Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 109

سورة المائدة

یَوۡمَ یَجۡمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ فَیَقُوۡلُ مَا ذَاۤ اُجِبۡتُمۡ ؕ قَالُوۡا لَا عِلۡمَ لَنَا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ عَلَّامُ الۡغُیُوۡبِ ﴿۱۰۹﴾

[Be warned of] the Day when Allah will assemble the messengers and say, "What was the response you received?" They will say, "We have no knowledge. Indeed, it is You who is Knower of the unseen"

جس روز اللہ تعالٰی تمام پیغمبروں کو جمع کرے گا ، پھر ارشاد فرمائے گا کہ تم کو کیا جواب ملا تھا ، وہ عرض کریں گے کہ ہم کو کچھ خبر نہیں تو ہی بے شک پوشیدہ باتوں کو پورا جاننے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Messengers Will be Asked About Their Nations Allah says; يَوْمَ يَجْمَعُ اللّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ قَالُواْ لاَ عِلْمَ لَنَا إِنَّكَ أَنتَ عَلَّمُ الْغُيُوبِ On the Day when Allah will gather the Messengers together and say to them: "What was the response you received (from men to your teaching)!" They will say: "We have no knowledge, verily, only You are the Knower of all that is hidden." Allah states that on the Day of Resurrection, He will ask the Messengers about how their nations, to whom He sent them, answered and responded to their teachings. Allah said in other Ayat, فَلَنَسْـَلَنَّ الَّذِينَ أُرْسِلَ إِلَيْهِمْ وَلَنَسْـَلَنَّ الْمُرْسَلِينَ Then surely, We shall question those (people) to whom it (the Book) was sent and verily, We shall question the Messengers. (7:6) and, فَوَرَبِّكَ لَنَسْـَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينََمَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ So, by your Lord, We shall certainly call all of them to account. For all that they used to do. (15:92-93) According to Mujahid, Al-Hasan Al-Basri and As-Suddi, The statement of the Messengers here, لااَ عِلْمَ لَنَا (We have no knowledge), is the result of the horror of that Day. Abdur-Razzaq narrated that Ath-Thawri said that Al-A`mash said that Mujahid said about the Ayah, يَوْمَ يَجْمَعُ اللّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ (On the Day when Allah will gather the Messengers together and say to them: "What was the response you received)!" They will become afraid and reply, لااَ عِلْمَ لَنَا (We have no knowledge), Ibn Jarir and Ibn Abi Hatim also recorded this explanation. Ali bin Abi Talhah said that Ibn Abbas commented on the Ayah, "They will say to the Lord, Most Honored, `We have no knowledge beyond what we know, and even that, You have more knowledge of them than us." This response is out of respect before the Lord, Most Honored, and it means, we have no knowledge compared to Your encompassing knowledge. Therefore, our knowledge only grasped the visible behavior of these people, not the secrets of their hearts. You are the Knower of everything, Who has encompassing knowledge of all things, and our knowledge compared to Your knowledge is similar to not having any knowledge at all, for أَنتَ عَلَّمُ الْغُيُوبِ (only You are the Knower of all that is hidden).

روز قیامت انبیاء سے سوال اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے کہ رسولوں سے قیامت کے دن سوال ہو گا کہ تمہاری امتوں نے تمہیں مانا یا نہیں؟ جیسے اور آیت میں ہے آیت ( فَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الَّذِيْنَ اُرْسِلَ اِلَيْهِمْ وَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الْمُرْسَلِيْنَ ) 7 ۔ الاعراف:6 ) یعنی رسولوں سے بھی اور ان کی امتوں سے بھی یہ ضرور دریافت فرمائیں گے اور جگہ ارشاد ہے آیت ( فَوَرَبِّكَ لَنَسْــَٔـلَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ ) 15 ۔ الحجر:92 ) تیرے رب کی قسم ہم سب سے ان کے اعمال کا سوال ضرور ضرور کریں گے ، رسولوں کا یہ جواب کہ ہمیں مطلق علم نہیں اس دن کی ہول و دہشت کی وجہ سے ہو گا ، گھبراہٹ کی وجہ سے کچھ جواب بن نہ پڑے گا ، یہ وہ وقت ہو گا کہ عقل جاتی رہے گی پھر دوسری منزل میں ہر نبی اپنی اپنی امت پر گواہی دے گا ۔ ایک مطلب اس آیت کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ سوال کی غرض یہ ہے کہ تمہاری امتوں نے تمہارے بعد کیا کیا عمل کئے اور کیا کیا نئی باتیں نکا لیں؟ تو وہ ان سے اپنی لا علمی ظاہر کریں گے ، یہ معنی بھی درست ہو سکتے ہیں کہ ہمیں کوئی ایسا علم نہیں جو اے جناب باری تیرے علم میں نہ ہو ، حقیقتاً یہ قول بہت ہی درست ہے کہ اللہ کے علم کے مقابلے میں بندے محض بےعلم ہیں تقاضائے ادب اور طریقہ گفتگو یہی مناسب مقام ہے ، گو انبیاء جانتے تھے کہ کس کس نے ہماری نبوت کو ہمارے زمانے میں تسلیم کیا لیکن چونکہ وہ ظاہر کے دیکھنے والے تھے اور رب عالم باطن بین ہے اس لئے ان کا یہی جواب بالکل درست ہے کہ ہمیں حقیقی علم مطلقاً نہیں تیرے علم کی نسبت تو ہمارا علم محض لا علمی ہے حقیقی عالم تو صرف ایک تو ہی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

109۔ 1 انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ ان کی قوموں نے اچھا یا برا جو بھی معاملہ کیا، اس کا علم یقینا انہیں ہوگا لیکن وہ اپنے علم کی نفی یا تو محشر کی کی ہولناکی اور اللہ جل جلالہ کی ہیبت و عظمت کی وجہ سے کریں گے یا اس کا تعلق ان کی وفات کے بعد کے حالات سے ہوگا۔ علاوہ ازیں باطنی امور کا علم تو صرف اللہ ہی کو ہے۔ اس لئے وہ کہیں گے علام الغیوب تو ہی ہے نہ کہ ہم۔ اس سے معلوم ہوا انبیاء و رسل عالم الغیب نہیں ہوتے، عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے۔ انبیاء کو جتنا کچھ علم ہوتا ہے اولاً تو اس کا تعلق ان امور سے ہوتا ہے جو فرائض رسالت کی ادائیگی کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ ثانیا ان سے بھی ان کو بذریعہ وحی آگاہ کیا جاتا ہے۔ حالانکہ علام الغیب وہ ہوتا ہے۔ جس کو ہر چیز کا علم ذاتی طور پر ہو، نہ کہ کسی کے بتلانے پر اور جس کو بتلانے پر کسی چیز کا علم حاصل ہو اسے عالم الغیب نہیں کہا جاتا۔ نہ وہ عالم الغیب ہوتا ہی ہے۔ فافھم وتدبر ولا تکن من الغافلین

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥٧] روز قیامت پیغمبروں سے سوال :۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ رسولوں کو ان کی امتوں نے جو جو جواب دیئے تھے ان کا انہیں کسی نہ کسی حد تک علم ضرور تھا مگر روز حساب میں ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب دہشت اتنی زیادہ ہوگی کہ ماسوائے محمد رسول اللہ کے انبیاء و رسل سمیت سب نفسی نفسی پکار رہے ہوں گے اور اپنی اپنی نجات کی فکر کے سوا کسی کو کوئی بات سوجھ ہی نہیں رہی ہوگی اسی بنا پر رسول ایسے وقت میں انتہائی مختصر اور جامع سا جواب دیں گے اور یہ جواب اس لحاظ سے مبنی بر حقیقت بھی ہے کہ اللہ کے علم کے مقابلہ میں دوسروں کا علم کچھ حقیقت نہیں رکھتا نیز لفظ (مَاذَا اَجَبْتُمْ ) کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو دعوت تم نے لوگوں کو دی تھی اس کا رد عمل کیسا رہا اور لوگوں نے اس دعوت کو کہاں تک قبول کیا تھا اس کا جواب پیغمبر یہ دیں گے کہ اے اللہ ! یہ بات تو آپ ہی خوب جانتے ہیں اس کا علم ہمیں کیسے ہوسکتا ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ ۔۔ : دین کے کچھ مسائل اور احکام بیان کرنے کے بعد اب قیامت کے بعض احوال ذکر فرما دیے، تاکہ نافرمانی کرنے والوں کو تنبیہ ہو۔ (کبیر) مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن پیغمبروں کو جمع کرکے ان سے سوال ہوگا کہ جو دعوت تم نے دی تھی تمہاری امتوں نے اسے کس حد تک قبول کیا۔ پیغمبروں سے یہ سوال درحقیقت امتوں کو ڈانٹ ڈپٹ اور ملامت کے لیے ہوگا۔ (ابن کثیر) جیسا کہ آیت : (وَاِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىِٕلَتْ )” جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا “ یہ سوال درحقیقت زندہ درگور کرنے والوں کو ذلیل کرنے کے لیے ہوگا۔ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا ۭ۔۔ : وہ کہیں گے کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امتوں کے اپنے اپنے رسولوں کو جواب کا کچھ علم تو پیغمبروں کو تھا، کیونکہ ان کی عمر انھی میں گزری تھی، تو وہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں کچھ علم نہیں۔ اس سوال کا جواب (اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ ) میں موجود ہے، یعنی ہم تو صرف ان کے ظاہری جواب کی حد تک واقف ہیں، جو ہماری زندگی میں انھوں نے دیا اور پیغمبر شہادت بھی اسی کے متعلق دیں گے۔ (دیکھیے نساء : ٤١۔ بقرہ : ١٤٣) باقی رہا کہ انھوں نے فی الحقیقت ہماری دعوت کو دل سے قبول کیا یا نہیں اور ہمارے بعد ہماری امتیں اس دعوت پر کہاں تک ثابت قدم رہیں تو اس کا علم تیرے سوا کسی کو نہیں، کیونکہ چھپی ہوئی باتوں کو تو ہی خوب جاننے والا ہے، سو آیات میں بحمد اللہ کوئی تعارض نہیں۔ (کبیر) شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں کہ یہ ان کو سنایا جو پیغمبروں کی شفاعت پر مغرور ہیں، تاکہ معلوم کریں کہ اللہ تعالیٰ کے آگے کوئی کسی کے دل پر گواہی نہیں دیتا اور کوئی کسی کی سفارش نہیں کرتا۔ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Linkage of Verses Earlier, mention was made of various injunctions. In between came inducements to put these in practice along with warnings against opposing them. Now it is to reemphasize the approach that people are reminded of the frightening happenings of the Day of Qiyamah so that obedience is promoted and antagonism is checked. This is the prevailing style of the Holy Qur&an. Then, towards the closing stages of the Surah, there is that dialogue with the people of the Book which has also appeared earlier through several verses where the purpose is to acquaint the people of the Book with facts about Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) facts which affirm his being a servant of Allah and negate the er¬roneous ascribing of godhood to him (though, the actual locale of this address will be the Last Day of Qiyamah). Commentary The First Question Asked of Prophets (علیہم السلام) on the Last Day Verse 109 opens with the statement: يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّـهُ الرُّ‌سُلَ `(Remember) the day Allah will assemble the messengers& which is ominous. Though, the day of Qiyamah will be the Day of Doom when all human beings born from the beginning to the end shall be standing on open grounds. Human beings, no matter what their region, country or time, shall all be present on those grounds and there will come that hour of ultimate reckoning for a whole lifetime of deeds. But, in the statement quoted above, mentioned particularly are the blessed prophets whom Allah will assemble on that day of reckoning. The sense is that, as for as¬sembling, the whole world will be assembled, but the first question asked will be from the prophets, may peace be upon them all - so that the whole creation of Allah may see that, on that day, no one is ex¬empted from reckoning. Then, the question asked of the prophets will be: مَاذَا أُجِبْتُمْ (How were you responded to?). It means when you invited your communities towards Allah and His true religion, how did they react to your call. Did they act as they were commanded to? Or, did they say no to the call and opposed it? Though the question will be addressed to the prophets, but it would really be beamed at their communities. In other words, the prophets will be the first ones to testify about the good or bad deeds done by their communities. And for them this would be a trying time, for, on their part, they would be hoping for the intercession of their prophets to rescue them from this nerve shattering experience, while, on the other hand, there would come this question addressed to their prophets themselves requiring them to explain the conduct of their communities. Under such circumstances, it is obvious that prophets would never say anything but the truth, so the criminals and sinners will have apprehensions that the prophets themselves will become wit¬nesses to their wrong-doings. Who, then, they would wonder, was now left to intercede on their behalf? The answer that the prophets will give will be: قَالُوا لَا عِلْمَ لَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ (We have no knowledge. Surely You have the full knowledge of all that is unseen). The Removal of a Doubt As for the people of every community who were born after passing away of their prophets from this world, this answer given by the prophets (علیہم السلام) correct and clear in that they are unaware of the actual state of their faith and deeds - because no one has the knowledge of the unseen except Allah. But, the question arises with regard to the great majority of people within the community, who professed belief at the hands of their prophet as a result of his work among them, and proved that they kept following before their eyes what they were asked to follow. Similarly, there were disbelievers who did not listen to the prophets, even treated them with hostility. How would it be correct to say about them that ` we have no knowledge of their faith and deeds.&? It appears in Tafsir Al-Bahr Al-Muhit that Imam Razi has answered this doubt by saying: There are two separate things here. One is عِلم ` Ilm which means perfect certitude, while the other is ظَن Zann which means conjecture or weighty likelihood. And it is obvious that if a person can, despite his being sitting next to the other person, testify about his faith and deed, then, it will be on no other basis but that of ظَن Zann or conjecture or likelihood. Otherwise, real faith (&Iman) is a secret of the heart which no one can find out with any certitude without a Divine revelation. Every religious community had their groups of hypocrites who obviously did profess faith and did follow what they were com¬manded to follow. But, their hearts had no faith in them nor they had the real feeling and drive for carrying out those commands. All they had was hypocricy. , But, like all laws, religious laws too were applied on what was visible from the outside. Anyone who called himself a be¬liever, followed Divinely ordained laws, and no word or deed from him or her stood proved against faith and belief, was a good believer in the sight of the prophets and their believing communities. Whether some-one was a true believer at heart, or simply a hypocrite, it did not count for they had no choice in the matter. Therefore, it was said by the Holy Prophet: (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نَحنُ نَحکُمُ بِالظَّوَاھِرِ اَاللہُ مُتَوَلِّی السَّرَای (علیہ السلام) ر . We judge on the basis of outward deeds while Allah is (Himself) the custodian of the secrets (of the hearts). Under this rule, the noble prophets, their deputies and the learned could confirm, at least in the mortal world, that someone was a true believer as based on their favourable opinion deduced from his out-ward deeds. But, that mortal world where everything revolved round opinions and conjectures is all gone. This is the Yowm al-Hashr, the fateful day of Resurrection when the dead shall rise and where things will be sorted out and realities will be unfolded. Criminals will stand on trial. People will witness against them. If they do not confess, oth¬er witnesses will be brought in, very special, and very official witness-es. With mouths and tongues silenced, the wrong-doer&s hands and legs and the skin will be asked to testify. They will tell everything الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَىٰ أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْ‌جُلُهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿٦٥﴾ (That Day We shall set a seal on their mouths while their hands will speak to Us, and their feet bear witness, to all that they did -36:65). Human beings will then surely find out that parts of their own body could also act as secret service agents when summoned to do so by the Lord of the universes. After such disarming testimony no denial will remain possible. In short, that would be a state of being in which no judgment will be based on opinion, estimate and conjecture. Instead, certitude will be the order of the day. And as we have just seen that no one has the real knowledge about anyone&s faith and belief except Allah, therefore, when the prophets will be asked on the day of Resurrection: مَاذَا أُجِبْتُمْ (How were you responded to?), they would recognize the reality behind the question, that the question is not being asked in the world of our experience where it could be answered by conjecture, instead, that question was being asked in the horrendous scenario of the Day of Resurrection where nothing other than certitude was going to work. Therefore, their answer: ` We have no knowledge& about it, that is, they do not have that certain knowledge needed to answer the question, is right and correct. The Answer Shows the Affection Prophets have for People We now know that the prophets did have some opinion about the acceptance or rejection of their call by their communities and knew facts about their obedience or disobedience. On that basis, they could have at least mentioned their apparent attitude as part of their an-swer to the question - and could have referred the certainty in knowl¬edge to the sole domain of Almighty Allah. But, what we see here is that the prophets said nothing about what they knew, nor did they mention any events which had passed before them. They simply re-signed these to the Divine knowledge and chose to remain silent. This was a great demonstration of consideration. Prophets are very affectionate to their people, and to the creation of Allah in gener¬al. They would not elect to say something as an adverse comment against their community on their own, lest their people are in trouble. If they had to say so, they would. But, here they had the excuse of not having certain knowledge. Using this legitimate excuse to their advantage, they could have avoided saying anything against their com¬munities - and so they did. Five Questions on the Day of Resurrection Opened through this verse is a window to Qiyamah, the fateful Day of Doom. Stationed there on the grandstands of reckoning are the highest and the dearest of Allah, His noble messengers and prophets, all in awe and reverence. Think of them and think of what would be happening to others. Therefore, we should start worrying about that Day right from this day. This little time of our life is a blessing in our hands and should be devoted to getting ready for the ultimate account¬ing. In a Hadith of Tirmidhi, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is reported to have said: لَا تَزولُ قدمَا ابنِ اٰدم یَومَ القِیامَۃِ حَتَّی یُسٔلَ عن خَمسِ : عن عُمرِہِ فیمَا اَفنَاہُ وعَن شَبَانِہِ فِیمَا اَبلَاہۃ وعَن مَالِہِ مِن اٰنَ اَنفَقَہ و مَاذَا عَمِلَ بِمَا عَلِمَ No son of Adam will move a step on the Day of Qiyamah until he is asked five questions: (1) About his age: In what did he use it up? (2) And about his youth: In what did he spend it? (3) And about his wealth: From where did he earn it? (4) And where did he spend it? (5) And what was it that he did follow¬ing that which he knew? Great is the mercy and affection of Allah Ta` ala. He puts us to a test and He Himself tells His people about the questions asked during the test. The task was done by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) who told his Ummah how to appear in this test. Now, for them, there is nothing left to do but to resolve these questions, find their answers and solu¬tions and keep that preserved (for the day of trial). So, if someone still fails, even after being told what will be in the test, fairly in advance, who else could be more deprived than him?

ربط آیات اوپر احکام مختلفہ کا ذکر ہوا اور درمیان میں ان پر عمل کی ترغیب اور ان کی مخالفت پر ترغیب فرمائی گئی، اسی کی تاکید کے لئے اگلی آیت میں قیامت کے ہولناک واقعات یاد دلاتے ہیں، تاکہ اطاعت کا زیادہ باعث اور مخالفت سے زیادہ مانع ہو اور اکثر طرز قرآن مجید کا یہی ہے، پھر ختم سورت میں اہل کتاب کا مکالمہ ذکر فرمایا ہے، جو ماقبل متعدد آیات میں مذکور ہوچکا، جس سے مقصد اہل کتاب کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق بعض مضامین سنانا ہے جن سے ان کی عبدیت کا اثبات اور الوہیت کی نفی ہے (اگرچہ اس مخاطبت کا وقوع قیامت میں ہوگا) ۔ خلاصہ تفسیر (وہ دن بھی کیسا ہولناک ہوگا) جس روز اللہ تعالیٰ تمام پیغمبروں کو (مع ان کی امتوں کے) جمع کریں گے پھر (ان امتوں میں جو عاصی ہوں گے بغرض توبیخ ان کے سنانے کو ان پیغمبروں سے) ارشاد فرمائیں گے کہ تم کو (ان امتوں کی طرف سے) کیا جواب ملا تھا، وہ عرض کریں گے کہ (ظاہری جواب تو ہم کو معلوم ہے اور اس کو بیان بھی کردیں گے، لیکن ان کے دل میں جو کچھ ہو اس کی) ہم کو کچھ خبر نہیں (اس کو آپ ہی جانتے ہیں کیونکہ) آپ بیشک پوشیدہ باتوں کے پورے جاننے والے ہیں (مطلب یہ کہ ایک دن ایسا ہوگا اور اعمال و احوال کی تفتیش ہوگی، اس لئے تم کو مخالفت و معصیت سے ڈرتے رہنا چاہیئے، اور اسی روز عیسیٰ (علیہ السلام) سے ایک خاص گفتگو ہوگی) جبکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے کہ اے عیسیٰ بن مریم میرا انعام یاد کرو (تاکہ لذت تازہ ہو) جو تم پر اور تمہاری والدہ پر (مختلف اوقات میں مختلف صورتوں سے ہوا ہے مثلاً ) جب کہ میں تم کو روح القدس (یعنی جبرئیل علیہ السلام) سے امداد اور تائید دی (اور) تم آدمیوں سے (دونوں حالتوں میں یکساں) کلام کرتے تھے (ماں کی) گود میں بھی اور بڑی عمر میں بھی (دونوں کلاموں میں کچھ تفاوت نہ تھا) اور جب کہ میں نے تم کو (آسمانی) کتابیں اور سمجھ کی باتیں اور (بالخصوص) توریت و انجیل تعلیم کیں، اور جب کہ تم گارے سے ایک شکل بناتے تھے، جیسے پرندہ کی شکل ہوتی ہے میرے حکم سے پھر تم اس (مصنوعی ہیئت) کے اندر پھونک مار دیتے تھے جس سے وہ (سچ مچ کا جاندار) پرندہ بن جاتا تھا، میرے حکم سے اور تم اچھا کردیتے تھے مادرزاد اندھے کو اور برص (جذام) کے بیمار کو میرے حکم سے اور جب کہ تم مردوں کو (قبروں سے) نکال (اور جلا کر) کھڑا کرلیتے تھے میرے حکم سے اور جب کہ میں نے بنی اسرائیل (میں سے جو آپ کے مخالف تھے ان) کو تم سے (یعنی تمہارے قتل و اہلاک سے) سے باز رکھا جب ( انہوں نے تم کو ضرر پہنچانا چاہا جبکہ) تم ان کے پاس (اپنی نبوت کی) دلیلیں (معجزات) لے کر آئے تھے پھر ان میں جو کافر تھے انہوں نے کہا تھا کہ یہ (معجزات) بجز کھلے جادو کے اور کچھ بھی نہیں۔ معارف و مسائل قیامت میں انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام سے سب سے پہلے سوال ہوگا (قولہٰ تعالیٰ ) يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ ، قیامت میں اگرچہ اول سے آخر تک پیدا ہونے والے تمام انسان ایک کھلے میدان میں کھڑے ہوں گے، اور کسی خطہ، کسی ملک اور کسی زمانہ کا انسان ہو وہ اس میدان میں حاضر ہوگا۔ اور سب سے ان کے عمر بھر کے اعمال کا حساب لیا جائے گا، لیکن بیان میں خصوصیت کے ساتھ انبیاء (علیہم السلام) کا ذکر کیا گیا، يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ ، یعنی اس دن کو یاد کرو، جس دن اللہ تعالیٰ سب رسولوں کو حساب کے لئے جمع فرمائیں گے، مراد یہ ہے کہ جمع تو سارے عالم کو کیا جائے گا، مگر سب سے پہلے سوال انبیاء (علیہم السلام) سے ہوگا، تاکہ پوری مخلوق دیکھ لے، کہ آج کے دن کوئی حساب اور سوال و جواب سے مستثنیٰ نہیں، پھر رسولوں سے جو سوال کیا جائے گا وہ یہ ہے کہ ماذآ اُجِبْتُمْ ، یعنی جب آپ لوگوں نے اپنی اپنی امتوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے دین حق کی طرف بلایا تو ان لوگوں نے آپ کو کیا جواب دیا تھا ؟ اور کیا انہوں نے آپ کے بتلائے ہوئے احکام پر عمل کیا ؟ یا انکار و مخالفت ؟ اس سوال کے مخاطب اگرچہ انبیاء (علیہم السلام) ہوں گے، لیکن در حقیقت سنانا ان کی امتوں کو مقصود ہوگا، کہ امتوں نے جو اعمال نیک یا بد کئے ہیں ان کی شہادت سب سے پہلے ان کے رسولوں سے لی جائے گی، امتوں کے لئے یہ وقت بڑا نازک ہوگا، کہ وہ تو اس ہوش ربا ہنگامہ میں انبیاء (علیہم السلام) کی شفاعت کے متوقع ہوں گے۔ ادھر انبیاء (علیہم السلام) ہی سے ان کے متعلق یہ سوال ہوجائے گا تو ظاہر ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کوئی غلط یا خلاف واقع بات تو کہہ نہیں سکتے، اس لئے مجرموں اور گنہگاروں کو اندیشہ یہ ہوگا کہ جب خود انبیاء (علیہم السلام) ہی ہمارے جرائم کے شاہد بنیں گے، تو اب کون ہے جو کوئی شفاعت یا مدد کرسکے۔ انبیاء (علیہم السلام) اس سوال کا جواب یہ دیں گے : قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا، یعنی ہمیں ان کے ایمان و عمل کا کوئی علم نہیں، آپ خود ہی تمام غیب کی چیزوں سے پورے باخبر ہیں۔ ایک شبہ کا ازالہ یہاں سوال یہ ہے کہ ہر رسول کی امت کے وہ لوگ جو ان کی وفات کے بعد پیدا ہوئے ان کے بارے میں تو انبیاء (علیہم السلام) کا یہ جواب صحیح اور صاف ہے، کہ ان کے ایمان و عمل سے وہ باخبر نہیں، کیونکہ غیب کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں، لیکن ایک بہت بڑی تعداد امت میں ان لوگوں کی بھی تو ہے جو خود انبیاء (علیہم السلام) کی انتھک کوششوں سے انہی کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے، اور پھر ان کے احکام کی پیروی ان کے سامنے کرتے رہے، اسی طرح وہ کافر جنہوں نے انبیاء کی بات نہ مانی اور مخالفت دشمنی سے پیش آئے، ان کے بارے میں یہ کہنا کیسے صحیح ہوگا کہ ہمیں ان کے ایمان و عمل کا علم نہیں، تفسیر بحر محیط میں ہے کہ امام ابو عبداللہ رازی رحمة اللہ علیہ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ یہاں دو چیزیں الگ الگ ہیں، ایک علم جس کے معنی یقین کامل کے ہیں، اور دوسرے ظن یعنی غلبہ گمان، اور ظاہر ہے کہ ایک انسان کسی دوسرے انسان کے سامنے ہونے کے باوجود اس کے ایمان و عمل کی گواہی اگر دے سکتا ہے تو محض ظن، یعنی غلبہ گمان کے اعتبار سے دے سکتا ہے، ورنہ دلوں کا راز اور حقیقی ایمان جس کا تعلق دل سے ہے وہ تو کسی کو یقینی طور پر بغیر وحی الٓہی کے معلوم نہیں ہوسکتا، ہر امت میں منافقین کے گروہ رہے ہیں، جو ظاہر میں ایمان بھی لاتے تھے اور احکام کی پیروی بھی کرتے تھے، مگر ان کے دلوں میں ایمان نہ تھا، اور نہ پیروی کا کوئی جذبہ، وہاں جو کچھ تھا سب ریاکاری تھی، ہاں دنیا کے تمام احکام ظاہر افعال پر دائر ہوتے تھے، جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہے اور احکام خداوندی کا اتباع کرے، اور خلاف اسلام و ایمان اس سے کوئی قول و فعل ثابت نہ ہو، انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی امتیں اس کو مومن صالح کہنے پر مجبور تھے، خواہ وہ دل میں مومن مخلص ہو یا منافق اسی لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نحن نحکم بالظواہم واللّٰہ متولی السرائر ” یعنی ہم تو ظاہر اعمال پر حکم جاری کرتے ہیں، دلوں کے مخفی رازوں کا متولی خود اللہ جل شانہ ہے “۔ اسی ضابطہ کے تحت دنیا میں انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے نائب خلفاء و علماء ظاہری اعمال پر حسن ظن کے مطابق کسی کے مومن صالح ہونے کی شہادت دے سکتے تھے لیکن آج وہ عالم دنیا جس کا سارا مدار ظن و گمان پر تھا ختم ہوچکا، یہ محشر کا میدان ہے جہاں بال کی کھال نکالی جائے گی، حقائق کو آشکار کیا جائے گا، مجرموں کے مقابلہ میں پہلے دوسرے لوگوں سے شہادتیں لی جائیں گی، ان سے اگر مجرم مطمئن نہ ہوا اور اپنے جرم کا اعتراف نہ کیا تو خاص قسم کے سرکاری گواہ برؤے کار لائے جائیں گے، ان کے منہ اور زبان پر تو مہر سکوت لگا دی جائے گی، اور مجرم کے ہاتھوں پاؤں اور کھال سے گواہی لی جائے گی، وہ ہر فعل کی پوری حقیقت بیان کردیں گے، (آیت) الیوم نختم علیٰ ۔ اس وقت انسانوں کو معلوم ہوگا کہ میرے تمام اعضاء رب العالمین کی خفیہ پولیس تھے، ان کے بیان کے بعد انکار کی کوئی صورت باقی نہ رہے گی۔ خلاصہ یہ کہ اس عالم کا کوئی حکم محض ظن وتخمین پر نہیں چلے گا، بلکہ علم و یقین پر ہر چیز کا مدار ہوگا، اور یہ ابھی معلوم ہوچکا کہ کسی شخص کے ایمان و عمل کا حقیقی اور یقینی علم سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا، اس لئے انبیاء (علیہم السلام) سے جب محشر میں یہ سوال ہوگا کہ ماذآ اُجِبْتُمْ ؟ تو وہ اس سوال کی حقیقت کو پہچان لیں گے کہ یہ سوال عالم دنیا میں نہیں ہو رہا جس کا جواب ظن کی بنیاد پر دیا جاسکے، بلکہ یہ سوال محشر میں ہو رہا ہے، جہاں یقین کے سوا کوئی بات چلنے والی نہیں، اس لئے ان کا یہ جواب کہ ہمیں ان کے متعلق کوئی علم نہیں، یعنی علم یقینی نہیں بالکل بجا اور درست ہے۔ ایک سوال اور اس کا جواب، انبیاء (علیہم السلام) کی انتہائی شفقت کا ظہور یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امتوں کے قبول و عدم قبول، اطاعت یا نافرمانی کے جو واقعات ان کے سامنے پیش آئے ان سے جس طرح کا علم بظن غالب ان کو حاصل ہوا، اس سوال کے جواب میں وہ تو بیان کردینا چاہئے تھا، صرف اس علم کے درجہ یقین کا حوالہ اللہ تعالیٰ پر کیا جاسکتا ہے، مگر یہاں انبیاء (علیہم السلام) نے اپنی معلومات اور پیش آمدہ واقعات کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا، علم الٓہی کے حوالے کر کے خاموش ہوگئے۔ حکمت اس میں یہ تھی کہ انبیاء (علیہم السلام) اپنی امتوں اور عام خلق اللہ پر بےانتہا شفیق ہوتے ہیں، ان کے متعلق ایسی کوئی بات اپنی زبان سے کہنا پڑتا، یہاں علم یقین نہ ہونے کا عذر موجود تھا، اس عذر سے کام لے کر اپنی زبانوں سے اپنی امتوں کے خلاف کچھ کہنے سے بچ سکتے تھے اس طرح اس سے بچ گئے۔ محشر میں پانچ چیزوں کا سوال خلاصہ یہ کہ اس آیت میں قیامت کے ہولناک منظر کی ایک جھلک سامنے کردی گئی ہے کہ موقف حساب میں اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ برگزیدہ و مقبول رسول کھڑے ہیں، اور لرز رہے ہیں تو دوسروں کا کیا حال ہوگا، اس لئے اس روز کی فکر آج سے چاہئے، اور فرصت عمر کو اس حساب کی تیاری کے لئے غنیمت سمجھنا چاہئے۔ ترمذی شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لا تزول قدما ابن ادم۔ الخ۔ ” یعنی کسی آدمی کے قدم محشر میں اس وقت تک آگے نہ سرک سکیں گے جب تک اس سے پانچ سوالوں کا جواب نہ لے لیا جائے، ایک یہ کہ اس نے اپنی عمر کے طویل و کثیر لیل و نہار کس کام میں خرچ کئے، دوسرے یہ کہ خصوصیت سے جوانی کا زمانہ جو قوت عمل کا زمانہ تھا، اس کو کن کاموں میں خرچ کیا، تیسری یہ کہ ساری عمر میں جو مال اس کو حاصل ہوا وہ کہاں اور کن حلال یا حرام طریقوں سے کمایا، چوتھے یہ کہ مال کو کن جائز یا ناجائز کاموں میں خرچ کیا، پانچویں یہ کہ اپنے علم پر کیا عمل کیا ؟ “ اللہ تعالیٰ نے غایت رحمت و شفقت سے اس امتحان کا پرچہ سوالات بھی پہلے ہی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ امت کو بتلا دیا، اب ان کا کام صرف اتنا رہ گیا کہ ان سوالات کا حل سیکھے، اور محفوظ رکھے، امتحان سے پہلے ہی سوالات بتلا دینے کے بعد بھی کوئی ان میں فیل ہوجائے تو اس سے زیادہ کون محروم ہوسکتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَوْمَ يَجْمَعُ اللہُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ۝ ٠ۭ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا۝ ٠ۭ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ۝ ١٠٩ جمع الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج/ 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] ، ( ج م ع ) الجمع ( ف ) کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے ( ماذا) يستعمل علی وجهين : أحدهما . أن يكون ( ما) مع ( ذا) بمنزلة اسم واحد، والآخر : أن يكون ( ذا) بمنزلة ( الذي) ، فالأوّل نحو قولهم : عمّا ذا تسأل ؟ فلم تحذف الألف منه لمّا لم يكن ما بنفسه للاستفهام، بل کان مع ذا اسما واحدا، وعلی هذا قول الشاعر : دعي ماذا علمت سأتّقيه أي : دعي شيئا علمته . وقوله تعالی: وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 219] ، فإنّ من قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالنّصب فإنّه جعل الاسمین بمنزلة اسم واحد، كأنّه قال : أيّ شيء ينفقون ؟ ومن قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالرّفع، فإنّ ( ذا) بمنزلة الذي، وما للاستفهام أي : ما الذي ينفقون ؟ وعلی هذا قوله تعالی: ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل/ 24] ، و (أساطیر) بالرّفع والنصب ( ماذا ) اور ماذا ، ، بھی دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ اول یہ کہ ، ، مازا کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا لذی کے ہو ( ما بمعنی اول یہ کہ ماذا ، ، کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا بمنزلہ الذی کے ہو ( ما بمعنی ای شئی کے ہو پہلی قسم کی مثال جیسے : عما ذا تسال کہ کسی چیز کے بارے میں سوال کرتے ہو اس صورت میں چونکہ ، ، ماذا اکیلا ، ، استفہام کے لئے نہیں ہے بلکہ ، ، ذا کے ساتھ مل کر ایک اسم بنتا ہے اس لئے ، ، ما ، ، کے الف کو حزف نہیں کیا گیا ۔ اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے یعنی جو چیز تجھے معلوم ہے اسے چھوڑ دے میں اس سے بچنے کی کوشش کرونگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 219] اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ کہ ( خدا کی راہ میں ) کونسا مال خرچ مال کریں ۔ میں جو لوگ کو منصوب پڑھتے ہیں ۔ وہ ماذا کو بمنزلہ ایک اسم کے مانتے ہیں کونسی چیز صرف کریں مگر جن کے نزدیک ہے اور ما استفہا میہ ہے یعنی وہ کونسی چیز ہے جسے خرچ کریں ۔ اس بنا پر آیت کریمہ : ۔ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل/ 24] کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہی تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں ۔ میں اساطیر رفع اور نصب دونوں جائز ہیں ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا غيب الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] ( غ ی ب ) الغیب ( ض ) غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٩) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ دہشت کے بعض مواقع پر دریافت کرے گا کہ تمہاری قوم نے تمہیں کیا جواب دیا تو اس وقت اس پریشانی کی بنا پر کوئی جواب نہ دیں گے، پھر بعد میں جواب دیں گے اور احوال امم پر شہادت دیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٩ (یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ ط) آپ لوگوں کی دعوت کے جواب میں آپ کی قوموں نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا تھا ؟ (قَالُوْا لاَ عِلْمَ لَنَاط اِنَّکَ اَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ ) وہ اللہ تعالیٰ کے جناب میں زبان کھولنے سے گریز کریں گے اور کہیں گے کہ تو تمام پوشیدہ باتوں کو جاننے والا ہے ‘ ہر حقیقت تجھ پر منکشف ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

122. This refers to the Day of Judgement. 123. The reference here is to the response of the world to the call of the Prophets. 124. This reply indicates that the Prophets would say that their knowledge was confined to that limited, outward response which they had encountered during their lifetimes. The true reaction to their call at various places and in different forms would only be known completely to God Himself.

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :122 مراد ہے قیامت کا دن ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :123 یعنی اسلام کی طرف جو دعوت تم نے دنیا کو دی تھی اس کا کیا جواب دنیا نے تمہیں دیا ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :124 یعنی ہم تو صرف اس محدود ظاہری جواب کو جانتے ہیں جو ہمیں اپنی زندگی میں ملتا ہوا محسوس ہوا ۔ باقی رہا یہ کہ فی الحقیقت ہماری دعوت کا رد عمل کہاں کس صورت میں کتنا ہوا ، تو اس کا صحیح علم آپ کے سوا کسی کو نہیں ہوسکتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

75: قرآنِ کریم کا یہ خاص طریقہ ہے کہ جب وہ اپنے احکام بیان فرماتا ہے تو اس کے ساتھ آخرت کا کوئی ذکر یا پچھلی امتوں کی فرماں برداری یا نافرمانی کا بھی ذکر فرماتا ہے، تاکہ ان احکام پر عمل کرنے کے لئے آخرت کی فکر پیدا ہو، چنانچہ وصیت کے مذکورہ بالا احکام کے بعد اب آخرت کے کچھ مناظر بیان فرمائے گئے ہیں، اور چونکہ کچھ پہلے عیسائیوں کے غلط عقائد کا تذکرہ تھا، اس لئے خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے آخرت میں جو مکالمہ ہوگا اس کا خاص طور پر ذکر فرمایا گیا ہے۔ اور شروع کی اس آیت میں تمام پیغمبروں سے اس سوال کا ذکر ہے کہ ان کی امتوں نے ان کی دعوت کا کیا جواب دیا تھا؟ اس کے جواب میں انہوں نے اپنی لا علمی کا جو اظہار کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دُنیا میں تو لوگوں کے ظاہری بیانات پر ہی فیصلہ کرنے کے مجاز تھے، لہٰذا جس کسی نے ایمان کا دعویٰ کیا ہم نے اسے معتبر سمجھ لیا، لیکن یہ معلوم کرنے کا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں تھا کہ اس کے دل میں کیا ہے؟ آج جبکہ فیصلہ دلوں کے حال کے مطابق ہونے والا ہے، ہم یقین کے ساتھ کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے، کیونکہ دلوں کا پوشیدہ حال تو صرف آپ ہی جانتے ہیں۔ البتہ جب لوگوں کے ظاہری رد عمل ہی کے بارے میں انبیائے کرام سے گواہی لی جائے گی تو وہ ان کے ظاہری اعمال کی گواہی دیں گے، جس کا ذکر سورۂ نساء (41:4) اور سور نحل (16:89) وغیرہ میں آیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

اوپر ذکر تھا کہ طرح طرح کی نصیحت کے بعد بھی جو لوگ اللہ کے رسولوں کی فرمانبرداری نہ کریں گے اور ان کی نصیحت کے موافق احکام الٰہی کو نہ مانیں گے تو دنیا میں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو زبر دستی راہ راست پر لانا نہیں چاہتا۔ اس آیت میں ایسے لوگوں کا عقبیٰ کا حال یوں ذکر فرمایا کہ ان کی نافرمانی کے سبب سے اللہ کے رسول ان کی فرمانبرداری کی شہادت ادا کریں گے بلکہ اللہ عالم الغیب کے علم پر ایسے لوگوں کی حالت کو اس لئے سونپ دیویں۔ کہ ان نافرمانوں میں زمانی فرمانبردار دلی نافرمان بھی ہوں گے جن کو منافق کہتے ہیں جن کے دل کا حال بجز اللہ تعالیٰ کے کسی کو معلوم نہیں۔ اور بعض ایسے بھی ہوں گے جو رسول کی وفات کے بعد دین سے پھرگئے غرض امت کے سب لوگوں کا تفصیلی حال اللہ ہی کو معلوم ہے اس واسطے اللہ کے رسول امت کی فرمانبراری کی حالت کو اللہ کے علم پر سونپ دیویں گے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے انس بن مالک اور سہل بن سعد (رض) وغیرہ کی حدیثیں گذر چکی ہیں کہ بعض لوگوں کو حوض کوثر سے ہٹا دیا جاوے گا یہ حالت دیکھ کر جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرشتوں سے کہیں گے کہ یہ لوگ تو فرمانبرداروں میں سے ہیں تو فرشتے جواب دیں گے کہ آپ کی وفات کے بعد یہ لوگ فرمانبرداری پر قائم نہیں رہے ١ ؎ یہ حدیثیں اور اس قسم کی اور حدیثیں آیت کی تفسیر ہیں جن سے ساری امت کی حالت کو اللہ کے علم پر سونپے جانے کا حال اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:109) ماذا احبتم۔ تمہیں کیا جواب دی اگیا۔ اجابۃ جس کے معنی جواب دینے کے ہیں۔ ماضی مجہول جمع مذکر حاضر۔ یعنی جب تم نے لوگوں کو دین حق کی دعوت دی تو اس کے رد عمل میں ان کا کیا جواب تھا۔ انہوں نے کہاں تک اسے قبول کیا اور کہاں تک اس کے منکر ہوئے۔ لاعلم لنا۔ ہمیں کوئی علم نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کو سرے سے اس بات کا علم ہی نہ تھا۔ کہ ان کی تبلیغ کا کیا اثر ہوا۔ اس جواب کی مختلف وجوہ بیان کی جاتی ہیں۔ (1) یہ کہ یوم حشر کی ہولناکی کی وجہ سے مخاطبین دین حق کے رد عمل کا مفصل بیان بڑا مشکل ہوگا۔ (2) یہ کہ کمال انکساری کی وجہ سے ۔ کہ اے خدا ہمارا علم تیرے علم کے مقابلہ میں اس قدر حقیر اور نامکمل ہے کہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ امام فخر الدین رازی (رح) فرماتے ہیں کہ :۔ ” قالوا لاعلم لنا لانک تعلم ما اظھروا وما اضمروا ونحن لانعلم الا ما اظھروا نعلمک فیہم انفذ من علمنا فلھذا المعنی نفوا العلم من انفسہم لان علیہم عند اللہ کلاعلم۔ (انہوں نے) جواب دیا (اے اللہ) تو ان کے (مخاطبین کے) ظاہر اور باطن کو جانتا ہے۔ اور ہم ان کے ظاہر کو جانتے ہیں۔ تیرا علم ان کے بارے میں ہمارے علم سے کہیں زیاد عمیق اور رقیق ہے بدین وجہ انہوں نے اپنی طرف سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ کیونکہ ان کا علم اللہ تعالیٰ کے علم کے سامنے نہ ہونے کے برابر ہے۔ (3) یہ کہ ہمارا علم نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ ہم اپنی زندگی میں ان کے ظواہر سے باخبر رہے لیکن مرنے کے بعد ہمیں کوئی علم نہیں کہ انہوں نے کیا کیا عمل کئے اور ان کا رد عمل کیا رہا۔ اس کا علم تو ہی رکھتا ہے۔ ایسا ہی جواب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے آیت 5:117 میں دیا۔ وکنت علیہم شھیدا ما دمت فیہم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم۔ میں ان پر گواہ رہا جب تک میں ان میں رہا پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان پر نگران تھا ۔ علام۔ علم سے مبالغہ کا صیغہ ہے۔ خوب جاننے والا۔ علام الغیوب۔ ایسا زبردست جاننے والا جو ہر طرح کی معلومات کا ان کے گوناگوں ہونے کے باوجود علم رکھتا ہو۔ جو اب موجود ہے اسے بھی جانتا ہے جو آئندہ ہوگا اسے بھی جانتا ہے جو ظاہر ہے اسے بھی جانتا ہے اور جو پوشیدہ ہے اسے بھی۔ جو تھا۔ جو ہے۔ جو ہوگا سب کچھ جانتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

شرائع اور احکام کا ذکر کرنے کے بعد اب قیامت کے بعض احوال ذکر فرما دیئے تاکہ نافر مانی کرنے والے کو زجر اور تنبیہ ہو (کبیر) مطلب یہ ہے کہ قیامت کے روز پیغمبروں سے سوال ہوگا کہ جو دعوت تم نے دی تمہاری امتوں نے اسے کس حد تک قبول کیا پیغمبروں سے یہ سوال امتوں کو زجر و علامت کے لے ہوگا۔ ( ابن کثیر)11 یعنی ہم تو صرف ان کے ظاہری جواب کی حد تک واقف ہیں جو ہماری زندگی میں انہوں نے دیا اور اسی کے متعلق پیغمبر شہادت بھی دیں گے ( دیکھئے سورة نسا آیت 41، وبقرہ 143) باقی رہا کہ فی الحقیقت ہماری دعوت کو دل سے قبول کیا یا نہیں اور ہمارے بعد ہماری امتیں کہاں تک اس پر ثابت قدم رہیں تو اس کا علم تیرے سوا کسی کو نہیں پس بحمد اللہ آیات میں تعارض نہیں ہے (کذافی الکبیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یہ ان کو سنایا جو مفر رور ہیں پیغمبروں کو شفاعت پر تاکہ معلوم کریں کہ اللہ تعالیٰ کے آگے کوئی کسی کے دل پر گواہی نہیں دتیا اور کوئی کسی کی شفاعت نہیں کرتا (کذافی المو ضح )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 15 ۔ آیات 109 ۔ تا ۔ 115 ۔ اسرار و معارف : سفارش : اور ہاں اسی پر خوش ہونا کہ باوجود گناہ کے گذارہ چل ہی رہا ہے یا لوٹ کا مال بہت جمع کرلیا ہے دانشمندی کی بات نہین اس لیے کہ ایک دن ایسا آ رہا ہے جب ساری مخلوق کو ایک وقت میں اور ایک جگہ جمع کیا جائے گا اور یہ میدان حشر ہوگا دنیا اور اس کی زندگی اپنی لذتوں اور رنگینیوں سمیت ختم ہوچکی ہوگی کچھ لوگ تو وہ ہوں گے جنہوں نے دنیا میں نافرمانی کا راستہ اپنایا اور غلط کار تھے عقیدے میں کافر ، عمل میں بدکار ، کچھ دوسرے جنہوں نے عقیدے میں بھی حق کو اختیار کیا اور عمل میں بھی کھرے رہے دو اقسام اور بھی ہوں گی ایک قسم کافروں کی جو دل سے کافر تھے بظاہر مسلمان بن کر دکھانے کو مسلمانوں جیسے کام بھی کرتے رہے اور دوسرے وہ مسلمان جو دل سے مسلمان تھے مگر عملی زندگی میں پورے نہ اترے اور پیچھے رہ گئے ان میں دو گروہ جو دونوں دل سے مسلمان ہیں اور عمل میں بھی اچھے تھے اور جو دل سے مسلمان تھے اور عمل میں کمی رہ گئی دونوں شفاعت کے مستحق اور دونوں کافر گروہ کسی سفارش کا حق نہیں رکھتے اور یہ سفارش کرنا انبیاء و رسل کا کام ہے یا پھر ان کی وساطت سے متعلقہ افراد مشائخ یا شہداء یا صالحین یا چھوٹی عمر میں فوت ہونے والے بچے وغیرہ یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ ساری مخلوق کو ایک جگہ جمع فرما کر سب سے پہلا سوال سب کے روبرو انبیاء و رسل سے ہی کیا جائے گا تاکہ ہر شخص پر یہ بات واضح ہوجائے کہ آج نہ کوئی چھپ سکے گا اور نہ کچھ چھپا سکے گا۔ اور جب اتنی عظیم ہستیاں جوابدہی کے لیے حاضر ہیں تو پھر غیر نبی کس شمار قطار میں اور ما وشما کی حیثیت ہی کیا ہے سوال بھی بڑا عجیب ہوگا کہ فرمائیے ، آپ حضرات کو اپنی امتوں کی طرف سے کیا جواب ملا تھا یا کن لوگوں نے اطاعت کی اور کون تھے جو میرے رسولوں کے مقابل اکڑ گئے اب انبیاء اگر دنیا سے جانے کے بعد والوں سے واقف نہ بھی ہوں تو ان کے روبرو جنہوں نے قبول کیا قربانیاں دیں ان سے بھی واقف تھے اور جنہوں نے رد کی مقابلے کیے ان سے بھی لیکن وہ یہ جانتے ہوئے کہ مومن تو رحمت سے محروم نہ رہے گا البتہ ہماری گواہی کافر کے لیے کوئی رعایت باقی نہ چھورے گی پھر اپنی طبعی شرافت رحمت ورافت کا اظہار فرماتے ہوئے عرض کریں گے خدایا ! ہمیں کیا خبر ؟ ہمارے علوم تو ظاہر تک مدرود تھے اور تیری نگاہ دل کے اندر تک تھی ہم نے وہ دیکھا جو تو نے دکھایا وہ جانا۔ جو تو نے بتایا لہذا ہمیں خبر نہیں اس لیے کہ آج کا دن محض ظاہر کی حالت پہ اعتبار کا دن نہیں ہے آج تو بال کی کھال اتاری جائے گی اور ہر ڈھکی چھپی بات بھی آپ پر تو عیاں ہے اس لیے آپ ہی خوب اور بہتر جاننے والے ہیں۔ عیسی (علیہ السلام) : پھر بات ہوگی بھرے میدان میں عیسیٰ (علیہ السلام) سے کہ میرے احسانات کا آپ شمار نہیں کرسکتے اور ان کی کیفیت کا لوگ اندازہ کرنے سے قاسر ہیں دیکھیں آپ پر اور آپ کی والدہ ماجدہ پر کس قدر انعامات فرمائے آپ سے معجزات کا ظہور اور ان کی کرامات کا ظہور عقل انسانی کو عاجز کیے دیتا ہے آپ ہی دیکھئے کہ ہم نے جبرائیل امین کو آپ کے ساتھ آپ کی مدد پہ مقرر فرمادیا۔ یا ان کی معیت سے آپ کو قوت و شوکت عطا کی تو اللہ کی طرف سے فرشتہ معاون ہو یا ارواح میں سے کوئی نیک روح منجانب اللہ ترسیل برکات یعنی برکات و انوارات پہنچانے پہ مقرر کردی جائے تو اس بات کا ثبوت یہاں موجود ہے اور آپ نے پیدا ہوتے ہی پنگھوڑے میں بات کی ، بات کا معنی ہے مکمل اور بامعنی گفتگو ، جو ایک بہت بڑا معجزہ تھا اور ادھیڑ عمر میں پھر لوگوں سے باتیں کیں یہ بھی آپ کے لیے معجزہ ہوگیا ورنہ بات تو اس عمر میں ہر آدمی کرتا ہے مگر آپ کہولت کی عمر کو پہنچنے سے پہلے آسمانوں اٹھا لیے گئے تھے اور مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق پھر زمین پر تشریف لائیں گے یہاں رہیں گے دین اسلام کو پھیلائیں گے فوت ہو کر روضہ اطہر میں دفن ہوں گے جہاں ایک قبر کی جگہ خالی ہے تو آسمانوں سے نازل ہو کر دوبارہ باتیں کرنا یا دنیا کی زندگی میں شراکت بھی معجزہ ٹھہری اور ہم نے آپ کو کتاب کا علم دیا اور آسمانی کتب پر آپ کو عبور عطاء فرمایا اور حکمت یعنی علوم کتب سماویہ کی تشریح اور تفہیم اور تورات اور انجیل یعنی آسمانی کتابیں سکھا دیں یا ازبر کرادیں یاد کرادیں اور ایسے محیر العقول کام کرنے کی قوت عطا فرمائیں کہ آپ مٹی سے پرندہ سا بنا لیتے جیسے چڑیا ، کوا ، کبوتر اور وہ بھی محض صورت سی کوئی اتنا ہوبہو بنانا بھی ضروری نہ تھا مگر جب آپ اس پر دم کردیتے یا پھونک مار دیتے تو ہمارے حکم سے وہ فوراً اصلی پرندہ بن جاتا اور اڑجاتا یہاں دم کرنا ثابت ہے جبکہ حدود شرعیہ کے اندر ہو جس کام کے لیے کیا جائے جائز ہو کہ یہ معجزہ کا اظہار دین کی تائید کے لیے ہوتا تھا اور جو پڑھا جائے اس کا پڑھنا شرعاً درست ہو پڑھنے والا کلام کو سمجھتا ہو محض اول فول نہ یاد کر رکھے اس کے مقابل جھاڑ پھونک کی ایک قسم حرام بھی ہے اور وہ شیطانی الفاظ یا ناجائز الفاظ اور غلط کاری کے لیے استعمال ہوتے ہیں اس میں جس حد تک کرسکے شیطان سے تعاون کرتا ہے اور آپ دم کرکے مادر زاد اندھوں اور کوڑھ اور جذام کے مریضوں کو تندرست کردیتے تھے ایسے امراض جو ناقابل علاج تھے آپ کے ہاتھ سے شفا پاتے بلکہ مریض زندہ تو تھے آپ مردہ کی قبر پر کھڑے ہو کر دعا کرتے تو وہ زندہ ہو کر باہر آجاتا تھا اور یاد رہے جو فعل نبی سے بطور معجزہ صادر ہوتا ہے ولی سے بطور کرامت اس کا صدور ممکن ہوتا ہے کہ ولی کی کرامت نبی ہی کا معجزہ ہوتی ہے اور نبی کی سچی غلامی سے ولی کو نصیب ہوتی ہے اور اس سے بھی عظیم تر بات کہ بنی اسرائیل کی پوری حکومت سارا زور لگا کر بھی آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکی اور میں نے انہیں عاجز کردیا اور آپ سے ان کے ہاتھ روک دئیے وہ زمین پر رہ گئے آپ کو آسمان پہ اٹھا لیا لیکن برا ہو کفر کا اس کی عینک کا رنگ اپنا ہوتا ہے یہ سب کچھ دیکھ کر کہہ دیا کہ سوائے جادو کے اور کچھ نہیں بھئی ! ہم جان چکے ہیں کہ آپ جادوگر ہیں۔ معاذ اللہ ! پھر آپ کو یاد ہوگا کہ ہم نے آپ کے حواریوں سے بات کی یعنی آپ کی معرفت انجیل میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ مجھے اور میرے رسول کو صدق دل اور خلوص کے ساتھ مانو اور ایمان لاؤ۔ حواریوں سے بات کرنا ان کی عزت و شرف کے اظہار کے لیے ہے جیسے نزول قرآن کی تدریج یعنی مسلسل تئیس برسوں کے نزول میں ایک راز یہ بھی تھا کہ صحابہ کرام کو اتنا عرصہ اللہ کریم سے شرف ہم کلامی حاصل رہا جب کوئی سوال کرتے اللہ کی طرف سے جواب آتا تھا۔ یہاں انجیل یکبارگی نازل ہوئی مگر یہ مطالبہ تھا جس پر انہوں نے کہا اللہ ہم ایمان لاتے ہیں تجھ پر تیرے رسول پر ، اور تو بھی ہمارے ایمان کا گواہ رہیو پھر عجیب بات ہوئی وہ کہنے لگے اے عیسیٰ ! اگر گستاخی نہ ہو تو کیا آپ کا پروردگار یہ مناسب جانے گا کہ ہم پر آسمان سے کھانا نازل فرمائے یعنی باوجود اس قدر دعوے ایمان کا رکھتے تھے کہا ، ربک۔ یعنی تیرا رب۔ یہ نہیں کہ اہمارا رب اور پھر تسکین اور اطمینان کی خاطر دلیل مطلوب ہے کہ زمین پہ جو کچھ ہو رہا ہے جادو سے بھی ممکن ہے آسمان پہ جادو نہیں چلتا تو عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اللہ سے ڈرو ، ایمان کے ساتھ یہ معجزات کا تقاضا میل نہیں کھاتا اسی طرح شیخ کی سب سے بڑی کرامت ہے کہ خود راستی پہ چلے اور آپ کو راستی کی طرف لے کر چلے اس سے زیادہ شیخ قبول کرنے کے بعد کرامات کا طالب رہنا مناسب نہیں۔ تو وہ کہنے لگے حضور ! بات یہ نہیں ! بلکہ ہمارا ارادہ یہ ہے کہ اس سے کھان کھا کر برکت حاصل کریں دوسرے واقعی ہمارے دلوں کو مزید اطمینان اور تسلی نصیب ہوگی۔ اور ہم لوگوں کے سامنے بطور شہادت بات کرسکیں گے۔ آپ کی صداقت پہ دلیل کے طور پر اس کا تذکرہ کریں گے۔ تو عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے یعنی کھانے میں برکت کا ہونا بعض صورتوں میں ممکن ہے اور کرامت و معجزہ ایک ہی کام کے لیے دونوں چیزیں ہوتی ہیں یعنی دین کی سربلندی اور نبی کی تصدیق کرنے کے لیے تو انہوں نے عرض کی بار الہ آسمانوں سے ہمارے لیے کھانا نازل فرما۔ تاکہ ہمارے اگلوں پچھلوں کے لیے خوشی کا دن یعنی عید قرار پائے اور تیری ربوبیت اور الوہیت کی نشانی بھی ہو اللہ کریم تو ہی بہترین رزاق ہے ویسے بھی تو تیرا ہی دیا کھاتے ہیں ذرا سی تبدیلی کردے کہ زمین سے اگانے کی بجائے آسمان سے بھیج دے تو ارشاد ہوا بھیج تو دیتے ہیں لیکن یہ معمولی بات بہت بڑی نعمت ہے اور جب انعام اور عطا بہت بڑی ہوتی ہے تو اس کے مقابلے میں ناشکری کی سزا بھی بہت بڑی دی جاتی ہے۔ کھانا تو نازل کردیا جائے گا مگر آسمانی کھانا کھا کر بھی جس نے نافرمانی کی اسے عذاب بھی ایسا دوں گا کہ دنیا میں اور کہیں اس کی مثال نہ ہوگی چناچہ مفسرین کے مطابق یہ کھانا نازل ہوا انہوں نے کھایا پھر نافرمانیاں کیں۔ اور بندروں اور خنزیروں کی شکل میں مسخ ہو کر تباہ ہوئے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 109 تا 110 لغات القرآن : یجمع (وہ جمع کرے گا) ۔ ماذا (کیا ؟ ) ۔ اجبتم (تمہیں جواب دیا گیا) ۔ لاعلم لنا (ہمیں معلوم نہیں ہے) ۔ علام الغیوب (غیب کا بہت زیادہ علم رکھنے والا) ۔ والدۃ (ماں) ۔ ایدت (میں نے مدد کی۔ تائید کی) ۔ روح القدس (پاک روح) ۔ جبرئیل امین (علیہ السلام) ) ۔ تکلم (کلام کرے گا) ۔ المھد (گود۔ پالنا) ۔ کھلا (سمجھ داری کی عمر۔ ادھیڑ عمر) ۔ علمت (میں نے سکھایا) ۔ الحکمۃ (حکمت اور عقل و سمجھ کی باتیں) ۔ تخلق (تو بناتا ہے) ۔ الطین (مٹی) ۔ کھیئۃ (جیسے شکل) ۔ الطیر (پرندہ) ۔ اذنی (میری اجازت) ۔ تنفخ (تو پھونک مارتا ہے) ۔ تبری (تو اچھا کرتا ہے) ۔ الاکمہ (پیدائشی اندھا) الابرص (کوڑہ کا مریض) ۔ تخرج (تو نکالتا ہے) ۔ الموتی (مردے) ۔ کففت (میں نے روک دیا) ۔ سحر مبین (کھلا جادو) ۔ تشریح : یہاں سے ختم سورت تک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر ہے اور آپ کے اس کلام کا جو اللہ تعالیٰ کے سوالات کے جواب میں آپ قیامت کے دن ارشاد فرمائیں گے۔ نصاریٰ کو بتانا ہے کہ قیامت ہو کر رہے گی۔ وہاں عام انسان تو کیا تمام انبیاء موجود ہوں گے۔ ان سے ان کی امتوں کے بارے میں سوال جواب ہوگا۔ وہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پوزیشن نہ تو اللہ کے بیٹے کی ہوگی نہ تین معبودوں میں سے ایک کی ہوگی جو آگے بڑھ کر اپنے ماننے والوں کو بچالیں گے۔ ان کی پوزیشن ایک نبی کی ہوگی اور وہ اپنی امت کے اعمال کے متعلق جو کچھ فرمائیں گے وہ ہر طرح سچ ہوگا۔ مندرجہ بالا آیات میں پہلے تو یہ بات کہی گئی ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام انبیاء سے سوال فرمائیں گے۔ کہ تم نے جو میرا پیغام اپنی اپنی امت کو پہنچایا تھا تو اس کا تمہیں کیا جواب ملا۔ کیا تمہاری باتیں مانی گئیں اور کتنے لوگوں نے مانا۔ کتنے لوگوں نے نہ مانا۔ کتنے لوگوں نے تمہارے ساتھ حسن سلوک کیا اور کتنے لوگوں نے ظلم و زیادتی کی اور ان میں کتنے منافقین تھے۔ اس کا جواب وہ یہی دیں گے کہ ہم تو تبلیغ اسلام میں دن رات مصروف تھے۔ آپ کا پیغام ان تک پہنچاتے تھے ان کا ظاہری جواب تو ہمیں معلوم ہے جو یہ ہے لیکن ان کے دل میں جو کچھ تھا اسکا ہمیں کوئی علم نہیں ہے۔ اے اللہ آپ ہی عالم الغیب بلکہ علام الغیوب ہیں۔ آپ ہی سب کچھ جاننے والے ہیں۔ اس لئے ان کے دلوں کا راز اور ان کے حقیقی جواب سے آپ ہی واقف ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرداً فرداً پیغمبروں سے کلام فرمائیں گے۔ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی باری آئے گی تو اللہ تعالیٰ اپنے ان خصوصی انعامات کا ذکر کریں گے جو انہیں بخشے گئے تھے۔ ان میں سے بعض خصوصیات عام طور پر کسی دوسرے نبی کو نہیں بخشی گئیں۔ ان میں سے چند خصوصیات حسب ذیل ہیں : (1) بغیر باپ کے پیدائش۔ حضرت مریم پر انعامات (2) روح پاک (حضرت جبرئیل (علیہ السلام) ) سے مدد۔ یہ مدد مختلف شکلوں میں تھی۔ (3) گہوارے میں بھی فصاحت اور بلاغت سے کلام کرنا۔ (4) عمر کے پہلے حصہ سے اخیر تک اسی فصاحت و بلاغت سے کلام کرنا۔ (5) عمر کے دوسرے حصہ میں (جب کہ وہ قیامت کے قریب تشریف لائیں گے) اس وقت بھی اسی طرح کلام کرنا۔ (6) پیغمبری (آپ بنی اسرائیل کے آخری نبی اور رسول ہیں) ۔ (7) معجزات۔ (8) بنی اسرائیل کے ظلم سے حفاظت (جس میں صلیب کا واقعہ بھی شامل ہے) ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ کے احسانات بیان کرنے کا سلسلہ آیت ۔ ۔۔ 115 تک جاری ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ مطلب یہ ہے کہ ایک ایسا دن ہوگا اور اعمال و احوال کی پرسش ہوگی اس لیے تم کو مخالفت و معصیت سے ڈرتے رہنا چاہیے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حق کی شہادت دینا مسلمان کا فریضہ ہے جو انبیاء کا مشن ہے۔ جب انبیاء کرام (علیہ السلام) سے ان کے مشن کے بارے میں سوال ہوگا تو انکے متبعین کس طرح مسؤ لیت سے بچ سکتے ہیں۔ اسلام کے بنیادی عقائد میں تین باتیں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کو یکتا جانتے ہوئے اس پر کامل ایمان رکھنا، حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خاتم المرسلین مانتے ہوئے ان کی رسالت پہ ایمان لانا، تیسرا بنیادی عقیدہ یہ ہے آدمی کا قیامت پر ایمان ہو کہ وہ قائم ہوگی اور ہم سب نے رب کبریا کی عدالت میں اپنی ہر بات اور عمل کا جواب دینا ہے۔ قیام قیامت کے بارے میں قرآن مجید میں بڑی شرح و بسط کے ساتھ دلائل دیے گئے ہیں یہ ایسا دن ہے کہ جبرائیل امین (علیہ السلام) اور تمام ملائکہ ( علیہ السلام) قطار اندر قطار رب کبریا کی بارگاہ میں کھڑے ہوں گے۔ یہ پچاس ہزار سال کا دن ہوگا۔ اس میں ہر نبی وقت مقررہ پر اپنی امت کو لے کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوگا۔ یہاں ہر فرد کو اس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے بارے میں سوال ہوگا۔ قرآن مجید کی تلاوت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب انبیاء (علیہ السلام) اپنی امتوں کے ساتھ پیش ہوں گے تو اللہ تعالیٰ پہلے اس امت کے نبی سے سوال کرے گا کہ آپ نے میرا پیغام ٹھیک ٹھیک طریقے سے پہنچایا یا نہیں ؟ اس کے جواب میں تمہاری امت نے کیا وطیرہ اختیار کیا ؟ انبیاء کرام (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کناں ہوں گے کہ الٰہی ہم تو نہیں جانتے آپ ہی غیب کو جاننے والے ہیں۔ انبیاء کا لا علمی کا اظہار کرنے کے بارے میں مفسرین نے تین قسم کی تفسیر کی ہے : ١۔ لاَ عِلْمَ لَنَا کہ ہمیں علم نہیں سے مراد علم کا مل ہے۔ کیونکہ علاَّمُ الغیوب کے لفظ ظاہر کر رہے ہیں کہ انبیاء صرف انھی حالات سے واقف تھے اور ہوتے ہیں جو ان کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں۔ لوگوں کی خلوت کی زندگی کو انبیاء (علیہ السلام) نہیں جانتے۔ ٢۔ لاَ عِلْمَ لَنَا کا یہ معنی ہے کہ جب تک ہم ان میں موجود رہے اس وقت تک تو ہمیں کچھ نہ کچھ ان کے حالات کا علم ہے لیکن ان کے بارے میں کامل اور اکمل علم تیرے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (فَکَیْفَ إِذَا جِءْنَا مِن کُلِّ أمَّۃٍ بِشَہِیدٍ وَجِءْنَا بِکَ عَلَی ہَؤُلاء شَہِیدًا)[ النساء : ٤١) ” بھلا اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے، پھر ان پر (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو گواہ بنا دیں گے۔ “ ٣۔ انبیاء اپنی امتوں کے بارے میں شہادت دیں گے لہٰذا اس آیت کا یہ مفہوم لینے میں کوئی حرج معلوم نہیں ہو تاکہ اللہ تعالیٰ کے جلال اور دبدبہ کی وجہ سے انبیاء کرام (علیہ السلام) پہلے لا علم لنا کا اظہار کریں گے۔ بہر حال قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات مسلمہ ہے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) وہی کچھ جانتے تھے جس کا علم اللہ تعالیٰ انھیں عطا کیا تھا یا جو کام ان کی موجودگی میں ہوا کرتے تھے۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) سے بھی سوال ہوگا۔ ٢۔ انبیاء و رسل ( علیہ السلام) سے ان کی رسالت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ٣۔ صرف اللہ تعالیٰ ہی عالم الغیب ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی غیب جانتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کے غیب کے بارے میں جانتا ہے۔ (البقرۃ : ٣٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ چھپی ہوئی چیزوں کے بارے میں خوب جانتا ہے۔ (البقرۃ : ٣٣) ٣۔ اللہ تعالیٰ سینوں میں چھپی باتوں کو جانتا ہے۔ (فاطر : ٣٨) ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر عمل کو خوب جانتا ہے۔ (الحجرات : ١٨) ٥۔ اللہ کے پاس ہی غیب کی چابیاں ہیں۔ (الانعام : ٥٩) ٦۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب نہیں جانتے۔ (الانعام : ٥٠) ٧۔ کہہ دیجیے غیب اللہ کے لیے ہے تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔ (یونس : ٢٠) ٨۔ آسمان و زمین کا غیب اللہ جانتا ہے۔ (النحل : ٧٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ١٠٩ تا ١١١۔ یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ پر ہونے والی انعامات کی یاد دہانی ہے ۔ یہ کہ روح القدس کے ذریعہ ان کی امداد کی گئی ۔ یہ کہ گہوارے کے اندر انہیں لوگوں کے ساتھ بات کرنے کی قدرت دی گئی اور اس طرح انہوں نے اپنی ماں کو تہمتوں سے بری الذمہ قرار دیا ۔ کیونکہ ان کی بےمثال ولادت کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں بیشمار شبہات پیدا ہوگئے تھے اور پھر بڑے ہو کر بھی ان سے ہم کلام ہوئے اور انہیں دعوت الی اللہ دی ۔ دعوت اسلامی میں بھی حضرت جبرائیل ان کی تائید کرتے رہے اور آپ کو کتاب کی تعلیم دیتے رہے ۔ جب وہ اس جہان پر اترے تھے تو ان کے پاس کوئی علم نہ تھا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں لکھنا سکھایا ‘ انہیں معاملات کے اندر فیصلے کرنے کی حکمت عطا کی ۔ اللہ نے انہیں تورات کا علم بھی عطا کیا ‘ جو بنی اسرائیل کے پاس موجود تھی ۔ انجیل کا علم بھی دیا جو ان پر نازل ہوئی اور اس نے بھی تورات کی تصدیق کی ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انکو ایسے خارق العادات معجزات دیئے جن کا صدور اذن الہی کے سوا ممکن نہ تھا ۔ دیکھئے کہ وہ کیچڑ پرندہ بناتے ہیں اور پھر یہ اذن الہی سے ہوتا ہے کہ آپ اس کے منہ میں پھونکتے ہیں اور وہ زندہ ہوجاتا ہے ۔ ہمیں ان معجزات کی ماہیت کا پتہ نہیں ہے ‘ اس لئے کہ ہم تو آج تک یہ نہیں جان سکے کہ حیات کی حقیقت کیا ہے ؟ اور یہ حیات زندہ چیزوں کے اندر کس طرح پھیل جاتی ہے ۔ اب دیکھئے مادر زاد اندھا آتا ہے اور اللہ کے حکم سے اسے بینائی ملتی ہے جبکہ آج تک اطباء اس بات کو پا نہیں سکے کہ مادر زاد اندھے کو بینائی کس طرح مل گئی ۔ لیکن اللہ جس نے بینائی کا اصل نظام پیدا کیا وہ اس بات پر قادر ہے کہ وہ کسی کو از سر نو بینائی دے دے ۔ مرض کا علاج آپ بغیر کسی دوائی کے کرتے تھے ۔ دوا تو ایک وسیلہ ہے جب کا اثر بھی اللہ کے اذن سے ہوتا ہے لیکن اللہ کے حکم سے وسیلہ بدل بھی سکتا ہے ‘ اور اللہ بلاوسیلہ براہ راست بھی ایک حقیقت کو وجود میں لا سکتا ہے ۔ اللہ اپنے حکم سے مردے کو زندہ کرسکتا ہے ‘ وہ زندگی بخشنے والا ہے ۔ وہ دوبارہ بھی زندہ کرسکتا ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہ یاد دہانی کراتے ہیں کہ وہ دلائل وبینات اور خوارق ومعجزات لے کر بنی اسرائیل کے پاس آئے اور انہوں نے پھر بھی آپ کو جھٹلایا اور انہوں نے یہ پروپیگنڈا کیا کہ یہ معجزات واضح سحر ہے ۔ اس لئے کہ وہ ان معجزات کے وقوع کا انکار تو کر نہ سکتے تھے ۔ ہزاروں انسانوں نے ان معجزات کو دیکھا ہوا تھا ۔ یہ لوگ محض عناد اور غرور کی وجہ سے ان معجزات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھے ۔ پھر انہوں نے آپ کو قتل کرنا چاہا تو اللہ نے آپ کو بچایا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یاد دلاتے ہیں کہ ایسے مشکل حالات میں حواریوں نے جرات کی اور وہ ایمان لائے اور شہادت دی اور صحیح مسلمان بن گئے اور اللہ کو گواہ ٹھہرایا کہ وہ سرتسلیم خم کرنے والے ہیں ۔ (آیت) ” وَإِذْ أَوْحَیْْتُ إِلَی الْحَوَارِیِّیْنَ أَنْ آمِنُواْ بِیْ وَبِرَسُولِیْ قَالُوَاْ آمَنَّا وَاشْہَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ (111) ” اور جب میں نے حواریوں کو اشارہ کیا کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ تب انہوں نے کہا ” ہم ایمان لائے اور گواہ روہ کہ ہم مسلم ہیں۔ یہ ہیں وہ انعامات جو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) پر کیے اور یہ ان کے لئے شواہد وبینات تھے لیکن ان کے متبعین کی اکثریت کے لئے یہ گمراہی اور ضلالت کا باعث بن گئے اور ان کی وجہ سے انہوں نے عظیم گمراہیاں گھڑ لیں اور دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے عالم بالا کے اس منظر میں اس کی جواب طلبی کرتے ہیں ‘ اس منظر میں انبیاء ورسل موجود ہیں اور تمام دنیا کے لوگ بھی حاضر ہیں ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تمام قوم بھی موجود ہے ۔ ان کے سامنے یہ حقائق پیش کئے جاتے ہیں تا کہ ان کی قوم بھی سنے اور ان کے لئے شرمساری ذرا اور سخت ہوجائے ۔ وہ تمام جہانوں کے سامنے شرمندہ ہوں ۔ اب بات اسی لائن پر آگے چلتی ہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کے اوپر کئے جانے والے احسانات کے ساتھ ۔ وہ احسانات بھی گنوائے جاتے ہیں جو آپ کی قوم پر کئے گئے ، انہیں بھی معجزات دکھائے گئے ، انہوں نے اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھا اور حواری ایمان لائے اور انہوں نے شہادت دی ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت کے دن رسولوں سے اللہ جل شانہ کا سوال ان دو آیات میں سے پہلی آیت میں اس بات کا ذکر ہے کہ اللہ جل شانہ قیامت کے دن اپنے رسولوں سے سوال فرمائے گا۔ (جنہیں مختلف امتوں کی طرف دنیا میں مبعوث فرمایا تھا) کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا تھا۔ وہ حضرات جواب میں عرض کریں گے کہ ہمیں کچھ علم نہیں بیشک آپ غیبوں کے خوب جاننے والے ہیں۔ بظاہر اس پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ حضرات انبیاء کرام ( علیہ السلام) اپنی امت کے خلاف گواہی دیں گے۔ لہٰذا ان کا یہ جواب دینا کہ ” ہمیں کچھ خبر نہیں “ کیونکر صحیح ہوسکتا ہے اس کے کئی جواب ہیں جن کو مفسرین کرام نے اکابر سلف سے نقل کیا ہے۔ ایک جواب یہ ہے کہ یہ سوال و جواب قیامت کے دن بالکل ابتداء میں ہوگا اس دن کی ہولناکی کی وجہ سے وہ یوں کہہ دیں گے کہ ہمیں کچھ علم نہیں۔ صاحب روح المعانی نے ج ١ ص ٥٥ یہ جواب حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے پھر اس پر ایک اشکال کیا اور اس کا جواب بھی نقل کیا ہے بظاہر یہ جواب ہی صحیح معلوم ہوتا ہے۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ (لَا عِلْمَ لَنَا) سے علم تحقیقی اور واقعی مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ ہمیں جو کچھ علم تھا وہ ظاہر تھا اور وہ درجہ گمان میں تھا ہم اسے حقیقی علم نہیں سمجھتے باطن میں کسی کا کیا عقیدہ تھا اور کیا نیت تھی اس کا ہمیں کچھ علم نہیں حقائق کا آپ ہی کو علم ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ کا خطاب اور نعمتوں کی یاد دہانی، اور ان کے معجزات کا تذکرہ اس کے بعد سیدنا حضر عیسیٰ (علیہ السلام) کو خطاب فرمانے کا ذکر ہے۔ کہ اللہ جل شانہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے فرمائیں گے کہ تم اور تمہاری والدہ کو جو میں نے نعمتیں دیں انہیں یاد کرو۔ جو نعمتیں قرآن مجید میں مذکور ہیں وہ یہ ہیں۔ (١) ان کی والدہ پر یہ انعام فرمایا کہ جب حضرت زکریا (علیہ السلام) کی کفالت میں تھیں تو غیب سے ان کے پاس پھل آتے تھے (٢) ان کو پاک دامن رکھا (٣) ان کو بغیر باپ کے فرزند عطا فرمایا۔ (٤) اس فرزند نے گہوارہ میں ہوتے ہوئے بات کی۔ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر اول تو یہ نعمت فرمائی کہ انہیں حضرت مریم (علیہ السلام) کے بطن سے پیدا فرمایا جو اللہ کی برگذیدہ بندی تھیں۔ اور بنی اسرائیل سے آپ کی حفاظت فرمائی۔ پھر آپ کو گود کی حالت میں بولنے کی قوت عطا فرمائی نیز نبوت سے سرفراز فرمایا۔ آپ کو توریت اور انجیل کا بھی علم عطا فرمایا، بنی اسرائیل آپ کے دشمن تھے اس لئے حضرت روح القدس یعنی جبرائیل (علیہ السلام) کے ذریعہ آپ کی حفاظت فرمائی اور آپ کو کھلے کھلے معجزات عطا فرمائے جن میں ایک یہ تھا کہ آپ مٹی کے گارے سے پرندہ کی شکل کی ایک چیز بنا لیتے تھے پھر آپ اس میں پھونک مار دیتے تو وہ مٹی کی بنائی ہوئی تصویر سچ مچ کا پرندہ ہو کر اڑ جاتی تھی۔ اور ایک معجزہ یہ تھا کہ جو مادر زاد اندھے ہوتے تھے یا جو برص کے مریض ہوتے تھے ان پر داہنا ہاتھ پھیر دیتے تھے تو اس کا اثر یہ ہوتا تھا کہ برص و مرض کا اثر چلا جاتا تھا اور نابینا بینا ہوجاتا تھا۔ اور ایک معجزہ یہ تھا کہ قبروں پر جا کر مردہ کو آواز دیتے تو مردے زندہ ہو کر نکل آتے تھے اور نابینا ہوجاتا تھا ایک معجزہ یہ بھی تھا کہ لوگ جو گھروں میں کھاتے پیتے تھے یا ذخیرہ کردیتے تھے آپ اس سے بھی باخبر کردیتے تھے آپ بنی اسرائیل کو ایمان کی دعوت دیتے۔ اور مذکورہ بالا معجزات آپ سے ظاہرہوتے تھے۔ باوجود ان معجزات کے بنی اسرائیل آپ کے دشمن ہوگئے اور آپ کو تکلیف دینے کے در پے رہتے تھے۔ حتیٰ کہ انہوں نے آپ کے قتل کا منصوبہ بھی بنا لیا۔ اللہ جل شانہ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی حفاظت فرمائی اور بنی اسرائیل کو تکلیف پہنچانے سے بازرکھا۔ جیسے دیگر انبیاء ( علیہ السلام) کی امتوں کی عادت تھی کہ وہ حضرات انبیاء ( علیہ السلام) کے معجزات دیکھ کر جادو کہہ دیا کرتے تھے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے امتی بھی پیش آئے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے کھلے معجزات کو صریح اور کھلا جادو بتادیا، بنی اسرائیل نے معجزات کو نہ مانا اور آپ کی تکذیب کی اور چند افراد نے آپ کے دین کو قبول کیا جن کو حواری کہا جاتا تھا۔ (حواریوں کا ذکر اور ان کا مائدہ کا سوال بھی عنقریب انشاء اللہ تعالیٰ آتا ہے) جنہیں نہ ماننا تھا انہوں نے آپ کی تکذیب کی، اور کچھ اتنے آگے بڑھے کہ آپ کو اللہ کا بیٹا بتادیا اور معبود بنا لیا حالانکہ آپ نے خوب واضح طور پر فرما دیا تھا (اَنَّ اللّٰہَ رَبِّیْ وَ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ ) (کہ بلاشبہ میرا رب اور تمہارا رب اللہ ہے سو اس کی عبادت کرو) جگہ جگہ قرآن مجید میں نصاریٰ کی تردید فرمائی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر اور لائق فکر ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کا ذکر فرماتے ہوئے اللہ جل شانہ نے ” باذنی “ فرمایا ہے اس سے یہ بتادیا کہ مٹی سے پرندہ کی شکل بنانا اور پھر پھونک مارنے سے اس کا اصلی پرندہ بن کر اڑ جانا اور نابینا اور برص والے کا اچھا ہوجانا اور قبروں سے مردوں کا نکلنا یہ سب اللہ کے حکم سے ہے۔ کوئی شخص ظاہر کو دیکھ کر مخلوق کے بارے میں یہ عقیدہ نہ بنالے کہ یہ پرندہ کا بنا نا، اڑانا، نابینا کا اچھا ہونا، مردہ کا زندہ ہونا بندہ کا حقیقی تصرف ہے۔ خالق اور قادر اور مصور اور شافی اور محی (زندہ کرنے والا) درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اس نے اپنے نبیوں کی نبوت کی دلیل کے طور پر خلاف عادت جو چیزیں ظاہر فرمائیں حقیقت میں ان کے وجود کا انتساب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے اگر وہ نہ چاہتا تو کسی نبی سے کوئی بھی معجزہ ظاہر نہ ہوتا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

174 پہلے نفی شرک فعلی کے سلسلے میں یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ غیب دان صرف اللہ ہے۔ اس کے سوا کوئی غیب دان نہیں اب یہاں قیامت کے دن پیش آنیوالا ایک واقعہ ذکر کر کے یہ حقیقت بیان فرمائی کہ اور تو اور خود انبیاء (علیہم السلام) جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ساری مخلوق پر فوقیت اور برتری عطا فرمائی وہ بھی غیب دان نہیں تھے وہ نہ زندگی میں غیب جانتے تھے نہ موت کے بعد لوگ غیر اللہ کے نام کی نذریں اور نیازیں صرف اس لیے دیتے تھے کہ وہ ہماری حاجات کو جانتے اور ہمیں نفع نقصان پہنچانے کی قدرت رکھتے ہیں جیسا کہ آج کل کے مشرکین کا بھی اپنے پیروں کے متعلق عقیدہ ہے۔ تو آخر میں اللہ تعالیٰ نے یہ معاملہ صاف فرما دیا کہ انبیاء (علیہم السلام) تو غیب جانتے نہیں جو سب سے افضل ہیں۔ چناچہ وہ قیامت کے دن صاف کہیں گے کہ ان کے پیچھے جو کچھ ہوتا رہا ہے اس کا انہیں کچھ علم نہیں۔ پھر جو لوگ انبیاء (علیہم السلام) سے رتبہ میں کمتر ہیں وہ کس طرح غیب دان ہوسکتے ہیں۔ یَوْمَ ظرف کا عامل بعد میں مذکور ہے۔ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا۔ فَیَقُوْلُ ، یَجْمَعُ پر معطوف ہے یعنی جس دن اللہ تمام رسولوں کو جمع کر کے ان سے یہ سوال کرے گا کہ تمہیں تبلیغ توحید کے بعد اپنی امتوں کی طرف سے کیا جواب ملا اس دن وہ سب کہیں گے کہ ہمیں تو اس کا کچھ علم نہیں۔ یہ تو غیب کی بات ہے اور تمام غیبوں کا جاننے والا صرف تو ہی ہے اور کوئی نہیں۔ یہ آیت حضرات انبیاء (علیہم السلام) سے علم غیب کی نفی پر برہان قاطع ہے اس آیت میں مَا ذَا اُجِبْتُمْ کے دو معنی ہیں بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ سوال تبلیغ کے وقت سے متعلق ہوگا کہ جب تم تبلیغ کرتے تھے اس وقت لوگوں نے تمہاری بات کو قبول کیا یا نہ تو وہ جواب دیں گے۔ لَا عِلْمَ لَنَا بباطن ما اجاب بہ۔۔۔ (قرطبی ج 6 ص 361) یعنی ان کے باطن کو ہم نہیں جانتے تھے ہمیں صرف ان کے ظاہر کا علم تھا لیکن اس میں عبارت مقدر کر کے مطلب نکالنا پڑتا ہے اس لیے بہتر یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ یہ سوال انبیاء (علیہم السلام) سے ان کی وفات سے بعد کے حالات سے متعلق ہوگا کہ تمہاری وفات کے بعد ان لوگوں کے کیا حالات تھے کیا یہ تمہیں پکارتے رہے ہیں اور کیا تمہیں اس کا علم ہے تو اس کے جواب میں انبیاء (علیہم السلام) کہیں گے کہ اے اللہ بعد کے حالات کا تو ہمیں کوئی علم نہیں جیسا کہ اگلی آیت سے اس کی تائید ہوتی ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سوال کے جواب میں یہی کہیں گے۔ کُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْھِمْ الخ اسی طرح سورة یونس ع 3 میں ہے کہ جن انبیاء و اولیاء کو لوگ دنیا میں پکارتے رہے قیامت کے دن وہ صاف کہیں گے کہ ہمیں تو ان کی پکار وغیرہ کا کوئی علم نہیں۔ اِنْ کُنَّا عَنْ عِبَادَتِہِمْ لَغٰفِلِیْنَ بہت سے مفسرین نے اس سوال کو بعد الوفات کے حالات سے متعلق قرار دیا ہے۔ امام رازی لکھتے ہیں لا علم لنا الا ان علمنا جوابہم لنا وقت حیاتنا ولا نعلم ما کان منھم بعد وفاتنا (کبیر ج 3 ص 689) ۔ اہل بدعت کی طرف سے اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ انبیا (علیہم السلام) کو معلوم تو سب کچھ ہوگا لیکن ہول قیامت کے وجہ سے وہ جواب نہیں دے سکیں گے اور علم کی نفی کردیں گے۔ یہ جواب دو وجہ سے غلط ہے۔ 1 ۔ اس لیے کہ انبیاء (علیہم السلام) قیامت کے ہول اور جزع فزع سے محفوظ ہوں گے اور ان پر کوئی گھبراہٹ طاری نہیں ہوگی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ لَا یَحْزُنُھُمُ الْفَزَعُ الْاَکْبَرُ (انبیاء ع 7) یعنی جن لوگوں کے لیے حُسْنیٰ (جنت) کا وعدہ ہوچکا ہے۔ وہ قیامت کی فزع اکبر (سب سے بڑی گھبراہٹ) سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ 2 ۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ ان کو سب کچھ معلوم تھا تو اس صورت لا علم لنا واقعہ کے صریح خلاف اور جھوٹ ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

109 وہ دن قابل ذکر ہے جس دن اللہ تعالیٰ تمام رسولوں کو جمع کرے گا اور ان رسولوں کی امتوں کے سامنے بطور زجر و توبیخ ان رسولوں سے فرمائے گا تم کو دعوت حق کا کیسا جواب دیا گیا اور تم کو تمہاری امتوں کی جانب سے کیا جواب ملا وہ عرض کریں گے ہم کو کچھ علم نہیں یعنی ظاہری طور پر تو جو کچھ کہتے تھے وہ معلوم ہی ہے لیکن باطن میں ان کی حالت کیا تھی یا قیامت کی ہولناکی کے پیش نظر کچھ ان کو یاد نہ آئے گا یا یہ کہ جب تک ہم ان میں رہے اس وقت تک کا تو حال معلوم ہے لیکن جب آپ نے ہم کو ان میں سے اٹھا لیا تو اس کے بعد کی ہم کو کچھ خبر نہیں بلاشبہ آپ ہی ہر پوشیدہ بات کو خوب جاتنے ہیں اور آپ ہی علام الغیوب ہیں۔