تھے اور موت پر بیعت کرچکے تھے ؛ لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے آگے انہوں نے سر جھکادیا اور صلح پر راضی ہو کر واپس مدینہ منورہ چلے گئے، اور اگلے سال عمرہ کیا، اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد ایک واقعہ تو یہ ہوا کہ ایک صاحب جن کا نام ابوبصیر (رضی اللہ عنہ) تھا، مسلمان ہو کر مدینہ منورہ آئے، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاہدے کے مطابق انہیں واپس بھیج دیا، انہوں نے مکہ مکرمہ جانے کے بجائے ایک درمیانی جگہ پڑاؤ ڈال کر قریش کے خلاف چھاپہ مار جنگ شروع کردی، کیونکہ وہ صلح حدیبیہ کے معاہدے کے پابند نہیں تھے، اس چھاپہ مار جنگ سے قریش اتنے پریشان ہوئے کہ خود انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ درخواست کی کہ اب ہم وہ شرط واپس لیتے ہیں جس کی رو سے مکہ مکرمہ کے مسلمانوں کو واپس بھیجنا ضروری قرار دیا گیا تھا، قریش نے کہا کہ اب جو کوئی مسلمان ہو کر آئے تو آپ اسے مدینہ منورہ ہی میں رکھیں، اور ابو بصیر اور ان کے ساتھیوں کو بھی اپنے پاس بلالیں، چنانچہ آپ نے انہیں مدینہ منورہ بلالیا، دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ قریش کے کافروں نے دوسال کے اندر اندر حدیبیہ کے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں پیغام بھیجا کہ یا تو وہ اس کی تلافی کریں یا معاہدہ ختم کریں، قریش نے اس وقت غرور میں آکر کوئی بات نہ مانی، جس کی وجہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو پیغام بھیج دیا کہ اب ہمارا آپ کا معاہدہ ختم ہوگیا ہے، اس کے بعد آپ نے ہجرت کے آٹھویں سال دس ہزار صحابہ کرام کے ساتھ مکہ مکرمہ کی طرف پیش قدمی فرمائی، اس وقت قریش کا غرور ٹوٹ چکا تھا، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی خاص خونریزی کے بغیر مکہ مکرمہ میں فاتح بن کر داخل ہوئے، اور قریش کے لوگوں نے شہر آپ کے حوالے کردیا۔ سورۂ فتح میں صلح حدیبیہ کے مختلف واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے اور صحابہ کرام کی تعریف کی گئی ہے کہ انہوں نے اس واقعے کے ہر مرحلے پر بڑی بہادری سرفروشی اور اطاعت کے جذبے کا مظاہرہ کیا، دوسری طرف منافقین کی بد اعمالیوں اور ان کے برے انجام کا بھی ذکر فرمایا گیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ نمبر 48 کل رکوع 4 آیات 29 الفاظ و کلمات 568 حروف 2555 مقام نزول مکہ مکرمہ ٭ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ایسا عظیم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عطا فرمایا ہے جو شاہد ‘ بشیر اور نذیر ہے۔ ان کی مدد ‘ تعظیم و تکریم اور اللہ کی صبح و شام تسبیح کرنا اور جو انہوں نے اللہ سے عہد کیا ہے اس کو پورا کرنا ہی ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔ ٭ اللہ تعالیٰ نے صلح حدیبہ کو فتح مبین قراردیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اگر صلح حدیبیہ نہ ہوتی تو اہل ایمان کو وہ کامیابیاں اور فتوحات حاصل نہ ہوتیں جو اس صلح کی برکت سے حاصل ہوئی ہیں۔ یہی وہ موقع تھا جب دین اسلام ایک ایک گھر میں پہنچا اور حکومتوں کے سربراہوں کو بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دین اسلام کو قبول کرنے کی دعوت دی اور فوج در فوج لوگوں نے دین اسلام کو قبول کرنا شروع کیا۔ یہی فتح مبین ہے۔ ٭اللہ نے دین اسلام کی ترقی کو ایک پودے سے تشبیہ دی ہے جس طرح ایک پودا جو نرم و ناز ہوتا ہے آہستہ آہستہ وہ ایک تنا ور درخت بن جاتا ہے اسی طرح صحابہ کرام (رض) کے لیے فرمایا کہ ایک وقت وہ تھا جب مسلمان کمزور تھے مگر اب وہ اتنے طاقت ور ہوگئے ہیں جو دنیا پر غالب آجائیں گے۔ ٭اس سورة میں ایک کھلی ہوئی فتح کی خوش خبری دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر اس سلسلہ میں یا خلوص کے ساتھ کیے گئے کسی کام میں بھی کوئی کوتاہی یا کمی رہ گئی ہو یا آئندہ ہوجائے تو ہم نے اس کو معاف کردیا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ اللہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سیدھے راستے پرچلا رہا ہے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسا مثالی غلبہ عطا فرمائے گا جس میں عزت ہی عزت ہے۔ ٭فرمایا کہ اگر مخالفین اس بات کا شت سے پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ ان کے پاس زبردست لشکر ہے تو انہیں یادرکھنا چاہیے کہ اس کائنات میں زبردست لشکر صرف اللہ کا ہے۔ وہ ہر چیز سے واقف ہے اور ہر بات کی حکمت کو اچھی طرح جانتا ہے کہ کس کام کو کس وقت کس انداز سے ہونا چاہیے۔ ٭اہل ایمان اپنا حسن عمل پیش کرتے رہیں اس میں کی یا کوتاہی نہ کریں۔ اللہ نے ان کے لیے ایسی جنتیں تیار کررکھی ہیں جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ ٭منافق و مشرک مردعورتیں جو اللہ کے بارے میں اچھا گمان ہیں رکھتے ان کے لیے جہنم تیا رہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ ٭اللہ نے مومنوں سے فرمایا ہے کہ اللہ کا کتنا بڑا حسان ہے کہ اس نے تمہیں ایک ایسا عظیم رسول عطا فرمایا ہے جو قیامت میں تمہارے سارے اعمال پر گواہی دینے والا ‘ ہر نیک عمل پر خوش خبری دینے والا اور کافروں کو انکے برے انجام سے ڈرانے والا ہے۔ ان کے بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ ان پر ایمان لائیں۔ ان کے ساتھ مل کر اللہ کے دین کی مدد کریں۔ ان کی عزت واحترام اور تعظیم میں کی نہ کریں اور صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہیں۔ ٭فرمایا کہ جن لوگوں نے ” بیعت رضوان “ کی تھی درحقیقت انہوں نے اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی لہذا کوئی عہد شکنی نہ کرے۔ اگر کسی نے اپنے عہد کو توڑا تو اسے اس کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔ لیکن جو اپنے عہد کو پوراکرے گا اس کو اجرعظیم سے نوازا جائے گا۔ لوگوں کو عہد شکنی سے بچ کروفائے عہد کرنا چاہیے۔ وہ منافقین جن کا اسلام ان کی زبانوں تک محدود تھا جب اسلام کیلئے قربانیاں دینے کا وقت آیا تو ان کا کردار بھی کھل کر سامنے آگیا۔ جب اہل ایمان عمرہ کے لیے روانہ ہورہے تھے اس وقت منافقین نے اس بات کا بڑی شدت سے پروپیگنڈا کیا کہ مسلمانوں کو کفار کے گڑھ میں نہیں جانا چاہیے کیونکہ اگر وہ چلے گئے تو ان کا مدینہ منورہ واپس لوٹ کر آناممکن نہ ہوگا۔ یہ سوچ کر وہ بغیر کسی عذر کے اپنے گھروں میں بیٹھ گئے۔ فرمایا کہ جب اہل ایمان مدینہ منورہ واپس آگئے ہیں تو وہ منافقین اپنی اس شرمندگی کو مٹانے کے لیے غلط سلط عذر اور بہانے پیش کررہے ہیں۔ اب منافقین کو یقین ہوگیا تھا کہ مومنین اس کے بعد کامیابیں سے ہم کنارہوں گے۔ جب انہوں نے یہ سنا کہ اب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) خیبر کی طرف جارہے ہیں تو انہیں اس میں اپنا فائدہ نظر آیا لہٰذا انہوں نے خیبر کی طرف جانے کا ارادہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر ان تمام لوگوں کو خیبر کی مہم میں شرکت سے روک دیا جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ صلح حدیبیہ میں شریک نہیں تھے اور فرمایا کہ اس کے بعد ان کو ایک اور موقع دیا جائے گا جو درحقیقت ان کا امتحان اور آزمائش ہوگی۔ فرمایا کہ اگر انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی تو ان کو اس کا بہترین بدلہ عطا کیا جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ بغیر کسی عذر کے مکہ جانے سے رہ گئے تھے وہ ان کی غلطی تھی لیکن اگر کسی کو واقعی عذر تھا کوئی معذور ‘ اندھا ‘ لنگڑا ور بیمار تھا اور وہ اپنے اس عذر کی وجہ سے نہ جاسکا تھا تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے ۔ البتہ عام زندگی میں ہر ایک کو اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرنی ہوگی۔ اگر کسی نے اس سے منہ پھیرا تو اس کو سخت سزادی جائے گی اور اگر وہ اطاعت کریں گے تو ان کو جنت کی ابدی زندگی کی ابدی راحتیں عطاکی جائیں گی۔ حدیبیہ کے موقع پر جن صحابہ کرام (رض) نے بیعت (بیعت رضوان) کی تھی ان کے متعلق فرمایا جارہا ہے کہ اللہ ان سے راضی ہوگیا ہے اب ان کو بہت سی کامیابیاں اور فتوحات حاصل ہوں گی۔ اللہ نے فرمایا کہ اس موقع پر جنگ نہیں ہوئی یہ اللہ کا بڑا احسان ہے کیونکہ اگر جنگ ہوتی تو وہ لوگ جو دلی اعتبار سے اسلام قبول کرچکے ہیں مگر کسی مصلحت سے اپنے ایمان کا اظہار نہ کرسکے ہو سکتا تھا کہ ان کو بیخبر ی کی وجہ سے کوئی نقصان پہنچ جاتا۔ اس لیے اللہ نے دونوں فریقوں کو جنگ سے روک دیا لیکن اگر اس حالت میں بھی جنگ ہوجاتی تو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو غلبہ عطا فرماتا۔ ٭فرمایا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو خواب دیکھا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمرہ اداکر رہے ہیں اور صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بغیر عمرہ کیے واپس آگئے تھے۔ اس میں اللہ کی مصلحت تھی لیکن اب وہ وقت آگیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام (رض) بیت اللہ شریف میں پہنچ کر عمرہ ادا کریں گے اس شان سے اس میں داخل ہوں گے کہ ہر طرف امن وامان ہوگا۔ کوئی سروں کے بال منڈوائیں گے اور کوئی بال کم کر امئیں گے اور ان کو کفار کا کوئی خوف نہ ہوگا۔ ٭فرمایا کہ اللہ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دین حق دے کر بھیجا ہے تاکہ وہ اسکو دنیا کے ہر مذہب پر غالب کردکھائیں۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور ان کی رسالت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔ ان کے ساتھ وہ لوگ ہیں جو آپس میں تو شیرو شکر ہیں لیکن اللہ کے اللہ کے دشمنوں کے لیے بہت سخت ہیں۔ کبھی وہ رکوع میں ہیں کبھی سجدوں میں وہ محض اللہ کی رضا و خوشنودیکیلیے اس کی عبادت کرتے ہیں۔ انکے چہروں سے ان کی عبادت کی کیفیات ظاہر ہیں۔ ان کے لیے توریت اور انجیل میں بھی پیشن گوئیاں موجود ہیں۔ ٭اللہ نے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جس طرح ایک کھیتی ہے جب پودا اپنی کونپل نکالتا ہے۔ پھر وہ کونپل آہستہ آہستہ موٹی ہو کر اپنی بنیادوں پر مضبوطی سے کھڑی ہوجاتی ہے تو جس نے کھیتی بوئی ہے وہ اپنی کھیتی کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ فرمایا کہ اسی طرح اسلام کا پودا کبھی بہت کمزور تھا اب طاقت ور ہوگیا ہے۔ ایک وقت وہ آنے والا ہے جب پوری امت اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا بھر کی فتح سے خوش ہوجائیں گے۔ ان صحابہ کرام (رض) کو ہر طرف کامیابیاں اور فتوحات حاصل ہوتی چلی جائیں گی اور دین اسلام ہر نظریہ اور مذہب پر غالب آکر رہے گا۔ ٭ جو لوگ اللہ و رسول کی اطاعت کریں گے ان کو معاف کرکے اجر عظیم عطا کیا جائے گا اور دین و دنیا کی بھلائیاں عطا کی جائیں گی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

سورة فتح کا تعارف اس سورت کا نام الفتح ہے جو اس کی چوبیس آیت میں موجود ہے یہ سورت چار رکوع اور انتیس (٢٩) آیات پر محیط ہے۔ یہ سورت مدینہ منورہ میں ٦ ؁ ہجری میں نازل ہوئی۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب میں دیکھا کہ آپ بیت اللہ کی زیارت کر رہے ہیں اس پر آپ نے اعلان فرمایا کہ ہم عمرہ کرنے کے لیے جارہے ہیں اس لیے سب کو عمرہ کی تیاری کرنی چاہیے لیکن ہوا یہ کہ جب آپ چودہ سو اصحاب کے ساتھ مکہ کے قریب حدیبہ کے مقام پر پہنچے تو آپ کو حضرت عباس کے ذریعے معلوم ہوا کہ مکہ والے آپ کو کسی صورت بھی عمرہ کرنے نہیں دیں گے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ کو سمجھانے کے لیے حضرت عثمان (رض) کو بھیجا کہ انہیں سمجھائیں ہم لڑنے کے لیے نہیں آئے ہماری آمد کا مقصد بیت اللہ کی زیارت کرنا ہے لیکن مکہ والے کسی صورت بھی ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے اس صورت حال میں دونوں طرف سے مذاکرات ہوئے جس کے نتیجہ میں معاہدہ طے پایا جس کی شرائط میں ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ جائے گا تو مدینہ والوں کو اسے واپس کرنا ہوگا اگر کوئی مسلمان مکہ آئے گا تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔ صحابہ کی غالب اکثریت کو یہ شرط پسند نہیں تھی لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شرط کو قبول فرمایا بالآخر آپ عمرہ کیے بغیر مدینہ کی طرف واپس پلٹے ابھی آپ مدینہ واپس نہیں آئے تھے کہ یہ سورت نازل ہوئی جس کی ابتدا ان الفاظ سے کی گئی کہ اے رسول ہم نے آپ کے لیے فتح کے دروازے کھول دئیے ہیں اور آپ کے اگلے پچھلے گناہ بھی معاف کر دئیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی زبردست مدد فرمائے گا کیونکہ وہ بڑی قوت والا ہے اس کے بعد منافقوں کے کردار کا ذکر کیا گیا ہے جو یہ سمجھ کر پیچھے رہ گئے تھے کہ مسلمان خالی ہاتھ مکہ کی طرف جا رہے ہیں وہ واپس نہیں پلٹیں گے کیونکہ مکہ والوں کے ساتھ گٹھ جوڑ ہونے کی وجہ سے منافق جانتے تھے کہ مکہ کے لوگ انہیں عمرہ نہیں کرنے دیں گے۔ اس صورت میں لڑائی ہوگئی تو مسلمانوں میں سے کوئی بچ کر واپس نہیں آئے گا۔ لڑائی کے خوف کی وجہ سے منافقوں نے مختلف بہانے بنائے اور بیٹھے رہنے کو اپنے لیے غنیمت جانا۔ اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عظیم کی خوشخبری سنانے کے ساتھ یہ خوش خبری بھی دی کہ اللہ تعالیٰ ان مومنوں پر راضی ہوگیا جنہوں نے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر بیعت کی تھی صحابہ (رض) کا فرمان ہے کہ ہم نے یہ جان کر بیعت کی تھی کہ اگر مکہ والوں کے ساتھ جنگ ہوئی تو ہم میں سے کوئی بچ کر واپس نہیں جائے گا کیونکہ ہم خالی ہاتھ تھے۔ مسلمانوں نے اس لیے استقامت کا مظاہرہ کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی سکینت نازل فرمائی تھی اس سورت کے آخر میں بار بار تاکید کے ساتھ یہ الفاظ استعمال فرما کریقین دہانی کروائی گئی کہ تم ضرور بیت اللہ میں داخل ہو گے اور امن سکون کے ساتھ عمرہ کی سعادت حاصل کرو گے بیشک اس مرتبہ تم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو پائے لیکن یاد رکھو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو دین حق اور اپنی راہنمائی کے ساتھ اس لیے مبعوث فرمایا ہے کہ آپ تمام باطل ادیان پر پر دین اسلام کو غالب کردیں۔ یہ اس لیے بھی ہوگا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور آپ کے ساتھیوں میں یہ اوصاف بھی پائے جاتے ہیں کہ وہ اپنے رب کے حضور جھکنے والے، آپس میں مہربان اور حالت جنگ میں کفار کے لیے بڑے سخت ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سورة الفتح ایک نظر میں یہ مدنی سورت ہے اور یہ صلح حدیبیہ کے بعد ٦ ہجری کو نازل ہوئی۔ اس میں اسی اہم واقع اور اس کی تفصیلات پر تبصرہ ہے۔ اس سورت میں اس وقت جماعت مسلمہ کے جو حالات تھے وہ بیان کیے گئے ہیں۔ قرآنی ترتیب کے مطابق اس سے پہلی سورت ، سورت محمد ہے لیکن سورت محمد اس سے تین سال پہلے نازل ہوئی تھی۔ اور اس عرصہ میں مدینہ میں اسلامی سوسائٹی میں اور مسلمانوں کے حالات میں کافی تبدیلیاں واقع ہوگئی تھیں۔ جماعت مسلمہ کے موقف اور اس کے مخالفین کے موقف میں بھی تبدیلیاں ہوگئی تھیَ جماعت کی تربیت اور اس کی نفسیاتی اور ایمانی کیفیت میں بڑے ہی تغیرات ہوگئے تھے۔ جماعت مسلمہ ایمان اور اخلاق لحاظ سے نہایت پختہ اور گہرے ادراک کی حامل ہوگئی تھی۔ اس سے قبل کہ ہم اس سورت کے مضمون اور اس کی فضا پر بحث کریں مناسب ہے کہ اس واقعہ کی تفصیلات دے دی جائیں جس کے بارے میں یہ نازل ہوئی ہے تا کہ ہم بھی اس فضا میں زندہ رہیں جس میں مسلمان زندہ رہتے تھے اور ان پر یہ سورت نازل ہو رہی تھی ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب میں دیکھا کہ آپ خانہ کعبہ میں داخل ہو رہے ہیں اور مسلمان بھی آپ کے ساتھ ہیں ، سر منڈائے ہوئے یا بادل کٹوائے ہوئے۔ ہجرت کے بعد مشرکین مکہ نے خانہ کعبہ میں مسلمانوں کا داخل ممنوع قرار دے دیا تھا ۔ اور یہ داخلہ حرام مہینوں میں بھی ممنوع تھا حالانکہ ان کا احترام ایام جاہلیت میں بھی سب عرب کرتے تھے۔ ان مہینوں میں لوگ اسلحہ اتار دیتے تھے۔ ان ایام میں جنگ اور قتال کو بہت ہی برا سمجھتے تھے ، خصوصاً مسجد حرام سے کسی کو روکنا تو بہت ہی بڑا جرم تھا۔ جن لوگوں نے ایک دوسرے سے قصاص لینا ہوتا تھا وہ بھی اس حرمت کے سائے میں اکٹھے پھرا کرتے تھے۔ ایک شخص اپنے باپ اور بھائی کے قاتل کو بھی ملتا اور وہ اس پر تلوار نہ اٹھاتا۔ اور نہ اسے مسجد حرام سے روکتا ۔ لیکن مسلمانوں کے معاملے میں انہوں نے اپنی نہایت ہی پختہ روایات کو بھی توڑ دیا۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں کو ہجرت کے بعد چھ سال تک بیت اللہ سے روکے رکھا۔ یہ ٦ ہجری تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ خواب دیکھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا خواب صحابہ کرام کے سامنے بیان کردیا۔ اس لیے وہ بہت خوش ہوئے اور ایک دوسرے کو مبارک باد دی۔ ہمارے لیے ابن ہشام اعلیٰ ترین ذریعہ ہیں۔ انہوں نے جس طرح اس واقعہ کی تصویر کھینچی ہے وہ بخاری شریف کی روایت اور امام احمد (رح) کی روایت سے متفق بھی ہے۔ علامہ ابن حزم نے جوامع السیرۃ میں جو روایات دی ہیں ان سے بھی متفق ہے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں ، اس کے بعد (یعنی غزوۂ بنی المصلطق اور اس کے بعد کے واقعہ افک کے بعد ) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں رمضان اور شوال کا مہینہ رہے۔ اور ذو القعدہ کے مہینے میں عمرہ کے لئے نکلے۔ آپ کا ارادہ جنگ کا نہ تھا۔ اور مدینہ کے اردگرد تمام دیہاتی عربوں کو بھی حکم دیا کہ وہ آپ کے ساتھ عمرہ کے لئے چلیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قریش سے اندیشہ تھا کہ وہ رکاوٹ ڈالیں گے۔ جنہوں نے اس مقصد کے لئے تیاریاں بھی کرلی تھیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیت اللہ میں داخل نہ ہونے دیں گے۔ اکثر دیہاتی اس سفر میں شریک نہ ہوئے ، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مہاجرین اور انصارہی نکلے۔ اور بعض وہ لوگ بھی تھے جو دوسرے عرب قبائل سے ساتھ ہو لئے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہدی کا جانور بھی لیا۔ عمرے کا احرام باندھا تا کہ لوگ یہ یقین کرلیں کہ حملے کا ارادہ نہیں ہے اور یہ کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ آپ بیت اللہ کا احترام کرتے ہیں اور صرف زیارت کعبہ کے لئے نکلے ہیں۔ ابن اسحاق نے کہا کہ حضرت جابر ابن عبد اللہ فرمایا کرتے تھے کہ حدیبیہ میں ہماری تعداد ١٤٠٠ تھی۔ زہری کہتے ہیں کہ جب یہ قافلہ عسفان کو پہنچا (یہ مکہ اور مدینہ کے درمیان دو مراحل سفر پر ہے ) تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بشر ابن سفیان الکتبی ملے۔ انہوں نے اطلاع دی کہ قریش کو آپ کے قافلے کا پتہ لگ گیا ہے۔ اور انہوں نے اپنے ساتھ کنواریوں اور بچوں والیوں کو بھی نکال لیا ہے۔ انہوں نے شیروں کی کھالیں پہن رکھی ہیں اور وادی ذی طوی میں خیمہ زن ہیں اور وہ اللہ کے ساتھ پختہ عہد کئے ہوئے ہیں کہ آپ کو مکہ میں داخل ہونے نہ دیں گے۔ اور یہ ہیں خالد ابن ولید جسے انہوں نے اپنے سواروں کے ساتھ کراع الغمیم تک بھیج دیا ہے۔ (یہ عسفان سے آٹھ میل آگے ایک بستی ہے) اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” ہلاکت ہے قریش کے لئے ، کھاگئی ان کو جنگ ان کا کیا بگڑتا اگر وہ مجھے اور دوسرے عربوں کو لڑنے کے لئے چھوڑ دیتے ، اگر مجھے دوسرے عرب مار لیتے تو یہی ان کا مقصد تھا ، اور اگر مجھے اللہ عربوں پر غالب کردیتا تو یہ لوگ بڑی تعداد میں اسلام میں داخل ہوتے۔ اور اگر وہ اسلام میں داخل نہ ہوتے تو اگر وہ لڑتے تو ان کے پاس ” قوت “ تو ہوتی۔ قریش غلط سوچ رہے ہیں۔ خدا کی قسم میں جہاد کرتا رہوں گا ، اس نظام کے لئے جس کے لئے مجھے بھیجا گیا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ مجھے غالب کر دے یا میری یہ گردن کٹ جائے پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” کون ہے جو ہمیں اس راستے سے علیحدہ کسی دوسرے راستے پر لے جائے جس میں یہ لوگ نہ ہوں ؟ “ ابن اسحاق کہتے ہیں مجھے عبد اللہ ابن ابوبکر نے بتایا کہ قبیلہ اسلم کے ایک شخص نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں لے جاؤں گا ۔ کہتے ہیں یہ ان کو سخت اور پتھریلے راستے سے لے گیا اور یہ راستہ پہاڑیوں کے درمیان سے گزرتا تھا۔ جب لوگ اس کے ساتھ چلے تو یہ راستہ لوگوں کے لئے بڑا دشوار ثابت ہوا۔ جب یہ وادی سے گزر کر آخر میں ہموار زمین کی طرف نکلے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے کہا پڑھو۔ نستغفر اللہ ونتوب الیہ ” ہم اللہ سے معافی چاہتے ہیں اور اس کی طرف لوٹتے ہیں “۔ تو لوگوں نے یہ دعا پڑھی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” ایسا ہی ایک مرحلہ تھا کہ بنی اسرائیل سے کہا گیا تھا کہ تم ایسی دعا پڑھو تو انہوں نے انکار کردیا تھا “ ( یہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اشارہ اس طرف سے جو قرآن کریم میں آیا ہے۔ وادخلوا الباب ۔۔۔۔۔۔۔ وسنزید المحسنین (٥٨) فبدل اللذین ۔۔۔۔۔۔ قیل لھم (٥٩) (٢ : ٥٨ تا ٥٩) ” مگر بستی کے دروازے سے سجدہ ریز ہو کر داخل ہونا اور کہتے جانا حطہ حطہ ہم تمہاری خطاؤں سے در گزر کریں گے۔ اور نیکو کاروں کو مزید فضل و کرم سے نوازیں گے ، مگر جو بات ان سے کہی گئی تھی ، ظالموں نے اسے بدل کر کچھ اور کردیا) ۔ ابن شہاب زہری نے کہا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ اب دائیں جانب سے ، حمض کے پیچھے سے ثینۃ الہرار کی راہ سے مکہ کے نچلے علاقے میں حدیبیہ کے مقام پر اترو ، چناچہ یہ لشکر اسی راہ سے چلا۔ جب قریش کے سواروں نے لشکر اسلام کے غبار کو دیکھا کہ یہ تو دوسرے راستے سے نکل گیا ہے تو وہ قریش کی طرف تیزی سے لوٹے۔ رسول اللہ جب ثینہ الہرار سے گزر رہے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی بیٹھ گئی۔ تو لوگوں نے کہا کہ ” اونٹنی اڑ گئی “۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” اڑی “ نہیں اور نہ اس کی ایسی عادت ہے لیکن دراصل اسے اس ذات نے روک لیا ہے جس نے ہاتھی کو مکہ سے روکا تھا۔ آج قریش اگر مجھے کسی ایسی بات کی دعوت دیں جس میں وہ صلہ رحمی کے طالب ہوں تو میں ان کی بات مان لوں گا “۔ اور بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ ” وہ کوئی ایسی بات مجھ سے طلب کریں جس کا مقصد اللہ کی حرمتوں کو بچانا ہے تو میں ضرور ان کی بات مانوں گا “۔ اس کے بعد لوگوں سے فرمایا کہ یہاں قیام کرلو ، تو لوگوں نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہاں تو پانی نہیں ہے۔ جس کے اوپر ہم قیام کریں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ترکش سے ایک تیر نکالا اور اسے اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو دیا۔ وہ شخص وہاں کے حوضوں میں سے ایک حوض میں گیا اور وہ تیر وہاں گاڑ دیا اور وہاں سے صاف پانی نکل آیا۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اطمینان سے اتر گئے تو ان کے پاس بدیل ابن ورقہ الخزاعی آیا اور ان کے ساتھ خزاعہ کے دوسرے کچھ لوگ بھی تھے۔ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے باتیں کیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے کا مقصد کیا ہے۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بتایا کہ میرے آنے کا مقصد لڑنا نہیں ہے۔ میں صرف زیارت کعبہ کے لئے آیا ہوں اور اللہ کی حرمتوں کا احترام کرتا ہوں۔ اس کے بعد آپ نے ان سے بھی وہ بات کی جو بشر ابن سفیان سے کہی تھی۔ یہ لوگ واپس ہوئے اور قریش سے کہا ، اے قوم قریش تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاملے میں جلد بازی سے کام لے رہے ہو ، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنگ کے لئے نہیں آئے۔ وہ بیت اللہ کی زیارت کے لئے آئے ہیں ، قریش نے ان پر الزام لگایا اور برا بھلا کہا۔ قریش نے کہا کہ درست ہے کہ وہ جنگ کے لئے نہیں آیا لیکن ہم زبردستی مکہ میں داخل ہونے نہ دیں گے اور ہم یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ عرب یہ کہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آیا اور زبردستی مکہ میں داخل ہو کر چلا گیا۔ خزاعہ کے لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بہت ہی مخلصین میں سے تھے۔ ان لوگوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معاہدہ امن اور دوستی بھی کرلیا تھا (بعد میں ان کے احوال آئیں گے) ان میں مسلمان تھے یا مشرک تھے ، وہ مکہ میں ہونے والی کسی کاروائی کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نہ چھپاتے تھے۔ اس کے بعد قریش نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مکرز ابن حلص ابن الاخیف ، بنو عامر ابن لوئی کے بھائی کو بھیجا ۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے آتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : ” یہ ایک غدار شخص ہے “۔ جب یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا تو اس کے ساتھ بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہی باتیں کی تھیں جو بدیل اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ کیں۔ یہ واپس ہوا اور اس نے بھی مشرکین کو رپورٹ دے دی۔ اس کے قریش نے حلبس ابن علقمہ یا ابن زبان کو بھیجا ۔ یہ ان دنوں حبش والوں کے سردار تھے۔ (حبش ایک جگہ ہے جہاں بن الحارث ابن عبد مناۃ ، زین کنانہ رہتے ہیں ) جب اسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا تو فرمایا :” یہ ایک ایسی قوم کا فرد ہے جو عبادت گزار ہیں تو قربانی کے جانور ہی اس کے سامنے کر دو کہ یہ اچھی طرح دیکھ لے “ جب اس نے دیکھا کہ قربانی کے جانور وادی میں سیلاب کی طرح آرہے ہیں۔ وہ بہت متاثر ہوا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملنے سے قبل ہی واپس ہوگیا ۔ ان جانوروں کا احترام کرتے ہوئے اور ۔۔۔۔ قریش کو حالات بتائے تو انہوں نے اسے کہا ، بیٹھو تم دیہاتی ہو ، تمہیں کیا پتہ ہے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ مجھے عبد اللہ ابن ابوبکر نے بتایا کہ حلبس اس بات پر بہت غصہ ہوا اور کہا اے اہل قریش ، ہم نے اس پر نہ تمہارے ساتھ حلف اٹھایا ہے اور نہ معاہدہ کیا ہے کہ ہم بیت اللہ سے ایسے لوگوں کو روکیں گے جو بیت اللہ کا احترام کرتے ہوئے آئیں۔ پھر اس نے کہا خدا کی قسم یا تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کام کے لئے چھوڑو گے جس کے لئے وہ آیا ہے یا میں حبش کے لوگوں کے اس طرح لے کر چلا جاؤں گا جس طرح ایک آدمی چلا جاتا ہے ، یعنی پوری طرح۔ تو انہوں نے اسے کہا ، خاموش رہو ، ہمیں چھوڑو کہ ہم اپنے لیے کوئی راستہ طے کرلیں۔ زہری کہتے ہیں اس کے بعد انہوں نے عروہ ابن مسعود ثقفی کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجا۔ اس نے کہ اہل قریش ! میں دیکھ رہا ہوں کہ تم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جس کو بھی بھیجتے ہو اور وہ واپس آکر صحیح بات کرتا ہے تو تم اسے برا بھلا کہتے ہو اور گالیاں دیتے ہو۔ تم جانتے ہو کہ تم میرے والد کی جگہ پر ہوں اور میں تمہارا بیٹا ہوں (اس کی ماں عبد شمس سے تھی) تم پر جو مصیبت آئی ہوئی ہے ، وہ میں نے سن لی ہے۔ اس لیے میں نے اپنی قوم میں سے ان لوگوں کو جمع کیا جو میری بات مان رہے تھے اور تمہاری مدد کے لئے میں آیا ہوں۔ تو انہوں نے کہا ، تو نے سچ کہا اور ہمارا تجھ پر یقین ہے۔ یہ گیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بیٹھا اور کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو مختلف لوگوں کو جمع کر کے لایا ہے کہ ان سے اپنے انڈے پھوڑ دے۔ یہ ہیں قریش جن کے ساتھ کنواریاں اور بچوں والیاں نکلی ہیں اور انہوں نے شیروں کے چمڑے پہنے ہوئے ہیں ۔ وہ حلف اٹھا رہے ہیں کہ تمہیں زبردستی شہر میں داخل ہونے نہ دیں گے۔ اور خدا کی قسم میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ لوگ کل تم کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ حضرت ابوبکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سر پر کھڑے تھے۔ انہوں نے اسے دھمکایا (1) اور کہا : کیا ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھوڑ دیں گے ؟ اس نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کون ہے ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ ابن ابو قحافہ ہیں۔ تو اس نے کہا خدا کی قسم اگر اس کا مجھ پر ایک احسان نہ ہوتا تو میں اس کو جواب دے دیتا ، لیکن یہ بات اس کے بدلے رہ گئی۔ اس کے بعد وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی داڑھی مبارک پکڑ کے بات کرنے لگا اور مغیر ابن شعبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سرپر تھے اور لوہے میں ڈوبے ہوئے تھے یہ شخص جب بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی داڑھی مبارک کو پکڑتا حضرت مغیرہ ابن شیبہ اس کے ہاتھ کو جھٹک دیتے اور کہتے ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرۂ مبار سے ہاتھ روک ورنہ یہ تمہارے جسم کے ساتھ نہ ہوگا۔ وہ کہتا تم پر تباہی ہو ، تم کس قدر سخت اور کرخت ہو۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبسم ہوئے۔ عروہ نے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کون ہیں آپ نے جواب دیا یہ تمہارے بھائی مغیرہ ابن شعبہ ہیں۔ اس پر عروہ نے کہا ” اے غدار ! تمہارے چوتڑو کو تو میں نے کل ہی دھویا ہے “۔ ابن ہشام کہتے ہیں کہ اس کا واقعہ یہ ہے کہ مغیر ابن شعبہ نے اسلام سے قبل بنی مالک ابن ثقیف کے تیرہ آدمی قتل کئے تھے۔ اس طرح ثقیف کے دونوں قبائل کے درمیان ہیجان پیدا ہوگیا تھا ۔ بنی مالک مقتولین کی قوم تھے اور بنی احلاف مغیرہ کی قوم تھے۔ عروہ نے مقتولین کو ١٣ دیتیں دیں اور اسی شر کو فرد کردیا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں زہری نے یہ کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے ساتھ بھی وہی بات کی جو دوسروں کے ساتھ کی تھی اور کہا کہ میں جنگ کے لئے نہیں آیا۔ یہ شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے اٹھ کر چلا گیا لیکن اس نے اندازہ کرلیا کہ صحابہ کرام حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کس قد محبت کرتے ہیں۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وضو کرتے ہیں تو یہ لوگ وضو کے پانی کو اچک لیتے ہیں۔ اور اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھوکتے ہیں تو یہ اسے بھی اچک لیتے ہیں۔ آپ کے بالوں میں سے کوئی بال اگر گرتا ہے تو یہ اس کو بھی محفوظ کرلیتے ہیں۔ یہ شخص قریش کے پاس گیا اور رپورٹ دی۔ ” اہل قریش میں کسریٰ کے دربار میں بھی گیا ہوں ، اور اس کی حکومت دیکھی ہے۔ اور قیصر کے پاس بھی اور اس کی حکومت بھی دیکھی ہے اور نجاشی کو بھی اس کی مملکت میں دیکھا ہے ، خدا کی قسم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اپنی قوم میں جس طرح ہیں ، اس طرح میں نے کوئی بادشاہ اپنے متبعین میں نہیں دیکھا۔ میں نے ان کے ساتھ ایسے لوگ دیکھے ہیں کہ وہ کسی حال میں بھی ان کو کسی دشمن کے سپرد کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اب یہ تمہاری مرضی ہے کہ تم کیا کرتے ہو “۔ ابن اسحاق کہتے ہیں مجھے بعض اہل علم نے بتایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خراش ابن امیہ خزاعی کو بلایا اور انہیں قریش کے پاس بھیجا۔ آپ نے ان کو سواری کے لئے اونٹ دیا جسے ثعلب کہا جاتا تھا تا کہ وہ قریش کے شرفاء تک وہ بات پہنچا دیں کہ وہ کیوں آئے ہیں۔ انہوں نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اونٹ کی ٹانگیں کاٹ دیں اور چاہے کہ اسے قتل کردیں لیکن حبش کے لوگوں نے ان کو منع کردیا۔ انہوں نے اسے چھوڑ دیا اور وہ واپس ہوئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع دی۔ ابن اسحاق کہتے ہیں مجھے بعض ایسے لوگوں نے بتایا جن کو میں متہم نہیں کرتا ، بروایت عکرمہ مولیٰ ابن عباس سے ، انہوں نے حضرت ابن عباس سے کہ قریش نے چالیس ہزار افراد بھیجے ہیں یا پچاس ہزار ۔ ان کو کہا کہ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لشکر کے اردگر چکر لگاؤ اور ان کے لئے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں میں سے کسی کو پکڑ لاؤ، یہ سب کے سب پکڑے گئے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لائے گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب کو معاف کردیا اور جانے دیا۔ انہوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لشکر پر تیر بھی برسائے اور پتھر بھی مارے۔ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر ابن الخطاب کو بلایا کہ ان کو اشراف قریش کے پاس بطور سفیر بھیجیں۔ انہوں نے فرمایا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں یہ خطرہ محسوس کرتا ہوں کہ وہ مجھے جان سے مار دیں گے اور مکہ میں اس وقت بنی عدی ابن کعب میں سے کوئی بھی نہیں ہے جو میری حفاظت کرے۔ قریش کو یہ معلوم ہے کہ میں ان کا کس قدر دشمن ہوں اور ان پر میں نے کس قدر سختیاں کی ہیں۔ ہاں ، میں ایک ایسے شخص کو تجویز کرتا ہوں جو میرے مقابلے میں زیادہ موزوں ہے۔ یہ ہیں عثمان ابن عفان۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بلایا اور ان کو بھیجا کہ وہ قریش کو سمجھا دیں کہ میں لڑائی کے لئے نہیں آیا۔ اور میں صرف عمرے کے لئے آیا ہوں اور بیت اللہ کا احترام کرتا ہوں۔ ابن اسحاق نے بیان کی کہ حضرت عثمان (رض) مکہ گئے۔ ان کو وہاں ابان ابن سعید ابن العاص ملے۔ مکہ میں داخل ہوتے ہوئے یا پہلے ، اس نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور ان کو اس وقت تک پناہ دے دی کہ وہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغام پہنچا دیں۔ حضرت عثمان گئے اور ابو سفیان اور قریش کے زعماء کو ملے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغام ۔۔۔۔ مجھے یہ پیغام دے کر بھیجا گیا ہے۔ جب حضرت عثمان پیغام سے فارغ ہوئے تو انہوں نے کہا کہ اگر تم طواف کرنا چاہتے ہو ، تو کرلو۔ تو انہوں نے کہا کہ میں ایسا نہیں کرسکتا جب تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے طواف نہ کرلیں۔ قریش نے ان کو اپنے ہاں روک لیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں تک یہ اطلاع پہنچ گئی کہ حضرت عثمان کو قتل کردیا گیا ہے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ عبد اللہ ابن ابی بکر نے مجھے بتایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب یہ خبر سنی تو فرمایا ہم اس وقت تک یہاں سے نہ ہلیں گے جب تک ان سے لڑ نہیں لیتے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو بیعت کے لئے بلایا یہ بیعت الرضون تھی ، ایک درخت کے نیچے ۔ لوگ کہتے تھے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے موت پر بیعت لی اور جابر ابن عبد اللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے موت پر بیعت نہیں لی تھی بلکہ یہ بیعت لی تھی کہ ہم بھاگیں گے نہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے بیعت لی۔ ان میں سے ایک شخص بھی نہ رہا۔ سوائے ایک شخص جد ابن قیس کے جو بنو سلمہ سے تھا۔ حضرت جابر ابن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ میں اسے اب بھی دیکھ رہا ہوں کہ وہ اپنی اونٹنی کے پہلو کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ یوں کہ لوگوں کو نظر نہ آئے۔ اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس خبر آئی کہ حضرت عثمان کے بارے میں جو اطلاع آئی تھی وہ غلط تھی۔ ابن ہشام کہتے ہیں اور مجھے ایک میرے معتمد ذریعہ نے بتایا ہے اور انہوں نے اس شخص سے جس کے پاس سند تھی یہ بات نقل کی ۔ انہوں نے ابن الولی کہ سے ، اور انہوں نے ابن عمر سے روایت کی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان کے لئے بیعت کی اور اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے پر مارا اور کہا یہ عثمان کے لئے ہے۔ ابن اسحاق نے کہا ، زہری کہتے ہیں کہ اس کے بعد قریش نے قبیلہ بنو عامر کے سہیل ابن عمرو کو بھیجا کہ تم جاؤ اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مصالحت کرلو اور صلح میں یہ شرط ضرور ہو کہ وہ اس سال چلا جائے تا کہ عرب یہ باتیں نہ کریں کہ محمد ( (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) زبردستی مکہ میں داخل ہوگیا۔ سہیل آئے ، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے آتے ہوئے دیکھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہہ دیا کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ صلح چاہتے ہیں کیونکہ انہوں نے سہیل کو بھیجا ہے۔ جب سہیل ابن عمرو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچے تو اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گفتگو کی اور بہت طویل بات کی ، ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات ہوئے اور صلح کی بات ہونے لگی۔ جب تمام معاملات طے ہوگئے اور ماسوائے لکھے جانے کے اور کوئی بات باقی نہ رہی تو عمر ابن الخطاب کود کر اٹھے ، حضرت ابوبکر کے پاس آئے اور کہا ” ابوبکر کیا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رسول خدا نہیں ”۔ انہوں نے کہا : ہاں ۔ کیا ہم مسلمان نہیں ؟ انہوں نے کہا : ہاں۔ آخر ہمارے میں ہم پر ذلت کیوں مسلط کی جا رہی ہے ؟ تو حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : عمر ! تم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقے پر قدم رکھو۔ بس حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نقش قدم پر چلو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ رسول خدا ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ رسول اللہ ؐ ہیں۔ اس کے بعد وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا : رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ رسول اللہ ؐ نہیں ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” ہاں “۔ اور کہا : کیا ہم مسلمان نہیں ہیں ؟ تو فرمایا : ” ہاں “۔ کیا وہ مشرکین نہیں ہیں ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہاں “ ۔ تو انہوں نے کہا کہ پھر ہمارے دین میں ہمیں اس ذلت سے کیوں دو چار کیا جاتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں۔ میں اللہ کے احکام کی خلاف ورزی نہیں کر رہا۔ اس لیے اللہ مجھے کبھی بھی ضائع اور برباد نہیں کرے گا “۔ حضرت عمر (رض) کہا کرتے تھے کہ میں نے اس دن جو حرکت کی ، اس کی معافی کے لئے میں آج تک روزے بھی رکھتا ہوں۔ صدقہ بھی دیتا ہوں ، نمازیں بھی پڑھتا ہوں ، غلاموں کو بھی آزاد کرتا ہوں ، ان باتوں کی ڈر کی وجہ سے جو میں نے کیں ، جبکہ یہ باتیں کرتے وقت میں یہ خیال کرتا تھا کہ میں درست کر رہا ہوں۔ اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) ابن ابی طالب کو بلایا۔ اور فرمایا ، لکھو ” بسم اللہ الرحمٰن الرحیم “ تو سہیل نے کہا ہمیں اس کی خبر نہیں البتہ لکھو بسمک اللھم تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اچھا لکھو بسمک اللھم اس کے بعد فرمایا لکھو ، ” یہ وہ ہے جس پر محمد رسول اللہ اور ابن عمر کے درمیان مصالحت ہوئی “۔ اس پر سہیل نے کہا کہ اگر میں یہ شہادت دیتا کہ آپ رسول اللہ ہیں تو میں آپ کے ساتھ لڑتا کیوں ؟ “۔ آپ اپنا نام اور اپنے والد کا نام لکھیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ لکھو ” یہ وہ صلح ہے جو محمد ابن عبد اللہ اور سہیل ابن عمر کے درمیان طے ہوئی کہ لوگوں کے درمیان دس سال تک جنگ نہ ہوگی ، لوگ ان سالوں میں امن سے رہیں گے ، ایک دوسرے پر حملہ نہ کریں گے ، یہ کہ قریش میں سے کوئی اپنی ولی کی اجازت کے بغیر محمد کے پاس آئے گا تو وہ اسے واپس کر دے گا۔ اور جو شخص محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قریش کی طرف آئے گا وہ اسے واپس کرنے کے پابند نہ ہوں گے۔ اور ہمارے درمیان ایک ” مقفل برتن “ ہے یعنی ایک دوسرے پر حملہ نہ ہوگا اور اس میں کوئی خفیہ چوری نہ ہوگی اور نہ خیانت ہوگی ، یہ کہ قبائل میں جو محمد ( (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) کے ساتھ معاہدہ کرے کرسکے گا ، اور جو قریش کے ساتھ معاہدہ کرے ، کرسکے گا۔ (اس پر خزاعہ کے لوگ اٹھے اور کہا ہم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہیں اور بنو بکر اٹھے اور انہوں نے کہا ہم قریش کے عہد میں ہیں) ۔ اور اس سال تم واپس ہو گے اور مکہ میں داخل نہ ہو گے اور جب اگلا سال ہوگا تو ہم مکہ سے نکل آئیں گے اور تم اپنی ساتھیوں کے ساتھ یہاں داخل ہوگے اور تین دنوں تک رہ سکو گے۔ اور تمہارے پاس وہی اسلحہ ہوگا جو ایک عام سوار کے پاس ہوتا ہے۔ تلواریں نیام میں ہوں گی اور اس کے سوا کوئی اور ہتھیار نہ ہوگا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سہیل ابن عمر دستاویز تیار کر رہے تھے کہ ابو جندل ابن سہیل ابن عمر زنجیروں میں بندھے ہوئے پہنچ گئے ۔ یہ مشرکین کے ہاتھ سے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملنے کے لئے نکل آئے تھے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی جب اس مہم پر نکلے تھے تو انہیں فتح کا پورا پورا یقین تھا کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواب سے انہوں نے یہی سمجھا تھا ۔ جب انہوں نے دیکھا کہ صلح طے ہوگئی اور اب ہم نے عمرے کے بغیر واپس ہونا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلح کی جو شرائط تسلیم کی ہیں وہ یہ ہیں تو لوگوں پر غم کے پہاڑ ٹوٹ گئے اور قریب تھا کہ لوگ مرجاتے۔ جب سہیل نے ابو جندل کو دیکھا تو اٹھے اور اس کے منہ پر مارا اور گریبان سے پکڑ لیا اور پھر کہا : محمد اس کے آنے سے قبل یہ معاہدہ ہمارے درمیان طے نہ ہوگیا تھا ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ٹھیک ہے ، طے ہوگیا تھا۔ چناچہ وہ اسے گریبان سے پکڑ کر باندھ رہا تھا تا کہ اسے قریش کی طرف واپس بھیج دے اور ابو جندل چیخ رہا تھا ، اے مسلمانو ، کیا مجھے مشرکین کی طرف لو ٹا دیا جائے گا کہ وہ مجھے اذیت دیں۔ اس پر مسلماں کی صفوں میں جو غم اور غصہ تھا وہ اور زیادہ ہوگیا۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” ابو جندل صبر کرو اور برداشت کرو ، انشاء اللہ تمہارے لیے اور تمہارے ساتھ جو دوسرے ضعیف مسلمان ہیں ان کے لئے اللہ کوئی نہ کوئی راہ نکال لے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے آپس میں صلح کرلی ہے۔ ہم نے بھی منظوری دے دی ہے اور انہوں نے بھی دے دی ہے۔ اور ہم مناسب نہیں سمجھتے کہ ہم غداری کریں “۔ حضرت عمر ابن الخطاب اٹھے اور ابو جندل کے پاس کھڑے ہوگئے اور کہا ابو جندل صبر کرو ، یہ مشرک ہیں اور مشرکین کا خون کتے کے خون کے برابر ہے “۔ حضرت عمر (رض) اپنی تلوار کا دستہ اس کے قریب کر رہے تھے۔ کہتے ہیں حضرت عمر (رض) کی خواہش یہ تھی کہ ابو جندل یہ تلوار مجھ سے چھین لیں اور اپنے باپ کا کام ختم کردیں۔ لیکن انہوں نے اپنے باپ کو ترجیح دی اور معاملہ نافذ ہوگیا۔ اور ابو جندل سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے باپ کو کوئی خیال نہیں کیا البتہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد کا احترام کیا۔ جب یہ دستاویز تیار ہوئی تو اس پر مشرکین اور مومنین میں سے کئی لوگوں نے گواہ کے طور پر دستخط کئے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) ، عمر ابن الخطاب ، عبد الرحمٰن ابن عوف ، عبد اللہ ابن سہیل ابن عمر ، سعد ابن ابو وقاص ، محمد ابن مسلمہ ، مکرز ابن حفص ، (یہ اس وقت مشرک تھے اور علی ابن ابی طالب اس دستاویز کے کاتب حضرت علی (رض) تھے۔ زہری کہتے ہیں کہ جب معاہدے کا معاملہ ختم ہوا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ قربانیاں کرو اور بال کٹواؤ۔ کہتے ہیں خدا کی قسم کوئی شخص نہ اٹھا۔ یہاں تک کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین بار یہ احکام صادر کئے۔ جب کوئی نہ اٹھا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ام سلمہ کے کمرے میں آئے اور ان کے سامنے یہ بات کی کہ لوگوں کی حالت تو یہ ہوگئی ہے۔ حضرت ام سلمہ نے کہا اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو پسند کرتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نکلیں ، کسی سے بات نہ کریں ، یہاں تک اپنے ہدیہ کو قربان کردیں ، اور اپنے حجام کو بلائیں کہ وہ بال مونڈ دے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نکلے ، کسی سے کوئی بات نہ کی ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ سے جانور کو ذبح کیا اور اپنے حجام کو بلایا اور اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بال کاٹے۔ جب انہوں نے دیکھا تو سب اٹھے اور قربانیاں کرنے لگے اور ایک دوسرے کے سر مونڈنے لگے۔ حالت یہ تھی کہ کہیں وہ ایک دوسرے کے سر کاٹ کر قتل نہ کردیں۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ عبد اللہ ابن لجیج نے بیان کیا مجاہد سے ، ابن عباس ابن عباس سے کہ حدیبیہ کے دن بعض لوگوں نے سر منڈوالیے اور بعض نے بال چھوٹے کر دئیے تو رسول اللہ نے فرمایا منڈوانے والوں پر اللہ رحم کرے اس پر لوگوں نے کہا کہ بال چھوٹے کرنے والوں کو یا رسول اللہ ؟ ” تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوبارہ کہا اللہ منڈوانے والوں پر رحم کرے۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ بال چھوٹے کرنے والوں پر ، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اور بال چھوٹے کرنے والوں پر ۔ صحابہ کرام (رض) نے پوچھا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف منڈوانے والوں کے لئے کیوں رحم کی درخواست کی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انہوں نے کوئی شک نہیں چھوڑا۔ زہری کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہیں سے قافلہ کو واپس ہونے کا حکم دیا یہاں تک کہ آپ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے کہ سورت الفتح نازل ہوئی۔ امام احمد (رح) نے اپنی سند سے روایت کی ہے مجمع ابن حارثہ انصاری سے۔ یہ قرآن کریم کے قاریوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے کہا ہم حدیبیہ کے موقعہ پر حاضر تھے۔ جب ہم حدیبیہ سے لوٹے تو اچانک دیکھتے ہیں کہ لوگ اونٹ دوڑا رہے ہیں۔ لوگوں نے ایک دوسرے سے پوچھا کہ کیا ہوگیا ہے ۔ تو لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی آگئی ہے ، ہم بھی لوگوں کے ساتھ گھوڑے تیز دوڑا کر آگے بڑھے۔ کراع الغمیم کے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی سواری پر تھے اور لوگ آپ کے اردگر جمع ہوگئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر یہ سورت پڑھی۔ ان فتحنا لک فتحا مبینا (٤٨ : ١) “ اے نبی ، ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کر دی ”۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک سفر میں تھے ، میں نے حضور سے کسی چیز کے بارے میں تین بار پوچھا تو آپ نے جواب نہ دیا۔ تو میں نے کہا تجھے تیری ماں روئے اے ابن خطاب ، تو نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اصرار کیا اور بار بار دہرایا۔ تین بار اور آپ نے جواب نہ دیا۔ کہتے ہیں میں اپنی سواری پر چڑھ گیا اور اپنے اونٹ کو حرکت دی۔ تو میں ڈر کی وجہ سے آگے چلا گیا ۔ اس ڈر کی وجہ سے کہ شاید میرے بارے میں کوئی آیت نہ نازل ہوجائے۔ اچانک ایک شخص پکار رہا تھا اے عمر ، تو میں واپس ہوا اور مجھے یقین تھا کہ میرے بارے میں کوئی آیت نازل ہوگئی ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ، آج رات مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے دنیا اور مافیہا سے زیادہ محبوب ہے۔ انا فتحنا لک فتحا مبینا (٤٨ : ١) لیغفرلک اللہ ۔۔۔۔۔ وما تاخر (٤٨ : ٢) “ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کردی تا کہ اللہ تمہاری اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے درگزر فرما دے ”۔ (امام بخاری ، ترمذی ، نسائی ) ۔ ٭٭٭ یہ تھی وہ فضا جس میں یہ سورت نازل ہوئی ، اس فضا میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کی ہدایات اور الہامات پر مطمئن تھے۔ اس لئے آپ نے تمام فیصلے اور ارادے ترک فرما کر عالم بالا کی ہدایات پر عمل کیا اور ہر قدم اور ہر مرحلہ پر آپ عالم بالا کی ہدایات کے مطابق فیصلے فرماتے رہے اور یہ الہام آپ کو قدم قدم پر ہوتا رہا اور کوئی جدا کرنے والا آپ کو اس سے جدا نہ کرسکا ، خواہ وہ مشرکین میں سے ہو یا آپ کے ساتھیوں میں سے ہو جو آغاز میں اس صلح پر راضی نہ تھے۔ کیونکہ اس میں مشرکین کی ضد اور ہٹ دھرمی کو قبول کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اللہ نے ان کے دلوں کو اطمینان عطا کردیا تو وہ رضا مندی ، یقین اور قبولیت اور گہری اور عمیق قبولیت کی طرف لوٹ آئیے جبکہ بعض صحابہ کرام تو آغاز ہی میں ایسے ہی مقام پر تھے۔ مثلاً حضرت ابوبکر صدیق (رض) ۔ آپ کی روح نے کسی بھی وقت روح رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جدائی اختیار نہیں کی۔ آپ کو ہمیشہ ہر معاملے میں مکمل اطمینان رہا۔ اور ایک لمحے کے لئے بھی یہ اطمینان آپ سے جدا نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ سورت کا آغاز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے بشارت کے ساتھ ہوا اور اس بشارت کی وجہ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہت خوش تھے۔ انا فتحنا لک فتحا مبینا (٤٨ : ١) لیغفرلک اللہ ۔۔۔۔۔ صراط مستقیما (٤٨ : ٢) وینصرک اللہ نصرا عزیزًا (٤٨ : ٣) “ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کردی تا کہ اللہ تمہاری اگلی پچھلی کوتاہی سے درگزر فرمائے اور تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کردے۔ اور تمہیں سیدھا راستہ دکھائے اور تم زبردست نصرت بخشے ”۔ اور اس آغاز کے بعد مومین کے لئے اللہ کے اس احسان کا ذکر کیا ، کہ ان پر بھی اطمینان کا نزول ہوا۔ ان کے ایمان کا اعتراف کیا گیا اور ان کو بھی مغفرت اور ثواب کی بشارت دی گئی اور یہ کہ آسمانوں کے لشکر اللہ کے اختیار میں ہیں اور وہ تحریک اسلامی کی پشت پر ہیں۔ ھو الذی انزل ۔۔۔۔۔ علیما حکیما (٤٨ : ٤) لیدخل المومنین ۔۔۔۔۔۔ فوزا عظیماً (٤٨ : ٥) “ وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں سکینت نازل کی تا کہ اپنے ایمان کے ساتھ وہ ایک ایمان اور بڑھا لیں۔ زمین و آسمان کے سب لشکر اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ علیم و حلیم ہے۔ تا کہ مومن مردوں اور عورتوں کو ہمیشہ رہنے کے لئے ایسی جنتوں میں داخل فرمائے جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی اور ان کی برائیاں ان سے دور کر دے۔ اللہ کے نزدیک یہ بڑی کامیابی ہے ”۔ اور منافقین اور منافقات اور مشرکین اور مشرکات کے لئے اللہ کا عذاب اور غضب تیار ہے۔ ویعذب المنفقین والمنفقت ۔۔۔۔۔۔ ۔ وساءت مصیرا (٤٨ : ٦) “ اور ان منافق مردوں اور عورتوں ، اور مشرک مردوں اور عورتوں کو سزا دے جو اللہ کے متعلق برے گمان رکھتے ہیں۔ برائی کے پھیر میں وہ خود ہی آگئے ، اللہ کا غضب ان پر ہو ، اور اس نے ان پر لعنت کی اور ان کے لئے جہنم مہیا کردی جو بہت ہی برا ٹھکانا ہے ”۔ اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیعت کی طرف اشارہ ہے کہ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیعت کریں گے وہ اللہ کی بیعت ہوگی۔ اور ان کے دل اس راہ سے براہ راست اللہ سے مربوط ہوگئے ہیں۔ اور اب وہ اللہ حی ولا یموت کے ساتھ متعلق ہیں۔ گویا انہوں نے اللہ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا۔ انا ارسلنک شاھدا ومبشرا ونذیرا (٤٨ : ٨) لتومنوا باللہ ۔۔۔۔۔ بکرۃ واصیلا (٤٨ : ٩) ان الذین یبایعونک ۔۔۔۔۔ اجرا عظیما (٤٨ : ١٠) “ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے تمہیں شہادت دینے والا ، بشارت دینے والا اور خبردار کردینے والا بنا کر بھیجا ہے تا کہ ، اے لوگو ، تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اور اس کا ساتھ دو ، اس کی تعظیم اور توقیر کرو ، اور صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہو۔ اے نبی جو لوگ تم سے بیعت کر رہے تھے وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے تھے ، ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا ، اب جو اس عہد کو توڑے گا تو اس کی عہد شکنی کا وبال اس کی اپنی ہی ذات پر ہوگا اور جو اس عہد کو وفا کرے گا جو اس نے اللہ سے کیا ہے تو اللہ عنقریب اس کو بڑا اجر عطا فرمائے گا ”۔ اس بیعت اور اس سے پیچھے رہنے کے بارے میں اور حدیبیہ میں مومنین پر تبصرے سے بھی ان دیہاتیوں پہ تبصرہ سخت ہے جو سرے سے اس سفر میں اہل ایمان کے ساتھ ہی نہ نکلے۔ اللہ تعالیٰ ان کے عذرات کو پیش کرنے سے پہلے ہی رد کردیتا ہے۔ اور یہ بھی فرماتا ہے کہ ان کے دلوں میں تو بہت کچھ بد گمانیاں تھیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین تو واپس آنے والے ہی نہیں۔ اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ مستقبل میں ان کے ساتھ رویہ کیا ہونا چاہئے نیز یہ کہ عنقریب مسلمانوں کو فتوحات نصیب ہوں گی اور بہت کچھ غنائم ملیں گے اور پھر ان کے منہ سے رال ٹپکے گی جو پیچھے رہ گئے تھے۔ سیقول لک المخلفون ۔۔۔۔۔۔ تعملون خبیرا (٤٨ : ١١) بل ظننتم ان لن ۔۔۔۔۔۔ قوما بورا (٤٨ : ١٢) ومن لم یومن ۔۔۔۔۔۔ سعیرا (٤٨ : ١٣) وللہ ملک السموت ۔۔۔۔۔۔ غفورا رحیما (٤٨ : ١٤) سیقول المخلفون اذا ۔۔۔۔۔ یفقھون الا قلیلا (٤٨ : ١٥) قل للمخلفین من الاعراب ۔۔۔۔۔۔ عذابا الیما (٤٨ : ١٦) “ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، بدوی عربوں میں سے جو پیچھے چھوڑ دئیے گئے تھے اب وہ آکر ضرور تم سے کہیں گے کہ ہمیں اپنے اموال اور بال بچوں کی فکر نے مشغول کر رکھا تھا ، آپ ہمارے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں ، یہ لوگ اپنی زبانوں سے وہ بات کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتی ، ان سے کہنا ، اچھا یہی بات ہے تو کون تمہارے معاملے میں اللہ کے فیصلے کو روک دینے کا کچھ اختیار رکھتا ہے۔ اگر وہ تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے یا نفع بخشنا چاہے تمہارے اعمال سے تو اللہ ہی باخبر ہے ، بلکہ تم نے یوں سمجھا کہ رسول اللہ اور مومنین اپنے گھر والوں میں ہرگز پلٹ کر نہ آسکیں گے اور یہ خیال تمہارے دلوں کو بہت بھلا لگا اور تم نے بہت برے گمان کئے اور تم سخت بدباطن لوگ ہو ”۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو لوگ ایمان نہ رکھتے ہوں ایسے کافروں کے لئے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر رکھی ہے۔ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک اللہ ہی ہے ، جسے چاہے معاف کر دے اور جسے چاہے سزا دے۔ اور وہ غفور رحیم ہے۔ جب تم مال غنیمت حاصل کرنے کے لئے جانے لگو گے تو یہ پیچھے چھوڑے جانے والے لوگ تم سے ضرور کہیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو ، یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے فرمان کو بدل دیں ، ان سے صاف کہہ دینا کہ “ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے۔ اللہ پہلے ہی فرم چکا ہے ”۔ یہ کہیں گے کہ “ نہیں بلکہ تم لوگ ہم سے حسد کر رہے ہو ”۔ بلکہ یہ لوگ صحیح بات کو کم ہی سمجھتے ہیں۔ ان ۔۔۔۔ پیچھے چھوڑ جانے والے بدوی عربوں سے کہنا کہ عنقریب تمہیں ایسے لوگوں سے لڑنے کے لئے بلایا جائے گا جو بڑے زور آور ہیں۔ تم کو ان سے جنگ کرنی ہوگی یا وہ مطیع ہوجائیں گے۔ اس وقت اگر تم نے حکم جہاد کی اطاعت کی تو اللہ تمہیں اچھا اجر دے گا۔ اور اگر تم پھر اسی طرح منہ موڑ گئے جس طرح پہلے موڑ چکے ہو تو اللہ تم کو دردناک سزا دے گا ”۔ یہاں ضروری تھا کہ پیچھے رہنے والوں میں معذور لوگوں کی بات بھی سامنے آجائے۔ اور ان لوگوں کی بات بھی آجائے جن پر جہاد فرض ہی نہ تھا یعنی وہ عاجز تھے اور یہ بھی عذر تھا۔ لیس علی الاعمی حرج ۔۔۔۔۔ یعذبہ عذابا الیما (٤٨ : ١٧) “ ہاں اگر اندھا ، لنگڑا اور مریض جہاد کے لئے نہ آئے تو کوئی حرج نہیں ، جو کوئی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے گا ، اللہ اسے ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور جو منہ پھیرے گا اسے وہ دردناک عذاب دے گا ”۔ مخلفین اور معذورین پر تبصرے کے بعد اب مومنین ، ان کے موقف ، ان کے خلجانات پر بحث ہے۔ ان کی حوصلہ افزائی اور عزت افزائی کی گئی ہے۔ ان بشارتیں دی گئی ہیں۔ یہ لوگ جن کا ایمان قوی تھا اور جنہوں نے اپنا سب کچھ اللہ پر فروخت کردیا تھا۔ اس پیرا گراف میں اللہ تعالیٰ ان نفوس قدسیہ کی اصل حقیقت روشن فرماتا ہے۔ اعلان فرماتا ہے کہ اللہ ان سے راضی ہے ، ان پر احسان کرنے والا اور ان کو ثابت قدم کرنے والا ہے۔ اور اللہ ان کو متعین طور پر بتاتا ہے کہ ان لوگوں سے اللہ راضی ہوگیا ہے۔ وہ سب جو ایک درخت کے نیچے بیعت رضوان میں شریک ہوئے ، ان کے دلوں میں جو کچھ تھا ، وہ بھی بتا دیا۔ اور ان سے راضی ہوگیا۔ اور یہ فیصلہ کردیا کہ عنقریب ت

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi