Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 27

سورة المائدة

وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ ابۡنَیۡ اٰدَمَ بِالۡحَقِّ ۘ اِذۡ قَرَّبَا قُرۡبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنۡ اَحَدِہِمَا وَ لَمۡ یُتَقَبَّلۡ مِنَ الۡاٰخَرِ ؕ قَالَ لَاَقۡتُلَنَّکَ ؕ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۲۷﴾ النصف

And recite to them the story of Adam's two sons, in truth, when they both offered a sacrifice [to Allah ], and it was accepted from one of them but was not accepted from the other. Said [the latter], "I will surely kill you." Said [the former], "Indeed, Allah only accepts from the righteous [who fear Him].

آدم ( علیہ السلام ) کے دونوں بیٹوں کا کھرا کھرا حال بھی انہیں سنا دو ان دونوں نے اہک نذرانہ پیش کیا ، ان میں سے ایک کی نذر تو قبول ہو گئی اور دوسرے کی مقبول نہ ہوئی تو وہ کہنے لگا کہ میں تجھے مار ہی ڈالوں گا ، اس نے کہا اللہ تعالٰی تقویٰ والوں کا ہی عمل قبول کرتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Story of Habil (Abel) and Qabil (Cain) Allah describes the evil end and consequence of transgression, envy and injustice in the story of the two sons of Adam, Habil and Qabil. One of them fought against the other and killed him out of envy and transgression, because of the bounty that Allah gave his brother and because the sacrifice that he sincerely offered to Allah was accepted. The murdered brother earned forgiveness for his sins and was admitted into Paradise, while the murderer failed and earned a losing deal in both the lives. Allah said, وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ ادَمَ بِالْحَقِّ ... And recite to them the story of the two sons of Adam in truth; meaning, tell these envious, unjust people, the brothers of swine and apes from the Jews and their likes among mankind, the story of the two sons of Adam, Habil and Qabil, as many scholars among the Salaf and later generations said. Allah's statement, بِالْحَقِّ (in truth), means, clearly and without ambiguity, alteration, confusion, change, addition or deletion. Allah said in other Ayat, إِنَّ هَـذَا لَهُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ Verily, this is the true narrative (about the story of Isa). (3:62) نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَأَهُم بِالْحَقِّ We narrate unto you their story with truth. (18:13) and, ذَلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ قَوْلَ الْحَقِّ ... Such is Isa, son of Maryam. (It is) a statement of truth. (19:24) ... إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الاخَرِ قَالَ لاََقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ when each offered a sacrifice, it was accepted from the one but not from the other. The latter said to the former: "I will surely, kill you." The former said: "Verily, Allah accepts only from those who have Taqwa. Several scholars among the Salaf and the later generations said that Allah allowed Adam to marry his daughters to his sons because of the necessity of such action. They also said that in every pregnancy, Adam was given a twin, a male and a female, and he used to give the female of one twin, to the male of the other twin, in marriage. Habil's sister was not beautiful while Qabil's sister was beautiful, resulting in Qabil wanting her for himself, instead of his brother. Adam refused unless they both offer a sacrifice, and he whose sacrifice was accepted, would marry Qabil's sister. Habil's sacrifice was accepted, while Qabil's sacrifice was rejected, and thus what Allah told us about them occurred. Ibn Abi Hatim recorded that Ibn Abbas said -- that during the time of Adam -- "The woman was not allowed in marriage for her male twin, but Adam was commanded to marry her to any of her other brothers. In each pregnancy, Adam was given a twin, a male and a female. A beautiful daughter was once born for Adam and another one that was not beautiful. So the twin brother of the ugly daughter said, `Marry your sister to me and I will marry my sister to you.' He said, `No, for I have more right to my sister.' So they both offered a sacrifice. The sacrifice of the one who offered the sheep was accepted while the sacrifice of the other (the twin brother of the beautiful daughter), which consisted of some produce, was not accepted. So the latter killed his brother." This story has a better than good chain of narration. The statement, ... إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ Verily, Allah accepts only from those who have Taqwa. who fear Allah in their actions. Ibn Abi Hatim recorded that Abu Ad-Darda' said, "If I become certain that Allah has accepted even one prayer from me, it will be better for me than this life and all that in it. This is because Allah says, إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (Verily, Allah accepts only from the those who have Taqwa). The statement, لَيِن بَسَطتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَاْ بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لاََقْتُلَكَ إِنِّي أَخَافُ اللّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ

حسد و بغض سے ممانعت اس قصے میں حسد و بغض سرکشی اور تکبر کا بدانجام بیان ہو رہا ہے کہ کس طرح حضرت کے دو صلبی بیٹوں میں کشمکش ہو گئی اور ایک اللہ کا ہو کر مظلوم بنا اور مار ڈالا گیا اور اپنا ٹھکانا جنت میں بنا لیا اور دوسرے نے اسے ظلم و زیادتی کے ساتھ بےوجہ قتل کیا اور دونوں جہان میں برباد ہوا ۔ فرماتا ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں حضرت آدم کے دونوں بیٹوں کا صحیح صحیح بےکم و کاست قصہ سنا دو ۔ ان دونوں کا نام ہابیل و قابیل تھا ۔ مروی ہے کہ چونکہ اس وقت دنیا کی ابتدائی حالت تھی ، اس لئے یوں ہوتا تھا کہ حضرت آدم کے ہاں ایک حمل سے لڑکی لڑکا دو ہوتے تھے ، پھر دوسرے حمل میں بھی اسی طرح تو اس حمل کا لڑکا اور دوسرے حمل کی لڑکی ان دونوں کا نکاح کرا دیا جاتا تھا ، ہابیل کی بہن تو خوبصورت نہ تھی اور قابیل کی بہن خوبصورت تھی تو قابیل نے چاہا کہ اپنی ہی بہن سے اپنا نکاح کر لے ، حضرت آدم نے اس سے منع کیا آخر یہ فیصلہ ہوا کہ تم دونوں اللہ کے نام پر کچھ نکالو ، جس کی خیرات قبول ہو جائے اس کا نکاح اس کے ساتھ کر دیا جائے گا ۔ ہابیل کی خیرات قبول ہو گئی پھر وہ ہوا جس کا بیان قرآن کی ان آیات میں ہوا : مفسرین کے اقوال سنئیے حضرت آدم کی صلبی اولاد کے نکاح کا قاعدہ جو اوپر مذکور ہوا بیان فرمانے کے بعد مروی ہے کہ بڑا بھائی قابیل کھیتی کرتا تھا اور ہابیل جانوروں والا تھا ، قابیل کی بہن بہ نسبت ہابیل کی بہن کے خوب رو تھی ۔ جب ہابیل کا پیغام اس سے ہوا تو قابیل نے انکار کر دیا اور اپنا نکاح اس سے کرنا چاہا ، حضرت آدم نے اس سے روکا ۔ اب ان دونوں نے خیرات نکالی کہ جس کی قبول ہو جائے وہ نکاح کا زیادہ حقدار ہے حضرت آدم اس وقت مکہ چلے گئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم سے فرمایا زمین پر جو میرا گھر ہے اسے جانتے ہو؟ آپ نے کہا نہیں حکم ہوا مکہ میں ہے تم وہیں جاؤ ، حضرت آدم نے آسمان سے کہا کہ میرے بچوں کی تو حفاظت کرے گا ؟ اس نے انکار کیا زمین سے کہا اس نے بھی انکار کر دیا ، پہاڑوں سے کہا انہوں نے بھی انکار کیا ، قابیل سے کہا ، اس نے کہا ہاں میں محافظ ہوں ، آپ جایئے آکر ملاحظہ فرما لیں گے اور خوش ہوں گے ۔ اب ہابیل نے ایک خوبصورت موٹا تازہ مینڈھا اللہ کے نام پر ذبح کیا اور بڑے بھائی نے اپنی کھیتی کا حصہ اللہ کیلئے نکالا ۔ آگ آئی اور ہابیل کی نذر تو جلا گئی ، جو اس زمانہ میں قبولیت کی علامت تھی اور قابیل کی نذر قبول نہ ہوئی ، اس کی کھیتی یونہی رہ گئی ، اس نے راہ اللہ کرنے کے بعد اس میں سے اچھی اچھی بالیں توڑ کر کھا لیں تھیں ۔ چونکہ قابیل اب مایوس ہو چکا تھا کہ اس کے نکاح میں اس کی بہن نہیں آ سکتی ، اس لئے اپنے بھائی کو قتل کی دھمکی دی تھی اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کی قربانی قبول فرمایا کرتا ہے ۔ اس میں میرا کیا قصور؟ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ مینڈھا جنت میں پلتا رہا اور یہی وہ مینڈھا ہے جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بچے کے بدلے ذبح کیا ۔ ایک روایت میں ہے کہ ہابیل نے اپنے جانوروں میں سے بہترین اور مرغوب و محبوب جانور اللہ کے نام اور خوشی کے ساتھ قربان کیا ، برخلاف اس کے قابیل نے اپنی کھیتی میں سے نہایت ردی اور واہی چیز اور وہ بےدلی سے اللہ کے نام نکالی ۔ ہابیل تنو مندی اور طاقتوری میں بھی قابیل سے زیادہ تھا تاہم اللہ کے خوف کی وجہ سے اس نے اپنے بھائی کا ظلم و زیادتی سہ لی اور ہاتھ نہ اٹھایا ۔ بڑے بھائی کی قربانی جب قبول نہ ہوئی اور حضرت آدم نے اس سے کہا تو اس نے کہا کہ چونکہ آپ ہابیل کو چاہتے ہیں اور آپ نے اس کیلئے دعا کی تو اس کی قربانی قبول ہو گئی ۔ اب اس نے ٹھان لی کہ میں اس کانٹے ہی کو اکھاڑ ڈالوں ۔ موقع کا منتظر تھا ایک روز اتفاقاً حضرت ہابیل کے آنے میں دیر لگ گئی تو انہیں بلانے کیلئے حضرت آدم نے قابیل کو بھیجا ۔ یہ ایک چھری اپنے ساتھ لے کر چلا ، راستے میں ہی دونوں بھائیوں کی ملاقات ہو گئی ، اس نے کہا میں تجھے مار ڈالوں گا کیونکہ تیری قربانی قبول ہوئی اور میری نہ ہوئی اس پر ہابیل نے کہا میں نے بہترین ، عمدہ ، محبوب اور مرغوب چیز اللہ کے نام نکالی اور تو نے بیکار بےجان چیز نکالی ، اللہ تعالیٰ اپنے متقیوں ہی کی نیکی قبول کرتا ہے ۔ اس پر وہ اور بگڑا اور چھری گھونپ دی ، ہابیل کہتے رہ گئے کہ اللہ کو کیا جواب دے گا ؟ اللہ کے ہاں اس ظلم کا بدلہ تجھ سے بری طرح لیا جائیگا ۔ اللہ کا خوف کر مجھے قتل نہ کر لیکن اس بےرحم نے اپنے بھائی کو مار ہی ڈالا ۔ قابیل نے اپنی تو ام بہن سے اپنا ہی نکاح کرنے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی تھی کہ ہم دونوں جنت میں پیدا ہوئے ہیں اور یہ دونوں زمین میں پیدا ہوئے ہیں ، اسی لئے میں اس کا حقدار ہوں ۔ یہ بھی مروی ہے کہ قابیل نے گیہوں نکالے تھے اور ہابیل نے گائے قربان کی تھی ۔ چونکہ اس وقت کوئی مسکین تو تھا ہی نہیں جسے صدقہ دیا جائے ، اس لئے یہی دستور تھا کہ صدقہ نکال دیتے آگ آسمان سے آتی اور اسے جلا جاتی یہ قبولیت کا نشان تھا ۔ اس برتری سے جو چھوٹے بھائی کو حاصل ہوئی ، بڑا بھائی حسد کی آگ میں بھڑکا اور اس کے قتل کے درپے ہو گیا ، یونہی بیٹھے بیٹھے دونوں بھائیوں نے قربانی کی تھی ۔ نکاح کے اختلاف کو مٹانے کی وجہ نہ تھی ، قرآن کے ظاہری الفاظ کا اقتضا بھی یہی ہے کہ ناراضگی کا باعث عدم قبولیت قربانی تھی نہ کچھ اور ۔ ایک روایت مندرجہ روایتوں کے خلاف یہ بھی ہے کہ قابیل نے کھیتی اللہ کے نام نذر دی تھی جو قبول ہوئی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس میں راوی کا حافظہ ٹھیک نہیں اور یہ مشہور امر کے بھی خلاف ہے واللہ اعلم ۔ اللہ تعالیٰ اس کا عمل قبول کرتا ہے جو اپنے فعل میں اس سے ڈرتا رہے ۔ حضرت معاذ فرماتے ہیں لوگ میدان قیامت میں ہوں گے تو ایک منادی ندا کرے گا کہ پرہیزگار کہاں ہیں؟ پس پروردگار سے ڈرنے والے کھڑے ہو جائیں گے اور اللہ کے بازو کے نیچے جا ٹھہریں گے اللہ تعالیٰ نہ ان سے رخ پوشی کرے گا نہ پردہ ۔ راوی حدیث ابو عفیف سے دریافت کیا گیا کہ متقی کون ہیں؟ فرمایا وہ جو شرک اور بت پرستی سے بچے اور خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے پھر یہ سب لوگ جنت میں جائیں گے ۔ جس نیک بخت کی قربانی قبول کی گئی تھی ، وہ اپنے بھائی کے اس ارادہ کو سن کر اس سے کہتا ہے کہ تو جو چاہے کر ، میں تو تیری طرح نہیں کروں گا بلکہ میں صبر و ضبط کروں گا ، تھے تو زور و طاقت میں یہ اس سے زیادہ مگر اپنی بھلائی ، نیک بختی اور تواضع و فروتنی اور پرہیز گاری کی وجہ سے یہ فرمایا کہ تو گناہ پر آمادہ ہو جائے لیکن مجھ سے اس جرم کا ارتکاب نہیں ہو سکتا ، میں تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں وہ تمام جہان کا رب ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ جب دو مسلمان تلواریں لے کر بھڑ گئے تو قاتل مقتول دونوں جہنمی ہیں ۔ صحابہ نے پوچھا قاتل تو خیر لیکن مقتول کیوں ہوا ؟ آپ نے فرمایا اس لئے کہ وہ بھی اپنے ساتھی کے قتل پر حریص تھا ۔ حضرت سعد بن وقاص نے اس وقت جبکہ باغیوں نے حضرت عثمان ذوالنورین کو گھیر رکھا تھا کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے عنقریب فتنہ برپا ہوگا ۔ بیٹھا رہنے والا اس وقت کھڑے رہنے والے سے اچھا ہو گا اور کھڑا رہنے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا ۔ کسی نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر کوئی میرے گھر میں بھی گھس آئے اور مجھے قتل کرنا چاہے ۔ آپ نے فرمایا پھر بھی تو حضرت آدم کے بیٹے کی طرح ہو جا ۔ ایک روایت میں آپ کا اس کے بعد اس آیت کی تلاوت کرنا بھی مروی ہے ۔ حضرت ایوب سختیاتی فرماتے ہیں اس امت میں سب سے پہلے جس نے اس آیت پر عمل کیا وہ امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان ہیں ۔ ایک مرتبہ ایک جانور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سوار تھے اور آپ کے ساتھ ہی آپ کے پیچھے حضرت ابو ذر تھے ، آپ نے فرمایا ابو ذر بتاؤ تو جب لوگوں پر ایسے فاقے آئیں گے کہ گھر سے مسجد تک نہ جا سکیں گے تو تو کیا کرے گا ؟ میں نے کہا جو حکم رب اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہو فرمایا صبر کرو ۔ پھر فرمایا جبکہ آپس میں خونریزی ہو گی یہاں تک کہ ریت کے تھر بھی خون میں ڈوب جائیں تو تو کیا کرے گا ؟ میں نے وہی جواب دیا تو فرمایا کہ اپنے گھر میں بیٹھ جا اور دروازے بند کر لے کہا پھر اگرچہ میں نہ میدان میں اتروں؟ فرمایا تو ان میں چلا جا ، جن کا تو ہے اور وہیں رہ ۔ عرض کیا کہ پھر میں اپنے ہتھیار ہی کیوں نہ لے لوں؟ فرمایا پھر تو تو بھی ان کے ساتھ ہی شامل ہو جائے گا بلکہ اگر تجھے کسی کی تلوار کی شعائیں پریشان کرتی نظر آئیں تو بھی اپنے منہ پر کپڑا ڈال لے تا کہ تیرے اور خود اپنے گناہوں کو وہی لے جائے ۔ حضرت ربعی فرماتے ہیں ہم حضرت حذیفہ کے جنازے میں تھے ، ایک صاحب نے کہا میں نے مرحوم سے سنا ہے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنی ہوئی حدیثیں بیان فرماتے ہوئے کہتے تھے کہ اگر تم آپس میں لڑو گے تو میں اپنے سب سے دور دراز گھر میں چلا جاؤں گا اور اسے بند کر کے بیٹھ جاؤں گا ، اگر وہاں بھی کوئی گھس آئے گا تو میں کہدوں گا کہ لے اپنا اور میرا گناہ اپنے سر پر رکھ لے ، پس میں حضرت آدم کے ان دو بیٹوں میں سے جو بہتر تھا ، اس کی طرح ہو جاؤں گا ۔ میں تو چاہتا ہوں کہ تو میرا اور اپنا گناہ اپنے سر رکھ لے جائے ۔ یعنی تیرے وہ گناہ جو اس سے پہلے کے ہیں اور میرے قتل کا گناہ بھی ۔ یہ مطلب بھی حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ میری خطائیں بھی مجھ پر آ پڑیں اور میرے قتل کا گناہ بھی ۔ لیکن انہی سے ایک قول پہلے جیسا بھی مروی ہے ، ممکن ہے یہ دوسرا ثابت نہ ہو ۔ اسی بنا پر بعض لوگ کہتے ہیں کہ قاتل مقتول کے سب گناہ اپنے اوپر بار کر لیتا ہے اور اس معنی کی ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے لیکن اس کی کوئی اصل نہیں ۔ بزار میں ایک حدیث ہے کہ بے سبب کا قتل تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے ۔ گویہ حدیث اوپر والے معنی میں نہیں ، تاہم یہ بھی صحیح نہیں اور اس روایت کا مطلب یہ بھی ہے کہ قتل کی ایذاء کے باعث اللہ تعالیٰ مقتول کے سب گناہ معاف کر دیتا ہے ۔ اب وہ قاتل پر آ جاتے ہیں ۔ یہ بات ثابت نہیں ممکن ہے بعض قاتل ویسے بھی ہوں ، قاتل کو میدان قیامت میں مقتول ڈھونڈھتا پھرے گا اور اس کے ظلم کے مطابق اس کی نیکیاں لے جائے گا ۔ اور سب نیکیاں لے لینے کے بعد بھی اس ظلم کی تلافی نہ ہوئی تو مقتول کے گناہ قاتل پر رکھ دیئے جائیں گے ، یہاں تک کہ بدلہ ہو جائے تو ممکن ہے کہ سارے ہی گناہ بعض قاتلوں کے سر پڑ جائیں کیونکہ ظلم کے اس طرح کے بدلے لئے جانے احادیث سے ثابت ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ قتل سب سے بڑھ کر ظلم ہے اور سب سے بدتر ۔ واللہ اعلم ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں مطلب اس جملے کا صحیح تر یہی ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ تو اپنے گناہ اور میرے قتل کے گناہ سب ہی اپنے اوپر لے جائے ، تیرے اور گناہوں کے ساتھ ایک گناہ یہ بھی بڑھ جائے ۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میرے گناہ بھی تجھ پر آ جائیں ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہر عامل کو اس کے عمل کی جزا ملتی ہے ، پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مقتول کے عمر بھر کے گناہ قاتل پر ڈال دیئے جائیں ، اور اس کے گناہوں پر اس کی پکڑ ہو؟ باقی رہی یہ بات کہ پھر ہابیل نے یہ بات اپنے بھائی سے کیوں کہی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس نے آخری مرتبہ نصیحت کی اور ڈرایا اور خوف زدہ کیا کہ اس کام سے باز آ جا ، ورنہ گہنگار ہو کر جہنم واصل ہو جائے گا کیونکہ میں تو تیرا مقابلہ کرنے ہی کا نہیں ، سارا بوجھ تجھ ہی پر ہوگا اور تو ہی ظالم ٹھہرے گا اور ظالموں کا ٹھکانا دوزخ ہے ۔ اس نصیحت کے باوجود اس کے نفس نے اسے دھوکا دیا اور غصے اور حسد اور تکبر میں آکر اپنے بھائی کو قتل کر دیا ، اسے شیطان نے قتل پر ابھار دیا اور اس نے اپنے نفس امارہ کی پیروی کر لی ہے اور لوہے سے اسے مار ڈالا ۔ ایک روایت میں ہے کہ یہ اپنے جانوروں کو لے کر پہاڑیوں پر چلے گئے تھے ، یہ ڈھونڈھتا ہوا وہاں پہنچا اور ایک بھاری پتھر اٹھا کر ان کے سر پر دے مارا ، یہ اس وقت سوئے ہوئے تھے ۔ بعض کہتے ہیں مثل درندے کے کاٹ کاٹ کر ، گلا دبا دبا کر ان کی جان لی ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ شیطان نے جب دیکھا کہ اسے قتل کرنے کا ڈھنگ نہیں آتا ، یہ اس کی گردن مروڑ رہا ہے تو اس لعین نے ایک جانور پکڑا اور اس کا سر ایک پتھر پر رکھ کر اسے دوسرا پتھر زور سے دے مارا ، جس سے وہ جانور اسی وقت مر گیا ، یہ دیکھ اس نے بھی اپنے بھائی کے ساتھ یہی کیا یہ بھی مروی ہے کہ چونکہ اب تک زمین پر کوئی قتل نہیں ہوا تھا ، اس لئے قابیل اپنے بھائی کو گرا کر کبھی اس کی آنکھیں بند کرتا ، کبھی اسے تھپڑ اور گھونسے مارتا ۔ یہ دیکھ کر ابلیس لعین اس کے پاس آیا اور اسے بتایا کہ پتھر لے کر اس کا سر کچل ڈال ، جب اس نے کچل ڈالا تو لعین دوڑتا ہوا حضرت حوا کے پاس آیا اور کہا قابیل نے ہابیل کو قتل کر دیا ، انہوں نے پوچھا قتل کیسا ہوتا ہے؟ کہا اب نہ وہ کھاتا پیتا ہے نہ بولتا چالتا ہے ، نہ ہلتا جلتا ہے کہا شاید موت آ گئی اس نے کہا ہاں وہی موت ۔ اب تو مائی صاحبہ چیخنے چلانے لگیں ، اتنے میں حضرت آدم آئے پوچھا کیا بات ہے؟ لیکن یہ جواب نہ دے سکیں ، آپ نے دوبارہ دریافت فرمایا لیکن فرط غم و رنج کی وجہ سے ان کی زبان نہ چلی تو کہا اچھا تو اور تیری بیٹیاں ہائے وائے میں ہی رہیں گی اور میں اور میرے بیٹے اس سے بری ہیں ۔ قابیل خسارے ٹوٹے اور نقصان والا ہو گیا ، دنیا اور آخرت دونوں ہی بگڑیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو انسان ظلم سے قتل کیا جاتا ہے ، اس کے خون کا بوجھ آدم کے اس لڑکے پر بھی پڑتا ہے ، اس لئے کہ اسی نے سب سے پہلے زمین پر خون ناحق گرایا ہے ۔ مجاہد کا قول ہے کہ قاتل کے ایک پیر کی پنڈلی کو ران سے اس دن سے لٹکا دیا گیا اور اس کا منہ سورج کی طرف کر دیا گیا ، اس کے گھومنے کے ساتھ گھومتا رہتا ہے ، جاڑوں اور گرمیوں میں آگ اور برف کے گڑھے میں وہ معذب ہے ۔ حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ جہنم کا آدھوں آدھ عذاب صرف اس ایک کو ہو رہا ہے ، سب سے بڑا معذب یہی ہے زمین کے ہر قتل کے گناہ کا حصہ اس کے ذمہ ہے ۔ ابراہیم نخعی فرماتے ہیں اس پر اور شیطان پر ہر خون ناحق کا بوجھ پڑتا ہے ۔ جب مار ڈالا تو اب یہ معلوم نہ تھا کہ کیا کرے ، کس طرح اسے چھپائے؟ تو اللہ نے دو کوے بھیجے ، وہ دونوں بھی آپس میں بھائی بھائی تھے ، یہ اس کے سامنے لڑنے لگے ، یہاں تک کہ ایک نے دوسرے کو مار ڈالا ، پھر ایک گڑھا کھود کر اس میں اس کی لاش کو رکھ کر اوپر سے مٹی ڈال دی ، یہ دیکھ کر قابیل کی سمجھ میں بھی یہ ترکیب آ گئی اور اس نے بھی ایسا ہی کیا ۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ از خود مرے ہوئے ایک کوے کو دوسرے کوے نے اس طرح گڑھا کھود کر دفن کیا تھا ۔ یہ بھی مروی ہے کہ سال بھر تک قابیل اپنے بھائی کی لاش اپنے کندھے پر لادے لادے پھرتا رہا ، پھر کوے کو دیکھ کر اپنے نفس پر ملامت کرنے لگا کہ میں اتنا بھی نہ کر سکا ، یہ بھی کہا گیا ہے مار ڈال کر پھر پچھتایا اور لاش کو گود میں رکھ کر بیٹھ گیا اور اس لئے بھی کہ سب سے پہلی میت اور سب سے پہلا قتل روئے زمین پر یہی تھا ۔ اہل توراۃ کہتے ہیں کہ جب قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کیا تو اللہ نے اس سے پوچھا کہ تیرے بھائی ہابیل کو کیا ہوا ؟ اس نے کہا مجھے کیا خبر؟ میں اس کا نگہبان تو تھا ہی نہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا سن تیرے بھائی کا خون زمین میں سے مجھے پکار رہا ہے ، تجھ پر میری لعنت ہے ، اس زمین میں جس کا منہ کھول کر تو نے اسے اپنے بےگناہ بھائی کا خون پلایا ہے ، اب تو زمین میں جو کچھ کام کرے گا وہ اپنی کھیتی میں سے تجھے کچھ نہیں دے گی ، یہاں تک تم زمین پر عمر بھر بےچین پھٹکتے رہو گے پھر تو قابیل بڑا ہی نادم ہوا ۔ نقصان کے ساتھ ہی پچھتاوا گویا عذاب پر عذاب تھا ۔ اس قصہ میں مفسرین کے اقوال اس بات پر تو متفق ہیں کہ یہ تو دونوں حضرت آدم کے صلبی بیٹے تھے اور یہی قرآن کے الفاظ سے بظاہر معلوم ہوتا ہے اور یہی حدیث میں بھی ہے کہ روئے زمین پر جو قتل ناحق ہوتا ہے اس کا ایک حصہ بوجھ اور گناہ کا حضرت آدم کے اس پہلے لڑکے پر ہوتا ہے ، اس لئے کہ اسی نے سب سے پہلے قتل کا طریقہ ایجاد کیا ہے ، لیکن حسن بصری کا قول ہے کہ یہ دونوں بنی اسرائیل میں تھے ، قربانی سب سے پہلے انہی میں آئی اور زمین پر سب سے پہلے حضرت آدم کا انتقال ہوا ہے لیکن یہ قول غور طلب ہے اور اس کی اسناد بھی ٹھیک نہیں ۔ ایک مرفوع حدیث میں یہ واقعہ بطور ایک مثال کے ہے تم اس میں سے اچھائی لے لو اور برے کو چھوڑ دو ۔ یہ حدیث مرسل ہے کہتے ہیں کہ اس صدمے سے حضرت آدم بہت غمگین ہوئے اور سال بھر تک انہیں ہنسی نہ آئی ، آخر فرشتوں نے ان کے غم کے دور ہونے اور انہیں ہنسی آنے کی دعا کی ۔ حضرت آدم نے اس وقت اپنے رنج و غم میں یہ بھی کہا تھا کہ شہر اور شہر کی سب چیزیں متغیر ہو گئی ۔ زمین کا رنگ بدل گیا اور وہ نہایت بدصورت ہو گئی ، ہر ہر چیز کا رنگ و مزہ جاتا رہا اور کشش والے چہروں کی ملاحت بھی سلب ہو گئی ۔ اس پر انہیں جواب دیا گیا کہ اس مردے کے ساتھ اس زندے نے بھی گویا اپنے تئیں ہلاک کر دیا اور جو برائی قاتل نے کی تھی ، اس کا بوجھ اس پر آ گیا ، بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ قابیل کو اسی وقت سزا دی گئی چنانچہ وارد ہوا ہے کہ اس کی پنڈلی اس کی ران سے لٹکا دی گئی اور اس کا منہ سورج کی طرف کر دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی ساتھ گھومتا رہتا تھا یعنی جدھر سورج ہوتا ادھر ہی اس کا منہ اٹھا رہتا ۔ حدیث شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جتنے گناہ اس لائق ہیں کہ بہت جلد ان کی سزا دنیا میں بھی دی جائے اور پھر آخرت کے زبردست عذاب باقی رہیں ان میں سب سے بڑھ کر گناہ سرکشی اور قطع رحمی ہے ۔ تو قابیل میں یہ دونوں باتیں جمع ہو گئیں آتی ( فانا للہ و انا الیہ راجعون ) ( یہ یاد رہے کہ اس قصہ کی تفصیلات جس قدر بیان ہوئی ہے ، ان میں سے اکثر و بیشر حصہ اہل کتاب سے اخذ کیا ہوا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ مترجم )

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

27۔ 1 آدم (علیہ السلام) کے ان دو بیٹوں کے نام ہابیل اور قابیل تھے۔ 27۔ 2 یہ نذرانہ یا قربانی کس لئے پیش کی گئی ؟ اس کے بارے میں کوئی صحیح روایت نہیں۔ البتہ مشہور یہ ہے کہ ابتداء میں حضرت آدم وحوا کے ملاپ سے بیک وقت لڑکا اور لڑکی پیدا ہوتی۔ دوسرے حمل سے پھر لڑکا اور لڑکی ہوتی، ایک حمل کے بہن بھائی کا نکاح دوسرے حمل کے بھائی بہن سے کردیا جاتا۔ ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی بہن بدصورت تھی، جب کہ قابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی بہن خوبصورت تھی۔ اس وقت کے اصول کے مطابق ہابیل کا نکاح قابیل کی بہن کے ساتھ اور قابیل کا نکاح ہابیل کی بہن کے ساتھ ہونا تھا۔ لیکن قابیل چاہتا تھا کہ وہ ہابیل کی بہن کی بجائے اپنی ہی بہن کے ساتھ جو خوبصورت تھی نکاح کرے۔ آدم (علیہ السلام) نے اسے سمجھایا، لیکن وہ نہ سمجھا بالا خر حضرت آدم (علیہ السلام) نے دونوں کو بارگاہ الٰہی میں قربانیاں پیش کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ جس کی قربانی قبول ہوجائے گی قابیل کی بہن کا نکاح اس کے ساتھ کردیا جائے گا، ہابیل کی قربانی قبول ہوگئی، یعنی آسمان سے آگ آئی اور اسے کھا گئی جو اس کے قبول ہونے کی دلیل تھی۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ ویسے ہی دونوں بھائیوں نے اپنے اپنے طور پر اللہ کی بارگاہ میں نذر پیش کی، ہابیل نے ایک عمدہ دنبہ کی قربانی اور قابیل نے گندم کی بالی قربانی میں پیش کی ہابیل کی قربانی قبول ہونے پر قابیل حسد کا شکار ہوگیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٨] بنی اسرائیل کا جہاد سے اس طرح گریز کرنے کا قصہ بیان کرنے کے بعد اب آدم کے دو بیٹوں کا قصہ بیان کیا جا رہا ہے۔ یہ دو بیٹے ہابیل اور قابیل تھے۔ ان میں سے قابیل عمر میں بڑا تھا۔ کاشت کاری کرتا تھا۔ جسم کا قوی اور تند مزاج تھا اس کا چھوٹا بھائی ہابیل بھیڑ بکریاں پالتا اور چرایا کرتا تھا۔ نیک، سرشت، فرمانبردار اور منکسر المزاج تھا۔ ان دونوں میں کسی بات پر تنازعہ پیدا ہوا اور بالآخر قابیل نے ظلم و تشدد کی راہ اختیار کرتے ہوئے اپنے مظلوم بھائی کو جان ہی سے مار ڈالا۔ سابقہ آیات سے اس قصہ کا ربط یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہود بھی مظلوموں کے قتل میں بڑے دلیر واقع ہوئے تھے حتیٰ کہ انبیاء کو ناحق قتل کرتے رہے۔ یعنی یہود قتل کی سازشوں میں اور مظلوموں کو قتل کرنے میں بڑے دلیر واقع ہوئے تھے مگر جب جہاد کا موقعہ آیا تو ایسی بزدلی دکھائی کہ اپنی جگہ سے ہلنے کا نام ہی نہ لیتے تھے جس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ مکر و فریب کی چالوں سے مظلوموں پر ہاتھ اٹھانے والے لوگ معرکہ کار زار میں نامرد ہی ثابت ہوا کرتے ہیں۔ دور نبوی میں بھی مدینہ کے یہودیوں کی بالکل یہی صورت حال تھی۔ خ قصہ ہابیل اور قابیل :۔ ہابیل اور قابیل میں تنازعہ کس بات پر تھا ؟ قرآن اس سوال کا جواب دینے سے خاموش ہے البتہ تفاسیر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آدم (علیہ السلام) جس لڑکی سے ہابیل کا نکاح کرنا چاہتے تھے، قابیل یہ چاہتا تھا کہ یہ لڑکی اس کے نکاح میں آئے۔ اس کا یہ مطالبہ چونکہ بےانصافی پر مبنی تھا لہذا اسے تسلیم نہ کیا گیا۔ اس سے قابیل اور بھی طیش میں آگیا۔ جس کا حل سیدنا آدم نے یہ پیش کیا کہ دونوں اللہ کے حضور قربانی پیش کرو۔ جس کی قربانی کو آگ آ کر کھاجائے یعنی جس کی قربانی اللہ کے ہاں مقبول ہوجائے اسی سے اس لڑکی کا نکاح کردیا جائے گا۔ اور یہ تنازعہ ختم ہوجائے گا۔ [٥٩] چناچہ دونوں نے قربانی پیش کی۔ ہابیل ویسے بھی نیک سیرت انسان تھا اور اس لڑکی سے نکاح کا حق بھی اسی کا بنتا تھا۔ نیز اس نے قربانی میں جو اشیاء پیش کی تھیں وہ سب اچھی قسم کی تھیں اور خالصتاً رضائے الٰہی کی نیت سے پیش کی تھیں لہذا اسی کی قربانی کو اللہ کے حضور شرف قبولیت بخشا گیا اس کے مقابلہ میں قابیل بےانصاف اور اچھے کردار کا مالک نہ تھا اور قربانی میں بھی ناقص اور ردی قسم کی اشیاء رکھی تھیں۔ لہذا اس کی قربانی کی چیزیں جوں کی توں پڑی رہیں گویا اس قربانی کی کسوٹی نے بھی ہابیل ہی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ ابْنَيْ اٰدَمَ بالْحَقِّ : آدم (علیہ السلام) کے ان دو بیٹوں کا نام ہابیل اور قابیل مشہور ہے، اگرچہ قرآن یا حدیث میں یہ نام نہیں آئے۔ ۘاِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ ۔۔ : یہ نذر یا قربانی کس لیے پیش کی گئی اس کے بارے میں کوئی صحیح روایت نہیں، البتہ مشہور یہ ہے کہ ابتدا میں آدم اور حوا ( علیہ السلام) کے ملاپ سے بیک وقت لڑکا اور لڑکی پیدا ہوتے تھے، دوسرے حمل سے پھر لڑکا لڑکی ہوتے، ایک حمل کے بہن بھائی کا نکاح دوسرے حمل کے بہن بھائی سے کردیا جاتا۔ ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی بہن بد صورت تھی، جبکہ قابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی بہن خوبصورت تھی، اس وقت کے اصول کے مطابق ہابیل کا نکاح قابیل کی بہن کے ساتھ اور قابیل کا ہابیل کی بہن کے ساتھ ہونا تھا، لیکن قابیل چاہتا تھا کہ وہ ہابیل کی بہن کے بجائے اپنی ہی بہن کے ساتھ، جو خوب صورت تھی، نکاح کرے۔ آدم (علیہ السلام) نے اسے سمجھایا لیکن وہ نہ سمجھا۔ بالآخر آدم (علیہ السلام) نے دونوں کو بارگاہ الٰہی میں قربانیاں پیش کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ جس کی قربانی قبول ہوجائے گی قابیل کی بہن کا نکاح اس سے کردیا جائے گا۔ ہابیل کی قربانی قبول ہوگئی، یعنی آسمان سے آگ آئی اور اسے کھا گئی جو اس کے قبول ہونے کی دلیل تھی، لیکن جیسا کہ بتایا گیا ہے یہ بات ثابت نہیں ہے۔ اوپر کی آیات میں یہ بیان فرمایا تھا کہ مخالفین ہر طرح سے مسلمانوں پر مصائب و شدائد لانا چاہتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (اِذْ هَمَّ قَوْمٌ اَنْ يَّبْسُطُوْٓا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَهُمْ ) [ المائدۃ : ١١ ] ” جب کچھ لوگوں نے ارادہ کیا کہ تمہاری طرف اپنے ہاتھ بڑھائیں۔ “ مگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے مسلمانوں کی حفاظت فرما رہا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے لیے کچھ واقعات بیان فرمائے، جن سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ جس شخص کو بھی اللہ تعالیٰ نے دینی اور دنیاوی نعمتوں سے نوازا ہے، لوگ اس سے ہمیشہ حسد و بغض سے پیش آتے رہے ہیں، چناچہ یہود و نصاریٰ کی مخالفت بھی ان کی سرکشی اور بغض و حسد پر مبنی ہے، لہٰذا ان پر افسوس اور غم نہ کیجیے۔ اب یہاں آدم کے دو بیٹوں کا قصہ بیان کیا، جو اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، کیونکہ ایک بھائی کا دوسرے کو قتل کرنا حسد کی بنا پر تھا۔ الغرض ان تمام واقعات سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا مقصود ہے اور ہوسکتا ہے کہ بتانا مقصود ہو کہ یہود اپنے گمان میں اللہ تعالیٰ کے محبوب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، کہتے ہیں : (نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللّٰهِ وَاَحِبَّاۗؤُهٗ ۭ ) [ المائدۃ : ١٨ ] اور انبیاء کی اولاد ہونے پر ان کو فخر ہے، مگر کفر اور حسد و عناد کے ساتھ یہ نسبی شرف ان کے لیے مفید نہیں ہوسکتا، آدم کے دو بیٹوں کا قصہ اس پر شاہد ہے۔ (کبیر، قرطبی) اس سے مقصد حسد سے بچنے کی تاکید ہے۔ حسن بصری (رض) فرماتے ہیں کہ دونوں آدمی بنی اسرائیل سے تھے۔ یہود کا حسد بیان کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بطور مثال یہ واقعہ بیان کیا ہے۔ اس کی دلیل اس قصے کے آخر میں آنے والی آیت ہے : ( مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ ۃ كَتَبْنَا عَلٰي بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ) [ المائدۃ : ٣٢ ] یعنی اس قصے ہی کی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا۔۔ (کبیر۔ قرطبی) مگر صحیح بخاری اور مسلم کی ایک حدیث کی وجہ سے یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو شخص بھی ظلم سے قتل کیا جاتا ہے (قاتل کے ساتھ) اس کے خون ناحق کا بوجھ آدم ( (علیہ السلام) ) کے پہلے بیٹے پر بھی ہوتا ہے، کیونکہ وہ پہلا شخص تھا جس نے قتل کا کام شروع کیا۔ “ [ بخاری، أحادیث الأنبیا، باب خلق آدم صلوات اللہ علیہ و ذریتہ : ٣٣٣٥۔ مسلم : ١٦٧٧ ] اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ : یعنی تم بھی اگر اللہ کی نافرمانی سے بچتے اور اللہ سے ڈرتے تو تمہاری قربانی بھی قبول ہوجاتی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The Story of Habil (Abel) and Qabil (Cain) In these verses, Allah Ta` a1a has instructed the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that he should relate the story of the two sons of Adam truthful¬ly to the people of the Book, or to the whole Ummah. People who are blessed with insight into the Holy Qur&an know that it is no book of folklore, fiction or history where the purpose is to relate an event from the beginning to the end. But, events of the past and accounts of earlier peoples carry many lessons and wise counsels within their fold. That is the real essence of history. Then, in them, there are such conditions and circumstances as form the basis of dif¬ferent religious injunctions. In view of these very beneficial considera¬tions, the Qur&an employs a methodology of its own throughout the text. It would, when the occasion warrants, narrate an event. Most of-ten, it would not narrate the whole event in one sequence and at one place. In fact, preference is given to narrating a particular segment from it which bears some element of purpose and is relevant at the given place. This story of the two sons of Adam (علیہ السلام) is being narrated here in the same style. It has many lessons and good counsels for the present and future generations; and under them, mention has been made of many religious injunctions. We shall proceed by explaining the words used in the text of the Qur&an following which you will have an idea of the main story, and af¬ter that we shall be talking about injunctions and rulings contained therein. In the previous verses, mentioned there was the command of Jihad given to the Bani Isra&il and how cowardly and evasive they turned out to be in response. Set in contrast, the present story condemns unjust killing and the destruction it brings in its wake. The purpose is to bring the people to adhere to moderation and balance in this matter, for the way it is an error to cringe and back out from fighting and killing to uphold the truth and put an end to falsehood, similarly, starting to kill and fight unjustly amounts to a stock destruction of one&s mate¬rial and spiritual life both in the present world and in the Hereafter. As for the expression: ابْنَيْ آدَمَ (ibniy Adama: the two sons of Adam) appearing in the first verse (27), it can be said that, for that matter, every human being, man and woman, is from the progeny of Adam (علیہ السلام) and everyone can be identified as being from among the children of Adam. But, according to the judgment of the majority of authentic scholars of Tafsir, the expression: ابْنَيْ آدَمَ at this place means the two real sons of Sayyidna Adam (علیہ السلام) that is, Habil and Qabil. It was to relate their story that it was said: وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ (and recite to them the story of the two sons of Adam truthfully). While Reporting Historical Accounts, Caution and Truth are Mandatory Here, by adding the word: بِالْحَقِّ (bil-haqq: truthfully), stress has been placed on an important principle to be observed while reporting historical narratives. Great caution is mandatory in this matter. These narratives should have nothing false in them, nothing contrary to the truth, nothing dubious or deceptive, nor should there be any change, increase or decrease, of any kind, in the narration of the original event. (Ibn Kathir) This is not the only place where the Holy Qur&an has identified this principle. There are other places too where similar instructions appear that it be observed. In Surah &Al ` Imran, it was said: إِنَّ هَـٰذَا لَهُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ (This is indeed the true narration - 3:62). In Surah Al-Kahf, it was said: نَّحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَأَهُم بِالْحَقِّ (We narrate to you their story with truth - 18:13). An d in Surah Maryam, it was said: ذَٰلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْ‌يَمَ ۚ قَوْلَ الْحَقِّ (That was ` Isa son of Maryam - a Word of Truth ... -19:34). At all these places, by including the key word of Al-Haqq or The Truth with historical narrations, the importance of observing truth in reporting events has been made man¬datory. The large number of disorders in this world generated through reporting of events usually issue forth from lack of caution in handling it as it should be handled. A little change of word or mode could distort the reality of the event. The religious codes and laws of past communi¬ties were lost through this trap door of negligence and lack of caution leaving their religious books to become collections of stories devoid of reliable authority. So, by adding a single word: بِالْحَقِّ (truthfully) at this place in the verse, a clear signal was given towards this important ob¬jective. In addition to what has been said above, through this very word, the addressees of the Holy Qur&an are also being chastened and guided to the fact that their noble prophet, on him be the peace and blessing of Allah, who is a total Ummiyy (untaught by any human being), yet he is describing the events which took place thousands of years ago, absolutely true and correct. When so, how else could it be explained but that it was divinely revealed to a Divinely ordained prophet? After this introduction, the event relating to these two sons of Adam was put in the following words by the Holy Qur&an: اِذْ قَرَّ‌بَا قُرْ‌بَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ‌ that is, both of them offered their sacrifices for Allah Ta` ala, but it was accepted from one of them and was not ac¬cepted from the other. The word: قربان (Qurban ), in terms of Arabic lexical usage, refers to whatever is made the medium of nearness to someone; and in Islamic legal terminology, it means the Dhabihah or sacrifice which is offered to seek nearness to Allah Ta` ala. The event of offering this sacrifice which has been reported on the basis of sound and strong chains of authorities and which has been de¬clared by Commentator Ibn Kathir as the unanimously agreed upon position of all earlier and later ` Ulama is given below. When Sayyidna Adam and Hawwa& (علیہما السلام) came to live in the world and started having children, it so happened that they had twins from every pregnancy, one of the two being a boy, while the other, a girl. That was a time when, among the children of Adam (علیہ السلام) there was no one other than brothers and sisters - and brothers and sisters cannot be married to one another. So, Allah Jalla Sha&nuhu, in terms of the need of the time, had promulgated a special provision in the re¬ligious law given to Sayyidna Adam (علیہ السلام) that, as for a boy and girl born out of one pregnancy, they shall be regarded as real brothers and sisters among themselves and marriage between them shall be consid¬ered forbidden. But, for a boy born in the second pregnancy, a girl born in the first one shall not be legally taken as a real sister and marriage between them would be permissible. But, what happened was that the girl born with the first boy, Qa¬bil, was beautiful while the girl born with the second boy, Habil, was ugly. When came the time of marriage, the ugly girl born with Habil fell to the lot of Qabil according to rules. This enraged Qabil. He turned hostile to Habil and started resisting that the girl born with him should be the one given in marriage to him. Sayyidna Adam (علیہ السلام) ، in view of the legal rule of procedure, did not accept the demand. Howev¬er, to remove the division between Habil and Qabil, he proposed that they should both offer their respective sacrifice for Allah. Whoever. has his sacrifice accepted will be the one to have that girl. The reason is that Sayyidna Adam (علیہ السلام) was certain that the sacrifice to be accept¬ed will be the sacrifice of the one who has the right to marry her, that is, the sacrifice of Habil. In those days, an open sign of a sacrifice being accepted was that a fire would come from the sky and eat up the sacrifice; and the sacrifice which was not eaten up by the fire was the sign of its remaining unac¬ceptable. Now, the situation was that Habil was the owner of a flock of sheep and goats. He offered the sacrifice of a good spring lamb. Qabil was a farmer. He offered some grains as his sacrifice. As customary with them, a fire did come from the sky and ate up the sacrifice offered by Habil - and the sacrifice offered by Qabil remained lying where it was, untouched. Thereupon, hit by failure and disgrace, Qabil was further enraged. Unable to restrain it, he told his brother openly: لَأَقْتُلَنَّكَ (I will kill you). Habil did not respond to his angry remark with counter anger on the spot. He rather said something which was peaceful and principled. It even had an element of sympathetic concern for him: لَأَقْتُلَنَّكَ (Allah accepts only from the God-fearing) that is, if you had been God-fearing, practicing Taqwa and piety, your sacrifice too would have been accepted. Since you did not do so, the sacrifice was not accepted. Why blame me for it? Also mentioned within this statement is the cure for the envy (hasad) of the envier (hasid), that is, when the envier sees that Allah Ta` ala has given someone a particular blessing which has not been giv¬en to him, then, he should take his deprivation as a result of his own practical shortcomings and sins and think of repenting from them and correcting his or her behaviour - not that one starts wishing and wor¬rying about ways through which the other person could be made to lose the blessing he has - because this would not bring him any gain, in fact, it will become the cause of some loss to him, for acceptability with Allah depends on Taqwa (fear of Allah). (Mazhari) Acceptability of Deeds Depends on Ikhlas (Sincerity) and Taqwa (Fear of Allah) There appears in this dialogue between Habil and Qabil a sentence which has the status of an important principle: The acceptability of one&s deeds and acts of worship depends on Taqwa. The deed of a person who has no Taqwa in him is not accepted. For this reason, the learned among the righteous elders (salaf) have said that this verse is a shot in the arms of those who are devoted to acts of worship and do deeds in the hope of finding the pleasure of Allah. And this was the reason why Sayyidna ` Amir ibn ` Abdullah was crying at the time of his death. People around him asked: &As for you, you have been busy doing your ` Ibadat (acts of worship) and good deeds throughout your life, why, then, would you weep?& He said, &You are saying this and ringing in my ears is this saying of Allah Ta` ala: إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّـهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (Allah accepts only from the God-fearing). I just do not know if any ` Ibadah of mine will be accepted, or not.& Sayyidna ` Abdullah ibn Masud (رض) said: &If I become certain that Allah Ta` ala has accepted some deed of mine, then, I would not surrender this blessing even if the whole world were to turn into solid gold and pass into my possession, in fact, I would take it to be nothing as compared to that blessing.& Similarly, said Sayyidna Abu Ad-Darda& &If it stands set¬tled that one Salah of mine has found acceptance with Allah Ta` ala, then, that is far more than a whole world full of blessings for me.& Sayyidna ` Umar ibn ` Abd al-` Aziz, may Allah be pleased with him, gave the following good counsel to a person in a letter he wrote to him. |"I tell you to hold on to Taqwa without which no deed is ac¬cepted; and mercy is not shown to anyone except those who observe Taqwa; and without it there is no Divine reward on anything. There are many who preach it but there are very few who practice it.|" And Sayyidna al-Murtada (رض) said: &Even the smallest deed done with Taqwa is not small. And how a deed which has been ac¬cepted can be called small? (Ibn Kathir)

خلاصہ تفسیر اور (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان اہل کتاب کو (حضرت) آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا (یعنی ہابیل و قابیل کا) قصہ صحیح طور پر پڑھ کر سنائیے (تاکہ ان کو انتساب بالصٰلحین کا گھمنڈ جاتا رہے، جس کا نحن ابناء اللہ میں اظہار ہو رہا ہے، اور وہ قصہ اس وقت ہوا تھا) جب کہ دونوں نے (اللہ تعالیٰ کے نام کی) ایک ایک نیاز پیش کی اور ان میں سے ایک کی (یعنی ہابیل کی) تو مقبول ہوگئی اور دوسرے کی (یعنی قابیل کی) مقبول نہ ہوئی (کیونکہ جس معاملہ کے فیصلہ کے لئے یہ نیاز چڑھائی گئی تھی اس میں ہابیل حق پر تھا، اس لئے اس کی نیاز قبول ہوگئی اور قابیل حق پر نہ تھا اس کی قبول نہ ہوئی، ورنہ پھر فیصلہ نہ ہوتا، بلکہ اور خلط و اشتباہ ہوجاتا جب) وہ دوسرا (یعنی قابیل اس میں بھی ہارا تو جھلا کر) کہنے لگا کہ میں تجھ کو ضرور قتل کروں گا، اس ایک نے (یعنی ہابیل نے) جواب دیا (کہ تیرا ہارنا تو تیری ہی ناحق پرستی کی وجہ سے ہے میری کیا خطا، کیونکہ) خدا تعالیٰ متقیوں ہی کا عمل قبول کرتے ہیں (میں نے تو تقویٰ اختیار کیا اور خدا کے حکم پر رہا، خدائے تعالیٰ نے میری نیاز قبول کی، تو نے تقویٰ چھوڑ دیا اور خدا کے حکم سے منہ موڑا تیری نیاز قبول نہیں کی، سو اس میں تیری خطا ہے یا میری انصاف کر، لیکن اگر پھر بھی تیرا یہی ارادہ ہے تو تو جان، میں نے تو پختہ قصد کرلیا ہے) اگر تو مجھ پر میرے قتل کرنے کے لئے دست درازی کرے تو تب بھی میں تجھ پر تیرے قتل کرنے کے لئے ہرگز دست درازی کرنے والا نہیں (کیونکہ) میں تو خدائے پروردگار عالم سے ڈرتا ہوں (کہ باوجود یہ کہ تیرے جواز قتل کا بظاہر ایک سبب موجود ہے، یعنی یہ کہ تو مجھ کو قتل کرنا چاہتا ہے، مگر اس وجہ سے کہ یہ جواز اب تک کسی نص جزئی سے مجھ کو محقق نہیں ہوا، اس لئے اس کے ارتکاب کو احتیاط کے خلاف سمجھتا ہوں، اور اس شبہ کی وجہ سے خدا سے ڈرتا ہوں، اور یہ ہمت تجھی کو ہے کہ باوجود یہ کہ میرے جواز قتل کا کوئی امر مقتضی نہیں بلکہ مانع موجود ہے لیکن پھر بھی خدا سے نہیں ڈرتا) میں یوں چاہتا ہوں کہ (مجھ سے کوئی گناہ کا کام نہ ہو گو تو مجھ پر کتنا ہی ظلم کیوں نہ کرے جس سے کہ) تو میرے گناہ اور اپنے گناہ سب اپنے سر رکھ لے، پھر تو دوزخیوں میں شامل ہوجاوے اور یہی سزا ہوتی ہے ظلم کرنے والوں کی سو (یوں تو پہلے ہی سے قتل کا ارادہ کرچکا تھا یہ جو سنا کہ مدافعت بھی نہ کرے گا، چاہئے تو تھا کہ گداختہ ہوجاتا مگر بےفکر ہو کر اور بھی) اس کے جی نے اس کو اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کردیا (پھر) آخر اس کو قتل ہی کر ڈالا جس سے (کمبخت) بڑے نقصان اٹھانے والوں میں شامل ہوگیا (دنیا میں تو یہ نقصان کہ اپنا قوت بازو اور راحت روح گم کر بیٹھا، اور آخرت میں یہ نقصان کہ سخت عذاب میں مبتلا ہوگا۔ اب جب قتل سے فارغ ہوا تو اب حیران ہے کہ لاش کو کیا کروں جس سے یہ راز پوشیدہ رہے کچھ سمجھ میں نہ آیا تو) پھر (آخر) اللہ تعالیٰ نے ایک کوّا (وہاں) بھیجا کہ وہ (چونچ اور پنجوں سے) زمین کو کھودتا تھا (اور کھود کر ایک دوسرے کوّے کو کہ وہ مرا ہوا تھا اس گڑھے میں دھکیل کر اس پر مٹی ڈالتا تھا) تاکہ وہ (کوا) اس (قابیل) کو تعلیم کردے کہ اپنے بھائی (ہابیل) کی لاش کو کس طریقہ سے چھپاوے (قابیل یہ واقعہ دیکھ کر اپنے جی میں بڑا ذلیل ہوا کہ مجھ کو کوّے کے برابر بھی فہم نہیں، اور غایت حسرت سے) کہنے لگا کہ افسوس میری حالت پر کیا میں اس سے بھی گیا گزرا کہ اس کوّے ہی کے برابر ہوتا اور اپنے بھائی کی لاش کو چھپا دیتا (سو اس بدحالی پر) بڑا شرمندہ ہوا، اسی (واقعہ کی) وجہ سے (جس سے قتل ناحق کے مفاسد ثابت ہوتے ہیں) ہم نے (تمام مکلّفین پر عموماً اور) بنی اسرائیل پر (خصوصاً ) یہ (حکم) لکھ دیا (یعنی مقرر کردیا) کہ (قتل ناحق اتنا بڑا گناہ ہے کہ) جو شخص کسی شخص کو بلامعاوضہ دوسرے شخص کے (جو ناحق مقتول ہوا ہو) یا بدون کسی (شر) فساد کے جو زمین میں اس سے پھیلا ہو (خواہ مخواہ) قتل کر ڈالے تو اس کو بعض اعتبار سے ایسا گناہ ہوگا کہ) گویا اس نے تمام آدمیوں کو قتل کر ڈالا، (وہ بعض اعتبار یہ ہے کہ اس گناہ پر جرأت کی، خدائے تعالیٰ کی نافرمانی کی، خدائے تعالیٰ اس سے ناراض ہوئے دنیا میں مستحق قصاص ہوا، آخرت میں مستحق دوزخ ہوا، یہ امور ایک کے اور ہزار کے قتل کرنے میں مشترک ہیں، گوشدت و اشدّیت کا تفاوت ہو، اور یہ دو قیدیں اس لئے لگائیں کہ قصاص میں قتل کرنا جائز ہے، اسی طرح دوسرے اسباب جواز قتل سے بھی جس میں قطع طریق جو آگے مذکور ہے، اور کفر حربی جس کا ذکر احکام جہاد میں آچکا ہے سب داخل ہیں، قتل کرنا جائز بلکہ بعض صورتوں میں واجب ہے) اور (یہ بھی لکھ دیا تھا کہ جیسا ناحق قتل کرنا گناہ عظیم ہے، اسی طرح کسی کو قتل غیر واجب سے بچا لینا اس میں ثواب بھی ایسا ہی عظیم ہے کہ) جو شخص کسی شخص کو بچا لے تو (اس کو ایسا ثواب ملے گا کہ) گویا اس نے تمام آدمیوں کو بچا لیا، (غیر واجب کی قید اس لئے لگائی کہ جس شخص کا قتل شرعاً واجب ہو اس کی امداد یا سفارش حرام ہے، اور اس مضمون احیاء کے لکھنے سے بھی تشدید قتل کی ظاہر ہوگئی کہ جب احیاء ایسا محمود ہے تو ضرور قتل مذموم ہوگا، اس لئے اس کا ترتب و تسبّب بھی بواسطہ عطف کے (آیت) من اجل ذلک۔ پر صحیح ہوگیا) اور بنی اسرائیل کے پاس (اس مضمون کے لکھ دینے کے بعد) ہمارے بہت سے پیغمبر بھی دلائل واضح (نبوت کے) لے کر آئے (اور وقتاً فوقتاً اس مضمون کی تاکید کرتے رہے) مگر پھر اس (تاکید و اہتمام) کے بعد بھی بہتیرے ان میں سے دنیا میں زیادتی کرنے والے ہی رہے (اور ان پر کچھ اثر نہ ہوا حتیٰ کہ بعض نے خود ان انبیاء ہی کو قتل کردیا) ۔ معارف ومسائل قصہ ہابیل و قابیل ان آیات میں حق تعالیٰ نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت فرمائی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل کتاب کو یا پوری امت کو حضرت آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا قصہ صحیح صحیح سنا دیجئے۔ قرآن مجید پر نظر کرنے والے جانتے ہیں کہ قرآن کریم کوئی قصہ کہانی یا تاریخ کی کتاب نہیں جس کا مقصد کسی واقعہ کو اول سے آخر تک بیان کرنا ہو، لیکن واقعات ماضیہ اور گزشتہ اقوام کی سرگزشت اپنے دامن میں بہت سی عبرتیں اور نصیحتیں رکھتی ہے، وہی تاریخ کی اصلی روح ہے، اور ان میں بہت سے حالات و واقعات ایسے بھی ہوتے ہیں، جن پر مختلف احکام شرعیہ کی بنیاد ہوتی ہے، انہی فوائد کے پیش نظر قرآن کریم کا اسلوب ہر جگہ یہ ہے کہ موقع بہ موقع کوئی واقعہ بیان کرتا ہے، اور اکثر پورا واقعہ بھی ایک جگہ بیان نہیں کرتا، بلکہ اس کے جتنے حصہ سے اس جگہ کوئی مقصد متعلق ہوتا ہے اس کا وہی ٹکڑا یہاں بیان کردیا جاتا ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا یہ قصہ بھی اسی اسلوب حکیم پر نقل کیا جا رہا ہے، اس میں موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لئے بہت سی عبرتیں اور مواعظ ہیں، اور اس کے ضمن میں بہت سے احکام شرعیہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اب پہلے الفاظ قرآن کی تشریح اور اس کے تحت میں اصل قصہ دیکھئے، اس کے بعد اس کے متعقہ احکام و مسائل کا بیان ہوگا۔ اس سے پہلی آیات میں بنی اسرائیل کو حکم جہاد اور اس میں ان کی کم ہمتی اور بزدلی کا ذکر تھا، اس قصہ میں اس کے بالمقابل قتل ناحق کی برائی اور اس کی تباہ کاری کا بیان کرکے قوم کو اس اعتدال پر لانا مقصود ہے کہ جس طرح حق کی حمایت اور باطل کو مٹانے میں قتل و قتال سے دم چرانا غلطی ہے، اسی طرح ناحق قتل و قتال پر اقدام دین و دنیا کی تباہی ہے۔ پہلی آیت میں ابن آدم ( کا لفظ مذکور ہے، یوں تو ہر انسان، آدمی اور آدم کی اولاد ہے، ہر ایک کو ابن آدم کہا جاسکتا ہے، لیکن جمہور علماء تفسیر کے نزدیک اس جگہ ابن آدم سے حضرت آدم (علیہ السلام) کے دو صلبی اور حقیقی بیٹے مراد ہیں، یعنی ہابیل و قابیل، ان دونوں کا قصہ بیان کرنے کے لئے ارشاد ہوا۔ تاریخی روایات کی نقل میں احتیاط اور سچائی واجب ہے وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ ابْنَيْ اٰدَمَ بالْحَقِّ ۔ یعنی ان لوگوں کو آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا قصہ صحیح صحیح واقعہ کے مطابق سنا دیجئے۔ اس میں بالحق کے لفظ سے تاریخی روایات کی نقل میں ایک اہم اصول کی تلقین فرمائی گئی ہے کہ تاریخی روایات کی نقل میں بڑی احتیاط لازم ہے، جس میں نہ کوئی جھوٹ ہو نہ کوئی تلبیس اور دھوکہ اور نہ اصل واقعہ میں کسی قسم کی تبدیلی یا کمی زیادتی (ابن کثیر) ۔ قرآن کریم نے صرف اسی جگہ نہیں بلکہ دوسرے مواقع میں بھی اس اصول پر قائم رہنے کی ہدایات دی ہیں، ایک جگہ ارشاد ہے (آیت) ان ھذا لھو القصص الحق۔ ، دوسری جگہ ارشاد ہے (آیت) نحن نقص علیک نباھم بالحق۔ ، تیسری جگہ ارشاد ہے (آیت) ذلک عیسیٰ ابن مریم قول الحق۔ ان تمام مواقع میں تاریخی واقعات کے ساتھ لفظ حق لاکر اس بات کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے کہ نقل واقعات میں حق و صدق کی رعایت لازمی ہے، روایات و حکایات کی بناء پر جس قدر مفاسد دنیا میں ہوتے ہیں ان سب کی بنیاد عام طور پر نقل واقعات میں بےاحتیاطی ہوتی ہے، ذرا سا لفظ اور عنوان بدل دینے سے واقعہ کی حقیقت مسخ ہوجاتی ہے، پچھلی اقوام کے مذاہب و شرائع اسی بےاحتیاطی کی راہ سے ضائع ہوگئے، اور ان کی مذہبی کتابیں چند بےسند و بےتحقیق کہانیوں کا مجموعہ بن کر رہ گئیں، اس جگہ ایک لفظ بالحق کا اضافہ کرکے اس اہم مقصد کی طرف اشارہ فرما دیا گیا۔ اس کے علاوہ اسی لفظ میں قرآن کریم کے مخاطبین کو اس طرف بھی رہنمائی کرنا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو امی محض ہیں، اور ہزاروں سال پہلے کے واقعات بالکل سچے اور صحیح بیان فرما رہے ہیں تو اس کا سبب بجز وحی الہٰی اور نبوت کے کیا ہوسکتا ہے۔ اس تمہید کے بعد ان دونوں بیٹوں کا واقعہ قرآن کریم نے یہ بیان فرمایا : ۘاِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ ، یعنی ان دونوں نے اللہ تعالیٰ کے لئے اپنی اپنی قربانی پیش کی، مگر ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی۔ لفظ قربان، عربی لغت کے اعتبار سے اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کو کسی کے قرب کا ذریعہ بنایا جائے، اور اصلاح شرع میں اس ذبیحہ وغیرہ کو کہا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا تقرّب حاصل کرنے کے لئے کیا جائے۔ اس قربانی کے پیش کرنے کا واقعہ جو صحیح اور قوی سندوں کے ساتھ منقول ہے اور ابن کثیر نے اس علماء سلف و خلف کا متفقہ قول قرار دیا ہے یہ ہے کہ جب حضرت آدم اور حواء (علیہما السلام) دنیا میں آئے اور توالد و تناسل کا سلسلہ شروع ہوا تو ہر ایک حمل سے ان کے دو بچے توام پیدا ہوئے، ایک لڑکا اور دوسری لڑکی، اس وقت جبکہ آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں بجز بہن بھائیوں کے کوئی اور نہ تھا، اور بھائی بہن کا آپس میں نکاح نہیں ہوسکتا تو اللہ جل شانہ نے اس وقت کی ضرورت کے لحاظ سے شریعت آدم (علیہ السلام) میں یہ خصوصی حکم جاری فرما دیا تھا کہ ایک حمل سے جو لڑکا اور لڑکی پیدا ہو وہ تو آپس میں حقیقی بہن بھائی سمجھے جائیں، اور ان کے درمیان نکاح حرام قرار پائے، لیکن دوسرے حمل سے پیدا ہونے والے لڑکے کے لئے پہلے حمل سے پیدا ہونے والی لڑکی حقیقی بہن کے حکم میں نہیں ہوگی، بلکہ ان کے درمیان رشتہ ازدواج و مناکحت جائز ہوگا۔ لیکن ہوا یہ کہ پہلے لڑکے قابیل کے ساتھ جو لڑکی پیدا ہوئی وہ حسین و جمیل تھی اور دوسرے لڑکے ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی بدشکل تھی، جب نکاح کا وقت آیا تو حسب ضابطہ ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی بدشکل لڑکی قابیل کے حصہ میں آئی اس پر قابیل ناراض ہو کر ہابیل کا دشمن ہوگیا، اور اس پر اصرار کرنے لگا کہ میرے ساتھ جو لڑکی پیدا ہوئی ہے وہی میرے نکاح میں دی جائے، حضرت آدم (علیہ السلام) کو یقین تھا کہ قربانی اسی کی قبول ہوگی جس کا حق ہے، یعنی ہابیل کی۔ اس زمانہ میں قربانی قبول ہونے کی ایک واضح اور کھلی ہوئی علامت یہ تھی کہ آسمان سے ایک آگ آتی اور قربانی کو کھا جاتی تھی، اور جس قربانی کو آگ نہ کھائے تو یہ علامت اس کے نامقبول ہونے کی ہوتی تھی۔ اب صورت یہ پیش آئی کہ ہابیل کے پاس بھیڑ بکریاں تھیں، اس نے ایک عمدہ دنبہ کی قربانی کی، قابیل کاشتکار آدمی تھا، اس نے کچھ غلہ، گندم وغیرہ قربانی کے لئے پیش کیا، اور ہوا یہ کہ حسب دستور آسمان سے آگ آئی، ہابیل کی قربانی کو کھا گئی، اور قابیل کی قربانی جوں کی توں پڑی رہ گئی، اس پر قابیل کو اپنی ناکامی کے ساتھ رسوائی کا غم و غصہ اور بڑھ گیا، تو اس سے رہا نہ گیا، اور کھلے طور پر اپنے بھائی سے کہہ دیا میں تجھے قتل کر ڈالوں گا۔ ہابیل نے اس وقت بھی غصہ کی بات کا جواب غصہ کے ساتھ دینے کے بجائے ایک ٹھنڈی اور اصولی بات کہی، جس میں اس کی ہمدردی و خیر خواہی بھی تھی کہ : اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ ” یعنی اللہ تعالیٰ کا دستور یہی ہے کہ متقی پرہیزگار کا عمل قبول فرمایا کرتے ہیں “۔ اگر تم تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرتے تو تمہاری قربانی بھی قبول ہوتی، تم نے ایسا نہیں کیا تو قربانی قبول نہ ہوئی، اس میں میرا کیا قصور ہے ؟ اس کلام میں حاسد کا علاج بھی ذکر کردیا گیا ہے، کہ حاسد کو جب یہ نظر آئے کہ کسی شخص کو اللہ تعالیٰ نے کوئی خاص نعمت عطا فرمائی ہے جو اس کو حاصل نہیں تو اس کو چاہیے کہ اپنی محرومی کو اپنی عملی کوتاہی اور گناہوں کے سبب سے سمجھ کر ان سے تائب ہونے کی فکر کرے، نہ یہ کہ دوسرے سے اس نعمت کے زوال کی فکر میں پڑجائے، کیونکہ یہ اس کے فائدہ کے بجائے ضرر کا سبب ہے، کیونکہ مقبولیت عند اللہ کا مدار تقویٰ پر ہے (مظہری) ۔ قبولیت عمل کا مدار اخلاص وتقویٰ پر ہے یہاں ہابیل و قابیل کی باہمی گفتگو میں ایک ایسا جملہ آگیا جو ایک اہم اصول کی حیثیت رکھتا ہے، کہ اعمال و عبادات کی قبولیت تقویٰ اور خوف خدا پر موقوف ہے، جس میں تقویٰ نہیں اس کا عمل مقبول نہیں، اسی وجہ سے علمائے سلف نے فرمایا ہے کہ یہ آیت عبادت گزاروں اور عمل کرنے والوں کے لئے بڑا تازیانہ ہے، یہی وجہ تھی کہ حضرت عامر بن عبداللہ اپنی وفات کے وقت رو رہے تھے، لوگوں نے عرض کیا کہ آپ تو عمر بھر اعمال صالحہ اور عبادات میں مشغول رہے، پھر رونے کی کیا وجہ ہے ؟ فرمایا : تم یہ کہتے ہو، اور میرے کانوں میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد گونج رہا ہے اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ ، مجھے کچھ معلوم نہیں کہ میری کوئی عبادت قبول بھی ہوگی یا نہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا کہ اگر مجھے یہ یقین ہوجائے کہ میرا کوئی عمل اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لیا تو یہ وہ نعمت ہے کہ ساری زمین سونا بن کر اپنے قبضہ میں آجائے تو بھی اس کے مقابلہ میں کچھ نہ سمجھوں۔ اسی طرح حضرت ابو الدرداء (رض) نے فرمایا کہ اگر یہ بات یقینی طور پر طے ہوجائے کہ میری ایک نماز اللہ تعالیٰ کے نزدیک قبول ہوگئی تو میرے لئے وہ ساری دنیا اور اس کی نعمتوں سے زیادہ ہے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمة اللہ علیہ نے ایک شخص کو خط میں یہ نصائح لکھیں کہ : ” میں تجھے تقویٰ کی تاکید کرتا ہوں جس کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں ہوتا، اور اہل تقویٰ کے سوا کسی پر رحم نہیں کیا جاتا، اور اس کے بغیر کسی چیز پر ثواب نہیں ملتا، اس بات کا وعظ کہنے والے تو بہت ہیں مگر عمل کرنے والے بہت کم ہیں “۔ اور حضرت علی مرتضیٰ (رض) نے فرمایا کہ تقویٰ کے ساتھ کوئی چھوٹا سا عمل بھی چھوٹا نہیں ہے، اور جو عمل مقبول ہوجائے وہ چھوٹا کیسے کہا جاسکتا ہے۔ (ابن کثیر)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاتْلُ عَلَيْہِمْ نَبَاَ ابْنَيْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ۝ ٠ۘ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِہِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ۝ ٠ۭ قَالَ لَاَقْتُلَـنَّكَ۝ ٠ۭ قَالَ اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللہُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ۝ ٢٧ تلاوة تختص باتباع کتب اللہ المنزلة، تارة بالقراءة، وتارة بالارتسام لما فيها من أمر ونهي، وترغیب وترهيب . أو ما يتوهم فيه ذلك، وهو أخصّ من القراءة، فکل تلاوة قراءة، ولیس کل قراءة تلاوة، لا يقال : تلوت رقعتک، وإنما يقال في القرآن في شيء إذا قرأته وجب عليك اتباعه . هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت[يونس/ 30] ، وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال/ 31] التلاوۃ ۔ بالخصوص خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتابوں کے اتباع تلاوۃ کہا جاتا ہے کبھی یہ اتباع ان کی قراءت پڑھنے ) کی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی ان کے ادا مرد نواحی ( احکام ) ترغیب وترہیب اور جو کچھ ان سے سمجھا جا سکتا ہے ان کی اتباع کی صورت ہیں ، مگر یہ لفظ قرآت ( پڑھنے ) سے خاص ہے یعنی تلاوۃ کے اندر قراۃ کا مفہوم تو پایا جاتا ہے مگر تلاوۃ کا مفہوم قراء ۃ کے اندر نہیں آتا چناچہ کسی کا خط پڑھنے کے لئے تلوت رقعتک نہیں بالتے بلکہ یہ صرف قرآن پاک سے کچھ پڑھنے پر بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے پڑھنے سے اس پر عمل کرنا واجب ہوجاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت «3» [يونس/ 30] وہاں ہر شخص اپنے ( اپنے ) اعمال کی ) جو اس نے آگے بھجیے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت تتلوا بھی ہے یعنی وہاں ہر شخص اپنے عمل نامے کو پڑھ کر اس کے پیچھے چلے گا ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال/ 31] اورا ن کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے آدم آدم أبو البشر، قيل : سمّي بذلک لکون جسده من أديم الأرض، وقیل : لسمرةٍ في لونه . يقال : رجل آدم نحو أسمر، وقیل : سمّي بذلک لکونه من عناصر مختلفة وقوی متفرقة، كما قال تعالی: مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ نَبْتَلِيهِ [ الإنسان/ 2] . ويقال : جعلت فلاناً أَدَمَة أهلي، أي : خلطته بهم وقیل : سمّي بذلک لما طيّب به من الروح المنفوخ فيه المذکور في قوله تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، وجعل له العقل والفهم والرّوية التي فضّل بها علی غيره، كما قال تعالی: وَفَضَّلْناهُمْ عَلى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنا تَفْضِيلًا [ الإسراء/ 70] ، وذلک من قولهم : الإدام، وهو ما يطيّب به الطعام وفي الحدیث : «لو نظرت إليها فإنّه أحری أن يؤدم بينكما» أي : يؤلّف ويطيب . ( ادم ) ادم ۔ ابوالبشیر آدم (علیہ السلام) بعض نے کہا ہے ۔ کہ یہ ادیم لارض سے مشتق ہے اور ان کا نام آدم اس لئے رکھا گیا ہے کہ ان کے جسم کو بھی ادیم ارض یعنی روئے زمین کی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ادمۃ سے مشتق ہے جس کے معنی گندمی رنگ کے ہیں ۔ چونکہ آدم (علیہ السلام) بھی گندمی رنگ کے تھے اس لئے انہیں اس نام سے مسوسوم کیا گیا ہے چناچہ رجل آدم کے معنی گندمی رنگ مرد کے ہیں ۔ اور بعض آدم کی وجہ تسمیہ بیان ہے کہ وہ مختلف عناصر اور متفرق قویٰ کے امتزاج سے پیدا کئے گئے تھے ۔ جیسا کہ آیت { أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيهِ } ( سورة الإِنْسان 2) مخلوط عناصر سے ۔۔۔۔ کہ اسے آزماتے ہیں ۔ سے معلوم ہوتا ہے۔ چناچہ محاورہ ہے جعلت فلانا ادمہ اھلی میں فلاں کو اپنے اہل و عیال میں ملالیا مخلوط کرلیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ آدم ادام سے مشتق ہے اور ادام ( سالن وغیرہ ہر چیز کو کہتے ہیں جس سے طعام لو لذیز اور خوشگوار محسوس ہو اور آدم میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی روح ڈال کر اسے پاکیزہ بنا دیا تھا جیسے کہ آیت و نفخت فیہ من روحی (38 ۔ 72) اور اس میں اپنی روح پھونک دوں ۔ میں مذکور ہے اور پھر اسے عقل و فہم اور فکر عطا کرکے دوسری مخلوق پر فضیلت بھی دی ہے جیسے فرمایا : { وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا } ( سورة الإسراء 70) اور ہم نے انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ اس بناء پر ان کا نام آدم رکھا گیا ہے اور حدیث میں ہے (8) لو نظرت الیھا فانہ احری ان یودم بینکما اگر تو اسے اپنی منگیرکو ایک نظر دیکھ لے تو اس سے تمہارے درمیان الفت اور خوشگواری پیدا ہوجانے کا زیادہ امکان ہے ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ قرب الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء/ 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة/ 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة/ 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة/ 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات/ 27] . وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء/ 1] ، وقوله : وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء/ 109] . وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء/ 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء/ 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر/ 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال/ 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء/ 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد/ 15] . وفي الحظوة : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء/ 172] ، وقال في عيسى: وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران/ 45] ، عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین/ 28] ، فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة/ 88] ، قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف/ 114] ، وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم/ 52] . ويقال للحظوة : القُرْبَةُ ، کقوله : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة/ 99] ، تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ/ 37] . وفي الرّعاية نحو : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف/ 56] ، وقوله : فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة/ 186] وفي القدرة نحو : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] . قوله وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ [ الواقعة/ 85] ، يحتمل أن يكون من حيث القدرة ( ق ر ب ) القرب القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام/ 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء/ 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة/ 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة/ 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات/ 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء/ 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔ وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء/ 109] اور مجھے معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عنقریب آنے والی ہے یا اس کا وقت دور ہے ۔ اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء/ 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء/ 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر/ 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال/ 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء/ 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد/ 15] یتیم رشتے دار کو ۔۔۔ اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا کے متعلق فرمایا : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء/ 172] اور نہ مقرب فرشتے ( عار ) رکھتے ہیں ۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران/ 45]( اور جو ) دنیا اور آخرت میں آبرو اور ( خدا کے ) خاصوں میں سے ہوگا ۔ عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین/ 28] وہ ایک چشمہ ہے جس میں سے ( خدا کے ) مقرب پئیں گے ۔ فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة/ 88] پھر اگر وہ خدا کے مقربوں میں سے ہے : قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف/ 114]( فرعون نے ) کہا ہاں ( ضرور ) اور اس کے علاوہ تم مقربوں میں داخل کرلئے جاؤ گے ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم/ 52] اور باتیں کرنے کے لئے نزدیک بلایا ۔ اور القربۃ کے معنی قرب حاصل کرنے کا ( ذریعہ ) کے بھی آتے ہیں جیسے فرمایا : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة/ 99] اس کو خدا کی قربت کا ذریعہ ۔ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة/ 99] دیکھو وہ بےشبہ ان کے لئے ( موجب ) قربت ہے۔ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ/ 37] کہ تم کو ہمارا مقرب بنادیں ۔ اور رعایت ونگہبانی کے متعلق فرمایا : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف/ 56] کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے ۔ فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة/ 186] میں تو تمہارے پاس ہوں ۔ جب کوئی پکارنے والا پکارتا ہے تو میں اسکی دعا قبول کرتا ہوں ۔ اور قرب بمعنی قدرہ فرمایا : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔ قُرْباناً والقُرْبَانُ : ما يُتَقَرَّبُ به إلى الله، وصار في التّعارف اسما للنّسيكة التي هي الذّبيحة، وجمعه : قَرَابِينُ. قال تعالی: إِذْ قَرَّبا قُرْباناً [ المائدة/ 27] ، حَتَّى يَأْتِيَنا بِقُرْبانٍ [ آل عمران/ 183] ، وقوله : قُرْباناً آلِهَةً [ الأحقاف/ 28] ، فمن قولهم : قُرْبَانُ الملک : لِمَن يَتَقَرَّبُ بخدمته إلى الملک، ويستعمل ذلک للواحد والجمع، ولکونه في هذا الموضع جمعا القربان ( نیا ز ) ہر وہ چیز جس سے اللہ کی قرب جوئی کی جائے اور عرف میں قربان بمعیة نسیکۃ یعنی ذبیحۃ آتا ہے اس کی جمع قرابین ہے قرآن میں ہے : ۔ إِذْ قَرَّبا قُرْباناً [ المائدة/ 27] ان دونوں نے خدا کی جناب میں کچھ نیازیں چڑھائیں ۔ حَتَّى يَأْتِيَنا بِقُرْبانٍ [ آل عمران/ 183] جب تک کوئی پیغمبر ہمارے پاس ایسی نیاز لے کر آئے اور آیت کریمہ : ۔ قُرْباناً آلِهَةً [ الأحقاف/ 28] تقرب خدا کے سوا معبود ( بنایا تھا ) میں قربان کا لفظ قربان الملک کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی بادشاہ کا ہم نشین اور ندیم خاص کے ہیں اور یہ واحد دونوں پر بولا جاتا ہے اور یہاں چونکہ جمع کے معنی میں ہے اس لئے الھۃ بلفظ جمع لا یا گیا ہے ۔ قبل ( تقبل) قَبُولُ الشیء علی وجه يقتضي ثوابا کا لهديّة ونحوها . قال تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف/ 16] ، وقوله : إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة/ 27] ، تنبيه أن ليس كل عبادة مُتَقَبَّلَةً ، بل إنّما يتقبّل إذا کان علی وجه مخصوص . قال تعالی: إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ ما فِي بَطْنِي مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران/ 35] . وقیل للکفالة : قُبَالَةٌ فإنّ الکفالة هي أوكد تَقَبُّلٍ ، وقوله : فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران/ 35] ، فباعتبار معنی الکفالة، وسمّي العهد المکتوب : قُبَالَةً ، وقوله : فَتَقَبَّلَها[ آل عمران/ 37] ، قيل : معناه قبلها، وقیل : معناه تكفّل بها، ويقول اللہ تعالی: كلّفتني أعظم کفالة في الحقیقة وإنما قيل : فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران/ 37] ، ولم يقل بتقبّل للجمع بين الأمرین : التَّقَبُّلِ الذي هو التّرقّي في القَبُولِ ، والقَبُولِ الذي يقتضي اور تقبل کے معنی کیس چیز کو اس طرح قبول کرنے کے میں کہ وہ عوض کی مقتضی ہو جیسے ہدیہ وغیرہ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف/ 16] یہی لوگ ہیں جن کے اعمال نیک ہم قبول کریں گے إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة/ 27] کہ خدا پرہیز گاروں کی نیاز قبول فرمایا کرتا ۔۔۔۔ ہے میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ ہر عیادت قبول نہیں ہوتی بلکہ وہی قبول کی جاتی ہے جو مخصوص طریق سے ادا کی جائے ۔ فرمایا : ۔ مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران/ 35] تو اسے میری طرف سے قبول فرما کفا لۃ کو قبالۃ کہا جاتا ہے کیونکہ کفا لۃ کے معنی مؤ کی طور پر کسی چیز کو قبول کرلینے کے ہیں تو آیت فتقبل منی میں کفالت کے معنی معتبر ہیں اور لکھے ہوئے عہد کو قبالۃ کہا جاتا ہے اور آیت کر یمہ : ۔ فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران/ 37] پروردگار نے اسے پسند ید گی کے ساتھ قبول فرمایا : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تقبلھا کے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تکلفھا کے ہے یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس نے در حقیقت مجھے بہت بڑی کفالت کا ذمہ دار بنا دیا ہے قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

ہابیل وقابیل کی قربانی قول باری ہے (واتل علیھم نبا ابنی ادم بالحق اذ قربا قربانا اور ذرا ابن آدم کے دو بیٹوں کا قصہ بھی بےکم و کاست سنا دو ، جب ان دونوں نے قربانی کی) حضرت ابن حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) ، مجاہد اور قتادہ کا قول ہے کہ یہ دونوں حضرت آدم (علیہ السلام) کے صلبی بیٹے تھے، ہابیل اور قابیل۔ ہابیل مومن تھا جبکہ قابیل کافر تھا۔ ایک قول ہے کہ وہ ایک برا انسان تھا۔ حسن کا قول ہے کہ یہ دونوں بنی اسرائیل میں سے تھے اس لئے قربانی قبول ہونے کی نشانی بنی اسرائیل سے پہلے نہ تھی۔ قربان یا قربانی اس کارخیر کو کہتے ہیں جس میں اللہ کی رحمت سے مقصود ہوتا ہے۔ قربان قرب سے فلعان کے وزن پر ہے جس طرح فرقان کا لفظ فرق ہے۔ یا عدوان کا لفظ عدو سے اور کفران کا لفظ کفر سے بنا ہے۔ ایک قول ہے کہ دونوں بھائیوں میں سے ایک کی قربانی اس لئے قبول نہیں ہوئی کہ اس نے اپنے بدترین مال سے قربانی پیش کی تھی۔ جبکہ دوسرے نے اپنے بہترین مال سے قربانی دی تھی۔ اس لئے اس کی قربانی قبول ہوگئی۔ ایک قول یہ ہے کہ اس کی قربانی اس لئے رد کردی گئی کہ وہ فاجر تھا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ صرف پرہیزگاروں کی پیش کردہ قربانیاں قبول کرتا ہے۔ ایک قول ہے کہ قربانی کی قبولیت کی علامت یہ تھی کہ ایک آگ آتی اور مقبول قربانی کو کھا جاتی لیکن نامقبول قربانی کو چھوڑ جاتی۔ اسی امر کا ذکر اس قول باری میں ہوا ہے (حتی یاتینا بقربان تاکلہ النار۔ یہاں تک کہ وہ ہمارے پاس ایسی قربانی لے کر آئے جسے آگ آ کر کھاجائے)

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٧ تا ٣١) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ بذریعہ قرآن کریم ان لوگوں کو یہ قصہ بھی سنائیے کہ ہابیل کی قربانی قبول ہوئی، اور قابیل کی قربانی نہ ہوئی تو قابیل نے ہابیل سے کہا میں تجھے قتل کروں گا، ہابیل نے کہا کیوں قابیل نے کہا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے تیری قربانی تو قبول کرلی اور میری قربانی قبول نہیں کی، ہابیل نے کہا جو قول وعمل میں چنے ہوتے ہیں اور ان کے دل پاکیزہ ہوتے ہیں انکا عمل قبول ہوتا ہے اور تو پاکیزہ قلب والا نہیں اس لئے اللہ نے تیری قربانی قبول نہیں کی اور اگر تو ظلم سے مجھ پر دست درازی کرے گا تو میں جوابا ایسا نہیں کروں گا تاکہ میرے خون سے پہلے جو تیرے اور گناہ ہیں اور میرے جو گناہ ہیں تو سب اپنے اوپر لے تاکہ تو جہنمی ہوجائے، کیوں کہ ظلم کرکے جو بھی بےحد حسد کرتے ہیں، ان کی سزا جہنم ہیں ہے۔ تو اس کے دل نے اسے اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کردیا، جس سے سزا کی بنا پر بڑا نقصان اٹھانے والا ہوگیا۔ بحکم الہی ایک کوا دوسرے مرے ہوے کو چھپانے کے لیے زمین کھود رہا تھا تاکہ قابیل بھی دیکھ لے کہ وہ کس طرح اپنے بھائی کی لاش کو مٹی میں چھپائے، تو یہ دیکھ کر وہ کہنے لگا، افسوس ! میں تدبیر سے بھی گیا گزرا ہوں کہ اپنے بھائی کی لاش کو مٹی ہی میں چھپا دینے کی تدبیر تک نہ آئی ؟ چناچہ وہ اپنے بھائی کی لاش نہ چھپا سکنے پر شرمندہ ہوا اور اس کے قتل کرنے پر اسے کوئی شرمندگی نہیں ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧ (وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بالْحَقِّ ٧) (فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِہِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ ط) آدم ( علیہ السلام) کے یہ دو بیٹے ہابیل اور قابیل تھے۔ ہابیل بھیڑ بکریاں چراتا تھا اور قابیل کاشت کار تھا۔ ان دونوں نے اللہ کے حضور قربانی دی۔ ہابیل نے کچھ جانور پیش کیے ‘ جبکہ قابیل نے اناج نذر کیا۔ ہابیل کی قربانی قبول ہوگئی مگر قابیل کی قبول نہیں ہوئی۔ اس زمانے میں قربانی کی قبولیت کی علامت یہ ہوتی تھی کہ آسمان سے ایک شعلہ نیچے اترتا تھا اور وہ قربانی کی چیز کو جلا کر بھسم کردیتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اللہ نے قربانی کو قبول فرما لیا۔ (قَالَ لَاَقْتُلَنَّکَ ط) اس نے کہا میں تمہیں قتل کر کے رہوں گا۔ قابیل نے ‘ جس کی قربانی قبول نہیں ہوئی تھی ‘ حسد کی آگ میں جل کر اپنے بھائی ہابیل سے کہا کہ میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ (قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ ) ۔ ہابیل نے کہا بھائی جان ‘ اس میں میرا کیا قصور ہے ؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کا قاعدہ ہے کہ وہ صرف اپنے متقی بندوں کی قربانی قبول کرتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

48. God's refusal to accept the sacrifice of one of the two brothers was not due to any wrong the other brother might have committed but to his own lack of piety. Hence, rather than attempt to kill his brother he should be concerned with cultivating piety.

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :48 یعنی تیری قربانی اگر قبول نہیں ہوئی تو یہ میرے کسی قصور کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ تجھ میں تقویٰ نہیں ہے ، لہٰذا میری جان لینے کے بجائے تجھ کو اپنے اندر تقویٰ پیدا کرنے کی فکر کرنی چاہیے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

22: پیچھے بنی اسرائیل کی اس نافرمانی کا ذکر تھا کہ جہاد کا حکم آجانے کے باوجود وہ اس سے جان چراتے رہے، اب بتانا یہ مقصود ہے کہ ایک بامقصد جہاد میں کسی کی جان لے لینا تو نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے، لیکن ناحق کسی کو قتل کرنا بڑا زبردست گناہ ہے۔ بنی اسرائیل نے جہاد سے تو جان چرائی، لیکن بہت سے بے گنا ہوں کو قتل کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کیا۔ اس سلسلے میں وہ واقعہ بیان کیا جارہا ہے جو اس دُنیا میں سب سے پہلے قتل کی واردات پر مشتمل ہے، اس واقعے میں قرآنِ کریم نے تو صرف اتنا بتایا ہے کہ آدم علیہ السلام کے دوبیٹوں نے کچھ قربانی پیش کی تھی، ایک کی قربانی قبول ہوئی، دوسرے کی نہ ہوئی، اس پر دوسرے کو غصہ آگیا، اور اس نے اپنے بھائی کو قتل کرڈالا، لیکن اس قربانی کا کیا پس منظر تھا؟ قرآنِ کریم نے اس کی تفصیل نہیں بتائی۔ البتہ مفسرین نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور کچھ دوسرے صحابہ کرام کے حوالے سے اس کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے جن میں سے ایک کا نام قابیل تھا اور ایک کا ہابیل۔ اس وقت چونکہ دُنیا کی آبادی صرف حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد پر مشتمل تھی، اس لئے ان کی اہلیہ کے ہر حمل میں دو جڑواں بچے پیدا ہوتے تھے۔ ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔ ان دونوں کے درمیان تو نکاح حرام تھا، لیکن ایک حمل میں پیدا ہونے والے لڑکے کا نکاح دوسرے حمل سے پیدا ہونے والی لڑکی سے ہوسکتا تھا۔ قابیل کے ساتھ جو لڑکی پیدا ہوئی وہ بڑی خوبصورت تھی، لیکن جڑواں بہن ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ قابیل کا نکاح جائز نہ تھا۔ اس کے باوجود اس کا اصرار تھا کہ اسی سے نکاح کرے۔ ہابیل کے لئے وہ لڑکی حرام نہ تھی، اس لئے وہ اس کے ساتھ نکاح کرنا چاہتا تھا۔ جب دنوں کا یہ اختلاف بڑھا تو فیصلہ اس طرح قرار پایا کہ دونوں کچھ قربانی اﷲ تعالیٰ کے حضور پیش کریں۔ جس کی قربانی اﷲ تعالیٰ نے قبول فرمالی، اس کا دعویٰ برحق سمجھاجائے گا۔ چنانچہ دونوں نے قربانی پیش کی۔ روایات میں ہے کہ ہابیل نے ایک دنبہ قربان کیا، اور قابیل نے کچھ زرعی پیداوار پیش کی۔ اس وقت قربانی کے قبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ آسمان سے ایک آگ آکر قربانی کو کھالیتی تھی، ہابیل کی قربانی کو آگ نے کھالیا، اور اس طرح اس کی قربانی واضح طور پر قبول ہوگئی، اور قابیل کی قربانی وہیں پڑی رہ گئی، جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ قبول نہیں ہوئی۔ اس پر بجائے اس کے کہ قابیل حق کو قبول کرلیتا، حسد میں مبتلا ہو کر اپنے بھائی کو قتل کرنے کے لئے تیار ہوگیا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(27 ۔ 31) ۔ اوپر ذکر تھا کہ نافع بن حرملہ وغیرہ یہود نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت سے انکار کیا اسی ذیل میں اللہ تعالیٰ نے یہ قابیل اور ہابیل کا قصہ فرما کر یہود کی تنبیہ فرمائی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ تورات میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف جو تھے ان اوصاف سے یہ یہود لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسا پہچانتے تھے جس طرح ہر شخص اپنی اولاد کو پہچانتا ہے۔ لیکن فقط اس حد کے سبب سے یہ لوگ آپ کی نبوت کے منکر ہوگئے کہ بنی اسماعیل میں یہ نبی کیوں پیدا ہوئے بنی اسرائیل میں کیوں نہیں ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں سب سے پہلے حسد کرنے والے شخص قابیل کا انجام ان لوگوں کو یاد دلا کر یہ سمجھایا کہ حسد کا آخری انجام برا ہے۔ قابل نے اپنے حقیقی بھائی ہابیل کے حال پر حسد کیا اور پھر آخر کو پچھتایا تم لوگ بھی اللہ کے رسول اپنے چچا زاد بھائی کی حالت پر یونہی حسد کرتے رہو گے تو آخر کو دین و دنیا میں بہت یوں ہی پچھتاؤ گے اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے۔ دنیا کا پچھتاوا تو ہوچکا کہ مدینہ کے گرونواح میں بنی قینقاع۔ بنی نضیر۔ بنی قریظہ یہ تینوں قبیلے یہود کے رہتے تھے۔ جن میں بنی قینقاع۔ بنی نضیر کا اخراج ہو۔ اور بنی قریظہ قتل کئے گئے۔ دیں کا پچھتاوا بھی وقت مقرر پر سب کی آنکھوں کے سامنے آجاوے گا معتبر سند سے تفسیر ابن جریر میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) اور عبد اللہ بن مسعود (رض) کی جو روایتیں ہیں ان کے موافق ہابیل کے قصہ کا حاصل یہ ہے کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) کے زمانے میں بھائی بہن کا نکاح اس ضرورت سے جائز تھا کہ کہ اس وقت سوائے بہن کے اور کوئی غیر لڑکی دنیا میں پیدا نہیں ہوئی تھی۔ ایسے نکاح میں اس قدر احتیاط کرنا ضرور تھا کہ ایک حمل کا بھائی بہن کا نکاح نہیں ہوتا تھا۔ قابیل نے اپنے ساتھ کی پیدا ہوئی بہن سے نکاح کرنا چاہا۔ حضرت آدم ( علیہ السلام) نے اس بات سے انکار کیا۔ جب قابیل نے اصرار کیا تو حضرت آدم ( علیہ السلام) نے یہ فیصلہ کیا کہ قابیل اور ہابیل دونوں بھائی مل کر اللہ کی نیاز کریں جس کی نیاز قبول ہوجائے گی اسی کا نکاح اس لڑکی سے کردیا جائے گا پہلے زمانہ میں نیاز قبول ہوجانے کی یہ نشانی تھی کہ آسمان سے ایک آگ آن کر نیاز کی چیز کو جلا دیا کرتی تھی۔ اس نشانی کے موافق ہابیل کی نیاز قبول ہوگئی اور اسی سبب سے قابیل کو اپنے بھائی ہابیل کی حالت پر ایک رشک اور حسد پیدا ہوگیا جس سے اس نے موقعہ پاکر اپنے بھائی کو مار ڈالا۔ یہ پہلا خون تھا جو دنیا میں واقع ہوا۔ صحیح بخاری و مسلم میں عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کہ قابیل نے پہلے پہل خون ناحق کا طریقہ نکالا اس لئے دنیا میں جو خون ناحق اب ہوتا ہے تو ایک خون ناحق کا وبال قابیل کے نامہ اعمال میں بھی لکھا جاتا ہے ٢ ؎۔ اس وقت تک مردے کے دفن کرنے کا طریقہ دنیا میں جاری نہیں تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک کوے کی معرفت یہ طریقہ قابیل کو سکھایا تاکہ آئندہ بنی آدم میں یہ طریقہ رواج پکڑے جائے۔ قابل کوے سے یہ طریقہ سیکھ کر اپنی نادانی پر بہت پچھتایا کہ ایک جانور کے برابر بھی مجھ کو عقل نہیں۔ اسی نادانی کے سبب سے میں نے اپنے بھائی کو ناحق ما ڈالا۔ ہابیل اللہ کے نبی کے حکم پر تھا اس لئے اس نے اپنے آپ کو متقیوں میں شمار کیا ” تو حاصل کرے میرا گناہ اور اپنا گناہ “۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے ذاتی گناہوں کے علاوہ میرے خون ناحق کا وبال بھی تیرے ذمہ رہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:27) واتل۔ ای واتل یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ اتل تو پڑھ۔ تو تلاوت کر۔ تو پڑھ کر سنا۔ تلاوۃ سے امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ علیہم۔ میں ھم ضمیر جمع مذکر غائب اہل یہود کی طرف راجع ہے۔ کیونکہ انہیں رنج تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے ان کو نبی بنا کر کیوں بھیجا گیا۔ قربا قربانا۔ ماضی تثنیہ مذکر غائب تقویب مصدر۔ دونوں نے قربانی دی۔ تقریب پیش کرنا۔ نزدیک لانا۔ قرب حاصل ہونے کی امیر پر بھینٹ دینا۔ تقریب کا مادہ قرب ہے ۔ قربان اس چیز کو کہتے ہیں جو قرب خداوندی کے حصول کا ذریعہ ہو۔ خواہ کوئی چیز ہو جاندار ہو یا بےجان یا اعمال صالحہ۔ اسلامی عرف میں اس ذبیحہ کو قربان کہا جاتا ہے جو اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے ذبح کیا جاتا ہے۔ اس کی جمع قرابین ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 اوپر کی آیات میں یہ بیان فرمایا تھا کہ مخالفین ہر طرح سے مسلمان پر مصائب وشدائد لانا چاہتے ہیں (وھمو ان یبسطوا الیکم الخ) مگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے مسلمانوں کی حفاظت کررہا ہے اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے لیے کچھ واقعات بیان فرمائے جن سے یہ ثابت کرنا مقصو ہے کہ جس شخص کو بھی اللہ تعالیٰ نے دینی اور دنیاوی نعتوں سے نوا زا ہے لوگ اس سے ہمیشہ حسد وبغض سے پیش آتے رہے ہیں چناچہ یہود و نصاری کی مخالف بھجی ان کے تمرد اور حسد وبضض پر منبی ہے فلا تاس علی القوم الفا سقین لہذا ان پر افسوس اور غم نہ کیجئے اب یہاں ابنی ادم کا قصہ بیان کیا ج و اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے کیونکہ ایک بھائی کا دسرے کو قتل کرنا حسش کی بنا پر تھا۔ الغرض ان جملہ واقعات ان جملہ واقعات سے آنحضرت کو تسلی دینا مقصود ہے اور ہوسکتا ہے کہ بتانا مقصود ہو کہ یہود اپنے زعم میں اللہ تعالیٰ کے محبوت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ( نحن ابنا اللہ واحبنا ہ) اور انبیا کی اولاد ہونے پر ان کو فخر ہے مگر کفر اروحسد وعنادے ساتھ یہ نسبی شرف ان کے لیے مفید نہیں ہوسکتا اور آدم کے دو بیٹوں کا قصہ اس پر شاہد ہے (کبیر۔ قرطبی) اس سے مقصد تحذیر عن الحسد ہے حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ یہ دونوں آدمی بنی اسرائیل سے تھے یہود کا حسد بیان کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ ٰٗ نے بطور مثال یہ واقعہ بیان کیا ہے جیسا کہ من اجل ذلک کتبنا الایہ کی تفریع اس پر دال ہے (کبیر۔ قرطبی) بالحق یعنی یہ کوئی باطل قصہ یا افسانہ نہیں ہے بلکہ امر واقعی ہے (کبیر)4 یہاں تقوی ٰ سے مراد شرک سے بچنا ہے کیونکہ معاصی گناہ قبولیت عمل کو مانع نہیں ہوتے اس پر اہلسنت کا اجما ہے (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 5 ۔ آیات 27 تا 34 ۔ اسرار و معارف : آپ انہیں آدم (علیہ السلام) کے بیٹوں کا واقعہ سنائیے اور درست اور ٹھیک ٹھیک سنائیے جس میں کوئی کمی بیشی نہ ہو یعنی حق کے ساتھ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہی حق ہے اور آپ کا سنانا اللہ کے بتانے یعنی اعلام من اللہ سے ہے جو حق ہوتا ہے اور بیان کرنے والے کا حق سے ہٹنا بعض اوقات قوموں کو عروج وزوال سے متصادم کردیتا ہے کہ ان تاریخی باتوں کے اثرات ہمیشہ دور رس ہوتے ہیں اس لیے ان کے بیان میں حق کا لحاظ رکھنا ضروری ہے اسی طرح پڑھنے اور سننے والے کو بھی تحقیق کرلینا چاہئے یہ تب کی بات ہے جب انہوں نے قربانی پیش کی۔ مفسرین نے بڑی تحقیق و جستجو سے جو واقعات کا خلاصہ پیش کیا ہے۔ وہ کچھ اس طرح ہے کہ جب آدم (علیہ السلام) اور مائی صاحبہ کی ملاقات ہوئی۔ سلسلہ توالد و تناسل چلا تو آپ کو ہمیشہ توام بچے نصیب ہوتے۔ جن میں ایک بیٹا ہوتا اور ایک بیٹی اب دوسرا تو کوئی انسان تھا نہیں صرف انہی کی اولاد تھی تو سگے بہن بھائی میں نکاح کو حلال نہ رکھا مگر تو ام پیدا ہونے والوں کو سگا بہن بھائی قرار دے کر دوسروں کے ساتھ نکاح کی اجازت دیگئی دو بیٹوں کے نام قابیل اور ہابیل لکھے جاتے ہیں قابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی نسبتاً خوبصورت تھی اس نے کہا میں اس سے شادی کروں گا ہابیل اس سے کرے جو اس کے ساتھ پیدا ہوئی ہے آدم (علیہ السلام) نے سمجھایا کہ یہ خلاف شریعت ہے اور ہرگز ممکن نہیں جب نہ مانا تو فرمایا لڑکی میرے پاس رہے گی تم دونوں بھائی قربانی پیش کرو اللہ نے جس کی قربانی قبول فرم الی اس کو دے دوں گا اب اس کا فیصلہ اللہ پر چھوڑ دو ہوتا یہ تھا کہ قربانی کا جانور یا مال کھلے میدان میں رکھ دیتے آسمان سے آگ آتی اور اسے کھا جاتی اگر قبول نہ ہوتی تو پری رہ جاتی چناچہ ہابیل کی قربانی تو قبول ہوگئی اور قابیل کی پڑی رہ گئی اب تو اللہ نے اس کے حق میں فیصلہ کردیا تھا مگر یہ بھی اندر سے نہ مانا اور کہنے لگا آرام سے جینے نہ دوں گا۔ میں تجھے قتل کردوں گا۔ انہوں نے کہا بھائی ! ناراض کیوں ہوتے ہو ؟ اللہ کے ہاں تو قبولیت کے لیے اخلاص شرط ہے میں نے قربانی پیش کی خالص اللہ کے لیے کہ جو بھی فیصلہ وہ گا صدق دل سے قبول کروں گا تو نے پیش کی صرف لڑکی حاصل کرنے کی خاطر کہ تو اس کے حسن پہ مرمٹا تھا تجھے اللہ کی رضا کی پرواہ نہ تھی بظاہر طریقہ تو اللہ کی عبادت کا تھا مگر اندر مقصد ایک عورت کو حاصل کرنا تھا سو اخلاص نہ ہو تو اللہ کریم قبول نہیں فرماتے انہوں نے تمہاری قربانی رد کردی یہ آیہ کریمہ دیکھ کر بڑے بڑے متقی کانپتے تھے کہ خدایا ہمارا عمل رد نہ فرمانا کہ یہ شرط اتنی آسان شرط نہیں ہے اور ہاں اگر تو نے زیادتی کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو یہ تیرا فیصلہ ہے میں پھر بھی تیرے ساتھ اس لیے زیادتی نہیں کروں گا کہ اس سے اللہ پاک ناراض ہوتے ہیں۔ جو سارے جہانوں کے پالنے والے ہیں جان دینا انہیں ناراض کرنے کی نسبت آسان ہے اور میرا خیال یہ بھی ہے کہ اگر تو زیادتی کرے گا تو گنہ گار تو ہوگا ہی لیکن اگر مجھ سے کوئی خطا ہوچکی ہے تو وہ بھی اس وجہ سے کہ تو مجھے ناحق قتل کرنا چاہتا ہے تجھ پر لاد دی جائے گی اور یہ کثرت گناہ تجھے جہنم میں لے جائے گی کہ ظالموں کی سزا یہی ہے اور جہنم ہی ان کا ٹھکانہ ہے کچھ بھائی کی نرمی اور کچھ نفس کی شرارت نے اسے مزید اکسایا اور اس نے اپنے بھائی کو قتل کردیا یہ پہلا قتل تھا اور پہلا فساد تھا جو انسانوں کے درمیان بپا ہوا اور اب اسے وہ ندامت گھیرے ہوئے تھی جو ہر گناہ کے بعد گناہگار کو گھیر لیا کرتی ہے لیکن یہ وہ دور تھا کہ ابھی مرنے اور دفن کرنے کے بارے کسی کو علم نہ تھا۔ سو قتل تو کر بیٹھا اب اسے کیا کرے یہ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اللہ نے ایک کوا بھیج دیا اسے دکھانے کو جس نے پنجوں سے زمین کھو دی اور ایک مردہ کوے کو اس میں ڈال کر اس پر مٹی ڈال دی تو اسے احساس ہوا کہ مجھے تو اس کوے کے برابر بھی عقل نصیب نہ تھی۔ اور بھائی دفن کردیا۔ مگر ندامت اور پچھتاوا اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا۔ اسی لیے ہم نے بنی اسرائیل پر بھی فرض کردیا کہ بغیر شرعی اجازت کے یا شرعی سزا کے علاوہ یا محض فساد بپا کرنے کو کسی نے قتل کردیا تو اس نے ایک آدمی کو ہی قتل نہیں کیا بلکہ وہ انسانیت کا قاتل ہے اور اس پر اس قدر سزا مرتب ہوگی جس قدر انسانیت کے قتل پہ ہونی چاہئے ایسے ہی کسی نے بچا لیا ایک آدمی کو ظالموں سے جبکہ شرعی سزاؤں سے بچانا جو شرعاً واجب القتل ہیں انہیں بچانا جیسے میدان جنگ میں کافر۔ حربی تو خود گناہ عظیم ہے ہاں کسی کو ظلماً قتل ہونے سے بچا لیا تو اس نے انسانیت کو بچا لیا اور اس کے ساتھ مسلسل انبیاء بھیجے اور واضح احکام دے کر بھیجے لیکن بنی اسرائیل کی اکثریت ہمیشہ دست درازی اور زیادتی ہی کرتی رہی کبھی نسب پہ فخر کرتے اور کبھی اپنے جھوٹے اعمال پر حالانکہ انہیں بتا دیا گیا کہ پہلے دن سے شرط قبولیت تقوی اور خلوص ہے نہ نسب کام دے گا اور نہ دکھاوے کا عمل مگر یہ بد نصیب قوم کبھی سدھرنے میں نہیں آتی۔ اسلام اور جرم و سزا : قانون یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ہو یا کوئی دوسرا جو بھی اللہ اور اس کے رسول کا قانون توڑنے پر کمر بستہ ہوجائے اس نے گویا اللہ سے اور اللہ کے رسول سے اعلان جنگ کردیا اب وہ قانون توڑ کر زمین پر فساد بپا کرتا ہے ڈاکے ڈالتا ہے امن عامہ اور لوگوں کے جان مال اور آبرو کے لیے خطرہ ہے تو ایسے لوگوں کے لیے شریعت میں سزا کے تین درجے مقرر ہیں اول حدود۔ ایسے جرائم جن میں حقوق اللہ بندے کے حقوق کی نسبت زیادہ مجروح ہوئے ان پر اللہ نے سزا مقرر کردی اب حاکم شہادت لے سکتا ہے۔ سزا وہی دے جو اللہ نے مقرر کی ہے یہ ڈاکے چوری زناء ، تہمت زما ، اور شراب خوری ان پانچ جرائم پر ہیں اگر ان میں شہادت پوری ہے تو شرعی طریقہ سے پوری سزا دی جائے گی خواہ جس کی چوری ہوئی وہ معاف بھی کردے حد جاری ہوگی۔ اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر لوٹ کی غرض سے قتل کیا لوٹ نہ سکے تو قتل کئے جائیں گے اگر لوٹا بھی تو سولی دئیے جائیں گے۔ اگر صرف لوٹا اور قتل نہ کیا تو مخالف سمت سے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئیے جائیں گے لیکن اگر صرف حملہ کیا نہ قتل کرسکے نہ لوٹ سکے تو قید کردئیے جائیں گے دوسری سزا قصاص ہے جس میں بندے کا حق غالب ہے مثلاً کسی کو قتل کردیا یا زخم لگا دیا تو اگر مقتول کے ورثاء معاف کردیں تو سزا معاف ہوجائے گی۔ مگر یہ ضروری نہیں کہ آزاد چھوڑ دیا جائے کہ دوسروں کی حفاظت بھی تو حکومت کی ذمہ داری ہے سو حاکم اپنی صوابدید پر اسے قید وغیرہ دے سکتا ہے اور تیسری قسم تعزیرات ہیں وہ سزائیں جو اس کے علاوہ جرائم پر قاضی یا عدالت کی صوابدید پر چھور دی گئی ہیں کہ حالات کے مطابق وہ سزا دیں یا عمل کریں اور یہ خاص خیال رہے کہ یہ سارا نظام جرم کے نتیجے میں رسوائی دینے کے لیے ہے نہ کہ مجرم معزز شہری کہ لانا شروع کردیں اور آخرت میں ایسے لوگوں کو بہت بڑا عذاب دیا جائے گا ہاں کوئی ایسا گروہ جو قانون سے حکومت سے بغاوت کرکے قانون شکنی کی راہ اپنا لیتا ہے۔ اگر حکومت کے قابو آنے سے پہلے توبہ کرلے تو حکومت کو چاہئے کہ اسے معاف کردے لیکن گرفتاری کے بعد اگر توبہ بھی کرے تو وہ تو بہ آخرت میں کام آسکتی ہے دنیا کی سزا پوری پائے گا کہ اللہ کی توحید کا عقیدہ اور اس کی عبادت بھی ایک پرسکون معاشرے میں ہی نصیب ہوسکتی ہے ورنہ جہاں لوٹ مچی ہوئی ہو وہاں کسی پر وعظ کا اثر کیا ہوگا اور عبادت کی طرف رغبت کیسے ہوگی ؟ اس لئے معاشرے میں انصاف اور امن کا قیام ہی دین کی اساس اور بنیاد ہے کہ زمین اللہ کی ہے مخلوق بھی اللہ کی ہے رزق بھی اللہ کا ہے۔ تو خوف بھی صرف اللہ کا ہونا چاہئے اور کسی دوسرے کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ جب چاہے دوسروں کے جذبات سے کھیلتا پھرے حکومت اسلامیہ کا اصل فریضہ یہی ہے اسلام نے جرائم کو مختلف اقسام میں بانٹ دیا ہے اور ہر قسم کے لیے اسی درجہ کی سزا تجویز کی ہے جس درجہ کا جرم ہے اس اعتبار سے سزاؤں کے تین درجے ہیں حدود۔ قصاص۔ تعزیرات۔ جہاں بندوں کی نسبت حقوق اللہ زیادہ مجروح ہوتے ہیں ان پر سزا بھی اللہ نے مقرر کردی اور ان سزاؤں کو حدود کہتے ہیں یہ ڈاکہ ، چوری ، زنا ، تہمت زنا ، شراب خوری پانچ جرائم ہیں حدود میں اگر شرائط پوری ہوں شہادت درست ہو تو عدالت سزا میں کمی بیشی کرنے کا اختیار نہیں رکھتی ساتھ توبہ کا دروازہ بھی کھلا ہے لیکن اس سے حد جاری ہوگی آئندہ نیکی نصیب ہوگی یا آخرت کی بخشش نصیب ہوگی۔ ہاں اگر شرائط پوری نہیں کرتا مثلاً چوری کے لیے شرط ہے۔ کہ مال دوسرے کی ملکیت ہو اور اس میں لینے والے کی کوئی شراکت نہ ہو پھر مال محفوظ ہو مثلاً تالے وغیرہ میں بند ہو لینے والے کو قطعاً اجازت نہ ہو اگر آپ نے استعمال کی اجازت دے رکھی ہو اور وہ پکا ہی لے گیا تو سرقہ ثابت نہیں ہوگا۔ غرض فقہ میں تفصیل موجود ہے ان پر سزاؤں کا ذکر ہوچکا ہے اگر جرم ثابت ہوجائے شہادت مہیا ہوجائے تو حد جاری کی جائے گی اگر ذرا سا شبہ ثبوت جرم میں کہ یہ حدود میں آتا ہے یا نہیں ؟ یا شہادت میں ہوگیا تو حد جاری نہ ہوسکے گی مگر مرجم چھوٹ نہیں جائے گا مقدمہ تعزیرات میں چلا جائے گا ہاں ! ثابت ہوجائے تو متعلقہ شخص معاف بھی کردے حد معاف نہ ہوگی جاری کی جائے گی دوسری صورت قصاص کی ہے جس میں بندے کا حق غالب ہے اس میں زخمی کرنے سے لے کر قتل تک شامل ہے دانت کا بدلہ دانت اور قتل کا بدلہ قتل ، انسان کے قتل کے بدلے قاتل کو مطلق انسان ہی سمجھیں گے خواہ کسی بڑے آدمی نے غلام قتل کردیا ہو اس میں اگر وارث معاف کردیں تو سزا معاف ہوجائے گی اگر متعدد وارث ہیں ایک بھی معاف کردے تو قتل تو ٹل گیا اور سارے معاف کردیں تو سب سزا ٹل گئی توبہ کرے تو گناہ بھی معاف مگر مقدمہ خارج نہ ہوگا تعزیرات میں چلا جائے گا جہاں عدالت اور حکومت کا کام ہے کہ حالات کے مطابق چھوڑ دے یا قید کی سزادے یا کچھ جرمانہ بطور نصیحت کرے اور تیسرے تعزیرات وہ جرائم جن میں حقوق اللہ بھی مجروح ہوتے ہیں اور حقوق العباد بھی مگر سب سے زیادہ حکومت کے فرائض متاث رہوتے ہیں ان کی سز احکومت کو تجویز کرنے کا اختیار ہے جو شرعی مقاصد کے خلاف نہ ہو اور نہ دین کی یا سنت کی حدود سے باہر ہو کہ اصل مقصد لوگوں کی اصلاح قیام امن اور لوگوں کے حقوق کی حفاظت ہے اس لیے توبہ کا دروزہ بھی کھلا رکھا اور ہر ہر جملے کے ساتھ اللہ پر ایمان اور اس کی عظمت سے حیاء کی بات کی ہے اور ساتھ ساتھ آخرت کا دائمی اور ابدی زندگی کا تذکرہ بڑے پیار بھرے انداز میں کیا ہے کہ اگر چند سکے یا تھوڑی سی لذت پر دائمی زندگی داؤ پر لگانا پڑے تو ایسا مت کرو۔ رہ گئے وہ لوگ جو یورپ سے متاثر ہیں اور اسلام سزاؤں کو بڑا وحشیانہ کہتے ہیں حالانکہ ایسا کہنا بجائے خود کفر ہے انہیں چاہئے کہ یورپ میں جرائم کا اندازہ کریں باوجود اس کے کہ حکومت کی ساری مشینری پوری محنت سے کام کرتی ہے جرائم دن بدن بڑھتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے وہاں جرائم کی فہرست میں بہت کم اعمال آتے ہیں نہ زناء جرم ہے نہ لواطت نہ جوا ، اگر اس میں زبردستی نہ کی جائے تو بتائیے ! اخلاقایت کی تباہی کے لیے کسی اور ڈائنامائیٹ کی ضرورت باقی ہے ؟ اسلامی قانون کی برکات : اب لے دے کے قتل ڈاکہ اور چوری رہ گئے جن کا اندازہ سب سے زیادہ انسانی حقوق کے علمبردار ملک امریکہ سے لگالیں کہ نیو یارک شہر کا اندازہ دو قتل فی یوم اوسطاً ہے چوری اور لوٹ مار کا یہ حال ہے کہ دس ڈالر نقد جیب میں لے کر جانا اپنی موت کو دعوت دینا ہے اور راستے میں گاڑی پنکچر ہوجائے اور آپ کھڑی کرکے چلے جائیں اگر گھنٹہ بھر بعد لوٹیں گے تو صرف پنجر ملے گا انجن ٹائر ، پہئے ، اے سی ، ریڈیو ٹیپ وغیرہ کچھ نہیں لوگ نکال کرلے جا چکے ہوں گے اور یہ ان کی پوری کوششوں کا حاصل ہے جو وہ جدید آلات سے اور پوری دیانتداری سے کرتے ہیں مگر اسلامی ریاستوں میں ، عرب ریاستوں میں ، جہاں ٹوٹی پھوٹی حدود نافذ ہیں وہاں جا کر دیکھیں کہ ایک ایک دوکان کروڑوں روپے کے مال سے بھری ہے اور شیشے کی بنی ہوئی ہیں ایک لات مارو چور ہوجائے کوئی چوری نہیں کرتا کسی کو کسی پر ہاتھ اٹھانے کی جرات نہیں ہوتی کوئی کسی کا مال نہیں چھین سکتا اور آج بھی روئے زمین پر مثالی امن اگر ہے تو عرب ریاستوں میں ہے ورنہ دنیا کے کسی گوشے میں نہیں وہاں آپ نے کتنے ٹنڈے ، پاؤں کٹے یا ہاتھ کٹے دیکھے ؟ ہمیں اللہ کریم سال میں تین چار بار بھی لے جاتا ہے گذشتہ چودہ برسوں میں ایک واقعہ قصاص کا دیکھنے میں آیا ورنہ جرم نہ ہونے کے برابر ہے تو چیزوں کو یا مال کو ان کے نتائج کے اعتبار سے لکھاجانا چاہئے اگر ایسا ہے تو پھر اسلام ہی ذریعہ نجات ہے اور اسلامی سزائیں ہی قیام امن میں مدد کرسکتی ہیں۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 27 تا 31 لغات القرآن : اتل (تلاوت کر۔ پڑھ۔ سنا) ۔ نبا (خبر۔ واقعہ) ۔ ابنی ادم (آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹے) ۔ بالحق (حق کے ساتھ۔ سچائی کے ساتھ۔ قربا (دونوں نے قریب کیا۔ دونوں نے پیش کیا۔ قربان (نیاز۔ منت) ۔ تقبل (قبول کرلی گئی) ۔ اقتلن (میں ضرور قتل کردوں گا) ۔ یتقبل (قبول کرتا ہے) ۔ بسطت (تونے کھولا ۔ پھیلا دیا) ۔ الی (میری طرف) ۔ باسط (کھولنے والا۔ پھیلانے والا) ۔ اخاف (میں ڈرتا ہوں۔ میں خوف رکھتا ہوں) ۔ تبوء (تو حاصل کرے) ۔ القمی (میرا گناہ) ۔ اصحب النار (جہنم والے) ۔ جزآء (بدلہ) ۔ طوعت (تطویع) ۔ برے کام کو اچھا کرکے دکھانا۔ اس نے رغبت دلائی) اصبح (ہوگیا) ۔ بعث (بھیجا) ۔ غرانا (کوا) ۔ یبحث (کھودتا ہے۔ کریدتا ہے۔ لیری (تاکہ وہ دکھائے) ۔ یواری (وہ چھپاتا ہے۔ سوءۃ (لاش) ۔ یویلتی (اے کاش کہ وہ۔ ہائے افسوس) ۔ عجزت (میں بےبس ہوگیا۔ عاجز ہوگیا) ۔ اواری (میں چھپا دوں) ۔ النادمین (شرمندہ ہونے والے۔ پچھتانے والے۔ تشریح : قرآن جب کسی واقعہ کو بیان کرتا ہے تو سنانے کے لطف کے لئے نہیں بلکہ نصیحت کے لئے یا مثال دے کر بات بہتر سمجھانے کے لئے بیان کرتا ہے۔ اور وہ واقعہ کا صرف ضروری پہلو پیش کرتا ہے۔ انسانی قتل کی تین ہی شکلیں ہیں۔ (1) جہاد فی سبیل اللہ میں (2) قاتل کو قصاص میں اور (3) ذاتی انتقام عناد و فساد کے لئے۔ ان میں پہلی شکل عبادت ہے۔ دوسری شکل انصاف اور تیسری شکل ظلم ہے۔ یہاں پر ذکر اس تیسری صورت کا ہو رہا ہے۔ حضرت آدم کے ایک بیٹے قابیل نے (اپنے چھوٹے بھائی ہابیل سے نکاح کے مسئلہ میں اختلاف کیا تو حضرت آدم (علیہ السلام) نے اختلاف دور کرنے کے لیے یہ صورت تجویز فرمائی کہ تم دونوں اپنی اپنی قربانی اللہ کے لئے پیش کردو جس کی قربانی قبول ہوجائے گی اسی کو مطلوبہ لڑکی مل جائے گی ۔ دونوں نے اپنی اپنی قربانیاں اللہ کو پیش کرنے کے لئے ایک میدان میں رکھ دیں ۔ اس زمانے میں صورت یہ تھی کہ آسمان سے ایک آگ آتی اور اس قربانی کو کھالیتی تھی جسے قبول ہونا تھا چناچہ وہ آگ آئی اور اس نے ہابیل کی قربانی کو کھالیا۔ اس پر قابیل بھڑک اٹھا اور ہابیل کو مارڈالنے کی دھمکی دینے لگا۔ یہاں پر ہابیل نے وہ بات کہی جو تمام اسلامی سچائیوں کا نچوڑ ہے یعنی اللہ اہل تقویٰ کی نذر (عبادت) قبول کرتا ہے ۔ اس کا مطلب تھا کہ اگر تو اپنی تمام امیدوار تمام خوف اللہ اور صرف اللہ سے وابستہ کردیتا تو وہ تیری قربانی ضرور قبول کرلیتا۔ میں چونکہ اہل تقویٰ میں سے ہوں اس لئے میری قربانی قبول ہوگئی ۔ قربانی کے معنی ہیں اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے دنیاکا کوئی مفاد ترک کردینا۔ اپنے جواب میں ہابیل نے یہ بھی بتایا کہ تقویٰ کیا ہے ۔ کہا اگر تو مجھے قتل کرنے کی کوشش کرے گا تو میں تجھ پر ہرگز ہاتھ نہ اٹھاؤں گا۔ قتل ایک لعنتی جرم ہے ۔ تو شوق سے کر اور نتیجہ میں جہنمی بن جا۔ اگر میں کروں گا تو میں جہنمی بن جاؤں گا ۔ میں اس کے لئے تیار نہیں ہوں خواہ میری جان ہی چلی جائے ۔ ہاں قتل کے سوا میں ہر طرح اپنی حفاظت کروں گا۔ تیرے ظلم کا بدلہ اللہ دے گا۔ قابیل نے ہابیل کو مار ڈالا۔ یہ پہلا قتل ہے جو روئے زمین پر ہوا۔ جرائم کی تاریخ گواہ ہے کہ مقتول آسانی سے قتل ہوجاتا ہے لیکن وہ اپنی لاش کی صورت میں قاتل سے زبردست انتقام لیتا ہے۔ لاش کا اس طرح ٹھکانے لگا دیتا کہ جرم بالکل چھپ جائے ناممکن ہے۔ خوب بول کر رہتا ہے۔ قابیل نے مارنے کو تو مار ڈالا لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ لاش کو کس طرح ٹھکانے لگائے ۔ وہ بھائی کی لاش کو پیٹھ پر لا دے پھرا کرتا تھا گویا اپنے قتل کا اشتہار کر رہا تھا۔ آخر ایک دن اس نے دیکھا کہ دو کو وں میں لڑائی ہوئی اور ایک نے دوسرے کو قتل کر ڈالا۔ پھر لاش چھپانے کیلئے اس نے اپنی چونچ سے مٹی کھودنا شروع کردی۔ اور اس میں اس کو دفن کردیا۔ یہ دیکھ کر قابیل بہت پچھتایا کہ اول تو میں نے بھائی کو قتل کردیا دوسرے یہ کہ میں کوے جتنی عقل بھی نہیں رکھتا کہ زمین کھود کر لاش چھپا دیتا۔ یہ جو دفن کا رواج ہے غالباً اسی واقعہ سے شروع ہوتا ہے۔ اور آج بھی اسلامی طریقہ یہی ہے۔ یہاں پر ہابیل کے قتل کا جو واقعہ قرآن میں آیا ہے اس کا پس منظر یہ ہے کہ بنی اسرائیل کئی مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کا منصوبہ بنانے کی کوشش کرچکے تھے۔ یہ فہمائش ہے کہ دیکھو قتل کا نتیجہ دنیا میں بھی خسارہ ہے اور آخرت میں بھی خسارہ ہے ۔ فرمایا اہل تقویٰ مقتول ہوجاتے ہیں لیکن قاتل نہیں بنتے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قابیل اور ہابیل کا واقعہ پڑھنے کا مقصد یہودیوں کو بتانا ہے کہ تمہارے اور قابیل کے کردار میں کوئی فرق نہیں جس طرح وہ اپنے بھائی پر ظلم کرنے کے بعد پچھتایا تھا۔ عنقریب تمہیں بھی اپنے کیے پر پچھتاوا ہوگا۔ کیونکہ تم بھی اپنے بعد والی امت پر ظلم کر رہے ہو۔ قربانی کا لفظ ” قربان “ بروزن ” سلطان “ سے نکلا ہے عربی محاورات میں قربان ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے جیسا کہ امام ابوبکر جصاص مرحوم نے احکام القرآن میں نقل کیا۔ ” والقربان مایقصد بہ القرب من رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ من اعمال البرّ “”’ قربان ہر اس نیک کام کو کہا جاتا ہے جس کا مقصد اللہ کی قربت حاصل کرنا ہو۔ “ لیکن عرف عام میں دسویں ذوالحجہ کو بکرے، دنبے، گائے اونٹ ذبح کرنے کا نام قربانی ہے۔ واقعہ بیان کرنے سے پہلے اس کے متعلق گارنٹی دی گئی کہ واقعہ اور اس کے حقائق اتنے برحق ہیں کہ ان کے بارے میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں یہ ہر لحاظ سے حق پر مبنی ہے۔ اس میں یہ اشارہ بھی ملتا ہے جس طرح قابیل قتل کرنے کے بعد نادم اور پریشان ہوا تھا نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں پر ظلم کرنے والے بھی یقینی طور پر ندامت اور پریشانی کا سامنا کریں گے۔ یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تاریخی واقعات کو من و عن اور بلا کم وکاست بیان کرنا چاہیے۔ جس میں نہ مبالغہ ہو اور نہ ہی کمی کی جائے۔ عَلَیْہِمْ ضمیر کا اشارہ یہود کی طرف ہے جس کا ذکر ان آیات کے سیاق وسباق سے واضح ہے مگر واقعہ میں جو نصیحت ہے وہ سب کے لیے ہے۔ یہود کو اس لیے مخاطب کیا کہ جس طرح آج تم اپنے سے بعد میں آنے والی امت محمدیہ جو کہ رشتۂ انسانی کی ترتیب کے لحاظ سے تمہارے چھوٹے بھائی ہیں تم حسد وبغض کی وجہ سے ان کو ختم کرنے کے درپے ہوچکے ہو بالکل اسی طرح آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں میں صورت حال پیدا ہوئی کہ ایک نے دوسرے کی عزت اور شرف کو تسلیم نہیں کیا بلکہ حسدو دشمنی میں بہت آگے نکل گیا نتیجتاً اللہ کی زمین پر قتل جیساعظیم سانحہ پیش آیا اور سفاکانہ کردار رکھنے والے کو پچھتانا پڑا۔ تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ نسل انسانی کی ابتدائی حالت کے پیش نظر اور انسان کی افزائش کے لیے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ایک حمل میں بچی اور بچہ ہوا کرتے تھے۔ جب یہ جوان ہوجاتے تو بحکم خداوندی پہلے لڑکے کی شادی دوسری لڑکی، دوسرے کی پہلی کے ساتھ یعنی الٹ کرکے ازدواجی تعلق قائم کردیا جاتا تھا۔ جب قابیل کی شادی کا وقت آیاتو اس نے دوسری لڑکی کے ساتھ نکاح سے اس لیے انکار کردیا کہ وہ لڑکی اسے پسند نہ تھی۔ کہنے لگا میں تو اپنی ہم جائی کے ساتھ نکاح کروں گا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے بہت سمجھایا لیکن وہ نہ سمجھا بالآخر حضرت آدم (علیہ السلام) نے حکم دیا کہ تم دونوں اللہ کے راستے میں قربانی دو ۔ جس کی قربانی قبول ہوجائے اس کی خواہش کے مطابق نکاح کردیا جائے گا۔ قابیل نے ناقص اور پھر خدائے ذوالجلال کی رضا کی بجائے صرف مفاد کی خاطر قربانی دی جبکہ ہابیل نے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے قربانی پیش کی چھوٹے یعنی ہابیل کی قربانی قبول اور بڑے کی مسترد کردی گئی تو اس نے حسد اور بغض سے اپنے چھوٹے بھائی کو قتل کردیا۔ دنیا میں چونکہ یہ پہلا قتل تھا اس لیے قاتل کو یہ پتہ نہ تھا کہ بھائی کی لاش کس طرح دفنائے۔ بالآخر اللہ نے کوّے کو حکم دیا تو کوّے نے دوسرے کوّے کو مار کر اس کے سامنے مٹی میں دفن کیا اس کو دیکھ کر قابیل نے اپنے مقتول بھائی کو دفن کیا اور پھر حسرت کے ساتھ کہنے لگا ہائے افسوس ! میں توکوّے سے بھی بدتر نکلا۔ لہٰذا روز اول سے بتادیا گیا کہ قربانی اور تمام اعمال کی قبولیت کا انحصار تقوی پر ہوگا۔ مسائل ١۔ ہر نیک کام اخلاص سے کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ متقین کے اعمال قبول کرتا ہے۔ ٣۔ آدم (علیہ السلام) کے ایک بیٹے کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی مسترد کردی گئی۔ ٤۔ نیکی قبول کرنا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں قربانی کا بیان : ١۔ آدم کے دو بیٹوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور قربانی پیش کی۔ (المائدۃ : ٢٧) ٢۔ ہر امت کے لیے ایک طریقہ مقرر کیا گیا ہے۔ (الحج : ٣٤) ٣۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کی قربانی پیش کی۔ (الصافات : ١٠٢ ) ٤۔ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔ (الکوثر : ٢) ٥۔ قربانی کے اونٹوں کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے شعائر بنایا ہے۔ (الحج : ٣٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٢٧ تا ٣١۔ یہ ایک قصہ ہے جو بطور نمونہ شر اور ظلم یہاں لایا گیا ہے ۔ یہ ایک ایسے صریح ظلم کا نمونہ ہے جس کے لئے کوئی وجہ جواز نہ ہو اور یہی قصہ ایک ایسا نمونہ بھی پیش کرتا ہے جو نیک نفسی اور رواداری کا اعلی نمونہ ہے اور یہ نمونہ نہایت ہی پاک طینت اور صلح کل نمونہ ہے ۔ اس قصے میں یہ دونوں نمونے ایک دوسرے کے بالمقابل پیش کئے جاتے ہیں ۔ ہر اک اپنے مزاج کے مطابق اور اپنی فطرت کے مطابق عمل کرتا ہے ۔ یہ قصہ اس جرم کی نقشہ کشی کرتا ہے ‘ جو بدی اور صریح ظلم کا مظہر ہے اور اسے پڑھ کر انسانی ضمیر میں جوش آتا ہے اور وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ ایسے صریح ظلم کے خلاف قانون قصاص ضروری ہے ۔ ایک عادلانہ قانون نظام ہی اس بدی صریح ظلم کے ارتکاب سے روکتا ہے جس کے بعد یہ بدی ظلم کے ارتکاب سے رک جائے گی اور اسے ارتکاب جرم سے خوفزدہ کرکے باز رکھا جاسکے گا ۔ اگر اس تخویف کے بعد بھی بدی جرم کا ارتکاب کرتی ہے تو اسے منصفانہ سزا کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ وہی سزا جو اس بدی کے جرم کے بالکل مناسب ہو ‘ تاکہ معاشرے کے نیک نفس لوگوں کو بچایا جائے اور نیک نفس لوگوں کی جان ومال محفوظ ہوں اس کے لئے اس قصے میں جس قسم کے نیک نفس لوگوں کا نمونہ پیش کیا گیا ہے وہ اس کے مستحق ہیں کہ انہیں تحفظ دیا جائے ‘ وہ زندہ رہ سکیں ‘ امن سے رہیں اور ایک عادلانہ قانونی نظام وانتظام کے تحت رہیں ۔ قرآن کریم نے ان دو بھائیوں کے نام اور زمان ومکان کے بارے میں تفصیلات نہیں دی ہیں ‘ اگرچہ بعض روایات اس سلسلے میں ہابیل اور قابیل کے بارے میں وارد ہیں ۔ یہ دونوں حضرت آدم کے بیٹے تھے اور ان کے درمیان تنازعہ کی تفصیلات بھی ان روایات میں دی گئی ہیں کہ ان دونوں کا تنازعہ دو بہنوں کے سلسلے میں تھا ۔ لیکن ہم اس قصے کو اسی طرح مجمل چھوڑنے ہی کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ یہ تمام روایات قطعی الثبوت نہیں ہیں ۔ یہ اہل کتاب سے لی گئی ہیں ۔ یہ قصہ عہد قدیم میں آیا ہے جہاں دونوں کے نام بھی لئے گئے ہیں اور اس میں اس واقعہ کا زمان ومکان بھی دیا گیا ہے جیسا کہ روایات میں آتا ہے ۔ اس قصے کے متعلق جو ایک صحیح حدیث وارد ہے اس میں بھی تفصیلات نہیں دی گئیں ۔ یہ روایت حضرت ابن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” کہ کوئی شخص بھی اگر ظلما قتل ہوگا تو حضرت آدم کے پہلے بیٹے پر اس خون کی ذمہ داری میں سے ایک حصہ ہوگا کیونکہ اس نے سب سے پہلے قتل انسان کا رواج ڈالا ۔ “ (روایت امام احمد) اس کا سلسلہ سند یہ ہے اعمش ‘ عبداللہ ابن مرہ ‘ مسروق ‘ عبداللہ ابن مسعود (رض) ابو داؤد کے سوا دوسرے محدثین نے بھی اسے روایت کیا ہے ۔ اس کے بارے میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ واقعہ حضرت انسان کی زندگی کے ابتدائی دنوں میں پیش آیا ۔ اور یہ قتل عمل کا پہلا واقعہ تھا اور قاتل کو اس قدر بھی معلوم نہ تھا کہ وہ اب میت کو کس طرح دفنائے ۔ اس قصے کو اسی مجمل چھوڑنا جس طرح قرآن کریم میں آیا ہے ۔ مقصد قصہ پر کوئی اثر نہیں ڈالتا ۔ جس غرض کے لئے اسے لایا گیا ہے وہ اچھی طرح سے پوری ہوجاتی ہے اور اس کے اشارات وہدایات پوری طرح سمجھ میں آجاتے ہیں ۔ قصے کے جو بنیادی مقاصد ہیں ‘ روایات کی تصیلات ان پر کوئی چیز زیادہ نہیں کرتی اس لئے ہم بھی اسے یہاں چھوڑ دیتے ہیں۔ نہ تفصیلات کی ضرورت ہے اور نہ اختصار کی ۔ (آیت) ” وَاتْلُ عَلَیْْہِمْ نَبَأَ ابْنَیْْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَاناً فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِہِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّکَ قَالَ إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ (27) ” اور ذرا انہیں آدم کے دو بیٹوں کا قصہ بھی بےکم وکاست سنا دو ۔ جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی نہ کی گئی۔ اس نے کہا ” میں تجھے مار ڈالوں گا ۔ “ اس نے جواب دیا ” اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں قبول کرتا ہے ۔ یعنی ان لوگوں کے ان دو نمونوں میں سے دونوں کی مثال پیش کرو ‘ یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے ان واقعات کے بعد سچائی پر مبنی یہ دو نمونے ان کے سامنے رکھو ۔ یہ قصہ اپنی روایت کے اعتبار سے بالکل سچا ہے اور یہ اس لحاظ سے بھی حق ہے کہ انسانی فطرت کے اندر یہ دو نمونے ہر زمان ومکان میں پائے جاتے ہیں ۔ پھر یہ اس پہلو سے بھی حق ہے کہ یہ ایک منصفانہ نظام عدل کا تقاضا کرتا ہے جس سے شرپسندلوگ ارتکاب جرم سے باز آجائیں ۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کے ان دو بیٹوں کے حالات ایسے تھے کہ ان میں کسی ایک کا قتل کے لئے آمادہ ہوجانا اپنے اندر کوئی جواز نہیں رکھتا ۔ یہ دونوں اللہ کے مطیع فرمان ہیں۔ دونوں قربانی کرتے ہیں ۔ (آیت) ” اذ قربا قربانا “۔ (٥ : ٢٧) (جب دونوں نے قربانی کی) لیکن ہوا یہ کہ ایک کی قبول کی گئی اور دوسرے سے قبول نہ ہوئی (آیت) ” فتقبل من احدھما ولم یتقبل من الاخر “۔ (٥ : ٢٧) یہاں فتقبل من فعل مجہول استعمال ہوا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ قربانی کا قبول کیا جانا یا نہ کیا جانا ‘ ایک ایسا معاملہ ہے جو غیبی قوت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور اس کی کیفیت بھی غیبی ہے ۔ غائب کا صیغہ استعمال کرنے کے دو فائدے ہیں ۔ ایک یہ کہ ہمیں اس قبولیت اور عدم قبولیت کی کیفیت کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ تفاسیر میں ان آیات کی تشریح میں بہت سے قصے بیان کئے گئے ہیں اور یہ قصے عہد نامہ قدیم سے لئے گئے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس کی قربانی قبول ہوئی ‘ اس نے کوئی جرم نہ کیا تھا کہ اس کے ساتھ عناد کیا جائے اور اس کے قتل کی سازش کی جائے ‘ اس لئے کہ قربانی کی قبولیت میں اس کا کوئی دخل نہ تھا ‘ بلکہ یہ قبولیت انسانی نقطہ نظر سے ایک غیبی قوت کی جانب سے ایک غیبی کیفیت کے مطابق ہوئی ۔ یہ قوت ان دونوں کے ادراک سے وراء ہے اور اس کی مشیت بھی انسان کی میشت سے وارء ہے ۔ لہذا اس فعل پر اپنے بھائی کا گلا گھوٹنے کا اس کے پاس کوئی جواز نہ تھا یا یہ جواز بھی نہ تھا کہ بھائی کے قتل کے لئے کوئی جوش میں آجائے ۔ اس معاملے میں قتل پر آمادہ ہوجانا کسی بھی سلیم الفطرت انسان سے مستبعد ہے کیونکہ معاملہ عبادت کا ہے اور قبولیت اور عدم قبولیت قوت غیبہ کی طرف سے ہے جس میں کسی انسان کا کوئی داخل نہیں ہے ۔ (آیت) ” قال لاقتلنک “۔ (٥ : ٢٧) (میں تجھے مار ڈالوں گا) نظر آتا ہے کہ قاتل اس فعل کے ارتکاب پر تلا ہوا تھا اس لئے اس نے نہایت ہی مؤکد صیغہ استعمال کیا ہے ۔ قاتل یہاں جوش و خروش کا اظہار بغیر کسی معقول وجہ کے کر رہا ہے یعنی اس کا یہ غصہ بالکل بلاوجہ ہے ۔ اس کی اگر کوئی وجہ ہے تو وہ اس کا خبیث ارادہ اور برا احساس ہے ‘ جو حسد اور بغض سے بھرا ہوا شعور ہے جس کی نشوونما کسی پاک نفس میں نہیں ہوتی ۔ قصے کے اس منظر میں پہلے مرحلے میں ہم اپنے آپ کو ظلم کے سامنے پاتے ہیں اگرچہ آیت مکمل نہیں ہوئی لیکن اس لفظ ہی سے ارتکاب جرم کے اشارے مل جاتے ہیں ۔ اب بات آگے بڑھتی ہے اور اس ظلم کو مزید بھیانک شکل دے دی جاتی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ دوسرا نمونہ قابل قبول ہے پاک فطرت اور صلح کل ہے ۔ (آیت) ” قال انما یتقبل اللہ من المتقین “۔ (٥ : ٢٧) (بےشک اللہ متقیوں کی نذریں قبول کرتا ہے) یہاں علی الاعلان بات کو اصلیت اور حقیقت کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے ۔ ایمان پر بھروسہ کیا جاتا ہے جسے قبولیت حاصل ہوتی ہے اور نہایت ہی لطیف انداز میں ظالم کو متوجہ کیا جاتا ہے کہ وہ اللہ سے ڈرے اور اسے اس راہ کی طرف بلایا جاتا ہے جو قبولیت کی راہ سے اس صورت حال کی طرف بھی لطیف اشارہ کردیا جاتا ہے جو اس کے دل میں کھٹک رہی ہے اور اسے جوش دلاتی ہے اور بدی پر آمادہ کرتی ہے ۔ اس کے بعد مومن بھائی ‘ جو خدا ترس ‘ صلح کل اور پرامن شخصیت ہے وہ اپنے شریر بھائی کے دل میں پائے جانے والی وحشیانہ شرپسندی کے جوش کو کس طرح کم کرنا چاہتا ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا واقعہ، ایک کا دوسرے کو قتل کرنا، پھر اس کی لاش کو لئے ہوئے پھرنا یہاں قرآن مجید آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا واقعہ نقل فرمایا ہے مشہور یہی ہے کہ یہ دونوں حضرت آدم (علیہ السلام) کے صلبی بیٹے تھے اور آیت کریمہ کے ظاہری الفاظ بھی اس پر دلالت کرتے تھے۔ کیونکہ حقیقی معنی صحیح ہوسکتے ہوں تو مجازی معنی لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی، اگرچہ بعض لوگوں نے یہ بھی کہا کہ یہ دونوں بھائی (قاتل ومقتول) بنی اسرائیل میں سے تھے اور مجازاً دوردراز پوتوں (اِبْنَیْ اٰدَم) (آدم کے دو بیٹوں) سے تعبیر فرمایا ہے۔ قصہ کیوں پیش آیا اور اس کے اسباب و محرکات کیا تھے اس کے بارے میں جو کچھ ملتا ہے وہ سب اسرائیلی روایات سے ماخوذ ہے قرآن کریم میں اجمالی قصہ ذکر فرمایا ہے اور پھر آخر میں بطور عبرت (مِنْ اَجْلِ ذَالِکَ کَتَبْنَا) (الیٰ اخرہ) فرما دیا۔ تفصیل کے ساتھ قصہ معلوم نہ ہو تب بھی مضمون عبرت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مفسر ابن کثیر ج ٢ ص ٤١ نے بحوالہ سدی حضرت ابن عباس (رض) و ابن مسعود (رض) وغیرھم سے نقل کیا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی جو اولاد ہوتی تھی اس میں ہر بار ایک لڑکا اور ایک لڑکی جوڑا پیدا ہوتے تھے (اس زمانے میں نسل بڑھانے کی ضرورت تھی اور اولاد کا آپس میں نکاح کرنے کے لئے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا کہ ایک ہی شخص کی صلبی اولاد کا آپس میں نکاح کردیا جائے تاہم اتنافرق ضرور کرتے تھے کہ ایک ہی بطن سے ایک ساتھ جو جڑواں لڑکا لڑکی پیدا ہوتے ان کا آپس میں نکاح نہیں کرتے تھے بلکہ) ایک بطن کے لڑکے کے ساتھ جو لڑکی پیدا ہوتی تھی اس کا نکاح دوسرے بطن سے پیدا ہونے والے لڑکے سے کیا جاتا تھا، حتی کہ دو لڑکے پیدا ہوئے ایک کا نام قابیل تھا جو کھیتی کرنے والا تھا اور دوسرے کا نام ہابیل تھا جس کے پاس دودھ دینے والے مویشی تھے، قابیل بڑا تھا اور اس کے ساتھ جو بہن پیدا ہوئی تھی وہ ہابیل کیساتھ پیدا ہونے والی بہن سے زیادہ خوبصورت تھی ہابیل نے چاہا کہ قابیل کی بہن سے نکاح ہوجائے اور ضابطہ کے مطابق اس کا نکاح ہابیل سے ہی ہونا چاہئے تھا۔ قابیل اس بات پر نہ مانا اور اس نے کہا کہ یہ میری بہن ہے میرے ساتھ پیدا ہوئی ہے جو تیرے ساتھ پیدا ہونے والی بہن سے زیادہ خوبصورت ہے اور میں اس کا زیادہ مستحق ہوں کہ میرا نکاح اس سے ہو (قانون شرعی کے خلاف نفس کی خواہش پر عمل کرنے کا ارادہ کیا) ۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے قابیل سے کہا کہ یہ لڑکی جو تیرے ساتھ پیدا ہوئی ہے اس کا نکاح ہابیل سے کردیں لیکن قابیل نہیں مانا پھر جھگڑے کو ختم کرنے کے لئے دونوں نے الگ الگ اللہ کی بارگاہ میں نیاز پیش کی کہ جس کی نیاز قبول ہوجائے وہی اس لڑکی سے نکاح کرنے کا حق دار ہوگا۔ دونوں نے جب نیاز پیش کی تو ہابیل کی نیاز قبول ہوگئی۔ آسمان سے آگ آئی اور اس کو جلا دیا قابیل کی نیاز رکھی رہ گئی۔ جب اس کی نیاز قبول نہ ہوئی اور آسمانی فیصلہ بھی اس کے خلاف ہوگیا تو کٹ حجتی کرنے والوں کی طرح ہابیل سے کہا کہ میں تجھے قتل کر دوں گا اس میں ہابیل کا کچھ قصور نہ تھا اس کی نیاز قبول ہونے کا فیصلہ اللہ کیطرف سے تھا لیکن قابیل غصہ ہونے لگا جیسا کہ ہٹ دھرموں کا طریقہ ہے۔ ضدی آدمی جب دلیل سے عاجز ہوجاتا ہے تو فریق مخالف سے کہتا کہ ہے میں تجھے ماروں گا یا قتل کر دوں گا۔ ہابیل نے متانت کے ساتھ جواب میں کہا کہ (اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ ) (اللہ تعالیٰ متقی بندوں سے ہی قبول فرماتا ہے) بات کہنے کا کیسا اچھا اسلوب اختیار کیا نہ تو اپنی تعریف کی کہ میں مخلص ہوں اور نہ قابیل سے یوں کہا کہ تو مخلص نہیں ہے اور ایک قانونی بات بتادی اور اچھے پیرا یہ میں یہ سمجھا دیا کہ اگر تو متقی ہوتا تو تیری نیاز قبول ہوجاتی۔ ہابیل نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اگر تو نے مجھے قتل کرنے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو میں تجھے قتل کرنے کے لئے تیرے طرف ہاتھ نہ بڑھاؤں گا میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو رب العالمین ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ ہابیل قابیل سے قوت اور طاقت میں زیادہ تھا لیکن اس نے مقتول ہوجانا گوارہ کرلیا۔ اور اپنے بھائی پر ہاتھ اٹھانا گوارہ نہ کیا۔ دفاع کے لئے جوابی طور ہتھیار اٹھانا مشروع تو ہے لیکن ہابیل نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ مظلوم ہو کر مقتول ہوجانا قاتل ہونے سے بہتر ہے صبر کرلیا ( یہاں بعض چیزوں میں ہماری شریعت کے اعتبار سے بعض اشکلات بھی سامنے آسکتے ہیں لیکن چونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ تمام انبیاء کی شرائع احکام کے اعتبار سے متفق ہوں اس لئے یہ اشکال رفع ہوجاتے ہیں) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

56 وَاتْلُ عَلَیْہِمْ الخ یہ دشمن کے مقابلے میں خاموش بیٹھ رہنے اور اس کے حملے کی مدافعت نہ کرنے کے نتیجے کا دوسرا نمونہ ہے۔ یہاں حضرت آدم (علیہ السلام) کے دو صلبی بیٹوں ہابیل اور قابیل کا واقعہ بیان فرمایا۔ قابیل نے ہابیل کو قتل کرنے کیلئے ہاتھ اٹھایا تو ہابیل نے اس کی مدافعت نہ کی نتیجہ یہ ہوا کہ وہ شہید کردیا گیا اس سے مسلمانوں کو تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ دشمن کے مقابلے میں خاموش مت بیٹھو دشمن کے مقابلے میں جہاد کرو۔ نہ خود مقتول بنو نہ دوسرے مسلمانوں کو قتل ہونے دو اگر تم نے دشمن سے جہاد نہ کیا اور خاموش بیٹھے رہے تو مارے جاؤ گے جس طرح ہابیل خاموشی کی وجہ سے قابیل کے ہاتھوں مارا گیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 5 اور اے پیغمبر ! آپ ان اہل کتاب کو حضرت آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا قصہ صحیح طور پر پڑھ کر سنایئے اور ہابیل و قابیل کا واقعہ ان کو ٹھیک ٹھیک طرح پڑھ کر سنا دیجیے۔ یہ قصہ اس وقت ظہور پذیر ہوا جب کہ ان دونوں نے اللہ تعالیٰ کے نام کی نیاز پیش کی ۔ سو ان دونوں میں سے ایک کی نیاز تو قبول ہوگئی یعنی ہابیل کی اور دوسرے کی مقبول نہیں ہوئی یعنی قابیل کی اس پر وہ دوسرا یعنی قابیل ہابیل سے کہنے لگا کہ میں ضرور تجھ کو قتل کر ڈالوں گا ۔ ہابیل نے جواب دیا میرا اس میں کیا قصور ہے اللہ تعالیٰ تو بس پرہیز گاروں ہی کا عمل قبول کیا کرتا ہے۔ (تیسیر) نباء کے معنی خبر انباء کے معنی خبریں ہم نے ترجمہ میں واقعہ اور قصہ کہا ہے۔ علیھم سے مراد اہل کتاب ہیں اور ان ہی کو یہ قصہ بطور توبیخ و تہدید سنانا مقصود ہے اور ہوسکتا ہے کہ عام مسلمان یا عام انسان مراد ہوں کیونکہ ہر شخص کے لئے موعظت اور نصیحت کا سامان اس قصے میں موجود ہے۔ آدم سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں اگرچہ اور قول بھی ہے لیکن راجح یہی ہے کہ حضرت آدم مراد ہیں اور یہ قتل و خونریزی کا بنی نوع انسان میں پہلا واقعہ ہے۔ بالحق کا مطلب یہ ہے کہ متلبسا بالحق اور متضمنا بالحق یعنی وہ واقعہ جو مشتمل برحق اور سچ پر مبنی ہے۔ متقین کے معنی ہم نے پرہیز گار کئے ہیں ہوسکتا ہے کہ یہاں پرہیز گار سے وہ شخص مراد ہو جو باہمی نزاع میں حق کا طرفدار اور حق کا حامی ہو باطل کا طرفدار نہ ہو جو کسی دوسرے کا حق دبانے سے پرہیز کرے وہ متقی ہے۔ غرض ! آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیغمبر آپ ان لوگوں کو آدم کے دونوں بیٹوں کا قصہ جو صحیح اور حق ہے پڑھ کر سنا دیجیے وہ واقعہ اس وقت کا ہے جبکہ ان دونوں لڑکوں نے ایک ایک نیاز اللہ کے لئے پیش کی اور پہاڑ پر یا قربان گاہ پر لا کر رکھی اور ان میں سے ایک کی جو حق پر تھا مقبول ہوگئی دوسرے کی قبول نہ کی گئی کیونکہ وہ ناحق پر تھا اور اگر دونوں کی مقبول ہوجاتی تو حق و باطل کا فیصلہ نہ ہوتا اس سے وہ لڑکا جو ناحق پر تھا غصے اور حسد سے ناراض ہو کر بولا کہ میں ضرور تجھ کو قتل کر دوں گا اس پر اس نے کہا کہ بھائی اس میں میرا کیا قصور ہے قربانی کا قبول ہونا نہ ہونا تو تقویٰ اور پرہیز گاری پر ہے تو ناحق پر ہے اس لئے تیری نیاز مقبول نہیں ہوئی اور میں حق پر، خدا سے ڈرتا ہوں کسی کا حق مارنے سے پرہیز کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں ہی کے عمل قبول فرماتا ہے، لیکن اگر باوجود ناحق پر ہونے کے بھی ایسا کیر گا تو تو ذمہ دار ہوگا ہابیل کا اپنے کو متقی کہنا تفاخر کے طور پر نہ تھا بلکہ تحدث نعمت کے لئے تھا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں حضرت آدم کی اولاد ہونے لگی ایک حمل میں دو شخص بیٹا اور بیٹی اس وقت میں بہن بھائی کا ناکح روا تھا ضرورتاً حضرت آدم تو بھی احتیاط کرتے ایک حمل کے بھائی بہن نہ ملاتے ایک بیٹی حضرت آدم ہابیل کو دینے لگے اسی کو قابیل لگا مانگنے انہوں نے دونوں کی خاطر رکھی کہا تم دونوں اللہ کی نیاز کرو۔ ہابیل جو نبی کے حکم پر تھا اس کی نیاز غیب سے آتش آ کر جلا گئی یعنی قبول ہوئی قابیل کی نیاز چھوڑ گئی قابیل نے حسد سے چاہا کہ ہابیل کو مار ڈالے آخر مار ڈالا اب تک جہاں خون ناحق ہوتا ہے۔ اس پر بھی ایک وبال چڑھتا ہے موضح القرآن جب ہابیل کو یہ معلوم ہوگیا کہ قابیل مجھ کو ضرور قتل کرے گا تو انہوں نے فرمایا اس کو اللہ تعالیٰ آگے بیان فرماتا ہے۔ (تسہیل)