Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 11

سورة المائدة

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ ہَمَّ قَوۡمٌ اَنۡ یَّبۡسُطُوۡۤا اِلَیۡکُمۡ اَیۡدِیَہُمۡ فَکَفَّ اَیۡدِیَہُمۡ عَنۡکُمۡ ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ﴿٪۱۱﴾  6

O you who have believed, remember the favor of Allah upon you when a people determined to extend their hands [in aggression] against you, but He withheld their hands from you; and fear Allah . And upon Allah let the believers rely.

اے ایمان والو! اللہ تعالٰی نے جو احسان تم پر کیا ہے اسے یاد کرو جب کہ ایک قوم نے تم پر دست درازی کرنی چاہی تو اللہ تعالٰی نے ان کے ہاتھوں کو تم تک پہنچنے سے روک دیا اور اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو اور مومنوں کو اللہ تعالٰی ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُواْ اذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَن يَبْسُطُواْ إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ ... O you who believe! Remember the favor of Allah unto you when some people desired (made a plan) to stretch out their hands against you, but (Allah) withheld their hands from you. Abdur-Razzaq recorded that Jabir said, "The Prophet once stayed at an area and the people spread out seeking shade under various trees. The Prophet hung his weapon on a tree, and a Bedouin man came and took possession of the Prophet's weapon and held it aloft. He came towards the Prophet and said, `Who can protect you from me?' He replied, `Allah, the Exalted, Most Honored.' The Bedouin man repeated his question twice or thrice, each time the Prophet answering him by saying, `Allah.' The Bedouin man then lowered the sword, and the Prophet called his Companions and told them what had happened while the Bedouin was sitting next to him, for the Prophet did not punish him.' Ma`mar said that Qatadah used to mention that some Arabs wanted to have the Prophet killed, so they sent that Bedouin. Qatadah would then mention this Ayah, اذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَن يَبْسُطُواْ إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ (Remember the favor of Allah unto you when some people desired (made a plan) to stretch out their hands against you...). The story of this Bedouin man, whose name is Ghawrath bin Al-Harith, is mentioned in the Sahih. Muhammad bin Ishaq bin Yasar, Mujahid and Ikrimah said that; this Ayah was revealed about Bani An-Nadir, who plotted to drop a stone on the head of the Messenger when he came to them for help to pay the blood money of two persons whom Muslims killed. The Jews left the execution of this plot to `Amr bin Jihash bin Ka`b and ordered him to throw a stone on the Prophet from above, when he came to them and sat under the wall. Allah told His Prophet about their plot, and he went back to Al-Madinah and his Companions followed him later on. Allah sent down this Ayah concerning this matter. Allah's statement, ... وَاتَّقُواْ اللّهَ ... So have Taqwa of Allah. ... وَعَلَى اللّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُوْمِنُونَ And in Allah let the believers put their trust. and those who do so, then Allah shall suffice for them and shall protect them from the evil plots of the people. Thereafter, Allah commanded His Messenger to expel Bani An-Nadir, and he laid siege to their area and forced them to evacuate Al-Madinah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 اس کی شان نزول میں مفسرین نے متعدد واقعات بیان کئے ہیں۔ مثلًا اس اعرابی کا واقعہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک سفر سے واپسی پر ایک درخت کے سائے میں آرام فرما تھے، تلوار درخت سے لٹکی ہوئی تھی اس اعرابی نے تلوار پکڑ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سونت لی اور کہنے لگا۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو مجھ سے کون بچائے گا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلا تامل فرمایا اللہ (یعنی اللہ بچائے گا) یہ کہنا تھا کہ تلوار ہاتھ سے گرگئی۔ بعض کہتے ہیں کعب بن اشرف اور اس کے ساتھیوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کے خلاف جب کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں تشریف فرما تھے، دھوکا اور فریب سے نقصان پہنچانے کی سازش تیار کی تھی۔ جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بچایا۔ بعض کہتے ہیں کہ ایک مسلمان کے ہاتھوں غلط فہمی سے جو دو عامری شخص قتل ہوگئے تھے، ان کی دیت کی ادائیگی میں یہودیوں کے قبیلے بنو نفیر سے حسب وعدہ جو تعاون لینا تھا، اس کے لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رفقا سمیت تشریف لے گئے اور ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے یہ سازش تیار کی تھی کہ اوپر سے چکی کا پتھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر گرا دیا جائے، جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ وحی مطلع فرما دیا۔ ممکن ہے سارے ہی واقعات کے بعد یہ آیت نازل ہوئی کیونکہ ایک آیت کے نزول کے کئی اسباب و عوامل ہوسکتے ہیں (تفسیر ابن کثیر و فتح القدیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٢] پہلا احسان تو مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ انہیں اسلام کی توفیق بخشی اور اسلام کی بدولت ان کی قبائلی عصبیتوں کا خاتمہ ہوا، لڑائیاں ختم ہوئیں اور آپس میں تم بھائیوں کی طرح زندگی گزارنے لگے دوسرا بڑا احسان یہ تھا کہ حدیبیہ کے مقام پر کافر یہ چاہتے تھے کہ تم پر حملہ آور ہو کر تمہیں صفحہ ہستی سے ناپید کردیں۔ لیکن اللہ نے ایسے حالات پیدا کردیئے کہ وہ اپنا ارادہ پورا نہ کرسکے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ ١۔ حدیبیہ کے دن جنگ روکنا اللہ کا احسان تھا۔ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ اہل مکہ کے اسی (٨٠) آدمی مسلح ہو کر تنعیم پہاڑ کی جانب سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حملہ آور ہوئے۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ آپ اور آپ کے اصحاب غافل ہوں تو حملہ کردیں۔ آپ نے انہیں پکڑ کر قید کرلیا پھر انہیں چھوڑ دیا تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (مسلم۔ کتاب الجہاد۔ باب ھوالذی کف ایدیکم عنھم) ٢۔ سیدنا سلمہ بن اکوع کہتے ہیں کہ میرے چچا عامر نے قبیلہ عبلات کے ایک مکرز نامی شخص کو، جو ایک جھول پڑے ہوئے گھوڑے پر سوار اور ستر مشرکوں کا ساتھی تھا گھیر کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے آئے۔ آپ نے ان مشرکوں کی طرف دیکھا پھر فرمایا && انہیں چھوڑ دو (عہد نامہ حدیبیہ کی بدعہدی کے) گناہ کی ابتدا بھی انہوں نے کی اور تکرار بھی انہی سے ہوئی۔ اسی سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (مسلم۔ کتاب الجہاد۔ باب غزوہ ذی قرد) اگرچہ مندرجہ بالا احادیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت صلح حدیبیہ یا اسی کے گرد و پیش حالات کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ تاہم دور نبوی میں کئی بار ایسے مواقع پیش آتے رہے کہ کبھی کفار مکہ نے جنگ کے ذریعہ اور کبھی یہودیوں نے سازشوں کے ذریعہ اسلام کو ختم کردینے کی کوششیں کیں۔ پھر کبھی تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ مسلمانوں کو دشمنوں کی سازشوں سے مطلع فرما دیا۔ اور کبھی حالات ایسے پیدا کردیئے کہ کافروں کو حملہ آور ہونے کی جرأت ہی نہ ہوسکی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔ عمومی انعامات کے بعد اب خصوصی انعام کا ذکر ہے۔ (رازی) اِذْ هَمَّ قَوْمٌ اَنْ يَّبْسُطُوْٓا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَهُمْ ۔۔ : جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ وہ نجد کی طرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جنگ میں ساتھ تھے، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس لوٹے تو وہ بھی واپس لوٹے۔ دوپہر کے آرام کا وقت ایسی وادی میں آیا جہاں بہت سے خاردار درخت تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اتر پڑے اور لوگ درختوں کے سائے کے لیے درختوں (کی تلاش) میں بکھر گئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک کیکر کے درخت کے نیچے اترے اور اپنی تلوار اس کے ساتھ لٹکا دی۔ جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہم تھوڑی دیر ہی سوئے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں بلایا، ہم آپ کے پاس آئے تو آپ کے پاس ایک بدوی بیٹھا ہوا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اس نے میری تلوار سونت لی، جب کہ میں سویا ہوا تھا، میں جاگ پڑا تو اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی، مجھ سے کہنے لگا، تمہیں مجھ سے کون بچائے گا ؟ میں نے کہا، اللہ ! تو دیکھو یہ بیٹھا ہے۔ “ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے کچھ نہیں کہا۔ [ بخاری، المغازی، باب غزوۃ ذات الرقاع : ٤١٣٥ ] ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک دیت کے سلسلے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ کے ایک یہودی قبیلے بنو نضیر کے ہاں تشریف لے گئے، انھوں نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو ایک دیوار کے سائے میں بٹھایا اور آپس میں پروگرام بنایا کہ ان کے اوپر چکی کا پاٹ گرا دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبردار کردیا اور آپ وہاں سے اٹھ گئے۔ (ابن کثیر) ممکن ہے قرآن نے اس ایک آیت میں ان متعدد واقعات کی طرف اشارہ فرمایا ہو اور یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک آیت ایک واقعہ کے متعلق نازل ہوتی ہے، پھر یاددہانی کے لیے دوسرے واقعہ میں اس کی طرف اشارہ کردیا جاتا ہے۔ ( المنار، قرطبی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اے ایمان والو اللہ تعالیٰ کے انعام کو یاد کرو جو تم پر ہوا ہے، جب کہ ایک قوم (یعنی کفار قریش ابتدائے اسلام میں جب کہ مسلمان ضعیف تھے) اس فکر میں تھے کہ تم پر (اس طرح) دست درازی کریں (کہ تمہارا خاتمہ ہی کردیں) سو اللہ تعالیٰ نے ان کا قابو تم پر (اس قدر) نہ چلنے دیا (اور آخر میں تم کو غالب کردیا۔ پس اس نعمت کو یاد کرو) اور (احکام کے امتثال میں) اللہ تعالیٰ سے ڈرو (کہ اس نعمت کا یہ شکریہ ہے) اور (آئندہ بھی) اہل ایمان کو حق تعالیٰ پر اعتماد رکھنا چاہیے (جس نے پہلے تمہارے سب کام بنائے ہیں آئندہ بھی آخرت تک امید رکھو اتقوا اللہ میں خوف دلایا اور امر بالتوکل میں امید اور یہی دو عمل معین امتثال ہیں) اور اللہ تعالیٰ نے (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واسطے سے) بنی اسرائیل سے (بھی) عہد لیا تھا (جس کا بیان عنقریب آتا ہے) اور (ان عہود کی تاکید کے لئے) ہم نے ان میں سے (موافق عدد ان کے قبائل کے) بارہ سردار مقرر کئے (کہ ہر ہر قبیلہ پر ایک ایک سردار رہے جو اپنے ماتحتوں پر ہمیشہ ایفاء عہود کی تاکید رکھے) اور (مزید تاکید عہد کے لئے ان سے) اللہ تعالیٰ نے یوں (بھی) فرمایا دیا کہ میں تمہارے پاس ہوں (تمہارے برے بھلے کی سب مجھ کو خبر رہے گی، مطلب یہ ہے کہ عہد لیا پھر اس کی تاکید در تاکید فرمائی اور اس عہد کا خلاصہ مضمون یہ تھا کہ) اگر تم نماز کی پابندی رکھو گے اور زکوٰة ادا کرتے رہو گے اور میرے سب رسولوں پر (جو آئندہ بھی نئے نئے آتے رہیں گے) ایمان لاتے رہو گے اور (دشمنوں کے مقابلہ میں) ان کی مدد کرتے رہو گے اور (علاوہ زکوٰة کے اور مصارف خیر میں بھی صرف کرکے) اللہ تعالیٰ کو اچھے طور پر (یعنی اخلاص کے ساتھ) قرض دیتے رہو گے تو میں ضرور تمہارے گناہ تم سے دور کر دوں گا اور ضرور تم کو (بہشت کے) ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے (محلات کے) نیچے نہریں جاری ہوں گی اور جو شخص اس (عہد و پیمان لینے) کے بعد بھی کفر کرے گا تو وہ بیشک راہ راست سے دور جا پڑا۔ معارف و مسائل سورة مائدہ کی ساتویں آیت جو پہلے گزر چکی ہے، اس میں حق تعالیٰ نے مسلمانوں سے ایک عہد و میثاق لینے اور ان کے ماننے اور تسلیم کرلینے کا ذکر فرمایا ہے۔ واذکروا نعمة اللّٰہ علیکم ومیثاقہ تا واتقوا اللّٰہ۔ یہ میثاق خدا اور رسول کی اطاعت اور احکام شرعیہ کے اتباع کا میثاق ہے۔ جس کا اصطلاحی عنوان کلمہ لا اللّٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ہے۔ اور ہر کلمہ گو مسلمان اس میثاق کا پابند ہے۔ اس کے بعد کی آیت میں میثاق کی بعض اہم دفعات یعنی خاص خاص احکام شرعیہ کا بیان فرمایا ہے جس میں دوست دشمن سب کے لئے عدل و انصاف اور رواداری کی تعلیم دی گئی ہے۔ یہ میثاق خود بھی اللہ تعالیٰ کا ایک بڑا انعام ہے، اسی لئے اس کو اذکرو نعمۃ اللہ سے شروع کیا گیا ہے۔ آیت مذکورہ کو پھر اسی جملہ اذکروا نعمت اللّٰہ علیکم سے شروع کرکے یہ بتلانا منظور ہے کہ مسلمانوں نے اپنے اس عہد و میثاق کی پابندی کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا و آخرت میں قوت و بلندی اور درجات عالیہ عطاء فرمائے اور دشمنوں کے ہر مقابلہ میں ان کی امداد فرمائی۔ دشمنوں کا قابو ان پر نہ چلنے دیا۔ اس آیت میں خاص طور پر اس کا ذکر ہے کہ دشمنوں نے بارہا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے مٹا دینے اور قتل و غارت کردینے کے منصوبے بنائے اور تیاریاں کیں، مگر اللہ تعالیٰ نے سب کو خائب و خاسر کردیا۔ ارشاد ہے کہ ” ایک قوم اس فکر میں تھی کہ تم پر دست درازی کرے، مگر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے ہاتھ تم سے روک دیئے “۔ مجموعی حیثیت سے تو ایسے واقعات تاریخ اسلام میں بیشمار ہیں کہ کفار کے منصوبے فضل خداوندی سے خاک میں مل گئے۔ لیکن بعض خاص خاص اہم واقعات بھی ہیں جن کو حضرات مفسرین نے اس آیت کا مصداق قرار دیا ہے۔ مثلاً مسند الرزاق میں حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ ‘ کسی جہاد میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام ایک منزل پر قیام پذیر ہوئے صحابہ کرام مختلف حصوں میں اپنے اپنے ٹھکانوں پر آرام کرنے لگے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تن تنہا ایک درخت کے نیچے ٹھہر گئے۔ اور اپنے ہتھیار ایک درخت پر لٹکا دیئے۔ دشمنوں میں سے ایک گاؤں والا موقع غنیمت جان کر جھپٹا اور آتے ہی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلوار پر قبضہ کرلیا۔ اور آپ پر وہ تلوار کھینچ کر بولا من یمنعک منی اب بتلائیے کہ آپ کو میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بےدھڑک فرمایا کہ ” اللہ عزوجل “ گاؤں والے نے پھر وہی کلمہ دہرایا۔ من یمنعک منی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر اسی بےفکری کے ساتھ فرمایا ” اللہ عزوجل “۔ دو تین مرتبہ اسی طرح کی گفتگو ہوتی رہی، یہاں تک کہ غیبی قدرت کے رعب نے اس کو مجبور کرا کہ تلوار کو میان میں داخل کرکے رکھ دیا۔ اس وقت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو بلایا اور یہ واقعہ سنایا۔ یہ گاؤں والا ابھی تک آپ کی پہلو میں بیٹھا ہوا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو کچھ نہیں کہا۔ (ابن کثیر) اسی طرح بعض صحابہ کرام سے اس آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ کعب بن اشرف یہودی نے ایک مرتبہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے گھر میں بلا کر قتل کرنے کی سازش کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع کردی اور ان کی ساری سازش خاک میں مل گئی (ابن کثیر) اور حضرت مجاہد، عکرمہ وغیرہ سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک دیوار کے نیچے بٹھا کر باتوں میں مشغول کیا اور دوسری طرف عمرو بن جحش کو اس کام پر مقرر کردیا کہ دیوار کے پیچھے سے اوپر چڑھ کر پتھر کی ایک چٹان آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوپر ڈال دے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے ارادہ پر مطلع فرمایا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوراً وہاں سے اٹھ گئے (ابن کثیر) ۔ ان واقعات میں کوئی تضاد نہیں، سب کے سب آیت مذکورہ کا مصداق ہو سکتے ہیں۔ آیت مذکورہ میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کی غیبی حفاظت کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا واتقوا اللّٰہ وعلی اللّٰہ فلیتوکل المؤ منون۔ اس میں ایک ارشاد تو یہ ہے کہ یہ انعام خداوندی صرف رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اس نصرت و امداد اور غیبی حفاظت کا اصلی سبب تقویٰ اور توکل ہے جو قوم یا فرد جس زمانہ اور جس مکان میں ان دو وصفوں کو اختیار کرے گا اس کو بھی ایسی ہی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظت و حمایت ہوگی۔ کسی نے خوب کہا ہے فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس جملہ کو آیات سابقہ کے مجموعہ کے ساتھ لگایا جائے۔ جن میں بدترین دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک اور عدل و انصاف کے احکام دئے گئے ہیں تو پھر اس جملہ میں اس طرف اشارہ ہوگا کہ ایسے سخت دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک اور رواداری کی تعلیم بظاہر ایک سیاسی غلطی اور دشمنوں کو جرأت و ہمت دلانے کے مرادف ہے، اس لئے اس جملہ میں مسلمانوں کو اس پر متنبہ کیا گیا کہ اگر تم تقویٰ شعار اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے والے رہو تو یہ رواداری اور حسن سلوک تمہارے لئے قطعاً مضر نہیں ہوگا۔ اور دشمنوں کو مخالفت کی جرأت کے بجائے تمہارے زیر اثر لانے اور اسلام سے قریب کرنے کا سبب بنے گا۔ نیز تقویٰ اور خوف خدا ہی وہ چیز ہے جو کسی انسان کو، عہدو میثاق کی پابندی پر ظاہراً و باطناً مجبور کرسکتا ہے۔ جہاں یہ تقویٰ یعنی خوف خدا نہیں ہوتا وہاں عہد و میثاق کا وہی حشر ہوتا ہے جو آج کل عام لوگوں میں دیکھا جاتا ہے، اس لئے اوپر کی جس آیت میں میثاق کا ذکر ہے، وہاں بھی آخر آیت میں واتقوا اللّٰہ فرمایا گیا تھا۔ اور یہاں پھر اس کا اعادہ کیا گیا، نیز اس پوری آیت میں اس طرف بھی اشارہ فرمایا گیا ہے کہ مسلمانوں کی فتح و نصرت صرف ظاہری سازو سامان کی مرہون منت نہیں، بلکہ ان کی اصل طاقت کا راز تقویٰ اور توکل میں مضمر ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ اِذْ ہَمَّ قَوْمٌ اَنْ يَّبْسُطُوْٓا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَہُمْ فَكَفَّ اَيْدِيَہُمْ عَنْكُمْ۝ ٠ۚ وَاتَّقُوا اللہَ۝ ٠ۭ وَعَلَي اللہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۝ ١١ۧ نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ همم الهَمُّ الحَزَنُ الذي يذيب الإنسان . يقال : هَمَمْتُ الشّحم فَانْهَمَّ ، والهَمُّ : ما هممت به في نفسک، وهو الأصل، وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِها[يوسف/ 24] ( ھ م م ) الھم کے معنی پگھلا دینے والے غم کے ہیں اور یہ ھممت الشحم فا نھم کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں میں نے چربی کو پگھلا یا چناچہ وہ پگھل گئی اصل میں ھم کے معنی اس ارادہ کے ہیں جو ابھی دل میں ہو قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِها[يوسف/ 24] اور اس عورت نے ان کا قصد کیا وہ وہ اس کا قصد کرلیتے۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] بسط بَسْطُ الشیء : نشره وتوسیعه، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح/ 19] والبِسَاط : الأرض المتسعة وبَسِيط الأرض : مبسوطه، واستعار قوم البسط لکل شيء لا يتصوّر فيه تركيب وتأليف ونظم، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة/ 245] ، ( ب س ط ) بسط الشئ کے معنی کسی چیز کو پھیلانے اور توسیع کرنے کے ہیں ۔ پھر استعمال میں کبھی دونوں معنی ملحوظ ہوتے ہیں اور کبھی ایک معنی متصور ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے بسط لثوب ( اس نے کپڑا پھیلایا ) اسی سے البساط ہے جو ہر پھیلائی ہوئی چیز پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح/ 19] اور خدا ہی نے زمین کو تمہارے لئے فراش بنایا ۔ اور بساط کے معنی وسیع زمین کے ہیں اور بسیط الارض کے معنی ہیں کھلی اور کشادہ زمین ۔ ایک گروہ کے نزدیک بسیط کا لفظ بطور استعارہ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جس میں ترکیب و تالیف اور نظم متصور نہ ہوسکے ۔ اور بسط کبھی بمقابلہ قبض آتا ہے ۔ جیسے وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة/ 245] خدا ہی روزی کو تنگ کرتا ہے اور ( وہی اسے ) کشادہ کرتا ہے ۔ يد الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] ، ( ی د ی ) الید کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ كف الْكَفُّ : كَفُّ الإنسان، وهي ما بها يقبض ويبسط، وكَفَفْتُهُ : أصبت كَفَّهُ ، وكَفَفْتُهُ : أصبته بالکفّ ودفعته بها . وتعورف الکفّ بالدّفع علی أيّ وجه کان، بالکفّ کان أو غيرها حتی قيل : رجل مَكْفُوفٌ لمن قبض بصره، وقوله تعالی: وَما أَرْسَلْناكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ [ سبأ/ 28] أي : كافّا لهم عن المعاصي، والهاء فيه للمبالغة کقولهم : راوية، وعلّامة، ونسّابة، وقوله : وَقاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَما يُقاتِلُونَكُمْ كَافَّةً [ التوبة/ 36] قيل : معناه : كَافِّينَ لهم كما يقاتلونکم کافّين «2» ، وقیل : معناه جماعة كما يقاتلونکم جماعة، وذلک أن الجماعة يقال لهم الکافّة، كما يقال لهم الوازعة لقوّتهم باجتماعهم، وعلی هذا قوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة/ 208] ، وقوله : فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف/ 42] فإشارة إلى حال النادم وما يتعاطاه في حال ندمه . وتَكَفَّفَ الرّجل : إذا مدّ يده سائلا، واسْتَكَفَّ : إذا مدّ كفّه سائلا أو دافعا، واسْتَكَفَّ الشمس : دفعها بكفّه، وهو أن يضع کفّه علی حاجبه مستظلّا من الشمس ليرى ما يطلبه، وكِفَّةُ المیزان تشبيه بالکفّ في كفّها ما يوزن بها، وکذا كِفَّةُ الحبالة، وكَفَّفْتُ الثوب : إذا خطت نواحيه بعد الخیاطة الأولی. ( ک ف ف ) الکف کے معنی ہاتھ کی ہتھیلی کے ہیں جس کے ساتھ انسان چیزوں کو اکٹھا کرتا اور پھیلا تا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف/ 42] تو جو مالی اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگا ۔ الکف کے معنی ہاتھ کی ہتھلی کے ہیں جس کے ساتھ انسان چیزوں کو اکٹھا کرتا اور پھیلا تا ہے ۔ کففتہ کے اصل معنی کسی کی ہتھیلیپر مارنے یا کسی کو ہتھلی کے ساتھ مار کر دو ر ہٹا نے اور روکنے کے ہیں پھر عرف میں دور ہٹانے اور روکنے کے معنی میں استعمال ہونے لگانے خواہ ہتھلی سے ہو یا کسی اور چیز سے رجل مکفو ف البصر جس کی مینائی جاتی رہی ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَما أَرْسَلْناكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ [ سبأ/ 28] اور ( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم نے تم کو گناہوں سے روکنے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ میں کافۃ کے معنی لوگوں کو گناہوں سے روکنے والا کے ہیں ۔ اس میں ہا مبالغہ کے لئے ہے ۔ جیسا کہ روایۃ وعلامۃ اور نشابۃ میں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَقاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَما يُقاتِلُونَكُمْ كَافَّةً [ التوبة/ 36] اور تم سب کے سب مشرکون سے لڑو جیسے وہسب کے سب تم سے لڑتے ہیں میں بعض نے دونوں جگہوں میں کا فۃ کے معنیکا فین یعنی روکنے والے کیے ہیں ۔ اور بعض نے یہ معنی کیا ہے ۔ کہ جماعۃ یعنی اجتماعی قوت کی وجہ سے اسے کافۃ بھی کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة/ 208] مومنوں اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ میں بھی کافۃ بمعنی جماعت ہی ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف/ 42] تو جو مالی اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگا ۔ پشمان ہونے والے کی حالت کی طرف اشارہ ہے ۔ کیونکہ انسان پشمانی کی حالت میں ہاتھ ملتا ہے ۔ تکفف الرجل سوال کے لئے ہاتھ پھیلانا استکف سوال یا مدافعت کیلئے ہاتھ پھیلانا استکف الشمس ہتھلی کے ذریعہ دھوپ کو دفع کرتا اور وہ اس طرح کہ دھوپ کی شعا عوں کو روکنے کے لئے ابرؤں پر بطور سایہ ہاتھ رکھ لے تاکہ جس چیز کو دیکھنا مطلوب ہو آسانی سے دیکھی جا سکے ۔ کفۃ المیزان ترازو کا پلڑا ۔ کیونکہ وہ بھی موزوں چیز کو روک لینے میں ہتھیلی کے مشابہ ہوتا ہے ۔ ایسے ہی کفۃ الحبالۃ ہے جس کے معنی شکاری کے پھندا کے ہیں ۔ کففت التوب ۔ کچی سلائی کے بعد کپڑے کے اطراف کو سینا ۔ وكل والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال : تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] ( و ک ل) التوکل ( تفعل ) اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

(آیت 6 کی بقیہ تفسیر) ٤٦۔ چھیالیسویں بات یہ کہ آیت میں ان لوگوں کے استدلال کے لئے بھی احتمال موجود ہے جو یہ کہتے ہیں کہ قول باری (فلم تجدجا ماء فتیموا) میں پانی کے ہر جز کی عدم موجودگی کا ذکر ہے اس لئے کہ ماء کے لفظ کو نکرہ کی صورت میں لایا گیا ہے۔ اس بنا پر جب پانی کا ہر جز غیر موجود ہوگا تو پھر تیمم کا جواز ہوگا اگر اسے تھوڑا سا بھی پانی مل جائے تو صرف تیمم پر اقتصاء کرنا جائز نہیں ہوگا بلکہ اعضاء بھی دھوئے گا اور باقی ماندہ اعضاء کا تیمم بھی کرے گا۔ ٤٧۔ سینتالیسویں بات یہ کہ پانی کی تلاش اور طلب کے سقوط پر بھی آیت دلالت کرتی ہے اور اس سے طلب کو واجب قرار دینے والوں کے قول کا بطلان ہوتا ہے۔ اس لئے کہ وجود اور عدم دونوں طلب کے مقتضی نہیں ہوتے۔ اس لئے طلب کے موجب آیت میں ایسے مفہوم کا اضافہ کر رہے ہیں جو آیت کے مفہوم کا جز نہیں۔ ٤٨۔ اڑتالیسویں بات یہ کہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ جس شخص کو وضو میں مصروفیت کی بناء پر نماز کا وقت نکل جانے کا اندیشہ ہو اس کے لئے تیمم جائز نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے لئے پانی موجود ہے اور اللہ تعالیٰ کا اسے حکم ہے کہ پانی موجود ہونے پر وضو کرے چناچہ ارشاد ہے (فاغسلوا) اس میں وقت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ٤٩۔ انچاسویں بات یہ کہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص محبوس ہو اور اسے پانی نہ ملے اور نہ ہی پاک مٹی تو وہ نماز نہیں پڑھے گا اس لئے کہ اللہ نے اسے آیت میں پانی اور پاک مٹی میں سے ایک چیز استعمال کرنے کا حکم دیا ہے۔ ٥٠۔ پچاسویں بات یہ کہ آیت میں محبوس کے لئے تیمم کے جواز کا احتمال ہے جب اسے پاک مٹی مل جائے۔ ٥١۔ اکاون ویں بات یہ کہ نماز کا وقت داخل ہونے سے پہلے تیمم کرلینا جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تیمم کو کسی وقت کے اندر منحصر نہیں کیا بلکہ اپنے قول (فلوتجدوا ماء) کے ذریعے تیمم کے حکم کو پانی کی عدم موجودگی کے ساتھ معلق کردیا ہے۔ ٥٢۔ باون ویں بات یہ کہ آیت دلالت کرتی ہے کہ ایک تیمم کے ساتھ کئی فرض نمازیں ادا کی جاسکتی ہیں جب تک حدث لاحق نہ ہوجائے یا پانی نہ مل جائے۔ چناچہ ارشاد ہے (اذا تم تم الی الصلوٰۃ فاغسلوا وجوھکم) پھر اسی سیاق خطاب میں یہ فرمایا (فتیموا) اس میں تیمم کے ساتھ اسی طرح نماز پڑھنے کا حکم دیا جس طرح وضو کے ساتھ جب آیت ہر نماز کے لئے وضو کی تکرار کی مقتضی نہیں ہے تو وہ ہر نماز کے لئے تیمم کی تکرار کی بھی مقتضی نہیں ہے۔ ٥٣۔ ترپن ویں بات یہ کہ جب تیمم کرنے والے کے لئے نماز کے دوران پانی کا وجود ہوجائے تو اس پر وضو لازم ہوگا اس لئے کہ ارشاد باری ہے (اذا قمتم الی الصلوٰۃ فاغسلوا) مذکورہ بالا امر پر آیت کی دلالت کی ہم نے پچھلے صفحات میں وضاحت کردی۔ ٥٤۔ چون ویں بات یہ کہ تیمم میں چہرے اور دونوں بازوئوں کا مسح کیا جائے گا اور مسح کے ساتھ ان اعضاء کا احاطہ کیا جائے گا۔ ٥٥۔ پچپن ویں بات یہ کہ مسح کہنیوں تک کیا جائے گا اس لئے کہ قول باری (وایدیکم الی الموافق) دونوں کہنیوں کا مقتضی ہے اور ان سے اوپر کا حصہ دلیل کی بنا پر مسح اور غسل کے حکم سے خارج ہوا ہے۔ ٥٦۔ چھپن ویں بات یہ کہ تیمم ہر اس چیز کے ساتھ جائز ہے جو زمین کی جنس میں سے ہو اس لئے کہ قول باری ہے (فتیموا صعیدا طیب) اور صعید زمین کو کہتے ہیں۔ ٥٧۔ ستاون ویں بات یہ کہ ناپاک مٹی سے تیمم باطل ہوتا ہے اس لئے کہ قول باری ہے (طیبا) اور ناپاک چیز طیب نہیں ہوتی) ٥٨۔ اٹھاون ویں بات یہ کہ تیمم میں نیت کرنا فرض ہے، اس کی دو وجوہ ہیں اول یہ کہ تیمم کے معنی قصد کے ہیں اور دوم یہ قول باری ہے (فامسحوا بوجوھکم وایدیکم منہ) ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ اس قول باری کی اس امر پر دلالت ہو رہی ہے کہ تیمم کی ابتدا زمین سے ہوگی یہاں تک کہ کسی انقطاع کے بغیر چہرے تک پہنچ جائے گا اس لئے کہ تیمم کرنے والے کا کسی اور عمل میں لگ جانا نیت کو منقطع کر دے گا اور نئے سرے سے تیمم کرنے کا موجب ہوگا۔ ٥٩۔ انسٹھویں بات یہ کہ آیت میں اس کا احتمال ہے کہ مٹی کا کچھ حصہ اس کے چہرے اور بازوئوں کو لگ جائے اس لئے کہ قول باری (منہ) میں حرف من تبعیض کے لئے ہے۔ ٦٠۔ ساٹھویں بات یہ کہ جو لوگ برف اور خشک گھاس پر تیمم کے جواز کے قائل ہیں آیت ان کے قول کے بطلان پر دلالت کرتی ہے اس لئے کہ یہ دونوں چیزیں صعید یعنی مٹی کی جنس میں سے نہیں ہیں۔ ٦١۔ اکسٹھویں بات یہ کہ قول باری (اوجاء احد منکم من الغائط) سبیین یعنی فرج و تضیب اور مقعد سے نکلنے والی چیز پر طہارت کے ایجاب پر دلالت کرتا ہے۔ نیز یہ کہ اسحاضے کا خواہ سلسل البول اور ندی وغیرہ وضو کے موجب ہیں اس لئے کہ غائط پست زمین کو کہتے ہیں جہاں لوگ قضائے حاجت کے لئے جاتے ہیں۔ ٦٢۔ باسٹھویں بات یہ کہ قول باری (فاغسلوا وجوھکم) ہر قسم کے مانع کے ساتھ وضو کے جواز پر دلالت کرتا ہے، سوائے ان مائعات کے جن کی کسی دلیل نے تخصیص کردی ہو، اس لئے نبیذ تمر کے ساتھ وضو کے جواز پر اس سے استدلال کیا جاسکتا ہے حسن بن صالح نے سر کے اور اس جیسی چیز کے ساتھ وضو کے جواز پر استدلال کیا ہے۔ اس قول باری سے اس پانی کے ساتھ تیمم کے جواز پر بھی استدلال کیا جاسکتا ہے جسکے ساتھ کوئی پاک چیز مل گئی ہو لیکن وہ پانی پر غالب نہ آ گئی ہو مثلاً عرق گلاب، دودھ، سرکہ اور اس طرح کی دوسری چیزیں۔ ٦٣۔ تریسٹھویں بات یہ کہ قول باری (فلم تجدوا ماء فتیموا) نبیذ کے ساتھ وضو کے جواز پر دلالت کرتا ہے کیونکہ نبیذ بھی پانی ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس وقت تیمم کرنے کی اجازت دی ہے جب پانی کا کوئی جز موجود نہ ہو اس لئے لفظ ماء کو اسم نکرہ کی صورت میں بیان کیا ہے۔ اس قول سے وہ لوگ بھی استدلال کرسکتے ہیں جو اس پانی کے ساتھ وضو کے جواز کے قائل ہیں جس کی نسبت کسی اور چیز کی طرف کردی گئی ہو مثلاً شوربہ، … کا سرکہ وغیرہ کیونکہ ان چیزوں میں بہرحال پانی ہوتا ہے۔ ٦٤۔ چونسٹھویں بات یہ کہ جو لوگ مستحاضہ کو ایک وضو کے ساتھ دو فرض نمازیں پڑھنے کی اجازت نہیں دیتے آیت ان کے حق میں اس پر دلالت کرتی ہے کہ اگلی فرض نماز کے لئے اسے دوبارہ وضو کرنا ہوگا اس لئے کہ قول باری ہے (اذا تم تم الی الصلوٰۃ) اور اس کی تفسیر میں یہ معنی مروی ہیں ” اذا تم تم وانتم محدثون “ (جب تم حدث کی حالت میں نماز کے لئے اٹھو ( مسحاضہ حدث کی حالت میں ہوتی ہے اس لئے کہ وضو کے بعد اسے استحاضے کے خون کی صورت میں حدث لاحق ہوجاتا ہے۔ ٦٥۔ پینسھٹویں بات یہ کہ آیت ایک تیمم کے ساتھ دو فرض نمازوں کی ادائیگی کے جواز کے امتناع پر دلالت کرتی ہے جس طرح مستحاضہ کے متعلق اس کی دلالت ہے اس لئے کہ تیمم حدث کو رفع نہیں کرتا اس لئے جب تیمم کرنے والا نماز کے ارادے سے اٹھے گا تو وہ حدث کی حالت میں ہوگا۔ ٦٦۔ چھیاسٹھویں بات یہ کہ پانی کی عدم موجودگی میں اول وقت میں تیمم کے جواز پر آیت دلالت کرتی ہے اس لئے کہ قول باری ہے (اقم الصلوٰۃ لذنوک الشمس۔ سورج ڈھلنے یا چھپنے پر نماز قائم کرو) نیز ارشاد ہوا (اذا تم تم الی الصلوٰۃ) تا قول باری (فلم تجدوا ماء فتیمموا) اللہ تعالیٰ نے سورج کے ڈھلنے یا چھپنے پر نماز پڑھنے کا حکم دیا اور پانی کی موجودگی میں وضو اور عدم موجودگی میں تیمم کو نماز پر مقدم کرنے کا امر فرمایا۔ یہ بات اول وقت اور وقت سے قبل تیمم کے جواز کی مقتضیٰ ہے جس طرح یہ وقت سے پہلے اور اول وقت میں وضو کے جواز کی مقتضیٰ ہے۔ ٦٧۔ سٹرسٹھویں بات یہ کہ آیت حضر کی حالت میں محبوس کے لئے تیمم کے جواز اور اس کے ساتھ نماز کی ادائیگی کے جواز دونوں کے امتناع پر دلالت کرتی ہے اس لئے کہ قول باری ہے (وان کنتم مرضی او علی سفراوجاء احد منکم من الغائط) تا قول باری (فتیمموا صعیدا) اللہ تعالیٰ نے تیمم کی اباحت میں دو باتوں کی شرط عائد کردی ایک بیماری اور دوسری مسافرت جبکہ پانی میسر نہ ہو۔ اس لئے اگر انسان مسافر نہیں ہوگا بلکہ مقیم ہوگا مگر حبس اور قید کی وجہ سے اسے پانی دستیاب نہ ہو رہا ہو تو تیمم کے ساتھ اس کی نماز جائز نہیں ہوگی۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایسا شخص پانی کا واجد اور حاصل کرنے والا نہیں کہلا سکتا اگرچہ وہ مقیم ہی کیوں نہ ہو تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ مذکورہ شخص کی کیفیت بالکل یہی ہوتی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے جواز تیمم کے لئے دو باتوں کی شرط عائد کی ہے۔ ایک سفر جس کے اندر اکثر احوال میں پانی دستیاب نہیں ہوتا اور دوسری پانی کی عدم موجودگی مسافر کے لئے تیمم کی اباحث اور اس کے ساتھ نماز کی ادائیگی کا جواز صرف پانی کی موجودگی متعذر ہونے کی بنا پر کیا گیا ہے اس لئے کہ سفر کی حالت اس کے اس عذر کی موجب ہوتی ہے۔ حضر کی حالت اس کی موجب نہیں ہوتی اس لئے کہ اکثر احوال میں حضر کے اندر پانی موجود ہوتا ہے اب محبوس کو…… اگر پانی میسر نہیں تو اس میں کسی آدمی کے فعل یعنی اس کے رکاوٹ بننے کو دخل ہوتا ہے۔ اس میں عادت کو کوئی دخل نہیں ہوتا جبکہ عادت یعنی اکثر احوال میں حضر کے اندر پانی کی عدم موجودگی نہیں ہوتی۔ ٦٨۔ اڑسٹھویں بات یہ کہ قول باری (ما یرید اللہ لیجعل علیکم من حرج) ہر اس چیز کی نفی پر دلالت کرتا ہے جو حرج اور تنگی کی موجب بنتی ہو۔ اس کے ساتھ ان لوگوں کے خلاف استدلال کیا جاسکتا ہے جو اختلافی مسئلوں میں تنگی پیدا کرنے کے مسلک کو اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ آیت تیمم کے جواز پر دلالت کتری ہے جب تیمم کرنے والے کے پاس صرف اس قدر پانی ہو جو اس کے پینے کے کام آسکتا ہو اور اس کے ساتھ وضو کرلینے کی صورت میں اسے پیاس کا سامنا کرنے کا اندیشہ ہو جس کی بنا پر اس نے اسے پینے میں استعمال کرنے کے لئے رکھ لیا ہو۔ اس لئے کہ اس کے اس طرز عمل سے حرج اور تنگی کی نفی ہوتی ہے اس لئے اس صورت میں تیمم کرنا جائز ہے۔ اسی طرح آیت ترتیب کے ایجاب، پے در پے وضو کے افعال کی ادائیگی نیز نیت اور اسی طرح کے دوسرے امور کے ایجاب کی نفی پر دلالت کرتی ہے۔ ٦٩۔ انتہرویں بات یہ کہ قول باری (ولکن یرید لیطھرکم) اس پر دلالت کرتا ہے کہ اصل مقصد تو طہارت کا حصول ہے خواہ جس طریقے سے بھی حاصل ہوجائے یعنی ترتیب ہو یا نہ ہو، افعال وضو پے در پے ادا کئے گئے ہوں یا نہ کئے گئے ہوں، نیت کا وجوب ہوا ہو یا نہ ہوا ہو وغیرہ وغیرہ۔ ٧٠۔ سترویں بات یہ کہ قول باری (فاطھروا) اس پر دلالت کرتا ہے طہارت کے حصول کے لئے اپنی کا اندازہ مقرر کرنے کی بات ساقط الاعتبار ہے اس لئے اصل مقصد تو تطہیر یعنی طہارت حاصل کرنا ہے نیز آیت کی اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک صاع پانی سے جو غسل فرمایا تھا اس کا اعتبار ضروری نہیں ہے۔ ٧١۔ اکہترویں بات یہ کہ قول باری (فامسحوا بروسکم) میں اس امر پر دلالت موجود ہے کہ اس سے پانی کے ساتھ مسح کرنا مراد ہے اس لئے مسح فی نفسہ پانی کا مقتضی نہیں ہوتا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا دیا (فلم تجدواماء) تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ یہاں پانی کے ساتھ مسح کرنا مراد ہے۔ الغرض اس ایک آیت کی مختلف معانی اور احکام پر دلالتوں کی یہ صورتیں ہیں۔ ان میں سے کچھ تو منصوص ہیں اور کچھ احتمالات کے درجے میں ہیں۔ ان سب کا تعلق طہارت کے مسئلے کے ساتھ ہے جسے نماز پر مقدم کیا جاتا ہے اور جو نماز کی ایسی شرط ہے جس کے بغیر نماز درست نہیں ہوتی۔ ہم یہاں اس امر کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ آیت زیر بحث میں بہت سے ایسے دلائل اور احتمالات باقی رہ گئے ہیں جو ہمارے علم کی رسائی سے باہر ہیں۔ جب کبھی کوئی صاحب توفیق اور باہمت عالم ان کی تلاش و جستجو کے درپے ہوگا اور گہری نظر سے ان کا مطالعہ کرے گا۔ یہ دلائل اور احتمالات اس کے ادراک میں جلوہ گر ہوجائیں گے۔ واللہ الموفق۔ ۔۔۔ آیت 6 کی تفسیر ختم ہوئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔ تفسیر آیت 7: گواہی اور انصاف قائم کرنا قول باری ہے (یایھا الذین امنوا کونوا قوامین لللہ شھداء بالقسط اے لوگو، جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو) اس کے معنی ہیں ان تمام معاملات میں جن پر قائم رہنا تم پر لازم ہے یعنی امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور منکرات سے اجتناب وغیرہ تم اللہ کی خاطر حق اور راستی پر قائم رہنے والے بن جائو، اسی کا نام اللہ کی خاطر حق پر قائم رہنا ہے۔ قول باری (شھداء للہ بالقسط) میں قسط کے معنی عدل کے ہیں۔ شہادت کے متعلق کہا گیا ہے کہ اس سے مراد لوگوں کے حقوق کے سلسلے میں دی جانے والی گواہیاں ہیں۔ حسن سے یہ مروی ہے یہ قول باری اس آیت کی طرح ہے (کونوا قوامین بالقسط شھداء للہ ولو علی انفسکم انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری ذات پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو) ۔ ایک قول ہے کہ اس سے وہ گواہی مراد ہے جو لوگوں کے خلاف ان کے معاصی پر دی جاتی ہے جس طرح یہ قول باری ہے (لتکونوا شھداء علی الناس تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جائو) اس میں آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ تم ان اہل عدالت میں سے بن جائو جن کے متعلق اللہ کا حکم ہے کہ وہ قیامت کے دن لوگوں پر گواہ بنیں گے۔ ایک قول ہے کہ اس سے مراد وہ گواہی ہے جو اللہ کے اوامر کے بارے میں دی جاتی ہے کہ یہ برحق ہیں۔ درج بالا تمام معانی کا یہاں مراد ہونا درست ہے اس لئے کہ لفظ کے اندر ان سب کا احتمال موجود ہے۔ قول باری ہے (ولا یجرمنکم شغان قوم علی ان لا تعدلوا کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو) ایک روایت ہے کہ آیت کا نزول یہودیوں کے بارے میں ہوا تھا جب آپ ایک دیت کے سلسلے میں ان لوگوں کے پاس تشریف لے گئے اور پھر ان لوگوں نے آپ کی جان لینے کی ٹھان لی تھی۔ حسن کا قول ہے کہ آیت کا نزول قریش کے بارے میں ہوا تھا جب ان لوگوں نے مسلمانوں کو مسجد حرام سے روک دیا تھا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر اسی سورت میں اپنے اس قول کے اندر کیا ہے (ولا یجرمنکم شنان قوم ان صدو کم عن المسجد الحرام ان تعتدوا۔ ایک گروہ نے جو تمہارے لئے مسجد حرام کا راستہ بند کردیا ہے تو اس پر تمہارا غصہ تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم بھی ان کے مقابلہ میں ناروا زیادتیاں کرنے لگ جائو) حسن نے اسے پہلی آیت کے معنوں پر محمول کردیا۔ بہتر بات یہی ہے کہ آیت کا نزول قریش کے سوا دوسروں کے بارے میں مان لیا جائے تاکہ تکرار لازم نہ آئے۔ آیت زیر بحث کے ضمن میں حق پرست اور باطل پرست دونوں کے ساتھ عدل کرنے کا حکم موجود ہے اور یہ ہدایت ہے کافروں کا کفر اور ان کا ظلم و ستم ان کے ساتھ عدل کرنے کی راہ میں حائل نہ ہوجائے۔ نیز یہ کہ ان کے خلاف جنگ کرنے اور انہیں تہ تیغ کرنے میں اس حد سے تجاوز نہ کیا جائے جس کے وہ مستحق ہیں اور اس کا دائرہ صرف ان کے خلاف ہتھیار اٹھانے، انہیں گرفتار کرنے اور غلام بنانے تک محدود رکھا جائے، ان کا مثلہ نہ کیا جائے اور نہ ہی انہیں اذیتیں دی جائیں۔ نہ ہی انہیں صدموں سے دوچار کرنے اور دکھی بنانے کے ارادے سے ان کی اولاد اور عورتوں کو قتل کیا جائے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب حضرت عبد اللہ بن رواحہ (رض) کو اہل خیبر کے پھلوں کی پیداوار کا اندازہ لگانے کے لئے ان کی طرف بھیجا تھا اور انہوں نے زیورات وغیرہ جمع کر کے حضرت عبد اللہ (رض) کو اس نیت سے دینے کا ارادہ کیا تھا کہ وہ پیداوار کا تخمینہ لگانے میں کچھ تخفیف کردیں تو آپ نے ان لوگوں سے یہی کہا تھا۔ ” یہ حرام ہے “ تم اپنے اس سازو سامان کی وجہ سے میرے لئے بندروں اور سوروں سے بھی زیادہ ناپسندیدہ ہو، لیکن تمہاری یہ حرکت میرے لئے تمہارے ساتھ انصاف سے پیش آنے کی راہ میں حائل نہیں ہوگی، یہ سن کر ان یہودیوں نے کہا تھا : ” زمین و آسمان کا قیام اسی انصاف کی بدولت ہے “۔ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (ھو اقرب للتقوی۔ انصاف تقویٰ سے زیادہ قریب ہے) جبکہ یہ معلوم ہے کہ انصاف خود تقویٰ ہے تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک چیز کو خود اس کی ذات سے قریب قرار دیا جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس کے معنی ہیں، انصاف اس بات سے زیادہ قریب ہے کہ تم تمام سیئات سے اجتناب کر کے متقی بن جائو۔ اس طرح مذکورہ عدل تمام امور میں انصاف کرنے اور تمام معاصی سے اجتناب کرنے کا داعی بن جائے گا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ عدل جہنم کی آگ سے بچنے کا اقرب ذریعہ ہے۔ قول باری (ھو اقرب للتقوی) میں ضمیر ھو اس مصدر کی طرف راجع ہے جس پر فعل (اعدلوا) دلالت کرتا ہے، گویا یوں فرمایا ” عدل تقویٰ سے زیادہ قریب ہے “ جس طرح کوئی شخص یہ کہے۔ ” من کذب کان شترا لہ “ (جو شخص جھوٹ بولے گا تو یہ اس کے لئے برا ہوگا) یعنی جھوٹ بولنا اس کے لئے برا ہوگا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١) نیز رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان رکھنے والو ! اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو جو اس نے تمہارے دشمنوں کو تم سے دور کرکے تم پر کیا ہے، یاد کرو جب کہ بنی قریظہ نے تم پر دست درازی کا ارادہ کیا تھا اور اوامر خداوندی سے ڈرتے رہو اور اہل ایمان پر یہ لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی پر توکل اور بھروسہ کریں۔ شان نزول : (آیت) ” یا ایھا الذین امنوا اذکروا نعمت اللہ علیکم “۔ (الخ) ابن جریر (رح) نے عکرمہ (رض) اور یزید بن ابی زیاد سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نکلے اور آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق (رض) ، حضرت عثمان، (رض) حضرت علی (رض) ، حضرت طلحہ، (رض) اور حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) تھے، حتی کہ کعب بن اشرف اور بنی نضیر کے یہودیوں کے پاس پہنچے اور ان لوگوں سے ایک دیت کے بارے میں کچھ مدد کی ضرورت تھی، یہ بدبخت یہودی بولے کہ آپ بیٹھو، ہم آپ کو کھانا کھلاتے ہیں اور جس ضرورت کے لیے آپ آئے ہیں، اسے بھی پورا کرتے ہیں، چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ گئے تو حیی بن اخطب نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس موقع سے زیادہ اچھا موقع تمہیں کوئی نہیں ملے گا، العیاذ باللہ آپ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پتھر پھینک کر قتل کردو اور پھر ہمیشہ کی تکلیف ختم ہوجائے گی، چناچہ وہ بہت بڑا پتھر آپ پر پھینکنے کے لیے لے آکر آئے مگر اللہ تعالیٰ نے اس پتھر کو ان کے ہاتھوں میں روکے رکھا یہاں تک کہ جبریل امین (علیہ السلام) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تشریف لائے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس جگہ سے اٹھالیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، یعنی اس انعام کو بھی یاد کرو جو تم پر ہوا ہے، جب کہ ایک قوم تم پر دست درازی کی فکر میں تھی، الخ۔ نیز عبداللہ بن ابی بکر (رض) عاصم بن عمیر بن قتادہ، مجاہد، عبداللہ بن کثیر، ابومالک سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ اور قتادہ سے روایت کی ہے فرماتے ہیں کہ ہم سے بیان کیا گیا کہ یہ آیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس وقت نازل کی گئی کہ جب آپ کھجوروں کے ایک باغ میں بسلسلہ ایک جہاد تشریف فرما تھے تو بنو ثعلبہ اور بنومحارب نے آپ پر حملہ کا ارادہ کیا، چناچہ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ایک اعرابی کو روانہ کیا، آپ آرام گاہ پر سو رہے تھے، اعرابی نے تلوار نکال کر نبی (علیہ السلام) سے کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو میرے ہاھت سے کون بچا سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ، تلوار اس کے ہاتھ سے گرگئی اور وہ آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکا۔ اور ابو نعیم نے دلائل نبوت میں بواسطہ حسن حضرت جابر بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت نقل کی ہے کہ بنی محارب میں سے غورث بن حارث نامی ایک شخص نے کہا کہ تمہارے لیے العیاذ باللہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرتا ہوں، چناچہ وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور آپ کی تلوار آپ کی گود میں تھی، وہ کہنے لگا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی تلوار تو دکھائیے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لو، چناچہ اس نے تلوار لے کر سونت لی اور اس کو ہلاک کر اپنے مکروہ ارادے کی تکمیل کرنا چاہی، اچانک اللہ تعالیٰ نے اس کو منہ کے بل گرا دیا اس نے کہا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ مجھ سے نہیں ڈرتے، آپ نے فرمایا نہیں، اس نے پھر کہا کہ آپ مجھ سے نہیں ڈرتے حالانکہ تلوار میرے ہاتھ میں ہے، آپ نے فرمایا نہیں، اللہ تعالیٰ میری حفاظت فرماے گا، اس کے بعد اس نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلوار واپس کردی، تب یہ آیت نازل ہوئی ، (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ ہَمَّ قَوْمٌ اَنْ یَّبْسُطُوْٓا اِلَیْکُمْ اَیْدِیَہُمْ ) (فَکَفَّ اَیْدِیھُمْ عَنْکُمْ ج یہ غزوۂ احزاب کے بعد کے حالات پر تبصرہ ہے۔ اس غزوہ کے بعد ابھی کفارّ میں سے بہت سے لوگ پیچ و تاب کھا رہے تھے اور بعید نہیں تھا کہ وہ دو بار مہم جوئی کرتے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کردیے اور ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ وہ دوبارہ لشکر کشی کی جرأت نہ کرسکے۔ اس صورت حال کا ذکر اللہ تعالیٰ یہاں پر اپنے انعام کے طور پر کر رہے ہیں کہ جب کفار نے ارادہ کیا تھا کہ تم پر دست درازی کریں ‘ تمہارے اوپر زیادتی کرنے کے لیے ‘ تم پر فوج کشی کے لیے اقدام کریں ۔ اس میں خاص طور پر اشارہ صلح حدیبیہ کی طرف ہے۔ اس وقت بھی قریش لڑائی کے لیے بیتاب ہو رہے تھے ‘ ان کے نوجوانوں کا خون کھول رہا تھا ‘ لیکن بالآخر انہیں اس حقیقت کا ادراک ہوگیا کہ اب ہم مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور ان کے ہاتھوں کو مسلمانوں کے خلاف اٹھنے سے روک دیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

30. This alludes to the incident reported by Ibn 'Abbas when a group of Jews invited the Prophet (peace be on him) and a number of his close Companions to dinner. They had in fact hatched a plot to pounce upon the guests and thus undermine the very foundation of Islam. But by the grace of God the Prophet (peace be on him) came to know of the plot at the eleventh hour and did not go. Since the following section is addressed to the Children of Israel, this incident is alluded to here in order to mark the transition to a new subject. The discourse which begins here has two purposes. The first is to warn the Muslims against following the ways of their predecessors, the People of the Book. The Muslims are told, therefore, that the Israelites and the followers of Jesus had made a covenant with God in the past, in the manner that the Muslims had recently done so. The Muslims should, therefore, take heed lest they also break their covenant and fall a prey to error and misguidance as their predecessors had done. The second is to sensitize the Jews and Christians to the errors they have committed and invite them to the true religion.

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :30 اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف جسے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ یہودیوں میں سے ایک گروہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص خاص صحابہ کو کھانے کی دعوت پر بلایا تھا اور خفیہ طور پر یہ سازش کی تھی کہ اچانک ان پر ٹوٹ پڑیں گے اور اس طرح اسلام کی جان نکال دیں گے ۔ لیکن عین وقت پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سازش کا حال معلوم ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعوت پر تشریف نہ لے گئے ۔ چونکہ یہاں سے خطاب کا رخ بنی اسرائیل کی طرف پھر رہا ہے اس لیے تمہید کے طور پر اس واقعہ کا ذکر فرمایا گیا ہے ۔ یہاں سے جو تقریر شروع ہو رہی ہے اس کے دو مقصد ہیں ۔ پہلا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس روش پر چلنے سے روکا جائے جس پر ان کے پیش رو اہل کتاب چل رہے تھے ۔ چنانچہ انہیں بتایا جارہا ہے کہ جس طرح آج تم سے عہد لیا گیا ہے اسی طرح کل یہی عہد بنی اسرائیل سے اور مسیح علیہ السلام کی امت سے بھی لیا جا چکا ہے ۔ پھر کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح وہ اپنے عہد کو توڑ کر گمراہیوں میں مبتلا ہوئے اسی طرح تم بھی اسے توڑ دو اور گمراہ ہو جاؤ ۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ یہود اور نصاریٰ دونوں کو ان کی غلطیوں پر متنبہ کیا جائے اور انہیں دین حق کی طرف دعوت دی جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

12: یہ ان مختلف واقعات کی طرف اشارہ ہے جن میں کفار نے مسلمانوں کا خاتمہ کرنے کے منصوبے بنائے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سب کو خاک میں ملادیا، ایسے واقعات بہت سے ہیں، ان میں سے کچھ واقعات مفسرین نے اس آیت کے تحت بھی ذکر کئے ہیں، مثلاً صحیح مسلم میں روایت ہے کہ مشرکین سے ایک جنگ کے دوران عسفان کے مقام پر آنحصرتﷺ نے ظہر کی نماز تمام صحابہ کو جماعت سے پڑھائی، مشرکین کو پتہ چلا تو ان کو حسرت ہوئی کہ جماعت کے دوران مسلمانوں پر حملہ کرکے انہیں ختم کردینے کا یہ بہترین موقع تھا، پھر انہوں نے منصوبہ بنایا کہ جب یہ حضرات عصر کی نماز پڑھیں گے تو ان پر ایک دم حملہ کردیں گے ؛ لیکن عصر کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ نے صلاۃ الخوف پڑھی جس میں مسلمان دو حصوں میں تقسیم ہو کر نماز پڑھتے ہیں اور ایک حصہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہتا ہے (اس نماز کا طریقہ پیچھے سورۃ نساء : ١٠٢ میں گزرچکا ہے) چنانچہ مشرکین کا منصوبہ دھرا رہ گیا (روح المعانی) مزیدواقعات کے لئے دیکھئے معارف القرآن۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

اگرچہ مفسرین نے چند قصہ اس آیت کی شان نزول میں بیان کئے ہیں۔ لیکن غورث بن حارث کا قصہ جس کو عبد الرزاق نے حضرت جابر (رض) کی روایت سے اپنی تفسیر میں اس آیت کا شان نزول قرار دیا ہے اس کی سند معتبر ہے اور بہ نسبت اور قصوں کے اس قصہ کی اصل صحیح روایت سے ثابت ہے ٢ ؎۔ حاصل اس قصہ کا یہ ہے کہ بخاری نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جنگ ذات الرقاع کے جاتے وقت ایک جنگل میں پیڑوں کے سایہ میں ہم سب لوگ ٹھہر گئے۔ حضرت جابر (رض) کہتے ہیں میں بھی ذرا سوگیا اور لوگوں کی بھی ذرا آنکھ جھپک گئی۔ تو آنحضرت کی تلوار جو ایک پیڑ میں آپ نے لٹکا دی تھی غورث بن حارث نے چپکے سے آن کر اتنے میں اتار لی اور تلوار کو میان سے کھینچ کر آنحضرت کی طرف اس کو تولا اور وار کرنا چاہا اور آنحضرت سے کہا اب تم کو مجھ سے کون بچا سکتا ہے آپ نے فرمایا اللہ مجھ کو بچا سکتا ہے ٣ ؎ روایت ابن اسحاق میں ہے کہ اتنے میں جبرئیل ( علیہ السلام) نے آن کر غورث بن حارث کے سینہ پر ایک تھپکی ماری جس سے تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر دور جا پڑی تو پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چھٹ وہ تلوار اٹھالی اور غورث بن حاثر سے پوچھا کہ اب تجھ کو کون بچاسکتا ہے اس نے کہا کوئی نہیں آپ نے فرمایا خیر جا اپنا راستہ پکڑ۔ واقدی نے اس قصہ کے بعد ذکر کیا ہے کہ اس حال کو دیکھ کر غورث بن حارث مسلمان ہوگیا اور اس کے سبب سے بہت سے لوگوں کو ہدایت ہوئی ٤ ؎۔ اس قصہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ احسان فرمایا کہ ان کو ایک مخالف شخص کے حملہ سے بچایا۔ پھر اس خاص احسان میں امت کے لوگوں کو شریک کر کے یہ آیت اس تنبیہ کے لئے نازل فرمائی کہ امت کی ہدایت کے لئے رسول کا آنا ایک بڑا احسان ہے اور اس احسان کی حفاظت یہ اللہ کا امت پر گویا دوسرا احسان ہے اس قصہ میں ضرر کے گمان کے وقت اللہ کے رسول نے اللہ پر بھروسہ کیا اور اس کا انجام اچھا ہوا اس لئے آخر آیت میں عام مسلمانوں کو یہ ہدایت فرمائی کہ اگر وہ بھی ایسے موقعے پر اللہ پر بھروسہ کریں گے تو ان کے بھروسہ کا بھی انجام اچھا ہوگا۔ اس تفسیر میں ایک جملہ گزرچکا ہے کہ اللہ پر بھروسہ کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دنیا عالم اسباب میں آدمی اسباب کو چھوڑ بیٹھے بلکہ اللہ پر بھروسہ کرنے کا یہ مطلب ہے کہ آدمی اسباب کو کام میں لاوے اور ان اسباب میں تاثیر کے پیدا ہونے کا بھروسہ اللہ پر رکھے۔ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ پر بھروسہ رکھنے والے مسلمان کو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں جانے کی خوش خبری دی ہے ١ ؎۔ یہ حدیث اللہ پر بھروسہ رکھنے والے کی فضیلت کی گویا تفسیر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:11) ھم۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ ہم مصدر۔ باب نصر۔ اس نے ارادہ کیا۔ ہم بمعنی ارادہ غم۔ جمع ھموم۔ فکف۔ اس نے روک دیا۔ کف مصدر باب نصر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 عمومی انعامات کے بیان کے بعد اب خصوصی انعامات کا ذکر ہے۔ (کبیر) حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ ایک سفر کے دوران میں غزوہ ذات الرقاع میں) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جنگ میں پڑا و فرمایا صحابہ کرام (رض) سائے کی تلاش میں ادھر ادھر بکھر گئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ایک درخت کے سائے میں لیٹ گئے اور تلوار درخت سے لٹکا دی۔ اتنے میں ایک بدو (غورثبن حارث) آیا اور تلوار سونت کر کہنے لگا اب آپ کو مجھ سے کون بچاسکتا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ اس پر تلوار اس کے ہاتھ سے گرگئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اٹھا لیا اور اس بدو سے فرمایا اب بتاو تمہیں کو ب بچائے گا وہ کہنے لگا آپ بہترین پکڑنے والے نہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اتم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں اور یہ کہ میں اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں وہ کہنے لگا میں عہد کرتا ہوں کہ نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خود جنگ کرو نگا اور نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنگ کرنے والوں کی م دد کرونگا اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے چھوڑ دیا۔ حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک دیت کے سلسلہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بن نضیر مدینہ کے یہودیوں کے ایک قبیلہ کے ہاں تشریف لے گئے انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کو ایک دوسرے کو سائے میں بٹھا یا اور آپس میں اسکیم بنائی کہ ان کے اوپر چٹان یا چکی کا پاٹ گرادیا جائے اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبردار کردیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہاں سے اٹھ گئے (ابن کثیر، فتح البیان) ممکن ہے قرآن نے اس ایک آیت میں ان متعدد وقعات کی طرف اشارہ فرمادیا ہو اور یہ بھی ہوتا ہے کہا یک آیت ایک وقعہ کے متعلق نازل ہوتی ہے پھر یاد دہانی کے لیے دوسرے واقعہ میں اس کی طرف اشارہ کردیا جاتا ہے (المنار۔ قرطبی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 11 لغات القرآن : ھم، ارادہ کیا۔ ان یبسطوا (یہ کہ وہ بڑھائیں ۔ کھولیں) ۔ کف (روک دیا) ۔ یتوکل (بھروسہ کرتا ہے) تشریح : مفسرین میں ایک جماعت کہتی ہے کہ اس آیت کا تعلق پچھلی آیات سے ہے ۔ سورة المائدہ کی آیت نمبر 6 میں خاص طور پر مشرکین مکہ کا ذکر ہے ۔ آیت نمبر 7 میں کہا گیا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اتنا مشتعل نہ کردے کہ تم انصاف کا دامن ہی چھوڑ بیٹھو۔ فرمایا گیا کہ اللہ احسان کو یاد کرو۔ یہاں پر اللہ کے احسان سے مراد یہ ہے کہ کبھی تم انتہائی کمزور تھے ۔ اس وقت بھی مشرکین مکہ کا زور تم پر چلنے نہیں دیا ورنہ تم تباہ وبر باد ہوجاتے ۔ مفسرین کی دوسری جماعت اس آیت کا رشتہ اگلی آیت سے جوڑتی ہے جس میں بنی اسرائیل کا ذکر ہے ۔ مدینہ کے یہودیوں نے بار بار رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے اور ان کی جماعت مو منین کو ختم کردینے کا منصوبہ بنا یا اور ان منصوبوں پر عمل بھی شروع کردیا لیکن کچھ غیبی امداد ایسی آئی کہ ان کے منصوبے خاک میں مل گئے۔ اس آیت کا تعلق خواہ مشرکین مکہ سے ہو یا مدینہ کے یہودیوں سے یا دونوں سے ان واقعات میں واضح شہادت موجود ہے کہ کوئی غیبی ہاتھ کام کررہا تھا ۔ اور یہ ہاتھ اللہ کا تھا ۔ بیشک دنیاوی تدبیر کرنا ضروری ہے لیکن کام کرنے والی ہمیشہ دوطاقتیں رہی ہیں ۔ ایک وہ جو نظرآتی ہے دوسری وہ جو نظر نہیں آتی۔ اور یہ دوسری قسم کی طاقت اپنے پاس ” ہاں “ اور ” نہیں “ کی ساری کلیدیں رکھتی ہے ۔ پہلی قسم کی طاقتیں صرف بہانہ ہیں ۔ ہر شخص دیکھ رہا ہے کہ ہر طرح کے علاج کے باوجود بادشاہوں اور آمروں کو موت آجاتی ہے۔ پیدائش، موت، صحت، رزق، غم، خوشی، ناکامی، کامیابی، اتفاق، حادثہ، اولاد، رشتہ شادی وغیرہ وغیرہ ان سب کا تعلق پردہ غیب سے ہے۔ ظاہری حرکتوں میں جو جو تھوڑی سی برکت ہے وہ اسی لئے کہ انسان صلاحتیں بیکار نہ پڑجائیں اور دنیا کی گرمی و سرگرمی باقی رہے۔ اس لئے ظاہری تدبیروں کے باوجود ، اہل ایمان کو تمام تر توکل (بھروسہ) اللہ ہی پر کرنا چاہئے اور یہ توکل تقویٰ کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یعنی کفار قریش ابتدائے اسلام میں جبکہ مسلمان ضعیف تھے۔ 8۔ شروع سورت سے یہاں تک اکثر آیتوں میں اللہ نے ڈرنے کا حکم فرمایا ہے ایک جگہ لفظ خشیت سے باقی جگہ لفظ تقوی سے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو امتثال میں بہت دخل ہے چناچہ ظاہر بھی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نعمتوں کی یاد دہانی اور ان کی قدر شناسی کے بعد دو قسم کے انجام کا ذکر ہوا۔ اب دشمن کے مقابلہ میں تحفظ فراہم کرنے کا انعام یاد کرایا جا رہا ہے۔ علامہ ابن کثیر نے اس آیت کا شان نزول ذکر کرتے ہوئے ایک واقعہ تحریر کیا ہے کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چند صحابہ (رض) کے ساتھ یہودیوں کے قبیلہ بنی نضیر کے ہاں پہنچے آپ کسی معاملہ کے بارے میں گفتگو فرمار ہے تھے۔ یہودیوں نے عمرہ بن جحش کو کہا کہ تم مکان کی چھت سے ایک بھاری پتھر نبی کے اوپر گراؤ تاکہ اس کا خاتمہ ہوجائے۔ کچھ اہل علم نے تنعیم کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر کفار کی ایک جماعت نے صحابہ پر شب خون مارنے کی سازش کی۔ لیکن صحابہ (رض) کے جذبہ اطاعت شعاری سے اس قدر مرعوب ہوئے کہ انھوں نے آگے بڑھنے کی بجائے پسپائی میں خیر جانی۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے بطور نعمت ذکر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فضل و کرم کو یاد کرو جب لوگوں نے تم پر جارحیت کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے اعصاب توڑ دیے۔ واقعہ یاد کروانے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے دین کو اپنانے اور اسے نافذ کرنے میں کسی قسم کا خوف خاطر میں نہیں لانا چاہیے اور غیروں پر بھروسہ کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ اور اعتماد کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے والے کبھی نقصان نہیں اٹھاتے کیونکہ اللہ تعالیٰ انھیں کافی ہوتا ہے۔ (الطلاق : ٣) اللہ تعالیٰ کا خوف اختیار کرنے سے مسلمان کے کردار میں پرہیزگاری اور نکھار پیدا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے سے غیروں کے مقابلہ میں حوصلہ، جرأت اور خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ ( عَنْ أَبِی مُوسٰی (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلُ الَّذِی یَذْکُرُ رَبَّہُ وَالَّذِی لَا یَذْکُرُ رَبَّہُ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ )[ رواہ البخاری : کتاب الدعوات، باب فضل ذکر اللہ عزوجل ] ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بیان کرتے ہیں کہ اپنے پروردگار کا ذکر کرنے والے کی مثال زندہ اور نہ کرنے والے کی مثال مردہ شخص کی سی ہے۔ “ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُول اللّٰہُ تَعَالَی أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِی بِی وَأَنَا مَعَہُ إِذَا ذَکَرَنِی فَإِنْ ذَکَرَنِی فِی نَفْسِہٖ ذَکَرْتُہُ فِی نَفْسِی وَإِنْ ذَکَرَنِی فِی مَلَإٍ ذَکَرْتُہُ فِی مَلَإٍ خَیْرٍ مِنْہُمْ )[ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب یحذرکم اللہ نفسہ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے میں اپنے بندے کے ساتھ اپنے بارے میں اس کے ظن کے مطابق معاملہ کرتا ہوں۔ وہ جب میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں اگر وہ میرا ذکر اپنے دل میں کرتا ہے تو میں اس کو اپنے دل میں یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ میرا ذکر کسی گروہ میں کرتا ہے تو میں اس کا ذکر اس سے بہتر گروہ میں کرتا ہوں۔ “ (عَنْ عَاءِشَۃَ قَالَتْ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَذْکُرُ اللَّہَ عَلَی کُلِّ أَحْیَانِہِ ) [ رواہ مسلم : باب ذِکْرِ اللَّہِ تَعَالَی فِی حَالِ الْجَنَابَۃِ وَغَیْرِہَا ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی کائنات (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر حال میں اللہ کا ذکر فرماتے تھے۔ “ مسائل ١۔ ہرو قت اللہ تعالیٰ کے احسان یاد رکھنے چاہییں۔ ٢۔ اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی حفاظت کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے : ١۔ مومنوں کو اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ (آل عمران : ١٢٢) ٢۔ جب کسی کام کا عزم کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔ (آل عمران : ١٥٩) ٣۔ احد کے غازیوں نے کہا ہمارا بھروسہ اللہ پر ہے اور وہی ہمیں کافی ہے۔ (آل عمران : ١٧٣) ٤۔ مومن اپنے رب پر ہی بھروسہ رکھتے ہیں۔ (الانفال : ٢) ٥۔ جو شخص اللہ پر بھروسہ رکھتا ہے اللہ ہی اس کو کافی ہے۔ (الطلاق : ٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ١١۔ اس آیت کے مفہوم میں اختلاف ہے لیکن راجح بات یہ ہے کہ اس سے مراد وہ واقعہ ہے جو یوم حدیبیہ پر پیش آیا جب ایک گروہ مسلمانوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف غداری کر کے چاہتا تھا کہ غفلت میں ان پر حملہ کر دے مگر اللہ تعالیٰ نے انکو مسلمانوں کے ہاتھوں میں قیدی بنا دیا (تفصیلات کے لئے دیکھئے سورة فتح) غرض حادثہ کیسا بھی ہو ‘ بہرحال یہاں اعتبار اور اہمیت اس بات کی ہے جو یہاں اسلام کے نظام تربیت میں پیش نظر ہے اور وہ یہ کہ غصے اور دشمنی کو فرو کرنا چاہئے اور اس طرح دشمنوں کے خلاف اپنے دلوں میں پائے جانے والے کئے اور دشمنی کو نکالنا چاہئے تاکہ مسلمانوں کے دل مطمئن ہوجائیں اور وہ ٹھنڈے دل سے سوچیں اور یہ یقین رکھیں کہ اللہ ان کا نگہبان ہے اور ان کا محافظ ہے ۔ اس نرمی ‘ سنجیدگی اور اطمینان کی وجہ سے مسلمانوں کو ضبط نفس حاصل ہوتا ہے ان کے دلوں میں رواداری پیدا ہوتی ہے اور وہ سہولت سے عدل و انصاف قائم کرتے ہیں ۔ مسلمان اس بارے میں ندامت محسوس کریں گے اگر وہ پھر بھی اللہ کے ساتھ کئے ہوئے عہد کو پورا نہ کریں ‘ حالانکہ وہ ہر وقت ان کا نگہبان اور محافظ ہے ‘ اور ان کی طرف بڑھنے والے ہاتھ کو پکڑ رہا ہے ۔ دوسری جگہ آیت یہ ہے : (آیت) ” اذ ھم قوم ان یبسطوا الیکم ایدیھم فکف ایدیھم عنکم “۔ (٥ : ١١) (جب ایک قوم نے تم پر دست درازی کا ارادہ کرلیا تھا مگر اللہ نے ان کے ہاتھ تم پر اٹھنے سے روک دیئے) ہاتھوں کا آگے بڑھنا اور پکڑنا اور پھر ان کا روک دیا جانا ‘ یہ انداز تعبیر ایک زندہ اور مصور انداز تعبیر ہے اور یہ معنوی انداز سے زیادہ موثر ہے ۔ اس تعبیر کے اندر تصویر اور حرکت اسکریں پر سامنے آجاتی ہے ۔ یہ انداز تعبیر بات کو زور دار اور وزنی بنا دیتا ہے ۔ یوں نظر آتا ہے کہ یہ بالکل ایک نیا اسلوب ہے جو پہلی مرتبہ استعمال ہوا ہے اور اس میں ایک محسوس صورت حال بھی نظروں کے سامنے آجاتی ہے ۔ اور وہ متحرک صورت میں تصور کے اسکرین پر دوڑتی ہے یہ قرآن کریم کا مخصوص انداز بیان ہے اور اسی وجہ سے قرآن معجز ہے ۔ درس نمبر ٤٧ ایک نظر میں : سابقہ سبق کے آخر میں اس معاہدے کا تذکرہ ہوا تھا جو اللہ تعالیٰ اور مسلمانوں کے درمیاں طے پایا تھا اور یہ معاہدہ کر کے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر جو عظیم احسان کیا تھا وہ انہیں یاد دلایا تھا ۔ یہ اس لئے کہ وہ اس معاہدے کی رو سے ان پر عائد ہونے والی ڈیوٹیوں کو اچھی طرح ادا کریں اور اس بات سے ڈریں کہ وہ اس معاہدے کو توڑ نہ دیں اور اس کی خلاف ورزی نہ کریں ۔ اس پورے سبق میں وہ تفصیلات دی گئی ہیں جن میں اہل کتاب نے اپنے ان معاہدوں کی خلاف ورزیاں کیں جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کئے تھے ، یہ بات بھی بتائی گئی ہے کہ ان خلاف ورزیوں کے نتیجے میں انہیں اس دنیا میں جو سزائیں دی گئیں وہ کس قدر سخت تھیں ، یہ اس لئے کہ ایک طرف تو یہ وضاحت جماعت مسلمہ کے لئے ایک تاریخی نصیحت اور عبرت کا کام کرے اور اہل کتاب کی حقیقی صورت حال کی تفصیلات ان کی آنکھوں کے سامنے آجائیں اور دوسری جانب انہیں بتایا جائے کہ اللہ کی سنت اٹل ہوتی ہے اور وہ اپنے فیصلوں میں کسی کے ساتھ کوئی رو رعایت نہیں کرتا ۔ تیسرے یہ کہ یہ معلوم ہوجائے کہ اہل کتاب کی اصل حقیقت کیا ہے اور تاریخ میں ہمیشہ ان کا موقف کیا رہا ہے ۔ تاکہ مسلمانوں کے خلاف ان کی جانب سے کی جانے والی سازشوں کا اچھی طرح دفعیہ کیا جائے اور ان کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو ناکام کیا جاسکے ، یہ سازشیں اور اپنے دینی ثابت قدمی کے رنگ مین کرتے تھے حالانکہ وہ ہمیشہ ان معاہدوں کو توڑتے رہے تھے ۔ اس سبق میں اللہ کے اس معاہدے کا جائزہ بھی لیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے قوم موسیٰ کے ساتھ اس وقت کیا تھا ‘ جب اس کو مصر کی محکومانہ اور رسوا کن زندگی سے نجات دی گئی تھی ۔ اس میثاق کو بھی بنی اسرائیل نے توڑد یا تھا ۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس عہد شکنی کے نتیجے میں میں ان پر کیا گزری ۔ خدا کی لعنت کے ساتھ انہیں جلاوطن کردیا گیا اور ہدایت اور انعام سے محروم کر کے انہیں راندہ درگاہ قرار دیا گیا ۔ پھر اس معاہدے کا جائزہ بھی لیا گیا ہے جو ان لوگوں سے کیا گیا تھا ‘ جنہوں نے کہا تھا کہ وہ نصاری ہیں۔ انہوں نے اس معاہدے کو توڑا اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان نفرت اور عداوت پیدا کردی اور اعلان کردیا گیا کہ یہ عداوت تاقیامت بحال رہے گی ۔ پھر بنی اسرائیل کا موقف ‘ ارض مقدس کے حوالے سے بھی ایکسرے ہوا ہے جس میں انہوں نے یہ عہد کیا تھا کہ وہ اس پر حملہ آور ہوں گے انہوں نے اس عہد کو توڑا اور الٹے پاؤں پھرگئے محض بزدلی کی وجہ سے انہوں نے اللہ کی ساتھ بدعہدی کی اور معاہدے کی ذمہ داریاں ادا نہ کیں ۔ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے صاف صاف کہہ دیا کہ آپ جائیں ‘ آپ اور آپ کا خدا دونوں لڑیں ہم توی ہیں بیٹھتے ہیں ۔ اہل کتاب کے ان معاہدوں اور مواقف کے جائزے کے بیچ میں ‘ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان عہد شکنیوں کے نتیجے میں اہل کتاب کے اندر کس قدر فکری انحراف پیدا ہوگیا تھا ۔ ان معاہدوں میں یہ طے ہوا تھا کہ وہ صرف ایک اللہ کو تسلیم کریں گے اور اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کریں گے ۔ اس کے بدلے اللہ نے ان کو انعامات واکرامات سے نوازنا تھا اور یہ وعدہ کیا تھا کہ تمہیں اس سرزمین کا اقتدار اعلی دیا جائے گا لیکن انہوں نے خدا کی نافرمانی کر کے اپنے آپ کو ان تمام چیزوں سے محروم کرلیا ۔ چناچہ وہ اللہ کی جانب سے ملعون ہو کر اور فرقہ پرستی میں پڑ کر جلاوطنی کی زندگی بسر کرتے رہے ۔ ان تبصروں کے بعد از سر نو انکو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ ہدایت کو قبول کرلیں ۔ یہ ہدایت جو نہایت ہی اہم ہے جسے اس آخری رسالت نے پیش کیا ہے اور جسے نبی آخر الزمان خاتم النبین نے پیش کیا ہے اور جس کی وجہ سے انسانوں پر حجت تمام ہوگئی کہ وہ یہ کہہ سکیں کہ ایک طویل عرصہ گزر گیا ہے اور کوئی نبی نہیں آیا اور آخری نبی گزرنے کے بعد طویل عرصہ گزر گیا ہے ۔ اس لئے وہ ہدایت بھول گئے اور اب ان پر مواخذہ کیا ہوگا ۔ لو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بشیر ونذیر بن کر آگئے ہیں ‘ اب کیا بہانہ ہے بتاؤ ؟ اس تمام بحث سے یہ نتیجہ بھی از خود برآمد ہوتا ہے کہ دین اسلام اپنی اساس کے اعتبار سے ایک ہے اللہ کا اپنے بندوں کے ساتھ عہد ومثاق بھی ایک ہے کہ وہ ایمان لائیں ‘ اللہ کو وحدہ لا شریک سمجھیں ‘ زکوۃ ادا کریں اور اللہ نے انکو جو رزق دیا ہے ‘ اس میں سے اللہ کے لئے خرچ کریں ۔ یہ ایک ایسا میثاق ہے جو صحیح نظریات کو متعین کردیتا ہے جو صحیح عبادات کو متعین کردیتا ہے اور اسلام کے اجتماعی نظام کی بنیادوں کی نشاندی کرتا ہے ۔ اس مختصر جائزے کے بعد آب ذرا آیات پر تفصیلی بحث کرتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کا ایک خاص واقعہ اور اللہ کی نعمت کی یاد ہانی اسباب النزول ص ١٨٦ میں حضرت جابر (رض) سے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ یہ واقعہ پیش آیا کہ ایک شخص جس کا نام غورث تھا اس نے اپنی قوم بنی غطفان اور بنی محارب سے کہا کہ کیا میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل نہ کردوں ؟ وہ لوگ کہنے لگے کہ تو کیسے قتل کرے گا اس نے کہا کہ اچانک ایسی صورت بنا کر قتل کردوں گا کہ اس کی طرف دھیان بھی نہ جائے۔ یہ کہہ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ کی گود میں آپ کی تلوار تھی۔ یہ شخص کہنے لگا اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا میں آپ کی تلوار دیکھ سکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں دیکھ لے ! اس نے تلوار لے لی اور نیام سے باہر نکال لی وہ ہاتھ میں تلوار لے کر ہلاتا رہا۔ اور ارادہ کرتا رہا کہ آپ پر حملہ کرے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے ارادہ میں ناکامی ہوتی رہی۔ پھر وہ کہنے لگا اے محمد ! کیا آپ مجھ سے نہیں ڈرتے آپ نے فرمایا نہیں ! کہنے لگا کہ آپ مجھ سے نہیں ڈرتے حالانکہ میرے ہاتھ میں تلوار ہے آپ نے فرمایا کہ اللہ میری حفاظت فرمائے گا اس کے بعد اس نے تلوار نیام میں رکھ دی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو واپس کردی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت بالا نازل فرمائی۔ اللہ جل شانہ نے امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی نعمت یاد دلائی کہ اس نے ان کے نبی کی حفاظت فرمائی جس میں امت پر بھی انعام و احسان ہے۔ تقویٰ اور توکل کا حکم آخر میں تقوی کا حکم دیا اور ساتھ توکل کا حکم فرمایا کہ اہل ایمان کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے تقویٰ اور توکل بہت بڑی چیزیں ہیں۔ اہل ایمان کے سب کام ان دونوں سے چلتے ہیں جسے اللہ پر توکل ہو وہ مخلوق سے نہیں ڈرتا۔ تقویٰ گناہوں سے بچنے کا نام ہے۔ جو شخص اللہ کی رضا کے لئے گناہوں سے بچے گا اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر مشکل سے بچنے کا راستہ نکال دے گا۔ سورة طلاق میں فرمایا (وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِِبُ وَمَنْ یَّتَوَ کّلُ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ ) (اور جو شخص اللہ سے ڈرے اللہ تعالیٰ اس کے لئے مشکلوں سے نکلنے کا راستہ بنا دے گا اور اللہ اس کو وہاں سے رزق دے گا جہاں اسے گمان بھی نہ ہو اور جو شخص اللہ پر بھروسا کرے اللہ اس کے لئے کافی ہے ) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

31: حکم سابق کا دوبارہ اعادہ ہے اللہ کا انعام یاد رکھو اور آمر بالقسط بنو، عدل و انصاف کی راہ پر چلو، اللہ سے کیے ہوئے تمام عہد پورے کرو اور شعائر اللہ کی بےحرمتی کرنے والوں کو بےحرمتی مت کرنے دو یہودیوں میں سے جو شعائر اللہ کی بےحرمتی کرتے ہیں تمہیں کچھ ڈر خطرہ ہو تو اس کی پرواہ نہ کرو اور اسے خاطر میں نہ لاؤ۔ اللہ سے ڈرو، اس کی نافرمانی سے بچو اور اس پر بھروسہ رکھو جس طرح اس نے ایک موقعہ پر کافروں کے حملے اور ان کی شرارت سے تمہیں محفوظ رکھا وہ اب بھی یہودیوں کی شرارت سے تمہاری حفاظت فرمائے گا۔ اِذْ ھَمَّ قَوْمٌ یہ ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کے ساتھ مقام عسفان میں نماز ظہر ادا کی تو یہ دیکھ کر مشرکین کو افسوس ہوا کہ کیوں نہ انہوں نے بحالت نماز ان پر حملہ کر کے انہیں ختم کردیا اس کے بعد انہوں نے منصوبہ بنایا کہ چلو نماز عصر کی حالت میں ان پر حملہ کریں گے اللہ تعالیٰ نے نماز خوف کا حکم نازل فرما کر ان کے منصوبے کو خاک میں ملا دیا (روح ج 6 ص 84، مظہری ج 3 ص 62) ایمان والوں کو خدا پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ یہود و نصاریٰ کی طرف سے دل میں کوئی خطرہ یا ڈر نہ رکھنا چاہئے۔ یہود پر ہم نے لعنت و ذلت مسلط کردی ہے اور نصاریٰ میں پھوٹ ڈال دی ہے اب وہ تم سے جنگ نہیں کرسکیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اے ایمان والو ! تم اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو یاد کرو جو تم پر اس وقت ہوا جب کہ کفار کے ایک گروہ نے تم پر دست درازی کا ارادہ کرلیا تھا اور وہ اس فکر میں تھے کہ تم کو بالکل ختم کردیں مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں کو تم سے روک دیا اور ان کو اتنا موقع نہ دیا کہ وہ تم کو ختم کرسکیں اور دیکھو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اس کے حقوق نعمت کی رعایت رکھو اور مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی پر ہمیشہ بھروسہ کیا کریں۔ (تیسیر) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کافروں کی بعض جماعت نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یا مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچانے کا ارادہ کیا تھا اللہ تعالیٰ نے اس سے آپ کو اور آپ کی جماعت کو محفوظ رکھا اس احسان کی جانب اشارہ ہے اور یہ بھیہو سکتا ہے کہ کفار کی عام دشمنی کے باعث جو کافروں کے جذبات تھے اور کفار مکہ ہر وقت مسلمانوں کی بیخ کنی کی فکر میں رہتے تھے اس کی جانب اشارہ ہو کہ کفار کی پیہم اور مسلسل کوششوں کے باوجود کفار کی یہ خواہش پوری نہ ہو کسی اگرچہ مختلف عنوان سے اذیتیں پہنچاتے رہے لیکن یہ حوصلہ نہ ہوا کہ تمام مسلمانوں کو ختم کردیتے جن لوگوں نے پہلی صورت اختیار کی ہے انہوں نے اس واقعہ کی مختلف تفصیل بیان کی ہے۔ کسی نے کہا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر میں ایک مقام پر قیام پذیر تھے آپ نے اپنے ہتھیار ایک درخت میں لٹکا دیئے ساتھی بھی حضرت کے مختف درختوں کے سائے میں جا بیٹھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لیٹ گئے۔ قریب کے ایک کافر نے چپکے سے درخت میں سے تلوار اتار لی اور آپ کو پکار کر کہا اے محمد ! کیا تم مجھ سے ڈرتے نہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں اس نے کہا اچھا تم کو مجھ سے اب کون بچا سکتا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ عزوجل بچائے گا ا س کافر کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کو آواز دی اور صحابہ کو یہ قصہ سنایا وہ کافر بھی موجود تھا مگر اس سے کوئی بدلہ نہیں لیاقتادہ نے کہا کچھ لوگوں نے آپ کو دھوکہ سے قتل کرنا چاہا تھا اور انہوں نے اس دیہاتی کافر کو اس پر آمادہ کیا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو محفوظ رکھا اس کافر کا نام غورث بن حارث تھا۔ اب عباس سے مروی ہے کہ یہود نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ کے اصحاب کو کھانے میں زہر ملا کر کھلانا چاہا تھا لیکن بروقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو معلوم کرا دیا بعض نے کہا کعب بن اشرف نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو ہلا کر کوئی صدمہ پہنچانا چاہا تھا اس سے اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا اور اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ بعض نے کہا بنی نضیر نے ایک موقعہ پر یہ چاہا تھا کہ آپ کو باتوں میں لگا کرچکی کا پاٹ آپ پر گرا دیں اس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو محفوظ رکھا۔ مجاہد اور عکرمہ وغیرہ نے مندر بن عمرو الساعدی اور عامر بن الطفیس کے واقعہ سے جو بیر معونہ پر پیش آیا تھا اس آیت کا تعلق بتایا تھا اور دوسری صورت میں کسی خاص واقعہ کی ضرورت نہیں۔ ہم نے تیسیر میں دونوں روایتوں کی بنا پر اپنے ترجمہ کا خلاصہ کیا ہے بہرحال ! ایک خاص نعمت کی طرف اشارہ ہے جس میں مسلمانوں کو کفار کے ہاتھ سے بچایا ہے اور ان کا یہ ارادہ کہ مسلمانوں کا بالکل یہ استحصال کردیا پورا نہیں ہوسکا اور یہاں جو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اس کا مطلب یہ ہے کہ باوجود ان کے اس عناد اور دشمنی کے پھر بھی تمہاری جانب سے کوئی ایسی بات نہ ہوئی چاہئے جو انصاف اور تقویٰ کے خلاف ہو۔ پھر آخر میں اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھروسہ رکھنے کا حکم دیا گیا جس کا ماحصل یہ ہوا کہ تم لوگ تقویٰ کے پابند رہو اور اللہ تعالیٰ پر کامل توکل رکھو تو وہ تمہاری اسی طرح مدد کرتا رہے گا اور تم کو تمہارے دشمنوں سے محفوظ رکھے گا چونکہ اوپر کی آیتوں میں اس عہد کا ذکر تھا جو مسلمانوں سے لیا گیا تھا اور سمع و اطاعت اور عہد کے پورا کرنے کا حکم تھا۔ اب آگے ان فرقوں کی مذمت ہے جنہوں نے عہد شکنیاں کیں اور اللہ تعالیٰ سے پیغمبروں کی معرفت عہد کر کے توڑے اور اس نقض عہد کی وجہ سے مختلف قسم کے عذابوں اور مختلف قسم کی سزائوں میں مبتلا ہوئے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)