Commentary Refuted here in this verse is only one saying of the Christians - which is the belief of a sect among them - that Sayyidna Masih (علیہ السلام) is God. But, the argument employed in the refutation virtually covers the false beliefs of all sects against the inalienable principle of Tauhid, that is the Oneness of Allah. This may be a belief in a son of God or a belief in one of the three Gods - the argument refutes all of them. That Sayyidna Masih (علیہ السلام) and his blessed mother have been mentioned here jointly could be because of two wise considerations. Firstly, it is the humility of Sayyidna Masih before Allah Ta` ala that he could never think of saving himself against the will of Allah, or his mother whose care and service a good son considers dearer than his own life. Second¬ly, by doing so, the view of the sect which takes Sayyidah Maryam as one of the three Gods also stands refuted. Also noteworthy at this point is the mention of the death of Sayyid¬na ` Isa (علیہ السلام) and Sayyidah Maryam, peace be upon both of them, as a suppo¬sition - although, the death of Sayyidah Maryam was no supposition at the time of the revelation of the Qur&an; it had already occured, in fact. The reason for this may either be the superimposition (Taghlib) of the desired subject, that is, since the real intent here was to describe the death of Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) as a supposition, the mention of his blessed mother was also made as a corollary of the same subject, even though, her death had already occurred - or, it can also be said that the expres¬sion means: The way We have made death take away Sayyidah Maryam, it lies within Our power to make it overtake Sayyidna Masih (علیہ السلام) and the rest of the creation as well. And the statement: يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ (He creates what He wills - 5:17), is there to refute this particular base which Christians use to deify Sayyidna Masih (علیہ السلام) because they reason out that his birth came to pass, against all rules of nature operative in this world, without a father and from the mother alone - had he too been a human being, he would have been born through a mother and father both, very much in accordance with the natural law. This one sentence answers the reasoning by saying that Allah has the most perfect and the most comprehensive power to create what He wills and how He wills. The same doubt has been removed in the verse: إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّـهِ كَمَثَلِ آدَمَ (Surely, the case of ` Isa, in the sight of Al¬lah, is like the case of Adam - 3:59) where it has been established that the creation of Sayyidna Masih (علیہ السلام) as separate from the habitual law of nature cannot become an argument in favour of his being taken as God. The reason lies in pondering that Allah Ta` ala did create Sayyidna Adam (علیہ السلام) without a father and mother both. He has the power, all power, over everything. He is the Creator and the Master and the most worthy of worship. No one else can be associated with His Divini¬ty as a partner or sharer.
خلاصہ تفسیر اے اہل کتاب (یعنی یہود و نصاریٰ ) تمہارے پاس ہمارے یہ رسول (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے ہیں (جن کے کمال علمی کا تو یہ حال ہے کہ) کتاب (کے مضامین) سے جن چیزوں کو تم چھپالیتے ہو، ان میں سے بہت سی باتوں کو (جن کے اظہار میں کوئی شرعی مصلحت ہو ظاہراً تحصیل علوم نہ فرمانے کے باوجود خالص وحی کے ذریعہ واقف ہوکر) تمہارے سامنے صاف صاف کھول دیتے ہیں اور (کمال علمی و اخلاقی کا یہ عالم ہے کہ جن چیزوں کو تم نے چھپالیا تھا ان میں سے) بہت سے امور کو (جاننے اور باخبر ہونے کے باوجود اخلاقاً ان کے اظہار سے) درگزر فرماتے ہیں (جبکہ ان کے اظہار میں کوئی شرعی مصلحت نہ ہو، صرف تمہاری رسوائی ہی ہوتی ہو۔ اور یہ کمال علمی دلیل نبوت ہے اور کمال اخلاقی اس کا مؤ ید اور مؤ کد ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دوسرے معجزات کے علاوہ خود تمہارے ساتھ آپ کا یہ برتاؤ آپ کی نبوت ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ اور اسی رسول کے ذریعہ) تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشن چیز آئی ہے اور (وہ) ایک کتاب واضح (ہے) کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو جو رضائے حق کے طالب ہوں۔ سلامتی کی راہیں بتلاتے ہیں (یعنی جنت میں جانے کے طریقے جو خاص عقائد و اعمال ہیں تعلیم فرماتے ہیں کیونکہ در حقیقت مکمل سلامتی تو جنت ہی میں ہو سکتی ہے کہ نہ اس میں کوئی کمی ہوتی ہے اور نہ زوال کا خطرہ) اور ان کو اپنی توفیق سے (کفر و معصیت کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان و اطاعت کے) نور کی طرف لے آتے ہیں اور ان کو (ہمیشہ) راہ راست پر قائم رکھتے ہیں۔ بلاشبہ وہ لوگ کافر ہیں جو یوں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عین مسیح بن مریم ہے، آپ ان سے یوں پوچھئے کہ اگر ایسا ہے تو بتلاؤ کہ اگر اللہ تعالیٰ مسیح بن مریم (جن کو تم اللہ کا عین سمجھتے ہو) اور ان کی اولاد (حضرت مریم) کو اور جتنے زمین میں آباد ہیں۔ ان سب کو (موت سے) ہلاک کرنا چاہیں تو (کیا) کوئی شخص ایسا ہے جو خدا تعالیٰ سے ذرا بھی ان کو بچا سکے۔ (یعنی اتنی بات کو تو تم بھی مانتے ہو کہ ان کو ہلاک کرنا اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہے، تو جس ذات کا ہلاک کرنا دوسرے کے قبضہ میں ہو وہ خدا کیسے ہوسکتا ہے۔ اس سے عقیدہ الوہیت مسیح کا باطل ہوگیا) اور (جو حقیقتا خدا اور سب کا معبود ہے یعنی) اللہ تعالیٰ (اس کی یہ شان ہے کہ اس) ہی کے لئے خاص ہے حکومت آسمانوں پر اور زمین پر اور جتنی چیزیں ان دونوں کے درمیان ہیں ان پر اور وہ جس چیز کو (جس طرح) چاہیں پیدا کردیں۔ اور اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر پوری قدرت ہے اور یہود و نصاریٰ (دونوں فریق) دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے ہیں اور اس کے محبوب ہیں۔ (مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم چونکہ انبیاء کی اولاد ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ کے یہاں ہماری ایک خصوصیت ہے کہ ہم گناہ بھی کریں تو اس پر اتنی ناراضی نہیں ہوتی جتنی دوسروں پر ہوتی ہے جیسے باپ کو اپنے بیٹے کی نافرمانی پر اتنا اثر نہیں ہوتا، جتنا کسی غیر آدمی کے ایسے ہی فعل پر ہوتا ہے۔ ان کے اس خیال باطل کے ابطال کے لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے کہ) آپ (ان سے) یہ پوچھئے کہ اچھا پھر تم کو تمہارے گناہوں کے عوض (آخرت میں) عذاب کیوں دیں گے (جس کے تم بھی قائل ہو جیسا کہ یہود کا قول تھا (آیت) لن تمسنا النار الا ایاما معدودة یعنی اگر ہمیں عذاب جہنم ہوا بھی تو چند روز ہی ہوگا اور خود حضرت مسیح (علیہ السلام) کا قول قرآن میں مذکور ہے۔ (آیت) انہ من یشرک باللّٰہ فقد حرم اللّٰہ علیہ الجنة۔ یعنی جس شخص نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کردیتے ہیں۔ جو بوجہ التزام کے مثل اقرار نصاریٰ کے ہے) ۔ خلاصہ یہ ہے کہ آخرت کے عذاب کا جب تمہیں خود بھی اقرار ہے تو یہ بتلاؤ کہ کیا کوئی باپ اپنے بیٹے یا محبوب کو عذاب بھی دیا کرتا ہے۔ اس لئے اپنے آپ کو خدا کی اولاد کہنا باطل ہے۔ یہاں یہ شبہ نہیں کیا جاسکتا کہ بعض اوقات باپ بھی اپنی اولاد کی اصلاح و تربیت کے لئے تادیباً سزا دیتا ہے تو سزا ہونا بیٹا ہونے کے منافی نہیں۔ کیونکہ باپ کی سزا تادیب کے لئے ہوئی ہے تاکہ وہ آئندہ ایسا کام نہ کرے۔ اور آخرت میں تادیب کا کوئی مقام نہیں۔ کیونکہ وہ دار العمل نہیں دار الجزاء ہے۔ وہاں آگے کوئی کام کرنے، یا کسی کام سے روکنے کا کوئی احتمال نہیں۔ جس کو تادیب کہا جائے، اس لئے وہاں جو سزا ہوگی وہ خالص سزا اور تعذیب ہی ہو سکتی ہے۔ جو اولاد یا محبوب ہونے کے قطعاً منافی ہے، اس لئے معلوم ہوا کہ تمہاری کوئی خصوصیت اللہ کے یہاں نہیں) ۔ بلکہ تم بھی منجملہ دوسری مخلوقات کے ایک معمولی آدمی ہو۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہیں گے بخشیں گے جس کو چاہیں گے سزا دیں گے اور اللہ تعالیٰ ہی کی ہے سب حکومت آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی اور جو کچھ ان کے درمیان ان میں بھی اور اللہ ہی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے (اس کے سوا کوئی پناہ نہیں) ۔ معارف ومسائل اس آیت میں نصاریٰ کے ایک ہی قول کی تردید کی گئی ہے جو ان کے ایک فرقہ کا عقیدہ ہے یعنی یہ کہ حضرت مسیح (معاذ اللہ) عین اللہ تعالیٰ ہیں۔ مگر تردید جس دلیل سے کی گئی ہے، وہ تمام فرقوں کے عقائد باطلہ پر حاوی ہے جو بھی توحید کے خلاف ہیں۔ خواہ وہ خدا کا بیٹا ہونے کا عقیدہ ہو یا تین خداؤوں میں سے ایک خدا ہونے کا عقیدہ فاسد ہو۔ اس سے سب کا رد اور ابطال ہوگیا۔ اور اس جگہ حضرت مسیح اور ان کی والدہ کا ذکر فرمانے میں دو حکمتیں ہو سکتی ہیں اول تو یہ کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کا حق تعالیٰ کے سامنے یہ عجز کہ وہ اپنے آپ کو اللہ سے بچا سکتے ہیں نہ اپنی ماں کو جن کی خدمت و حفاظت کو شریف بیٹا اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس میں اس فرقہ کے خیال کی بھی تردید ہوگئی، جو حضرت مریم کو تین خداؤں میں سے ایک خدا مانتے ہیں۔ اور اس جگہ حضرت مسیح اور مریم (علیہما السلام) کی موت کو بطور فرض کے ذکر فرمایا ہے۔ حالانکہ نزول قرآن کے وقت حضرت مریم کی موت محض فرضی نہیں تھی بلکہ واقع ہوچکی تھی۔ اس کی وجہ یا تو تغلیب ہے۔ یعنی اصل میں موت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بطور فرض کے بیان کرنا تھا، ماں کا ذکر بھی اسی عنوان کے ضمن میں کردیا گیا اگرچہ ان کی موت واقع ہوچکی تھی اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ مراد یہ ہے کہ جس طرح حضرت مریم پر ہم موت مسلط کرچکے ہیں۔ حضرت مسیح اور دوسری سب مخلوق پر بھی اسی طرح مسلط کردینا ہمارے قبضہ میں ہے۔ اور (آیت) یخلق ما یشآء میں عیسائیوں کے اسی عقیدہ باطلہ کے منشاء کو باطل کرنا ہے۔ کیونکہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کو خدا بنانے کا اصل منشاء ان کے یہاں یہ ہے کہ ان کی پیدائش ساری دنیا کے قاعدوں کے خلاف بغیر باپ کے صرف ماں سے ہوئی ہے۔ اگر وہ بھی انسان ہوتے تو قاعدہ کے مطابق ماں اور باپ دونوں کے ذریعہ پیدا ئش ہوتی۔ اس جملہ میں اس کا جواب دے دیا کہ اللہ تعالیٰ کو سب طرح قدرت کاملہ حاصل ہے کہ جو چاہے، جس طرح چاہے پیدا کر دے۔ جیسا کہ (آیت ): ان مثل عیسیٰ عند اللّٰہ کمثل آدم میں اسی شبہ کا ازالہ فرمایا ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی تخلیق عام قانون قدرت سے الگ ہونا ان کی خدائی کی دلیل نہیں ہوسکتی۔ دیکھو حضرت آدم (علیہ السلام) کو تو حق تعالیٰ نے ماں اور باپ دونوں کے بغیر پیدا فرما دیا تھا۔ ان کو سب قدرت ہے، وہی خالق ومالک اور لائق عبادت ہیں۔ دوسرا کوئی ان کا شریک نہیں ہوسکتا۔