Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 20

سورة المائدة

وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖ یٰقَوۡمِ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ جَعَلَ فِیۡکُمۡ اَنۡۢبِیَآءَ وَ جَعَلَکُمۡ مُّلُوۡکًا ٭ۖ وَّ اٰتٰىکُمۡ مَّا لَمۡ یُؤۡتِ اَحَدًا مِّنَ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۲۰﴾

And [mention, O Muhammad], when Moses said to his people, "O my people, remember the favor of Allah upon you when He appointed among you prophets and made you possessors and gave you that which He had not given anyone among the worlds.

اور یاد کرو موسیٰ ( علیہ السلام ) نے اپنی قوم سے کہا ، کہ اے میری قوم کے لوگو! اللہ تعالٰی کے اس احسان کا ذکر کرو کہ اس نے تم میں سے پیغمبر بناۓ اور تمہیں بادشاہ بنا دیا اور تمہیں وہ دیا جو تمام عالم میں کسی کو نہیں دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Musa Reminds His People of Allah's Favors on Them; The Jews Refuse to Enter the Holy Land Allah states that His servant, Messenger, to whom He spoke directly, Musa, the son of Imran, reminded his people that among the favors Allah granted them, is that He will give them all of the good of this life and the Hereafter, if they remain on the righteous and straight path. Allah said, ... وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنبِيَاء ... And (remember) when Musa said to his people: "O my people! Remember the favor of Allah to you, when He made Prophets among you, for whenever a Prophet died, another rose among them, from the time of their father Ibrahim and thereafter. There were many Prophets among the Children of Israel calling to Allah and warning against His torment, until `Isa was sent as the final Prophet from the Children of Israel. Allah then sent down the revelation to the Final Prophet and Messenger, Muhammad, the son of Abdullah, from the offspring of Ismail, the son of Ibrahim, peace be upon them. Muhammad is the most honorable Prophet of all times. Allah said next, ... وَجَعَلَكُم مُّلُوكًا ... made you kings, Abdur-Razzaq recorded that Ibn Abbas commented: "Having a servant, a wife and a house." In his Mustadrak, Al-Hakim recorded that Ibn Abbas said, "A wife and a servant, ... وَاتَاكُم مَّا لَمْ يُوْتِ أَحَدًا مِّن الْعَالَمِينَ and gave you what He had not given to any other among the nations (Alamin), means, during their time." Al-Hakim said, "Sahih according to the criteria of the Two Sahihs, but they did not collect it." Qatadah said, "They were the first people to take servants." A Hadith states, مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمْ مُعَافًى فِي جَسَدِهِ امِنًا فِي سِرْبِهِ عِنْدَهُ قُوتُ يَوْمِهِ فَكَأَنَّمَا حِيزَتْ لَهُ الدُّنْيَا بِحَذَافِيرِهَا He among you who wakes up while healthy in body, safe in his family and having the provision for that very day, is as if the world and all that was in it were collected for him. Allah's statement, وَاتَاكُم مَّا لَمْ يُوْتِ أَحَدًا مِّن الْعَالَمِينَ (and gave you what He had not given to any other among the nations (Al-`Alamin)). means, during your time, as we stated. The Children of Israel were the most honorable among the people of their time, compared to the Greek, Copts and the rest of mankind. Allah said in another Ayah, وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا بَنِى إِسْرَءِيلَ الْكِتَـبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ وَرَزَقْنَـهُمْ مِّنَ الطَّيِّبَـتِ وَفَضَّلْنَـهُمْ عَلَى الْعَـلَمينَ And indeed We gave the Children of Israel the Scripture, and the understanding of the Scripture and its laws, and the Prophethood; and provided them with good things, and preferred them above the nations (Al-`Alamin). (45:16) Allah said, لَّهُمْ قَالُواْ يَمُوسَى اجْعَلْ لَّنَأ إِلَـهًا كَمَا لَهُمْ ءَالِهَةٌ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ إِنَّ هَـوُلاءِ مُتَبَّرٌ مَّا هُمْ فِيهِ وَبَـطِلٌ مَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ قَالَ أَغَيْرَ اللَّهِ أَبْغِيكُمْ إِلَـهًا وَهُوَ فَضَّلَكُمْ عَلَى الْعَـلَمِينَ They said: "O Musa! Make for us a god as they have gods." He said: "Verily, you are an ignorant people." (Musa added:) "Verily, these people will be destroyed for that which they are engaged in (idol worship)." And all that they are doing is in vain. He said: "Shall I seek for you a god other than Allah, while He has given you superiority over the nations." (7:138-140) Therefore, they were the best among the people of their time. The Muslim Ummah is more respected and honored before Allah, and has a more perfect legislative code and system of life, it has the most honorable Prophet, the larger kingdom, more provisions, wealth and children, a larger domain and more lasting glory than the Children of Israel. Allah said, وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ Thus We have made you, a just (the best) nation, that you be witnesses over mankind. (2:143) We mentioned the Mutawatir Hadiths about the honor of this Ummah and its status and honor with Allah, when we explained Allah's statement in Surah Al-Imran, كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (You are the best of peoples ever raised up for mankind...). (3:110) Allah next says;   Show more

تسلسل انبیاء نسل انسانی پہ اللہ کی رحمت حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کو اللہ کی جو نعمتیں یاد دلا کر اس کی اطاعت کی طرف مائل کیا تھا ، اس کا بیان ہو رہا ہے کہ فرمایا لوگو اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ اس نے ایک کے بعد ایک نبی تم میں تمہیں میں سے بھیجا ۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے بعد سے انہی کی ن... سل میں نبوت رہی ۔ یہ سب انبیاء تمہیں دعوت توحید و اتباع دیتے رہے ۔ یہ سلسلہ حضرت عیسیٰ روح اللہ پر ختم ہوا ، پھر خاتم الانبیاء و الرسل حضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کاملہ عطا ہوئی ، آپ اسماعیل کے واسطہ سے حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے تھے ، جو اپنے سے پہلے کے تمام رسولوں اور نبیوں سے افضل تھے ۔ اللہ آپ پر درود و سلام نازل فرمائے اور تمہیں اس نے بادشاہ بنا دیا یعنی خادم دیئے ، بیویاں دیں ، گھر بار دیا اور اس وقت جتنے لوگ تھے ، ان سب سے زیادہ نعمتیں تمہیں عطا فرمائیں ۔ یہ لوگ اتنا پانے کے بعد بادشاہ کہلانے لگتے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے ایک شخص نے پوچھا کہ کیا میں فقراء مہاجرین میں سے نہیں ہوں؟ آپ نے فرمایا تیری بیوی ہے؟ اس نے کہا ہاں گھر بھی ہے؟ کہا ہاں ، کہا پھر تو تو غنی ہے ، اس نے کہا یوں تو میرا خادم بھی ہے ، آپ نے فرمایا پھر تو تو بادشاہوں میں سے ہے ۔ حسن بصری فرماتے ہیں سواری اور خادم ملک ہے ۔ بنو اسرائیل ایسے لوگوں کو ملوک کہا کرتے تھے ۔ بقول قتادہ خادموں کا اول رواج ان بنی اسرائیلیوں نے ہی دیا ہے ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ان لوگوں میں جس کے پاس خادم ، سواری اور بیوی ہو وہ بادشاہ کہا جاتا تھا ۔ ایک اور مرفوع حدیث میں ہے جس کا گھر ہو اور خادم ہو وہ بادشاہ ہے ۔ یہ حدیث مرسل اور غریب ہے ۔ ایک حدیث میں آیا ہے جو شخص اس حالت میں صبح کرے کہ اس کا جسم صحیح سالم ہو ، اس کا نفس امن و امان میں ہو ، دن بھر کفایت کرے ، اس کیلئے اتنا مال بھی ہو تو اس کیلئے گویا کل دنیا سمٹ کر آ گئی ۔ اس وقت جو یونانی قبطی وغیرہ تھے ان سے یہ اشرف و افضل مانے گئے تھے اور آیت میں ہے ہم نے بنو اسرائیل کو کتاب ، حکم ، نبوت ، پاکیزہ روزیاں اور سب پر فضیلت دی تھی ۔ حضرت موسیٰ سے جب انہوں نے مشرکوں کی دیکھا دیکھی اللہ بنانے کو کہا اس کے جواب میں حضرت موسیٰ نے اللہ کے فضل بیان کرتے ہوئے یہی فرمایا تھا کہ اس نے تمہیں تمام جہان پر فضیلت دے رکھی ہے ۔ مطلب سب جگہ یہی ہے کہ اس وقت کے تمام لوگوں پر کیونکہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ یہ امت ان سے افضل ہے ، کیا شرعی حیثیت سے ، کیا احامی حیثیت سے ، کیا نبوت کی حیثیت سے ، کیا بادشاہت ، عزت ، مملکت ، دولت ، حشمت مال ، اولاد وغیرہ کی حیثیت سے ، خود قرآن فرماتا ہے آیت ( كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ) 3 ۔ آل عمران:110 ) اور فرمایا آیت ( وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ) 2 ۔ البقرۃ:143 ) یہ بھی کہا گیا ہے کہ بنو اسرائیل کے ساتھ اس فضیلت میں امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی شامل کر کے خطاب کیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بعض امور میں انہیں فی الواقع علی الاطلاق فضیلت دی گئی تھی جیسے من و سلویٰ کا اترنا ، بادلوں سے سایہ مہیا کرنا وغیرہ جو خلاف عادت چیزیں تھیں ۔ یہ قول اکثر مفسرین کا ہے جیسا پہلے بیان ہو چکا ہے کہ مراد اس سے ان کے اپنے زمانے والوں پر انہیں فضیلت دیا جانا ہے واللہ اعلم ۔ پھر بیان ہوتا ہے کہ بیت المقدس دراصل ان کے دادا حضرت یعقوب کے زمانہ میں انہی کے قبضے میں تھا اور جب وہ مع اپنے اہل و عیال کے حضرت یوسف کے پاس مصر چلے گئے تو یہاں عمالقہ قوم اس پر قبضہ جما بیٹھی ، وہ بڑے مضبوط ہاتھ پیروں کی تھی ۔ اب حضرت موسیٰ اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ تم ان سے جہاد کرو اللہ تمہیں ان پر غالب کرے گا اور یہاں کا قبضہ پھر تمہیں مل جائے گا لیکن یہ نامردی دکھاتے ہیں اور بزدلی سے منہ پھیر لیتے ہیں ۔ ان کی سزا میں انہیں چالیس سال تک وادی تیہ میں حیران و سرگرداں خانہ بدوشی میں رہنا پڑتا ہے ، مقدسہ سے مراد پاک ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں یہ وادی طور اور اس کے پاس کی زمین کا ذکر ہے ایک روایت میں اریحاء کا ذکر ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں ، اس لئے کہ نہ تو اریحاء کا فتح کرنا مقصود تھا ، نہ وہ ان کے راستے میں تھا ، کیونکہ وہ فرعون کی ہلاکت کے بعد مصر کے شہروں سے آ رہے تھے اور بیت المقدس جا رہے تھے ، یہ ہو سکتا ہے کہ وہ مشہور شہر جو طور کی طرف بیت المقدس کے مشرقی رخ پر تھا اللہ نے اسے تمہارے لئے لکھ دیا ہے مطلب یہ ہے کہ تمہارے باپ اسرائیل سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ تیری اولاد کے باایمان لوگوں کے ورثے میں آئے گا ، تم اپنی پیٹھوں پر مرتد نہ ہو جاؤ ۔ یعنی جہاد سے منہ پھیر کر تھک کر نہ بیٹھ جاؤ ، ورنہ زبردست نقصان میں پڑ جاؤ گے ۔ جس کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ جس شہر میں جانے اور جن شہریوں سے جہاد کرنے کیلئے آپ فرما رہے ہیں ، ہمیں معلوم ہے کہ وہ بڑے قوی طاقتور اور جنگجو ہیں ، ہم ان سے مقابلہ نہیں کر سکتے ، جب تک وہ وہاں موجود ہیں ، ہم اس شہر میں نہیں جا سکتے ، ہاں اگر وہ لوگ وہاں سے نکل جائیں تو ہم چلے جائیں گے ، ورنہ آپ کے حکم کی تعمیل ہماری طاقت سے باہر ہے ، ابن عباس کا بیان ہے کہ حضرت موسیٰ جب اریحاء کے قریب پہنچ گئے تو آپ نے بارہ جاسوس مقرر کئے ، بنو اسرائیل کے ہر قبیلے میں سے ایک جاسوس لیا اور انہیں اریحاء میں بھیج کر صحیح خبریں لے آئیں ۔ یہ لوگ جب گئے تو ان کی جسامت اور قوت سے خوف زدہ ہو گئے ۔ ایک باغ میں یہ سب کے سب تھے ، اتفاقاً باغ والا پھل توڑنے کیلئے آ گیا ، وہ پھل توڑتا ہوا ان کے قدموں کے نشان ڈھونڈتا ہوا ان کے پاس پہنچ گیا اور انہیں بھی پھلوں کے ساتھ ہی ساتھ اپنی گٹھڑی میں باندھ لیا اور جاکر بادشاہ کے سامنے باغ کے پھل کی گٹھڑی کھول کر ڈال دی ، جس میں یہ سب کے سب تھے ، بادشاہ نے انہیں کہا اب تو تمہیں ہماری قوت کا اندازہ ہو گیا ہے ، تمہیں قتل نہیں کرتا جاؤ واپس جاؤ اور اپنے لوگوں سے ہماری قوت بیان کر دو ۔ چنانچہ انہوں نے جاکر سب حال بیان کیا جس سے بنو اسرائیل رعب میں آ گئے ۔ لیکن اس کی اسناد ٹھیک نہیں ۔ دوسری روایت میں ہے کہ ان بارہ لوگوں کو ایک شخص نے پکڑ لیا اور اپنی چادر میں گٹھڑی باندھ کر نہر میں لے گیا اور لوگوں کے سامنے انہیں ڈال دیا ، انہوں نے پوچھا تم کون لوگ ہو؟ جواب دیا کہ ہم موسیٰ کی قوم کے لوگ ہیں ، ہم تمہاری خبریں لینے کیلئے بھیجے گئے تھے ۔ انہوں نے ایک انگور ان کو دیا جو ایک شخص کو کافی تھا اور کہا جاؤ ان سے کہہ دو کہ یہ ہمارے میوے ہیں ۔ انہوں نے واپس جا کر قوم سے سب حال کہدیا ، اب حضرت موسیٰ نے انہیں جہاد کا اور اس شہر میں جانے کا حکم دیا تو انہوں نے صاف کہدیا کہ آپ اور آپ کا اللہ جائیں اور لڑیں ہم تو یہاں سے ہلنے کے بھی نہیں ۔ حضرت انس نے ایک بانس لے کر ناپا جو پچاس یا پچپن ہاتھ کا تھا ، پھر اسے گاڑ کر فرمایا ان عمالیق کے قد اس قدر لانبے تھے ۔ مفسرین نے یہاں پر اسرائیلی روایتیں بہت سی بیان کی ہیں کہ یہ لوگ اس قدر قوی تھے ، اتنے موٹے اور اتنے لمبے قد تھے ، انہی میں عوج بن عنق بن حضرت آدم تھا ، جس کا قد لمبائی میں ( 3333 ) تین ہزار تین سو تیتس گز کا تھا ، اور چوڑائی اس کے جسم کی تین گرز کی تھی لیکن یہ سب باتیں واہی ہیں ، ان کے تو ذکر سے بھی حیا مانع ہے ، پھر یہ صحیح حدیث کے خلاف بھی ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو ساٹھ ہاتھ پیدا کیا تھا ، پھر سے آج تک مخلوق کے قد گھٹتے ہی رہے ، ان اسرائیلی روایتوں میں یہ بھی ہے کہ عوج بن عنق کافر تھا اور ولد الزنا تھا یہ طوفان نوح میں تھے اور حضرت نوح کے ساتھ ان کی کشتی میں نہ بیٹھا تھا ، تاہم پانی اس کے گھٹنوں تک بھی نہ پہنچا تھا ۔ یہ محض لغو اور بالکل جھوٹ ہے بلکہ قرآن کے خلاف ہے ، قرآن کریم میں نوح کی دعا یہ مذکور ہے کہ زمین پر ایک کافر بھی نہ بچنا چاہئے ، یہ دعا قبول ہوئی اور یہی ہوا بھی ، قرآن فرماتا ہے ہم نے نوح کو اور ان کی کشتی والوں کو نجات دی ، پھر باقی کے سب کافروں کو غرق کر دیا ۔ خود قرآن میں ہے کہ آج کے دن بجز ان لوگوں کے جن پر رحمت حق ہے ، کوئی بھی بچنے کا نہیں تعجب سا تعجب ہے کہ نوح کا لڑکا بھی جو ایماندار نہ تھا بچ نہ سکے لیکن عوج بن عنق کافر ولد الزنا بچ رہے ۔ یہ بالکل عقل و نقل کے خلاف ہے بلکہ ہم تو سرے سے اس کے بھی قائل نہیں کہ عوج بن عنق نامی کوئی شخص تھا واللہ اعلم ۔ بنی اسرائیل جب اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتے بلکہ ان کے سامنے سخت کلامی اور بے ادبی کرتے تو وہ شخص جن پر اللہ کا انعام و اکرام تھا ، وہ انہیں سمجھاتے ہیں ۔ ان کے دلوں میں اللہ کا خوف تھا ، وہ ڈرتے تھے ، کہ بنی اسرائیل کی اس سرکشی سے کہیں عذاب الٰہی نہ آ جائے ، ایک قرأت میں ( یخافون ) کے بدلے ( یھابون ) ہے ، اس سے مراد یہ ہے کہ ان دونوں بزرگوں کی قوم میں عزت و عظمت تھی ۔ ایک کا نام حضرت یوشع بن نون تھا دوسرے کا نام کالب بن یوفا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ اگر تم اللہ پر بھروسہ رکھو گے ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں ان دشمنوں پر غالب کر دے گا اور وہ تمہاری مدد کو تائید کرے گا اور تم اس شہر میں غلبے کے ساتھ پہنچ جاؤ گے ، تم دروازے تک تو چلے چلو ، یقین مانو کہ غلبہ تمہارا ہی ہے ۔ لیکن ان نامرادوں نے اپنا پہلا جواب اور مضبوط کر دیا اور کہا کہ اس جبار قوم کی موجودگی میں ہمارا ایک قدم بڑھانا بھی ناممکن ہے ۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون نے دیکھ کر بہت سمجھایا یہاں تک کہ ان کے سامنے بڑی عاجزی کی لیکن وہ نہ جانے ۔ یہ حال دیکھ کر حضرت یوشع اور حضرت کالب نے اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور انہیں بہت کچھ ملامت کی ۔ لیکن یہ بدنصیب اور اکڑ گئے ، بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان دونوں بزرگوں کو انہوں نے پتھروں سے شہید کر دیا ، ایک طوفان بدتمیزی شروع ہو گیا اور بےطرح مخالفت رسول پر تل گئے ۔ ان کے اس حال کو سامنے رکھ کر پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے حال کو دیکھئے کہ جب نو سو یا ایک ہزار کافر اپنے قافلے کو بچانے کیلئے چلے ، قافلہ تو دوسرے راستے سے نکل گیا لیکن انہوں نے اپنی طاقت و قوت کے گھمنڈ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان پہنچائے بغیر واپس جانا اپنی امیدوں پر پانی پھیرنا ، سمجھ کر اسلام اور مسلمانوں کو کچل ڈالنے کے ارادے سے مدینہ کا رخ کیا ، ادھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ حالات معلوم ہوئے تو آپ نے اپنے صحابہ سے کہا کہ بتاؤ اب کیا کرنا چاہئے؟ اللہ ان سب سے خوش رہے ، انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں اپنے مال اپنی جانیں اور اپنے اہل عیال سب کو ہیچ سمجھا نہ کفار کے غلبے کو دیکھا ، نہ اسباب پر نظر ڈالی بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پہ قربان ہیں ۔ سب سے پہلے حضرت صدیق نے اس قسم کی گفتگو کی ، پھر مہاجرین صحابہ میں سے کئی ایک نے اسی قسم کی تقریر کی ۔ لیکن پھر بھی آپ نے فرمایا ؟ اور بھی کوئی شخص اپنا ارادہ ظاہر کرنا چاہے تو کرے ، آپ کا مقصد اس سے یہ تھا کہ انصار کا دلی ارادہ معلوم کریں ، اس لئے کہ یہ جگہ انہی کی تھی اور تعداد میں بھی یہ مہاجرین سے زیادہ تھے ۔ اس پر حضرت سعد بن معاذ انصاری و انصار کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے شاید آپ کا ارادہ ہماری منشاء معلوم کرنے کا ہے سنئے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! قسم ہے اس اللہ کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ سچا نبی بنا کر بھیجا ہے کہ اگر آپ ہمیں سمندر کے کنارے کھڑا کر کے فرمائیں کہ اس میں کود جاؤ تو بغیر کسی پس و پیش کے اس میں کود جائیں گے ۔ آپ دیکھ لیں گے کہ ہم میں سے ایک بھی نہ ہو گا جو کنارے پر کھڑا رہ جائے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ اپنے دشمنوں کے مقابلے میں ہمیں شوق سے لے چلئے ۔ آپ دیکھ لیں گے کہ ہم لڑائی میں صبر اور ثابت قدمی دکھانے والے لوگ ہیں ، آپ جان لیں گے کہ ہم اللہ کی ملاقات کو سچ جاننے والے لوگ ہیں ، آپ اللہ کا نام لیجئے ، کھڑے ہو جایئے ہمیں دیکھ کر ہماری بہادری اور استقلال کو دیکھ کر انشاء اللہ آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی یہ سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہو گئے اور آپ کو انصار کی یہ باتیں بہت ہی بھلی معلوم ہوئیں رضی اللہ عنہم ۔ ایک روایت میں ہے کہ بدر کی لڑائی کے موقعہ پر آپ نے مسلمانوں سے مشورہ لیا ، حضرت عمر نے کچھ کہا پھر انصاریوں نے کہا کہ اگر آپ ہماری سننا چاہتے ہیں ، تو سنئے ہم بنی اسرائیل کی طرح نہیں ، جو کہدیں کہ آپ اور آپ کا اللہ جا کر لڑیں ، ہم یہاں بیٹھے ہیں ، بلکہ ہمارا جواب یہ ہے کہ آپ اللہ کی مدد لے کر جہاد کیلئے چلئے ، ہم جان و مال سے آپ کے ساتھ ہیں ۔ حضرت مقداد انصاری نے بھی کھڑے ہو کر یہی فرمایا تھا ۔ حضرت ابن مسعود فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مقداد کے اس قول سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہو گئے ، انہوں نے کہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم لڑائی کے وقت دیکھ لیں گے کہ آپ کے آگے پیچھے دائیں بائیں ہم ہی ہم ہوں گے ۔ کاش کہ کوئی ایسا موقع مجھے میسر آتا کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر خوش کر سکتا ۔ ایک روایت میں حضرت مقداد کا یہ قول حدیبیہ کے دن مروی ہے جبکہ مشرکین نے آپ کو عمرہ کیلئے بیت اللہ شریف جاتے ہوئے راستے میں روکا اور قربانی کے جانور بھی ذبح کی جگہ نہ پہنچ سکے تو آپ نے فرمایا میں تو اپنی قربانی کے جانور کو لے کر بین اللہ پہنچ کر قربان کرنا چاہتا ہوں تو حضرت مقداد بن اسود نے فرمایا ہم اصحاب موسیٰ کی طرح نہیں کہ انہوں نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہدیا کہ آپ اور آپ کا اللہ جا کر لڑ لو ہم تو یہاں بیھٹے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ چلئے اللہ کی مدد آپ کے ساتھ ہو اور ہم سب کے سب آپ کے ساتھی ہیں ، یہ سن کر اصحاب نے بھی اسی طرح جاں نثاروں کے وعدے کرنے شروع کر دیئے ۔ پس اگر اس روایت میں حدیبیہ کا ذکر محفوظ ہو تو ہو سکتا ہے کہ بدر والے دن بھی آپ نے یہ فرمایا ہو اور حدیبیہ والے دن بھی یہی فرمایا ہو واللہ اعلم ۔ حضرت موسیٰ کو اپنی امت کا یہ جواب سن کر ان پر بہت غصہ آیا اور اللہ کے سامنے ان سے اپنی بیزاری کا اظہار کیا کہ رب العالمین مجھے تو اپنی جان پر اور اپنے بھائی پر اختیار ہے ، تو میرے اور میری قوم کے ان فاسقوں کے درمیان فیصلہ فرما ۔ جناب باری نے یہ دعا قبول فرمائی اور فرمایا کہ اب چالیس سال تک یہاں سے جا نہیں سکتے ۔ وادی تیہ میں حیران و سرگرداں گھومتے پھرتے رہیں گے ، کسی طرح اس کی حدود سے باہر نہیں جا سکتے تھے ۔ یہاں انہوں نے عجیب و غریب خلاف عادت امور دیکھے مثلاً ابر کا سایہ ان پر ہونا ، من و سلویٰ کا اترنا ۔ ایک ٹھوس پتھر سے ، جو ان کے ساتھ تھا ، پانی کا نکلنا ، حضرت موسیٰ نے اس پتھر پر ایک لکڑی ماری تو فوراً ہی اس سے بارہ چشمے پانی کے جاری ہو گئے اور ہر قبیلے کی طرف ایک چشمہ بہ نکلا ، اس کے سوا اور بھی بہت سے معجزے بنو اسرائیل نے وہاں پر دیکھے ، یہیں تورات اتری ، یہیں احکام الٰہی نازل ہوئے وغیرہ وغیرہ ، اسی میدان میں چالیس سال تک یہ گھومتے پھرتے رہے لیکن کوئی راہ وہاں سے گزر جانے کی انہیں نہ ملی ۔ ہاں ابر کا سایہ ان پر کر دیا گیا اور من و سلویٰ اتار دیا گیا ۔ فتون کی مطول حدیث میں ابن عباس سے یہ سب مروی ہے ۔ پھر حضرت ہارون کی وفات ہو گئی اور اس کے تین سال بعد کلیم اللہ حضرت موسیٰ بھی انتقال فرما گئے ، پھر آپ کے خلیفہ حضرت یوشع بن نون نبی بنائے گئے ۔ اسی اثناء میں بہت سے بنی اسرائیل مر مرا چکے تھے ، بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ صرف حضرت یوشع اور کالب ہی باقی رہے تھے ۔ بعض مفسرین سنتہ پر وقف تام کرتے ہیں اور اربعین سنتہ کو نصب کی حالت میں مانتے ہیں اور اس کا عامل ( یتبھون فی الارض ) کو بتلاتے ہیں ۔ اس سے بھی باقی بنو اسرائیل ان کے ساتھ ہو لئے اور آپ نے بیت المقدس کا محاصرہ کر لیا ۔ جمعہ کے دن عصر کے بعد جب کہ فتح کا وقت آ پہنچا دشمنوں کے قدم اکھڑ گئے ، اتنے میں سورج ڈوبنے لگا اور سورج ڈوبنے کے بعد ہفتے کی تعظیم کی وجہ سے لڑائی ہو نہیں سکتی تھی اس لئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے سورج تو بھی اللہ کا غلام ہے اور میں بھی اللہ کا محکوم ہوں ، اے اللہ اسے ذرا سی دیر روک دے ۔ چنانچہ اللہ کے حکم سے سورج رک گیا اور آپ نے دلجمعی کے ساتھ بیت المقدس کو فتح کر لیا ۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ بنی اسرائیل کو کہدو اس شہر کے دروازے میں سجدے کرتے ہوئے جائیں اور حطتہ کہیں یعنی یا اللہ ہماری گناہ معاف فرما ۔ لیکن انہوں نے اللہ کے حکم کو بدل دیا ۔ رانوں پر گھسٹتے ہوئے ہوئے اور زبان سی ( حبتہ فی شعرۃ ) کہتے ہوئے شہر میں گئے ، مزید تفصیل سورہ بقرہ کی تفسیر میں گزر چکی ہے ، دوسری روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ اس قدر مال غنیمت انہیں حاصل ہوا کہ اتنا مال کبھی انہوں نے نہیں دیکھا تھا ۔ فرمان رب کے مطابق اسے آگ میں جلانے کیلئے آگ کے پاس لے گئے لیکن آگ نے اسے جلایا نہیں اس پر ان کے نبی حضرت یوشع نے فرمایا تم میں سے کسی نے اس میں سے کچھ چرا لیا ہے پس میرے پاس ہر قبیلے کا سردار آئے اور میرے ہاتھ پر بیعت کرے چنانچہ یونہی کیا گیا ، ایک قبیلے کے سردار کا ہاتھ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے چپک گیا ، آپ نے فرمایا تیرے پاس جو بھی خیانت کی چیز ہے ، اسے لے آ ۔ اس نے ایک گائے کا سر سونے کا بنا ہوا پیش کیا ، جس کی آنکھیں یاقوت کی تھیں اور دانت موتیوں کے تھے ، جب وہ بھی دوسرے مال کے ساتھ ڈال دیا گیا ، اب آگ نے اس سب مال کو جلا دیا ۔ امام ابن جریر نے بھی اسی قول کو پسند کیا ہے ( اربعین سنتہ ) میں ( فانھا محرمتہ ) عامل ہے ، اور بنی اسرائیل کی یہ جماعت چالیس برس تک اسی میدان تیہ میں سرگرداں رہی پھر حضرت موسیٰ کے ساتھ یہ لوگ نکلے اور بیت المقدس کو فتح کیا اس کی دلیل اگلے علماء یہود کا اجماع ہے کہ عوج بن عنق کو حضرت کلیم اللہ نے ہی قتل کیا ہے ۔ اگر اس کا قتل عمالیق کی اس جنگ سے پہلے کا ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ بنی اسرائیل جنگ عمالیق کا انکار کر بیٹھتے؟ تو معلوم ہوا کہ یہ واقعہ تیہ سے چھوٹنے کے بعد کا ہے ، علماء یہود کا اس پر بھی اجماع ہے کہ بلعام بن باعورا نے قوم عمالیق کے جباروں کی اعانت کی اور اس نے حضرت موسیٰ پر بددعا کی ۔ یہ واقعہ بھی اس میدان کی قید سے چھوٹنے کے بعد کا ہے ۔ اس لئے کہ اس سے پہلے تو جباروں کو موسیٰ اور ان کی قوم سے کوئی ڈر نہ تھا ۔ ابن جریر کی یہی دلیل ہے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ کا عصا دس ہاتھ کا تھا اور آپ کا قد بھی دس ہاتھ کا تھا اور دس ہاتھ زمین سے اچھل کر آپ نے عوج بن عنق کو وہ عصا مارا تھا جو اس کے ٹخنے پر لگا اور وہ مر گیا ، اس کے جثے سے نیل کا پل بنایا گیا تھا ، جس پر سے سال بھر تک اہل نیل آتے جاتے رہے ۔ نوف بکالی کہتے ہیں کہ اس کا تخت تین گز کا تھا ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ تو اپنی قوم بنی اسرائیل پر غم و رنج نہ کر ، وہ اسی جیل خانے کے مستحق ہیں ، اس واقعہ میں درحقیقت یہودیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کا ذکر ہے اور ان کی مخالفتوں کا اور برائیوں کا بیان ہے یہ دشمنان رب سختی کے وقت اللہ کے دین پر قائم نہیں رہتے تھے ، رسولوں کی پیروی سے انکار کر جاتے تھے ، جہاد سے جی چراتے تھے ، اللہ کے اس کلیم و بزرگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی کا ، ان کے وعدے کا ، ان کے حکم کا کوئی پاس انہوں نے نہیں کیا ، دن رات معجزے دیکھتے تھے ، فرعون کی بربادی اپنی آنکھوں دیکھ لی تھی اور اسے کچھ زمانہ بھی نہ گزرا تھا ، اللہ کے بزرگ کلیم پیغمبر ساتھ ہیں ، وہ نصرت و فتح کے وعدے کر رہے ہیں ، مگر یہ ہیں کہ اپنی بزدلی میں مرے جا رہے ہیں اور نہ صرف انکار بلکہ ہولناکی کے ساتھ انکار کرتے ہیں ، نبی اللہ کی بے ادبی کرتے ہیں اور صاف جواب دیتے ہیں ۔ اپنی آنکھوں دیکھ چکے ہیں کہ فرعون جیسے با سامان بادشاہ کو اس کے سازو سامان اور لشکر و رعیت سمیت اس رب نے ڈبو دیا ۔ لیکن پھر بھی اسی بستی والوں کی طرف اللہ کے بھروسے پر اس کے حکم کی ماتحتی میں نہیں بڑھتے حالانکہ یہ فرعون کے دسویں حصہ میں بھی نہ تھے ۔ پس اللہ کا غضب ان پر نازل ہوتا ہے ، ان کی بزدلی دنیا پر ظاہر ہو جاتی ہے اور آئے دن ان کی رسوائی اور ذلت بڑھتی جاتی ہے ۔ گویہ لوگ اپنے تئیں اللہ کے محبوب جانتے تھے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی ۔ رب کی نظروں سے یہ گر گئے تھے ، دنیا میں ان پر طرح طرح کے عذاب آئے ، سور بندر بھی بنائے گئے ، لعنت ابدی میں یہاں گرفتار ہو کر عذاب اخروی کے دائمی شکار بنائے گئے ۔ پس تمام تعریف اس اللہ کیلئے ہے ، جس کی فرمانبرداری تمام بھلائیوں کی کنجی ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

20۔ 1 بیشتر انبیاء بنی اسرائیل میں سے ہی ہوئے ہیں جن کا سلسلہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ختم کردیا گیا اور آخری پیغمبر بنو اسماعیل سے ہوئے۔ اسی طرح متعدد بادشاہ بھی بنی اسرائیل میں ہوئے اور بعض نبیوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے ملوکیت (بادشاہت) سے نوازا، جیسے حضرت سلیمان علیہ السلام۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ...  نبوت کی طرح ملوکیت (بادشاہت) بھی اللہ کا انعام ہے، جسے علی الاطلاق برا سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے۔ اگر ملوکیت بری چیز ہوتی تو اللہ تعالیٰ کسی نبی کو بادشاہ بناتا نہ اس کا ذکر انعام کے طور پر فرماتا، جیسا کہ یہاں ہے آج کل مغربی جمہوریت کا کا بوس اس طرح ذہنوں پر مسلط ہے اور شاطران، مغرب نے اس کا افسوں اس طرح پھونکا ہے کہ مغربی افکار کے اسیر اہل سیاست ہی نہیں بلکہ اصحاب جبہ و دستار بھی ہیں۔ بہرحال ملوکیت یا شخصی حکومت، اگر بادشاہ اور حکمران عادل و متقی ہو تو جمہوریت سے ہزار درجے بہتر ہے۔ 20۔ 2 یہ اشارہ ہے ان انعامات اور معجزات کی طرف، جن سے بنی اسرائیل نوازے گئے، جیسے من وسلویٰ کا نزول، بادلوں کا سایہ، فرعون سے نجات کے لئے دریا سے راستہ بنادیا وغیرہ۔ اس لحاظ سے یہ قوم اپنے زمانے میں فضیلت اور اونچے مقام کی حامل تھی لیکن پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد کی رسالت و بعث کے بعد اب یہ مقام فضیلت امت محمدیہ کو حاصل ہوگیا ہے (كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ للنَّاسِ ) 003:110 تم بہترین امت ہو جسے نوع انسانی کے لئے بنایا گیا ہے لیکن یہ بھی مشروط ہے اس مقصد کی تکمیل کے ساتھ جو اسی آیت میں بیان کردیا گیا ہے کہ تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے، برائی سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو، اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو اس مقصد کے لئے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ وہ اپنے خیر امت ہونے کا اعزاز برقرار رکھ سکے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥١] بنی اسرائیل کے انبیاء جو بادشاہ بھی تھے :۔ بنی اسرائیل مصر میں نہایت ذلت سے غلامانہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسف (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا تو انہیں عظیم سلطنت بھی عطا فرمائی تھی۔ مصر اور اس کے گرد و نواح کے ممالک میں آپ ہی کی فرمانروائی تھی اس زمانہ میں بنی اسرائیل کو عز... ت سے زندگی بسر کرنا نصیب ہوئی اور دینی اور دنیوی قیادت سب کچھ ان کے ہاتھ میں تھا، لیکن بعد میں اپنی نافرمانیوں کی بنا پر وہ عزت ان سے چھین لی گئی تاآنکہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) جس وقت مبعوث ہوئے تو بنی اسرائیل مصر میں لاکھوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود فرعون کے تحت محکومانہ اور نہایت ذلت کی زندگی گزار رہے تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) آئے تو انہوں نے بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلائی۔ اس دور میں بنی اسرائیل کے یہ غلامانہ ذہنیت رکھنے والے لوگ حاکم قوم کی دیکھا دیکھی گؤ سالہ پرستی میں مبتلا ہوچکے تھے۔ خدائے واحد کی پرستش کا تصور ہی ان کے ذہنوں سے نکل چکا تھا اور غضب یہ کہ ان کے دلوں میں بچھڑے کی پرستش اور اس دین سے محبت یوں گھر کرچکی تھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ سے ہونا چاہیے تھی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تھی اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ قصور بھی معاف کردیا۔ پھر ان میں سیدنا داؤد اور سیدنا سلیمان مبعوث کیے جنہیں اللہ تعالیٰ نے بادشاہی بھی عطا کی تھی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ : اس آیت کا تعلق (وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ بَنِيْٓ اِ سْرَاۗءِيْلَ ۚ ) [ المائدۃ : ١٢ ] کے ساتھ ہے، یعنی ان سے عہد لیا اور موسیٰ (علیہ السلام) نے ان انعامات الٰہی کو یاد دلا کر ارض مقدس واپس لینے کے لیے جہاد کا حکم دیا۔ اس وقت وہاں عمالقہ (جبارین) کی حکومت تھ... ی، لیکن بنی اسرائیل نے عہد شکنی کی اور عمالقہ کے ساتھ جنگ کرنے سے انکار کردیا۔ (کبیر) يٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ ۔ : اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تین نعمتوں کا ذکر خصوصیت سے کیا ہے، ایک یہ کہ ان میں جلیل القدر انبیاء مبعوث فرمائے، جیسے اسحاق، یعقوب، یوسف اور موسیٰ (علیہ السلام) ۔ دوسری یہ کہ ان سب (بنی اسرائیل) کو بادشاہ بنادیا، یعنی ان کو فرعون سے آزادی دی اور اپنی حکومت عطا فرمائی۔ معلوم ہوا کہ آزاد اور حاکم قوم کا ہر فرد ہی بادشاہ اور محکوم قوم کا ہر فرد غلام ہوتا ہے۔ تیسری یہ کہ انھیں توحید کا علم بردار بنایا، جبکہ دوسری تمام قومیں شرک میں مبتلا تھیں۔ اس تیسری نعمت میں وہ معجزات بھی شامل ہیں جو بنی اسرائیل کی مدد کے لیے وجود میں آئے، مثلاً سمندر کا پھٹنا، بادل کا سایہ، پتھر سے چشمے کا پھوٹنا، من وسلویٰ وغیرہ۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Previous to the verses cited above, a pledge was mentioned in which the Bani Isra&il were bound to obey Allah and His Messenger. Mentioned along with it was their customary breach of trust, and its punishment. Taken up in the verses appearing above there is a partic¬ular event which shows such a breach. That event goes back to the time when Pharaoh and his army were drowned in the ... sea and Sayyidna Musa (علیہ السلام) and his people, the Bani Isra&il, once delivered from the slavery of the Pharaoh, became the masters of Egypt. Then, to bless them with His added reward, and to let them repossess their ancestral land of Syria, Allah Ta` ala commanded them through Sayyidna Musa (علیہ السلام) that they should enter the Holy Land, that is, Syria, with the intention of Jihad. And along-with it, they were given the good news that victory will be all theirs in this Jihad - as Allah had made that holy land their destiny and they were bound to have it. But, the Bani Isra&il had their peculiar traits of character. They saw the blessings of Allah with their own eyes, they saw the spectacle of the drowning of Pharaoh and the conquest of Egypt, yet they failed, once again, to stand by the solemn pledges they had given and elected to sit out the Jihad of Syria squarely against this Divine command. The punishment they received for it was in the form of a forty-year confinement to a limited area where, strangely enough, there were no walls or fences around them, nor were they in chains. Instead, they were free to move in an open area and actually travelled every day, right from the morning through the evening, with the intention of returning to Egypt, their homeland. But, when came the evening, they would find themselves exactly at the spot from where they had started in the morning. During this period, Sayyidna Musa (علیہ السلام) and Sayyidna Harun (علیہ السلام) left this mortal world and these people kept wandering in the wilderness of Tih. It was after that, that Allah Ta` ala sent other prophets for their guidance. Thus, after the passage of full forty years, those who survived from among them resolved to take up the Jihad of Syria and Baytul-Maqdis under the leadership of the prophet of their time and the promise of Allah that the Holy Land had been destined for them was thus ful-filled. This is a summary of the event referred to in the verses cited above. Let us now see its details in the words of the Qur&an. When Sayyidna Musa (علیہ السلام) received the instruction to call his people to Jihad in order to conquer Baytul-Maqdis and Syria, he acted very much in accordance with his prophetic wisdom so crucial in giv¬ing good counsel. Therefore, before announcing the Divine command to his people, he reminded them of the many blessings bestowed upon them upto that time. He said: اذْكُرُ‌وا نِعْمَةَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنبِيَاءَ وَجَعَلَكُم مُّلُوكًا وَآتَاكُم مَّا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِي O my people, remember the blessings of Allah upon you when He made prophets from among you, made you kings and gave you what He did not give to anyone in the worlds. Recounted here are three blessings. The first of these is a spiritual blessing, that is, many prophets were sent to them continuously, a spiritual honour which can hardly be matched. It has been reported in Tafsir Mazhari that no other community has had such a large number of prophets as compared to Bani Isra&il. Hadith authority, Ibn Abi Hatim, reports on the basis of a narra¬tion from A&mash that in only one single period, the last period of the people of Bani Isra&il which extends from Sayyidna Musa علیہ السلام to Sayyidna &Isa (علیہ السلام) one thousand prophets were sent to Ban& Isra&il. The second blessing mentioned in the verse quoted immediately above is a material blessing, that is, they were made masters and wielders of power. The hint given here is that the people of Bani& Isra&il who were the oppressed slaves of the Pharaoh and his people for many ages saw how Allah Ta` ala destroyed their enemies and how they themselves were made masters and kings. Noteworthy here is the statement about prophets where it was said: جَعَلَ فِيكُمْ أَنبِيَاءَ (He made prophets from among you) which carries the sense that the whole people were not prophets, and this is the truth as prophets are only a few while the large body of people follows them. But, when it comes to the subject of temporal power on countries and states, said there was: وَجَعَلَكُم مُّلُوكًا (and made you kings) the outward sense of which is that they (all) were made kings. The Arabic word, ` muluk& used in the text is the plural of Malik which means a king in common usage. Obviously, when a whole people cannot be all prophets, no people of a country can be all kings. What happens is that authority in a country rests in the hands of an individual or some individuals while the rest of the people are subordi¬nate to them. But, here the words of the Qur&an are attributing king-ship to all of them. One reason for this is what has been stated by Maulana Ashraf ` Ali Thanavi (رح) with reference to some righteous elders in his Tafsir Bayan al-Qur&an, that is, the sovereignty of the ` king& of a country is customarily attributed to his entire people, for example, during the middle centu¬ries of Islam, the government was called as that of Ummaiyyids and ` Abbasids. Similarly, the rule of Ghaznavis and Ghauris, then, that of Mughals, and after that, the rule of the British in India was attributed to all individuals of entire people of that country. Therefore, a whole people having a ruler are known (by proxy) to be rulers of that coun¬try. It was according to this usage that the Qur&an has attributed king-ship to the whole people of Bani Isra&il. In this, there may be a hint that an Islamic state is really run by a government of the people. It is the people who have the right to elect their Amir (Imam, leader or rul¬er) and it is once again, the right of the people who can, by their collec¬tive will, remove the holder of that office. Therefore, when seen out¬wardly, a ruler rules as one individual, but, in reality, that rule is that of the people. The second reason as reported from some elders by Ibn Kathir, Ma¬zhari and others is that the sense of ` malik& is more general than that of a king. In common usage, this word is also applied to a person who is well-to-do, has a home, owns property and employs help. In the light of this sense, that was a time when every individual from the Bani Isra&il was like a king of his castle. That explains the attribution of kingship to the entire Bani Isra&il. The third blessing mentioned in this verse is a combination of both, the spiritual and the material. It was said: وَآتَاكُم مَّا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِينَ that is, they were given the kind of blessings which were not given to any-one else in all the worlds. Included under these blessings is spiritual distinction highlighted by the station of prophethood and, along with it, the more obvious temporal power, authority, domain and wealth too. However, a question may arise here regarding the belief that the Muslim Ummah, the large body of believers in the Last among Proph¬ets (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is the most distinct among all Communities as supported by the textual authority of the Holy Qur&an, such as: كُنتُمْ خَيْرَ‌ أُمَّةٍ أُخْرِ‌جَتْ لِلنَّاسِ (You are the best Ummah raised for mankind - 3:110) and: جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا (And in the same way, We made you a moderate Ummah - 2:143) prove it, as do the many narrations from the Prophet&s living Traditions. The answer is that the people of the world being men¬tioned in this verse are the people who were living in the particular period of Bani Isra&il which was marked by the presence of Sayyidna Musa among them. That was the time when no one in all the worlds was as blessed as were the Bani Isra&il. That any other commu¬nity in times to come could be blessed more than them should not be considered contrary to this.  Show more

خلاصہ تفسیر۔ اور وہ وقت بھی ذکر کے قابل ہے جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم (یعنی بنی اسرائیل) سے (اول ترغیب جہاد کی تمہید میں یہ) فرمایا کہ اے میری قوم تم اللہ تعالیٰ کے انعام کو جو کہ تم پر ہوا ہے، یاد کرو جب کہ اللہ تعالیٰ نے تم میں بہت سے پیغمبر بنائے (جیسے حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور حضرت ... یوسف (علیہ السلام) اور خود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) وغیرہم اور کسی قوم میں پیغمبروں کا ہونا ان کا دنیوی اور دینی شرف ہے۔ یہ تو نعمت معنوی دی) اور ( حسیِّ نعمت یہ دی کہ) تم کو صاحب ملک بنایا (چنانچہ فرعون کے ملک پر ابھی قابض ہوچکے ہو) اور تم کو (بعض بعض) وہ چیزیں دی ہیں جو دنیا جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیں (جیسا دریا میں راستہ دینا دشمن کو عجیب طور پر غرق کرنا جس کے بعد دفعةً غایت ذلت و زحمت سے نہایت رفعت و راحت میں پہنچ گئے یعنی اس میں تم کو خاص امتیاز دیا پھر اس تمہید کے بعد اصلی مقصود کے ساتھ ان کو خطاب فرمایا کہ) اے قوم میری (ان نعمتوں اور احسانوں کا مقتضا یہ ہے کہ تم کو جو اس جہاد کے متعلق حکم خداوندی ہوا ہے اس پر آمادہ رہو اور) اس متبرک ملک (یعنی شام کے دار الحکومت) میں (جہاں یہ عمالقہ حکمران ہیں جہاد کے ارادہ سے) داخل ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے حصہ میں لکھ دیا ہے (اس لئے قصد کرتے ہی فتح ہوگی) اور پیچھے (وطن کی طرف) واپس مت چلو کہ پھر بالکل خسارہ میں پڑجاؤ گے (دنیا میں بھی کہ توسیع ملک سے محروم رہو گے اور آخرت میں کہ ترک فریضہ جہاد سے گنہگار رہو گے) ۔ کہنے لگے اے موسیٰ وہاں تو بڑے بڑے زبردست آدمی (رہتے) ہیں اور ہم تو وہاں پر ہرگز قدم نہ رکھیں گے۔ جب تک کہ وہ (کسی طرح) وہاں سے نہ نکل جائیں ہاں اگر وہ وہاں سے کہیں چلے جاویں تو ہم بیشک جانے کو تیار ہیں (موسیٰ (علیہ السلام) کی تائید قول کے لئے) ان دو شخصوں نے (بھی) جو کہ (اللہ سے) ڈرنے والوں (یعنی متقیوں) میں سے تھے (اور) جن پر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا تھا (کہ اپنے عہد پر ثابت رہے تھے ان کم ہمتوں کو سمجھانے کے طور پر) کہا کہ تم ان پر (چڑھائی کرکے اس شہر کے) دروازہ تک تو چلو سو جس وقت تم دروازہ میں قدم رکھو گے اس وقت غالب آجاؤ گے (مطلب یہ ہے کہ جلدی فتح ہوجاوے گا، خواہ رعب سے بھاگ جائیں یا تھوڑا ہی مقابلہ کرنا پڑے) اور اللہ تعالیٰ پر نظر رکھو اگر تم ایمان رکھتے ہو (یعنی تم ان کی تنومندی پر نظر مت کرو مگر ان لوگوں پر فہمائش کا اصلاً اثر نہیں ہوا بلکہ ان دو بزرگوں کو تو انہوں نے قابل خطاب بھی نہ سمجھا بلکہ موسیٰ (علیہ السلام) سے نہایت لا ابالی پن اور گستاخی کے ساتھ) کہنے لگے کہ اے موسیٰ ہم تو (ایک بات کہہ چکے ہیں کہ ہم) ہرگز کبھی بھی وہاں قدم نہ رکھیں گے جب تک کہ وہ لوگ وہاں موجود ہیں (اگر ایسا ہی لڑنا ضرور ہے) تو آپ اور آپ کے اللہ میاں چلے جائیے اور دونوں (جاکر) لڑ بھڑ لیجئے ہم تو یہاں سے سرکتے نہیں (موسیٰ (علیہ السلام) نہایت زِچ اور پریشان ہوئے اور تنگ آکر) دعا کرنے لگے کہ اے میرے پروردگار (میں کیا کروں ان پر کچھ بس نہیں چلنا) ہاں اپنی جان پر اور اپنے بھائی پر البتہ (پورا) اختیار رکھتا ہوں کہ آپ ہم دونوں (بھائیوں) کے اور اس بےحکم قوم کے درمیان (مناسب) فیصلہ فرما دیجئے (یعنی جس کی حالت کا جو مقتضا ہو وہ ہر ایک کے لئے تجویز فرما دیجئے) ارشاد ہوا (بہتر) تو (ہم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ) یہ ملک ان کے ہاتھ چالیس برس تک نہ لگے گا (اور گھر جانا بھی نصیب نہ ہوگا راستہ ہی نہ ملے گا) یوں ہی (چالیس برس تک) زمین میں سرمارتے پھریں گے (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو یہ فیصلہ سنا جس کا گمان نہ تھا خیال یہ تھا کہ کوئی معمولی تنبیہ ہوجاوے گی تو طبعاً مغموم ہونے لگے۔ ارشاد ہوا کہ اے موسیٰ جب ان سرکشوں کے لئے ہم نے یہ تجویز کیا تو یہی مناسب ہے) سو آپ اس بےحکم قوم (کی اس حالت زار) پر (ذرا) غم نہ کیجئے۔ معارف و مسائل آیات مذکورہ سے پہلی آیت میں اس میثاق کا ذکر تھا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کی اطاعت کے بارے میں بنی اسرائیل سے لیا گیا تھا۔ اور اس کے ساتھ ان کی عام عہد شکنی، اور میثاق کی خلاف ورزی اور اس پر سزاؤں کا بیان تھا۔ ان آیات مذکورہ میں ان کی عہد شکنی کا ایک خاص واقعہ مذکور ہے۔ وہ یہ ہے کہ جب فرعون اور اس کا لشکر غرق دریا ہوگئے اور موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم بنی اسرائیل فرعون کی غلامی سے نجات پاکر حکومت مصر کے مالک بن گئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنا مزید انعام اور ان کے آبائی وطن ملک شام کو بھی ان کے قبضہ میں واپس دلانے کے لئے بذریعہ موسیٰ (علیہ السلام) ان کو یہ حکم دیا کہ وہ جہاد کی نیت سے ارض مقدسہ یعنی ملک شام میں داخل ہوں۔ اور ساتھ ہی ان کو یہ خوشخبری بھی سنا دی کہ اس جہاد میں فتح ان کی ہی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے اس مقدس زمین کو ان کے حصہ میں لکھ دیا ہے وہ ضرور ان کو مل کر رہے گی۔ مگر بنی اسرائیل اپنی طبعی خصوصیات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے انعامات، غرق فرعون اور فتح مصر وغیرہ کا آنکھوں سے مشاہدہ کرلینے کے باوجود یہاں بھی عہد و میثاق پر پورے نہ اترے۔ اور جہاد شام کے اس حکم الہٰی کے خلاف ضد کرکے بیٹھ گئے۔ جس کی سزا ان کو قدرت کی طرف سے اس طرح ملی کہ چالیس سال تک ایک محدود علاقہ میں محصور و مقید ہو کر رہ گئے کہ بظاہر نہ ان کے گرد کوئی حصار تھا، نہ ان کے ہاتھ پاؤں کسی قید میں جکڑے ہوئے تھے۔ بلکہ کھلے میدان میں تھے۔ اور اپنے وطن مصر کی طرف واپس چلے جانے کے لئے ہر روز صبح سے شام تک سفر کرتے تھے۔ مگر شام کو پھر وہیں نظر آتے تھے جہاں سے صبح چلے تھے۔ اسی دوران حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہما السلام) کی وفات ہوگئی۔ اور یہ لوگ اسی طرح وادی تیہ میں حیران و پریشان پھرتے رہے۔ ان کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے دوسرے پیغمبر ان کی ہدایت کے لئے بھیجے۔ چالیس برس اس طرح پورے ہونے کے بعد پھر ان کی باقی ماندہ نسل نے اس وقت کے پیغمبر کی قیادت میں جہاد شام و بیت المقدس کا عزم کیا اور اللہ تعالیٰ کا وہ وعدہ پورا ہوا کہ یہ ارض مقدس تمہارے حصہ میں لکھ دی گئی ہے۔ اور یہ اجمال ہے اس واقعہ کا جو آیات مذکورہ میں بیان ہوا ہے۔ اب اس کی تفصیل قرآنی الفاظ میں دیکھئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جب یہ ہدایت ملی کہ اپنی قوم کو بیت المقدس اور ملک شام فتح کرنے کے لئے جہاد کا حکم دیں تو انہوں نے پیغمبرانہ حکمت و موعظت کے پیش نظر یہ حکم سنانے سے پہلے ان کو اللہ تعالیٰ کے وہ انعامات یاد دلائے جو بنی اسرائیل پر اب تک ہوچکے تھے۔ ارشاد فرمایا : (آیت) اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۢبِيَاۗءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا وہ فضل و انعام یاد کرو جو تم پر ہوا ہے کہ تمہاری قوم میں بہت سے انبیاء بھیجے اور تم کو صاحب ملک بنادیا اور تمہیں وہ نعمتیں بخشیں جو دنیا جہان میں کسی کو نہیں ملیں۔ اس میں تین نعمتوں کا بیان ہے جن میں سے پہلی نعمت ایک روحانی اور معنوی نعمت ہے کہ ان کی قوم میں مسلسل انبیاء بکثرت بھیجے گئے۔ جس سے بڑھ کر اخروی اور معنوی اعزاز کوئی نہیں ہوسکتا۔ تفسیر مظہری میں نقل کیا ہے کہ کسی قوم اور کسی امت میں انبیاء کی کثرت اتنی نہیں ہوئی کہ جتنی بنی اسرائیل میں ہوئی ہے۔ امام حدیث ابن ابی حاتم نے بروایت اعمش نقل کیا ہے کہ قوم بنی اسرائیل کے آخری دور میں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے لے کر عیسیٰ (علیہ السلام) تک ہے۔ صرف اس دور میں ایک ہزار انبیاء بنی اسرائیل میں بھیجے گئے۔ دوسری نعمت جس کا ذکر اس آیت میں ہے، وہ دینوی اور ظاہری نعمت ہے کہ ان کو ملوک یعنی صاحب ملک و سلطنت بنادیا گیا۔ اس میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ یہ بنی اسرائیل جو مدت سے فرعون اور قوم فرعون کے غلام بنے ہوئے دن رات ان کے مظالم کا شکار رہتے تھے، آج اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمن کو نیست و نابود کرکے ان کو ان کی حکومت و سلطنت کا مالک بنادیا۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ انبیاء کے معاملہ میں تو ارشاد ہوا کہ (آیت) جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۢبِيَاۗءَ یعنی تمہاری قوم میں سے بہت سے لوگوں کو انبیاء بنادیا گیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ پوری قوم انبیاء نہیں تھی۔ اور یہی حقیقت بھی ہے کہ انبیاء معدوددے چند ہوتے ہیں اور پوری قوم ان کی امت اور متبع ہوتی ہیں۔ اور جہاں دنیا کے ملک و سلطنت کا ذکر آیا تو وہاں فرمایا : وَجَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا۔ یعنی بنادیا تم کو ملوک جس کا ظاہری مفہوم یہی ہے کہ تم سب کو ملوک بنادیا۔ لفظ ملوک ملک کی جمع ہے۔ جس کے معنی عرف عام میں بادشاہ کے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ جس طرح پوری قوم نبی اور پیغمبر نہیں ہوتی، اسی طرح کسی ملک میں پوری قوم بادشاہ بھی نہیں ہوتی۔ بلکہ قوم کا ایک فرد یا چند افراد حکمران ہوتے ہیں۔ باقی قوم ان کے تابع ہوتی ہے۔ لیکن قرآنی الفاظ نے ان سب کو ملوک قرار دیا۔ اس کی ایک وجہ تو وہ ہے جو بیان القرآن میں بعض اکابر کے حوالہ سے بیان کی گئی ہے کہ عرف عام میں جس قوم کا بادشاہ ہوتا ہے اس کی سلطنت و حکومت کو اسی پوری قوم کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ جیسے اسلام کے قرون وسطی میں بنی امیہ اور بنی عباس کی حکومت کہلاتی تھی۔ اسی طرح ہندوستان میں غزنوی اور غوریوں کی حکومت پھر مغلوں کی حکومت پھر انگریزوں کی حکومت پوری قوم کے افراد کی طرف منسوب کی جاتی تھی۔ اس لئے جس قوم کا ایک حکمران ہو وہ پوری قوم حکمران اور بادشاہ کہلاتی ہے۔ اس محاورہ کے مطابق پوری قوم بنی اسرائیل کو قرآن کریم نے ملوک قرار دیا۔ اس میں اشارہ اس طرف بھی ہوسکتا ہے کہ اسلامی حکومت در حقیقت عوامی حکومت ہوتی ہے۔ عوام ہی کو اپنا امیر و امام منتخب کرنے کا حق ہوتا ہے اور عوام ہی اپنی اجتماعی رائے سے اس کو معزول بھی کرسکتے ہیں۔ اس لئے صورةً اگرچہ فرد واحد حکمران ہوتا ہے مگر درحقیقت وہ حکومت عوام ہی کی ہوتی ہے۔ دوسری وجہ وہ ہے جو ابن کثیر اور تفسیر مظہری وغیرہ میں بعض سلف سے نقل کی ہیں کہ لفظ ملک بادشاہ کے مفہوم سے زیادہ عام ہے۔ ایسے شخص کو ملک کہہ دیا جاتا ہے۔ جو آسودہ حال ہو، مکان، جائیداد، نوکر چاکر رکھتا ہو۔ اس مفہوم کے اعتبار سے اس وقت بنی اسرائیل سے ہر فرد ملک کا مصداق تھا۔ اس لئے ان سب کو ملوک فرمایا گیا۔ تیسری نعمت جس کا ذکر اس آیت میں ہے کہ وہ معنوی اور ظاہری دونوں قسم کی نعمتوں کا مجموعہ ہے کہ فرمایا : (آیت) وَّاٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ يُؤ ْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ یعنی تم کو وہ نعمتیں عطا فرمائیں جو دنیا جہان میں کسی کو نہیں دی گئیں ان نعمتوں میں معنوی، شرف اور نبوت و رسالت بھی داخل ہے، اور ظاہری حکومت و سلطنت اور مال و دولت بھی البتہ یہاں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ بنص قرآن امت محمدیہ ساری امتوں سے افضل ہے۔ ارشاد قرآنی : (آیت) کنتم خیر امة اخرجت للناس اور وکذلک جعلنکم امة وسطا۔ اس پر شاہد ہے اور حدیث نبوی کی بیشمار روایات اس کی تائید میں ہیں۔ جواب یہ کہ اس آیت میں دنیا کے ان لوگوں کا ذکر ہے جو بنی اسرائیل کے موسوی عہد میں موجود تھے۔ کہ اس وقت پورے عالم میں کسی کو وہ نعمتیں نہیں دی گئی تھیں جو بنی اسرائیل کو ملی تھیں۔ آئندہ زمانہ میں کسی امت کو ان سے بھی زیادہ نعمتیں مل جائیں یہ اس کے منافی نہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِہٖ يٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۢبِيَاۗءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا۝ ٠ۤۖ وَّاٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ يُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ۝ ٢٠ موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . قوم وال... قَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (وجعلکم ملوکا اور تمہیں ملوک یعنی فرمانروا بنایا) حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) زید بن اسلم اور حسن کا قول ہے کہ ملک اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کا اپنا گھر بیوی اور نوکر چاکر ہوں، دوسرے حضرات کا قول ہے کہ ملک اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کے پاس اتنی پونجی اور اتنا سامان ہو جس کی وجہ سے وہ کام کرنے...  کی تکلیف اٹھانے اور معاش کے لئے مشقتیں برداشت کرنے سے بچ جائے۔ حضرت ابن عباس (رض) اور مجاہد کا قول ہے کہ انہیں من و سلویٰ (بنی اسرائیل کو ان کی دشت گردی کے دوران ملنے والی خدائی خوراک) سر پر سایہ کرنے والے بادل اور بارہ چشمے بہانے والے چٹان کی بنا پر ملوک قرار دیا گیا۔ دوسرے حضرات نے کہا ہے کہ مال و دولت کی بنا پر انہیں ملوک کہا گیا۔ حسن کا قول ہے کہ انہیں ملوک کے نام سے اس لئے موسوم کیا گیا کہ جب انہوں نے اپنے آپ کو مصر کے قبطیوں سے چھڑا لیا جنہوں نے انہیں غلام بنا رکھا تھا تو اپنی ذات کے آپ مالک ہوگئے۔ سدی کا قول ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال نیز اپنے مال کا مالک تھا۔ قتادہ کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل پہلے لوگ تھے جنہوں نے نوکر چاکر رکھے تھے۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٠) اس وقت کو یاد کرو جب تم لوگ فرعون کے غلام تھے، اس اللہ نے فرعون سے نجات دے کر تمہیں صاحب ملک بنایا اور وادی تیہ میں تمہیں ” من وسلوی “ جیسی آسمانی نعمت دی، جو دنیا میں کسی اور نبی کی امت کو نہیں دی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا وہ واقعہ آ رہا ہے جب آپ ( علیہ السلام) مصر سے اپنی قوم کو لے کر نکلے ‘ صحرائے سینا میں رہے ‘ آپ ( علیہ السلام) کو کوہ طور پر بلایا گیا اور تورات دی گئی۔ اس کے بعد انھیں حکم ہوا کہ فلسطین میں داخل ہوجاؤ اور وہاں پر آباد مشرک اور کافر قوم (جو فلسطی کہلاتے تھے) کے ساتھ ج... نگ کرو اور انہیں وہاں سے نکالو ‘ کیونکہ یہ ارض مقدس تمہارے لیے اللہ کی طرف سے موعود ہے۔ اس لیے کہ ان کے جد امجدّ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا تعلق اسّ خطہ سے تھا۔ پھر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے زمانے میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی وساطت سے بنی اسرائیل مصر میں منتقل ہوئے تو انہیں حکم ہوا کہ اب جاؤ ‘ اپنے اصل گھر (ارضِ ‘ فلسطین) کو دوبارہ حاصل کرو۔ لیکن جب جنگ کا موقع آیا تو پوری قوم نے کو را جواب دے دیا کہ ہم جنگ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مزاج میں جو تلخی پیدا ہوئی اور طبیعت کے اندر بےزاری کی جو کیفیت پیدا ہوئی ‘ اس کی شدت یہاں نظر آتی ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ رسول اپنی امت کے حق میں سراپا شفقت ہوتا ہے ‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نبی کا معاملہ بھی اللہ تعالیٰ کی مانند ہے۔ جیسے اللہ رؤف بھی ہے ‘ وَدُود بھی ‘ لیکن ساتھ ہی وہ عزیزٌ ذُوانتقام بھی ہے (اللہ کی یہ دونوں شانیں ایک ساتھ ہیں) اسی طرح رسول کا معاملہ ہے کہ رسول شفیق اور رحیم ہونے کے ساتھ ساتھ غیور بھی ہوتا ہے۔ نبی کے دل میں دین کی غیرت اپنے پیروکاروں سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے۔ لہٰذا قوم کے منفی ردّ عمل پر نبی کی بےزاری لازمی ہے ۔ یہاں پر ایک بہت اہم نکتہ سمجھنے کا یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو پے درپے معجزات کے ظہور نے تساہل پسند بنادیا تھا۔ پیاس لگی تو چٹان پر موسیٰ (علیہ السلام) کی ایک ہی ضرب سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے ‘ بھوک محسوس ہوئی تو منّ وسلویٰ نازل ہوگیا ‘ دھوپ نے ستایا توابر کا سائبان ساتھ ساتھ چل پڑا ‘ سمندر راستے میں آیا تو عصا کی ضرب سے راستہ بن گیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس لاڈ پیار کی وجہ سے وہ بگڑ گئے ‘ آرام طلب ہوگئے ‘ مشکل کی ہر گھڑی میں انھیں معجزے کے ظہور کی عادت سی پڑگئی اور جنگ کے موقع پر دشمن کا سامنا کرنے سے انکار کردیا ‘ باوجودیکہ ان کے کم ‘ ازکم ایک لاکھ افراد تو ایسے تھے جو جنگ کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہی حکمت ہے کہ محمد رٌسول ‘ اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پوری زندگی میں اس قسم کا کوئی معجزہ نظر نہیں آتا ‘ بلکہ یہ نقشہ نظر آتا ہے کہ مسلمانو ! تمہیں جو کچھ کرنا ہے اپنی جان دے کر ‘ ایثار و قربانی سے ‘ محنت و مشقت سے ‘ بھوک جھیل کر ‘ فاقے برداشت کر کے کرنا ہے۔ چناچہ بنی اسرائیل کے برعکس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ‘ ساتھیوں میں ایثار و قربانی ‘ جرأت و بہادری اور بلندہمتی نظر آتی ہے ‘ جس کی واضح مثال غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت مقداد (رض) کا یہ قول ہے : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّا لَا نَقُوْلُ لَکَ کَمَا قَالَتْ بَنُوْ اِسْرَاءِیْلَ لِمُوْسٰی (فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ ) وَلٰکِنِ امْضِ وَنَحْنُ مَعَکَ ‘ فَکَاَنَّہٗ سُرِّیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (١) یارسول اللہ ! ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بنی اسرائیل کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ تم اور تمہارا رب جا کر قتال کرو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ بلکہ (ہم کہیں گے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قدم بڑھایئے ‘ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہیں ! اس پر گویا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پریشانی کا ازالہ ہوگیا۔ آیت ٠ ٢ (وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ ) (یٰقَوْمِ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ ) ( اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآءَ ) یعنی خود میں نبی ہوں ‘ میرے بھائی ہارون نبی ہیں۔ حضرت یوسف ‘ حضرت یعقوب ‘ حضرت اسحاق اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سب نبی تھے۔ (وَجَعَلَکُمْ مُّلُوْکًاق) اگرچہ اس وقت تک ان کی بادشاہت تو قائم نہیں ہوئی تھی مگر ہوسکتا ہے کہ یہ پیشین گوئی ہو کہ آئندہ تمہیں اللہ تعالیٰ زمین کی سلطنت اور خلافت عطا کرنے والا ہے۔ چناچہ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں بنی اسرائیل کی عظیم الشان سلطنت قائم ہوئی۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہاں حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے اقتدار کی طرف اشارہ ہے ‘ وہ اگرچہ مصر کے بادشاہ تو نہیں تھے لیکن بادشاہوں کے بھی مخدوم و ممدوح تھے اور بنی اسرائیل کو مصر میں پیرزادوں کا سا عزت و احترام حاصل ہوگیا تھا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

42. This refers to the glory the Israelites enjoyed before the time of Moses. There had appeared among them such great Prophets as Abraham, Isaac, Jacob and Joseph. Moreover, from the time of Joseph they were able to achieve very considerable power and authority in Egypt. For a considerable period they were the greatest rulers of the civilized world, reigning supreme in Egypt and the surrounding t... erritories. People are generally inclined to regard the time of Moses as the starting point for the rise of the Israelites. The Qur'an, however, states categorically that the truly glorious period of their history had passed long before Moses, and that Moses himself drew the attention of his people to that period as their time of glory.  Show more

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :42 یہ اشارہ ہے بنی اسرائیل کی اس عظمت گذشتہ کی طرف جو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بہت پہلے کسی زمانہ میں ان کو حاصل تھی ۔ ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت اسحاق علیہ السلام ، حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر ان کی قوم میں ... پیدا ہوئے ۔ اور دوسری طرف حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں اور ان کے بعد مصر میں ان کو بڑا اقتدار نصیب ہوا ۔ مدت دراز تک یہی اس زمانہ کی مہذب دنیا کے ساب سے بڑے فرماں روا تھے اور انہی کا سکہ مصر اور اس کے نواح میں رواں تھا ۔ عموماً لوگ بنی اسرائیل کے عروج کی تاریخ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے شروع کرتے ہیں ، لیکن قرآن اس مقام پر تصریح کرتا ہے کہ بنی اسرائیل کا اصل زمانہ عروج حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پہلے گزر چکا تھا جسے خود حضرت موسیٰ اپنی قوم کے سامنے اس کے شاندار ماضی کی حیثیت سے پیش کرتے تھے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(20 ۔ 26) ۔ اوپر گزرچکا ہے کہ مصر سے شام کے ملک کا سفر موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اسی غرض سے کیا تھا کہ قوم عمالقہ کو ملک شام کی بستیوں سے لڑکر نکال دیا جاوے اور بنی اسرائیل کو ان بستیوں میں آباد کردیا جاوے کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے سے یہی ملک انبیاء کے رہنے کی جگہ ہے۔ ... ان آیتوں میں اسی لڑائی کا ذکر ہے اسی لڑائی کے قصہ کے ذکر میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گویا یہ تسلی فرمائی گئی ہے کہ اے رسول اللہ نافع بن حرملہ وغیرہ نے تمہاری دل شکنی کی باتیں جو کی ہیں یہ بات کچھ نئی نہیں ہے ان لوگوں کے بڑے اللہ کے رسول موسیٰ (علیہ السلام) سے بڑی بڑی دل شکنی کی باتیں کرچکے ہیں۔ حضرت اسحاق ( علیہ السلام) کی اولاد میں ایک مدت تک نبوت اور بادشاہت رہی ہے۔ لڑائی کی رغبت دلانے کے لئے لڑائی کی خواہش سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے ذکر میں بادشاہت کا بھی ذکر کیا تھا کہ بنی اسرائیل سمجھ جائیں کہ یہی لڑائی بنی اسرائیل کی آئندہ کی بادشاہت کی گویا بنیاد ہے۔ اللہ سچا ہے اور اللہ کے رسول سچے ہیں۔ اس لڑائی کے بعد ملک شام میں بنی اسرائیل کی بادشاہت کی جو بنیاد قائم ہوئی اس کی نظیر کے لئے ایک حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی بادشاہت اور اس بادشاہت کی یادگار کے لئے ایک بیت المقدس کی عمارت کافی ہے۔” دیا تم کو جو نہیں دیا کسی کو جہان میں “ اس کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً فرعون جیسے دشمن کا ہلاک ہونا اور دریا میں راست کا پیدا ہوجانا غرض اپنے زمانے میں بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کی وہ وہ نعمتیں پائیں کہ اس زمانہ کی کسی دوسری قوم کو وہ نعمتیں نصیب نہیں ہوتی۔ جن دو شخصوں کا ذکر اس قصہ میں ہے ایک تو ان میں یوشع بن نون ( علیہ السلام) حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے بھانجے تھے اور دوسری کا سب بن یوحنا حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے داماد تھے۔ بارہ چودھری جو عمالقہ کی حالت دریافت کرنے کو بھیجے گئے تھے ان میں سے یہی دو شخص ایسے تھے جو خدا سے ڈر کر عہد پر قائم رہے عہد پر قائم رہنے کی توفیق جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان دونوں شخصوں کو عطاء ہوئی اسی کو اللہ کی نعمت فرمایا ان دونوں شخصوں نے بنی اسرائیل کو یہ مشورہ دیا کہ قوم عمالقہ کی بستی کا دروازہ گھیر لیا جاوے جس سے باہر کی رسد بند ہو کر وہ لوگ ہراساں ہوجاویں گے او پھر اپنے وعدہ کے موافق اللہ تعالیٰ ہم کو فتح دیوے گا۔ لیکن بنی اسرائیل نے ان کا مشورہ نہ مانا اور ان دونوں شخصوں کو پتھروں سے مارنے لگے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کی یہ سر کشی دیکھی تو اللہ تعالیٰ کے آخری حکم کے نازل ہونے کی التجا کی۔ آخری حکم یہ ہوا کہ چالیس برس تک بنی اسرائیل اس شام کے جنگل میں قید رہے نہ پلٹ کر مصر جاسکتے تھے نہ ملک شام کی کسی بستی میں قدم رکھ سکتے تھے جتنے لوگوں نے یہ سر کشی کی باتیں کی تھیں وہ اسی قید میں مرگئے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے قول کے موافق حضرت ہارون ( علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی وفات بھی اسی چالیس برس کے اندر ہوگئی۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے بعد یوشع ( علیہ السلام) بن نون موجودہ بنی اسرائیل کے نبی ہوئے اور ان ہی کے عہد میں شام کا ملک بنی اسرائیل کے ہاتھ آیا۔ چالیس برس کی قید کا حکم سن کر حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو بنی اسرائیل کی حالت پر کچھ افسوس ہوا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ارسول اللہ کے ایسی سر کش قوم کی حالت پر کچھ افسوس نہ کرنا چاہیے ان کی سزا یہی تھی جو انہوں نے بھگتی۔ ملک شام حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ سے انبیاء کے رہنے کی جگہ ہے اور اسی سرزمین میں طور پہاڑ ہے جہاں اللہ تعالیٰ کا جلوہ ہوا ہے۔ اسی سبب سے اس کو زمین پاک فرمایا۔ یہاں اکثر مفسروں نے عوج بن عنق کا ایک قصہ نقل کیا ہے کہ عمالقہ میں وہ بڑا شہ زور بلند قد تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو قتل کیا۔ لیکن اس قصہ کی روایت اطمینان کے قابل نہیں ہے ١ ؎۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 اس کا تعلق آیت : ولقد اخذ اللہ میثاق بنی اسرائیل کے ساتھ ہے یعنی ان سے عہد لیا اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے ان کو انعامات الہیٰ یاددلا کر جبارین (عمالقہ) سے جنگ کا حکم دیا لیکن اسرائیل نے عہد شکنی کی اور عمالقہ کے ساتھ جنگ کرنے سے انکار کردیا۔ (کبیر) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین نعمتوں کا خ... صوصیت سے ذکر کیا ہے یعنی ان سے جلیل القدر انبیا مبعوث کئے جیسے حضرت اسحاق ( علیہ السلام) ، حضرت یعقوب ( علیہ السلام) ، حضرت یوسف ( علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ (علیہم السلام) دوم یہ کہ ان کو آزادی اور حکومت دی اور توحید کا علمبر دار بنایا جبکہ دوسری تمام قومیں شرک میں مبتلا تھیں (کبیر، قر طبی)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 4 ۔ آیات نمبر 20 تا 26: اسرار و معارف : بنی اسرائیل کا بگاڑ : دنیا میں انسانیت پہ اور بنی آدم پہ اللہ نے کیا کیا انعامات کئے اور کتنے احسانات فرمائے اس کا اندازہ انسان کے بس سے باہر ہے اور انسانوں سے کس قدر لغزشیں کوتاہیاں بلکہ نافرمانیاں وقوع پذیر ہوئیں یہ شمار کرنا بھی ناممکن مگر ایک با... ت سامنے آجاتی ہے کہ پھر اللہ ہی کی رحمت اور اسی کی شفقت گرتے پڑتے انسانوں کو تھام لیتی ہے اور وہ کتنا حلیم کس قدر بردبار اور عظیم ہے اس قدر کہ اس کے برابر کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا رہے یہ بنی اسرائیل تو ان کی عمومی گمراہی کی بات تو ہوچکی ایک خاص واقعہ بھی سن لیجئے اور بڑی عجیب بات ہے کہ ایسے زمانے میں یہ واقعہ ظہور پذیر ہوا جو اپنی برکات کے اعتبار سے معجزات کے اعتبار سے بنی اسرائیل کا مثالی دور تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) جیسے اولوالعزم رسول ان میں بنفس نفیس تشریف رکھتے تھے برکات الہی کا کوئی حساب و شمار نہ تھا کہ اللہ کریم کی طرف سے ارشاد ہوا موسیٰ ! اپنی قوم سے کہو آگے بڑھ کر ارض مقدس پر قبضہ کرلے یہ قبضہ ہم نے تمہارے نصیب میں لکھ دیا ہے یعنی بنی اسرائیل کے حق میں فیصلہ کردیا ہے کہ اس پر ان کا قبضہ ہوگا ارض مقدس سے اس عہد کا ملک شام مراد لیا جاتا ہے جس میں بیت المقدس بھی شامل تھا اور یہ زمین انبیاء (علیہم السلام) کی بعثت کا تقریباً مرکز رہی ہے غالباً طوفانِ نوح (علیہ السلام) کے بعد اکثر آبادی بھی انہی علاقوں میں تھی یا اسی جگہ سے گردوپیش پھیلنا شروع ہوئی تھی لہذا یہاں کثرت سے نبی مبعوث ہوئے اس لیے نہ صرف بیت المقدس بلکہ پورے ملک کو ارض مقدس کہا جاتا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے بڑے حکیمانہ انداز میں بات قوم تک پہنچائی کہ دیکھو اللہ کریم نے تم پر بیشمار احسانات کئے ہیں اور بہت ہی انعامات سے نوازا ہے کہ تمہاری قوم میں مسلسل سلسلہ نبوت جاری فرما دیا تھا سب سے اعلی انعام روحانی کمال ہوتا ہے۔ مادی کمالات کی حیثیت اس کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر بھی نہیں بنتی اور کمالات روحانی کی انتہا نبوت ہے جس کے فیضان سے صحابیت اور جس کی تربیت سے ولایت خاصہ نسل در نسل اور سینہ بسینہ چلتی ہے اب تم لوگ یہ دیکھو کہ اللہ کریم نے اتنی بڑی نعمت تم میں کس قدر عام کردی کہ پے درپے انبیاء مبعوث فرمائے پھر کمالات روحانی کے ساتھ مادی دولت یا سیاسی غلبہ نصیب ہوجائے تو یہ نور علی نور ہے اور رب کریم کا بہت بڑا احسان ہے سو تمہیں بادشاہت بھی عطا کی حکومت و سلطنت بھی بخشی کبھی نبی کو ہی بادشاہ بنا دیا اور یہ کتنا حسین دور ہوگا جس میں حکومت اللہ کے نبی کی ہو یا پھر نبوت کے ساتھ انبیاء کے خدام کو حکومت عطا کردی اور من حیث القوم روحانی کمالات بھی اور مادی ترقی بھی۔ دونوں تمہارے حصے میں آئے اور تمہیں نصیب ہوئے۔ یہ ایسے کمالات تھے جو تمہارے زمانے میں روئے زمین پر تمہارے کسی ہم عصر کو نصیب نہ ہوئے یہ معمولی انعامات نہ تھے اور پھر اب دیکھ لو کہ تم قبطیوں کے تابع تھے کس قدر ذلیل و خوار ہوچکے تھے وہ تمہیں انسانی حقوق دینے پہ بھی تیار نہ تھے مگر اللہ نے پھر مجھے مبعوث فرمایا اور تم نے دیکھا کہ ساری شان و شوکت ساری ہیبت و عظمت کے باوجود فرعون کو ہر مقابلے میں ذلیل ہونا پڑا۔ اور جادوگر بھی اسے چھوڑ کر ایمان لے آئے پھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ غرق ہوا اس کے لشکر تباہ ہوئے اور اللہ نے تمہیں قابض کردیا حکومت عطاء کردی اپنی کتاب عطا فرمائی باوجودیکہ تم بچھڑے کی پوجا میں ملوث ہوگئے تھے پھر تمہیں معاف فرمایا اور توبہ قبول فرمائی اب جس ملک میں تمہیں انسان نہیں سمجھا جاتا تھا وہاں تمہاری حکومت ہے اس کے ساتھ اللہ کریم نے تم پر مزید انعام کیا ہے اب قاعدہ یہ ہے دنیا میں اسباب اختیار کرنا ضروری ہے پھر اس پر اجر دینا یا انعام عطا فرمانا یہ اللہ کا کام ہے مجاہدہ کسبی اور ثمرات وہبی ہوتے ہیں سو اللہ نے تمہیں ارض مقدس یا ملک شام بھی بخش دیا مگر تم اس طرف بڑھو سہی جہاد کا ثواب بھی پاؤ اور ملک کی سرحدیں بھی وسیع تر کرلو اور اس کے ساتھ ارض مقدس بھی تمہاری حکومت کے زیر انتظام آجائے اور دیکھو جہاد کو مشکل سمجھ کر پیچھے مت ہٹنا ورنہ نقصان اٹھاؤگے اگر وہ احسانات و انعامات عطاء کرسکتا ہے تو سزا بھی دے سکتا ہے لہذا اس کا حکم ماننے میں کوتاہی نہ کرنا اب ہوا یہ کہ قوم نکل چلی جب مصر اور شام کے درمیان پہنچے تو فیصلہ ہوا کہ کچھ لوگوں کو بھیجا جائے جو اندازہ کریں کہ اس شہر کے لوگ کیسے ہیں فوج کیسی اور کتنی ہے ؟ حفاظت کا اہتمام کیا ہے تو قرعہ فال سرداروں کے نام پڑا کہ جناب ! جو سرداری کرتے ہیں انہیں پہلے بھیجا جائے چناچہ وہ گئے۔ شہر کونسا تھا ؟ مفسرین نے تین چار شہروں کے نام لکھے ہیں مگر کوئی بھی ہو ملک شام کا مرکزی شہر تھا۔ اگر فتح ہوجاتا تو سارا ملک فتح ہوجاتا چناچہ وہ آگے آگے بڑھے جا رہے تھے کہ انہیں اس شہر کا ایک آدمی مل گیا یہ لوگ عمالقہ کہلاتے اور قوم عاد کے بچے کھچے لوگوں کی اولاد تھے جن کی قدو قامت اور ڈیل ڈول تو مشہور ہے انہوں نے دیکھا تو ہاتھ پاؤں پھول گئے اس نے پوچھ گچھ کی تو مزید گھبرا گئے وہ پکڑ کرلے گیا اور امیر کے روبرو پیش کردئیے وہاں انہوں نے جو دیکھا وہ اسی ڈیل ڈول کا ، بڑی شان و شوکت فوج اسلحہ اور بہت گھبرائے اہل دربار نے سوچا انہیں قتل کرنا مفید نہیں انہیں چھوڑ دیا جائے تو یہ اپنی قوم کو جا کر بد دل کردیں گے جو ہم پر حملہ آور ہوا چاہتی ہے کیونکہ انہوں نے سارا راز اگل دیا تھا چناچہ رہا کردئیے گئے اور گرتے پڑے موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچے اور سارا قصہ سنایا کہ جناب یہ لوہے کے چنے ہیں حضرت نے تسلی دی فرمایا یہ اللہ کا کام ہے اور اس کا وعدہ ہے کہ وہ یہ ملک تمہیں عطاء کرے گا تمہیں صرف آگے بڑھنا ہے لہذا تم یہ باتیں مت کرو ، نہ خود گھبراؤ اور نہ دوسروں کے لیے ایسی فضا پیدا کرو کہ وہ جہاد سے ڈر جائیں بلکہ یہ بات بھول جاؤ کسی سے تذکرہ ہی نہ کرنا لیکن وہ رہ سکے ، اور اس تاکید کے ساتھ کہ میں تمہیں بتاتا ہوں تم کسی کو مت بتانا اپنے قریبی لوگوں کو بتایا پھر کچھ ان کے قریبی تھے سوائے دو سرداروں کے باقی دس نے افشائے راز کردیا اور بات لوگوں میں پھیل گئی یہ قوم جو آج بڑھ بڑھ کر باتیں بنا رہی ہے۔ ان کے اجداد نے کہا اے موسیٰ ! وہاں تو کوئی بڑے تکڑے لوگ رہتے ہیں ہمہ ان سے نہیں لڑسکتے بھلا انسان انسان سے تو لڑے پہاڑوں سے کون سر مارے۔ ان میں سے ایک آدمی نے ہمارے بارہ سردار پکڑ لیے بھلا ہم ان کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں ؟ ہاں اگر وہ شہر خالی کردیں اور اللہ ان پر کوئی ایسی مصیبت ڈالے کہ انہیں وہاں سے بھاگنا پڑے تو جب وہ لوگ چلے گئے ہم شہر میں داخل ہوجائیں گے۔ ان دوسرداروں نے جنہوں نے راز بھی افشا نہیں کیا تھا بہت کوشش کی ، بڑا سمجھایا اور اس لیے وہ اس قابل ہوئے یعنی تھے تو اسی قوم کے فرد مگر نہ صرف خود قائم رہے بلکہ دوسروں کو سمجھانے اور تبلیغ کرنے کی سعادت نصیب ہوئی اس لیے کہ ان میں اللہ کا خوف تھا ان کے کاموں میں للہیت ہوتی تھی دکھاوے کو نہیں کرتے تھے سو ان پر اللہ کا انعام تھا کہ انبیاء کے انوارات کو ان کے مزاج اور ان کے قلوب قبول کرتے تھے اگر خوف خدا نہ ہوتا دکھاوا ہوتا تو دوسروں کے ساتھ ہی ان کا شمار بھی ہوتا تو انہوں نے بات سمجھانے کی بڑی کوشش کی کہ بھئی وہ لوگ تم سے خوفزدہ تھے۔ اگر جرات ہوتی تو ہمیں کو قتل کردیتے مگر انہوں نے اس منصوبہ بندی پہ ہمیں چھوڑا ہے کہ ان کے قد کاٹھ کے قصے سن کر تم لوگ ڈر جاؤ اور حملہ کرنے سے باز رہو ورنہ اندر سے وہ کھوکھلے ہیں اور بہت ڈرے ہوئے اگر تم شہر کے ایک دروازے پہ ہلہ بول دو تو وہ دوسرے سے بھاگ جائیں گے اور تمہیں فتح نصیب ہوگی اور ویسے بھی ایمان کا تو تقاضا ہی یہی ہے کہ اللہ پر بھروسہ کیا جائے اور اسی پہ امید رکھی جائے۔ جب اللہ کریم اپنے رسول کی وساطت سے فتح کا وعدہ فرما رہے ہیں جس کی زبان حق ترجمان پر سینکڑوں وعدے پورے ہوچکے ہیں تو پھر پیچھے ہٹنے کے لیے تو کوئی جواز نہیں رہ جاتا ۔ مگر وہ نہ مانے اور سیدھا سیدھا کردیا کہ اے موسیٰ ! ان کے ہوتے ہوئے ہم اس شہر میں داخل نہ ہوگے۔ ہاں ! آپ لڑئیے اور آپ کا خدا بھی تو آپ کے ساتھ ہے خدا خود ان سے لڑے ہم یہاں بیٹھے ہیں یہ کریں گے کہ چلو ! یہاں سے پیچھے نہیں بھاگتے مگر آجے جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آپ جانیں اور آپ کا رب۔ اس قوم کو دیکھو ! کہنے لگے موسیٰ یہ آپ کا رب بھی عجیب ہے ، ذلیل تھے ، خوار تھے ، زندہ تو تھے ، وہاں سے نکلوایا۔ فرعون سے بچایا۔ ورنہ غرق دریا ہی کردیتا اب یہاں لاکر مروانے کا کیا فائدہ بھئی ! ہمیں تو سوائے موت کے کچھ نظر نہیں آتا موت سے زندگی بہرحال اچھی تھی۔ خواہ تکلیف دہ سہمی اب خود لڑئیے یا اپنے رب کو بلا لیجئے ہم یہاں نتائج کا انتظار کریں گے یہ ایک میدان میں فروکش تھے جو مصر اور شام کے درمیان تھا موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کی بار الہ ! اپنی جان پر اور بھائی پر تو بس چلتا ہے لیکن ان بدکاروں پہ میرا اختیار نہیں چلتا۔ اب تو ہی مناسب اور بہتر فیصلہ صادر فرما۔ خواہ ہمیں ان سے جدا ہونا پڑے اکیلے لڑنے کا حکم دیدے ہم حاضر ہیں۔ تو جواباً ارشاد ہوا کہ ان کا اپنا فیصلہ ہے ہم اسی جگہ بیٹھیں گے سو اب انہیں بطور سزا چالیس برس اسی جگہ گذارنے ہوں گے اب چاہیں بھی تو چالیس برس سے پہلے نہ آگے جاسکتے ہیں نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔ ہاں یہی وادی ہے جس میں آوارہ گردی ان کا مقدر ہے چناچہ کوئی تیس فرسخ یا تقریباً نوے میل لمبی اور نو فرسخ یعنی ستائیس میل چوری وادی میں پھنس کر رہ گئے اور چالیس برس تک کوشش کرتے رہے ہر طرف چلتے اور سفر کرتے رہے مگر وادی سے نکلنا نصیب نہ ہوا اگرچہ پہلے بھی کئی بار ان سے گستاخی اور اللہ کی طرف سے معافی ہوتی رہی کہ موسیٰ (علیہ السلام) دعا کرتے تو انہیں پھر معاف کردیا جاتا مگر ہر بار کسی نہ کسی سزا سے گذرنا پڑا ، گو سالہ پرستی پہ قتل ہونا پڑا اور یہاں جہاد سے انکا پر چالیس برس کے لیے نظر بند کردئیے گئے نہ پولیس نہ ہتھکڑی نہ جیل نہ دیوار بس اللہ کی مرضی کہ ہمیشہ چل پھر کر انہی جگہوں پہ پہنچ جاتے جہاں سے چلے ہوتے اور یہ حال پورے چالیس برس رہا غرضیکہ ایک نسل تقریباً گذر گئی خود ہارون (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات ہوگئی۔ عرصہ پورا ہوا تو یوشع بن نون نبی مبعوث ہوئے اور پھر ان کی سرکردگی میں اس شہر پر حملہ ہوا اور فتح ہوا۔ ملک شام میں بھی ان کی ملکیت یا حکومت میں شامل کردیا گیا ۔ یہاں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی کا اتباع نہ کرنے پر اگر نبی معاف بھی کردے تو بھی دنیاوی نقصان ضرور ہوتا ہے یہی حال طالب اور شیخ کے رشتے کا ہے اگر معاف بھی کردیا جائے تو مقامات روحانی سلامت رہ جائیں گے مصائب دنیوی سے بچنا ممکن نہیں ہوتا مگر اس سب کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) اللہ کے دو نبیوں کا ساتھ اور نیک اور مخلص بندوں کا ساتھ بھی تھا جنہوں نے انہیں چھوڑا نہیں ان کے ساتھ اس وادی میں رہے تو اس کے طفیل انہیں توبہ نصیب ہوئی حکومت نہ صرف بچ گئی بلکہ سدھر گئی نیز دنیا میں بیشمار برکات نصیب ہوئیں کہ دھوپ کی شکایت ہوئی تو بادل کا سایہ کردیا گیا جدھر چلتے ادھر چلتا رہتا پانی کی تنگی ہوئی تو ایک پتھر میں سے بارہ چشمے جاری ہوجاتے جو متناسب سا پتھر تھا جب روانہ ہوتے تو اٹھا کر ساتھ لے چلتے جب پانی کی ضرورت ہوتی تو عصا مارتے اور پانی جاری ہوجاتا ایسے ہی آسمانوں سے من وسلوی کا نازل کیا جانا روشنی کے لیے اسی عصاء کو حضرت میدان میں گاڑ دیتے تو وہ نور کا منارہ بن جاتا اور سارے میدان کو روشن کردیتا سو شروع میں تو جب ان پر سزا مسلط کی گئی تو موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی بہت دکھ لگا کہ شاید انہیں اتنی بڑی سزا کا گمان نہ ہوگا مگر سزا اعمال کی جنس ہی سے ہوتی ہے جب وہ اللہ کا ، اللہ کے نبی کا حکم چھوڑ کر بیٹھ رہے تو اللہ نے فرمایا چھا پھر بیٹھو اور اب تسلی سے بیٹھو حتی کہ یہ نسل تو اسی بیٹھک میں گذر جائے گی ، مگر پھر موسیٰ (علیہ السلام) کو تسلی دی کہ بدکاروں پہ دکھ نہیں کرنا چاہئے مگر ساتھ ساتھ ان کی وجہ سے ان پر پھر سے نعمتیں اور نوازشیں بھی جاری رکھیں کہ نیکوں کی صحبت کبھی ضائع نہیں جاتی۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 20 تا 26 لغات القرآن : ملوک (ملک) ۔ بارشاہ۔ حکمراں۔ اتکم (اس نے تمہیں دیا) ۔ لم یؤت (نہیں دیا) ۔ احد (کسی ایک کو) الارض المقدسۃ (پاک زمین۔ (سر زمین شام فلسطین) ۔ لاترتدوا (ارتداد۔ رد) تم نہ پلٹو) ۔ ادبار (دبر) ۔ پیٹھ۔ تنقلبوا (تم پلٹ جاؤ گے۔ تم ہوجاؤ گے) ۔ جبارین (جبار) ۔ زبردست۔ طاقت ور) ۔...  لن ندخل (ہم ہرگز داخل نہ ہوں گے) ۔ حتی یخرجوا (جب تک وہ نہ نکلیں) ۔ رجلان (رجل) ۔ دو مرد۔ دو آدمی) ۔ یخافون (وہ خوف رکھتے ہیں) ۔ انعم اللہ (اللہ نے انعام کیا تھا) ۔ الباب (دروازہ) ۔ دخلتموہ (تم داخل ہوگے اس میں) ۔ غلبون (غلبہ پانے والے۔ غالب آنے والے) ۔ ابدا (ہمیشہ۔ کبھی بھی) ۔ داموا (وہ ہیں) ۔ اذھب (تو چلا جا) ۔ قاتلا (تم دونوں لڑلو) ۔ ھھنا (اسی جگہ) ۔ لا املک (میں مالک نہیں ہوں) ۔ نفسی (میری جان) ۔ اخی (میرا بھائی) ۔ افرق (جدائی کر دے) ۔ بیننا (ہمارے درمیان) ۔ قوم الفاسقین (نافرمان قوم) ۔ محرمۃ (حرام کردی گئی) ۔ اربعین (چالیس) ۔ سنۃ سال) ۔ یتیھون (وہ بھٹکے رہیں گے۔ گھومتے رہیں گے) ۔ لاتاس (تو افسوس نہ کر) ۔ تشریح : ابھی ابھی کہا گیا ہے کہ ہمارا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان رازوں پر سے پردہ اٹھاتا ہے جن کو بنی اسرائیل عرصہ دراز سے چھپائے ہوئے تھے۔ وہ پردہ اس مقصد سے نہیں اٹھا رہے ہیں کہ بنی اسرائیل کو ذلیل کرنا مقصود ہے کیونکہ کہ وہ بہت سے رازوں سے چشم پوشی بھی کر رہے ہیں۔ پردہ اٹھانے کا ایک ہی مقصد ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو وضاحت سے بیان کیا جائے۔ اسلام کی تعلیمات میں جہاد سب سے اہم ہے۔ یہاں جہاد کا وہ واقعہ پیش کیا جاتا ہے جو حضرت موسیٰ کے زمانے میں بنی اسرائیل کو پیش آیا۔ جس سے وہ کترا گئے تھے۔ چناچہ اللہ کا غضب آگیا۔ اس واقعہ کو پیش کرنے سے نہ صرف بنی اسرائیل کی پست ہمتی ، بزدلی اور جہاد چوری پر سے پردہ اٹھایا جا رہا ہے بلکہ مسلمانوں کو بھی عبرت اور نصیحت کے لئے فریضہ جہاد سے بھاگنے کا انجام بتایا جا رہا ہے۔ یہ تبلیغ دین کا ایک انداز ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جہاد کا حکم دینے سے پہلے بنی اسرائیل کو یہ سمجھا دیا تھا کہ اے قوم اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان نعمتوں کو یاد کرو۔ وہ نعمتیں جو کسی اور قوم کو اب تک نہیں ملی ہیں۔ یاد کرو فرعون نے تم سے کیا ذلیل سلوک کر رکھا تھا۔ پھر اللہ نے فرعون اور اس کے تمام لشکر کو تمہارے سامنے ڈبو کر تمہیں سلطنت مصر بخشی۔ تمہارے اندر اتنے پیغمبر بھیجے کہ کسی اور قوم میں نہیں بھیجے تھے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) ، حضرت داؤد (علیہ السلام) ، حضرت سلیمان (علیہ السلام) جیسے جلیل القدر حکمراں تمہارے اندر آئے۔ من وسلویٰ کی نعمتیں تمہیں ملیں۔ تمہارے ہی لیے پتھر سے پانی نکالا گیا۔ اور بادل کا سایہ کرکے دھوپ سے نجات عطا کی گئی وغیرہ وغیرہ۔ اے میری قوم ! اللہ تمہیں ایک اور نعمت سے نواز نے کا وعدہ کرچکا ہے۔ وہ یہ کہ ملک شا، فلسطین بھی تمہارے ہی قبضہ میں آجائے گا۔ شرط یہ ہے کہ تم جہاد کیلئے آگے بڑھو اور بنی عمالقہ سے بھڑ جاؤ جو وہاں قابض ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی عمالقہ کے جنگی حالات دریافت کرنے کے لئے بارہ جاسوس اس ہدایت کے ساتھ پیشگی روانہ کر دئیے تھے کہ جو بھی وہاں دیکھوآکر مجھے ہی بتانا۔ کسی اور کو نہیں۔ جب وہ چالیس دن بعد واپس آئے تو ان میں سے دس نے تمام قوم والوں کو بتا دیا کہ بنی عمالقہ بڑے شہ زور اور لمبے چوڑے خطرناک لوگ ہیں اور ان کے ایک ہی فرد عوج بن عبق نے ہم سب کو گرفتار کرلیا تھا۔ یہ سن کر بنی اسرائیل ڈر گئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ہزار ترغیب اور تحریص کے باوجود انہوں نے بنی عمالقہ کے خلاف جہاد کرنے سے انکار کردیا بلکہ حد سے بڑھ کر یہاں تک کہہ دیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) ! تم اور تمہارا رب جا کر جنگ کرلو ہم یہیں بیٹھے ہیں۔ فتح کے بعد ہمیں بلالینا۔ اس ذلیل اور پست جواب کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو غصہ آجانا چاہئے تھا لیکن پیغمبر ہونے کی حیثیت سے انہیں اپنے جذبات پر پورا قابو تھا۔ بس اتنا ہی کہا کہ اے اللہ میرا زور تو صرف مجھ پر اور میرے بھائی پر چلتا ہے (بھائی سے حقیقی بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) بھی مراد ہیں اور دینی بھائی حضرت یوشع بن نون اور حضرت کالب بن یوقنا یعنی وہ سردار جنہوں نے بنی عمالقہ کی بات میں آکر صرف حضرت موسیٰ کو بتائی تھی اور جنہوں نے قوم کو یہ کہہ کر جہاد پر اکسایا تھا کہ تم قلعہ کے دروازے تک تو چلو۔ فتح تمہاری ہوگی یہ (اللہ کا وعدہ ہے) حضرت موسیٰ نے یہ بھی کہا کہ اے اللہ ہم میں اور بقیہ قوم میں جدائی ڈال دے۔ فاسق نافرمان لوگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اب سزا کے طور پر یہ قوم چالیس سال تک سر زمین شام و فلسطین فتح نہ کرسکے گی۔ بلکہ وادی تیہ میں حیران و سرگرداں ماری ماری پھرے گی۔ ان کی سزا یہی ہے۔ اے موسیٰ ! ان کی بدنصیبی پر ترس مت کھانا۔ چناچہ ایسا ہی ہوا۔ یہ لوگ صبح صبح مصر پہنچنے کے لئے روانہ ہوئے۔ لیکن راستہ بھول کر شام کو پھرو ہیں پہنچ جاتے تھے۔ جہاں سے صبح کو روانہ ہوئے تھے۔ تمام دوپہر بھوک پیاس اور گرمی میں تڑپتے۔ اس طرح پورے چالیس سال گرز گئے۔ اس عرص میں تقریباً وہ سب بنی اسرائیل والے مرکھپ گئے تھے جو مصر سے حضرت موسیٰ کے ساتھ آئے تھے۔ البتہ ان کی نئی نسل نوجوان ہو رہی تھی۔ جن پر دین کی محنت کی جا رہی تھی اسی دوران میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کا بھی انتقال ہوگیا۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کے بعد پیغمبری حضرت یوشع بن نون کو ملی۔ ان کے دور میں بنی اسرائیل کی جوان نسل نے حضرت یوشع (علیہ السلام) کی سرکردگی میں سرزمین شام و فلسطین فتح کیا اور بنی اسرائیل کی حکومت قائم کی۔ اور اس طرح اللہ کا وعدہ پورا ہوا  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اب پھر یہودیوں کو خطاب ہوتا ہے۔ اپنی قوم کا مزاج دیکھتے ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ارض مقدّس میں داخل ہونے کا حکم دینے سے پہلے انھیں اللہ تعالیٰ کے انعامات اور ماضی کی عزت رفتہ اور اقتدار یاد دلا کر حکم دیا کہ میری قوم ارض مقدس کی طرف پیش قدمی کرو۔ اس کے ساتھ ہی خوشخبری...  سنائی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے فتح کو یقینی بنا دیا ہے یہاں دوسرے انعامات کے ساتھ بالخصوص دو انعام کا نام لے کر یہ احساس دلایا کہ یہ مقدس زمین انبیاء کی سرزمین ہے اور یہاں تمہارے آباؤ اجداد نے سینکڑوں سال تک حکومت کی ہے اور تمہیں وہ کچھ عنایت فرمایا تھا جو دنیا میں تم سے پہلے کسی کو نہیں دیا گیا۔ اس یاد دہانی کرانے کا مقصد یہ تھا کہ اس سرزمین میں داخل ہونا تمہارا مذہبی اور سیاسی حق بنتا ہے لہٰذا پیچھے نہ ہٹنا ورنہ نقصان اٹھاؤ گے۔ دشمن کے مقابلہ میں پیچھے ہٹنا کبیرہ گناہ ہونے کے ساتھ دنیا میں ذلت اٹھانا پڑتی ہے بسا اوقات ایسی قوم اپنا سب کچھ کھو بیٹھتی ہے۔ اس سے مؤرخین کی اس غلط فہمی کا ازالہ ہوتا ہے کہ جن کا خیال ہے کہ فلسطین میں بنی اسرائیل کے عروج کی تاریخ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے شروع ہوتی ہے جبکہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے خطاب میں اپنے سے پہلے بنی اسرائیل کے شاندار ماضی کا حوالہ دے رہے ہیں۔ جس کے بارے میں قرآن مجید نے واضح فرمایا ہے کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو عظیم مملکت سے نوازا تھا۔ ظاہر بات ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جناب موسیٰ (علیہ السلام) سے سینکڑوں سال پہلے گزر چکے تھے۔ یہاں اہل علم نے نکتہ وردی کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ انبیاء کا ذکر کرتے ہوئے ” فیکم “ کے الفاظ استعمال کیے جس کا معنیٰ ہے تم میں سے کچھ شخصیات کو نبی بنایا جس سے ثابت ہوا کہ نبوت لوگوں کا انتخاب نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ جس کو چاہے نبوت کے لیے منتخب فرمائے ” وجعلکم “ کا مفہوم یہ ہے کہ تمہیں حکمران بنایا کسی قوم اور ملک کا حکمران تو ایک ہی ہوتا ہے۔ لیکن خبر جمع لائی گئی ہے جس میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ صحیح حکمران وہ ہوتا ہے جو لوگوں کو ساتھ لے کر چلے یعنی اپنے اقتدار میں عوام کو شرکت کا حق دے۔ (عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ (رض) عَنْ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ خِیَارُ أَءِمَّتِکُمْ الَّذِینَ تُحِبُّونَہُمْ وَیُحِبُّونَکُمْ وَیُصَلُّونَ عَلَیْکُمْ وَتُصَلُّونَ عَلَیْہِمْ وَشِرَارُ أَءِمَّتِکُمْ الَّذِینَ تُبْغِضُونَہُمْ وَیُبْغِضُونَکُمْ وَتَلْعَنُونَہُمْ وَیَلْعَنُونَکُمْ قیلَ یَا رَسُول اللّٰہِ أَفَلَا نُنَابِذُہُمْ بالسَّیْفِ فَقَالَ لَا مَا أَقَامُوا فیکُمْ الصَّلَاۃَ وَإِذَا رَأَیْتُمْ مِنْ وُلَاتِکُمْ شَیْءًا تَکْرَہُونَہُ فَاکْرَہُوا عَمَلَہُ وَلَا تَنْزِعُوا یَدًا مِنْ طَاعَۃٍ )[ رواہ مسلم : کتاب الامارۃ، باب خیار الائمۃ وشرارھم ] ” حضرت عوف بن مالک اشجعی (رض) فرماتے ہیں میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا تمہارے بہترین حکمران وہ ہیں جن کو تم پسند کرو اور وہ تم سے مروت رکھیں تم ان کے لیے رحمت مانگو اور وہ تمہارے لیے رحمت کی دعائیں مانگیں اور تمہارے برے حکمران وہ ہوں گے جن سے تم بغض رکھو اور وہ تم سے نفرت کریں تم ان پر لعن طعن کرو اور وہ تمہیں ملعون قرار دیں۔ صحابی رسول فرماتے ہیں ہم نے عرض کیا کہ کیا ہم ان سے لڑائی نہ کریں ؟ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہیں جب تک وہ نماز قائم کریں جب تم اپنے حکمرانوں میں کوئی ایسی چیز دیکھو جس کو تم ناپسند کرتے ہو تو ان کے فقط اس عمل کو ناپسند کرو اور ان کی فرمانبرداری سے ہاتھ نہ کھینچو۔ “ مسائل ١۔ انبیاء کو مبعوث فرمانا اور بادشاہت کا عطا فرمانا اللہ کا انعام ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو وہ کچھ عطا فرمایا جو پہلے اور ان کی ہم عصراقوام کو نہیں دیا گیا تھا۔ ٣۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکامات نہ ماننے والے نقصان اٹھائیں گے۔ تفسیر بالقرآن بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے انعامات : ١۔ اے بنی اسرائیل میری نعمتوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام فرمائیں۔ (البقرۃ : ٤٧) ٢۔ بنی اسرائیل کو ساری دنیا پر فضیلت دی گئی۔ (البقرۃ : ٤٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو آل فرعون سے نجات دی۔ (البقرۃ : ٤٩) ٤۔ بنی اسرائیل کے لیے سمندر کو پھاڑا گیا۔ ( البقرۃ : ٥٠ ) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے بارہ چشمے جاری فرمائے۔ (الاعراف : ١٦٠) ٦۔ بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ نے بادلوں کا سایہ کیا اور من وسلویٰ نازل فرمایا۔ (البقرۃ : ٥٧)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٢٠ تا ٢٦۔ یہ بنی اسرائیل کی تاریخ کا ایک حصہ ہے اور اسے یہاں تفصیل سے لیا گیا ہے ۔ یہ تفصیلات جس حکمت کے تحتی دی گئی ہیں اس کے کئی پہلو ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ بنی اسرائیل ان لوگون میں سے ہیں جنہوں نے مدینہ طیبہ میں سب سے پہلے دعوت اسلامی کی مخالفت کی اس کے خلاف سازش کی ‘ مدینہ م... یں اس کے خلاف برسرپیکار رہے اور پورے جزیرۃ العرب میں اس کے ساتھ محاربت کرتے رہے ۔ وہ پہلے ہی دن سے جماعت مسلمہ کے خلاف برسرجنگ تھے ، انہوں نے مدینہ میں نفاق پیدا کیا اور منافقین کی پرورش کرتے رہے ۔ یہ لوگ ان منافقین کی امداد کرتے رہے اور یہ امداد اسلامی نظریہ حیات کے خلاف بھی تھی اور مسلمانوں کے خلاف بھی ۔ انہوں نے مشرکین کو مسلمانوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کیا ‘ ان کے ساتھ لمبے چوڑے وعدے کئے اور ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کیں ۔ یہی لوگ تھے جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف افواہ سازی کا کام کیا ‘ خفیہ رویشہ دوانیاں کیں ‘ مکاریوں سے کام لیتے رہے اور اسلامی صفوں میں بےچینی پیدا کرتے رہے ۔ انہوں نے شکوک و شبہات بھی پھیلانے کی کوشش کی ۔ اسلامی عقائد میں بھی اور اسلامی قیادت کے خلاف بھی اور کچھ عرصہ بعد یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف پوری طرح کھل کر سامنے آگئے ۔ اس لئے اس بات کی ضرورت تھی کہ جماعت مسلمہ کے سامنے انکی پوری حقیقت کو کھول کر رکھ دیا جائے تاکہ اسے معلوم ہو کہ اس کے دشمن کس قماش کے لوگ ہیں ‘ ان کا مزاج کیا ہے ‘ ان کی تاریخ کیا ہے ‘ ان کے وسائل عدوات کیا ہیں اور اس معرکے کی نوعیت کیا ہے جو انہوں نے مسلمانوں کے خلاف برپا کر رکھا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو اس بات کا علم تھا کہ یہ لوگ آنے والی پوری اسلامی تاریخ میں ملت اسلامیہ کہ دشمن رہیں گے بعینہ اسی طرح جس طرح یہ لوگ خود اپنی تاریخ میں ہمیشہ حق کے دشمن رہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی تاریخ ملت اسلامیہ کے سامنے رکھ دی اور اچھی طرح کھول کر رکھ دی اور ملت اسلامیہ کے خلاف یہ لوگ جو ذرائع کام میں لاتے تھے وہ بھی ان کے سامنے رکھ دیئے ۔ اس حکمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بنی اسرائیل اس دین کے حامل تھے جو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آخری دین سے پہلے سچا دین تھا اور اسلام سے قبل بنی اسرائیل ایک طویل تاریخ رکھنے والی ملت تھے ، ان کے عقائد میں انحراف واقعہ ہوگیا تھا اور انہوں نے اس عہد و پیمان کی بار بار خلاف ورزی کی تھی جو انہوں نے اللہ کے ساتھ کیا ہوا تھا جو انہوں نے اللہ کے ساتھ کیا ہوا تھا ۔ اس نظریاتی انحراف اور اس عہد کی خلاف ورزی کی وجہ سے ان کی زندگی پر برے اثرات مرتب ہوگئے تھے اور ان تمام امور کا تقاضا یہ تھا کہ امت مسلمہ ان کو پوری تاریخ سے آگاہ ہو کیونکہ وہ اس سے قبل کی تمام رسالتوں کی امین اور وارث ہے اور ربانی نظریہ حیات اور صحیح عقائد کی نگہبان ہے ۔ ان وجوہات کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ امت مسلمہ کو ان تمام تاریخی انقلابات کا علم ہو اور اس کو معلوم ہو کہ کہاں کہاں ان لوگوں نے ٹھوکر کھائی اور اس کے کیا نتائج نکلے ۔ بنی اسرائیل کی زندگی اور ان کے اخلاق پر اس کے کیا نتائج مرتب ہوئے تاکہ اس تجربے کی وجہ سے تحریک اسلامی ان مقامات میں سنبھل کر چلے جہاں ٹھوکریں لگتی ہیں ‘ جہاں سے شیطان حملہ آور ہوتا ہے اور جہاں سے انحراف شروع ہوتا ہے تاکہ ان تاریخی تجربات کے نتیجے میں وہ صحیح راہ پر گامزن رہے ۔ اور اس حکمت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ بنی اسرائیل کے تجربات کے کئی پہلو تھے ۔ یہ بہت طویل تجربات تھے اور اللہ تعالیٰ کو اس بات کا اچھی طرح علم تھا کہ جب اقوام وملل پر ایک طویل عرصہ گزر جاتا ہے تو وہ سنگدل ہوجاتی ہیں اور ان کی بعد کی نسلیں اصل راہ سے ہٹ جاتی ہیں اور یہ کہ امت مسلمہ کی تاریخ قیام قیامت تک طویل رہے گی اور اس پر ایسے ادوار آئیں گے جن مین وہ بعینہ بنی اسرائیل جیسے حالات میں مبتلا ہوجائے گی ، اس لئے اس بات کی ضرورت تھی کہ تاریخ اسلام میں پیدا ہونے والے قائدین اور تجدید واحیائے دین کرنے والے مجددیں کے سامنے بھی ایسے تجربات کے نمونے ہونے چاہئیں کہ اقوام وملل کے اندر کس طرح انحراف اور گمراہی سرایت کر جاتی ہے ۔ ان مجددین کو معلوم ہونا چاہئے کہ جب بیماری کی تشخیص ہوجائے تو اس کا علاج کیسے ہوگا ‘ اس لئے کہ ہدایت اور صراط مستقیم سے دور چلے جانے میں وہ لوگ بہت ہی سنگدل ہوتے ہیں جو جان بوجھ کر ایسا کریں ، غافل ‘ خام اور کم علم لوگ بہت جلد ہدایت قبول کرتے ہیں کیونکہ ان کے سامنے ایک جدید دعوت آتی ہے جو انہیں پسند آجاتی ہے اور وہ اسے قبول کرلیتے ہیں ۔ وہ اپنے اوپر سے گردو غبار جھاڑ لیتے ہیں ‘ کیونکہ یہ ان کے لئے ایک نئی چیز ہوتی ہے ۔ چونکہ یہ جدید دعوت ان کی فطرت کے لئے ایک نئی چیز ہوتی ہے اس لئے ان کی زندگی میں بہار آجاتی ہے ۔ لیکن جن لوگوں کے سامنے پہلے دعوت آجاتی ہے ‘ ان کے لئے دوبارہ وہ دعوت پرکشش نہیں ہوتی ۔ نہ ہو ان کے اندر حرکت پیدا کرتی ہے نہ ان کے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ یہ کوئی عظیم دعوت ہے اور اسے سنجیدگی سے لینا چاہئے ، یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کو متاثر کرنے کے لئے زیادہ محنت اور طویل اور صبر آزماجدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے ۔ قصہ بنی اسرائیل کی تفصیلات کی حکمتوں میں سے یہ بہت اہم پہلو تھے ‘ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان قصص کو ہمیشہ تفصیلات کے ساتھ دیا ہے اس لئے کہ امت مسلمہ عقائد کی وارث تھی ۔ اسے اب انسانیت کی قیادت کے فرائض سرانجام دینے تھے ۔ اس کے کئی اور پہلو بھی ہو سکتے ہیں لیکن یہاں ان اشارات سے زیادہ دینا ممکن نہیں ہے ۔ لہذا اس سبق مین ہم اس مجلس کی طرف واپس آتے ہیں ۔ (آیت) ” وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ یَا قَوْمِ اذْکُرُواْ نِعْمَۃَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ أَنبِیَاء وَجَعَلَکُم مُّلُوکاً وَآتَاکُم مَّا لَمْ یُؤْتِ أَحَداً مِّن الْعَالَمِیْنَ (20) یَا قَوْمِ ادْخُلُوا الأَرْضَ المُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّہُ لَکُمْ وَلاَ تَرْتَدُّوا عَلَی أَدْبَارِکُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِیْنَ (21) ” یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ ” اے میری قوم کے لوگو ‘ اللہ کی اس نعمت کا خیال کرو جو اس نے تمہیں عطا کی تھی ۔ اس نے تم میں سے نبی پیدا کئے ‘ تم کو فرمان روا بنایا اور تم کو وہ کچھ دیا جو دنیا میں کسی کو نہ دیا تھا ۔ اے برادران قوم ! اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ تمہارے لئے لکھدی ہے ۔ پیچھے نہ ہٹو ورنہ ناکام ونامراد پلٹو گے ۔ “ یہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کلمات کے اندر ایسا اشارہ پایا جاتا ہے کہ انہوں نے محسوس کر لیا تھا کہ ان کی قوم اس جہاد کے سلسلے میں متردد ہے اور انہیں خطرہ تھا کہ وہ الٹے پاؤں پھرجائے گا ۔ انہوں نے بنی اسرائیل کے مصر سے واپسی کے طویل سفر کے اندر اچھی طرح تجربہ کرلیا تھا کہ یہ لوگ بار بار نافرمانی کرتے تھے ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو مصر سے نکالا تھا اور ان کو اس ذلت اور بدبختی کی زندگی سے آزاد کیا تھا ‘ جس میں عرصہ غلامی مصر میں وہ مبتلا تھے ۔ یہ آزادی انہیں اللہ کے نام پر ملی تھی اور اللہ تعالیٰ کی قوت قاہرہ نے ان کے لئے سمندر کو چیر دیا تھا اور اس میں فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کردیا تھا ۔ اس کے بعد جب وہ ایک ایسی قوم سے ہو کر گزرے جو بتوں کی پوجا کرتی تھی تو انہوں نے فورا مطالبہ کردیا تھا کہ اے موسیٰ ہمارے لئے بھی ایسا ہی الہ بنا دو جیسا کہ ان لوگوں کا الہ ہے ۔ (آیت) ” یا موسیٰ اجعل لنا الھا کما لھم الھہ) اور جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے ساتھ مقررہ میعاد پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ سرگوشی کے لئے کوہ طور پر چلے گئے تو پیچھے سے سامری نے ان زیورات سے جو آتے ہوئے ان کی عورتوں نے مصریوں کی عورتوں سے چرا لئے تھے ‘ ایک بچھڑا بنا دیا ۔ یہ بچھڑا ایسا ہی آواز کرتا تھا جس طرح ایک بچھڑا آواز کرتا ہے ۔ یہ لوگ اس بچھڑے پر ٹوٹ پڑے اور کہا کہ یہ تو وہی خدا ہے جس کی ملاقات کے لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر چلے گئے ، پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ایک واضح معجزہ یہ تھا کہ انہوں نے ان کے لئے تپتے ہوئے صحرا کے اندر سے ایک پتھر سے ١٢ چشمے نکالے ۔ ان پر من اور سلوی جیسے طعام نازل ہوئے جو نہایت ہی لذیذ تھے لیکن انہوں نے ان لذیذ ومفید کھانوں کو چھوڑ کر ان کھانوں کا مطالبہ کردیا جو مصر میں وہ کھاتے تھے حالانکہ وہاں وہ بڑی ذلت کی زندگی بسر کرتے تھے ۔ وہاں انہوں نے ساگ ‘ ترکاری ‘ گیہوں ‘ لہسن اور پیاز کا مطالبہ کیا اور اس کھانے پر صبر نہ کیا جو ان پر نازل ہو رہا تھا حالانکہ وہ عزت اخلاص اور اعلی مقاصد کے لئے کام کر رہے تھے ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کو ان اعلی مقاصد کی طرف کھینچ لا رہے تھے اور وہ پیچھے کی طرف بھاگ رہے تھے ۔ پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو گائے کے معاملے میں بھی آزمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تھا اور وہ اس میں پس وپیش اور بہانہ بازی کرتے اور مدت تک اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے ۔ اور بالآخر مجبور ہو کر انہوں نے اس حکم پر عمل کیا لیکن وہ کرنے والے نہ تھے ۔ (آیت) ” فذبحوھا وما کادوا یفعلون) پھر انہوں نے ان کا تجربہ اس وقت بھی کیا تھا جب وہ کوہ طور سے واپس ہوئے اور ان کے پاس وہ تختیاں تھیں جن میں وہ میثاق اور عہد تھا جو اللہ تعالیٰ نے ان سے لیا تھا ۔ انہوں نے اس عہد سے انکار کردیا اور عہد شکنی پر ثابت قدم رہے۔ ان انعامات اور ان کے جواب میں ان نافرمانیوں اور اس کے بعد اس پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کی معافی کے باوجود پھر بھی انہوں نے اس عہد کو تسلیم نہ کیا اور اللہ تعالیٰ کو ان کے سروں پر پہاڑ اس طرح لٹکانا پڑا جس طرح کہ بادل کا ایک ٹکڑا ہو اور وہ اس حالت میں آگیا کہ انہوں نے یقین کرلیا کہ اب یہ ان کے اوپر گرنے ہی والا ہے ۔ (آیت) ” وظنوا انہ واقع بھم “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس طویل سفر آزادی میں ان کو اچھی طرح آزمایا تھا ۔ آپ ان کو لے کر ارض مقدس کی دہلیز تک آپہنچے تھے جس کا وعدہ ان کے ساتھ خود اللہ نے کیا تھا اور اس زمین کے لئے ہی وہ مصر سے نکلے تھے ۔ وہ زمین جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے عہد کیا تھا کہ یہ لوگ اس میں بادشاہت قائم کریں گے اور اللہ اس میں پھر ان پر انبیاء بھیجے گا تاکہ وہ اللہ کی نگرانی اور قیادت میں زندگی کے بہترین دن گزاریں ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو اچھی طرح آزمایا تھا ‘ اس لئے ان کا یہ حق تھا کہ وہ ایک بار پھر ان کی جانب سے بدعہدی سے ڈریں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس آخری دعوت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے سامنے وہ تمام باتیں رکھ دیں جو انکی سابقہ تاریخ میں سے قابل ذکر تھیں اور ان کے سامنے وہ تمام بشارتیں رکھ دیں جو مستقبل میں ان کو حاصل ہونے والی تھیں ان کے سامنے وہ تمام امور رکھ دیئے جن سے ان کے حوصلے بڑھ سکتے تھے اور وہ سخت سے سخت ڈراوا بھی رکھ دیا : (آیت) ” وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ یَا قَوْمِ اذْکُرُواْ نِعْمَۃَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ أَنبِیَاء وَجَعَلَکُم مُّلُوکاً وَآتَاکُم مَّا لَمْ یُؤْتِ أَحَداً مِّن الْعَالَمِیْنَ (20) یَا قَوْمِ ادْخُلُوا الأَرْضَ المُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّہُ لَکُمْ وَلاَ تَرْتَدُّوا عَلَی أَدْبَارِکُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِیْنَ (21) ” اے میری قوم کے لوگو ‘ اللہ کی اس نعمت کا خیال کرو جو اس نے تمہیں عطا کی تھی ۔ اس نے تم میں سے نبی پیدا کئے ‘ تم کو فرمان روا بنایا اور تم کو وہ کچھ دیا جو دنیا میں کسی کو نہ دیا تھا ۔ اے برادران قوم ! اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ تمہارے لئے لکھدی ہے ۔ پیچھے نہ ہٹو ورنہ ناکام ونامراد پلٹو گے ۔ “ اللہ کا انعام اور وہ وعدے پورے ہوگئے ۔ اللہ نے ان میں انبیاء بھیجے اور بادشاہ پیدا کئے۔ اس باب میں اللہ نے انہیں وہ کچھ دیا جو اقوام عالم میں کسی کو نہ دیا گیا تھا تاریخ کی اس یونٹ تک ‘ اور وہ ارض مقدس جسے فتح کرنے جا رہے تھے جو ان کے لئے لکھ دی گئی تھی ۔ اور یہ تحریر اللہ کی تھی ‘ لہذا اس کا پورا کیا جانا حق الیقین تھا ۔ اس سے پہلے اللہ نے ان کے ساتھ جو بھی وعدے کئے تھے وہ ایک ایک کرکے پورے کردیئے گئے تھے اور یہ ایک ایسا وعدہ تھا جس کی طرف وہ بڑھ رہے تھے ۔ اس سے پیچھے ہٹنا انکے لئے دنیا وآخرت کا خسران تھا ۔۔۔۔۔ لیکن بنی اسرائیل بہرحال بنی اسرائیل تھے ۔ بزدل سست اور پیچھے کی طرف پلٹنے والے اور بار بار وعدہ خلافی کرنے والے :  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلانا اور انہیں ایک بستی میں داخل ہونے کا حکم دینا اور ان کا اس سے انکاری ہونا ان آیات میں بنی اسرائیل کا ایک واقعہ ذکر فرمایا ہے، اس واقعہ میں عبرت اور اس بات کی دلیل بھی ہے کہ بلاشبہ سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم... ) اللہ کے رسول ہیں سورة مائدہ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی وہاں یہود موجود تھے انہیں اپنے آباؤ اجداد کے قصے معلوم تھے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایسے واقعات کو بتانا ( جن کے جاننے کا آپ کے لئے وحی کے سوا کوئی راستہ نہ تھا) اس امر کی صریح دلیل ہے کہ آپ بلا شبہ اللہ کے رسول ہیں، یہودیوں میں سے چند افراد ہی ایمان لائے مگر حجت سب پر پوری ہوگئی۔ واقعہ یہ ہے کہ جب فرعون کا لشکر سمندر میں ڈوب کر ختم ہوگیا اور فرعون بھی ہلاک ہوگیا اور بنی اسرائیل سمندر پار ہو کر شام کے علاقہ میں داخل ہوگئے تو اب انھیں اپنے وطن فلسطین میں جانا تھا یہ لوگ کئی سو سال کے بعد مصر سے واپس لوٹے تھے، ” جائے خالی راد یومی گیرد “ ، ان کے پیچھے عمالقہ نے ان کے وطن پر قبضہ کرلیا تھا یہ لوگ قوم عاد کا بقیہ تھے اور بڑے قدو قامت اور بڑے ڈیل ڈول والے اور قوت و طاقت والے تھے۔ اللہ تعالیٰ شانہ نے مقدر فرمادیا تھا کہ یہ سرزمین بنی اسرائیل کو ملے گی، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ا ول تو انکو اللہ کی نعمتیں یاد دلائیں اور انہیں بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی تم پر بڑی بڑی مہربانیاں ہیں۔ آئندہ زمانہ میں تم میں کثرت کے ساتھ نبی ہوں گے اور تم میں بہت سے بادشاہ ہوں گے اس نعمت کے رکھ رکھاؤ کے لئے اپنی جگہ ہونی چاہئے جس میں حضرات انبیا کرام (علیہ السلام) آزادی کے ساتھ تبلیغ کرسکیں اور احکام الہٰیہ پہنچا سکیں اور جس میں تمہارے بادشاہ اپنے اقتدار کو کام میں لاسکیں اور معاملات کو نمٹا سکیں۔ اب تک تم قبط (مصری قوم) کے ماتحت تھے۔ جنہوں نے تمہیں غلام بنا رکھا تھا اب تم اپنے وطن میں داخل ہوجاؤ یہ مقدس سرزمین تمہارے لئے اللہ نے مقدر فرما دی ہے، تم پشت پھر کر واپس نہ ہو آگے بڑھو۔ جنگ کرو، جن لوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے وہ وہاں سے نکل جائیں گے ہمت کرو اور حوصلہ سے کام لو ورنہ نقصان اٹھاؤ گے۔ اس موقع پر چند آدمی بطور نقیب قوم عمالقہ کی خیر خبر لینے کے لئے بھیجے گئے تھے انہوں جو عمالقہ کا ڈیل ڈول اور قد وقامت دیکھا تو واپس آکر موسیٰ (علیہ السلام) سے بیان کیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ان کا حال پوشیدہ رکھو لشکر والوں میں سے کسی کو نہ بتانا ورنہ بزدلی اختیار کرلیں گے اور لڑنے سے گریز کریں گے، لیکن وہ نہ مانے انہوں نے اپنے اپنے رشتہ داروں کو بتادیا البتہ ان میں سے دو حضرات یعنی حضرت یوشع بن نون اور حضرت کالب بن یوقنا نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بات پر عمل کیا اور نہ صرف یہ کہ بنی اسرائیل سے عمالقہ کا حال پوشیدہ رکھا بلکہ بنی اسرائیل کو ہمت اور حوصلہ دلایا کہ چلو آگے بڑھو دروازہ میں داخل ہو ! دیکھو اللہ کی کیسی مدد ہوتی ہے تم داخل ہو گے تو وہ نکل بھاگیں گے اور تم کو غلبہ حاصل ہوگا اگر مومن ہو تو اللہ ہی پر بھروسہ کرو مومن کا کام اللہ پر توکل کرنا ہے۔ پیچھے ہٹنا نہیں ہے خصوصاً جبکہ تمہیں بشارت دی جارہی ہے کہ یہ زمین اللہ نے تمہارے لئے لکھ دی ہے تو پھر کیوں پشت پھیرتے ہو۔ بنی اسرائیل کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی سمجھایا اور یوشع بن نون، اور کالب نے بھی زور دیا کہ چلو آگے بڑھو لیکن انہوں نے ایک نہ مانی۔ آپس میں کہنے لگے کہ کاش ! ہم مصر سے نہ آتے وہیں رہ جاتے ( جب غلامی کا ذہن بن جاتا ہے اور ذلت اور پستی دلوں میں رچ اور پچ جاتی ہے تو انسان تھوڑی سی تکلیف سے جو عزت ملے اس کی بجائے ذلت کو ہی گوارا کرلیتا ہے) دھاڑیں مار کر رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ہم مصر ہی میں ہوتے تو اچھا تھا، کبھی کہتے تھے کہ کاش ! ہم اسی جنگل میں مرجاتے اور ہمیں عمالقہ کی سر زمین میں داخل ہونے کا حکم نہ ہوتا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے انہوں نے برملا کہہ دیا کہ ہم ہرگز اس سرزمین میں داخل نہ ہوں گے جب تک کہ وہاں سے نہ نکل جائیں اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تو ہم داخل ہوسکتے ہیں۔ ( گویا یہ بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر احسان ہے کہ وہ نکلیں گے تو ہم داخل ہوجائیں گے) انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ بھی کہا کہ جب تک وہ لوگ اس میں موجود ہیں ہم ہرگز کبھی بھی اس میں داخل نہیں ہوسکتے۔ (لڑنا ہمارے بس کا نہیں) تو اور تیرا رب دونوں جا کر لڑ لیں ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ جب سیدنا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کا یہ ڈھنگ دیکھا اور ان کے ایسے بےت کے جواب سنے تو بار گاہ خداوندی میں عرض کیا کہ اے میرے رب ! میرا بس ان لوگوں پر نہیں چلتا، مجھے اپنے نفس پر قابو ہے اور میرا بھائی یعنی ہارون (علیہ السلام) بھی فرماں برداری سے باہر نہیں ہم دونوں کیا کرسکتے ہیں لہٰذا ہمارے اور فاسقوں کے درمیان فیصلہ فرما دیجئے۔ اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ یہ سر زمین ان لوگوں پر چالیس سال تک حرام ہے اپنی حرکتوں کی وجہ سے اس وقت داخلہ سے محروم کئے جارہے ہیں۔ اس چالیس سالہ مدت میں زمین میں حیران پھرتے رہیں گے، چناچہ چالیس سال تک چھ فرسخ یعنی اٹھارہ میل جگہ میں گھومتے رہے صبح کو جہاں سے چلتے تھے شام کو وہیں کھڑے ہوئے تھے اس وقت ان کی تعداد چھ لاکھ تھی۔ اس عرصہ میں حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کی وفات بھی ہوگئی اور اس وقت جتنے بنی اسرائیل موجود تھے تقریباً سب کو اسی میدان میں اس چالیس سالہ مدت کے اندر اپنے اپنے وقت پر موت آگئی، البتہ حضرت یوشع اور حضرت کالب زندہ تھے اور جب چالیس سال پورے ہوگئے اور نئی نسل تیار ہوگئی تو حضرت یوشع (علیہ السلام) کی سر کردگی میں وہ مقدس سرزمین فتح ہوئی اور بنی اسرائیل اس میں داخل ہوئے۔ (من ابن کثیر ومعالم التنزیل) فوائد متعلقہ واقعہ بنی اسرائیل (١) یہ جو فرمایا (وَّ اٰتَاکُمْ مَّالَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ ) (اور تم کو وہ دیا جو جہانوں میں سے کسی کو نہیں دیا) بظاہر اس سے جو یہ ایہام ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کو باقی تمام امتوں پر فضیلت دے دی گئی ( حالانکہ امت محمدیہ سب سے افضل ہے) اس ایہام کا دفعیہ یوں ہے کہ بنی اسرائیل کے زمانہ تک جو امتیں تھیں ان کو جو عطا فرمایا تھا ان میں سے سب سے زیادہ بنی اسرائیل کو دیا تھا۔ اگلی پچھلی تمام امتیں اس سے مراد نہیں ہیں اسی لئے مفسرین کرام اَلْعَالَمِیْنَ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں یعنی عالمی زمانھم۔ اور صاحب معالم التنزیل نے مجاہد سے یوں نقل کیا ہے یعنی المن و السلوی والحجر و تظلیل الغمام۔ یعنی آیت میں جو یہ فرمایا کہ تمہیں وہ کچھ یا ہے جو کسی کو نہیں دیا اس سے من وسلوی نازل فرمانا اور پتھر سے پانی کا چشمے نکالنا اور بادلوں کا سایہ کرنا مراد ہے۔ یہ چیزیں بحیثیت امت کے بنی اسرائیل کے علاوہ اور کسی کو نہیں دی گئیں۔ (٢) چھ فرسخ جگہ جس میں چالیس سال تک سر گرداں پھرتے رہے اس کے بارے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کہاں جانا چاہ رہے تھے جس بستی میں جانے کا حکم ہوا تھا وہاں تو جانا گوارہ نہ تھا پھر صبح سے شام تک جو سفر کرتے تھے وہ کس مقصد سے تھا ؟ اس کے بارے میں علماء تسیر نے فرمایا ہے کہ یہ لوگ مصر جانا چاہتے تھے کیونکہ وہاں کئی سو سال رہے تھے وہاں کی سرزمین سے مانوس ہوگئے تھے۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ بظاہر مقصد کچھ بھی نہ تھا یہ جو انہوں نے کہا تھا کہ ہم ہرگز اس بستی میں داخل نہ ہوں گے جب تک کہ جبر و قوت والی قوم وہاں سے نکل جائے تو اس کی سزا انہیں یہ ملی کہ جب حکم کے مطابق ایک جگہ قیام پذیر ہونا نہیں چاہتے تو اب چلتے ہی رہو۔ (٣) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو یہ دعا کی کہ (فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِیْنَ ) (کہ ہمارے اور فاسقوں کے درمیان فیصلہ کر دیجئے) اس کا مطلب یہ تھا کہ ہمارے اور نافرمان قوم کے درمیان میں فیصلہ فرما دیجئے۔ یہ لوگ جس سزا کے مستحق ہیں ان کو وہ سزا دید یجئے اور جس انعام کی ہمیں ضرورت ہے اس انعام سے ہمیں نواز دیجئے۔ قال صاحب الروح بان تحکم لنا بما نستحقہ علیھم بما یستحقونہ کما ھو المروی عن ابن عباس والضحاک (رض) (٤) بنی اسرائیل کے قول قبیح کے بر خلاف حضرت مقداد (رض) نے بدر کے موقع پر کیا ہی اچھا جواب دیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ بدر کے موقع پر مشرکین سے جنگ کرنے کے بارے میں مشورہ فرما رہے تھے۔ اس موقع پر حضرت مقداد بن الاسود نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم ایسا نہ کہیں گے جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے کہا تھا (اِذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ ) آپ چلیئے (جنگ کیجئے) ہم آپ کے دائیں بائیں آگے پیچھے جنگ کریں گے۔ ان کی بات سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت خوشی ہوئی چہرہ انور چمکنے لگا۔ (صحیح بخاری ج ٢ ص ٥٦٤ اور ج ٢ ص ٢٦٣)  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

49 وَ اِذْ قَالَ مُوْسیٰ الخ جہاد نہ کرنے کی صورت میں ذلت اٹھانے کا پہلا نمونہ۔ یعنی جب تم نے اہل کتاب کو ان کے مشرکانہ عقائد کی بنا پر صاف صاف کافر کہہ دیا تو اب خاموشی سے نہیں بیٹھنا ہوگا۔ بلکہ اب وہ تمہارے ساتھ جنگ کریں گے اور تمہیں بھی جوابا ان سے جہاد کرنا ہوگا۔ اگر تم نے اپنی جان کی حفاظت کیلئ... ے ان سے جہاد نہ کیا اور خاموش بیٹھے رہے تو جس طرح بنی اسرائیل نے دشمن سے جہاد نہ کرنے کی وجہ سے ذلت اٹھائی تھی اسی طرح تم بھی ذلیل ہوجاؤ گے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اور وہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے ان احسانات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا جو اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم پر کئے تھے اے میری قوم تم اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو یاد کرو جو تم پر ہوا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے تم میں ب ہت سے پیغمبر پیدا کئے اور تم کو صاحب ملک اور فرماں رو... اں بنایا اور تم کو بعض بعض چیزیں ایسیع طا فرمائیں جو دنیا جہان والوں میں سے کسی کو نہیں عطا کیں یعنی اقوام عالم میں سے کسی اور کو عطا نہیں فرمائیں۔ (تیسیر) بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرعون اور آل فرعون کو غرق کردیا اور بنی اسرائیل اطمینان کے ساتھ مصر پر قابض ہوچکے تو اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوا کہ ان کو ملک شام میں جو ان کے بزرگوں کا وطن تھا واں پہنچائے اور وہاں کی حکومت ان کو تفویض کرے اور چوں کہ وہاں عمالقہ کا قبضہ تھا اس لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو جہاد کی ترغیب دی اور اسی ترغیب کے موقع پر حضرت موسیٰ نے ان کے سامنے یہ تقریر کی۔ اول اللہ تعالیٰ کے احسانات کا ذکر فرمایا او ان کو بتایا کہ دیکھوتم پر ظاہری اور باطنی احسانات اللہ تعالیٰ کے بیشمار ہیں تم کو نبوت اور سلطنت دونوں نعمتیں عطا فرمائی ہیں اور بعض ایسی ایسی چیزوں سے بھی نوازا ہے جو اوروں کو نصیب نہیں ہوئیں۔ مثلاً تمہارے دشمن کو غرق کیا۔ فرعون کی غلامی سے تم کو آزاد کیا ذلت و بےچارگی سے نکال کر بلندی پر پہنچایا اور تخت و تاج کا مالک بنایا اور با ایں ہمہ دنیوی انعام وا حسان کے اللہ تعالیٰ کا قرب میسر ہوا۔ غرض ! سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو جہاد کے ارادے سے لیکر چلے اور جب بیت المقدس کے قریب پہنچے تو ان بارہ سرداروں کو جن کا ذکر اوپر گذر چکا ہے عمالقہ کی حالت معلوم کرنے کی غرض سے خفیہ طور پر بھیجا اور ان کو سمجھا دیا کہ وہاں سے آ کر قوم عمالقہ کی قوت و شوکت کا ذکر ان لوگوں سے نہ کرنا البتہ شہر کی رونق اور باغات وغیرہ کا ذکر کرنا لیکن ہوا یہ کہ ان بارہ سرداروں میں سے سوائے یوشع بن نون اور کالب بن یوقنا کے باقی سب نے تفصیلی حالات بیان کردیئے اس پر بنی اسرائیل کی ہمت ٹوٹ گئی اور دل چھوٹ گیا اور مصر کو واپس جانے پر آمادہ ہوگئے اس پر حضرت موسیٰ نے جو کچھ فرمایا اور جو واقعات پیش آئے ان کا ذکر آگے کی آیات میں آئے گا آیت زیر بحث کا خلاصہ صرف اس قدر ہے کہ وہ واقعہ قابل ذکر ہے جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے میری قوم تم اللہ تعالیٰ کے ان احسانتا کو یاد کرو جو وہ تم پر وقتاً فوقتاً کرتا رہا ہے جب کہ اس نے تم میں بہت سے پیغمبر پیدا کئے مثلاً حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور حضرت یوسف (علیہ السلام) اور ان کی اولاد میں سے بہت سے لوگ اور تم کو صاحب مملکت اور فرماں روا بنایا اور تم کو بعض ایسی چیزیں بھی عطا کیں جو اقوام عالم میں سے او دوسری قوموں کو نہیں دیں اس آیت کے سلسلے میں دو تین باتیں محلوظ خاطر ہیں۔ (1) جعل فیکم انبیآء کا ترجمہ ہم نے اس طرح کیا ہے کہ اس نے تم میں بہت سے پیغمبر پیدا کئے جس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر خود ساخت ہ نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی نظر انتخاب جس کو منتخب کرلیتی ہے وہی نبی ہوتا ہے اور نبی ماں کے پیٹ سے نبی پیدا ہوتا ہے اس لئے کہ نبوت کوئی کسی چیز نہیں ہے۔ (2) وجعلکم ملوکا۔ میں قرآن کریم نے تھوڑا سا عکنوان بدل دیا ہے یا تو یہاں بھی فیکم منکم محذوف ہے اور یا اس غرض سے کہ بادشاہت اور نبوت میں فرق ہے کسی قوم میں سے اگر کوئی شخص بادشاہ ہوجائے تو پوری قوم کی بادشاہت سمجھی جاتی ہے جیسے پٹھانوں کی سلطنت اور مغلوں کی بادشاہت اور غلاموں کی سلطنت اور خلیجوں کی حکومت لیکن نبوت کو اس طرح نہیں کہہ سکتے کہ عربوں کی نبوت، یا عراقیوں کی نبوت، یا بنی اسرائیل کی نبوت۔ کیونکہ نبی ایک ہی شخص ہوتا ہے اور نبوت کو اس کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا لیکن بادشاہت کی یہ حالت نہیں جیسا کہ اوپر کی مثالوں سے واضح ہوچکا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے وجعلکم ملوکا فرمایا اور یہی وجہ ہے کہ بادشاہ کے قرابت دار بھی کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم بادشاہ ہیں ہم سے کون آنکھ ملا سکتا ہے یا اس بنا پر یہ عنوان اختیار فرمایا ہو کہ ساری قوم فرعون کی غلام تھی اور آزاد ہونے کے بعد ہر شخص با اختیار ہوگیا۔ اس لئے فرمایا کہ تم کو بادشاہ بنایا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہر اس شخص کو جو صاحب منازل ہو اور کوئی اس کے گھر میں بلا اجازت کے داخل نہ ہو سکے اس کو ملک کہہ دیا کرتے ہیں یا اس شخص کو بھی ملک کہہ سکتے ہیں جس کے پاس خادم ہوں۔ عبداللہ بن عباس کا قول ہے کہ بنی اسرائیل میں جس شخص کے پاس بیوی، خادم اور مکان ہوتا اس کو ملک کہتے تھے ضحاک کا قول ہے کہ جس کے پاس وسیع مکان ہوتا اور اس میں نہر جاری ہوتی اس کو ملک کہتے تھے حضرت ابوخدری سے ابن ابی حاتم نے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ بنی اسرائیل میں سے جس شخص کے پاس خادم، سواری اور بیوی ہوتی اس کو ملک کہا جاتا تھا۔ حضرت عمرو بن العاص کے صاحبزادے سے کسی نے دریافت کیا اے ابن عمرو کیا ہم فقراء مہاجرین میں سے نہیں ہیں انہوں نے جواب دیا کیا تیری بیوی ہے اس نے کہا ہاں بیوی ہے پھر انہوں نے کہا تیرے پاس رہنے کو مکان ہے اس نے کہا ہاں مکا ن بھی ہے ابن عمرو نے فرمایا تو اغنیاء میں سے ہے اس نے کہا میرے پاس ایک خادم بھی ہے صاحبزادے نے فرمایا تو ملوک میں سے ہے حضرت مجاہد نے جعلکم ملوکا کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو بیویاں دیں خادم دیئے اور رہنے کو مکان دیئے۔ حدیث شریف میں آتا ہے جس شخص نے ایسی حالت میں صبح کی کہ اس کا جسم تندرست ہے اور اس کا دل مطمئن ہے اور اس کے پاس اس دن کا کھانے کو ہے تو یوں سمجھو گویا اس کے پاس دنیا پوری کی پوری جمع کردی گئی ہے۔ (3) ہرچند کہ تفاسیر میں بہت سے اقوال ہیں لیکن بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملوک سے یہاں صاحب ملک اور صاحب سلطنت مراد ہے … یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے نبوت اور ملوکیت دونوں کو احسان فرمایا ہے اور مدعا یہ ہے کہ روحانیت اور مادیت دونوں حالتوں سے بنی اسرائیل کو نوازا تھا جس طرح روحانیت کی بلندی جس کا منتہا نبوت ہے اللہ تعالیٰ کا احسان اور کرم ہے اسی طرح مادیت جس کو منتہا بادشاہت اور سلطنت ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے شرطی کہ کوئی مادیت سے صحیح فائدہ حاصل کرے۔ (4) بنی اسرائیل کو جو کچھ ملا وہ کسی کو نہیں ملا اس کا مطلب ہم وانی فضلتکم علی العلمین کی تفسیر میں بیان کرچکے ہیں اور یہاں بھی اشارہ کردیا ہے کہ بعض خصوصی اشیاء سے بنی اسرائیل کو نوازا تھا یا یہ مطلب ہے کہ اس زمانے میں اور قوموں کو وہ خصوصیت میسر نہیں تھی جو بنی اسرائیل کو حاصل تھی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس تمہیدی تقریر کے بعد جو کچھ فرمایا اور قوم نے جو جواب دیا اب آگے اس کا مذکور ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)  Show more