Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 38

سورة المائدة

وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَۃُ فَاقۡطَعُوۡۤا اَیۡدِیَہُمَا جَزَآءًۢ بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ﴿۳۸﴾

[As for] the thief, the male and the female, amputate their hands in recompense for what they committed as a deterrent [punishment] from Allah . And Allah is Exalted in Might and Wise.

چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹ دیا کرو یہ بدلہ ہے اس کا جو انہوں نے کیا ، عذاب اللہ کی طرف سے اور اللہ تعالٰی قوت و حکمت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Necessity of Cutting off the Hand of the Thief Allah says; وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُواْ أَيْدِيَهُمَا ... And (as for) the male thief and the female thief, cut off their hands, Allah commands and decrees that the hand of the thief, male or female be cut off. During the time of Jahiliyyah, this was also the punishment for the thief, and Islam upheld ... this punishment. In Islam, there are several conditions that must be met before this punishment is carried out, as we will come to know, Allah willing. There are other rulings that Islam upheld after modifying these rulings, such as that of blood money for example. When Does Cutting the Hand of the Thief Become Necessary In is recorded in the Two Sahihs that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, لَعَنَ اللهُ السَّارِقَ يَسْرِقُ الْبَيْضَةَ فَتُقْطَعُ يَدُهُ وَيَسْرِقُ الْحَبْلَ فَتُقْطَعُ يَدُه May Allah curse the thief who steals an egg and as a result his hand is cut off, and who steals rope and as a result his hand is cut off. Al-Bukhari and Muslim recorded that Aishah said that the Messenger of Allah said, تُقْطَعُ يَدُ السَّارِقِ فِي رُبْعِ دِينَارٍ فَصَاعِدًا The hand of the thief shall be cut off if he steals a quarter of a Dinar or more. Muslim recorded that Aishah, may Allah be pleased with her, said that the Messenger of Allah said, لاَا تُقْطَعُ يَدُ السَّارقِ إِلاَّ فِي رُبْعِ دِينارٍ فَصَاعِدًا The hand of the thief shall only be cut off if he steals a quarter of a Dinar or more. This Hadith is the basis of the matter since it specifies (that the least amount of theft that deserves cutting the hand) is a quarter of a Dinar. So this Hadith fixes the value. And saying that it is three Dirhams is not a contradiction. This is because the Dinar in question was equal to twelve Dirhams, so three Dirhams equaled a fourth of a Dinar. So in this way it is possible to harmonize these two views. This opinion was reported from Umar bin Al-Khattab, Uthman bin Affan, Ali bin Abi Talib - may Allah be pleased with them - and it is the view of Umar bin Abdul-Aziz, Al-Layth bin Sa`d, Al-Awza`i, and Ash-Shafii and his companions. This is also the view of Imam Ahmad bin Hanbal and Ishaq bin Rahwayh in one of the narrations from him, as well as Abu Thawr, and Dawud bin Ali Az-Zahari, may Allah have mercy upon them. As for Imam Abu Hanifah and his students Abu Yusuf, Muhammad and Zufar, along with Sufyan Ath-Thawri, they said that; the least amount of theft that deserves cutting off the hand is ten Dirhams, whereas a Dinar was twelve Dirhams at that time. The first ruling is the correct one, that the least amount of theft is one forth of a Dinar or more. This meager amount was set as the limit for cutting the hand, so that the people would refrain from theft, and this is a wise decision to those who have sound comprehension. Hence Allah's statement, ... جَزَاء بِمَا كَسَبَا نَكَالاً مِّنَ اللّهِ ... as a recompense for that which both committed, a punishment by way of example from Allah. This is the prescribed punishment for the evil action they committed, by stealing the property of other people with their hands. Therefore, it is fitting that the tool they used to steal the people's wealth be cut off as punishment from Allah for their error. ... وَاللّهُ عَزِيزٌ ... And Allah is All-Powerful, (in His torment), ... حَكِيمٌ All-Wise. in His commands, what he forbids, what He legislates and what He decrees. Repentance of the Thief is Acceptable Allah said next, فَمَن تَابَ مِن بَعْدِ ظُلْمِهِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللّهَ يَتُوبُ عَلَيْهِ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ   Show more

احکام جرم و سزا حضرت ابن مسعود کی قرأت میں ( فاقطعوا ایمانھما ) ہے لیکن یہ قرأت شاذ ہے گو عمل اسی پر ہے لیکن وہ عمل اس قرأت کی وجہ سے نہیں بلکہ دوسرے دلائل کی بناء پر ہے ۔ چور کے ہاتھ کاٹنے کا طریقہ اسلام سے پہلے بھی تھا اسلام نے اسے تفصیل وار اور منظم کر دیا اسی طرح قسامت دیت فرائض کے مسائل بھی...  پہلے تھے لیکن غیر منظم اور ادھورے ۔ اسلام نے انہیں ٹھیک ٹھاک کر دیا ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ سب سے پہلے دو یک نامی ایک خزاعی شخص کے ہاتھ چوری کے الزام میں قریش نے کاٹے تھے اس نے کعبے کا غلام چرایا تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ چوروں نے اس کے پاس رکھ دیا تھا ۔ بعض فقہاء کا خیال ہے کہ چوری کی چیز کی کوئی حد نہیں تھوڑی ہو یا بہت محفوظ جگہ سے لی ہو یا غیر محفوظ جگہ سے بہر صورت ہاتھ کاٹا جائے گا ۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ یہ آیت عام ہے تو ممکن ہے اس قول کا یہی مطلب ہو اور دوسرے مطالب بھی ممکن ہیں ۔ ایک دلیل ان حضرات کی یہ حدیث بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ چور پر لعنت کرے کہ انڈا چراتا ہے اور ہاتھ کٹواتا ہے رسی چرائی ہے اور ہاتھ کاٹا جاتا ہے ، جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ چوری کے مال کی حد مقرر ہے ۔ گو اس کے تقرر میں اختلاف ہے ۔ امام مالک کہتے ہیں تین درہم سکے والے خالص یا ان کی قیمت یا زیادہ کی کوئی چیز چنانچہ صحیح بخاری مسلم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ڈھال کی چوری پر ہاتھ کاٹنا مروی ہے اور اس کی قیمت اتنی ہی تھی ۔ حضرت عثمان نے اترنج کے چور کے ہاتھ کاٹے تھے جبکہ وہ تین درہم کی قیمت کا تھا ۔ حضرت عثمان کا فعل گویا صحابہ کا جماع سکوتی ہے اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پھل کے چور کے ہاتھ بھی کاٹے جائیں گے ۔ حنفیہ اسے نہیں مانتے اور ان کے نزدیک چوری کے مال کا دس درہم کی قیمت کا ہونا ضروری ہے ۔ اس میں شافعیہ کا اختلاف ہے پاؤ یا دینار کے تقرر میں ۔ امام شافعی کا فرمان ہے کہ پاؤ دینار کی قیمت کی چیز ہو یا اس سے زیادہ ۔ ان کی دلیل بخاری و مسلم کی حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چور کا ہاتھ پاؤ دینار میں پھر جو اس سے اوپر ہو اس میں کاٹنا چاہئے مسلم کی ایک حدیث میں ہے چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے مگر پاؤ دینار پھر اس سے اوپر میں ۔ پس یہ حدیث اس مسئلے کا صاف فیصلہ کر دیتی ہے اور جس حدیث میں تین درہم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہاتھ کاٹنے کو فرمانا مروی ہے وہ اس کے خلاف نہیں اس لئے کہ اس وقت دینار بارہ درہم کا تھا ۔ پس اصل چوتھائی دینار ہے نہ کہ تین درہم ۔ حضرت عمر بن خطاب حضرت عثمان بن عفان حضرت علی بن ابی طالب بھی یہی فرماتے ہیں ۔ حضرت عمر بن عبد العزیز لیث بن سعد اوزاعی شافعی اسحاق بن راہویہ ابو ثور داؤد بن علی ظاہری کا بھی یہی قول ہے ۔ ایک روایت میں امام اسحق بن راہویہ اور امام احمد بن حنبل سے مروی ہے کہ خواہ ربع دینار ہو خواہ تین درہم دونوں ہی ہاتھ کاٹنے کا نصاب ہے ۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے چوتھائی دینار کی چوری پر ہاتھ کاٹ دو اس سے کم میں نہیں ۔ اس وقت دینار بارہ درہم کا تھا تو چوتھائی دینار تین درہم کا ہوا ۔ نسائی میں ہے چور کا ہاتھ ڈھال کی قیمت سے کم میں نہ کاٹا جائے ۔ حضرت عائشہ سے پوچھا گیا ڈھال کی قیمت کیا ہے؟ فرمایا پاؤ دینار ۔ پس ان تمام احادیث سے صاف صاف ثابت ہو رہا ہے کہ دس درہم شرط لگانی کھلی غلطی ہے واللہ اعلم ۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے ساتھیوں نے کہا ہے کہ جس ڈھال کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چور کا ہاتھ کاٹا گیا اس کی قیمت نو درہم تھی چنانچہ ابو بکر بن شیبہ میں یہ موجود ہے اور عبداللہ بن عمر سے ۔ عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمرو مخالفت کرتے رہے ہیں اور حدود کے بارے میں اختیار پر عمل کرنا چاہئے اور احتیاط زیادتی میں ہے اس لئے دس درہم نصاب ہم نے مقرر کیا ہے ۔ بعض سلف کہتے ہیں کہ دس درہم یا ایک دینار حد ہے علی ابن مسعود ابراہیم نخعی ابو جعفر باقر سے یہی مروی ہے ۔ سعید بن جیر فرماتے ہیں پانچوں نہ کاٹی جائیں مگر پانچ دینار پچاس درہم کی قیمت کے برابر کے مال کی چوری میں ۔ ظاہریہ کا مذہب ہے کہ ہر تھوڑی بہت چیز کی چوری پر ہاتھ کٹے گا انہیں جمہور نے یہ جواب دیا ہے کہ اولاً تو یہ اطلاق منسوخ ہے لیکن یہ جواب ٹھیک نہیں اس لئے تاریخ نسخ کا کوئی یقینی عمل نہیں ۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ انڈے سے مراد لوہے کا انڈا ہے اور رسی سے مراد کشتیوں کے قیمتی رسے ہیں ۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ یہ فرمان باعتبار نتیجے کے ہے یعنی ان چھوٹی چھوٹی معمولی سی چیزوں سے چوری شروع کرتا ہے آخر قیمتی چیزیں چرانے لگتا ہے اور ہاتھ کاٹا جاتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بطور افسوس کے اوپر چور کو نادم کرنے کے فرما رہے ہیں کہ کیسا رذیل اور بےخوف انسان ہے کہ معمولی چیز کیلئے ہاتھ جیسی نعمت سے محروم ہو جاتا ہے ۔ مذکور ہے کہ ابو العلام معری جب بغداد میں آیا تو اس نے اس بارے میں بڑے اعتراض شروع کئے اور اس کے جی میں یہ خیال بیٹھ گیا کہ میرے اس اعتراض کا جواب کسی سے نہیں ہو سکتا تو اس نے ایک شعر کہا کہ اگر ہاتھ کاٹ ڈالا جائے تو دیت میں پانچ سو دلوائیں اور پھر اسی ہاتھ کو پاؤ دینار کی چوری پر کٹوا دیں یہ ایسا تناقض ہے کہ ہماری سمجھ میں تو آتا ہی نہیں خاموش ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا مولا ہمیں جہنم سے بچائے ۔ لیکن جب اس کی یہ بکواس مشہور ہوئی تو علماء کرام نے اسے جواب دینا چاہا تو یہ بھاگ گیا پھر جواب بھی مشہور کر دیئے گئے ۔ قاضی عبد الوہاب نے جواب دیا تھا کہ جب تک ہاتھ امین تھا تب تک ثمین یعنی قیمتی تھا اور جب یہ خائن ہو گیا اس نے چوری کر لی تو اس کی قیمت گھٹ گئی ۔ بعض بزرگوں نے اسے قدرے تفصیل سے جواب دیا تھا کہ اس سے شریعت کی کامل حکمت ظاہر ہوتی ہے اور دنیا کا امن و امان قائم ہوتا ہے ، جو کسی کا ہاتھ بےوجہ کاٹ دینے کا حکم دیا تاکہ چوری کا دروازہ اس خوف سے بند ہو جائے ۔ پس یہ تو عین حکمت ہے اگر چوری میں بھی اتنی رقم کی قید لگائی جاتی تو چوریوں کا انسداد نہ ہوتا ۔ یہ بدلہ ہے ان کے کرتوت کا ۔ مناسب مقام یہی ہے کہ جس عضو سے اس نے دوسرے کو نقصان پہنچایا ہے ، اسی عضو پر سزا ہو ۔ تاکہ انہیں کافی عبرت حاصل ہو اور دوسروں کو بھی تنبیہہ ہو جائے ۔ اللہ اپنے انتقام میں غالب ہے اور اپنے احکام میں حکیم ہے ۔ جو شخص اپنے گناہ کے بعد توبہ کر لے اور اللہ کی طرف جھک جائے ، اللہ اسے اپنا گناہ معاف فرما دیا کرتا ہے ۔ ہاں جو مال چوری میں کسی کا لے لیا ہے چونکہ وہ اس شخص کا حق ہے ، لہذا صرف توبہ کرنے سے وہ معاف نہیں ہوتا تاوقتیکہ وہ مال جس کا ہے اسے نہ پہنچائے یا اس کے بدلے پوری پوری قیمت ادا کرے ۔ جمہور ائمہ کا یہی قول ہے ، صرف امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ جب چوری پر ہاتھ کٹ گیا اور مال تلف ہو چکا ہے تو اس کا بدلہ دینا اس پر ضروری نہیں ۔ دار قطنی وغیرہ کی ایک مرسل حدیث میں ہے کہ ایک چور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایا گیا ، جس نے چادر چرائی تھی ، آپ نے اس سے فرمایا ، میرا خیال ہے کہ تم نے چوری نہیں کی ہو گی ، انہوں نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے چوری کی ہے تو آپ نے فرمایا اسے لے جاؤ اور اس کا ہاتھ کاٹ دو جب ہاتھ کٹ چکا اور آپ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا توبہ کرو ، انہوں نے توبہ کی ، آپ نے فرمایا اللہ نے تمہاری توبہ قبول فرما لی ( رضی اللہ عنہ ) ابن ماجہ میں ہے کہ حضرت عمر بن سمرہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہتے ہیں کہ مجھ سے چوری ہو گئی ہے تو آپ مجھے پاک کیجئے ، فلاں قبیلے والوں کا اونٹ میں نے چرا لیا ہے ۔ آپ نے اس قبیلے والوں کے پاس آدمی بھیج کر دریافت فرمایا تو انہوں نے کہا کہ ہمارا اونٹ تو ضرور گم ہو گیا ہے ۔ آپ نے حکم دیا اور ان کا ہاتھ کاٹ ڈالا گیا وہ ہاتھ کٹنے پر کہنے لگے ، اللہ کا شکر ہے جس نے تجھے میرے جسم سے الگ کر دیا ، تو نے میرے سارے جسم کو جہنم میں لے جانا چاہا تھا ( رضی اللہ عنہ ) ابن جریر میں ہے کہ ایک عورت نے کچھ زیور چرا لئے ، ان لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسے پیش کیا ، آپ نے اس کا داہنا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ، جب کٹ چکا تو اس عورت نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میری توبہ بھی ہے؟ آپ نے فرمایا تم تو ایسی پاک صاف ہو گئیں کہ گویا آج ہی پیدا ہوئی ۔ اس پر آیت ( فمن تاب ) نازل ہوئی ۔ مسند میں اتنا اور بھی ہے کہ اس وقت اس عورت والوں نے کہا ہم اس کا فدیہ دینے کو تیار ہے لیکن آپ نے اسے قبول نہ فرمایا اور ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا ۔ یہ عورت مخزوم قبیلے کی تھی اور اس کا یہ واقعہ بخاری و مسلم میں بھی موجود ہے کہ چونکہ یہ بڑی گھرانے کی عورت تھی ، لوگوں میں بڑی تشویش پھیلی اور ارادہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں کچھ کہیں سنیں ، یہ واقعہ غزوہ فتح میں ہوا تھا ، بالاخر یہ طے ہوا کہ حضرت اسامہ بن زید جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت پیارے ہیں ، وہ ان کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کریں ، حضرت اسامہ نے جب اس کی سفارش کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ناگوار گزرا اور غصے سے فرمایا! اسامہ تو اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کر رہا ہے؟ اب تو حضرت اسامہ بہت گھبرائے اور کہنے لگے مجھ سے بڑی خطا ہوئی ، میرے لئے آپ استفغار کیجئے ۔ شام کے وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ سنایا جس میں اللہ تعالیٰ کی پوری حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ تم سے پہلے کے لوگ اسی خصلت پر تباہ و برباد ہو گئے کہ ان میں سے جب کوئی شریف شخص بڑا آدمی چوری کرتا تھا تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی معمولی آدمی ہوتا تو اس پر حد جاری کرتے ۔ اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی چوری کریں تو میں ان کے بھی ہاتھ کاٹ دوں ۔ پھر حکم دیا اور اس عورت کا ہاتھ کاٹ دیا گیا ۔ حضرت صدیقہ فرماتی ہیں پھر اس بیوی صاحبہ نے توبہ کی اور پوری اور پختہ توبہ کی اور نکاح کر لیا ، پھر وہ میرے پاس اپنے کسی کام کاج کیلئے آتی تھیں اور میں اس کی حاجت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر دیا کرتی تھی ۔ ( رضی اللہ عنہما ) مسلم میں ہے ایک عورت لوگوں سے اسباب ادھار لیتی تھی ، پھر انکار کر جایا کرتی تھی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا اور روایت میں ہے یہ زیور ادھار لیتی تھی اور اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم حضرت بلال کو ہوا تھا ۔ کتاب الاحکام میں ایسی بہت سی حدیثیں وارد ہیں جو چوری سے تعلق رکھتی ہیں ۔ فالحمد للہ ۔ جمیع مملوک کا مالک ساری کائنات کا حقیقی بادشاہ ، سچا حاکم ، اللہ ہی ہے ۔ جس کے کسی حکم کو کوئی روک نہیں سکتا ۔ جس کے کسی ارادے کو کوئی بدل نہیں سکتا ، جسے چاہے بخشے جسے چاہے عذاب کرے ۔ ہر ہر چیز پر وہ قادر ہے اس کی قدرت کامل اور اس کا قبضہ سچا ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

38۔ 1 بعض فقہا ظاہری کے نزدیک سرقہ کا یہ حکم عام ہے چوری تھوڑی سی چیز کی ہو یا زیادہ کی۔ اسی طرح محفوظ جگہ میں رکھی ہو یا غیر محفوظ۔ ہر صورت میں چوری کی سزا دی جائے گی۔ جب کہ دوسرے فقہا اس کے لئے حرز اور نصاب کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ پھر نصاب کے تعین میں ان کے مابین اختلاف ہے۔ محدثین کے نزدیک نصاب را... بع دینار یا تین درہم (یا ان کے مساوی قیمت کی چیز) ہے اس سے کم چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ اسی طرح ہاتھ رسغ (پہنچوں) سے کاٹے جائیں گے۔ کہنی یا کندھے سے نہیں۔ جیسا کہ بعض کا خیال ہے (تفصیل کے لئے دیکھئے کتب حدیث و فقہ اور تفاسیر کا مطالعہ کیا جائے) ۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٢] حرابہ یا ڈکیتی کی سزا بیان کرنے کے بعد اب چور کی سزا کا بیان شروع ہوتا ہے۔ چور کی سزا میں دونوں ہاتھ نہیں بلکہ ایک ہاتھ اور پہلی بار کی چوری پر دایاں ہاتھ کاٹا جائے گا اور یہ پہنچے تک کاٹا جائے گا۔ (اور یہ سب باتیں سنت سے ثابت ہیں) تاکہ وہ آئندہ کے لیے ایسی حرکت سے باز رہے اور دوسروں کو عبرت ح... اصل ہو۔ اور اگر اس سے مال مسروقہ برآمد ہوجائے تو وہ اصل مالک کو لوٹایا جائے گا اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث کا مطالعہ مفید ہوگا۔ ١۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں & ایک مخزومی عورت (فاطمہ) نے چوری کی تو قریش کو (ہاتھ کٹ جانے پر) بہت فکر لاحق ہوئی۔ کہنے لگے کون ہوسکتا ہے جو اس سلسلہ میں رسول اللہ سے بات کرے اور اسامہ کے سوا اور کون ایسی جرأت کرسکتا ہے جو رسول اللہ کے محبوب ہیں ؟ (چنانچہ قریش کے کہنے پر) اسامہ نے آپ سے گفتگو کی تو آپ نے اسامہ سے فرمایا & کیا تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کرتے ہو ؟ & پھر آپ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا & لوگو ! تم سے پہلے لوگ صرف اس وجہ سے گمراہ ہوگئے کہ اگر ان میں سے کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد لگاتے اور اللہ کی قسم ! اگر فاطمہ (رض) بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا & (اور ایک روایت میں ہے کہ) آپ نے اس عورت کے ہاتھ کاٹ دینے کا حکم دیا۔ اس کے بعد وہ میرے پاس آیا کرتی تو میں اس کی حاجت رسول اللہ تک پہنچا دیا کرتی۔ اس نے توبہ کی اور اس کی توبہ اچھی رہی (بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب کراھیۃ الشفاعۃ فی الحد، نیز باب توبۃ السارق۔ مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب قطع السارق الشریف) ٢۔ سیدہ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا & اللہ چور پر لعنت کرے۔ ایک انڈے کی چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے اور ایک رسی کی چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے & (بخاری۔ کتاب الحدود باب لعن السارق اذالم یسم ) ٣۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے ایک ڈھال چرانے پر ہاتھ کاٹا جس کی قیمت تین درہم تھی۔ (بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب السارق والسارقۃ۔ مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب حدالسرقہ و نصابہا) ٤۔ سیدہ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ آپ نے فرمایا & چور کا ہاتھ چوتھائی دینار یا اس سے زائد پر کاٹ دیا جائے & (بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب السارق والسارقۃ ) ٥۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ لٹکے ہوئے پھل کی چوری کے بارے میں آپ سے سوال کیا گیا۔ آپ نے فرمایا & اگر کوئی شخص بھوکا ہو اور کھالے مگر ساتھ نہ لے جائے تو اس پر کوئی حد نہیں اور جو شخص دامن بھر کر نکلے تو اس سے دوگنی قیمت وصول کی جائے اور سزا دی جائے۔ اور جو شخص پھلوں کو محفوظ مقام پر پہنچائے جانے کے بعد اس میں چوری کرے اور پھل کی قیمت ڈھال کی قیمت تک پہنچ جائے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے اور اگر قیمت ڈھال سے کم ہو تو دوگنی قیمت لی جائے اور سزا دی جائے۔ (ابو داؤد۔ کتاب الحدود۔ باب مالایقطع فیہ ) ٦۔ آپ نے فرمایا & خائن، لٹیرے اور اچکے پر ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں۔ & (ترمذی۔ ابو اب الحدود۔ باب ماجاء فی الخائن والمختلس) ٧۔ آپ نے فرمایا & جنگ کے دوران (میدان جنگ میں) ہاتھ کاٹنے کی سزا نہ دی جائے۔ & (ابو داؤد کتاب الحدود۔ باب السارق یسرق فی الغزو) اور اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ میدان جنگ میں سب لوگ مسلح ہوتے ہیں اگر سزا پانے والا طیش میں آ کر کوئی غلط حرکت کر بیٹھے تو یہ عین ممکن ہے۔ اس طرح اپنے ہی لشکر میں انتشار پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ لہذا صرف چوری کی حد ہی نہیں۔ ہر قابل حد یا قابل تعزیر جرم کی سزا کو موخر کردیا گیا۔ نیز سیدنا عمر نے قحط کے ایام میں چوری کی سزا یعنی ہاتھ کاٹنے کی سزا موقوف کردی تھی اور ان کا استدلال اس واقعہ سے تھا کہ دور نبوی میں عباد بن شرجیل نے کسی کھیت سے غلہ لے لیا۔ کھیت کے مالک نے عباد بن شرجیل کو پکڑ لیا۔ اسے مارا اور اس کا کپڑا بھی چھین لیا۔ پھر اسے پکڑ کر رسول اللہ کے پاس لے آیا تو آپ نے مالک سے فرمایا۔ (اگر یہ نادان تھا تو تو نے اس کو تعلیم کیوں نہ دی اور اگر یہ بھوکا تھا تو تو نے اسے کھانے کو کیوں نہ دیا) چناچہ آپ نے اس بھوکے چور کو کوئی سزا نہیں دلوائی۔ الٹا مالک نے اسے کپڑا بھی واپس کیا اور مار کے بدلے بہت سا غلہ بھی دیا۔ ٨۔ چور کی چوری جب عدالت میں ثابت ہوجائے تو اس کا ہاتھ ضرور کاٹا جائے گا اور مقدمہ عدالت میں پہنچنے سے پیشتر اگر مالک چور کو معاف کر دے تو یہ جائز ہے مگر عدالت میں پہنچنے کے بعد معاف نہیں کرسکتا۔ چناچہ سیدنا صفوان بن امیہ ایک دفعہ مسجد میں اپنی چادر کا تکیہ بنا کر اپنے سر کے نیچے رکھ کر سوئے ہوئے تھے کہ ایک شخص آیا اور آہستہ سے اس نے وہ چادر آپ کے سر کے نیچے سے کھینچ لی۔ اتنے میں صفوان بن امیہ کو بھی جاگ آگئی تو وہ اسے پکڑ کر رسول اللہ کے پاس لے آیا۔ آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا۔ (اس پر صفوان کو اس آدمی پر ترس آگیا) اور کہنے لگا، یا رسول اللہ ! میں نے اس کا قصور معاف کردیا۔ آپ نے فرمایا & اے ابو وہب (یہ صفوان بن امیہ کی کنیت ہے) تم نے اسے ہمارے ہاں لانے سے پہلے کیوں نہ معاف کردیا۔ & پھر آپ نے اس کا ہاتھ کٹوا دیا۔ (نسائی۔ کتاب قطع السارق۔ باب الرجل یتجاوز للسارق۔۔ ) نیز سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا & تم آپس میں ہی ایک دوسرے کو حدود معاف کردیا کرو۔ پھر جب مقدمہ مجھ تک پہنچ گیا تو حد واجب ہوجائے گی۔ & (ابو داؤد۔ نسائی بحوالہ مشکوۃ کتاب الحدود۔ فصل ثانی) ٩۔ سیدنا ابو سلمہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ & چور جب (پہلی بار) چوری کرے، تو اس کا دایاں ہاتھ کاٹ دو ۔ پھر (دوسری بار) چوری کرے تو اس کا (بایاں) پاؤں کاٹ دو ۔ پھر (تیسری بار) چوری کرے تو اس کا (بایاں) ہاتھ کاٹ دو ۔ پھر (چوتھی بار) چوری کرے تو اسکا (دایاں) پاؤں کاٹ دو ۔ (شرح السنہ بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب الحدود۔ قطع السرقتہ۔ دوسری فصل) [٧٣] یہ ہاتھ کاٹنے کی سزا اس کو چوری کرنے کے بدلہ میں ملی ہے۔ رہا مال مسروقہ۔ تو اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ راجح قول یہی ہے کہ اگر مال مسروقہ چور سے برآمد ہوجائے یا وہ اتنی مالیت کی ادائیگی کرسکتا ہو تو اس سے مال بھی وصول کر کے اصل مالک کو دلوایا جائے گا۔ خ کیا اسلامی سزائیں غیر انسانی ہیں :۔ آج کل یورپ کی نام نہاد مہذب اقوام اسلامی سزاؤں کو غیر مہذب اور وحشیانہ سزائیں سمجھتی ہیں اور بدنی سزاؤں کو غیر انسانی سلوک اور ظلم کے مترادف سمجھتی ہیں۔ علامہ اقبال سے یورپ میں اس کے کسی دوست نے کہا کہ اسلام میں چوری کی سزا تو بڑی غیر مہذبانہ ہے تو علامہ اقبال نے اس کا یہ جواب دیا تھا کہ کیا تمہارے خیال میں چور & مہذب & ہوتا ہے ؟ ان لوگوں نے اپنے اسی نظریہ کے تحت اقوام متحدہ کے بنیادی حقوق کے چارٹر میں اس کو غیر انسانی سلوک قرار دے کر ایسی سزاؤں کو ترک کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اس نظریہ کے دعویدار اپنی حکومتوں میں سیاسی ملزموں پر بند کمروں میں ایسے دردناک مظالم ڈھاتے اور بدنی سزائیں دیتے ہیں جن کے تصور سے روح کانپ اٹھتی ہے اور مشاہدہ یہ ہے کہ بند کمروں میں ایسی سزائیں دینا مجرموں کو اپنے کردار میں مزید پختہ بنا دیتا ہے۔ پھر یہ بھی عام مشاہدہ ہے کہ جہاں جہاں عدالتوں میں بدنی سزائیں موقوف ہوئیں وہاں جرائم میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ ہم حیران ہیں کہ اگر انسانی جسم کو بچانے کے لیے پھوڑے کا آپریشن محض جائز ہی نہیں بلکہ اسے عین ہمدردی سمجھا جاتا ہے تو معاشرہ کو ظلم و فساد سے بچانے کے لیے بدمعاشوں کو بدنی سزا دینا کیسے غیر انسانی سلوک بن جاتا ہے ؟ اور چوروں اور بدمعاشوں پر رحم کر کے معاشرہ میں بدامنی کو کیوں گوارا کرلیا جاتا ہے۔ اور ایسے لوگوں کے لیے مہذب اقوام کی ہمدردیاں کیوں پیدا ہوجاتی ہیں ؟ کیا یہ معاشرہ کے ساتھ غیر انسانی اور ظالمانہ سلوک نہیں ؟ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ غیر انسانی سلوک کے یہ علمبردار اپنے ممالک میں قیام امن میں کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں۔ آج کل سعودی عرب میں شرعی سزائیں رائج ہیں تو وہاں جرائم کی تعداد حیرت انگیز حد تک کم ہوچکی ہے۔ اس کے مقابلہ میں امریکہ جیسے سب سے مہذب ملک میں جرائم کی تعداد اس سے سینکڑوں گنا زیادہ ہے۔ ہمارے خیال میں اس غنڈہ عنصر کی پشت پناہی کی وجہ محض یہ ہے کہ موجودہ جمہوری دور میں & غیر انسانی سلوک کے یہ علمبردار & خود غنڈہ عناصر کے رحم و کرم کے محتاج اور انہی کی وساطت سے برسراقتدار آتے ہیں تو ایسے لوگ اپنے مددگاروں کے حق میں برسر عام بدنی سزائیں کیسے گوارا کرسکتے ہیں ؟   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْٓا اَيْدِيَهُمَا۔۔ : اوپر کی آیت میں محاربین ( جو لوٹ مار کرتے اور فساد پھیلاتے ہیں) کی سزا بیان ہوئی تھی، اب اس آیت میں چوری کی حد (قانونی سزا) بیان فرمائی کہ مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں۔ حدیث میں اس کی تفصیل ہے، عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول ال... لہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے مگر دینار کے ایک چوتھائی یا زیادہ میں۔ “ [ مسلم، الحدود، باب حد السرقۃ و نصابھا : ٢؍١٦٨٤ ] چور کو حاکم کے پاس لے جانے سے پہلے معاف کیا جاسکتا ہے، بعد میں نہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک چور کو لایا گیا جس نے ایک چادر چرائی تھی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا۔ چادر کے مالک صفوان (رض) نے کہا : ” اے اللہ کے رسول ! میرا ارادہ یہ نہیں تھا (کہ اس کا ہاتھ کٹوا دوں) میری چادر اس پر صدقہ ہے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تو نے اسے میرے پاس لانے سے پہلے کیوں (یہ صدقہ) نہ کیا ؟ “ [ ابن ماجہ، الحدود، باب من سرق من الحرز : ٢٥٩٥ قال الالبانی صحیح ] بعض لوگوں نے چوری کی حد باطل کرنے کے لیے بہت سے حیلے ایجاد کیے ہیں، ان میں سے دو حیلے ایسے ہیں جن کی موجودگی میں کسی چور کا ہاتھ کاٹا ہی نہیں جاسکتا۔ ایک یہ کہ عدالت میں جانے کے بعد مال مسروقہ کا مالک چور کو چرائی ہوئی چیز ہبہ کردے، یا اس کے ہاتھ بیچ دے تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا حالانکہ یہ صحیح حدیث کے صریح خلاف ہے۔ دوسرا یہ کہ چور پر شہادتوں کے ساتھ چوری کا جرم ثابت ہوجائے تو چور دعویٰ کر دے کہ مال مسروقہ میرا مال ہے، تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، خواہ وہ اپنی ملکیت کی کوئی دلیل پیش نہ کرے۔ یہ حیلہ لکھنے والے نے اس پر لکھا ہے کہ مخالف کی طرف سے اس پر اعتراض ہوتا ہے کہ اس طرح تو کوئی چور بھی جھوٹا دعویٰ کرنے سے عاجز نہیں، ہر چور ہی مالک ہونے کا دعویٰ کر دے گا اور چوری کی حد سرے سے ختم ہوجائے گی۔ اس کا جواب اس نے یہ دیا ہے کہ یہ بات صرف علماء کو معلوم ہے، چوروں کو معلوم نہیں، اس لیے حد ختم ہونے کی کوئی فکر نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے حیلوں کی وجہ سے بھی مسلم حکومتوں میں حدود اللہ ختم ہوئیں جس کے نتیجے میں ظلم و ستم حد سے بڑھے، پھر اغیار مسلمانوں پر مسلط ہوگئے، اس کا علاج دوبارہ حدود اللہ کا صحیح نفاذ ہے۔ جَزَاۗءًۢ بِمَا كَسَـبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ : یہ اس کے گناہ کی سزا بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عبرت بھی کہ وہ تمام عمر لوگوں کے لیے چوری سے رکنے کا باعث اور یاددہانی بنا رہے گا کہ چور کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے۔ اگر اسے قتل بھی کردیا جاتا تو یہ عبرت حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The fourth verse (38) reverts to the subject of the punishment of crimes where the Islamic Legal Punishment of theft has been described. The punishment for theft belongs to the category of Hudud which is one of the three kinds of Islamic Legal Punishments dis-cussed earlier (under the Tafsir of verses 33 and 34). Since the Holy Qur&an has itself fixed this punishment, it has not been left at t... he dis¬cretion of the relevant authorities. The Holy Qur&an has determined it as the Right of Allah (Haqqullah), therefore, it is called the Hadd of Sariqah (The Islamic Legal Punishment of Theft). The words of the verse are: وَالسَّارِ‌قُ وَالسَّارِ‌قَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ As for a man or woman who commits theft, cut off the hands of both to recompense them for what they earned, a deterrent from Allah. And Allah is Mighty, Wise. Noteworthy here is the fact that the address in Qur&anic injunc¬tions is generally to men wherein women are also understood as in¬cluded consequentially. In Salah, Sawm, Hajj, Zakah and in all injunctions of the Shari’ ah, this is the general operating principle of Qur&an and Sunnah. But, in the case of the punishment for theft and adultery, the text here does not limit itself to addressing men only, in-stead of which it addresses its command to both sexes mentioning them separately. One reason for doing so is that this is a matter of Hudud in which the least doubt could cause it to be dropped. Therefore, women were not left as implied under the address. They were, rather, mentioned explicitly. Understanding the Islamic Law of Sariqah (Theft) Something else we should find out at this stage is the very sense of the word, &Sariqah& and its definition as determined in the Shari` ah of Islam. According to Al-Qamus, the Arabic Lexicon, if anyone takes what belongs to someone else, from a secured place, without his or her permission, clandestinely, it is called |"Sariqah.|" And this is its Islamic legal definition too. So, in the light of this definition, in order that Sa¬riqah be proved, a few ingredients must exist: 1. BEING PRIVATELY- OWNED: The property concerned must have been owned privately by an individual or group. The stealer should own nothing in it, nor should there be any doubt of such owner-ship, nor should there be things in it in which the rights of common people are equal, such as, institutions of public welfare and their be-longings. This tells us that should someone take something in which he or she has ownership rights, or there is a doubt of such ownership, or in which the rights of common people are equal, then, the Hadd of Sariqah, the Islamic Prescribed Punishment, will not be enforced against the stealer. However, the relevant authority of the time could enforce punitive punishment (Ta` zir) at his discretion. 2. BEING SECURED: It means that the stolen property must be secured as in a locked house or under a security guard. Property not in a secured place, if picked up by someone, would also not render that person liable to be charged with the Hadd of Sariqah. However, should there be even a doubt in the property concerned being secure, even then, the Hadd of Sariqah will stand dropped. Considerations of sin and punitive punishment (Ta` zir) are a separate matter. 3. BEING WITHOUT PERMISSION: If a person, who has been given the permission to take or pick up and use the property con¬cerned, chooses to take it away for good, the Hadd of Sariqah will not be imposed. And should there be even a doubt about the stealer hav¬ing such permission, the Hadd will stand dropped. 4. TAKING CLANDESTINELY : This is because the looting of someone&s property openly is no theft. It is robbery, the punishment for which has already been stated. The point is if it is not by stealth, the Hadd of Sariqah will not be imposed on the person concerned. After having heard the details involved in all these conditions, you would have already realized that theft as known to us carries a gener¬al and wide sense. Every single person who indulges in it is not legal¬ly liable to the Hadd of Sariqah, that is, the punishment of cutting hands. Instead of that, this Prescribed Punishment shall be enforced against that particular form of theft in which all these ingredients have been found present. Along with it, you also know that situations in which the Hadd for theft is dropped, it is not at all necessary that the criminal would go scot-free. In fact, the relevant authority of the time could award puni¬tive punishment against him at his discretion, which could even be physical, as that of lashes. In the same way, let it not be surmised that, in situations where the absence of some condition of Sariqah restrains the enforcement of the Hadd Punishment, the act itself would become legally permissible and lawful - because, as explained earlier, we are not talking about sin and the punishment of the Hereafter here. The concern here is that of the temporal punishment, and that too of a particular kind of punish¬ment. Otherwise, the property of a person taken without his pleasure and permission, no matter how, shall remain Harm (unlawful), caus¬ing punishment in the Hereafter - as clarified in the verse : لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ (And do not eat up each other&s property by false means - 2:188). Also worth noting here is the fact that the words used by the Qur&an in the matter of theft are the same as those used about the punishment of adultery. But, the difference is that, in the matter of theft, the mention of man appears first and that of woman follows, while, in the case of adultery, the arrangement has been reversed where woman has been mentioned first. Thus, in the punishment of theft, it was said: 0, r), (a man or a woman who commits theft - وَالسَّارِ‌قُ وَالسَّارِ‌قَةُ while, in the punishment of adultery, it was said: الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي (the woman and the man guilty of fornication - 24:2). Commentators have indicated many elements of wisdom in this reversal of word order, but the one that appeals most is that the crime of theft when committed by man as compared to that committed by a woman is more grave because Almighty Allah has blessed him with the kind of strength to earn his living which a woman does not have. Should a man who, de-spite that so many doors of earning his living are open to him, stoop so low as to commit the disgraceful crime of theft, really increases the gravity of his sin. And when it comes to the matter of adultery, Allah Almighty has blessed a woman with natural modesty and secured at¬mosphere which leaves no reason for her to fall into the lower levels of immodesty which would be a grave crime indeed. Therefore, in theft, the mention of man precedes while, in adultery, that of woman. After stating the Hadd حدّ Punishment for theft in this verse (38), two sentences have been added. The first sentence is: جَزَاءً بِمَا كَسَبَا (to recom¬pense them for the evil deed they committed and the second sentence is: نَكَالًا مِّنَ اللَّـهِ (a deterrent from Allah). The later is composed of the words, ` Nakal& (a deterrent) and ` min Allah& (from Allah). Lexically, the Arabic word, ` Nakal& means a punishment which is exemplary, something which teaches a lesson to others as well so that they too abandon any intentions of committing crimes. Therefore, a translation of this word in the idiom of any other language would have to have a sense of lesson and dissuasion both. The hint given here is that the stern punishment of cutting hands is based on a consideration which is special and wise. In simple words, it amounts to punishing one and chastening the rest so that this ugly crime is eradicated totally. Then, by adding ` min Allah& (from Allah), a pointed reference has been made to yet another subject of importance, that is, there are two ways of looking at the crime of theft. Firstly, a person may take the property belonging to someone else without any right to do so which inflicts in-justice on the later. Secondly, this person acted counter to the com¬mand of Allah. Keeping the first aspect in sight, this punishment is the right of the victim of injustice which requires that the punishment, if pardoned by the holder of the right, will stand forgiven - and this is the customary practice in all cases of Qisas (Even Retaliation). Now looking at it from the second aspect, this punishment is for having act¬ed contrary to the command of Allah. It requires that this punishment will not be forgiven even if it were to be forgiven by the person who has been the victim of the theft - unless, of course, forgiven by Al-mighty Allah Himself. This is called Hadd or Hudud in the terminolo¬gy of the Shari` ah of Islam. So, by determining the second aspect through the addition of ` min Allah& (from Allah), the hint given is that this punishment is Hadd - not Qisas, that is, in a manner of saying, the punishment has been awarded for what constitutes a Crime against the State! Therefore, even if the person who is the victim of the theft were to forgive, the punishment would still not be dropped. Finally, towards the end of the verse (38), by saying: وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (And Allah is Mighty, Wise), answer has been given to the doubt so widely entertained these days, that is, this punishment is very harsh. Not resting at that, there are the loudmouthed and the uninformed among them who would not even fight shy of saying that this punishment is savage. Refuge with Allah! These words are there to point out that the introduction of this severe punishment is not only that it is an out-come of Allah&s being Mighty and Powerful, but that it also based on His being Wise as well. The Islamic Legal Punishments which the modern highbrows of the West label as harsh and savage shall be tak¬en up in details with comments on the wisdom behind them, their need and benefits, soon after we have completed the explanation of the present set of verses.  Show more

چوتھی آیت میں پھر جرائم کی سزاؤں کی طرف عود کیا گیا، اور چوری کی سزائے شرعی کا بیان فرمایا گیا، شرعی سزاؤں کی تین قسمیں جو پہلے بیان ہوچکی ہیں چوری کی سزا ان کی قسم حدود میں داخل ہے، کیونکہ قرآن کریم نے اس سزا کو خود متعین فرمایا، حکام کی صوابدید پر نہیں چھوڑا اور بطور حق اللہ کے متعین فرمایا ہے، ا... س لئے اس کو حد سرقہ کہا جاتا ہے، آیت میں ارشاد ہے : وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْٓا اَيْدِيَهُمَا جَزَاۗءًۢ بِمَا كَسَـبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ یعنی ” چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت کے ہاتھ کاٹ دو ان کے کردار کے بدلہ میں، اور اللہ زبردست حکمت والا ہے “۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ قرآنی احکام میں خطاب عام طور پر مردوں کو ہوتا ہے اور عورتیں بھی اس میں تبعا شامل ہوتی ہیں۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰة اور جملہ احکام میں قرآن و سنت کا یہی اصول ہے، لیکن چوری کی سزا اور زنا کی سزا میں صرف مردوں کے ذکر پر اکتفاء نہیں فرمایا، بلکہ دونوں صنفوں کو الگ الگ کرکے حکم دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاملہ حدود کا ہے جن میں ذرا سا بھی شبہ پڑجائے تو ساقط ہوجاتی ہیں، اس لئے عورتوں کے لئے ضمنی خطاب پر کفایت نہیں فرمائی، بلکہ تصریح کے ساتھ ذکر فرمایا۔ دوسری بات اس جگہ قابل غور یہ ہے کہ لفظ سرقہ کا لغوی مفہوم اور شرعی تعریف کیا ہے ؟ قاموس میں ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا مال کسی محفوظ جگہ سے بغیر اس کی اجازت کے چھپ کرلے لے، اس کو سرقہ کہتے ہیں۔ یہی اس کی شرعی تعریف ہے۔ اور اس تعریف کی رو سے سرقہ ثابت ہونے کے لئے چند چیزیں ضروری ہوئیں : اول یہ کہ وہ مال کسی فرد یا جماعت کی ذاتی ملکیت ہو، چُرانے والے کی اس میں نہ ملکیت ہو نہ ملکیت کا شبہ ہو۔ اور نہ ایسی چیزیں ہوں جس میں عوام کے حقوق مساوی ہیں، جیسے رفاہ عام کے ادارے اور ان کی اشیاء اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی شخص نے کوئی ایسی چیز لے لی جس میں اس کی ملکیت یا ملکیت کا شبہ ہے یا جس میں عوام کے حقوق مساوی ہیں تو حد سرقہ اس پر جاری نہ کی جائے گی۔ حاکم اپنی صوابدید کے موافق تعزیری سزا جاری کرسکتا ہے۔ دوسری چیز تعریف سرقہ میں مال محفوظ ہوتا ہے، یعنی مقفل مکان کے ذریعہ یا کسی نگران چوکیدار کے ذریعہ محفوظ ہونا، جو مال کسی محفوظ جگہ میں نہ ہو اس کو کوئی شخص اٹھالے تو وہ بھی حد سرقہ کا مستوجب نہیں ہوگا اور مال کے محفوظ ہونے میں شبہ بھی ہوجائے تو بھی حد ساقط ہوجائے گی۔ گناہ اور تعزیری سزا کا معاملہ جدا ہے۔ تیسری شرط بلا اجازت ہونا ہے، جس مال کے لینے یا اٹھا کر استعمال کرنے کی کسی کو اجازت دے رکھی ہو، وہ اس کو بالکل لے جائے تو حد سرقہ عائد نہیں ہوگی، اور اجازت کا شبہ بھی پیدا ہوجائے تو حد ساقط ہوجائے گی۔ چوتھی شرط چھپا کرلینا ہے کیونکہ دوسرے کا مال اعلانیہ لوٹا جائے تو وہ سرقہ نہیں بلکہ ڈاکہ ہے، جس کی سزا پہلے بیان ہوچکی ہے، غرض خفیہ نہ ہو تو حدّ سرقہ اس پر جاری نہ ہوگی۔ ان تمام شرائظ کی تفصیل سننے سے آپ کو یہ معلوم ہوگیا کہ ہمارے عرف میں جس کو چوری کہا جاتا ہے وہ ایک عام اور وسیع مفہوم ہے، اس کے تمام افراد پر حدّسرقہ یعنی ہاتھ کاٹنے کی سزا شرعاً عائد نہیں ہے، بلکہ چوری کی صرف اس صورت پر یہ حد شرعی جاری ہوگی جس میں یہ تمام شرائط موجود ہوں۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی آپ معلوم کرچکے ہیں کہ جن صورتوں میں چوری کی حد شرعی ساقط ہوجاتی ہے، تو یہ لازم نہیں ہے کہ کھلی چھٹی مل جائے، بلکہ حاکم وقت اپنی صوابدید کے مطابق اس کو تعزیری سزا دے سکتا ہے جو جسمانی، کوڑوں کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح یہ بھی نہ سمجھا جائے کہ جن صورتوں میں سرقہ کی کوئی شرط مفقود ہونے کی وجہ سے حد شرعی جاری نہ ہو تو وہ شرعاً جائز و حلال ہے، کیونکہ اوپر بتلایا جا چکا ہے کہ یہاں گناہ اور عذاب آخرت کا ذکر نہیں، دنیوی سزا اور وہ بھی خاص قسم کی سزا کا ذکر ہے۔ ویسے کسی شخص کا مال بغیر اس کی خوش دلی کے کسی طرح بھی لے لیا جائے تو وہ حرام اور عذاب آخرت کا موجب ہے، جیسا کہ آیت قرآن کریم (آیت) لاتاکلوا اموالکم بالباطل۔ میں اس کی تصریح موجود ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ چوری میں جو الفاظ قرآن کریم کے آتے ہیں وہی زنا کی سزا میں ہیں، مگر چوری کے معاملہ میں مرد کا ذکر پہلے عورت کا بعد میں ہے۔ اور زنا میں اس کے برعکس عورت کا ذکر پہلے کیا گیا۔ چوری کی سزا میں ارشاد ہے : وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ اور زنا کی سزا میں فرمایا ہے : (آیت) الزانیة والزانی، اس عکس ترتیب کی حکمتیں حضرات مفسرین نے کئی لکھی ہیں، ان میں زیادہ دل کو لگنے والی بات یہ ہے کہ جرم مرد کے لئے بہ نسبت عورت کے زیادہ شدید ہے، کیونکہ اس کو اللہ تعالیٰ نے کسب معاش کی وہ قوت بخشی ہے جو عورت کو حاصل نہیں۔ اس پر کسب معاش کے اتنے دروازے کھلے ہونے کے باوجود چوری کے ذلیل جرم میں مبتلا ہو، یہ اس کے جرم کو بڑھا دیتا ہے، اور زنا کے معاملہ میں عورت کو حق تعالیٰ طبعی حیاء و شرم کے ساتھ ایسا ماحول بخشا ہے کہ ان سب چیزوں کے ہوتے ہوئے اس بےحیائی پر اترنا اس کے لئے نہایت شدید جرم ہے، اس لئے چوری میں مرد کا ذکر مقدم ہے اور زنا میں عورت کا۔ آیت مذکورہ کے الفاظ میں چوری کی شرعی سزا بیان کرنے کے بعد دو جملے ارشاد فرمائے ہیں، ایک (آیت) جَزَاۗءًۢ بِمَا كَسَـبَا یعنی یہ سزا بدلہ ہے ان کی بدکرداری کا، دوسرا جملہ فرمایا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ اس میں دو لفظ ہیں نکال اور من اللّٰہ، لفظ ” نکال “ کے معنے عربی لغت میں ایسی سزا کے ہیں جس کو دیکھ کر دوسروں کو بھی سبق ملے، اور اقدام جرم سے باز آجائیں، اس لئے ” نکال “ کا ترجمہ ہمارے محاورہ کے موافق عبرت خیز سزا کا ہوگیا۔ اس میں اشارہ ہے کہ ہاتھ کاٹنے کی سخت سزا خاص حکمت پر مبنی ہے، کہ ایک پر سزا جاری ہوجائے، تو سب کے سب کانپ اٹھیں، اور اس جرم قبیح کا انسداد ہوجائے۔ دوسرا لفظ ” من اللہ “ کا بڑھا کر ایک اہم مضمون کی طرف اشارہ فرمایا جو یہ ہے کہ چوری کے جرم کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس نے کسی دوسرے انسان کا مال بغیر حق کے لے لیا۔ جس سے اس پر ظلم ہوا۔ دوسری یہ کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کی، پہلی حیثیت سے یہ سزا مظلوم کا حق ہے۔ اور اس کا مقتضٰی یہ ہے کہ جس کا حق ہے اگر وہ سزا کو معاف کر دے تو معاف ہوجائے گی۔ جیسا قصاص کے تمام مسائل میں یہی معمول ہے۔ دوسری حیثیت سے یہ سزا حق اللہ کی خلاف ورزی کرنے کی ہے اس کا مقتضٰی یہ ہے کہ جس شخص کی چوری کی ہے، اگر وہ معاف بھی کر دے تو معاف نہ ہو۔ جب تک خود اللہ تعالیٰ معاف نہ فرما دیں۔ جس کو اصطلاح شرع میں حد یا حدود کہا جاتا ہے۔ لفظ من اللّٰہ سے اس دوسری حیثیت کو متعین کرکے اس طرف اشارہ فرما دیا کہ یہ سزا حد ہے قصاص نہیں ہے، یعنی سرکاری جرم کی حیثیت سے یہ سزا دی گئی ہے، اس لئے جس کی چوری کی ہے اس کے معاف کرنے سے بھی سزا ساقط نہیں ہوگی۔ آخر آیت میں واللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ فرما کر اس شبہ کا جواب دے دیا جو آج کل عام طور پر زبان زد ہے کہ یہ سزا بڑی سخت ہے، اور بعض گستاخ یا ناواقف تو یوں کہنے سے بھی نہیں جھجکتے کہ یہ سزا وحشیانہ ہے، نعوذ باللہ منہ، اشارہ اس کی طرف فرمایا کہ اس سخت سزا کی تجویز محض اللہ تعالیٰ کے قوی اور زبردست ہونے کا نتیجہ نہیں، بلکہ ان کے حکیم ہونے پر بھی مبنی ہے، جن شرعی سزاؤں کو آج کل کے عقلاء یورپ سخت اور وحشیانہ کہتے ہیں ان کی حکمت اور ضرورت اور فوائد کی بحث انہی آیات کی تفسیر کے بعد مفصل آئے گی۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓا اَيْدِيَہُمَا جَزَاۗءًۢ بِمَا كَسَـبَا نَكَالًا مِّنَ اللہِ۝ ٠ۭ وَاللہُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝ ٣٨ سرق السَّرِقَةُ : أخذ ما ليس له أخذه في خفاء، وصار ذلک في الشّرع لتناول الشیء من موضع مخصوص، وقدر مخصوص، قال تعالی: وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ [ المائدة/ 38] ، وق... ال تعالی: قالُوا إِنْ يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ [يوسف/ 77] ، وقال : أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسارِقُونَ [يوسف/ 70] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف/ 81] ، اسْتَرَقَ السّمع : إذا تسمّع مستخفیا، قال تعالی: إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ [ الحجر/ 18] ، والسَّرَقُ والسَّرَقَةُ واحد، وهو الحریر . ( س ر ق ) السرقتہ ( مصدر ض ) اس کے اصل معنی خفیہ طور پر اس چیز کے لے لینے کے ہیں جس کو لینے کا حق نہ ہوا اور اصطلاح شریعت میں کسی چیز کو محفوظ جگہ سے مخصوص مقدار میں لے لینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ [ المائدة/ 38] اور جو چوری کرے مرد ہو یا عورت ۔ قالُوا إِنْ يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ [يوسف/ 77] ( برداران یوسف نے ) کہا اگر اس نے چوری کی ہو تو ( کچھ عجب نہیں کہ ) اس کے ایک بھائی نے بھی پہلے چوری کی تھی ۔ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسارِقُونَ [يوسف/ 70] کہ قافلہ والو تم تو چور اور استرق السمع کے معنی چوری چھپے سننے کی کوشش کرنا ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ [ الحجر/ 18] ہاں اگر کوئی چوری سے سننا چاہئے ۔ السرق والسرقتہ سفید ریشم ۔ قطع القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] ، ( ق ط ع ) القطع کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ نكل يقال : نَكَلَ عَنِ الشَّيْءِ : ضَعُفَ وعَجَزَ ونَكَلْتُهُ : قَيَّدْتُهُ ، والنِّكْلُ : قَيْدُ الدَّابَّةِ ، وحدیدةُ اللِّجَامِ ، لکونهما مانِعَيْنِ ، والجمْعُ : الأَنْكَالُ. قال تعالی: إِنَّ لَدَيْنا أَنْكالًا وَجَحِيماً [ المزمل/ 12] ونَكَّلْتُ به : إذا فَعَلْتُ به ما يُنَكَّلُ به غيرُه، واسم ذلک الفعل نَكَالٌ. قال تعالی: فَجَعَلْناها نَكالًا لِما بَيْنَ يَدَيْها وَما خَلْفَها[ البقرة/ 66] ، وقال : جَزاءً بِما كَسَبا نَكالًا مِنَ اللَّهِ [ المائدة/ 38] وفي الحدیث : «إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ النَّكَلَ عَلَى النَّكَلِ» أي : الرَّجُلَ القَوِيَّ عَلَى الفَرَسِ القَوِيِّ. ( ن ک ل ) نکل عن الشئی ۔ کسی کام سے کمزور اور عاجز ہوجانا ۔ نکلتہ ۔ کسی کے پاوں میں بیڑیاں ڈال دینا ۔ اور نکل ۔ جانور کی بیڑی اور لگام کے لوہے کو کہتے ہیں ۔ کیوں کہ یہ بھی چلنے سے مانع ہوتے ہیں ۔ اس کی جمع انکال ہے ۔ قرآن پاک میں ہے :إِنَّ لَدَيْنا أَنْكالًا وَجَحِيماً [ المزمل/ 12] کچھ شک نہیں کہ ہمارے پاس بیڑیاں ہیں اور بھڑکتی آگ ہی ۔ نکلتہ ۔ کسی کو عبرت ناک سزا دینا ۔ اس سے اسم نکال سے ۔ جس کے معنی عبرت ناک سزا کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : فَجَعَلْناها نَكالًا لِما بَيْنَ يَدَيْها وَما خَلْفَها[ البقرة/ 66] اور اس قصے کو اس وقت کے لوگوں کے لئے اور جوان کے بعد آنے والے تھے ۔ عبرت بنادیا ۔ جَزاءً بِما كَسَبا نَكالًا مِنَ اللَّهِ [ المائدة/ 38] ان کے فعلوں کی سزا اور خدا کی طرف سے عبرت ہے ۔ اور حدیث میں ہے (133) ان اللہ یحب النکل علی النکل کہ قوی آدمی جو طاقت ور گھوڑے پر سوار ہو اللہ تعالیٰ کو پیارا لگتا ہے ۔ عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزیز العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) حكيم فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر/ 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود/ 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر لحكمة» أي : قضية صادقة لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر/ 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود/ 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

چور کے لئے قطع ید کی سزا کا بیان قول باری ہے (والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو ) سفیان نے جابر سے اور انہوں نے عامر سے روایت کی ہے کہ حضرت عبد اللہ یک قرأت فاقطعوا ایدیھما ہے اور ابن عوف نے ابراہیم سے روایت کی ہے کہ ان کی قرأت میں ” ... فاقطعوا ایمانھا “ ہے یعنی ان کے داہنے ہاتھ کاٹ دو ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ امت کے اندر اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ پہلی دفعہ چوری کا ارتکاب کرنے پر چور کا دایاں ہاتھ کاٹ دیا جائے گا اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ قول باری (ایدیھما) سے اللہ کی مراد ان کے داہنے ہاتھ ہیں۔ ظاہر لفظ دو شخصوں کے لئے ید یعنی ہاتھ کے اسم جمع ’ ایدی ‘ پر مشتمل ہے اور اس پر دلالت کر رہا ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک کا ایک ایک ہاتھ مراد ہے جس طرح یہ قول باری (ان تتوبا الی اللہ فقد صفت قلوبکما۔ اے دونوں بیویو ! اگر تم اللہ کی طرف توبہ کرلو تو تمہارے دل اس طرف مائل ہو رہے ہیں) جب ان دونوں میں سے ہر ایک کا صرف ایک دل تھا تو ان کی طرف جمع کے اسم کے ساتھ دلوں کی اضافت کردی۔ اسی طرح یہاں بھی جب چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کی طرف ہاتھوں کی اضافت جمع کے لفظ کے ساتھ ہوئی تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ ان دونوں میں سے ہر ایک کا صرف ایک ہاتھ مراد ہے اور یہ دایاں ہاتھ ہے۔ تیسری دفعہ چوری کرنے پر بایاں ہاتھ کاٹنے اور چوتھی دفعہ اس جرم کے ارتکاب پر دائیں ٹانگ کاٹنے کے متعلق فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ہم عنقریب اس پر روشنی ڈالیں گے (انشاء اللہ) اس آیت کی تخصیص کے متعلق امت کے اندر کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔ اس لئے کہ سارق کے لفظ کا اطلاق نماز چور پر بھی ہوتا ہے۔ (حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (ان اسوأ الناس سرقۃ ھو الذی یسوق صلوٰتہ بدترین چور وہ ہے جو اپنی نماز چراتا ہے) عرض کیا گیا، وہ کیسے ؟ ارشاد ہوا (لایتم رکوعھا وسجودھا وہ اس طرح کہ ایسا شخص نماز کے اندر رکوع اور سجدہ پوری طرح ادا نہیں کرتا) اسی طرح اس لفظ کا اطلاق زیان چور پر بھی ہوتا ہے۔ لیث بن سعد نے روایت کی ہے، انہیں یزید بن ابی حبیب نے، ابو الخیر مرثد بن عبد اللہ سے، انہوں نے ابورہم سے، انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے فرمایا (اسرق السارق الذی یسوق لسان الامیر سب سے بڑا چور وہ ہے جو امیر یعنی حاکم کی زبان چرا لیتا ہے) ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت میں ہر چور مراد نہیں ہے۔ سرقہ ایک ایسا اسم ہے جس کے لغوی معنی اہل زبان کے ہاں لفظ کو سنتے ہی سمجھ میں آ جاتے ہیں اور مزید کسی بیان اور وضاحت کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ شریعت میں بھی اس کا یہی حکم ہے۔ قطع ید کا حکم اسی اسم کے ساتھ معلق کردیا گیا ہے جس طرح بیع، نکاح، اجارہ اور دوسرے تمام امور میں جن کے معانی ان پر دلالت کرنے والے الفاظ کو سن کر ہی سمجھ میں آ جاتے تھے، ان کے ساتھ وہ احکام معلق کردیئے گئے ہیں جن کے عموم کا ان الفاظ کے وجود کے ساتھ اعتبار کرنا واجب ہوتا ہے۔ ) الایہ کہ تخصیص کی کوئی دلیل قائم ہو جئاے۔ (اگر ہم ظاہر قول باری (والسارق و السارقۃ) کو تنہا رہنے دیتے تو صرف اس اسم کی بنا پر حکم یعنی حد سرقہ کا اجرا ہوجاتا، صرف وہی صورتیں جن کی تخصیص کی دلیل قائم ہوجاتی۔ تاہم ہمارے نزدیک یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے سرقہ کے حکم کا تعلق اس اسم کے علاوہ ایک اور مفہوم کے ساتھ ہوگیا ہے جس کا حکم کے ایجاب میں اعتبار کرنا ضروری ہے اور وہ مفہوم ہے حرزا اور مقدار یعنی چرائی ہوئی چیز کا محفوظ مقام میں ہونا اور ایک خاص مقدار یا اس سے زائد ہونا۔ کتنے مال سرقہ پر سزا ہوگی ؟ جہاں تک مقدار کا تعلق ہے تو یہ اسم اس لحاظ سے مجمل ہے اور اس مقدار کے اثبات کے لئے کسی اور ذریعے سے بیان کا محتاج ہے۔ اس لئے ہر مقدار کے اندر قطع ید کے ایجاب کے لئے اس اسم کے عموم کا اعتبار درست نہیں ہوگا۔ اس کے اجمال کی نیز اس کے عموم کے اعتبار کے امتناع کی دلیل وہ روایت ہے جو عبد الباقی بن قانع نے بیان کی، انہیں معاذ بن المثنی نے انہیں عبد الرحمٰن بن المبارک نے، انہیں وہب نے ابوماقد سے، انہیں عامر بن سعد نے اپنے والد حضرت سعد (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (لاتقطع ید السارق الافی ثمن المجن، چور کا ہاتھ صرف اس صورت میں کاٹا جائے گا جبکہ چرائی ہوئی چیز کی مالیت ڈھال کی قیمت کے مساوی ہو) ابن لہیعہ نے ابوالنصر سے روایت کی، انہوں نے عمرہ سے، انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (لا تقطع ید السارق الآفیما بلغ ثمن المجن فما فوقھا) چور کا ہاتھ صرف اس صورت میں کاٹا جائے گا جب چرائی ہوئی چیز کی مالیت ڈھال کی قیمت یا اس سے زائد رقم کو پہنچتی ہو) ۔ سفیان نے منصور سے، انہوں نے مجاہد سے، انہوں نے عطاء سے، انہوں نے ایمن الحبشی سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ادنی ما یقع فیہ السارق ثمن الجن کم سے کم مقدار جس کی وجہ سے چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا وہ ڈھال کی قیمت ہے) ان روایات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایجاب قطع کے سلسلے میں آیت کا حکم ڈھال کی قیمت پر موقوف ہے۔ اس طرح ڈھال کی قیمت کی حیثیت یہ ہوگئی کہ گویا آیت کے ساتھ ہی اس کا ورود ہوا ہے اور یہ آیت کا ضمیمہ بن گئی ہے۔ اس طرح گویا آیت کے مفہوم کی ترتیب کچھ یوں ہوگئی ہے۔ چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو جب چرائی ہوئی چیز کی مالیت ڈھال کی قیمت کو پہنچ جائے “۔ لفظ سرقہ بیان کا محتاج ہے اور حکم کے اثبات کے لئے خود مکتفی نہیں ہے۔ جس لفظ کی یہ کیفیت ہو اس کے عموم سے استدلال کرنا درست نہیں ہوتا۔ ایک اور وجہ بھی ہے جو اس جہت سے اس کے اجمال پر دلالت کرتی ہے، یہ وجہ ڈھال کی قیمت کی تعیین کے سلسلے میں سلف سے منقول روایات کی صورت میں ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) ، حضرت عبد اللہ بن عمرو (رض) ، ایمن الحبشی، ابو جعفر، عطاء، ابراہیم اور دوسرے حضرات کے قول کے مطابق ڈھال کی قیمت دس درہم تھی۔ حضرت ابن عمر (رض) کے قول کے مطابق تین درہم، حضرت انس (رض) ، عروہ، زہری اور سلیمان بن یسار کے قول کے مطابق پانچ درہم تھی۔ حضرت عائشہ (رض) کا قول ہے کہ ڈھال کی قیمت ربع دینار ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ ان حضرات نے تمام ڈھالوں کی قیمتیں نہیں لگائی ہیں۔ اس لئے کہ کپڑے اور دیگر سامان کی طرح ڈھال بھی مختلف اقسام کے ہوتے تھے اور اس لحاظ سے ان کی قیمتوں میں فرق پڑجاتا تھا۔ اس لئے دسدرہم کی مقدار کی تعیین لامحالہ اس ڈھال کی قیمت کے سلسلے میں ہوگی جس کی چوری پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چور کا ہاتھ کاٹ دیا تھا۔ اور یہ بات بھی واضح ہے کہ لوگوں کو اس ڈھال کی تقویم یعنی قیمت کی تعیین کی ضرورت اس وقت پیش نہیں آئی ہوگی جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چور کا ہاتھ کاٹا ہوگا۔ اس لئے کہ کسی متعین چیز کی چوری پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سزا کے طور پر چور کا ہاتھ کاٹ دینا اس سے کم درجے کی چیز چرانے کی صورت میں قطع کی نفی پر دلالت نہیں کرتا۔ جس طرح ڈھال چرانے پر چور کا ہاتھ کاٹ دینا اس پر دلالت نہیں کرتا کہ ہاتھ کاٹنے کا حکم صرف ڈھال چرانے تک محدود ہے۔ دوسری چیزیں چرانے پر یہ سزا نہیں دی جاسکتی اس لئے کہ جو صورت پیش آئی تھی وہ ان صورتوں میں سے ایک تھی جنہیں عموم کا لفظ شامل تھا اس سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اقدام پیش آنے والے واقعہ کے حسب حال تھا۔ اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ عمل گویا آپ کی طرف سے اس بات کی رہنمائی اور ہدایت تھی کہ اس سے کم کی مقدار میں قطع ید نہیں ہے۔ نیز آیت میں مقدار کے بارے میں جو اجمال تھا اس کی تفصیل بھی اس کے ذریعے ہوگئی جس طرح ہماری روایت کردہ احادیث لفظی طور پر ڈھال سے کم قیمت کی مالیت کی چیز چرانے پر قطع ید کی نفی پر دلالت کرتی ہیں۔ اس بنا پر مقدار کے اثبات میں آیت کے عموم کا اعتبار کرنا درست نہیں رہا اور جس ڈھال کے چرانے پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قطع ید کیا تھا اس کی قیمت کی معرفت تک رسائی واجب ہوگئی۔ مقدار کے بارے میں آیت کا اجمال حرز (محفوظ جگہ) کی تمام صورتوں نیز قطع ید واجب کردینے والی چیزوں کی جنس وغیرہ کے متعلق اجمال کا موجب نہیں ہے بلکہ یہ ممکن ہے کہ آیت ان باتوں کے لحاظ سے عموم ہو لیکن صرف مقدار کے بیان کے لحاظ سے مجمل ہو۔ جس طرح یہ قول باری ہے (خذ من اموالھم صدقۃ) یہ ان اموال کے لحاظ سے ہے جن میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے لیکن صدقہ یعنی زکوٰۃ کی واجب مقدار کے لحاظ سے مجمل ہے۔ ہمارے شیخ ابو الحسن کہا کرتے تھے کہ آیت زیربحث اس لحاظ سے مجمل ہے کہ اس میں حکم کو ایسے معانی کے ساتھ معلق کردیا گیا ہے جن کا یہ لفظ لغت کے لحاظ سے مقتضی نہیں ہے۔ یہ معانی ہیں اور مقدار، دوسری طرف قطع ید کے ایجاب میں جن معانی کا اعتبار کیا جاتا ہے اگر ان میں سے کوئی جز موجود نہ ہو تو اسم سرقہ کی موجودگی کے باوجود قطع ید واجب نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ لغت کے لحاظ سے سرقہ کا اسم پوشیدہ طور پر کسی چیز کو لے لینے کے معنی پر دلالت کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ اور اسی سے ’ طارق اللسان ‘ اور ’ سارق الصلوٰۃ ‘ کے الفاظ بنائے گئے ہیں اس میں پوشیدہ طور پر کوئی چیز لے لینے کے عمل کے ساتھ تشبیہ ہے۔ تاہم ان دونوں الفاظ کے اصل مفہوم پر ہم گزشتہ سطور میں روشنی ڈال آئے ہیں۔ جن معانی یعنی حرز اور مقدار کا ہم نے قطع ید کے ایجاب میں اعتبار کیا ہے ان پر دلالت کے لئے لغوی طور پر اسم سرقہ وضع نہیں ہوا تھا، ان معانی کا ثبوت تو شرعی طور پر ہوا ہے، اس لئے سرقہ کا اسم اب ایک اسم شرعی بن گیا اور اب اس کے لغوی معنی کے عموم سے استدلال کرنا درست نہیں رہا۔ صرف ان صورتوں میں اس کے عموم سے استدلال درست ہوسکتا ہے جن کے لئے دلالت قائم ہوجائے۔ اس مقدار اور مالیت کے متعلق بھی اختلاف رائے ہے جس کی بنا پر چور کا قطع ید واجب ہوتا ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، زفر اور ثوری کا قول ہے کہ دس درہم یا اس سے زائد چرانے پر یا دس درہم کے برابر مالیت کی کوئی چیز چوری کرنے پر ہاتھ کاٹا جائے گا۔ امام ابو یوسف اور امام محمد سے مروی ہے جب تک چرائی ہوئی چیز کی قیمت دس ڈھلے ہوئے درہم کی مالیت کو نہ پہنچ جائے اس وقت تک قطع ید نہیں ہوگی۔ حسن بن زیاد نے امام ابوحنیفہ سے نقل کیا ہے کہ جب کوئی شخص لوگوں کے درمیان رائج دراہم میں سے دس درہم کی مالیت کے مساوی کوئی چیز چرا لے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ امام مالک، امام شافعی، لیث اور اوزاعی کا قول ہے کہ چوتھائی دینار یا اس سے زائد مالیت کی چیز چرانے پر ہی قطع ید ہوگی۔ امام شافعی کا یہ بھی قول ہے کہ جب درہم کی مالیت بڑھ جائے یہاں تک کہ دو درہم ایک دینار کے برابر ہوجائیں تو بھی ربع دینار کی مالیت کی چیز چرانے پر قطع ید ہوگا۔ خواہ یہ نصف درہم کے مساوی کیوں نہ ہو۔ اگر درہم کی مالیت کم ہوجائے یہاں تک کہ سو درہم ایک دینار کے مساوی ہوجائیں تو بھی ربع دینار مالیت کی چیز چرانے پر قطع ید ہوگا۔ اس صورت میں ربع دینار پچیس درہم کے مساوی ہوگا حسن بصری سے مروی ہے کہ ایک درہم مالیت کی چیز چرانے پر بھی قطع ید ہوگا۔ لیکن یہ ایک شاذ قول ہے جس کے خلاف تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ حضرت انس (رض) بن مالک عروہ بن الزبیر، زہری اور سلیمان بن یسار کا قول ہے کہ پانچ درہم مالیت کے سرقہ پر قطع ید ہوگا۔ حضرت عمر (رض) اور حضرت علی (رض) سے اسی قسم کی روایت منقول ہے۔ ان دونوں حضرات کا قول ہے کہ پانچ درہم میں ہی قطع ید ہوگا۔ حضرت ابن مسعود (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت ابن عمر (رض) ، ایمن الحبشی، ابو جعفر، عطاء اور ابراہیم کا قول ہے کہ دس درہم کی صورت میں ہی قطع ید ہوگا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) کا قول ہے تین درہم میں قطع ید ہوگا۔ حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ چوتھائی دینار میں قطع ید ہوگا۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ چار درہم مالیت کی چیز چرانے پر ہی قطع ید ہوگا۔ اس بارے میں جو بنیادی بات ہے وہ یہ کہ فقہائے سلف اور ان کے بعد آنے والوں سے جب بالاتفاق یہ بات ثابت ہوگئی کہ قطع ید صرف ایک مقدار مالیت کی چیز چرانے پر واجب ہوتی ہے۔ اگر مالیت اس مقدار سے کم ہو تو یہ سزا واجب نہیں ہوتی۔ اس قسم کی مقاویر کے اثبات کا ایک ہی ذریعہ ہے وہ ہے توقیف یعنی شریعت کی طرف سے رہنمائی اور اطلاع یا پھر اتفاق امت۔ دس درہم سے کم مقدار کے متعلق توقیف ثابت نہیں اور دس پر اتفاق کا ثبوت ہوگیا ہے اس لئے ہم نے یہ مقدار ثابت کردی، دس سے کم مقدار کے متعلق نہ تو توقیف کا ثبوت ہے اور نہ ہی اتفاق امت کا۔ قول باری (والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدھما) کے عموم سے استدلال درست نہیں ہے اس لئے کہ ہم نے یہ بیان کردیا ہے کہ اس کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اس بارے میں ڈھال کی قیمت کے اعتبار کی توقیف اور اس پر امت کے اتفاق کے یک جا ہوجانے کی بنا پر یہ قول باری مجمل ہوگیا ہے۔ اس لئے اس کے عموم سے استدلال ساقط ہوگیا۔ اور دس درہم میں قطع کے اتفاق پر نیز اس سے کم قمدار میں قطع کی نفی پر آ کر ٹھہر جانا واجب ہوگیا۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ ایسی روایات بھی منقول ہیں جو قطع ید میں دس درہم کے اعتبار کی موجب ہیں۔ ان میں سے ایک روایت ہمیں عبد الباقی بن قانع نے بیان کی، انہیں عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے، انہیں ان کے والد نے، انہیں نصر بن ثابت نے حجاج سے، انہوں نے عمرو بن شعیب سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے عمرو کے دادا سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (لاقطع فیما دون عشرۃ دراھم، دس درہم سے کم میں قطع ید نہیں ہے۔ ہم نے سنن ابن قانع میں ایک حدیثدیکھی ہے جسے عبد الباقی بن قانع نے اپنی سند کے ساتھ زحر بن ربیعہ سے روایت کی ہے، انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :۔ (لا تقطع الید الافی دینار او عشرۃ دراہم ایک دینار یا دس درہم کی صورت میں ہی ہاتھ کاٹا جائے گا) عمرو بن شعیب کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن المسیب سے کہا کہ عرو، زہری اور سلیمان بن یسار کا قول ہے کہ پانچ درہم میں ہی ہاتھ کاٹا جائے گا، “ اس پر سعید بن المسیب نے جواب دیا کہ ” اس بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت دس درہم کی ہے۔ ابن عباس (رض) ، ایمن الحبشی اور عبد اللہ بن عمر (رض) نے یہی بات کہی ہے، انہوں نے مزید یہ بھی کہا ہے ڈھال کی قیمت دس درہم تھی “۔ اگر ہمارے مخالفین حضرت ابن عمر (رض) اور حضرت انس (رض) کی روایت سے استدلال کریں جس میں ذکر ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ڈھال کے چرانے پر چور کا ہاتھ کاٹ دیا تھا اس ڈھال کی قیمت تین درہم تھی۔ حضرت عائشہ (رض) کی روایت سے جس کے مطابق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (تقطع ید السارق فی ربع دینار، چوتھائی دینار میں چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا) تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضرت ابن عمر (رض) اور حضرت انس (رض) کی روایت میں اختلافی نکتے پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ اس لئے کہ ان دونوں حضرات نے اس ڈھال کی قیمت کا اندازہ تین درہم لگایا تھا جبکہ دور سے حضرات نے دس درہم لگایا تھا۔ اس لئے زائد رقم کو مقدم رکھنا اولیٰ ہوگا۔ رہ گئی حضرت عائشہ (رض) کی روایت تو اس کے مرفوع ہونے کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ ایک قول ہے کہ اس بارے میں درست بات یہی ہے کہ روایت حضرت عائشہ (رض) پر جا کر ٹھہر گئی ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک اس کی نسبت نہیں پہنچی ہے۔ حدیث کی اصطلاح میں دراصل یہ حدیث موقوف ہے مرفوع نہیں ہے۔ اس لئے کہ ثقہ قسم کے راویوں نے اس حدیث کی موقوف صورت میں روایت کی ہے۔ یونس نے زہری سے، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے وہ فرماتی ہیں کہ آپ کا ارشاد ہے : (لا تقطع ید السارق الا فی ثمن المجن ثلث دینار او نصف دینار فصا عدا چور کا ہاتھ صرف ڈھال کی قیمت یعنی دینار کی تہائی یا نصف دینار اور اس سے زائد مالیت کی چیز چرانے پر کاٹا جائے گا): ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ” حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں چور کا ہاتھ ڈھال کی قیمت سے کم مالیت والی چیز چرانے پر کاٹا نہیں جاتا تھا۔ اس زمانے میں ڈھال کی بھی قیمت ہوتی تھی۔ معمولی چیز چرا لینے پر ہاتھ کاٹا نہیں جاتا تھا “۔ یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس بارے میں حضرت عائشہ (رض) کے نزدیک جو بات تھی وہ یہ تھی کہ ڈھال کی قیمت کی مالیت والی چیز کا سرقہ قطع ید کا موجب ہے، اس بارے میں حضرت عائشہ (رض) کے پاس اس بات کے سوا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی اور روایت نہیں تھی۔ اس لئے کہ اگر ان کے پاس اس سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سونا اور چاندی کی متعین مقدار کی کوئی بات ہوتی تو انہیں ڈھال کی قیمت کے ذکر کی ضرورت نہ ہوتی کیونکہ اس بات کا ادراک اجتہاد کی جہت سے ہوتا جبکہ نص کی موجودگی میں اجتہاد کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ یہ امر اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ حضرت عائشہ (رض) سے جو روایت مرفوعاً نقل ہوئی ہے اگر اس کارفع ثابت ہو بھی جائے تو ڈھال کی قیمت کے سلسلے یہ حضرت عائشہ (رض) کا اپنا اجتہاد ہوگا جس کے ذریعے انہوں نے قیمت کا اندازہ لگایا ہوگا۔ حماد بن یزید نے ایوب سے روایت کی ہے، انہوں نے عبد الرحمٰن بن قاسم سے، انہوں نے عمرہ سے، انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے کہ چور کا ہاتھ ربع دینار یا اس سے زائد میں کاٹا جائے گا۔ ایوب کہتے ہیں کہ یہی روایت یحییٰ نے عمرہ سے بیان کی اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے، لیکن یحییٰ نے اسے مرفوعاً بیان کیا، اس پر عبد الرحمٰن بن القاسم نے ان سے کہا کہ حضرت عائشہ (رض) تو اسے مرفوعاً بیان نہیں کرتی تھیں، اس پر یحییٰ نے اس روایت کو مرفوعاً بیان کرنا چھوڑ دیا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ جن لوگوں نے اس روایت کو مرفوعاً بیان کیا ہے انہوں نے اسے صرف یحییٰ سے مرفوع کی صورت میں سنا تھا اور وہ بھی اس زمانے میں جب یحییٰ نے ابھی اسے مرفوعاً روایت کرنا ترک نہیں کیا تھا۔ پھر یہ بات بھی موجود ہے کہ اگر یہ حدیث ثابت بھی ہوجائے تو یہ ان روایات کی معارض ہوگی جنہیں ہم نے مختلف سندوں کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے اور جو دس درہم سے کم مالیت کی چیز چرانے پر قطع ید کی نفی کرتی ہیں۔ اس صورت میں ہماری بیان کردہ روایت اولیٰ ہوگی اس لئے کہ اس کے مطابق دس درہم سے کم میں قطع کی ممانعت ہے جبکہ ہمارے مخالفین کی بیان کردہ روایت کے مطابق اس مقدار سے کم میں قطع کی اباحت ہے اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ممانعت کی روایت اباحت کی روایت سے اولیٰ ہوتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (لعن اللہ السارق یسرق الحبل فیقطع فیہ ویسرق البیضۃ فیقطع فیھا چور پر خدا کی لعنت ہو وہ ایک رسی چرا لیتا ہے اس پر اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے، ایک بیضہ چرا لیتا ہے اور اس پر اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے) اس حدیث سے بعض ناسمجھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ دس درہم سے کم مالیت کی چیز پر ہاتھ کاٹ دیا جائے گا کیونکہ اس روایت میں بیضہ اور رسی کا ذکر ہے اور یہ دونوں چیزیں عادۃً دس درہم سے کم قیمت کی ہوتی ہیں۔ حالانکہ بات اس طرح نہیں جس طرح ان ناسمجھ لوگوں نے سمجھا ہے۔ اس لئے کہ یہاں بیضہ سے مراد انڈا نہیں ہے بلکہ لوہے کی خود ہے۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوہے کی خود چرانے پر جس کی قیمت اکیس درہم تھی چور کا ہاتھ کاٹ دیا تھا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ مرغی کے انڈے چرانے والے کا ہاتھ کاٹا نہیں جائے گا۔ جہاں تک رسی کا تعلق ہے تو وہ بعض دفعہ دس درہم کی بھی ہوتی ہے اور بعض دفعہ بیس کی اور بعض دفعہ اس سے بھی زائد کی ہوسکتی ہے۔ فصل جہاں تک چرائی ہوئی چیز کا محفوظ جگہ میں ہونے کا تعلق ہے تو اس کی بنیاد وہ روایت ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لا قطع علی خائن خیانت کرنے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت جابر (رض) نے اس حدیث کی روایت کی ہے۔ یہ حدیث ان تمام چیزوں میں قطع کی نفی پر مشتمل ہے جن کے متعلق کسی انسان پر بھروسہ اور اعتماد کرلیا جاتا ہے اور اسے امین سمجھ لیا جاتا ہے۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ ایک شخص جب کسی کو اپنے گھر میں آنے جانے کی اجازت دے دے اور اس پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنا مال اس کی نظروں سے کسی محفوظ جگہ میں نہ رکھے تو اس مال کے چرانے پر اس شخص کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ اس لئے کہ حدیث کے لفظ میں عموم ہے۔ اس صورت میں اس شخص کی حیثیت مودع (جس کے پاس ودیعت یا امانت رکھی جائے) اور مضارب کی سی ہوجائے گی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (لاقطع علی اخائن) ارشاد فرما کر ودیعت او مضاربت سے مکر جانے والے پر قطع ید کے وجوب کی نفی کردی۔ امانتوں کی دوسری تمام صورتوں کا بھی یہی حکم ہے یہ حدیث عاریۃً کوئی چیز لے کر اس سے مکر جانے والے پر بھی قطع ید کے وجوب کی نفی پر دلالت کرتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک روایت منقول ہے کہ آپ نے ایک عورت کا ہاتھ کاٹ دیا تھا جو لوگوں سے چیزیں لے کر مکر جایا کرتی تھی۔ لیکن اس روایت میں عاریۃً چیز لینے والے شخص پر مکر جانے کی صورت میں قطع کے وجوب کی کوئی دلالت نہیں ہے اس لئے کہ حدیث میں یہ ذکر نہیں ہے کہ آپ نے اس بنا پر اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تھا کہ وہ عاریت میں لی ہوئی چیز سے مکر گئی تھی بلکہ اصل بات یہ ہے کہ عاریۃً چیزیں لے کر مکر جانے کی بات کا ذکر اس عورت کے تعارف کے طور پر کیا گیا ہے۔ چونکہ یہ اس کی عادت تھی اسی بنا پر یہی امر اس کی پہچان اور تعارف کا نشان بن گیا تھا اس روایت کی مثال اس حدیث جیسی ہے جس میں ذکر ہے کہ آپ نے رمضان میں ایک ایسے شخص کو دیکھا کہ سینگی کے ذریعے دوسرے شخص کا خون چوس رہا ہے تو آپ نے دونوں کے متعلق فرمایا : (افطر الحاجم ولامحجوم سینگی لگانے والا اور جسے لگائی گئی دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا) آپ نے ان دونوں کے تعارف اور شناخت کے طور پر حجامت یعنی سینگی لگانے کا ذکر کیا، افطار یعنی روزہ ٹوٹ جانا کسی اور وجہ کی بنا پر وقوع پذیر ہوا تھا۔ صحیح روایات میں مذکور ہے کہ قریش کو بنو محروم کی ایک عورت کے معاملے میں بڑی تشویش لاحق ہوگئی تھی جس نے چوری کا جرم کیا تھا۔ یہ وہی عورت ہے جس کا زیربحث روایت میں اس عنوان سے ذکر آیا ہے کہ وہ لوگوں سے عاریۃً چیزیں لے لیتی اور پھر مکر جاتی۔ ان روایات میں یہ بیان ہوا ہے کہ آپ نے چوری کرنے کی بنا پر اس کا ہاتھ کٹوا دیا تھا۔ حرز کے اعتبار پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جس کے راوی عمرو بن شعیب ہیں۔ انہوں نے اپنے والد سے اور والد نے عمر کے دادا سے کہ آپ سے پہاڑ میں رہنے والی بکری کی چوری کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ” اس میں اسی جیسی بکری کا تاوان آئے گا اور سزا کے طور پر چور کو کوڑے لگائے جائیں گے لیکن اگر بکریاں رات گزارنے والے ٹھکانے پر پہنچ جائیں اور پھر کوئی وہاں س ے جانور چرا لے اور اس کی قیمت ڈھال کی قیمت کے برابر ہو تو چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا “۔ آپ نے درخت پر لٹکے ہوئے پھلوں کے متعلق فرمایا کہ جب تک یہ کھلیان میں نہ پہنچ جائیں اس وقت تک ان کی چوری کی سزا میں قطع ید نہیں ہوگی۔ جب پھل کھلیان میں پہنچ جائیں تو پھر چوری کی قطع ید ہوگی بشرطیکہ وہ ڈھال کی قیمت کو پہنچ جائے “۔ حرز کے اعتبار کے وجوب پر اس روایت کی دلالت پہلی روایت کی بہ نسبت زیادہ واضح ہے اگرچہ ان میں سے ہر روایت حرز کے اعتبار کے وجوب پر دلالت کرنے میں خود کفیل ہے۔ فقہائے امصار کے درمیان قطع ید کے لئے حرز کی شرط کے بارے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے اور یہ چیز سنت سے ثابت ہوئی ہے۔ جیسا کہ ہماری دی ہوئی تفصیل سے ظاہر ہے۔ چوری کس مقامسے کی جائے تو سزا ہوگی ہمارے اصحاب کے نزدیک حرز سے مراد وہ جگہ یا مکان ہے جو رہائش نیز مال اور ساز و سامان وغیرہ کی حفاظت کیلئے تعمیر کیا گیا ہو۔ سوتی اور اونی خیموں نیز ڈیروں کا بھی یہی حکم ہے جن میں لوگ رہتے ہیں نیز جہاں اپنے مال و متاع کو محفوظ کرلیتے ہیں۔ ایسے تمام مقامات اور عمارات حرز کہلائیں گی اگرچہ وہاں آس پاس یا ان کے اندر کوئی محافظ یا نگران نہ بھی موجود ہو۔ خواہ چور نے وہاں سے اس صورت میں چوری کی ہو کہ دروازہ کھلا رہ گیا تھا یا سرے سے اس کا دروازہ ہی نہیں تھا لیکن اینٹیں یا پتھر وغیرہ رکھ کر یا کچھ تعمیر کر کے رکاوٹ کھڑی کردی گئی تھی۔ البتہ جو چیزیں کسی عمارت یا خیمے یا ڈیرے میں نہ رکھی گئی ہوں بلکہ کھلی جگہ میں ہوں تو وہ جگہ اس وقت تک حرز نہیں کہلائے گی جب تک اس کے پاس کوئی چوکیدار نہ ہو یا کم از کم اس سے اس قدر قریب ہو کہ وہاں سے اس کی نگرانی کرسکتا ہو پھر خواہ چوکیدار وہاں جاگ رہا ہو یا سو رہا ہو چوری کے حکم میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ محافظ اور چوکیدار کی موجودگی اس جگہ کے لئے حرز بننے کی سبب ہے، خواہ وہ جگہ مسجد ہو یا صحرا، اس کی دلیل حضرت صفوان (رض) کی روایت ہے جس میں مذکور ہے کہ وہ مسجد میں سو رہے تھے اور ان کی چادر ان کے سر کے نیچے تھی، ایک شخص نے یہ چادر چرا لی اور پکڑا گیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی قطع ید کا حکم دے دیا۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ مسجد محفوظ جگہ یعنی حرز نہیں ہوتی لیکن اس واقعہ میں اسے حرز اس بنا پر قرار دیا گیا کہ صفوان (رض) چادر کے پاس موجود تھے۔ اسی لئے ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ محافظ خواہ جاگ رہا ہو یا نیند میں ہو، چوری کے حکم میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اس لئے کہ درج بالا واقعہ میں حضرت صفوان سو رہے تھے، ہمارے اصحاب کے نزدیک اس معاملے میں مسجد کا مسئلہ حمام یعنی عوامی غسل خانوں کی طرح نہیں ہے۔ اس لئے جو شخص حمام سے کوئی چیز چرا لے گا اس کا ہاتھ کاٹا نہیں جائے گا۔ سرانے نیز ایسی دکانوں کا بھی یہی حکم ہے جہاں لوگوں کو جانے کی عام اجازت ہو خواہ وہاں محافظ اور چوکیدار موجود کیوں نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حمام کے مالک اور سرائے والے نیز دکاندار کی طرف سے چونکہ آنے جانے کا اذن عام ہوتا ہے اس لئے وہاں رکھی ہوئی چیزیں محفوظ قرار نہیں دی جا سکتیں اور انہیں وہاں آنے جانے والوں کی دسترس سے باہر نہیں سمجھا جاسکتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جو شخص اپنے گھر میں کسی کو داخل ہونے کی اجازت دے دیتا ہے تو اس سے اس کا گھر حرز یعنی محفوظ جگہ کے حکم سے فی نفسہ خارج نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود اگر آنے والا شخص وہاں سے کوئی چیز چرا لیتا ہے تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا اس کی وجہ یہ ہے کہ جب مالک مکان کی طرف سے اسے اس گھر میں داخل ہونے کی اجازت مل جاتی ہے تو گویا اس کی طرف سے اس پر اعتماد کا اظہار ہوجاتا ہے اور وہ اس آنے والے شخص سے اپنا مال و متاع محفوظ نہیں کرتا۔ ٹھیک اسی طرح ہر وہ جگہ جہاں مالک کی اجازت سے داخل ہونا مباح اور جائز ہوتا ہے۔ وہ آنے والے شخص سے حرز یعنی محفوظ قرار نہیں دی جاسکتی۔ لیکن جہاں تک مسجد کا معاملہ ہے اس میں داخل ہونے کے لئے کسی انسان کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی اس لئے اسے صحرا اور بیابان کی طرح قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس بنا پر محافظ کی موجودگی میں کوئی شخص اگر مسجد سے کوئی چیز چرائے گا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ امام مالک سے منقول ہے کہ اگر حمام میں محافظ کی موجودگی کے اندر کوئی چوری کرے گا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ ابوبکر جصاص امام مالک کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر اس صورت میں چور کا ہاتھ کاٹنا واجب ہے تو پھر اس دکان سے چوری کرنے والے کا ہاتھ بھی کاٹنا واجب ہونا چاہیے جس میں لوگوں کو داخل ہونے کی عام اجازت ہوتی ہے اس لئے کہ دکان کا مالک اس کی حفاظت اور نگرانی کرتا ہے۔ جبکہ یہ بات واضح ہے کہ مالک کی طرف سے داخلے کی عام اجازت کی بنا پر وہاں رکھا ہوا مال محفوظ جگہ میں رکھا ہوا مال قرار نہیں دیا جاسکتا اس لئے اس میں داخل ہونے والے ہر شخص کو قابل اعتماد اور امانت دار قرار دیا جائے گا اس لحاظ سے ایسے حمام اور دکان میں کوئی فرق نہیں ہوگا جہاں داخل ہونے کی عام اجازت ہو۔ اگر کوئی یہ کہے کہ ایسے سرائے اور دوکان سے چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹا جائے گا جس میں داخل ہونے کی عام اجازت ہو تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ایسے چور کی حیثیت اس شخص کی طرح ہوتی ہے جو ودیعت کے طور پر رکھی ہوئی چیزوں، عاریۃً کی ہوئی اشیاء اور مال مضاربت میں خیانت کرلیتا ہے۔ اس لئے کہ درج بالا سطور میں جن صورتوں کا ہم نے ذکر کیا ہے ان میں اور ان صورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سرائے یا دکان کے مالک نے آنے والے شخص پر اپنے مال کو اس سے محفوظ نہ کر کے اعتماد کرلیا اور اسے امین سمجھ لیا تو اس کی حیثیت اس شخص کی طرح ہوگئی جس کے پاس کسی نے ودیعت رکھ کر اس پر اعتماد کرلیا۔ اس لئے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں رہا۔ عثمان البتی کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص حمام سے کوئی چیز چرائے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ کفن چور کا قطع ید کفن چور کے قطع ید کے مسئلے میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) ، ثوری، امام محمد اور اوزاعی کا قول ہے کہ کفن چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ حضرت ابن عباس (رض) اور مکحول کا بھی یہی قول ہے زہری کا قول ہے کہ جس زمانے میں مروان مدینہ منورہ کے حاکم تھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام صحابہ کرام اس پر متفق تھے کہ کفن چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ البتہ سے تعزیر کے طور پر سزا دی جائے گی۔ اس زمانے میں صحابہ کرام کی کثیر تعداد موجود تھی۔ امام ابو یوسف، ابن ابی لیلیٰ ، ابو الزناد اور ربیعہ کا قول ہے کہ کفن چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ حضرت عبد اللہ بن الزبیر (رض) ، حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) ، شعبی، زہری، مسروق، حسن بصری، ابراہیم نخعی اور عطاء سے بھی اسی قسم کا قول منقول ہے۔ امام شافعی کا بھی یہی مسلک ہے۔ پہلے قول کی صحت کی دلیل یہ ہے کہ قبر حرز یعنی محفوظ جگہ نہیں ہوتی۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر قبر میں دراہم وغیرہ مدفون ہوں اور انہیں کوئی چرا لے تو چور کے ہاتھ نہ کاٹنے پر سب کا اتفاق ہے کیونکہ وہ حرز یعنی محفوظ جگہ نہیں ہے۔ اس بنا پر کفن کی بھی یہی صورت ہونی چاہیے۔ اگر یہ کہا جائے کہ محفوظ جگہوں کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔ سبزی فروش کی دکان پر بانس کی تیلیوں سے بنا ہوا پردہ یا چلمن دکان میں رکھی ہوئی چیزوں کے لئے حرز ہوتا ہے، اسی طرح اصطبل میں بندھے ہوئے جانوروں کے لئے اور مکان مال و متاع کے لئے حرز ہوتا ہے۔ جو چیزیں کسی کی حفاظت اور نگرانی میں ہوتی ہیں وہ شخص ان کے لئے حرز ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر وہ چیز جس کے ذریعے عادۃً اشیاء کی حفاظت کی جاتی ہے وہ ان اشیاء کے لئے حرز ہوتی ہے۔ دوسری چیزوں کے لئے حرز نہیں ہوتی اس لئے اگر کوئی شخص اصطبل سے نقدی چرائے گا تو اس کا ہاتھ کاٹا نہیں جائے گا لیکن اگر مویشی چرائے گا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا اس بنا پر قبر میت کے کفن کے لئے حرز ہوتی ہے اگرچہ وہ وہاں مدفون نقدی کے لئے حرز نہیں ہوگی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ دو وجوہ سے یہ بات غلط ہے اول تو اس لئے کہ حرز کی صورتیں اگرچہ کی نفسہ مختلف ہوتی ہیں لیکن وہاں رکھی ہوئی چیزوں کے لئے حرز ہونے کے لحاظ سے ان میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔ اس لئے اگر اصطبل وہاں بندھے ہوئے مویشیوں کے لئے حرز ہے تو وہ وہاں رکھے ہوئے کپڑوں اور نقدی کے لئے بھی حرز ہے جس کی بنا پر وہاں سے کوئی بھی چیز چرانے والے کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا اسی طرح سبزی فروش کی دکان وہاں رکھی ہوئی تمام چیزوں یعنی سبزیوں، کپڑوں اور نقدی کے لئے حرز ہے۔ اس لئے یہ کہنا غلط ہے کہ اصطبل سے مویشی چرانے پر تو ہاتھ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ ان کے لئے حرز ہے اور نقدی چرانے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر معترض کا اٹھایا ہوا نکتہ درست ہوتا تو یہ کفن چور کے قطع ید کے ایجاب کو مانع ہوجاتا اس لئے کہ قبر اس مقصد کے لئے نہیں کھودی جاتی کہ وہ کفن کے لئے حرز بن جائے اور کفن وہاں محفوظ کردیا جائے۔ قبر تو میت کی تدفین اور اسے لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ کردینے کے لئے کھودی جاتی ہے۔ جہاں تک کفن کا تعلق ہے تو وہ بالآخر بوسیدہ ہو کر مٹی میں مل جاتا ہے۔ اس کی ایک اور دلیل بھی ہے وہ یہ کہ کفن کا کوئی مالک نہیں ہوتا، اس بات کی دلیل یہ ہے کہ کفن میت کے پورے مال سے تیار کیا جاتا ہے اس لئے نہ تو وہ کسی کی ملکیت ہوتا ہے اور نہ ہی کسی پر وقف۔ جب کفن کا میت کے پورے مال سے تیار کیا جانا درست ہوتا ہے تو پھر اس سے یہ امر واجب ہوجاتا ہے کہ ورثاء اس کے مالک قرار نہ پائیں جس طرح انہیں میت کے رض میں ادا کی ہوئی ان رقوم کا مالک تصور نہیں کیا جاتا جن کی ادائیگی میت کے پورے مال سے ہوتی ہے۔ اس پر بات بھی دلالت کرتی ہے کہ میت کے قرض کی ادائیگی سے پہلے اس کا کفن تیار کرلیا جاتا ہے۔ جب اس کے ورثاء قرض میں ادا کی ہوئی رقم کے مالک نہیں ہوتے تو کفن کا ان کی ملکیت میں نہ ہونا بطریق اولیٰ ہوگا۔ جب ورثاء کفن کے مالک نہیں ہوتے اور میت کی ملکیت میں ہونا بھی محال ہے تو اس سے یہ بات ضروری ہوگئی کہ کفن چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے جس طرح بیت المال سے چوری کرنے والے نیز ایسی اشیاء کو چرانے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا جن کے استعمال کی عام اجازت ہوتی ہے اور جن کا کوئی مالک نہیں ہوتا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ کفن کے مطالبہ کے لئے وارث کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کا جواز اس بات کی دلیل ہے کہ وارث اس کا مالک ہوتا ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ بیت المال سے چرائی ہوئی اشیاء کا امام المسلمین سے مطالبہ کرنا جائز ہوتا ہے لیکن امام المسلمین ان اشیاء کا مالک نہیں ہوتا۔ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے وہ یہ کہ قبر کے اندر کفن بوسیدہ ہو کر تلف ہوجانے کے لئے رکھا جاتا ہے، ذخیرہ کرنے اور باقی رکھنے کے لئے نہیں رکھا جاتا۔ اس لئے اس کی حیثیت گوشت، روٹی اور پانی جیسی ہوگئی جو اشیائے صرف ہیں، نہ کہ ذخیرہ کی جانے والی چیزیں۔ آیا قبر کفن کے لئے حرز ہے ؟ اگر کوئی یہ کہے کہ قبر کفن کے لئے حرز ہے اس کی دلیل وہ روایت ہے جس کے راوی حضرت عبادہ بن الصامت (رض) ہیں۔ انہوں نے حضرت ابوذر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (کیف انت اذا اصاب الناس موت یکون البیت فیہ بالوصیف، ابوذر (رض) ! تمہاری اس وقت کیا کیفیت ہوگی جب لوگوں کو موت اس طرح آ گھیرے گی کہ اس کے نتیجے میں قبر دہلیز پر ہی بن جائے گی) انہوں نے عرض کیا : ” اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں :“ اس پر ارشاد ہوا (علیک بالعلم اس وقت صبر کرنا تم پر لازم ہوگا) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبر کو بیت کے نام سے موسوم کیا، نیر حماد بن ابی سلیمان کا قول ہے کہ کفن چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا اس لئے کہ وہ میت کے گھر میں داخل ہوا، علاوہ ازیں امام مالک نے ابوالرحال سے روایت کی ہے، انہوں نے اپنی والدہ عمرہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مختقی اور مختفیہ یعنی کفن چور مرد اور کفن چور عورت پر لعنت بھیجی ہے۔ نیز حضرت عائشہ (رض) نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (من اختفی میتا فکانما قتلہ جس شخص نے میت کا کفن اتار لیا اس نے گویا اسے قتل کردیا) اہل لغت کا قول ہے کہ کفن چور کو مختفی کہا جاتا ہے۔ اس اعتراض کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجازاً قبر کو بیت یعنی مکان کے نام سے موسوم کیا ہے۔ اس لئے کہ اہل عرب کی لغت میں بیت کا اسم اس مکان کے لئے موضوع ہے جو ظاہراً زمین پر تعمیر کیا گیا ہو۔ اب قبر کو بیت کے نام سے موسوم کرنا تعمیر شدہ مکان کے ساتھ تشبیہ کے طور پر ہے۔ علاوہ ازیں چور کی قطع ید کا حکم اس امر کے ساتھ متعلق نہیں ہے کہ اس نے کسی گھر سے چوری کی ہے الایہ کہ وہ گھر اس میں رکھی ہوئی چیزوں اور سامان کے لئے حرز کے طور پر تعمیر کیا گیا ہو۔ ہم یہ بات بیان کر آئے ہیں کہ قبر حرز نہیں ہوتی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ مسجد کو بیت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے (فی بیوت اذن اللہ ان ترفع ویذکر فیھا اسمہ) وہ ایسے گھروں میں ہیں جن کے لئے اللہ نے حکم دیا ہے کہ ان کا ادب کیا جائے اور ان میں اس کا نام لیا جائے) جب کوئی شخص مسجد میں کوئی چیز چرا لے جبکہ اس چیز کا محافظ وہاں موجود نہ ہو تو اس کا ہاتھ کاٹا نہیں جائے گا۔ نیز اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں کہ قبر میں دفن شدہ نقدی چرانے پر چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اگرچہ قبر بیت کے نام سے موسوم ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ چوری میں ہاتھ کاٹنے کی سزا کا تعلق اس امر سے نہیں ہے کہ اس نے کسی گھر سے چوری کی ہے۔ معترض نے دو حدیثوں کا حوالہ دیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ پہلی حدیث کے مطابق کفن چور پر لعنت کی گئی ہے اور لعنت کا سزاوار ہونا اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ اس کا ہاتھ کاٹنا بھی واجب ہے۔ اس لئے کہ غاصب، کاذب اور ظالم یہ سب کے سب لعنت کے سزاوار ہوتے ہیں لیکن ان کے ہاتھ کاٹ دینا واجب نہیں ہوات۔ اسی طرح دوسری حدیث (من اختفی میتا فکانما قتلہ) بھی قطع ید کی موجب نہیں ہے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفن چور کو قاتل کی طرح قرار دیا ہے۔ اگر اس حدیث کے مفہوم کو اس کے الفاظ کے حقیقی معنوں پر محمول کیا گیا تو پھر کفن چور کو قتل کردینا واجب ہوگا جبکہ اس بارے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے اور قطع ید کے ساتھ اس کا کوئی تعلق بھی نہیں ہے۔ چور کا ہاتھ کس جگہ سے کاٹا جائے قول باری ہے (والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما) ید کے اسم کا اطلاق بازو پر کندھے تک ہوتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عمار (رض) نے قول باری (فامسحوا بوجوھکم و ایدیکم منہ) کی بنا پر کندھوں تک مسح کیا تھا۔ لغت کے لحاظ سے حضرت عمار نے کوئی غلط بات نہیں کی تھی، چونکہ اس بات کے خلاف سنت کا ورود ہوگیا تھا اس لئے یہ بات برقرار نہ رہ سکی۔ اس اسم کا اطلاق کف یعنی ہتھیلی کے جوڑ تک کے حصے پر بھی ہوتا ہے۔ قول باری ہے (اذا اخرج یدہ لم یکدا ھا۔ جب وہ اپنا ہاتھ نکالتا ہے تو قریب نہیں کہ اسے دیکھ لے) اس سے کہنی سے نیچے کا حصہ سمجھ میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا (ادخل یدک فی حبیبک تخرج بیضاء من غیرہ سوء) اپنا ہاتھ گریبان میں داخل کرو وہ بلاکسی عیب کے روشن ہو کر نکلے گا) ید بات تو ممتنع ہے کہ آپ نے اپنا ہاتھ کہنیوں تک گریبان میں ڈالا ہوگا۔ اس پر قول باری (وایدیکم الی الموافق) بھی دلالت کرتا ہے۔ اگر ید کے اسم کا اطلاق کہنیوں سے نچلے حصے پر نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ بازوئوں کے سلسلے میں کہنیوں تک کے حصے کا ذکر نہ کرتا۔ اس میں یہ بھی دلیل ہے کہ ید کے اسم کا اطلاق کوع، یعنی انگوٹھے کی جانب بندوبست کے کنارے تک ہوتا ہے۔ جب ید کا اسم اس عضو یعنی بازو کو ہتھیلی کے جوڑ تک، کہنی تک نیز کندھے تک شامل ہوتا ہے تو لفظ کا عموم کندھے سے قطع ید کا مقتضی ہے۔ الایہ کہ کوئی دلیل قائم ہوجائے جو یہ بتاسکے کہ یہاں کندھے سے نیچے کا حصہ مراد ہے۔ یہاں یہ کہنا درست ہے کہ ید کا اسم جب کو ع یعنی انگوٹھے کی جانب بند کنارے تک کو شامل ہے اور یہ کہنا درست نہیں ہے کہ یہ ہاتھ کا ایک حصہ ہے بلکہ اس پر کسی قید کے بغیر ید کے اسم کا اطلاق ہوتا ہے اگرچہ اس اسم کا اطلاق کبھی اس کے اوپر کے حصے پر کہنی تک بھی ہوتا ہے اور کبھی کندھے تک۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا (فاقطعوا ایدیھما) اصل کے اعتبار سے ہاتھ کاٹنے کی ممانعت تھی اس لئے جب ہم اسے ہتھیلی کے جوڑ سے کاٹ دیں گے تو آیت میں دیئے گئے حکم سے عہدہ برآ ہوجائیں گے۔ اور پھر کسی دلالت کے بغیر اس سے اوپر کے حصے کو کاٹ دینا ہمارے لئے جائز نہیں ہوگا۔ جس طرح کوئی شخص کسی سے کہے ” اعط ھذا رجالا “ (یہ چیز کچھ آدمیوں کو دے دو ) وہ شخص وہ چیز تین آدمیوں کو دے دے تو حکم پر عملدرآمد مکمل ہوجائے کیونکہ رجال کا اسم تین آدمیوں کو شامل تھا اگرچہ یہ تین سے زائد کو بھی شامل ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ تیمم کے اندر بھی آپ پر یہ بات لازم آتی ہے کیونکہ ارشاد باری ہے (فامسحوا بوجوھکم و ایدیکم منہ) آپ نے تیمم کے مسئلے پر بحث کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب ید کا اسم بازو کو کہنی تک شامل ہے تو عموم اس کا مقتضیٰ ہوگا اور دلیل کے بغیر اس سے کم مراد نہیں لیا جائے گا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ دو مختلف باتیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اصل کے اعتبار سے ہاتھ کاٹنے کی ممانعت تھی پھر ید کے اسم کا اطلاق اس عضو پر ہتھیلی کے جوڑ تک نیز کہنی تک ہوتا تھا اس لئے شک کی بنا پر زائد حصے کا کاٹنا ہمارے لئے جائز نہیں ہوا۔ دوسری طرف چونکہ اصل کے اعتبار سے حدث ہوتا ہے طہارت نہیں ہوتی اور نماز کی اباحت کے لئے اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے حدث صرف اسی صورت میں زائل ہوگا جبکہ بازو کے اتنے حصے پر تیمم کیا جائے جس پر یقینی طور سے ید کے اسم کا اطلاق ہوتا ہے اور وہ صرف کہنی تک کا تیمم ہے۔ صدر اول سے سلف کے درمیان نیز فقہائے امصار کے مابین ہتھیلی کے جوڑ سے قطع ید کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ صرف خوارج نے اس سے اختلاف کیا تھا اور وہ کندھے سے قطع ید کرتے تھے اس لئے کہ ید کے اسم کا اطلاق کندھے تک ہوتا ہے۔ لیکن خوارج کا یہ اختلاف شاذ ہے اور کسی شمار و قطار میں نہیں ہے۔ محمد بن عبد الرحمٰن بن ثوبان نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک چور کا ہاتھ کو ع یعنی انگوٹھے کی جانب بنددست (گٹے) کے کنارے سے قطع کیا تھا۔ حضرت عمر (رض) اور حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ ان دونوں حضرات نے ہتھیلی کے جوڑ سے قطع ید کیا تھا۔ کلائی سے نیچے کے حصے پر ید کا اسم علی الاطلاق واقع نہیں ہوتا اس کی دلیل یہ قول باری ہے (فامسحوا بوجوھکم وایدیکم منہ) کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے کہ تیمم کرنے والا ہتھیلی کے جوڑ سے نچلے حصے تک کے تیمم پر اختصار کرے۔ البتہ اس سے اوپر کے حصے کے تیمم میں اختلاف ہے۔ چور کا پائوں کس جگہ سے کاٹا جائے پائوں کس جگہ سے کاٹا جائے اس میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک چور کا پائوں تلوے کے اس گہرے حصے سے کاٹ دیا تھا جو زمین سے نہیں لگتا ہے جسے ’ خصر القدم ‘ کہتے ہیں۔ صالح السمان نے کہا ہے کہ میں نے اس شخص کو دیکھا تھا جسے حضرت علی (رض) نے پائوں کاٹنے کی سزا دی تھی اس کے پائوں کی انگلیاں جڑ سے کٹی ہوئی تھیں، میں نے اس سے پوچھا ” یہ کس نے قطع کیا “ تو اس نے جواب میں کہا : ” سب سے اچھے انسان نے “ یعنی حضرت علی (رض) نے۔ ابو رزین کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے۔ ” جو شخص ان لوگوں کو دیکھ چکا ہے کیا وہ پائوں اس طرح کاٹنے سے عاجز ہے جس طرح اس اعرابی نما انسان (حضرت علی (رض)) نے کاٹا ہے۔ اس نے پائوں کاٹا ہے اور کوئی غلطی نہیں کی، وہ پائوں کاٹتا ہے اور ایڑی کو چھوڑ دیتا ہے “۔ عطاء اور ابوجعفر سے بھی اسی طرح کا قول منقول ہے۔ حضرت عمر (رض) اور دوسرے حضرات سے منقول ہے کہ پائوں کو مفصل یعنی جوڑ سے کاٹ دیا جائے گا۔ فقہائے امصار کا بھی یہی قول ہے۔ قیاس اور نظر سے بھی اسی قول پر دلالت ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ قطع میں ہاتھ کو ہتھیلی کے ظاہری جوڑ سے کاٹا جائے گا یہ وہ حصہ ہے جو زند یعنی ہاتھ کے گٹے سے متصل ہوتا ہے۔ اسی طرح پائوں کاٹنے میں بھی یہ ضروری ہے کہ ظاہری جوڑ سے قطع کردیا جائے وہ حصہ ہے جو ٹخنے سے متصل ہوتا ہے۔ نیز جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ چور کے ہاتھ کا اتنا حصہ نہیں چھوڑا جائے گا جس کے ذریعے وہ کوئی چیز پکڑنے کے قابل ہوگا اسی لئے ہاتھ کی انگلیاں جڑ سے نہیں کاٹی گئیں کہ ہتھیلی کٹ جائے، اور وہ کوئی چیز پکڑنے کے قابل ہوجائے۔ اس لئے پائوں کاٹنے کے سلسلے میں اس کی ایڑی رہنے نہ دی جائے کہ پھر وہ چلنے پھرنے کے قابل نہ رہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہاتھ کاٹنے کی سزا اس لئے دی تاکہ اس کے لئے کسی چیز کو قابو اور پکڑنے یک گنجائش باقی نہ رہے پھر پائوں کاٹنے کا حکم اس لئے دیا کہ اسے چلنے سے روک دیا جائے اس بنا پر ایڑی کو باقی رکھنا جائز نہیں ہوگا جس کے سہارے وہ چل پھر سکے۔ جو لوگ پائوں کو اس جوڑ سے کاٹنے کے قائل ہیں جو قدم کی پشت پر ہے ان کا ذہن اس بارے میں اس طرف گیا ہے کہ پائوں کے اس جوڑ کی وہی حیثیت ہے جو ہاتھ کے اندر گٹے سے متصل جوڑ کی ہے۔ اس لئے کہ قدم کی پشت پر اس جوڑ اور پائوں کی انگلیوں کے جوڑ سے درمیان اس کے سوا اور کوئی جوڑ نہیں ہے جس طرح ہاتھ میں گٹے کے متصل جوڑ اور ہاتھ کی انگلیوں کے جوڑ کے درمیان اس کے سوا اور کوئی جوڑ نہیں ہے۔ جب قطع ید میں انگلیوں کے جوڑ سے قریب ترین جوڑ کو کاٹنا واجب ہے تو اس طرح پائوں کاٹنے میں انگلیوں کے جوڑ سے قریب ترین جوڑ سے کاٹنا واجب ہوگا۔ پہلا قول زیادہ واضح ہے۔ اس لئے کہ قدم کی پشت کا جوڑا اتنا واضح نہیں ہے جس قدر ٹخنے کا جوڑ واضح ہے یا جس طرح ہاتھ کے گٹے کا جوڑ واضح ہوتا ہے۔ جب ہاتھ کا وہ جوڑ کاٹنا واجب ہو پایا جو واضح ہوتا ہے تو پھر پائوں کے قطع کے لئے بھی ایسا ہی ہونا ضروری ہے۔ نیز جب قطع ید میں پورے ہاتھ کا احاطہ کرلیا جاتا ہے تو پھر پائوں کا احاطہ بھی ضروری ہے پھر ٹخنے کے جوڑ تک پائوں کی حیثیت وہی ہوتی ہے جو گٹے کے جوڑ تک ہتھیلی کی ہے۔ اس لئے قطع کے حکم کے لحاظ سے دونوں میں یکسانیت ہونی چاہیے۔ پائوں کاٹتے میں انگلیوں کو جڑوں سے کاٹ دینے پر اکتفا کرلینا، اس کے متعلق حضرت علی (رض) سے صحیح روایات کی صورت میں کسی بات کا ثبوت نہیں ہے۔ اس لئے کہ یہ ایک شاذ قول ہے اور اتفاق امت کے دائرے سے خارج ہے۔ نیز قیاس اور نظر کے بھی خلاف ہے۔ بایاں ہاتھ اور دائیں ٹانگ قطع کرنے کے مسئلے میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) ، حضرت علی (رض) اور حضرت عمر (رض) نیز حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ جب کوئی شخص پہلی دفعہ چوری کرے گا تو اس کا دایاں ہاتھ کاٹ دیا جائے گا اور اگر دو بارہ چوری کرے گا تو اس کی بائیں ٹانگ کاٹ دی جائے گی۔ حضرت عمر (رض) نے اس معاملہ میں حضرت علی (رض) سے مشورہ لینے کے بعد اپنے قول سے رجوع کر کے حضرت علی (رض) کا قول اختیار کرلیا تھا۔ اگر چور تیسری مرتبہ چوری کرے تو اسے قید میں ڈال دیا جائے گا۔ مزید کوئی عضو کاٹا نہیں جائے گا۔ امام ابو حنیفہ، امام ایو یوسف، امام محمد اور زفر کا یہی قول ہے۔ حضرت عمر (رض) سے ایک روایت یہ ہے کہ دایاں ہاتھ کاٹنے کے بعد بایاں ہاتھ کاٹا جائے گا اور اگر پھر چوری کرے گا تو دائیں ٹانگ کاٹ دی جائے گی، اگر اس کے بعد بھی اس جرم کا ارتکاب کرے گا تو اسے قید میں ڈال دیا جائے گا حتیٰ کہ توبہ کا اظہار کرے۔ حضرت ابوبکر (رض) سے بھی اسی قسم کی روایت منقول ہے۔ تاہم حضرت عمر (رض) سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے اس مسئلے میں حضرت علی (رض) کے قول کی طرف رجوع کرلیا تھا۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ بائیں ٹانگ کے بعد بایاں ہاتھ کاٹا جائے گا اور اس کے بعد دائیں ٹانگ کاٹی جائے گی اور اگر اس کے بعد بھی وہ اس جرم کا ارتکاب کرے گا تو اس کی گردن ماری نہیں جائے گی۔ حضرت عثمان بن عفان، حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) اور حضرت عمر بن عبد العزیز سے منقول ہے کہ ان حضرات نے چور کے دونوں ہاتھ اور دونوں پائوں کاٹنے کے بعد اس جرم کے اعادے پر اسے قتل کردیا تھا۔ سفیان نے عبد الرحمٰن بن القاسم سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے چوری کے بار بار ارتکاب پر ایک چور کا ہاتھ اور ٹانگ کاٹنے کے بعد دوسری ٹانگ کاٹنے کا ارادہ کیا اس پر حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ ” قطع میں سنت قطع ید ہے “۔ عبدالرحمٰن بن یزید نے جابر (رض) سے اور انہوں نے مکحول سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا تھا کہ ” ہاتھ اور پائوں کاٹنے کے بعد چور کا دوسرا ہاتھ نہ کاٹو۔ لیکن اسے مسلمانوں کی ایذا دہی سے باز رکھنے کے لئے قید خانے میں ڈال دو “۔ زہری کا قول ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے قطع ید کے سلسلے میں ہاتھ اور پائوں قطع کرنے کے بعد ارتکاب جرم کے اعادے کی صورت میں مزید کوئی عضو قطع نہیں کیا تھا۔ ابو خالد الاحمر نے حجاج سے، انہوں نے سماک سے اور انہوں نے اپنے بعض اصحاب سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے چور کی سزا کے متعلق صحابہ کرام سے مشورہ کیا تھا، سب کا اس پر اتفاق تھا کہ اس کا دایاں ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اگر دوبارہ جرم کرے تو بائیں ٹانگ کاٹ دی جائے۔ اور اس کے بعد مزید کوئی عضو نہ کاٹا جائے۔ یہ روایت اس بات کی مقتضی ہے کہ صحابہ کرام کا اس پر اجماع ہوگیا ہے اور اس کے خلاف جانے کی گنجائش نہیں ہے۔ اس لئے کہ حضرت عمر (رض) نے جن حضرات سے مشورہ لیا تھا وہ حضرات اس حیثیت کے مالک تھے کہ ان کے ذریعے اجماع کا انعقاد ہوجاتا ہے۔ سفیان نے عبد الرحمٰن بن القاسم سے، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے ہاتھ اور پائوں کاٹنے کے بعد دوسرا ہاتھ کاٹ دیا تھا، اس سزا کا تعلق اس حبشی سے ہے جو حضرت ابوبکر (رض) کے ہاں مہمان کے طور پر ٹھہرا ہوا تھا اس نے حضرت اسما (رض) کے زیورات چرا لئے تھے۔ یہ مرسل روایت ہے، یہ دراصل ابن شہاب زہری کی روایت ہے جو انہوں نے عروہ سے کی ہے اور عروہ نے حضرت عائشہ (رض) سے کہ ایک شخص حضرت ابوبکر (رض) کی خدمت کرتا رہا۔ آپ نے اسے زکوٰۃ کی وصولی کے لئے جانے والے ایک شخص کے ساتھ کردیا اور انہیں اس شخص کے ساتھ اچھا برتائو کرنے کی نصیحت بھی کی۔ یہ شخص ایک ماہ باہر رہنے کے بعد حضرت ابوبکر (رض) کے پاس واپس آیا تو اس کا ہاتھ کٹا ہوا تھا، زکوٰۃ کی وصولی کے لئے جانے والے شخص نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا تھا، حضرت ابوبکر (رض) کے استفسار پر اس نے بتایا کہ مصدق نے مجھے ایک فریضہ (زکوٰۃ کی رقم) میں خیانت کا مرتکب پا کر میرے ہاتھ کو کاٹ دیا۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر (رض) کو بڑا غصہ آیا اور آپ نے فرمایا کہ میرے خیال میں وہ خود تیس سے زائد فرائض یعنی زکوٰۃ کی رقموں میں خیانت کا مرتکب ہوگا، بخدا ! اگر تو سچ کہہ رہا ہے تو میں ضرور اس سے تیرا قصاص لوں گا “ ، اس کے بعد اس شخص نے اسماء بنت عمیس کے زیورات چرا لئے اور حضرت ابوبکر (رض) نے اس پر قطع کی سزا جاری کردی۔ حضرت عائشہ (رض) نے اس روایت میں یہ بتایا ہے کہ مصدق نے جب اس شخص کے ہاتھ کاٹ دیئے تو حضرت ابوبکر (رض) نے دوسری مرتبہ چوری کرنے پر اسے قطع کی سزا دی، یہ بائیں ٹانگ کاٹنے کے سوا اور کوئی صورت نہیں ہوسکتی ہے۔ یہ صحیح روایت ہے اور قاسم کی روایت کی معارض نہیں ہے۔ اگر دونوں روایتوں میں تعارض فرض کرلیا جائے تو دونوں روایتیں ساقط ہوجائیں گی اور اس روایت کے ذریعے حضرت ابوبکر (رض) سے کوئی چیز ثابت نہیں ہوگی۔ اس طرح وہ روایتیں باقی رہ جائیں گی جنہیں ہم نے حضرت ابوبکر (رض) سے نقل کیا ہے اور اس صورت میں بائیں ٹانگ کاٹنے تک یہ سزا محدود رہے گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ خاللد الخداء نے محمد بن حاطب سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے ایک ہاتھ اور ٹانگ کاٹنے کے بعد دوسرا ہاتھ بھی کاٹ دیا تھا تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات چوری کی سزا کے سلسلے میں نہیں کہی گئی ہے ہوسکتا ہے کہ یہ واقعہ کسی قصاص سے تعلق رکھتا ہو۔ حضرت عمر (رض) سے بھی اسی طرح کی روایت ہے اس روایت کی بھی وہی توجیہ ہے جس کا ابھی ذکر کیا ہے۔ سلف کے اتفاق کی صورت میں جو چیز ہمارے سامنے آئی ہے وہ حد سرقہ میں ایک ہاتھ اور ایک پائوں کاٹنے تک سزا کو محدود رکھنے کی بات ہے۔ ان حضرات سلف سے اس کے خلاف جو روایتیں ہیں انہیں دو صورتوں پر محمول کیا جائے گا یا تو ان کے ذریعے ٹانگ کاٹنے کے بعد چوری کے اعادے پر ہاتھ کاٹنے کا واقعہ نقل ہوا ہے یا دونوں ہاتھ اور دونوں پائوں کاٹنے کی بات بیان ہوئی ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بیان نہیں ہوا کہ کسی کو یہ سزا چوری کی بنا پر دی گئی تھی۔ اس طرح ان روایتوں میں چوری کی سزا کے طور پر ہاتھ پائوں کاٹ دیئے جانے پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جو حضرات سلف اس مسلک کے قائل تھے انہوں نے اس سے رجوع کرلیا تھا جس طرح حضرت عمر (رض) سے پہلے یہی قول منقول ہوا تھا اور پھر اس قول سے آپ کا رجوع بھی مروی ہوگیا۔ حضرت عثمان (رض) سے یہ منقول ہے کہ آپ نے ایک شخص کے دونوں ہاتھ اور دونوں پائوں کاٹنے کے بعد اس کی گردن بھی اڑا دی تھی لیکن اس روایت میں ہمارے مخالف کے قول پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے اس لئے کہ اس روایت میں یہ ذکر نہیں ہے کہ حضرت عثمان (رض) نے حد سرقہ میں اسے یہ سزا دی تھی۔ عین ممکن ہے کہ آپ نے قصاص کے طور پر اسے یہ سزا دی ہو۔ ہمارے اصحاب کے قول کی صحت پر قول باری (فاقطعوا ایدیھما) دلالت کرتا ہے۔ ہم نے پہلے بیان کردیا ہے کہ ہاتھوں سے دائیں ہاتھ مراد ہیں۔ حضرت ابن مسعود (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) ، حسن اور ابراہیم نخعی کی قرأت میں یہی الفاظ ہیں۔ جب آیت سارق اور سارقہ کے صرف ایک ایک ہاتھ کو شامل ہے تو اس پر اضافہ صرف توقیف یا اتفاق امت کے ذریعے جائز ہوسکتا ہے توقیف یعنی شریعت کی طرف سے اس کے متعلق کوئی رہنمائی موجود نہیں ہے۔ اور بائیں ٹانگ کاٹنے پر سب کا اتفاق ثابت ہوچکا ہے۔ لیکن تیسری مرتبہ چوری کرنے پر بایاں ہاتھ کاٹنے پر اختلاف پیدا ہوگیا ہے اس لئے اتفاق اور توقیف کی عدم موجودگی میں بایاں ہاتھ کاٹنا جائز نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ حدود کا اثبات صرف ان ہی دو باتوں میں سے ایک کے ذریعے جائز ہوتا ہے۔ اس کی ایک اور دلیل بھی ہے وہ یہ کہ ایک ہاتھ کاٹنے کے بعد دوبارہ چوری کے ارتکاب پر بایاں پائوں کاٹ دینے پر امت کا اتفاق ہے۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ بایاں ہاتھ سرے سے قطع کے حکم کے تحت آتا ہی نہیں۔ اس لئے کہ دایاں ہاتھ کاٹنے کے بعد بائیں ہاتھ کو چھوڑ کر ٹانگ کاٹنے کی علت اور وجہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کی منفت سرے سے ختم نہ ہوجائے۔ اب اگر بائیں ٹانگ کاٹنے کے بعد تیسری مرتبہ چوری کرنے پر بایاں ہاتھ کاٹ دیا جائے تو اسی علت کی موجودگی کی بنا پر ایسا کرنا درست نہیں ہوگا اس لئے بایاں ہاتھ کاٹنا درست نہیں۔ ایک اور جہت سے اس پر غور کیجئے۔ وہ یہ کہ بایاں پائوں کاٹنے کے بعد دایاں پائوں اس لئے نہیں قطع کیا گیا کہ اس کی وجہ سے ایک شخص چلنے پھرنے کی منفعت سے یکسر محروم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح دایاں ہاتھ کاٹنے کے بعد بایاں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اس لئے کہ اس کی وجہ سے ایک شخص چیزوں کو پکڑنے کی منفعت سے بالکلیہ محروم ہوجائے گا۔ پکڑنے کی منفعت کی وہی حیثیت ہے جو چلنے پھرنے کی منفعت کی ہے۔ ایک اور دلیل کی رو سے بھی ہمارے اصحاب کا قول درست ہے وہ یہ کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ محارب کو خواہ مال لوٹنے کے سلسلے میں اس کا جرم کتنا بڑا کیوں نہ ہو، صرف ایک ہاتھ اور ایک پائوں کاٹنے کی سزا ملے گی اور اس سے زائد سزا اسے نہیں دی جائے گی تاکہ ہاتھ پائوں سے فائدہ اٹھانے کی سہولت سے وہ یکسر محروم نہ ہوجائے، اس لئے چور کو بھی ایک ہاتھ اور ایک پائوں کاٹنے کی سزا سے زائد سزا نہیں ملنی چاہیے خواہ بار بار چوری کے ارتکاب کی بنا پر اس کا جرم کتنا عظیم کیوں نہ ہوگیا ہو۔ اگر کوئی یہ کہے کہ قول باری (فاقطعوا ایدیھما) دونوں ہاتھ کاٹ دیئے جانے کا مقتضیٰ ہے۔ اور اگر اتفاق امت نہ ہوتا تو ہم دوسری مرتبہ چوری کرنے پر بائیں ہاتھ کو چھوڑ کر بائیں ٹانگ کاٹنے کے قائل نہ ہوتے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ آیت بایاں ہاتھ کاٹ دینے کی مقتضیٰ ہے۔ ہم اسے تسلیم نہیں کرتے اس لئے کہ آیت صرف ایک ہاتھ کاٹنے کی مقتضیٰ ہے۔ یہ بات اس طرح ثابت ہے کہ آیت میں جمع کے صیغے کی صورت میں ہاتھ کی اضافت دونوں مجرموں یعنی سارق اور سارقہ کی طرف کی گئی ہے۔ تثنیہ کی صورت میں اضافت نہیں ہوئی ہے۔ الفاظ کی یہ ترکیب چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت میں سے ہر ایک کا ایک ایک ہاتھ کاٹنے کی مقتضیٰ ہے۔ پھر سب کا اس پر اتفاق ہے کہ ہاتھ سے دایاں ہاتھ مراد ہے۔ اس طرح گویا قول باری یہ ہوگیا ” فاقطعوا ایمانھا (ان دونوں کا دایاں ہاتھ کاٹ دو ) اس سے یہ بات غلط ہوگئی کہ آیت کے الفاظ میں بایاں ہاتھ بھی مراد ہے اور اس طرح بایاں ہاتھ قطع کرنے کے ایجاب پر آیت سے استدلال ساقط ہوجائے گا۔ علاوہ ازیں اگر آیت کے الفاظ میں اس مفہوم کا احتمال ہوتا جو معترض نے بیان کیا ہے تو اس صورت میں بھی امت کے اس اتفاق کی بنا پر کہ دایاں ہاتھ کاٹنے کے بعد دوسری مرتبہ چوری کے ارتکاب کی صورت میں بایاں پائوں کاٹا جائے گا، یہ دلالت موجود ہوتی کہ بایاں ہاتھ مراد ہی نہیں ہے اس لئے کہ یہ کسی طرح جائز نہیں کہ منصوص امر کو چھوڑ کر کسی اور امر کی طرف رجوع کرلیا جائے۔ جو لوگ دونوں ہاتھ اور دونوں پائوں یعنی اطراف کی قطع کے قائل ہیں ان کا استدلال اس روایت سے ہے جس کے راوی عبد اللہ بن رافع ہیں، انہیں حماد بن ابی حمید نے محمد بن المنکدر سے اس کی روایت کی ہے اور انہوں نے حضرت جابر (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک چور کو پکڑ کر لایا گیا آپ نے اس کا ہاتھ کاٹ دینے کا حکم دیا۔ پھر وہی شخص چوری کے الزام میں دوبارہ لایا گیا تو آپ نے اس کی ٹانگ کاٹنے کا حکم دیا۔ پھر وہی شخص تیسری مرتبہ اسی الزام میں لایا گیا آپ نے اس کا دوسرا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ چوتھی دفعہ جب وہ لایا گیا تو آپ نے اس کی دوسری ٹانگ کٹوا دی اس طرح اس کے اطراف قطع کردیئے گئے۔ اس روایت کا ایک راوی حماد بن ابی حمید محدثین کے نزدیک ضعیف شمار ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس روایت میں اختصار ہے۔ اصل روایت وہ ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی، انہیں ابو دائود نے، انہیں محمد بن عبد اللہ بن عبید بن عقیل ہلالی نے، انہیں ان کے دادا نے مصعب بن ثابت بن عبد اللہ بن الزبیر سے، انہوں نے محمد بن المکندر سے، انہوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک چور کو پکڑ کر لایا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے قتل کردینے کا حکم دیا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ اس نے صرف چوری کی ہے یہ قتل کیسے ہوسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ” اچھا پھر اس کا ہاتھ کاٹ دو “۔ چنانچہ ہاتھ کاٹ دیا گیا، پھر وہی شخص دوسری مرتبہ اسی الزام میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس لایا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا، لوگوں نے پھر عرض کیا کہ اس نے صرف چوری کی ہے، اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قطع کا حکم دیا۔ پھر وہی شخص تیسری مرتبہ لایا گیا تو آپ نے پھر اسے قتل کرنے کا حکم دیا، لیکن جب لوگوں نے اپنی بات پھر دہرائی تو آپ نے قطع کا حکم دیا۔ پھر وہ شخص چوتھی مرتبہ لایا گیا۔ آپ نے پھر اسے قتل کردینے کا حکم دیا لیکن لوگوں کی بات سن کر آپ نے قطع کا حکم دے دیا۔ جب سوء اتفاق سے پانچویں مرتبہ وہ شخص پکڑا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر اسے قتل کرنے کا حکم دیا۔ حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہم اس شخص کو لے گئے اور لے جا کر اسے قتل کردیا ۔ ابو معشر نے مصعب بن ثابت سے اس جیسے اسناد کے ساتھ یہ روایت کی ہے اور اس میں یہ اضافہ بھی ہے کہ ہم اسے لے کر مویشوں کے باڑے میں آ گئے اور اس پر مویشی کھول دیئے لیکن جب اس نے مویشوں کے سامنے اپنے کٹے ہوئے ہاتھ پیر ہلائے تو مویشی ڈر کر بھاگ نکلے اس پر ہم نے اس پر پتھروں کی بارش کردی یہاں تک کہ وہ مرگیا ۔ یزید بن سنان نے بھی اس واقعہ کی روایت کی ہے ، انہیں ہشام بن عروہ نے محمد بن المکندر سے اور انہوں نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک چورکو پکڑکر لایا گیا ۔ آپ نے اس کا ہاتھ کٹوا دیا ، پھر دوبارہ اسی الزام میں وہ پکڑا گیا ۔ آپ نے اس مرتبہ اس کی ٹانگ کٹوا دی ، پھر تیسری مرتبہ وہ اسی الزام میں مآخوذ ہوا تو آپ نے اسے قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ حماد بن سلمہ یوسف بن سعد سے ، انہوں نے حارث بن الحاطب سے اس کی روایت کی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ایک شخص نے چوری کی ، آپ نے اسے قتل کردینے کا حکم دیا ، لوگوں نے عرض کی کہ اس نے صرف چوری کی ہے ، اس پر آپ نے اس کے قطع کا حکم صادر فرمایا چناچہ اس حکم پر عمل درآمد ہوگیا ۔ پھر اس شخص نے حضرت ابوبکر (رض) کے عہد خلافت میں چوری کی اور وہ پکڑا گیا آپ نے اس کے قطع کا حکم دیا ، پھر اس نے تیسری مرتبہ چوری کی اور قطع کی سزا پائی ، پھر اس نے چوتھی مرتبہ چوری کی اور سزا کے طور پر وہ اپنے ہاتھ پائوں سے محروم ہوگیا ۔ اس بدبخت نے پھر پانچویں مرتبہ چوری کی اور پکڑا گیا اس موقع پر حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا :” اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کے متعلق زیادہ علم تھا اسی لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے قتل کردینے کا حکم دیا تھا “ ۔ پھر آپ نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا چناچہ اس کی گردن اڑا دی گئی ۔ ہم نے مصعب بن ثابت کی جس روایت کا ذکر کیا ہے وہ حماد بن ابی حمید کی روایت کی اصل ہے ، اس میں یہ ذکر ہے کہ آپ نے پہلی مرتبہ چوری کرنے پر ہی اس شخص کو قتل کردینے کا حکم دیا تھا جبکہ یہ بات واضح ہے کہ چوری کے ارتکاب پر کوئی شخص قتل کا سزا وار نہیں ہوتا ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس کے دونوں ہاتھ اور دونوں پائوں کی قطع اس سزا کے طورپر نہیں تھی ، جو حد سرقہ میں واجب ہوتی ہے بلکہ یہ سزا تشدید اور مثلہ کے طور پر تھی جس طرحق بیلہ عرینہ کے افراد کے متعلق مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کے ہاتھ پائوں کاٹنے اور ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھیر کر انہیں پھوڑ دینے کا حکم دیا تھا حالانکہ ڈاکوئوں اور راہزنوں کی آنکھوں میں سلائیاں پھیرنا اس کے جرم کی سزا کا جز نہیں ہے۔ جب مثلہ یعنی ہاتھ پائوں اور ناک کان کاٹنے کا طریقہ منسو خ کردیا گیا تو اس کے ساتھ اس قسم کی سزا بھی منسوخ ہوگئی اور صرف ایک ہاتھ اور ایک ٹانگ کاٹنے تک سزا کو محدود کردینا واجب ہوگیا ۔ چاروں اعضاء کی قطع مثلہ کے طورپر تھی ، حد کے طور پر نہیں تھی اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ حضرت جابر (رض) کی روایت میں یہ مذکور ہے کہ لوگوں نے پہلے اس مجرم پر مویشی کھول دیے اور پھر پتھر برسا کر اس کا خاتمہ کردیا حالانکہ حد سرقہ میں سزا کی یہ صورت کبھی نہیں ہوتی ۔ مویشی کھول دیے اور پھر پتھر برسا کر اس کا خاتمہ کر دیاحالان کہ حد سرقہ میں سزا کی یہ صورت کبھی نہیں ہوتی۔ ان چیزوں کا بیان جن کے چرانے پر قطع ید نہیں ہوتا ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما کا عموم ان تمام لوگوں کی تمام اشیاء کی چوری کے سلسلے میں قطع ید کو شامل ہے جن پر اسم سارق یا سارقہ کا اطلاق ہوسکتا ہو اس لیے کہ آیت اگرچہ چرائی ہوئی چیز کی مقدار کے لحاظ سے مجمل ہے لیکن اس پہلو سے یہ عموم ہے۔ البتہ سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، اقوال سلف اور فقہائے امصار کے اتفاق کی صورت میں یہ دلالت قائم ہوچکی ہے کہ یہ عموم مراد نہیں اور بہت سی اشیاء ہیں جنہیں چرانے والے پر سارق یا سارقہ کے اسم کا اطلاق ہوتا ہے لیکن ان کے چرانے پر قطع ید کی سزا نہیں ملتی تا ہم ان میں سے بہت سی چیزوں کے بارے میں فقہا کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ان چیزوں کے متعلق اختلاف رائے کا ذکر امام ابوحنیفہ اور امام محمد کا قول ہے کہ ہر ایسی چیز جو بہت جلد خراب ہوجانے والی ہو اس کے چرانے پر قطع ید نہیں ہوگی مثلاً کھجور ، انگور ، مختلف رس دار تر پھل ، گوشت ایسی خوردنی شے جو باقی نہ رہ سکے ، درختوں پر لگے ہوئے پھل اور گندم کی بالیوں میں موجود دانے خواہ ان کا کوئی محافظ موجود ہو یا نہ ہو۔ لکڑی چرانے پر کوئی قطع ید نہیں ، البتہ ساج یعنی ساکھو نیز بانس کی چوری پر قطع ید ہوگی ۔ مٹی چونے کا پتھر، چونا یا گج اور ہڑتال وغیرہ چرانے میں کوئی قطع ید نہیں ہے۔ اسی طرح پرندہ چرانے کا بھی یہی حکم ہے البتہ یاقوت اور زمرد کی چوری پر ہاتھ کاٹا جائے گا ۔ شراب اور آلات ملا ہی یعنی موسیقی اور اس قسم کے آلات کی چوری پر بھی کوئی قطع ید نہیں ۔ امام ابو یوسف کا قول ہے کہ ہر اس چیز کی چوری برقطع ہوگی جو حرز یعنی محفوظ جگہ میں رکھی ہوئی ہو مگر مٹی ، گیلی مٹی اور گوبر وغیرہ چرانے پر کوئی قطع ید نہیں ہوگی ۔ امام مالک کا قول ہے کہ پہاڑ میں رہنے والی بکری اور درختوں میں لگے ہوئے پھلوں میں کوئی قطع نہیں نہیں۔ البتہ جب یہی پھل کھلیان میں پہنچ جائیں اور انہیں کوئی چرالے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص باہر پڑی ہوئی لکڑی چرا لے جس کی مالیت قطع ید کی حد کو پہنچی ہو تو اس صورت میں چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا ۔ امام شافعی کا قول ہے کہ درختوں سے لگے ہوئے پھلوں اور کھجور کے درخت کے گوندیا اندر کے سفید گودے کی چوری پر قطع ید نہیں ہوگی اس لیے کہ یہ محفوظ نہیں ہوتے لیکن اگر انہیں محفوظ مقام پر رکھ دیا گیا ہو تو پھر چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا خواہ یہ کھجور تر حالت میں ہوں یا خشک ہوچکے ہوں ۔ عثمان البتی کا قول ہے کہ کسی شخص نے اگر درخت میں لگے ہوئے پھلوں کی چوری کی تو وہ چور ہوگا اور اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا ۔ اس پر ابوبکر جصاص تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امام مالک ، سفیان ثوری اور حماد بن سلمہ نے یحییٰ بن سعید سے روایت کی ہے، انہوں نے محمد بن یحییٰ بن حبان سے کہ مروان نے ایک غلام کی قطع ید کا ارادہ کیا جس نے کھجور کے کچھ چھوٹے پودے چرا لیے تھے۔ اس پر حضرت رافع بن خدیج نے اس سے فرمایا کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے یہ سنا ہے کہ لا قطع فی ثمرو لا کثر پھل اور شگوفوں کی چوری پر کوئی قطع ید نہیں ہے۔ سفیان بن عینیہ نے یحییٰ بن سعید سے ، انہوں نے محمد بن حبان سے اور انہوں نے اپنے چچا واسع بن حبان سے اسی واقعے کی روایت کی ہے۔ اس روایت کی سند میں ابن عینیہ نے محمد بن حبان اور حضرت رافع کے درمیان واسع بن حبان کو داخل کر دای ہے۔ لیث بن سعد نے یحییٰ بن سعید سے اور انہوں نے محمد بن حبان سے اور انہوں نے اپنی پھوپھی سے اس واقعے کی روایت کی ہے۔ لیث نے اپنی روایت میں سند کے اندر محمد بن حبان اور حضرت رافع (رض) کے درمیان محمد بن حبان کی ایک پھوپھی کو داخل کردیا ہے جو مجہول الحال سے ہے۔ درا ور دی نے یحییٰ بن سعید سے ، انہوں نے محمد بن یحییٰ بن حبان سے ، انہوں نے ابو میمونہ سے اور انہوں نے حضرت رافع بن خدیج سے اور آپ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس جیسی روایت کی ہے ۔ در او دی نے محمد بن یحییٰ اور حضرت رافع (رض) کے درمیان ابو میمونہ کو داخل کردیا ۔ اگر واسع بن حبان کی کنیت ابو میمونہ ہو تو پھر یہ ابن عینیہ کی روایت کی سند کے مطابق ہوجائے گا اگر یہ واسع بن حبان کے علاوہ کئی اور صاحب ہوں تو پھر مجہول الحال ہوں گے ۔ تا ہم فقہاء نے اس روایت کو قبول کر کے اس پر عمل کیا ہے۔ اس لیے ان کے عمل پیرا ہونے کی بنا پر اس روایت کی حجیت ثابت ہوگئی جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے لا وصیۃ لوارث اس ارشاد کو نیز خریدار اور فروخت کنندہ کے اختلاف کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کو جب اہل علم نے قبول کرلیا تو ان کی حجیت ثابت ہوگئی اور ان پر عمل پیرا ہونا لازم ہوگیا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد الا قطع فی ثمرد ولا کثر کے معنوں میں اہل علم کے درمیان اختلاف رائے سے ۔ اما م ابوحنیفہ اور امام محمد کا قول ہے کہ اس سے مراد ہے وہ پھل ہے جو جلد خراب ہوجاتا ہے۔ لفظ کا عموم ان تمام پھلوں کو شامل ہے جو باقی رہ جاتے ہوں یا جو باقی نہ رہ سکتے ہوں اور درخت سے گرجاتے ہوں ۔ ہم سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر پھل میں پختگی آ گئی ہو اور اب وہ جلد خراب ہونے والے نہ ہوں تو ایسے پھلوں کا چور قطع ید کا سزا وار ہوگا ۔ اس طرح حدیث کے عموم سے مذکورہ بالا پھلوں کی تخصیص ہوگئی۔ یہ حدیث ان پھلوں کو چرانے پر قطع ید کی نفی کی بنیاد بن گئی جو جلد خراب ہوجانے والے ہوں ۔ حسن نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا لا قطع فی طعام کھانے کی چیز چرانے سے قطع ید نہیں ہوگی یہ حدیث ہر قسم کے طعام کی چوری کی صورت میں ق طع ید کی نفی کرتی ہے تا ہم اس کے عموم سے ایسے طعام کی تخصیص کردی گئی ہے جو جلد خراب نہ ہوجاتا ہو ۔ یہ تخصیص دلیل کی بنا پر کی گئی ہے۔ امام ابو یوسف اور دوسرے حضرات جن کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول لا قطع فی ثمود ولا کثر قطع ید کی نفی پر اس لیے دلالت کرتا ہے کہ وہاں حرز یعنی محفوظ جگہ نہیں ہوتی۔ لیکن اگر ان پھلوں کو محفوظ جگہ میں رکھ دیا جائے اور پھر انہیں کوئی چرا لے تو اس صورت میں چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا ، اور پھر ان پھلوں اور دوسری محفوظ چیزوں کا حکم یکساں ہوگا ۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ تخصیص بلا دلیل ہے اس بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول ہے ولا کثر بھی ان پھلوں کو چرانے پر قطع ید کی نفی کی بنیاد پر ہے۔ اس لیے کہ لفظ کثر کے دو معنی بیان کیے گئے ہیں ۔ ایک تو جمالہ یعنی کھجور کے درخت پر لگے ہوئے چربی کی طرح سفید گوند یا کھجور کے اندر کا گودا اور دوسرے معنی میں کھجور کے چھوٹے چھوٹے پودے ۔ یہ لفظ ان دونوں معنوں پر محمول ہے۔ اگر اس سے پہلے معنی مراد ہوں یعنی جمار تو اس کے چرانے پر قطع ید کی نفی پر دلالت ہوگئی اس لیے کہ یہ جلد خراب ہوجاتا ہے ، پھر ان تمام پھلوں کے چرانے کے حکم کی بنیاد بن جائے گا جو اس کی طرح ہوں ۔ اگر اس سے دوسرے معنی مراد ہوں تو یہ لکڑی چرانے پر قطع ید کی نفی پر دلالت کرے گا اس طرح ہم اس لفظ کے دونوں معنوں پر عمل پیرا ہوجائیں گے۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ ساکھو اور بانس کے سوا کسی اور لکڑی کے چرانے پر قطع ید نہیں ہے۔ آبنوس کی لکڑی کے متعلق امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ اس کے چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ساکھو۔ بانس اور آبنوس ( ایک قسم کی سخت اور کالے رنگ کی لکڑی ہے) دارالاسلام میں مال کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے یہ دوسرے اموال کی طرح ہوں گے۔ دارالاسلام میں پائے جانے والے ساکھو، بانس اور آبنوس کی مال قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ صحیح ملکیتیں وہ ہوتی ہیں جودارالاسلام میں پائی جائیں ۔ درالحراب میں پائی جانے والی ملکیت درست نہیں ہوتی اس لیے کہ دارالحراب دار الاباحت ہوتا ہے اور وہاں کے باشندوں کی ملکیتیں مباح ہوتی ہیں ۔ اس لیے دارالحراب میں کوئی چیز کسی کی ملکیت میں ہو یا مباح ہو اس کے حکم میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اس لیے ان چیزوں کے دارالحراب میں مباح ہونے کا اعتبار ساقط ہوگیا اور اس بنا پر دارالسلام میں اس کے وجود کے حکم کا اعتبار کرلیا گیا ۔ جب دارالاسلام میں لکڑی کی یہ قسمیں دوسرے اموال کی طرح مال کی صورت میں پائی گئیں جو اصل کے اعتبار سے مسلمانوں کے اموال ہونے کی بنا پر مباح نہیں ہوتے تو پھر ان کی حیثیت بھی مسلمانوں کے مال کی طرح ہوگی اور ان کا چور قطع ید کا سزا وار ہوگا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ کھجور کے درخت بھی اصل کے اعتبار سے غیر مباح ہوتے ہیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ بہت سی جگہوں میں کھجور کے درخت بھی اصل کے اعتبار سے مباح ہوتے ہیں جس طرح اور بہت سی جنسیں اصل کے لحاظ سے مباح ہوتی ہیں ۔ اگرچہ ان میں سے بعض قبضے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ متصل کردیے جانے کی بنا پر ملکیت میں آ جاتی ہیں ۔ عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے اور انہوں نے عبد اللہ بن عمرو سے روایت کی ہے کہ قبیلہ مزنیہ کا ایک شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور عرض کیا ۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ پہاڑ پر رہنے والی چور کے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” یہ بکری اس چور کے ذمہ ہوگی اور اسے اس جیسی بکری بھرنا پڑے گی ، نیز اسزا بھگتنی ہوگی ۔ صرف ایسے مویشوں کی چوری پر قطع ید ہوگی جو اپنے باڑھے میں ہوں گے، جب وہ اپنے باڑھے میں ہوں گے اور کوئی شخص ان کی چوری کرلے اور ان کی مالیت ڈھال کی قیمت کو پہنچ جائے تو اس میں قطع ید ہوگی ۔ اور جس کی مالیت ڈھال کی قیمت کو نہیں پہنچے گی اسے چرانے کی صورت میں چور کو اس جیسا جانور تاوان میں دینا پڑے گا اور اسے سزا کے طور پر کوڑے بھی لگیں گے۔ اس شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! درختوں پر معلق پھلوں کے چور کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :” چور کے ذمے یہ پھل ہوں گے اور اتنے ہی پھل اسے بھرنے ہوں گے اور اس کے ساتھ اسے سزا بھی دی جائے گی ۔ درختوں پر معلق پھلوں کی چوری میں کوئی قطع ید نہیں ہوگی البتہ ان پھلوں میں ق طع ید ہوگی جو کھلیان میں پہنچ ہوں گے۔ اگر کسی نے کھلیان سے ڈھال کی قیمت کے مساوی مالیت کے پھل چرائے ہوں گے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا لیکن اگر پھل اتنی مالیت کے نہ ہوں گے تو اس صورت میں چور کو اتنے پھل تاوان میں بھرنے پڑیں گے اور سزا کے طور پر کوڑے بھی لگیں گے۔ حضرت رافع بن خدیج کی روایت کردہ حدیث میں پھلوں کی چوری کی صورت میں قطع ید کی یکسر نفی ہے اور حضرت عبد اللہ بن عمرو (رض) کی روایت کردہ حدیث میں صر ف ان پھلوں کو چرانے کی صورت میں قطع ید کا حکم ہے جو کھلیان میں پہنچ چکے ہوں ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد حتی یا ویہ الجرین جب تک وہ کھلیان میں پہنچ نہ جائیں کے اندر دو معنوں کا احتمال ہے ۔ ایک یہ کہ حزر یعنی محفو ظ جگہ میں پہنچ چکے ہوں ۔ دوسرے یہ کہ ان الفاظ کے ذریعے پھلوں کی پختگی کی حالت اور جلد خراب نہ ہونے کی کیفیت کا اظہار ہے۔ اس لیے کہ اکثر حالات میں پھل جب تک پختہ نہ ہوجائیں انہیں توڑ کر کھلیان میں نہیں لے جایا جاتا ، آپ کے الفاظ اس قول باری کی طرح ہیں واتوا حقہ یوم حصادہ اور فصل کی کٹائی کے دن اس کا حق ادا کرو۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے کٹائی کا دن مراد نہیں لیا ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ فصل کی کٹائی کا وقت آ جائے۔ اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے لا یقیل اللہ صلوۃ حائض الامجار اللہ اللہ تعالیٰ کسی حیض والی یعنی بالغ عورت کی نماز دوپٹہ کے بغیر قبول نہیں کرتا آپ نے یہ مراد نہیں لی ہے کہ حیض کا وجود ہو، بلکہ آپ نے بالغ ہوجانے کے بعد عورت کا حکم بیان فرمایا ہے۔ اسی طرح آپ کا ارشاد ہے اذا زنی الشیخ والشیخہ فار جموھما البتتۃ جب بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت زنا کا ارتکاب کریں تو انہیں ضرور رجم کر دو یہاں آپ نے عمر اور سن مراد نہیں لیا بلکہ احصان مراد لیا ہے۔ اسی طرح آپ کا ارشاد ہے فی خمس و عشرین بنت مخاض پچیس اونٹوں پر ایک بنت مخاص زکوٰۃ میں دی جائی گی یہاں آپ نے یہ مراد لی ہے کہ زکوٰۃ میں دیا جانے والا اونٹ کا مادہ بچہ ایک سال پورا کر کے دوسرے سال میں داخل ہوگیا ہو ۔ خواہ اس کی ماں دوسرا بچہ جننے کے لیے مخاض یعنی دروازہ میں مبتلا نہ بھی ہو ۔ آپ کے اس ارشاد کی وجہ سے کہ اکثر احوال میں اس کی ماں دوسرا بچہ جنم دینے کے قریب پہنچ چکی ہوتی ہے ۔ ٹھیک اسی طرح آپ کا ارشاد حتی یا ویہ البحرین بھی ہے۔ اس میں احتمال ہے کہ آپ نے اس سے پھلوں کی پختگی اور پکنے کے قریب پہنچ جانا مراد لیا ہو۔ اس بنا پر حضرت رافع بن خدیج (رض) کی روایت کردہ حدیث لا قطع فی ثمرو لا کثر کی تخصیص جائز نہیں ہوگی ۔ چونے کے پتھر وغیرہ چرانے پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا تو اس کی وجہ حضرت عائشہ (رض) کی یہ روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں تافہ یعنی معمولی چیز چرانے پر چورکا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا تھا۔ اس بنا پر ہر وہ چیز جو معمولی ہوگی وہ اصل کے اعتبار سے مباح ہوگی اور اس کی چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۔ ہڑتال ، گچ یعنی چونا اور چونے کا پتھر وغیرہ معمولی چیزیں ہیں جو اصل کے اعتبار سے مباح ہیں اس لیے اکثر لوگ ان چیزوں کو اپنی جگہ پڑا رہنے دیتے ہیں حالانکہ انہیں ان چیزوں کو اٹھا لے جانے کی قدرت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس یاقوت اور جواہر معمولی چیزوں میں شمار نہیں ہوتے اگرچہ یہ بھی اصل کے لحاظ سے مباح ہوتے ہیں بلکہ یہ بہت قیمتی اور غیر معمولی ہوتے ہیں ، انہیں اپنی جگہ پڑا رہنے نہیں دیا جاتا بلکہ امکان کی صورت میں انہیں اٹھا لیا جاتا ہے اس لیے ان کی چوری پر قطع ید ہوگی ۔ اگرچہ اصل کے اعتبار سے مباح ہوتے ہیں جس طرح دوسرے تمام اموال کی چوری پر قطع ید ہوتی ہے۔ اس لیے قطع ید کی شرط دو اسباب کی بنا ختم ہوتی ہے ۔ ایک سبب تو یہ ہے کہ چرانی ہوئی چیز معمولی ہو اور دوسرے یہ کہ اصل کے اعتبار سے مباح ہو یعنی ہر کسی کے لیے اسے لے لینا جائز ہو ۔ نیز چونا اور چونے کا پتھر ایسی چیزیں ہیں جنہیں ذخیرہ کرلینا مقصود نہیں ہوتا بلکہ انہیں استعمال میں لا کر ختم کردینا مقصود ہوتا ہے۔ اس لیے ان چیزوں کی حیثیت روٹی اور گوشت وغیرہ جیسی ہوگئی جبکہ یاقوت اور اس جیسی چیزیں مال ہوتی ہیں ، انہیں ذخیرہ کرنا اور سنبھال کر رکھنا مقصو د ہوتا ہے جیسے سونا اور چاندی سنبھال کر رکھے جاتے ہیں۔ پرندوں کی چوری پر سزا پرندے چرانے پر ہاتھ نہیں کاٹا جاتا اس کی وجہ وہ روایت ہے جو حضرت علی (رض) اور حضرت عثمان (رض) سے مروی ہے کہ پرندوں کی چوری میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۔ ان دونوں حضرات کے اس قول کی کسی صحابی نے مخالفت نہیں کی ۔ نیز پرندے اصل کے لحاظ سے مباح ہیں اس بنا پر یہ خشک گھاس اور لکڑی کی طرح ہیں۔ (آیت ہذا کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں)  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٨) چور مرد اور چور عورت کا دایاں ہاتھ کاٹا جائے یہ ان کی چوری کی سزا ہے اور یہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے گرفت ہے وہ چور کو سزا دینے میں غالب اور ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ کرنے میں حکمت والا ہے۔ شان نزول : (آیت) ” والسارق والسارقۃ “۔ (الخ) امام احمد وغیرہ نے عبدال بن عمر (رض) سے روایت کیا ہے کہ ر... سول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں ایک عورت نے چوری کی تو اس کا دایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا، اس نے عرض کیا یا رسول اللہ میری توبہ کی گنجائش ہے، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، یعنی پھر جو شخص توبہ کرے اپنی زیادتی کے بعد “ (الخ) ۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٨ (وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَہُمَا) یعنی چور کا ایک ہاتھ کاٹ دو ۔ (جَزَآءًً م بِمَا کَسَبَا) (نَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ ط) دیکھئے قرآن خود اپنی حفاظت کس طرح کرتا ہے اور کیوں چیلنج کرتا ہے کہ اس کلام پر باطل حملہ آور نہیں ہوسکتا کسی بھی جانب سے (حٰآ السجدہ : ٤٢) ۔ ذرا ملا... حظہ کیجیے اس آیت کے ضمن میں غلام احمد پرویز صاحب کہتے ہیں کہ یہاں چور کا ہاتھ کاٹنے کا مطلب ہے کہ ایسا نظام وضع کیا جائے جس میں کسی کو چوری کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ یہ تو ہم بھی چاہتے ہیں کہ ایسا نظام ہو ‘ ریاست کی طرف سے کفالت عامہ کی سہولت موجود ہو تاکہ کوئی شخص مجبوراً چوری نہ کرے ‘ لیکن فاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَہُمَا کے الفاظ سے جو مطلب پرویز صاحب نے نکالا ہے وہ بالکل غلط ہے۔ اور اگر فرض کرلیں کہ ایسا ہی ہے تو پھر (جَزَآءًًم بِمَا کَسَبَا) (یہ بدلہ ہے ان کی اپنی کمائی کا ) کی کیا تاویل ہوگی ؟ یعنی جو کمائی انہوں نے کی ہے اس کا بدلہ یہ ہے کہ ایک اچھا نظام قائم کردیا جائے ؟ اس کے بعد پھر (نَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ ) کے الفاظ مزید آئے ہیں۔ نکال کہتے ہیں عبرتناک سزا کو۔ تو کیا ایسے نظام کا قائم کرنا اللہ کی طرف سے عبرتناک سزا ہوگی ؟ آپ نے دیکھا قرآن کے معانی و مفہوم کی حفاظت کے لیے بھی الفاظ کے کیسے کیسے پہرے بٹھائے گئے ہیں ! دراصل حدودو تعزیرات کے فلسفے کو سمجھنا بہت ضروری ہے اور اس کے لیے لفظ نکال بہت اہم ہے۔ قرآن میں تعزیرات اور حدود کے سلسلے میں یہ لفظ اکثر استعمال ہوا ہے۔ یعنی اگر سزا ہوگی تو عبرت ناک ہوگی۔ اسلام میں شہادت کا قانون بہت سخت رکھا گیا ہے۔ ذرا سا شبہ ہو تو اس کا فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے سزا کا نفاذ آسان نہیں۔ لیکن اگر تمام مراحل طے کر کے جرم پوری طرح ثابت ہوجائے تو پھر سزا ایسی دی جائے کہ ایک کو سزا ملے اور لاکھوں کی آنکھیں کھل جائیں تاکہ آئندہ کسی کو جرم کرنے کی ہمت نہ ہو۔ یہ فلسفہ ہے اسلامی سزاؤں کا۔ یہ درحقیقت ایک تسدید (deterrence) ہے جس کے سبب معاشرے سے برائی کا استیصال کرنا ممکن ہے۔ آج امریکہ جیسے (نام نہاد) مہذبّ معاشرے میں بھی آئے دن انتہائی گھناؤنے جرائم ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ احتساب اور سزا کا نظام درست نہیں۔ لوگ جرم کرتے ہیں ‘ سزا ہوتی ہے ‘ جیل جاتے ہیں ‘ کچھ دن وہاں گزارنے کے بعد واپس آتے ہیں ‘ پھر جرم کرتے ہیں ‘ پھر جیل چلے جاتے ہیں۔ جیل کیا ہے ؟ سرکاری مہمان داری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے معاشروں میں جرائم روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

60. The injunction is to cut off one not both hands. There is consensus among jurists that in the event of the first theft the right hand should be cut off. This punishment has been laid down for theft alone. The Prophet (peace be on him) declared: "There is no cutting off of a hand for he who embezzles.' (Abu Da'ud, 'Hudud', 14; Tirmidhi, 'Hudud', 18; Ibn Majah, 'Hudud', 36; Nasa'i, 'Qat' al-Sari... q', 13 - Ed.) This shows that the punishment prescribed for theft does not cover acts involving embezzlement and other dishonest practices. It is applicable only to acts involving the seizure, by stealth, of someone else's property. The Prophet (peace be on him) also instructed that the punishment of cutting off a hand should not be applied in cases where the value of the article stolen is less than that of a shield. In the time of the Prophet (peace be on him) according to a tradition from Ibn 'Abbas, this was ten dirhams; according to a tradition from Ibn 'Umar, it was three dirhams; according to a tradition from Anas b. Malik, it was five dirhams; and according to another tradition from 'A'ishah, it was a quarter of a dinar. Owing to this discrepancy, there is disagreement among jurists regarding the minimum value of the goods stolen which merits the punishment of cutting off a hand. This value, according to Abu Hanifah, is ten dirhams whereas according to Malik, Shafi'i and Ahmad b. Hanbal, it is one quarter of a dinar (three dirhams). (For traditions on objects and amounts of things on which the hand of the thief is to be cut off, see Bukhari, 'Hudud', 13; Muslim, 'Hudud', 1-7; Abu Da'ud, 'Hudud', 12, 13; Tirmidhi, 'Hudud', 16; Nasa'i, 'Qat' al-Sariq', 5, 8-10 - Ed.) Moreover, there are several things the theft of which would not necessitate cutting off a hand. The Prophet (peace be on him) directed, for instance, that no hand should be cut off if the stolen article was food. According to a tradition from 'A'ishah: '(The hand of) the thief was not cut off during the time of the Messenger of Allah for the theft of trivial things.' (Ahmad b. Hanbal, Musnad, vol. 3, p. 464; Darimi, 'Hudud', 4, 7 - Ed.) Furthermore, 'Ali and 'Uthman gave the judgement - and none of the Companions disagreed with it - that a person's hand should not be cut off for stealing birds. 'Umar and 'Ali did not cut off the hands of those who had stolen from the public treasury, and on this question no disagreement on the part of any Companion has been reported. On these grounds the founders of the schools of Islamic Law exempted certain things from the application of this penal injunction. According to Abu Hanifah a man's hand should not be cut off for stealing vegetables, fruit, meat, cooked food, grain which is not stored in a barn, and instruments of music and play. Likewise, he is of the opinion that a hand should not be cut off for either stealing animals grazing in the forest or for stealing from the public treasury. The founders of the other schools of Islamic Law have also exempted the stealing of certain things from the punishment of cutting off a hand. But this exemption does not mean that the guilty parties should receive no punishment at all. (See the commentaries of Ibn Kathir, Ibn al-'Arabi, Qurtubi and Jassas on this verse. See also Ibn Rushd, Bidayat al-Mujtahid, vol. 2, pp. 441 ff. - Ed.)  Show more

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :60 دونوں ہاتھ نہیں بلکہ ایک ہاتھ ۔ اور امت کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ پہلی چوری پر سیدھا ہاتھ کاٹا جائے گا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت بھی فرمائی ہے کہ لا قطع علیٰ خَائنٍ ۔ اس سے معلوم ہوا کہ سرقہ کا اطلاق خیانت وغیرہ پر نہیں ہوتا بلکہ صرف اس فعل پر ہوتا ہے ک... ہ آدمی کسی کے مال کو اس کی حفاظت سے نکال کر اپنے قبضہ میں کر لے ۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت بھی فرمائی ہے کہ ایک ڈھال کی قیمت سے کم کی چوری میں ہاتھ نہ کاٹا جائے ۔ ایک ڈھال کی قیمت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بروایت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ دس درہم ، بروایت ابن عمر رضی اللہ عنہ تین درہم ، بروایت انس بن مالک رضی اللہ عنہ پانچ درہم اور بروایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایک چوتھائی دینار ہوتی تھی ۔ اسی اختلاف کی بنا پر فقہا کے درمیان کم سے کم نصاب سرقہ میں اختلاف ہوا ہے ۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک سرقہ کا نصاب دس درہم ہے اور امام مالک رحمہ اللہ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک چوتھائی دینار ۔ ( اس زمانہ کے درہم میں تین ماشہ ۱- ۱/۵ رتی چاندی ہوتی تھی ۔ اور ایک چوتھا ئی دینار ۳ درہم کے برابر تھا ) ۔ ( پھر بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جن کی چوری میں ہاتھ کاٹنے کی سزا نہ دی جائے گی ۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے کہ لا قطع فی ثمرۃ ولا کثر ( پھل اور ترکاری کی چوری میں ہاتھ نہ کاٹا جائے ) ۔ لاقطع فی طعام ( کھانے کی چوری میں قطع ید نہیں ہے ۔ ) ۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ لم یکن قطع السارق علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الشئ التافہ ( حقیر چیزوں کی چوری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہاتھ نہیں کاٹا جاتا تھا ) ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا فیصلہ ہے اور صحابہ کرام میں سے کسی نے اس سے اختلاف نہیں کیا کہ لا قطع فی الطیر ( پرندے کی چوری میں ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں ہے ) ۔ نیز سیدنا عمر و علی رضی اللہ عنہما نے بیت المال سے چوری کرنے والے کا ہاتھ بھی نہیں کاٹا اور اس معاملہ میں بھی صحابہ کرام میں سے کسی کا اختلاف منقول نہیں ہے ۔ ان مآخذ کی بنیاد پر مختلف ائمہ فقہ نے مختلف چیزوں کو قطع ید کے حکم سے مستثنٰی قرار دیا ہے ۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ترکاریاں ، پھل ، گوشت ، پکا ہوا کھانا ، غلہ جس کا ابھی کھلیان نہ کیا گیا ہے ، کھیل اور گانے بجانے کے آلات وہ چیزیں ہیں جن کی چوری میں قطع ید کی سزا نہیں ہے ۔ نیز جنگل میں چرتے ہوئے جانوروں کی چوری اور بیت المال کی چوری میں بھی وہ قطع ید کے قائل نہیں ہیں ۔ اسی طرح دوسرے ائمہ نے بھی بعض چیزوں کو اس حکم سے مستثنٰی قرار دیا ہے ۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ان چوریوں پر سرے سے کوئی سزا ہی نہ دی جائے گی ۔ مطلب یہ ہے کہ ان جرائم میں ہاتھ نہ کاٹا جائے گا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(38 ۔ 40) ۔ راہ زنوں کے ذکر کے بعد یہ چوروں کا ذکر فرمایا چور کا ہاتھ کاٹنا اور خون بہا کا ادا کرنا شریعت محمدی سے پہلے بھی قریش میں جاری تھا۔ اللہ تعالیٰ نے شریعت محمدی میں اسی رواج کو قائم فرمادیا ہے۔ جس عورت مخزومیہ کے ہاتھ کاٹنے کے وقت یہ آیتیں نازل ہوئی ہیں اس عورت کا قصہ صحیحین اور مسند امام ا... حمد بن حنبل وغیرہ میں جو کچھ مذکور ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ فتح مکہ کے وقت ایک عورت نے چوری کی تھی قریش کو اس عورت کا ہاتھ کاٹنا شاق تھا اس لئے قریش نے اسامہ بن زید (رض) سے آنحضرت کی خدمت میں سفارش کرائی آپ کو یہ سفارش سن کر بڑا غصہ آیا اور آپ نے فرمایا کیا تعزیرات الٰہی میں بھی بندوں کی سفارش کا کچھ دخل ہوسکتا ہے۔ بالفرض محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی فاطمہ (رض) بھی کچھ چورائے تو اس کا بھی ہاتھ کاٹا جاوے گا ١ ؎۔ غرض آپ نے اس عورت کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ اور جب اس عورت کا ہاتھ کٹ چکا تو اس عورت نے حضرت سے پوچھا کہ حضرت میری توبہ بھی قبول ہوگئی آپ نے فرمایا اب تو ایسی ہوگئی جیسے تیری ماں نے تجھ کو جنا ہے۔ اب رہی یہ بات کہ کس قدر مال کی چوری پر ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے۔ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ عبد اللہ بن مسعود (رض) سفیان ثوری (رض) اور امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک تین درہم اور امام شافعی (رح) کے نزدیک چہار حصہ دینار کا اور امام احمد (رح) کے نزدیک چہارم حصہ دینار کا یا تین درہم یہ مقدار ہر ایک کے نزدیک مقرر ہے اور دلیل ہر ایک مذہب کی فقہ کی کتابوں میں ہے ١ ؎۔ ایک شخص ابو العلاء شاعر نے بغداد کے فقہا پر ایک اعتراض جو اس چوری کی مقدار کا کیا وہ مشہور ہے وہ اعتراض یہ ہے کہ ایک شخص کسی شخص کا ہاتھ کاٹ ڈالے تو سرع میں اس کا خون بہا پانچ سو دینار ہیں اور ایک شخص کسی شخص کی کچھ چیز چرائے تو تین درہم پر وہی پانچ سواشرفی کی قیمت کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔ علماء نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ شریعت کے احکام برے کاموں سے روکنے کے لئے ہیں۔ اس واسطے چور کو یوں روکا گیا ہے کہ تین درہم تک ہاتھ کٹ جانے کا خوف رہے اور خون خرابہ کرنے والوں کو خانہ جنگی سے یوں روکا گیا ہے کہ اگر کسی کا ہاتھ بھی تم کاٹوں گے تو پانچ سو اشرفیاں جرمانہ بھرنا پڑے گھا بعض علماء نے یہ بھی جواب دیا ہے کہ چور کے ہاتھ کی قیمت تین درہم خدا نے رکھی ہے اور سچے ہاتھ کی قیمت پانسو اشرفی ٢ ؎۔ اکثر علماء کے نزدیک توبہ کرنے سے ہاتھ کاٹنے کی سزا ساقط نہیں ہوتی ہاتھ کاٹنے تو تاوان کے دلانے میں اختلاف ہے جس کی تفصیل بڑی کتابوں میں ہے ٣ ؎۔ آخر کو فرمایا آسمان و زمین کی بادشاہت اللہ تعالیٰ کی ہے اس کے حکم میں کوئی دخل نہیں دے سکتا۔ جس کی توبہ خالص ہو اس کو وہ بخش دے تو اسے اختیار ہے اور جس کی توبہ خالص نہیں اور وہ اسے نہ بخشے تو بھی اسے اختیار ہے۔ غرض کوئی بات اس کی قدرت اور اس کے اختیار سے باہر نہیں اور وہ عالم الغیب ہے توبہ کا خالص ہونا اور نہ ہونا اسی کو خوب معلوم ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:38) کسبا۔ ماضی تثنیہ مذکر غائب۔ ان دونوں نے کمایا۔ نکالا۔ اسم نصوب۔ عبرت۔ عبرتناک سزا دینا۔ نکل ینکل تنکیلا (تفعیل) رسوا کرنا۔ بھگا دینا۔ اپنے سے ایک طرف کردینا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 اوپر کی آیت میں محارمین ( جو فساد پھیلاتے ہیں اور لوٹ مار کرتے ہیں) کی سزا تو یہ بیان فرمائی کہ ان کے ہاتھ پاوں کاٹ دیے جائیں اب اس آیت میں چوری کی حد قانونی سزا بیان فرمائی کہ مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں مگر آیت میں عموم اور اجمال ہے حدیث میں ہے تقطع ید السا ق فی ربع دینار فصاعدا ک... ہ کم از کم چوتھائی دینار سرقہ ہو تو کلائی کے پاس سے اس کا دہنا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا (قرطبی) مسئلہ اگر کوئی شخص قبر یا مسجد سے چوری کرے تو اس کے بھی یہی سزادی جائے گی جمہور علما نے کا یہی مذہب ہے اور نالامن نمہ فرما کر اشارہ فرمایا کہ یہ عقوبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے علاوہ ازیں مسرقہ مال اس کے مالک کو واپس کرنا پڑیگا (دیکھئے قرطبی)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 38 تا 40 لغات القرآن : السارق (چوری کرنے والا مرد) ۔ السارقۃ (چوری کرنے والی عورت) ۔ اقطعوا (کاٹ ڈالو) ۔ کسبا (انہونے کمایا) ۔ نکالا (سزا۔ عبرت ) ۔ اصلح (اصلاح کرلی ) ۔ تشریح : مرد اور عورت دونوں کا نام وضاحت سے لے کر حکم دیا کہ چور کوئی بھی ہو اس کا ہاتھ کاٹ ڈالو۔ تمام فقہا متفق ہیں کہ ہات... ھ گٹے پر سے کٹے اور گا اور پہلی چوری میں داہنا ہاتھ کٹے گا ۔ چور اگر چہ انسان کا مال چراتا ہے لیکن اللہ نے اسے اپنے حقوق کی پا مالی میں شمار کیا ہے ۔ اور حد قائم کردی ہے ۔ یوں سمجھ لیاجائے کہ بندہ اللہ کا ہے ۔ چناچہ بندۃ کا مال بھی اللہ کا مال ہے ۔ اگر بندہ کا مال چوری ہوگیا تو وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کیسے ادا کرسکے گا۔ جرم میں ذار بھی شک وشبہ پیدا ہوجائے تو حد شرعی نافذ نہیں ہوسکے گی ۔ مگر قاضی کو اختیار ہے کہ اس سے کم تر جو سزامناسب سمجھے چورمردیا چور عورت کودے دے ۔ دنیا کی سزا اگر ہونی ہے تو بہر حال ہوگی۔ ہاں توبہ سے آخرت کی سزا معاف ہوسکتی ہے ۔ ڈاکو اور قزاق کی سزا میں یہ استثنا ہے کہ اگر گرفتاری سے پہلے وہ اپنے آپ کو فرد کی صورت میں یا جماعت کی صورت میں حکومت کے حوالے کردے اور آئندہ جرائم سے توبہ کرلے اور حکومت کو اس توبہ پر یقین آجائے تو اسے دنیا میں بھی معافی مل سکتی ہے ۔ شرط یہ ہے کہ اس نے قتل یا زنانہ کیا ہو۔ یہ اللہ کی مصلحت ہے کہ بڑے بڑے مجرموں کے لئے بھی توبہ اور اصلاح کا دروازہ کھلا چھوڑا ہے ۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ بڑے بڑے مجرموں نے اس سے فائدہ اٹھا کر اپنی اصلاح کی ہے ۔ اور یہ بھی اللہ کی مصلحت ہے کہ اس نے مادی معاملات کا رخ بھی روحانیت اور آخرت کی طرف موڑ دیا ہے جیسا کہ آیت نمبر 40 سے ظاہر ہے ۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اقل مقدار مال کی جس میں ہاتھ کاٹا جاتا ہے دس درم ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ آیات میں ڈاکہ اور رہزنی کی سزا بیان کی گئی تھی درمیان میں حسب دستور نصیحت اور تنبیہ کی گئی۔ اب چور کی سزا بیان ہوتی ہے۔ ہر قوم اور معاشرے میں طاقت اور قوت کے زور پر مال لوٹنے والے کو ڈاکو اور چھپ کر کوئی چیز اٹھانے والے کو چور کہا جاتا ہے۔ اس لیے اہل لغت اور شارحین نے چ... وری کی یہ تعریف کی ہے ” ایسا مال جس کو حفاظت میں رکھا گیا ہو اسے ہتھیانے والے کو چور کہیں گے ایسے شخص پر چوری کی سزا نافذ کی جائے گی “ پہلی دفعہ چوری کرنے والے سے مال وصول کرتے ہوئے اس کا دایاں ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اگر دوسری دفعہ چوری کرتا ہے۔ تو اس کا بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا جائے گا۔ بعض لوگ غیر مسلموں کے پروپیگنڈہ میں آکر اسلام کی مقرر کردہ سزاؤں کو غیر مہذب سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے آپ کو مہذب سمجھنے کے باوجود مظلوم کی خیر خواہی کرنے کی بجائے ڈاکو، چور اور بدکار لوگوں کی حمایت کرتے ہیں۔ جو اخلاق، دین اور معاشرتی آداب کے کسی اصول کے مطابق نہیں ہے۔ قرآن مجید جرائم کی بیخ کنی کے لیے سنگین جرائم کی نہ صرف سخت ترین سزا تجویز کرتا ہے۔ بلکہ اس کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ ایسے لوگوں کو سر عام سزا دی جائے گی۔ اس آیت میں لفظ ” نکالاً “ کا یہی مفہوم ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَعْنَ اللّٰہُ السَّارِقْ یَسْرِقُ الْبَیْضَۃَ فَتُقْطَعُ یَدُہٗ وَیَسْرِقُ الْحَبْلَ فَتُقْطَعُ یَدُہٗ ) [ رواہ البخاری : کتاب الحدود، باب لعن السارق اذا لم یسم ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ چور پر لعنت کرے ایک انڈے کی چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے اور ایک رسی کی چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔ “ مسائل ١۔ چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹے جائیں۔ ٢۔ عبرت کے لیے یہ ان کی دنیا میں سزا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سزا کی حکمتوں کو خوب جانتا ہے۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٣٨ تا ٤٠۔ ” اسلامی معاشرہ ‘ باشندگان دارالاسلام کے لئے ایک ایسا ماحول فراہم کرتا ہے جس میں کوئی معتدل شخص چوری کے بارے میں سوچ ہی نہ سکے ‘ چاہے ان باشندوں کے عقائد ونظریات جو بھی ہوں۔ اسلامی معاشرہ اپنے باشندوں کو معاشی کفالت ‘ اخلاقی تربیت اور درست طرز عمل اختیار کرنے کی ضمانت دیتا ہے...  ۔ نیزانصاف اور دولت کی منصفانہ تقسیم کا انتظام کرتا ہے اور وہ یہ انتظام بھی کرتا ہے کہ اس کے اندر انفرادی ملکیت کی شکل ایسی ہو کہ وہ پوری سوسائٹی کے لیے نفع بخش ہو اور وہ معاشرے کے لئے باعث اذیت نہ ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے حالات پیدا کردینے کے بعد بھی اگر کوئی چوری کرتا ہے تو اسلام اسے سخت ترین سزا دیتا ہے ۔ اسی طرح انفرادی ملکیت پر دست درازی کرنے والے اور سوسائٹی کا امن وامان تباہ کرنے والے کو عبرت ناک سزا دیتا ہے ۔ ان سخت ترین سزاؤں کی تجویز کے ساتھ ساتھ اسلام شبہات کی بنا پر حدود کو ساقط بھی کرتا ہے اور ملزم کو مکمل قانونی دفاع کا اختیار اور حق عطا کرتا ہے تاکہ کسی شخص کو مکمل ثبوت کے بغیر سزا نہ دی جاسکے ۔ اب مناسب ہے کہ اس اجمال کے بعد قدرے تفصیلی بحث کردی جائے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی نظام ایک باہم مربوط کل ہے ۔ اس نظام کے کسی جزء کو اس وقت تک نہیں سمجھا جاسکتا جب تک کسی کے پیش نظر وہ تمام اصولی مباحث نہ ہوں اور وہ ضمانتیں نہ ہوں جو یہ نظام اسلامی معاشرے کو فراہم کرتا ہے اور جن اصولوں اور قواعد پر اس کی جزئیات قائم ہیں ۔ پھر اسلامی نظام کا ایک ایک جزء نافذ بھی نہیں ہو سکتا جب تک اسے مکمل طور پر نافذ نہ کیا جائے اور اسے مجموعی طور پر روبعمل نہ لایا جائے ، رہی یہ صورت کہ اس نظام کے کسی ایک جزء کو نافذ کرنا یا اس کے اصولوں میں سے کسی ایک اصول کو نافذ کرنا اور یہ نفاذ ایک ایسے معاشرے اور ایک ایسے نظام کے اندر کرنا جو مجموعی طور پر اسلامی نظام نہیں ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہ ہوگا ۔ اسلام سے کٹا ہوا یہ جزء بھی اسلام کا نفاذ تصور نہ ہوگا ‘ اس لئے کہ اسلام ‘ اسلام کے اجزاء اور ٹکڑوں کا نام نہیں ہے ۔ اسلام ایک ایسا نظام ہے جو تمام شعبہ ہائے حیات پر حاوی ہے اور اس کے احکام باہم مربوط ہیں ۔۔۔۔۔ یہ تو ایک عمومی بات تھی ۔ رہی یہ بات کہ چوری کے قانون اسلامی کے بارے میں بات قدرے مختلف ہے تو حقیقت یہ ہے کہ دارالاسلام میں اسلام ہر فرد کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ زندہ رہے ‘ اور اپنی زندگی کے حفظ اور بقاء کے لئے تمام وسائل سے کام لے ۔ ہر شخص کھا پی سکتا ہے ‘ ہر شخص کو مکان اور لباس کا حق ہے جہاں وہ آرام اور سکون سے رات گزرے ۔ ایک فرد کا اسلامی سوسائٹی پر یہ حق ہے کہ وہ اسے اس کی یہ بنیادی ضروریات فراہم کرے اور ظاہر ہے کہ ایک حکومت پوری سوسائٹی کی طرف سے نمائندہ ہوتی ہے ۔ یہ حق اس طرح فراہم ہوگا کہ حکومت ان تمام لوگوں کو روز گار فراہم کرے جو کام کرنے کے قابل ہوں ۔ یہ حق ایک فرد کا سوسائٹی پر ہے اور پھر حکومت پر ہے ۔ یہ سوسائٹی اور حکومت لوگوں کو کام کرنے کی تربیت بھی دے گی اور لوگوں کو کام کرنے کے مواقع اور کام کے اوزار بھی فراہم کرے گی ۔ اگر کوئی بےروز گار ہوجاتا ہے اس طرح کہ اسے کام نہیں ملتا ‘ یا کام کے اوزار نہیں ملتے ‘ یا وہ محنت کے قابل نہیں رہتا اور یہ بیکاری جزئی ہے یا کلی ہے ‘ وقتی ہے یا دائمی ہے ‘ یا صورت یہ ہے کہ وہ کام تو کرتا ہے لیکن یہ کام اس کی ضروریات کے لیے کافی نہیں ہے تو اس فرد کا یہ حق ہے کہ وہ اجتماعی نظام یا سوسائٹی اس فرد کو یہ ضروریات خزانہ سے فراہم کرے یا ان لوگوں کے ذریعے فراہم کرائے جن پر ایسے افراد کا نفقہ فرض ہے ۔ اہل محلہ سے ایسے لوگوں کی ضروریات فراہم کرائے ورنہ جیسا کہ کہا گیا بیت المال اور خزانہ سے فراہم کرے ۔ بیت المال کی ایک مد زکوۃ تو ہے ہی اس کے لیے ۔ اگر زکوۃ فنڈ سے بھی پورا نہ ہو تو پھر پورے دارالاسلام پر اس سلسلے میں ٹیکس عائد ہو سکتا ہے جس کے ذریعے غرباء کو اس قدر دیا جائے کہ ان کی ضروریات پوری ہوں ۔ لیکن یہ ٹیکس بھی غرباء کی ضرورت کے مطابق ہی عائد ہو اور ضرورت سے زیادہ نہ ہو اور ایسی انفرادی ملکیت پر ظلم نہ ہو جو بالکل حلال ذرائع سے کمائی گئی ہو۔ پھر اسلام دولت کے ارتکانی پر بھی سخت پابندیاں عائد کرتا ہے ۔ اسلامی نظام میں انفرادی دولت صرف حلال ذرائع سے جمع کی جاسکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں انفرادی ملکیت کو بغض وحسد کا سامنا کرنا نہیں پڑتا یعنی ان لوگوں کی طرف سے جو نادار ہیں۔ اسی طرح اسلامی معاشرے میں کوئی شخص دوسرے کی جائیداد چھین لینے کے بارے میں بھی نہیں سوچتا خصوصا اس وقت جب اسلامی نظام ان کے بقدر کفایت انتظام کرتا ہے اور ان کو بالکل محروم نہیں چھوڑتا ۔ اسلام لوگوں کے ضمیر اور ان کے اخلاق کی تربیت پر بھی زور دیتا ہے ۔ اس لئے اسلام لوگوں کو کسب وعمل پر آمادہ کرتا ہے اور یہ کسب وعمل اسلامی طریقے کے مطابق چاہتا ہے ۔ اگر عمل اور روز گار نہ ملے تو اسلامی نظام لوگوں کی ضروریات کی فراہمی کا انتظام کرتا ہے ‘ اور پاک وصاف ذرائع سے ان کی کفالت کرتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ایسے معاشرے اور ایسے حالات میں ایک شخص اگر چوری کرتا ہے تو کیوں کرتا ہے ؟ یہ شخص ضروریات کے لئے چوری نہیں کرتا بلکہ یہ دولت جمع کرنے کے لئے چوری کرتا ہے ۔ یہ دولت وہ کسب اور محنت کے ذریعہ جمع نہیں کرنا چاہتا بلکہ چوری کے ذریعہ دولت جمع کرنے کے لئے چوری کرتا ہے ۔ یہ دولت وہ کسب اور محنت کے ذریعہ جمع نہیں کرنا چاہتا بلکہ چوری کے ذریعہ دولت جمع کرنے کی خواہش کرتا ہے جس سے پورے دارالاسلام کے امن وامان اور اطمینان کو خطرہ لاحق ہوتا ہے ۔ اسلامی سوسائٹی کا یہ حق ہے کہ وہ امن و سکون سے جاری وساری رہے لیکن یہ چوری کا فعل ایک حلال مال کے مالک کو اپنے حق اطمینان سے محروم کردیتا ہے اور پھر سوسائٹی کو بھی ۔ اسلامی معاشرے میں جو شخص حلال دولت کماتا ہے ‘ سود خوری نہیں کرتا ‘ دھوکہ دہی نہیں کرتا ‘ ذخیرہ اندوزی نہیں کرتا ‘ مزدوروں کی مزدوری نہیں مارتا ‘ زکوۃ ادا کرتا ہے ‘ اور اسلامی معاشرے کو وہ ٹیکس بھی ادا کرتا ہے جس کی اس معاشرے کو ضرورت ہو تو ایسے شخص کا بھی اسلامی معاشرے اور دارالاسلام پر یہ حق ہے کہ اس کا مال محفوظ ہو اور اس کی یہ دولت چوری اور ڈاکے سے محفوظ رہے ۔ ایسے تمام حالات اور سہولتوں کے بعد بھی اگر کوئی چوری کرتا ہے ‘ وہ اس حال میں چوری کرتا ہے کہ اس کی ضروریات پوری ہو رہی ہیں ‘ اس کو یہ بھی معلوم ہے کہ چوری ایک سنگین جرم ہے اور اسے دوسروں کا مال لوٹنے کی ضرورت اور احتیاج بھی نہیں ہے اور ان مالداروں نے نہ لوٹ مار کے ذریعہ یہ مال جمع کیا ہے اور نہ حرام ذرائع سے جمع کیا ہے ۔ اگر کوئی ایسے حالات میں سرقے کا ارتکاب کرتا ہے تو یہ سرقہ بلاجواز ہے ۔ ایسے حالات میں کسی کے لئے یہ جائز نہیں ہے ۔ کہ وہ ایسے شخص پر رحم کرے بشرطیکہ اس پر جرم ثابت ہوجائے ۔ اگر حالات مقدمہ ایسے ہوں کہ جن میں یہ ثابت ہوجائے کہ چور ضرورت مند تھا ‘ یا کوئی اور عذر تھا تو اسلامی قانون کا عام اصول یہی ہے کہ حدود شبہات کی وجہ سے ساقط ہوجاتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ قحط سالی کے سال میں حضرت عمر (رض) نے قطع ید کی سزا کو موقوف فرمایا تھا ۔ اس موقعہ پر حالات ایسے تھے کہ لوگ بالعموم بھوکے ہوتے تھے ۔ اسی طرح حضرت عمر (رض) نے ایک خاص حادثے میں بھی سزائے قطع ید نہ دی تھی ۔ حاطب بن ابی بلتہ کے غلاموں نے مزینہ کے ایک شخص کی اونٹنی چوری کرلی تھی ۔ حضرت عمر (رض) نے ان کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تھا ‘ لیکن جب حضرت عمر (رض) کو معلوم ہوا کہ ان غلاموں کا مالک ان کا بھوکا رکھتا ہے تو آپ نے حد کی سزا ساقط کردی اور غلاموں کے مالک پر اونٹنی کی قیمت سے دوگنا قیمت بطور تاوان عائد کردیا۔ مناسب یہ ہے کہ ہم اسلامی حدود کو اس انداز سے سمجھنے کی کوشش کریں اور انہیں اسلام کے مکمل اور مربوط نظام کی شکل و صورت میں سمجھیں جو افراد معاشرہ کو زندگی کی ضمانتیں فراہم کرتا ہے ۔ یہ ضمانتیں کسی ایک طبقے کو دوسرے طبقے کے خلاف نہیں فراہم کرتا بلکہ اسلام سزا کے اسباب فراہم کرنے سے پہلے سزا بچانے کے اسباب فراہم کرتا ہے ۔ اسلام صرف ان لوگوں کو سزا دیتا ہے جو بلاجواز جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اس عمومی حقیقت کے اظہار کے بعد اب ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ حد سرقہ کی تفصیلات دی جائیں ۔ سرقہ کی تعریف یہ ہے کہ دوسرے کا مال خفیہ طور پر لیا جائے جو مال حرز کے اندر ہو ۔ یہ بھی ضروری ہے کہ مال مقوم ہو یعنی مالیت رکھتا ہو ۔ مال کے نصاب کے سلسلے میں فقہاء کے درمیان متفق علیہ بات یہ ہے کہ جو مال لیا گیا ہو اور خفیہ طور پر حرز کے اندر سے لیا گیا ہو ‘ اس کی مقدار ٤١ دینار کے برابر ہونا چاہئے یعنی ہمارے دور کے ٢٥ مصری قرش کے برابر یہ نہایت ہی ضروری ہے کہ یہ مال حرز کے اندر ہو اور چور اسے حرز کے اندر سے لے لے ۔ اور وہ لے کر حرز سے نکل جائے ۔ اب اگر کوئی کسی کے پاس مالی امانت رکھتا ہے اور وہ اسے چوری کرلیتا ہے تو اس پر حد سرقہ نہ ہوگی ۔ اسی طرح جو شخص ملازم ہے اور وہ گھر یا دکان وگودام میں آتا جاتا ہے تو بھی اس پر حد سرقہ جاری نہ ہوگی ۔ اس طرح اگر کوئی کسی سے کوئی چیز مانگ کرلے جاتا ہے اور پھر انکار کردیتا ہے اور اس سے برآمد ہوجاتی ہے تو بھی اس پر حد سرقہ جاری نہ ہوگی ۔ نیز ان پھلوں پر بھی حد سرقہ نہ ہوگی جب تک کھلیاں میں انہیں جمع نہ کرلیا جائے ۔ نہ ایسے مال پر یہ حد ہوگی جو گھر سے باہر ہو یا اس صندوق سے باہر ہو جو اس کی حفاظت کے لیے بنایا گیا ہو ۔ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ مال محفوظ کسی دوسرے شخص کی ملکیت میں ہو ‘ اس لیے اگر کوئی شریک چوری کرلے تو اس پر حد سرقہ نہ ہوگی ۔ اس لئے کہ اس میں وہ خود بھی شریک ہے اور وہ خالص طور پر دوسرے کا نہیں ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی سرکاری مال چرائے یعنی دارالاسلام کے خزانے سے تو اسے بھی قطع ید کی سزا نہ ہوگی کیونکہ اس مال میں اس کا بھی حصہ ہے اور وہ خالص مال الغیسر نہیں ہے ۔ ایسے حالات میں سزا قطع ید نہ ہوگی بلکہ تعزیری سزا ہوگی (یاد رہے کہ تعزیری سزا سزائے حد سے کم ہوتی ہے ، مثلا کوڑے ‘ قید ‘ ڈانٹ ڈپٹ اور وعظ ونصیحت بھی اور یہ سزا ظرف احوال کے مطابق قاضی کے اختیار تمیزی پر ہوگی) ” قطع ید “ دائیں ہاتھ کا ہوگا یعنی کلائی تک اگر دوبارہ چوری کرے تو بایاں پاؤں ٹخنے تک کاٹا جائے گا یہاں تک تو تمام لوگوں کا اتفاق ہے تیسری اور چوتھی بار چوری کرنے کی صورت میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ۔ شبہات کی وجہ سے حدود معاف ہوجاتی ہیں حد سرقہ میں شبہات درج ذیل ہو سکتے ہیں ‘ مثلا بھوک اور شدید ضرورت کی وجہ سے حد ساقط ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح اگر مال میں شرکت کا شبہ ہو تو بھی حد ساقط ہوگی ‘ اگر کسی نے اعتراف کیا ہو اور باقی شہادت نہ ہو تو بھی اعتراف جرم سے رجوع کرتے ہی حد ساقط تصور ہوگی ۔ اسی طرح اگر کسی نے شہادت دی ہو لیکن بعد میں وہ شہادت سے پھرجائے تو یہ بھی ایک طرح کا شبہ ہوگا ۔ اور فقہاء کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ وہ کیا چیز ہے جسے شبہ تصور کیا جائے گا ۔ امام ابوحنفیہ (رح) فرماتے ہیں کہ جو پیر مباح ہو اصلا تو اس میں قطع ید کی سزا نہ ہوگی اگرچہ وہ حرز اور حفاظت میں ہو ۔ مثلا ایک شخص کسی کے حزز سے پانی چوری کرتا ہے یا مثلا ایک شخص شکار کرے اور اسے محفوظ کرلے اور دوسرا اسے چرا لے ۔ یہ دونوں چیزیں ایسی ہیں جو اپنی اصلیت کے اعتبار سے سب کے لیے مباح ہیں اس میں یہ شبہ لاحق ہو سکتا ہے کہ حرز اور حفاظت میں آنے کے بعد بھی اباحت جاری ہو ۔ اسی طرح عوام الناس کی مشترکہ دولت اگرچہ کسی خاص شخص کے حرز اور حفاظت میں آجائے ‘ اس میں بھی شبہ لاحق ہو سکتا ہے کہ وہ اب بھی مفاد عامہ کی چیز ہے ۔ جبکہ امام شافعی ‘ (رح) امام مالک (رح) ‘ اور امام احمد (رح) ایسے حالات میں شبہ کے قائل نہیں ہیں اور حد کو ساقط نہیں کرتے ۔ امام ابوحنیفہ (رح) ان تمام چیزوں کی چوری میں حد ساقط فرماتے ہیں جن میں گلنے سڑنے کا عمل تیزی سے آتا ہے ، مثلا کھانا ‘ پھل ‘ سبزیاں ‘ گوشت ‘ روٹی اور ان جیسی دوسری اشیاء ہاں امام ابو یوسف (رح) ‘ امام ابو حنفیہ (رح) سے اختلاف کرتے ہیں ۔ اور وہ ان میں قطع ید کے قائل ہیں جس طرح ائمہ ثلاثہ قائل ہیں ۔ یہاں ہمارے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم فقہاء کے اختلافات میں تفصیل سے بحث کریں ‘ یہ تفصیلات کتب فقہ میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔ یہ چند مثالیں اس بات کے اظہار کے لئے کافی ہیں کہ اسلامی قانون کی پالیسی یہ نہیں ہے کہ وہ خواہ مخواہ سزا نافذ کرے بلکہ اسلام شبہات کی وجہ سے حدود کو ساقط کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں۔ (ادروا الحدود بالشبہات) (حدود کی سزاؤں کو شبہات کی وجہ سے ساقط کر دو ) اور حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں : میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ شبہات کی وجہ سے حدود کو معطل کر دوں بہ نسبت اس کے کہ میں ایسے حالات میں حدود کو نافذ کروں ۔ لیکن قطع ید کے بارے میں مناسب ہے کہ ذرا تفصیلی بات ہوجائے ‘ یہ بات تو ہم کہہ چکے ہیں کہ دارالاسلام میں ‘ ملزم کے بچاؤ اور اسے پورے پورے عدالتی تحفظات دینے کے بعد چور کے ساتھ سختی کیوں کی گئی ہے ۔ یہاں مناسب ہے کہ ہم جناب عبدالقادر عودہ کی مشہور کتاب سے کچھ اقتباسات دے دیں ۔ ” سارق کے لئے قطع ید کی سزا اس لئے تجویز کی گئی ہے کہ چور جب چوری کرتا ہے تو اس کا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دوسرے کی کمائی حاصل کرکے اپنی کمائی میں اضافہ کرے ۔ وہ خود حلال طریقے سے جو کماتا ہے اسے ناکافی تصور کرتا ہے اس طرح وہ حرام طریقے سے اپنی کمائی بڑھانا چاہتا ہے ۔ وہ اپنے عمل اور کسب کے نتائج پر اکتفاء کرتا ‘ اور دوسرے کی کمائی ہتھیانے کا لالچ کرتا ہے ۔ اور اس کام کے پس پشت وہ یہ خواہش رکھتا ہے کہ اس طرح وہ زیادہ خرچ کرے یا زیادہ دولتمندی کا مظاہرہ کرے یا یہ جذبہ ہوتا ہے کہ وہ کام کرنے اور مشقت کرنے سے بچ جائے یا اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اس کا مستقبل محفوظ ہوجائے ، غرض چوری پر مائل کرنے کا عامل صرف یہ ہوتا ہے جو اوپر ہم نے بیان کیا یعنی زیادہ کمائی اور دولتمندی۔ اسلامی شریعت نے ان کی نفسیات کے اندر اس بیماری کا علاج اس طرح شروع کردیا کہ اس کہ اس نے جرم کے لئے قطع ید کی سزا تجویز کی اس قطع ید یا قطع پا سے اس شخص کی کمائی پر اثر پڑے گا اس لئے کہ ہاتھ اور پاؤں دونوں کمائی کے آلات ہیں ۔ اب کمائی کم ہوگی تو دولت کم ہوگی اور دولت کم ہوگی تو زیادہ انفاق اور زیادہ دولتمندی کا اظہار بھی کم ہوگا ۔ اس کی وجہ سے اب ایسے شخص کو زیادہ محنت کرنے کی ضرورت پڑے گی اور وہ زیادہ وقت کے لئے کام کرے گا اور اسے اپنے پورے مستقبل سے ہاتھ دھونے کا خطرہ درپیش ہوگا ۔ “ اس طرح شریعت نے قطع ید کی سزا مقرر کرکے ان نفسیاتی عوامل کو ختم کردیا جو اس جرم پہ کسی کو آمادہ کرتے ہیں اور مجرم کی نفسیات کے اندر اس جرم پر آمادہ کرنے کے مخالف نفسیاتی عوامل داخل کردیئے ۔ تاہم اگر پھر بھی کسی کی نفسیات میں پائے جانے والے چوری پر آمادہ کنندہ عوامل غالب آجائیں اور انسان یہ جرم کربیٹھے تو اس صورت میں اسے جو تلخ سزا ملے گی وہ ان مؤثرات پر غالب آجائے گی جو اسے چوری پر آمادہ کرتے ہیں ۔ اس طرح وہ ہر گز دوبارہ اس جرم کے ارتکاب کے لئے آمادہ ہوگا ۔ “ ” یہی وہ بنیاد ہے جس پر اسلامی نظام قانون میں قطع ید کی سزا رکھی گئی ہے ۔ اور یہ خدا کی قسم آغاز انسانیت سے لے کر آج تک اس جرم کے لئے بہترین سزا ہے ۔ “ ” دوسر جدید کے قوانین چور کو سزائے قید دیتے ہیں ۔ یہ وہ سزا ہے جو ہر قسم کے جرائم کو ختم کرنے میں بالکل ناکام رہی ہے اور خصوصا چوری کی سزا کو یہ ختم نہیں کرسکی ۔ اس کی حقیقی وجہ یہ ہے کہ سزائے قید چور کی نفسیات کے اندر وہ عوامل داخل نہیں کرسکتی جو اسے اس جرم سے باز رکھے اس لئے کہ یہ سزا چور کو صرف اسی عرصہ میں جرم سے باز رکھ سکتی ہے جس عرصے کے لئے وہ قید میں ہوتا ہے ۔ جب وہ قید ہوتا ہے تو اسے کمانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی ‘ اس لئے کہ جیل کے اندر اس کی تمام ضروریات وحاجات کا انتظام ہوتا ہے اور جب وہ جیل سے نکلتا ہے تو وہ کمانے اور محنت کرنے پر قدرت رکھتا ہے ۔ اس کو از سرنو موقعہ مل جاتا ہے کہ وہ اپنی کمائی میں اضافہ کرے ۔ اپنی دولت کو بڑھائے اور اس میں حلال اور حرام دونوں ذرائع استعمال کرے ۔ وہ پھر لوگوں کو دھوکہ دے سکے ‘ اپنے آپ کو شریف ظاہر کرسکے ‘ لوگ اس کی طرف سے مطمئن ہوجائیں اور اس کے ساتھ تعاون کریں ۔ اگر وہ اچھا رویہ اختیار کرے جو اسے کرنا چاہئے تو وہ ایسا کرے گا ۔ اور اگر وہ اپنے مقاصد حاصل نہ کرسکے تو اس کو کوئی نقصان بھی نہیں ہوا ہے اور وہ بڑی سہولت سے دوبارہ برے راستے پر جاسکتا ہے ۔ “ ” رہی یہ صورت کہ اسے قطع ید کی سزا دے دی جائے تو وہ دوبارہ کسب وعمل پر سرے سے قادر ہی نہ ہوگا یا اس کی کسب وعمل کی صلاحیت بڑی حد تک کم ہوجائے گی اور اس طرح اس کی زیادہ کمائی کے مواقع بہرحال کم ہوں گے ۔ بعض اوقات تو یہ مواقع بہت ہی محدود ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات بالکل ختم ہوجاتے ہیں ۔ اب وہ لوگوں کو دھوکہ بھی نہ دے سکے گا اور وہ لوگوں کو اس بات پر آمادہ نہ کرسکے گا کہ وہ اس پر کوئی اعتبار اور اعتماد کریں ۔ اس لئے کہ اس کے جسم پر جرم کے آثار موجود ہوں گے ۔ اس کا سابقہ کردار اس کے کٹے ہوئے ہاتھ سے عیاں ہوگا ۔ اگر قطع یعد کی سزا نافذ ہو تو اس صورت میں چور کے لئے خسارہ یقینی اور حتمی ہوگا ۔ اگر اسے سزائے قید دی جائے تو اسے فائدہ زیادہ ہوگا اور نقصان کم ۔ اور چور ہی کا نہیں بلکہ تمام لوگوں کا یہ اصول ہے کہ وہ اسی طرف جھکتے ہیں جس میں نفع کا احتمال زیادہ ہو ۔ اور ایسا کام وہ ہرگز نہیں کرتے جس میں خسارہ یقینی ہو ۔ “ ” اس بحث کے بعد ان لوگوں کی باتیں نہایت ہی عجیب ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ سزائے قطع ید آج کل کے ترقی یافتہ دور اور مہذب دنیا کے ساتھ لگا نہیں کھاتی ۔ گویا تہذیب و تمدن اس چیز کا نام ہے کہ جدید علم اور گہری حکمت کا انکار کردیا جائے ، انسان کے مزاج کو بھلا دیا جائے اور تمام اگلی پچھلی امتوں کے تجربات سے انکار کردیا جائے ۔ ہم اپنی عقل کو یک دم معطل کردیں ‘ اور ہماری فکر واضح طور پر جن نتائج تک پہنچ چکی ہے اسے ترک کردیں ‘ اور ان باتوں کو لے لیں جن کے عوامل کے پاس ان پر بےراہ روی اور گمراہی کے سوا اور کوئی دلیل نہیں ہے ۔ “ ” اگر تہذیب و تمدن کا تقاضا یہ ہے کہ جو بھی سزا ہو وہ تہذیب و تمدن کے مطابق ہو تو پھر سزائے قید اس بات کی مستحق ہے کہ اسے سرے سے ختم کردیا جائے اور سزائے قطع ید کو نافذ کردیا جائے ۔ اس لئے کہ سزائے قطع ید نفسیاتی محرکات اور علم النفس کے مسلمہ اصولوں کے عین مطابق ہے ۔ یہ انسان کے مزاج کے عین مطابق اور تمام اقوام عالم کے تجربات کی روشنی میں بھی نہایت ہی مفید ہے ۔ یعنی تمام چیزوں کا ادراک اور اس کی حکمت ۔ تہذیب و تمدن بھی اسی اصول ادراک اور اصول حکمت پر مبنی ہوتے ہیں ۔ رہی سزا قید تو وہ ہر گز علم النفس ‘ حکمت و تجربہ پر قائم نہیں ہے اور نہ یہ عقلی منطق اور دنیا کی مخلوقات کے مزاج سے متفق ہے ۔ ” سزائے قطع ید کی بنیاد انسان کی نفسیات اور اس کی عقلمندی پر ہے ۔ یہ سزا افراد کے لئے زیادہ مناسب ہے ۔ یہ معاشرے اور سوسائٹی کے لئے بھی مفید ہے ۔ اس کی وجہ سے جرائم میں ایک دم کمی آجاتی ہے ۔ معاشرے میں امن قائم ہوجاتا ہے ۔ جب ایک سزا فرد کے لئے مناسب اور ایک سوسائٹی کے لئے مفید ہو تو وہ تمام سزاؤں سے زیادہ بہتر ہوتی ہے ۔ “ ” لیکن یہ سب دلائل بھی بعض لوگوں کو مطمئن نہیں کرسکتے کہ سزائے قطع مفید ہے ۔ ان کی رائے پر ان کے پاس صرف یہ دلیل ہے کہ یہ سنگدلانہ سزا ہے ۔ یہ ان کی اول اور آخر دلیل ہے اور ان کی یہ دلیل اس طرح قابل رد ہے کہ لفظ عقوبت (سزا) عقاب کے مشتق ہے ۔ اور سزا اس وقت سزا ہی نہیں رہتی اگر وہ نرم اور محض تفریح ہو ‘ بلکہ وہ محض ایک کھیل تماشا یا اس جیسی کوئی اور چیز ہوگی ۔ لہذا سزا ہونی ہی ایسی چاہئے جس میں مجرم پر سختی ہو تاکہ سزا کو سزا کہا جاسکے۔ “ اللہ تعالیٰ تو ارحم الراحمین ہے ۔ اللہ کا فرمان یہ ہے اور بہت ہی سخت فرمان ہے ۔ (آیت) ” فَاقْطَعُواْ أَیْْدِیَہُمَا جَزَاء بِمَا کَسَبَا نَکَالاً مِّنَ اللّہِ (٥ : ٣٨) (اور چور خواہ عورت ہو یا مرد دونوں کے ہاتھ کاٹ دو ‘ یہ ان کی کمائی کا بدلہ ہے اور اللہ کی طرف سے عبرتناک سزا) یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عبرتناک اور جرائم سے روکنے والی سزا ہے جس شخص کے دل میں ارتکاب جرم کا داعیہ ہو اور وہ اس سے رک جائے تو یہ اس پر اللہ کی رحمت ہوجاتی ہے ۔ یہ رحمت ربانی اسے روکتی ہے ‘ اور پھر یہ پوری سوسائٹی پر ایک قسم کی رحمت ربانی ہوتی ہے کہ اس سے جرم کم ہوتا ہے اور وہ مطمئن زندگی بسر کرتی ہے ۔ کسی کا دعوی یہ نہیں ہے کہ وہ لوگوں کے خالق سے بھی زیادہ ان پر مہربان ہے الا یہ کہ کوئی دلی طور پر اندھا ہو ‘ اور اس کی روح مسخ ہوچکی ہو اور یہ امر واقعہ ہے کہ اسلام کے دور اول میں ایک صدی گزر جانے کے باوجود صرف چند لوگوں کا ہاتھ کٹا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلامی نظام حیات کی برکات اور اسلامی سوسائٹی میں لوگوں کی ضروریات کی کفالت کی وجہ سے صرف چند لوگوں پر ہی اس سزا کا اجراء ہوا ۔ پھر اللہ تعالیٰ تائب ہونے والوں کے لئے بھی دروازہ کھلا چھوڑتے ہیں کہ اگر وہ تائب ہوجائیں اور شرمندہ ہوجائیں اور ارتکاب جرم سے باز آجائیں تو اللہ بھی معاف کرنے والا ہے بشرطیکہ وہ صرف توبہ ہی نہ کریں بلکہ اپنے اندر مثبت تبدیلی پیدا کریں اور نیک کام شروع کردیں ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

چوروں کی سزا کا بیان چند آیات پہلے ڈاکوؤں کی سزائیں ذکر فرمائیں اب چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کی سزا بیان کی جاتی ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت کا ہاتھ کاٹ دو یہ ان کے کرتوت کی سزا ہے جس میں دوسرے کے لئے عبرت بھی ہے۔ احادیث شریفہ میں اس کی ... تفصیلات وارد ہوئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ چور کا داہنا ہاتھ گٹہ سے کاٹ دیا جائیگا اس کے بارے میں علماء امت کے مختلف اقوال ہیں کہ کم ازکم کتنی مالیت کے چرانے پر قطع ید یعنی ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ حضرت ابوبکر و عمر و عثمان (رض) اور عمر بن عبد العزیز اور امام اوزاعی اور امام شافعی (رح) نے فرمایا کہ 190 دینار کی مالیت کا سامان چرا لے تو ہاتھ کاٹ دیا جائے گا اور حضرت امام مالک (رح) نے فرمایا کہ تین درہم یا اتنی مالیت کا مال چرالے تو ہاتھ کاٹا جائیگا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اور سفیان ثوری اور امام ابوحنیفہ نے فرمایا کہ دس درہم یا ان کی مالیت کی چوری کرنے پر ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ اس سے کم میں نہیں (اگر اس سے کم کی چوری کا ثبوت ہوجائے تو دوسری کوئی سزا دے دی جائے ہاتھ نہ کاٹا جائے) ۔ شرعی سزا نافذ کرنے میں کوئی رعایت نہیں اور کسی کی سفارش قبول نہیں جو بھی شخص چوری کرلے مرد ہو یا عورت اور چوری بقدر نصاب ہو (جس کا اوپر بیان ہوا) تو ہاتھ کاٹ دیا جائے گا اس میں کوئی رورعایت نہ ہوگی، اور نہ کسی کی سفارش قبول کی جائے گی، مکہ معظمہ میں ایک عورت بنی مخزوم میں سے تھی اس نے چوری کرلی تھی۔ بنی مخزوم قریش کا ایک قبیلہ تھا اور یہ لوگ دنیاوی اعتبار سے اونچے سمجھے جاتے تھے قریش چاہتے تھے کہ اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے۔ سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ فرما دیا تو قریش اس کے لئے فکر مند ہوئے اور انہوں نے کہا کہ اس بارے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں کسی سے سفارش کرائی جائے۔ پھر آپس میں کہنے لگے کہ اسامہ بن زید (رض) کے علاوہ کون جرات کرسکتا ہے، وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیارے ہیں ان سے عرض کیا گیا تو انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بات کی، آپ نے فرمایا کہ تم حدود اللہ میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کرتے ہو ؟ آپ نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا کہ تم سے پہلے لوگ اسی لئے ہلاک ہوئے کہ ان میں سے شریف آدمی چوری کرتا تھا (جسے حسب نسب اور دنیاوی اعتبار سے شریف سمجھا جاتا تھا) تو اس کو چھوڑ دیا جاتا تھا اور اگر کمزور آدمی چوری کرتا تھا تو اس پر حد قائم کردیتے تھے (پھر فرمایا) اللہ کی قسم ! محمد کی بیٹی فاطمہ ( اعاذ ہا اللہ تعالیٰ ) اگر چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔ جب کوئی مرد یا عورت پہلی بار چوری کرے تو اس کا سیدھا ہاتھ گٹے سے کاٹ دیا جائے اس کے بعد دوبارہ چوری کرے تو ٹخنہ سے بایاں پاؤں کاٹ دیا جائے یہاں تک تمام ائمہ کا اتفاق ہے، اس کے بعد تیسری مرتبہ چوری کرے تو کیا کیا جائے اس کے بارے میں حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ اب کوئی ہاتھ یا پاؤں نہ کاٹا جائے بلکہ اس کو جیل میں ڈال دیا جائے یہاں تک کہ تو بہ کرلے، حضرت امام ابوحنیفہ (رح) اور امام احمد بن حنبل (رح) اور امام اوزاعی (رض) کا یہی قول ہے، اور حضرت امام مالک اور امام شافعی نے فرمایا کہ تیسری بار چوری کرے تو بایاں ہاتھ کاٹ دیا جائے اور چوتھی بار چوری کرے تو دایاں پاؤں ہاتھ کاٹ دی جائے اگر اس کے بعد بھی چوری کرے تو اسے دوسری کوئی سزا دی جائے یہاں تک کہ توبہ کرلے۔ حضرت ابوبکر (رض) سے بھی ایسا مروی ہے۔ چور کا ہاتھ کاٹنے کا قانون حکمت برمبنی ہے اس کی مخالفت کرنے والے بےدین ہیں چور اور چورنی کی سزا بیان کرنے کے بعد فرمایا (جَزَآءً بِمَا کَسَبَا) کہ یہ سزا ہے اس فعل کی جو انہوں نے کیا اور ساتھ ہی (نَکَالًا مِّنَ اللّٰہِ ) بھی فرمایا، نکال اس سزا کو کہتے ہیں جو دوسروں کیلئے عبرت ہو اللہ جل شانہ عالم الغیب ہے اسے معلوم تھا کہ چوری کی سزا جو ہاتھ کاٹنے کی صورت میں دی جا رہی ہے اس پر اعتراض کر کے ایمان کھو بیٹھنے والے بھی پیدا ہوں گے۔ ایسے احمقوں کے اعتراض کا جواب (جَزَآءً بِمَا کَسَبَانَکَالًا مِّنَ اللّٰہِ ) میں دیدیا اللہ جل شانہ، خالق ومالک ہے احکم الحاکمین ہے اسے اختیار ہے کہ بندوں کو جو چاہے حکم دے اور جو قانون چاہے تشریعی طور پر نافذ فرمائے پھر وہ عزیز بھی ہے وہ سب پر غالب ہے، اور حکیم بھی ہے اس کا ہر فعل ہر فیصلہ اور ہر قانون حکمت کے مطابق ہے وہ اپنی مخلوق کو جانتا ہے انسانوں میں کیسے کیسے جذبات ہیں ان میں مصلحین بھی ہیں اور مفسدین بھی، چور بھی ہیں اور ڈاکو بھی اور ان فسادیوں کا فساد کون سے قانون کے نافذ کرنے سے روکا جاسکتا ہے اور کونسی ایسی عبرت ناک سزا ہے جو مفسدین کو فساد سے باز رکھ سکتی ہے اور عامتہ الناس کے جان و مال کی حفاظت کس قانون کے نافذ کرنے سے ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اس سب کا علم ہے سورة ملک میں فرمایا (اَلاَ یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَ ھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ ) (کیا وہ نہ جانے جس نے پیدا کیا اور وہ باریک بین ہے باخبر ہے) جو لوگ اسلام کی بتائی ہوئی مجرمین کی سزاؤں کو وحشیانہ یا ظالمانہ کہتے ہیں ان میں سب سے آگے آگے تو یہود و نصاری ہیں جن میں مستشرقین بھی ہیں یہ تو کھلے کافر ہیں اور ان کا اسلام کی حقانیت پر ایمان ہی نہیں ہے۔ یہ اعتراض کریں تو چنداں تعجب نہیں کیونکہ انہیں نہ حق قبول کرنا ہے نہ حق ماننا ہے اپنے اپنے دین کو باطل سمجھتے ہوئے بھی اسی پر جمے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد تجویز کر کے اور انیباء کرام (علیہ السلام) کو قتل کر کے خوش ہیں دوزخ میں جانے کو تیار ہیں۔ حیرت ان لوگوں پر ہے جو اسلام کے بھی دعویدار ہیں اور قرآن کریم کی مقررہ سزاؤں کو وحشیانہ بھی کہتے ہیں، یہ لوگ نام کے مسلمان ہیں مسلمانوں کے درمیان رہنے اور مسلمانوں سے دنیاوی منافع وابستہ ہونے کی وجہ سے یوں نہیں کہتے کہ ہم مسلمان نہیں ہیں مگر حقیقت میں یہ لوگ مسلمان نہیں وہ کیا مسلمان ہے جو اللہ پر، اللہ کی کتاب اور اللہ کے قانون پر اعتراض کرے اور اللہ کے قانون کو وحشیانہ اور ظالمانہ بتائے، یہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ اللہ عزیز ہے علیم ہے خبیر ہے اسے یہ معلوم ہے کہ امن وامان کیسے قائم رہ سکتا ہے اور شرو فساد کے خوگر کس قانون کے نافذ کرنے سے دب سکتے ہیں، پہلے یورپین حکومتوں کے جاری کردہ قوانین کو لے لیں (جنہیں ایشیا وغیرہ کے ممالک نے بھی قبول کرلیا) ۔ ان لوگوں کے یہاں چور ڈاکو کی یہ سزا ہے کہ انہیں جیل میں ڈال دیا جائے جو لوگ جرائم کے عادی ہوتے ہیں ان کے نزدیک جیل میں رہنا معمولی سی بات ہے جیلوں میں جاتے ہیں واپس آتے ہیں پھر چوری ڈکیتی کرلیتے ہیں پھر پکڑے جاتے ہیں پھر جیل میں چلے جاتے ہیں۔ مشہور ہے کہ اپنے ساتھیوں سے یہ کہہ کر جیل سے باہر جاتے ہیں کہ میرا چولہا ایسے ہی رہنے دینا چند دنوں بعد پھر واپس آؤں گا۔ اگر جیل کی سزا دینے سے امن وامان قائم ہوسکتا ہے اور چوری ڈکیتی کی واردتیں ختم ہوسکتی تھیں تو اب تک ختم ہوجاتیں لیکن وہ تو روز افزوں ہیں چور ڈاکو دندناتے پھرتے ہیں مال داروں پر ان کی نظریں رہتی ہیں کبھی کسی کو قتل کیا کبھی پستول دکھا کر کسی شہری کو لوٹ لیا کبھی کسی بس کو روک کر کھڑے ہوگئے۔ کبھی ریل میں چڑھ گئے اور مسافروں کے پاس جو کچھ مال تھا وہیں دھروالیا کبھی کسی کے گھر میں گھس گئے کبھی سونے کی دکان لوٹ لی، اول تو ان کو پکڑا نہیں جاتا اور اگر پکڑ بھی لیا گیا تو بعض مرتبہ رشوت چھڑوا دیتی ہے اور بعض مرتبہ یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ ان کو پکڑنے پر مامور ہیں اس ڈر سے کہ کہیں موقع دیکھ کر ہم پر حملہ نہ کردیں انہیں چھوڑ بھاگتے ہیں اور اگر پکڑ ہی لیا اور حاکم کے سامنے پیش کر ہی دیا اور اس نے رشوت لیکر نہ چھوڑا بلکہ سزا تجویز کر ہی دی تو وہ جیل کی سزا ہوتی ہے جیل میں سزا کے مقررہ دن گزار کر اور کبھی اس سے پہلے ہی نکل آتے ہیں اور پھر انہیں مشاغل میں لگ جاتے ہیں جن کی وجہ سے جیل میں گئے تھے۔ اب اسلام کے قانون کو دیکھئے ڈاکوؤں کی سزا اوپر بیان کردی گئی ہے۔ جس کی چار صورتیں بیان کی گئیں ہیں یہاں چور اور چورنی کی سزابیان فرمائی کہ ان کا ہاتھ کاٹ دیا جائے ان سزاؤں کو نافذ کردیں چند کو ڈکیتی کی سزا مل جائے اور چند چوروں کے ہاتھ کٹ جائیں تو دیکھیں کیسے امن وامان قائم ہوتا ہے اور کیسے لوگ آرام کی نیند سوتے ہیں۔ جو لوگ اسلامی قوانین کے مخالف ہیں وہ چوروں کے حامی ہیں اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ اسلامی سزا کے نافذ کرنے کے مخالف ہیں ان کو چوروں اور ڈاکوؤں پر تو رحم آتا ہے کہ ہائے ہائے اس کا ہاتھ کٹ جائے گا اور ڈاکوؤں پر ترس آتا ہے کہ یہ مقتول ہوں گے سولی پر چڑھا دیئے جائیں گے اور ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں گے لیکن عامتہ الناس پر رحم نہیں آتا جو بد امنی اور شرو فساد کا شکار رہتے ہیں، کیسی بھونڈی سمجھ ہے کہ عام مخلوق کو چوروں اور ڈاکوؤں کے ظلم سے محفوظ و مامون کرنے کے لئے چند افراد کو سخت سزا دینے کے روا دار نہیں ہیں اور چوروں اور ڈاکوؤں کو چوری اور لوٹ مار کے مواقع فراہم کرنے کو تیار ہیں۔ (جَزَآءً بِمَا کسَبَا) کے ساتھ جو (نَکَالًا مِّنَ اللّٰہِ ) فرمایا ہے اس میں یہ بتادیا کہ چور کے لئے جو سزا تجویز فرمائی وہ صرف ان ہی کے کرتوت کا بدلہ نہیں ہے بلکہ دوسروں کے لئے بھی اس میں عبرت ہے۔ پھر ساتھ ہی یہ فرما دیا کہ (وَ اللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ) کہ (اللہ تعالیٰ غلبہ والابھی ہے اور حکمت والا بھی) اس کا قانون حکمت کے مطابق ہے اس کے خلاف کوئی بھی قانون بنی نوع انسان کے حق میں بہتر نہیں ہے، جن ممالک میں چور کا ہاتھ کا ٹنے کا قانون نافذ ہے وہاں کے بازاروں میں اب بھی یہ حال ہے کہ دکانوں پر معمولی سا پردہ ڈال کر نمازوں کے لئے چلے جاتے ہیں اور بعض دکانوں کے باہر رات بھر سامان پڑا رہتا ہے پھر بھی چوری نہیں ہوتی۔ چور کی سزا بیان کرنے کے بعد فرمایا (فَمَنْ تَابَ مِنْ بعْدِ ظُلْمِہٖ وَ اَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰہَ یَتُوْبُ عَلَیْہِ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ) (سو جو شخص اپنے ظلم کے بعد توبہ کرلے اور اصلاح کرلے تو بلاشبہ اللہ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے بیشک اللہ غفور ہے رحیم ہے) ۔ یہ اللہ تعالیٰ شانہ کا عام قانون ہے کوئی شخص کتنا ہی بڑا ظلم کرلے اور اس کے بعد نا دم ہو کہ سچے دل سے توبہ کرلے اور یہ تو بہ اصول شریعت پر پوری اترتی ہو تو اللہ تعالیٰ جل شانہ معاف فرما دیں گے، یہاں چونکہ چور کی سزا کے بعد توبہ کا ذکر فرمایا ہے اس لئے مفسرین کرام نے آیت کا معنی یہ لکھا ہے کہ کوئی چور اپنے ظلم یعنی چوری کے بعد توبہ کرلے اور پھر اصلاح حال کرلے یعنی جو مال اس نے چرایا ہے وہ واپس کر دے یا مالک سے معاف کرا لے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا اس کی اس توبہ کا یہ فائدہ ہوگا کہ چوری کر کے جوا للہ کی نافرمانی کی ہے آخرت میں اس پر عذاب نہ ہوگا۔ رہا ہاتھ کاٹنے کا مسئلہ تو یہ معاف نہ ہوگا یعنی قاضی کے سامنے اگر چور توبہ کرلے تو قاضی ہاتھ کاٹنے کی سزا کو رفع دفع نہیں کرسکتا توبہ کا تعلق آخرت کی معافی سے ہے جو بندہ اور اللہ کے درمیان ہے اور ہاتھ کاٹنے کا قانون جو فیما بین العباد ہے اس پر عمل کیا جائے گا۔ فقہاء نے فرمایا ہے کہ ڈاکو گرفتار ہونے سے پہلے توبہ کرلیں تو ڈکیتی کی سزا ان پر جاری نہ ہوگی اور البتہ لوگوں کی جو حق تلفی کی ہے اس کا بھگتان کرنا ہوگا۔ لیکن اگر کوئی شخص چوری کرنے کے بعد گرفتاری سے پہلے یا اس کے بعد توبہ کرلے تو چوری کی شرعی دنیاوی سزا معاف نہ ہوگی یعنی حاکم توبہ کے بعد بھی ہاتھ کاٹ دیگا، آخر میں فرمایا (اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ) (کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہی کے لئے ہے حکومت سب آسمانوں کی اور زمین کی وہ جس کو چاہے سزا دے اور جس کو چاہے معاف کر دے اور اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر قدرت ہے) ۔ اس آیت میں بتادیا کہ آسمان اور زمین سب اللہ کی ہی ملکیت ہے اسے ہر چیز کے بارے میں پورا پورا اختیار ہے جسے چاہے عذاب دے جس کی چاہے مغفرت فرمائے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ یہاں تین آیات ہیں ایک آیت کے ختم پر (وَ اللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ) فرمایا دوسری آیت کے ختم پر (وَ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ) فرمایا اور تیسری آیت کے ختم پر (اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ) فرمایا۔ یعنی وہ عزیز ہے غلبہ والا ہے کسی کو اس کے کسی فعل یا قانون پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں وہ جسے چاہے عذاب دے جسے چاہے بخش دے اس کا بھی اسے پورا پورا اختیار ہے۔ اس کے سب افعال اور سب فیصلے حکمت کے مطابق ہیں کسی کو چوں چراں کرنے کی جرات نہیں ہے۔ نیز ہر چیز اس کے تصرف میں ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ قرآن مجید میں دوسری جگہ مغفرت کا ذکر پہلے ہے اور عذاب کا ذکر بعد میں اور یہاں عذاب کا ذکر پہلے ہے کیونکہ چور کی سزا پہلے بیان ہوئی ہے اور توبہ پر مغفرت ہونے کا ذکر بعد میں آیا ہے لہذا ترتیب سابق کے موافق تعذیب و مغفرت کو بیان فرمادیا۔ تنبیہ : چوری کا ثبوت کس طرح ہوتا ہے اور مال لینے کی کون کون سی صورتیں اس چوری میں داخل ہیں جس کی وجہ سے ہاتھ کا ٹا جاتا ہے اور وہ کون کون سے مقامات ہیں جہاں سے چوری کرنے سے ہاتھ کاٹا جاتا ہے اور پھر ہاتھ کاٹ کر کیا کیا جائے جو خون بند ہوجائے یہ سب تفصیلات فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

65 وَالسَّارِقُ الخ اس کا تعلق اِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ سے ہے وہاں ان لوگوں کی سزا بیان فرمائی جو قتل و غارت گری کریں اور جبراً قہراً مال چھین لیں یہاں چور کی سزا بیان فرمائی یعنی جو چھپ کر مال چرا لے خواہ مرد ہو یا عورت اس کا ہاتھ کاٹ ڈالو۔ فَمَنْ تَابَ الخ چوری کرنے کے بعد جس نے س... چی توبہ کرلی اور چوری کا مال مالک کو واپس لوٹا دیا یا اس سے معاف کرالیا اور اگر مالک معلوم نہیں تو مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیا تو ایسے لوگوں کی اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرما لیگا اور آخرت میں اس گناہ کی ان کو سزا نہیں دے گا۔ باقی رہی چوری کی حد یعنی ہاتھ کاٹنا تو یہ توبہ سے ساقط نہیں ہوگی۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi