Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 46

سورة المائدة

وَ قَفَّیۡنَا عَلٰۤی اٰثَارِہِمۡ بِعِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ ۪ وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡاِنۡجِیۡلَ فِیۡہِ ہُدًی وَّ نُوۡرٌ ۙ وَّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ وَ ہُدًی وَّ مَوۡعِظَۃً لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿ؕ۴۶﴾

And We sent, following in their footsteps, Jesus, the son of Mary, confirming that which came before him in the Torah; and We gave him the Gospel, in which was guidance and light and confirming that which preceded it of the Torah as guidance and instruction for the righteous.

اور ہم نے ان کے پیچھے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا جو اپنے سے پہلے کی کتاب یعنی تورات کی تصدیق کرنے والے تھے اور ہم نے انہیں انجیل عطاء فرمائی جس میں نور اور ہدایت تھی اور اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتی تھی اور وہ سراسر ہدایت و نصیحت تھی پارسا لوگوں کے لئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah Mentions `Isa and Praises the Injil Allah said, وَقَفَّيْنَا ... and We sent..., meaning, We sent. ... عَلَى اثَارِهِم ... in their footsteps, meaning the Prophets of the Children of Israel. ... بِعَيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ ... `Isa, son of Maryam, confirming the Tawrah that had come before him, meaning, he believed in it and ruled by it. ... وَاتَيْنَاهُ الاِنجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ ... and We gave him the Injil, in which was guidance and light, a guidance that directs to the truth and a light that removes the doubts and solves disputes, ... وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ ... and confirmation of the Tawrah that had come before it, meaning, he adhered to the Tawrah, except for the few instances that clarified the truth where the Children of Israel differed. Allah states in another Ayah that `Isa said to the Children of Israel, وَلاُِحِلَّ لَكُم بَعْضَ الَّذِي حُرِّمَ عَلَيْكُمْ ...and to make lawful to you part of what was forbidden to you. (3:50) So the scholars say that the Injil abrogated some of the rulings of the Tawrah. Allah's statement, ... وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ a guidance and an admonition for those who have Taqwa. means, We made the Injil guidance and an admonition that prohibits committing sins and errors, for those who have Taqwa of Allah and fear His warning and torment. Allah said next,

باطل کے غلام لوگ انبیاء بنی اسرائیل کے پیچھے ہم عیسیٰ نبی کو لائے جو توراۃ پر ایمان رکھتے تھے ، اس کے احکام کے مطابق لوگوں میں فیصلے کرتے تھے ، ہم نے انہیں بھی اپنی کتاب انجیل دی ، جس میں حق کی ہدایت تھی اور شبہات اور مشکلات کی توضیح تھی اور پہلی الہامی کتابوں کی تصدیق تھی ، ہاں چند مسائل جن میں یہودی اختلاف کرتے تھے ، ان کے صاف فیصلے اس میں موجود تھے ۔ جیسے قرآن میں اور جگہ ہے کہ حضرت عیسیٰ نے فرمایا ، میں تمہارے لئے بعض وہ چیزیں حلال کروں گا جو تم پر حرام کر دی گئی ہیں ۔ اسی لئے علماء کا مشہور مقولہ ہے کہ انجیل نے تورات کے بعض احکام منسوخ کر دیئے ہیں ۔ انجیل سے پارسا لوگوں کی رہنمائی اور وعظ وپند ہوتی تھی کہ وہ نیکی کی طرف رغبت کریں اور برائی سے بچیں ۔ اھل الانجیل بھی پڑھا گیا ہے اس صورت میں ( والیحکم ) میں لام کے معنی میں ہو گا ۔ مطلب یہ ہو گا کہ ہم نے حضرت عیسیٰ کو انجیل اس لئے دی تھی کہ وہ اپنے زمانے کے اپنے ماننے والوں کو اسی کے مطابق چلائیں اور اس لام کو امر کا لام سمجھا جائے اور مشہور قراۃ ( ولیحکم ) پڑھی جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ انہیں چاہئے کہ انجیل کے کل احکام پر ایمان لائیں اور اسی کے مطابق فیصلہ کریں ۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت ( قُلْ يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰي شَيْءٍ حَتّٰي تُقِيْمُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ ) 5 ۔ المائدہ:68 ) یعنی اے اہل کتاب جب تک تم تورات و انجیل پر اور جو کچھ اللہ کی طرف سے اترا ہے ، اگر اس پر قائم ہو تو تم کسی چیز پر نہیں ہوا ۔ اور آیت میں ہے آیت ( اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِيْلِ ) 7 ۔ الاعراف:157 ) جو لوگ اس رسول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کرتے ہیں ، جس کی صفت اپنے ہاں توراۃ میں لکھی ہوئی پاتے ہیں وہ لوگ جو کتاب اللہ اور اپنے نبی کے فرمان کے مطابق حکم نہ کریں وہ اللہ کی اطاعت سے خارج ، حق کے تارک اور باطل کے عامل ہیں ، یہ آیت نصرانیوں کے حق میں ہے ۔ روش آیت سے بھی یہ ظاہر ہے اور پہلے بیان بھی گزر چکا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

46۔ 1 یعنی انبیائے سابقین کے فوراً بعد، متصل ہی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھیجا جو اپنے سے پہلے نازل شدہ کتاب تورات کی تصدیق کرنے والے تھے، نہ کہ اس کو جھٹلانے والے تھے، جو اس بات کی دلیل تھی کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی اللہ کے سچے رسول ہیں اور اسی اللہ کے فرستادہ ہیں جس نے تورات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل فرمائی تھی، تو اس کے باوجود یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب (جھٹلایا) کی بلکہ ان کی تکفیر اور تنقیص و اہانت کی (کفر کا فتویٰ دے کر رسوا کیا) 46۔ 2 یعنی جس طرح تورات اپنے وقت میں لوگوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ تھی۔ اسی طرح انجیل کے نزول کے بعد اب یہی حیثیت انجیل کو حاصل ہوگئی اور پھر قرآن کریم کے نزول کے بعد تورات و انجیل اور دیگر کتب آسمانی پر عمل منسوخ ہوگیا اور ہدایت و نجات کا ذریعہ قرآن کریم رہ گیا اور اسی پر اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابوں کا سلسلہ ختم فرما دیا، یہ گویا اس بات کا اعلان ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کی فلاح اور کامیابی اسی قرآن سے وابستہ ہے۔ جو اس سے جڑ گیا سرخرو رہے گا جو کٹ گیا ناکامی ونامرادی اس کا مقدر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ " وحدت ادیان " کا فلسفہ یکسر غلط ہے، حق ہر دور میں ایک ہی رہا ہے، متعدد نہیں۔ حق کے سوا دوسری چیزیں باطل ہیں۔ تورات اپنے دور کا حق تھی۔ اس کے بعد انجیل اپنے دور کا حق تھی انجیل کے نزول کے بعد تورات پر عمل کرنا جائز نہیں تھا۔ اور جب قرآن نازل ہوگیا تو انجیل منسوخ ہوگئی۔ انجیل پر عمل کرنا بالکل جائز نہیں رہا اور صرف قرآن ہی واحد نظام عمل اور نجات کے لیے قابل عمل رہ گیا۔ اس پر ایمان لائے بغیر یعنی نبوت محمد علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کو تسلیم کئے بغیر نجات ممکن نہیں۔ مزید ملاحظہ ہو سورة بقرہ آیت 26 کا حاشیہ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٥] نئی الہامی کتاب کی ضرورت کیوں ہوتی ہے ؟ یعنی سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کوئی نیا دین لانے والے نبی نہ تھے۔ وہ خود زبانی بھی پہلی نازل شدہ کتابوں کی تصدیق کرتے تھے اور انجیل میں بھی یہ بات مذکور تھی۔ واضح رہے کہ بعد میں آنے والے نبی کا کام یہ ہوتا ہے کہ اس سے پہلی امت نے کتاب اللہ کی تفاسیر و شروح لکھ کر اس کے مفہوم و معانی میں جو تاویلیں کر کے اختلاف پیدا کرلیا ہے یا عقائد و عمل میں راہ حق سے بھٹک گئے ہیں، یا کتاب اللہ میں کچھ تحریف یا اضافے کرلیے ہیں۔ تو لوگوں کو ان تمام باتوں پر مطلع کر کے انہیں راہ حق پر لانے کی کوشش کرے اور اس کام کے لیے کسی بنیاد کا ہونا ضروری ہے اور وہ بنیاد منزل من اللہ کتاب ہی ہوتی ہے لہذا اس کے منزل من اللہ ہونے پر ایمان رکھنا ہر نبی اور اس کے متبعین کے لیے ضروری ہے چناچہ سیدنا عیسیٰ اور ان سے پہلے کے نبیوں اور امتوں نے تورات کی تصدیق کی اور مسلمان سیدنا عیسیٰ سمیت تمام سابقہ انبیاء کی اور تورات اور انجیل بلکہ سب آسمانی صحیفوں کی تصدیق کرتے ہیں کیونکہ عیسیٰ کے بعد نبی آخر الزماں تک کوئی نبی نہیں آیا اور نہ ہی انجیل کے بعد اور قرآن سے پہلے کوئی آسمانی کتاب نازل ہوئی جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ خ انبیاء علاتی بھائی ہیں :۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا & میں سب لوگوں سے زیادہ عیسیٰ بن مریم سے (دنیا اور آخرت میں) تعلق رکھتا ہوں۔ انبیاء سب علاتی (ماں جائے) بھائی ہیں۔ جن کا باپ ایک (یعنی عقائد) اور مائیں (فروعی مسائل) جدا جدا ہیں۔ میرے اور عیسیٰ کے درمیان کوئی پیغمبر نہیں ہے۔ & (بخاری۔ کتاب الانبیائ۔ باب قول اللہ ( وَاذْكُرْ فِى الْكِتٰبِ مَرْيَمَ 16 ۝ ۙ ) 19 ۔ مریم :16)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَفَّيْنَا عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۔۔ : عیسیٰ (علیہ السلام) کوئی نئی شریعت یا نیا دین لے کر نہیں آئے تھے، بلکہ وہ خود بھی اسی شریعت پر چلتے تھے اور انجیل بھی اسی شریعت پر چلنے کا حکم دیتی تھی۔ انجیل میں ہے : ” یہ نہ سمجھو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں، منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں، کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین نہ ٹل جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ تورات سے ہرگز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہوجائے۔ “ (انجیل متی : ٥: ١٧، ٨١ ) تورات، انجیل اور پھر قرآن کریم کے متعلق ” هُدًى وَّنُوْرٌ ۙ“ کے اوصاف بیان ہوئے ہیں، ان نازل شدہ کتابوں کا ہدایت ہونا تو اس اعتبار سے ہے کہ یہ دنیا اور آخرت کے حقائق کے بیان پر مشتمل ہیں اور نور (روشنی) اس لحاظ سے کہ انسان کے لیے عملی زندگی میں رہنمائی کا کام دیتی ہیں۔ (کبیر)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَفَّيْنَا عَلٰٓي اٰثَارِہِمْ بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ مِنَ التَّوْرٰىۃِ۝ ٠۠ وَاٰتَيْنٰہُ الْاِنْجِيْلَ فِيْہِ ہُدًى وَّنُوْرٌ۝ ٠ۙ وَّمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ مِنَ التَّوْرٰىۃِ وَہُدًى وَّمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِيْنَ۝ ٤٦ۭ قفا القَفَا معروف، يقال : قَفَوْتُهُ : أصبت قَفَاهُ ، وقَفَوْتُ أثره، واقْتَفَيْتُهُ : تبعت قَفَاهُ ، والِاقْتِفَاءُ : اتّباع القفا، كما أنّ الارتداف اتّباع الرّدف، ويكنّى بذلک عن الاغتیاب وتتبّع المعایب، وقوله تعالی: وَلا تَقْفُ ما لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ [ الإسراء/ 36] أي : لا تحکم بالقِيَافَةِ والظنّ ، والقِيَافَةُ مقلوبة عن الاقتفاء فيما قيل، نحو : جذب وجبذ وهي صناعة وقَفَّيْتُهُ : جعلته خلفه . قال : وَقَفَّيْنا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ [ البقرة/ 87] . والقَافِيَةُ : اسم للجزء الأخير من البیت الذي حقّه أن يراعی لفظه فيكرّر في كلّ بيت، والقَفَاوَةُ : الطّعام الذي يتفقّد به من يعنی به فيتّبع . ( ق ف و ) القفا کے معنی گدی کے ہیں اور قفرتہ کے معنی کسی کی گدی پر مارنا اور کسی کے پیچھے پیچھے چلنا یہ دونوں محاورہ ہے استعمال ہوتی ہے قفوت الژرہ واقتفیتہ کے معنی کیس کے پیچھے چلنے کے ہیں دوسرے کا مصدر اقتفاء ہے ۔ جس کے اصل معنی کسی کی قفا کا اتباع کرنے کے ہیں ۔ لیکن کنایہ کے طور پر کیس کی غیبت اور عیب جوئی کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تَقْفُ ما لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ [ الإسراء/ 36] اور ( اے بندے ) جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ ۔ یعنی محض قیافہ اور ظن سے کام نہ لو بعض کے نزدیک قیافہ کا لفظ بھی اقتفاء سے مقلوب ہے ۔ جیسے جذب وحیذا ور یہ ( قیافہ ) ایک فن ہے ۔ اور قفیتہ کے معنی کیس کو دوسرے کے پیچھے لگانے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَقَفَّيْنا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ [ البقرة/ 87] اور ان کے پیچھے یکے بعد دیگرے پیغمبر بھیجتے رہے ، القافیۃ مصر عہ کے جز وا خیر کو کہا جاتا ہے جس کے حرف روی کی ہر شعر میں رعایت رکھی جاتی ہے ۔ القفاوۃ وہ کھانا جس سے مہمان کی آؤ بھگت کی جائے ۔ أثر أَثَرُ الشیء : حصول ما يدلّ علی وجوده، يقال : أثر وأثّر، والجمع : الآثار . قال اللہ تعالی: ثُمَّ قَفَّيْنا عَلى آثارِهِمْ بِرُسُلِنا «1» [ الحدید/ 27] ، وَآثاراً فِي الْأَرْضِ [ غافر/ 21] ، وقوله : فَانْظُرْ إِلى آثارِ رَحْمَتِ اللَّهِ [ الروم/ 50] . ومن هذا يقال للطریق المستدل به علی من تقدّم : آثار، نحو قوله تعالی: فَهُمْ عَلى آثارِهِمْ يُهْرَعُونَ [ الصافات/ 70] ، وقوله : هُمْ أُولاءِ عَلى أَثَرِي [ طه/ 84] . ومنه : سمنت الإبل علی أثارةٍأي : علی أثر من شحم، وأَثَرْتُ البعیر : جعلت علی خفّه أُثْرَةً ، أي : علامة تؤثّر في الأرض ليستدل بها علی أثره، وتسمّى الحدیدة التي يعمل بها ذلک المئثرة . وأَثْرُ السیف : جو هره وأثر جودته، وهو الفرند، وسیف مأثور . وأَثَرْتُ العلم : رویته «3» ، آثُرُهُ أَثْراً وأَثَارَةً وأُثْرَةً ، وأصله : تتبعت أثره . أَوْ أَثارَةٍ مِنْ عِلْمٍ [ الأحقاف/ 4] ، وقرئ : (أثرة) «4» وهو ما يروی أو يكتب فيبقی له أثر . والمآثر : ما يروی من مکارم الإنسان، ويستعار الأثر للفضل ( ا ث ر ) اثرالشیئ ۔ ( بقیہ علامت ) کسی شی کا حاصل ہونا جو اصل شیئ کے وجود پر دال ہوا اس سے فعل اثر ( ض) واثر ( تفعیل ) ہے اثر کی جمع آثار آتی ہے قرآن میں ہے :۔ { ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا } [ الحدید : 27] پھر ہم نے ان کے پیھچے اور پیغمبر بھیجے { وَآثَارًا فِي الْأَرْضِ } [ غافر : 21] اور زمین میں نشانات بنانے کے لحاظ سے { فَانْظُرْ إِلَى آثَارِ رَحْمَتِ اللَّهِ } [ الروم : 50] تم رحمت الہی کے نشانات پر غور کرو اسی سے ان طریق کو آثار کہا جاتا ہے جس سے گذشتہ لوگوں ( کے اطوار وخصائل ) پر استدلال ہوسکے جیسے فرمایا { فَهُمْ عَلَى آثَارِهِمْ يُهْرَعُونَ } [ الصافات : 70] سو وہ انہیں کے نقش قدم پر دوڑتے چلے جاتے ہیں ۔ { هُمْ أُولَاءِ عَلَى أَثَرِي } [ طه : 84] وہ میرے طریقہ پر کار بند ہیں ۔ اسی سے مشہور محاورہ ہے سمنت الابل علی آثارۃ اثرمن شحم فربہ شدند شتراں پر بقیہ پیہ کہ پیش ازیں بود اثرت البعیر ۔ میں نے اونٹ کے تلوے پر نشان لگایا تاکہ ( گم ہوجانے کی صورت میں ) اس کا کھوج لگایا جا سکے ۔ اور جس لوہے سے اس قسم کا نشان بنایا جاتا ہے اسے المئثرۃ کہتے ہیں ۔ اثرالسیف ۔ تلوار کا جوہر اسکی عمدگی کا کا نشان ہوتا ہے ۔ سیف ماثور ۔ جوہر دار تلوار ۔ اثرت ( ن ) العلم آثرہ اثرا واثارۃ اثرۃ ۔ کے معنی ہیں علم کو روایت کرنا ۔ در اصل اس کے معنی نشانات علم تلاش کرنا ہوتے ہیں ۔ اور آیت ۔ { أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ } ( سورة الأَحقاف 4) میں اثارۃ سے مراد وہ علم ہے جس کے آثار ( تاحال ) روایت یا تحریر کی وجہ سے باقی ہوں ایک قراۃ میں اثرۃ سے یعنی اپنے مخصوص علم سے المآثر انسانی مکارم جو نسلا بعد نسل روایت ہوتے چلے آتے ہیں ۔ اسی سے بطور استعارہ اثر بمعنی فضیلت بھی آجاتا ہے ۔ عيسی عِيسَى اسم علم، وإذا جعل عربيّا أمكن أن يكون من قولهم : بعیر أَعْيَسُ ، وناقة عَيْسَاءُ ، وجمعها عِيسٌ ، وهي إبل بيض يعتري بياضها ظلمة، أو من الْعَيْسِ وهو ماء الفحل يقال : عَاسَهَا يَعِيسُهَا ( ع ی س ) یہ ایک پیغمبر کا نام اور اسم علم ہے اگر یہ لفظ عربی الاصل مان لیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ یہ اس عیس سے ماخوذ ہو جو کہ اعیس کی جمع ہے اور اس کی مؤنث عیساء ہے اور عیس کے معنی ہیں سفید اونٹ جن کی سفیدی میں قدرے سیاہی کی آمیزش ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے عیس سے مشتق ہو جس کے معنی سانڈ کے مادہ منو یہ کے ہیں اور بعیر اعیس وناقۃ عیساء جمع عیس اور عاسھا یعسھا کے معنی ہیں نر کا مادہ سے جفتی کھانا ۔ مریم مریم : اسم أعجميّ ، اسم أمّ عيسى عليه السلام» . صدق والصِّدْقُ : مطابقة القول الضّمير والمخبر عنه معا، ومتی انخرم شرط من ذلک لم يكن صِدْقاً تامّا، بل إمّا أن لا يوصف بالصّدق، وإمّا أن يوصف تارة بالصّدق، وتارة بالکذب علی نظرین مختلفین، کقول کافر إذا قال من غير اعتقاد : محمّد رسول الله، فإنّ هذا يصحّ أن يقال : صِدْقٌ ، لکون المخبر عنه كذلك، ويصحّ أن يقال : كذب، لمخالفة قوله ضمیره، وبالوجه الثاني إکذاب اللہ تعالیٰ المنافقین حيث قالوا : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون/ 1] ( ص دق) الصدق ۔ الصدق کے معنی ہیں دل زبان کی ہم آہنگی اور بات کو نفس واقعہ کے مطابق ہونا ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں باتو وہ کلام صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی اور یا وہ مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی مثلا ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق ( سچ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل زبان کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب ( جھوٹ) بھی کہہ سکتے ہیں چناچہ اس دوسری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرار میں کہ : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون/ 1] ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھوٹا قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف یہ بات کہد رہے تھے ۔ «بَيْن»يدي و «بَيْن» يستعمل تارة اسما وتارة ظرفا، فمن قرأ : بينكم [ الأنعام/ 94] ، جعله اسما، ومن قرأ : بَيْنَكُمْ جعله ظرفا غير متمکن وترکه مفتوحا، فمن الظرف قوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات/ 1] ويقال : هذا الشیء بين يديك، أي : متقدما لك، ويقال : هو بين يديك أي : قریب منك، وعلی هذا قوله : ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 17] ، ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم/ 64] ، وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس/ 9] ، مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة/ 46] بین کا لفظ یا تو وہاں استعمال ہوتا ہے ۔ جہاں مسافت پائی جائے جیسے ( دو شہروں کے درمیان ) یا جہاں دو یا دو سے زیادہ چیزیں موجود ہوں جیسے اور واھد کی طرف مضاف ہونے کی صورت میں بین کو مکرر لانا ضروری ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت/ 5] اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ ہے فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه/ 58] ۔ تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت مقرر کرلو ۔ اور کہا جاتا ہے : / یعنی یہ چیز تیرے قریب اور سامنے ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 17] پھر ان کے آگے ( غرض ہر طرف سے ) آؤنگا ۔ ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم/ 64] جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو پیچھے ۔۔۔ سب اسی کا ہے ۔ وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس/ 9] اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنادی ۔ اور ان کے پیچھے بھی ۔ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة/ 46] جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتے تھے ۔ توراة التوراة التاء فيه مقلوب، وأصله من الوری، وبناؤها عند الکوفيين : ووراة، تفعلة «4» ، وقال بعضهم : هي تفعلة نحو تنفلة ولیس في کلامهم تفعلة اسما . وعند البصريين وورية، هي فوعلة نحو حوصلة . قال تعالی: إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْراةَ فِيها هُدىً وَنُورٌ [ المائدة/ 44] ، ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْراةِ ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ [ الفتح/ 29] . ( ت و ر ) التوراۃ آسمانی کتاب جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی یہ وری سے مشتق ہے اور تاؤ واو سے مبدل سے علماء کوفہ کے نزدیک یہ وؤراۃ بروزن نفعلۃ ہے اور بعض کے نزدیک تفعل کے وزن پر ہے جیسے تنفل لیکن کلام عرب میں تفعل کے وزن پر اسم کا صیغہ نہیں آتا ۔ علماء بصرہ کے نزدیک یہ وؤری بروزن فوعل ہے جیسے قل قرآن میں ہے ؛۔ إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْراةَ فِيها هُدىً وَنُورٌ [ المائدة/ 44] بیشک ہم نے تو رات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے ۔ ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْراةِ ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ [ الفتح/ 29] . ان کے اوصاف تو رات میں ( مرقوم ) ہیں اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ نور ( روشنی) النّور : الضّوء المنتشر الذي يعين علی الإبصار، وذلک ضربان دنیويّ ، وأخرويّ ، فالدّنيويّ ضربان : ضرب معقول بعین البصیرة، وهو ما انتشر من الأمور الإلهية کنور العقل ونور القرآن . ومحسوس بعین البصر، وهو ما انتشر من الأجسام النّيّرة کالقمرین والنّجوم والنّيّرات . فمن النّور الإلهي قوله تعالی: قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة/ 15] ، وقال : وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام/ 122] ( ن و ر ) النور ۔ وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے ۔ اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ نور دینوی پھر دو قسم پر ہے معقول جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے یعنی امور الہیہ کی روشنی جیسے عقل یا قرآن کی روشنی دوم محسوس جسکاے تعلق بصر سے ہے جیسے چاند سورج ستارے اور دیگر اجسام نیزہ چناچہ نور الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة/ 15] بیشک تمہارے خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے ۔ وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام/ 122] اور اس کے لئے روشنی کردی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے ۔ جو اندھیرے میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکے ۔ وعظ الوَعْظُ : زجر مقترن بتخویف . قال الخلیل . هو التّذكير بالخیر فيما يرقّ له القلب، والعِظَةُ والمَوْعِظَةُ : الاسم . قال تعالی: يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل/ 90] ( و ع ظ ) الوعظ کے معنی ایسی زجر تو بیخ کے ہیں جس میں خوف کی آمیزش ہو خلیل نے اس کے معنی کئے ہیں خیر کا اس طرح تذکرہ کرنا جس سے دل میں رقت پیدا ہوا عظۃ وموعضۃ دونوں اسم ہیں قرآن میں ہے : ۔ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل/ 90] نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٦۔ ٤٧) جو شخص ان کو نہ بیان کرے اور ان پر عمل نہ کرے تو وہ اپنے آپ کو سزا کے مستحق ہونے کی وجہ سے نقصان پہنچانے والے ہیں اور ہم نے ان کے بعد توریت کے احکام کی ترویج اور توحید کی موافقت اور تصدیق کے لیے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھیجا، اور ہم نے ان کو انجیل دی جو توحید اور رجم کے بیان میں توریت کے موافق تھی، اور کفر وشرک اور دیگر فواحش سے روکنے والی تھی اور اس لیے کہ انجیل میں اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں بیان کی ہیں، جیسا کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصیت اور رجم کا حکم تو انجیل والے ان چیزوں کو بیان کردیں اور جن امور کو اللہ تعالیٰ نے انجیل میں بیان کیا ہے جو لوگ ان کو نہیں بیان کرتے وہی گنہگار اور کافر ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

76.The Messiah did not expound a new religion. That very religion which had been the religion of all the Prophets was also his religion, and it is towards that religion that he called people. He believed in the true teachings of the Torah which were extant in his time, and the Gospels (Injil) confirm this (see, for example, Matthew 5: 17-18). The Qur'an repeatedly stresses the fundamental fact that none of the Prophets of God, no matter in which part of the world they appeared, denied the Prophets who had preceded them. On the contrary, each Prophet confirmed the message of his predecessors and sought to promote the mission which was the sacred legacy of them all. God did not reveal any of the Books in order to repudiate the previous ones; each confirmed and supported the preceding ones.

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :76 یعنی مسیح علیہ السلام کوئی نیا مذہب لے کر نہیں آئے تھے بلکہ وہی ایک دین ، جو تمام پچھلے انبیاء کا دین تھا ، مسیح کا دین بھی تھا اور اسی کی طرف وہ دعوت دیتے تھے ۔ توراۃ کی اصل تعلیمات میں سے جو کچھ ان کے زمانہ میں محفوظ تھا اس کو مسیح خود بھی مانتے تھے اور انجیل بھی اس کی تصدیق کرتی تھی ( ملاحظہ ہو متی باب ۵ – آیت ۱۷- ۱۸ ) ۔ قرآن اس حقیقت کا بار بار اعادہ کرتا ہے کہ خدا کی طرف سے جتنے انبیاء دنیا کے کسی گوشے میں آئے ہیں ان میں سے کوئی بھی پچھلے انبیاء کی تردید کے لیے اور ان کے کام کو ہٹا کر اپنا نیا مذہب چلانے کے لیے نہیں آیا تھا بلکہ ہر نبی اپنے پیشرو انبیاء کی تصدیق کرتا تھا اور اسی کام کر فروغ دینے کے لیے آتا تھا جسے اگلوں نے ایک پاک ورثہ کی حیثیت سے چھوڑا تھا ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی کوئی کتاب اپنی ہی پچھلی کتابوں کی تردید کرنے کے لیے کبھی نہیں بھیجی بلکہ اس کی ہر کتاب پہلے آئی ہوئی کتابوں کی مؤید اور مصدق تھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(46 ۔ 47) ۔ اوپر ذکر تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں بہت سے انبیاء ایسے بھیجے جو ہمیشہ احکام تورات کی حکم برداری میں خود بھی گلے رہتے تھے اور بنی اسرائیل کے عابدوں اور عالموں کو بھی اسی طرح احکام تورات کی پابندی اور پابندی کی نگہبانی رکھنے کی تاکید کیا کرتے تھے جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء کو تورات کے احکام کی نگہبانی کا حکم دیا تھا ان آیتوں میں فرمایا کہ ان انبیاء بنی اسرائیل کے قدم بقدم سب انبیاء بنی اسرائیل تھے اور آخر پر اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو تورات کے احکام کی تصدیق و نگہبانی کے لئے بھیجا اور علاوہ تورات کے ان پر انجیل بھی نازل فرمائی جس میں ہر طرح کی ہدایت تھی اور گناہوں کی کثرت سے بنی اسرائیل کے دل میں ایک طرح کی سیاہی جو آگئی تھی اس سیاہی کے اندھیرے کو دور کرنے کے لئے انجیل گویا ایک روشن مشعل تھی اور تورات کے سچے احکام کی تصدیق اور طرح طرح کی نصیحت بھی اس میں موجود تھی لیکن اس نصیحت کا اثر ان ہی کے دل پر ہوگا جن کو ایک دن اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑے ہونے کا کھٹکا لگا ہوا ہے جو لوگ اس سے بےبہرہ ہیں ان کے دل پر اس نصیحت انجیل کا کچھ اثر ہونے والا نہیں۔ آخر میں فرمایا نصاریٰ کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے انجیل میں جو باتیں اتاری ہیں وہ اس کے پابند ہوں ورنہ وہ اللہ تعالیٰ کے نافرماں بردار کہلاویں گے۔ اصل انجیل پر عمل چھوٹ جانے کا سبب جو اس وقت کی تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ٤ ء ھجری میں ایک شخص بولس نام کا یہودی فریب کے طور پر نصرانی ہو گھیا جس نے اصل انجیل کے بہت سے احکاموں کو بدل کر اس اصلی انجیلی احکام کی جگہ اپنی ایجادی ابتوں کا رواج نصرانیوں میں پھیلا دیا جس سے اکثر نصرانی بولس کے ساتھ ہوگئے۔ چناچہ اس وقت کے سچے نصرانی اور بولس کی سخت خونریز لڑائی بھی ہوئی۔ بولس کے ساتھ زیادہ تھے اس لئے بولس غالب رہا اور بولس کی ایجادی باتوں کا رواج قائم رہا جس کے سبب سے سچے دین میں طرح طرح کے اختلافات پڑگئے۔ ٨٠ ئ؁ کے قریب تک یہی اختلافی حالت مسیحی دین کی رہی اس کے بعد قسطنطنیہ قیصر روم نے اس اختلاف کے رفع کرنے کی غرض سے انجلت کے اصل احکام میں بہت بڑا ردو بدل کیا۔ اس واسطے اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں فرمایا کہ نصاریٰ کو اصل انجیل پر عمل کرنا چاہیے ورنہ لوگوں کی ایجادی باتوں پر عمل کریں گے تو وہ اللہ تعالیٰ کے نافرماں بردار کہلاویں گے۔ انجیل میں تورات کے احکام کی تصدیق کے موجود ہونے کا یہ مطلب ہے کہ جس قدر تورات کے احکام سے منسوخ نہیں ہوئے وہ واجب العمل ہیں۔ اگرچہ یہود ونصاریٰ کلام الٰہی میں ناسخ و منسوخ کے قائل نہیں ہیں اس وجہ سے قرآن شریف پر ان کا یہ اعتراض ہے کہ قرآن شریف کی بعض آیتیں دوسری بعض آیتوں سے منسوخ ہوئی ہیں اس لئے قرآن کو کلام الٰہی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ کلام الٰہی میں ناسخ و مسنوخ نہیں ہے۔ علماء اسلام نے اس اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ ناسخ و منسوخ کو قرآن کے ساتھ خصوصیت نہیں ہے بلکہ تورات و انجیل میں بھی ناسخ ومنسوخ چناچہ تورت کے حصہ استثناء کے چوبیسویں باب میں بغیر کسی قید کے عورت کو طلاق دینا جائز ہے اور انجیل متی کے ١٩ باب میں یہ حکم ہے کہ سوائے عورت کی بدکاری کے قصور کے اور کسی قصور پر عورت کو طلاق نہیں دی جاسکتی۔ اب اگر اس مثال کو یاد دلا کر یہ کہا جائے کہ منسوخ ہوجانے کے سبب سے تورات اور ناسخ قرار پانے کے سبب سے انجیل دونوں اللہ کا کلام نہیں ہیں تو اس کو کوئی اہل کتاب تسلیم نہیں کرے گا پھر ناسخ و منسوخ کے سبب سے قرآن شریف کے اللہ کا کلام ہونے میں کیونکر شبہ پیدا کیا جاسکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ایک شریعت سے دوسری شریعت کے منسوخ ہونے کا اقرار کرنے سے یہود کو شریعت عیسوی اور شریعت محمدی کا اور نصاریٰ کو فقط شریعت محمدی کا تسلیم کرنا لازم ہوجاتا تھا اس لئے ان لوگوں نے ناسخ و منسوخ کا انکار کیا۔ لیکن شریعت کا تسلیم کرنا فقط ناسخ و مسنوخ کی بحث پر منحصر نہیں ہے۔ کیونکہ تورات کے حصہ استثناء کے ٣٣ باب میں تین نبیوں کا ذکر یوں آیا ہے کہ پہلے نبی کا ظہور کوہ طور سے ہوگا اور دوسرے کا شام کے پہاڑ ساعیر سے اور تیسرے کا مکہ کے پہاڑوں سے پہلے نبی اور دوسری نبی کے باب میں تو اہل کتاب اور اہل اسلام کا اتفاق ہے کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ تیسرے نبی کے باب میں اگرچہ اہل کتاب نے طرح طرح کے اختلاف کئے ہیں لکن اہل کتاب اور اہل اسلام سے جو اکثر مباحثات ہوئے ہیں ان میں اہل اسلام نے ان سب اختلافات کو رفع کردیا ہے غرض آج تک کسی اہل کتاب نے تورات انجیل یا تاریخ کی معتبر کتابوں میں سے اس بات کو ثابت نہیں کیا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد سوائے نبی آخر الزمان کے مکہ کے پہاڑوں میں سے کسی اور ایسے دوسرے نبی کا ظہور ہوا ہو کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح اس نبی پر کتاب آسمانی نازل ہوئی یا اس کی امت کی وہ کثرت ہوئی ہو جس کی خوش خبری اللہ تعالیٰ کے فرشتے نے حضرت ہاجرہ (رض) حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کی ماں کو دی تھی۔ اس خوشخبری کا ذکر تورات کے حصہ تکوین کے باب ١٦۔ اور ١٧ میں تفصیل سے ہے۔ انجیل یوحنا کے چودہویں باب میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بعد جن نبی کے آنے کی خوشخبری دی ہے اس کی تفسیر بھی سوائے نبی آخر الزمان محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دوسرے نبی سے نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ اس کی تفسیر کسی دوسرے سے کی جاوے گی تو تورات کے حصہ استثناء کے باب ٣٣ کی جو آیت گزری اس میں اور انجیل یوحنا کی اس آیت میں مخالفت پیدا ہوجاوے گی جو علماء نصاریٰ کے اعتقاد کے بالکل مخالف ہے کس لئے کہ ناسخ منسوخ سے بچنے کے لئے ان کا اعتقاد تو یہ ہے کہ انجیل کی کوئی آیت توریت کی کسی آیت کے مخالف نہیں ہے۔ ابوہریرہ (رض) کی حدیث صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ایک گویا اس تفسیر میں گزرچکی ہے۔ جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے مابین کوئی نبی نہیں ہے ١ ؎۔ یہ حدیث تورات کے حصہ استثناء کے باب ٣٣ اور یوحنا کی انجیل کے باب ١٤ کی آیتوں کے ہم مضمون اور ان سے پوری مطابقت رکھتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:46) قفینا۔ ماضی معروف جمع متکلم ۔ تقفیۃ (تفعیل) مصدر۔ پیچھے بھیجنا۔ پیچھے کردینا اس کا مادہ قفا ہے بمعنی گردن اور سر کا پچھلا حصہ۔ قفو۔ قفو۔ کسی کے پیچھے چلنا۔ پیروی کرنا (اس معنی میں باب نصر سے مستعمل ہے) ۔ تقضیۃ دو مفعول چاہتا ہے۔ جیسے قضیت زبدا عمروا۔ میں نے زید کو عمرو کے پیچھے بھیجا کبھی مفعول دوم پر ب آتا ہے۔ جیسا کہ آیت ہذا میں ہے قضینا بعیسی۔ اور (ان کے پیچھے) ہم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھیجا۔ علی اثارھم ۔ ان کے نقش قدم پر۔ ان کے پیچھے پیچھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی حضرت مسیح ( علیہ السلام) کوئی نئی شریعت یا نیا دین لے کر نہیں آئے تھے بلکہ وہ تورات ہی کی تصدیق کرنے اور اسی کی شریعت کو زندہ کرنے آئے تھے۔ وہ خود بھی اسی کی شریعت پر چلتے تھے اور انجیل بھی اسی شریعت پر چلنے کا حکم دیتی تھی۔ (ابن کثیر۔ کبیر) تورات انجیل اور پھر قرآن کریم کے متعلق ھد ی ونور کے اوصاف بیان ہوئے ہیں۔ ان کتب منزلہ کا ہدایت ہونا تو احق اعتبار سے ہے کہ یہ مبدا دمعاد کے حقائق کے بیان پر مشتمل ہیں اور نو راد روشنی ہونا اس لحاظ سے ہے کہ انسان کے عملی زندگی میں رہمنائی کا کام دیتی ہے (کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : تورات کے بعد انجیل کی ہدایات اور اس کے احکامات کی اہمیت کا بیان۔ اس سے متصل پہلی آیات میں تورات کے منزل من اللہ ہونے اور اس کے احکامات کے نفاذ کا ذکر ہوا تھا اب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا ثبوت اور انجیل کا تورات کی تائید کرنا ثابت کیا گیا ہے۔ اس لیے انجیل کی ہدایات اور احکامات کو انہی الفاظ میں بیان کیا گیا ہے جن الفاظ میں تورات کی اہمیت اور ہدایات کا تعارف کروا یا گیا ہے۔ یہ کتب اپنے اپنے وقت میں لوگوں کے لیے روشنی کا مینار اور ہدایت کا سرچشمہ تھیں یاد رہے جو الفاظ تورات اور انجیل کے بارے میں آئے ہیں ایسے ہی الفاظ قرآن مجید کے بارے میں ارشاد ہوئے ہیں۔ یہ قرآن مجید کی حقانیت اور اس کی کشادہ ظرفی کا منہ بولتا ثبوت ہونے کے ساتھ اس بات کا اعلان ہے کہ جس طرح تورات اور انجیل اپنے اپنے دور میں لوگوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ اور روشنی کا مینار تھیں اسی طرح ہی آج قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت کا منبع، روشن قندیل ہے اور اس کے احکامات رہتی دنیا تک قابل عمل اور نافذ العمل رہیں گے۔ تورات و انجیل اپنے دور کے لیے لوگوں کے نصیحت و موعظت کا مرقع تھیں اور اب قرآن ان کے بنیادی احکامات اور ہدایات کا ترجمان اور لوگوں کے لیے راہ عمل ہے جس طرح تورات و انجیل کے احکامات نافذ نہ کرنے والے درجہ بدرجہ کافر، ظالم اور فاسق تھے اگر آج مسلمان اپنی انفرادی زندگی اور اجتماعی نظام میں قرآن نافذ نہیں کرتے تو وہ بھی اسی زمرے میں سمجھے جائیں گے جس طرح تورات و انجیل پر عمل نہ کرنے والے کافر، ظالم اور فاسق ٹھہرے تھے۔ مسائل ١۔ ہر نبی پہلی آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا تھا۔ ٢۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے انجیل عطا کی تھی۔ ٣۔ انجیل میں ہدایت اور روشنی ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی نازل شدہ کتاب کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والے فاسق ہیں۔ تفسیر بالقرآن کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیے : ١۔ ہم نے آپ کی طرف کتاب نازل کی تاکہ آپ لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں۔ (النساء : ١٠٥) ٢۔ ہم نے انبیاء پر کتابیں نازل کیں تاکہ وہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں۔ (البقرۃ : ٢١٣) ٣۔ اور انجیل والے اس کے مطابق فیصلہ کریں۔ (المائدۃ : ٤٧) ٤۔ آپ ان کے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کریں۔ (المائدۃ : ٤٨) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے جو احکام آپ پر اتارے ہیں ان کے مطابق فیصلہ کیجیے۔ (المائدۃ : ٤٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٤٦ تا ٤٧۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کو انجیل عطا ہوئی تاکہ وہ لوگوں کے لئے نظام زندگی قرار پائے ۔ انجیل میں بذات خود کوئی نیا شرعی نظام نہ تھا ‘ البتہ انجیل میں تورات کے قانونی نظام میں نہایت ہی خفیف تبدیلیاں کی گئی تھیں ۔ انجیل نے خود تورات کے نظام قانون اور نظریات کی تصدیق کی ‘ صرف چند تبدیلیاں لائی گئیں ۔ اللہ تعالیٰ نے انجیل کے اندر امت مسلمہ کے لئے ہدایت ‘ نئی روشنی اور نصیحت اتاری یہ کس کے لئے ؟ ان لوگوں کے لئے جو خدا ترس تھے ۔ اس لئے متقی لوگ وہ ہوں گے جو ہدایت ‘ روشنی اور وعظ ونصیحت اللہ کی کتابوں سے اخذ کرتے ہیں اور ایسے ہی لوگوں کو یہ کتابیں ہدایات دیتی ہیں ۔ رہے وہ دل جو خشک ‘ پتھر کی طرح بےجان اور سخت ہوتے ہیں تو کوئی نصیحت ان تک نہیں پہنچتی ۔ ان دلوں کو کلام کے اندر کوئی مفہوم نظر نہیں آتا ۔ ان کو ہدایات کے اندر روح نظر نہیں آتی ان کو ایمان کے اندر کوئی ذائقہ نظر نہیں آتا ۔ وہ ان ہدایات ‘ ان انوار سے کوئی راہ نہیں پاتے اور نہ ہی دعوت و پکار لبیک کہتے ہیں ۔ نور اور روشنی موجود ہوتی ہے لیکن ان کی بصارت اور بصیرت کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔ راہنمائی موجود ہوتی ہے لیکن اس راہنمائی کا ادراک صرف بلند روحوں کو ہوتا ہے ۔ نصیحت موجود ہوتی ہے لیکن صرف فہم رکھنے والے دل ہی نصیحت لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انجیل میں بھی ہدایت ‘ نور اور اہل تقوی کے لئے نصیحت درج فرمائی اور اہل انجیل کے لئے اسے نظام حیات قرار دیا ۔ اور ان کے لیے قوانین کا ماخذ بنایا یعنی انجیل صراف اہل انجیل کے لئے نظام حیات تھی ۔ وہ تمام لوگوں کے لئے نہ تھی ‘ کیونکہ انجیل کی دعوت عام نہ تھی لیکن اس کا نفاذ تورات کی طرح ‘ ہر رسالت کی طرح اور ہر رسول کی دعوت کی طرح ضروری تھا ‘ جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے گزرے تھے اور جن کی دعوت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت اور شریعت کے مطابق تھی ۔ لہذا شرائع سابقہ کا جو حصہ اسلام کے مطابق ہے وہ اسلام کی شریعت اور قرآن کی شریعت کا حکم دکھتا ہے جیسا کہ حکم قصاص کے ضمن میں ہم کہہ آئے ہیں۔ یعنی اہل انجیل سے بھی مطالبہ یہی تھا کہ وہ انجیل کی شریعت کے مطابق اپنے فیصلے کریں ۔ (آیت) ” ولیحکم اھل الانجیل بما انزل اللہ فیہ “۔ (٥ : ٤٧) (ہمارا حکم تھا کہ اہل انجیل اسی قانون کے مطابق فیصلہ کریں جسے اللہ نے اتارا) یعنی اصل الاصول یہی تھا کہ اللہ کے احکام کے مطابق فیصلے کئے جائیں ۔ اہل انجیل اور یہودیوں دونوں کی کوئی حیثیت نہ تھی جب تک وہ اسلام سے قبل تورات کو نافذ کرتے تھے ۔ اسلام کے آنے کے بعد اب تو سب دنیا کے انسانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اسلام شریعت نافذ کریں ۔ یہ شریعت اب سب کی شریعت ہے اور یہ اب آخری رسالت اور آخر شریعت ہے ۔ (آیت) ” بما انزل اللہ فیہ ومن لم یحکم بما انزل فاولئک ھم الفسقون “۔ (٥ : ٤٧) (جو اللہ نے اس میں نازل کیا ہے اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں) یہاں بھی آیت نہایت ہی عام اور مطلق ہے ۔ اور اس سے قبل اس قسم کے فعل پر صفت کفر اور ظلم کا جو اطلاق ہوا تھا ‘ صف کفر ان دونوں پر مستزاد ہے ۔ یہاں فاسقوں سے مراد کوئی اور لوگ نہیں ہیں بلکہ وہی کافرون اور ظالمون ہیں جنہوں یہاں صفت فاسقون سے بھی متصف کیا گیا ہے اور جو بھی اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہ کرے گا وہ اس صفت سے متصف ہوگا ۔ کفر اس لئے ہوگا کہ اللہ کی شریعت کا انکار کرنے سے اللہ کی حاکمیت کا انکار ہوگا ۔ ظلم اس لئے ہوگا کہ لوگوں پر اللہ کے سوا کوئی اور قانون نافذ کرکے ظلم ہوگا اور اس قانون کے ذریعے ان کی زندگیوں میں فساد برپا ہوگا اور فسق اس لئے ہوگا کہ اللہ کے نظام حیات سے خارج ہونے والا خود بخود فاسق ہوجاتا ہے ۔ غرض یہ تمام صفات اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے نہ کرنے کے فعل کے ساتھ لازم ہیں اور ایسا فاعل ان تمام صفات کا مرتکب ہوتا ہے ۔ اور ان میں کوئی تفریق نہیں ہے۔ اب بات حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آخری رسالت تک آپہنچتی ہے ۔ اب آخری شریعت یعنی اسلامی شریعت کے بارے بات ہوتی ہے ۔ اس میں اسلام کو اپنی آخری شکل میں پیش کردیا گیا تاکہ وہ تمام انسانوں کا دین بن جائے اور اسلام کی شریعت تمام لوگوں کی شریعت ہو ۔ نیز اس کے اندر ان تمام ہدایات کو جمع کرکے محفوظ کردیا جائے جو اس سے پہلے کسی بھی رسول کو دی گئی تھی اور یہ شریعت اس وقت تک نافذ رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ اس پوری کائنات کو لپیٹ نہیں لیتا ۔ یہ ایک ایسا نظام زندگی ہے جس پر اسلامی زندگی ہر پہلو کے اعتبار سے قائم ہوتی ہے ۔ اس کے دائرے کے اندر زندگی محدود ہوجاتی ہے اور اس کے محور کے اندر گھومتی ہے ۔ انسان اپنے اعتقادات و تصورات اسی سے اخذ کرتا ہے ۔ اپنا اجتماعی نظام بھی اس کے مطابق استوار کرتا ہے ‘ اور وہ اپنے انفرادی اور سوشل روابط اسی کے مطابق ڈھالتا ہے ۔ اور یہ شریعت اس لئے اتاری گئی ہے کہ یہ عدالتوں میں رائج ہو ‘ اس کے مطابق نظام استوار ہو ‘ کتابوں اور دفتروں کے اندر اس کا دور دورہ ہو اور اس کی پیروی اور اس کا نفاذ نہایت دقت کے ساتھ ہو ۔ اس کا کوئی جزء متروک نہ ہو ‘ اس کا کوئی جزء بدلا نہ گیا ہو ‘ چاہے چھوٹے معاملات سے متعلق ہو یا بڑے معاملات سے اس لئے کہ یا تو شریعت اسلامی ہوگی اور یہ جاہلیت ہوگی ۔ اس شریعت کے نفاذ کے سلسلے میں ان نیت سے تساہل اور مداہنت کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ اس بہانے بہت سے لوگوں کو اسلام کے نام پر جمع کردیا جائے ‘ اس لئے کہ اگر اللہ چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا ۔ اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اس کی شریعت کی حکمرانی قائم ہو ‘ پھر جو ہوتا ہے ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

انجیل شریف میں ہدایت تھی اور نور تھا توریت شریف اور اس کے بعض احکام کا تذکرہ فرمانے کے بعد حضرت سیدنا عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) اور انجیل شریف کا تذکرہ فرمایا جو حضرت سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی اور ارشاد فرمایا (وَ قَفَّیْنَا عَلآی اٰثَارِھِمْ بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ) کہ انبیاء کے بعد (جو توریت کے مطابق حکم کرتے تھے) ہم نے عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کو بھیجا وہ توریت شریف کی تصدیق کرنے والے تھے جو پہلے سے موجود تھی انجیل میں متقیوں کے لئے ہدایت تھی اور نصیحت تھی، اس میں یہ بتاد یا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی توریت کی تصدیق کرنے والے تھے اور جو کتاب ان پر نازل ہوئی یعنی انجیل وہ بھی توریت شریف کی تصدیق کرنے والی تھی سارے ہی انبیاء کرام ( علیہ السلام) آپس میں ایک دوسرے کی تصدیق کرنے والے تھے اور انجیل میں توریت شریف کی تصدیق موجود تھی بعد میں گروہ بندیاں ہوگئیں اور بنی اسرائیل نے حضرت سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا نہ صرف یہ کہ انکار کردیا اور ان کی کتاب کو نہ مانا بلکہ ان کے قتل کے درپے ہوگئے قتل تو نہ کرسکے لیکن اپنی کرنی میں انہوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی عیسائیوں میں برابر باہمی مخالفت رہی اور نصرانی یہودیوں کو یہ الزام دیتے رہے کہ انہوں نے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کیا ہے۔ چند سال پہلے سیاسی گٹھ جوڑ کے تقاضے پر نصرانیوں نے اپنا الزام واپس لے لیا۔ گٹھ جوڑ مسلمانوں کی مخالفت میں متحد ہونے کے لئے کیا گیا ہے۔ یہودیوں کے مقاصد نصرانیوں سے متعلق ہیں اس لئے باہمی مخالفت کو دور کرنے کے لئے یہ راستہ نکالا گیا جو اوپر مذکور ہوا۔ اللہ کے نبی اور اللہ کی کتابیں سب ایک دوسرے کی تصدیق کرنے والی ہیں بہر حال یہ سیاسی گرو بندی اور مخالفت اور موافقت لوگوں کے اپنے معاملات کی وجہ سے ہے اللہ کے نبیوں میں آپس میں کوئی مخالفت نہیں اور اللہ کی کوئی کتاب دوسری کتاب کی تکذیب کرنیوالی نہیں توریت اور انجیل میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق موجود تھی جسے یہود و نصاریٰ نے محرف کردیا اور تحریف کے باوجود بھی تصریحات ملتی ہیں جن میں آپ کی تصدیق اور تشریف آوری کی تبشیر موجود ہے انجیل کے بارے میں فرمایا (وَ ھُدًی وَّ مَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِیْنَ ) کہ وہ ہدایت ہے اور نصیحت ہے پرہیزگاروں کے لئے، یہ ایسا ہی جیسے قرآن مجید کے بارے میں (ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ) اور (ھٰذَا بَیَانٌ لّلنَّاسِ وَ ھُدًی وَّمَوْ عِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ ) فرمایا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

84 پہلے یہود کو تورات دینے اور اس کے احکام پر سختی سے عمل کرنے کی تاکید کا ذکر تھا یہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر انجیل نازل کرنے کا ذکر فرمایا اور ساتھ علماء نصاریٰ کو انجیل پر عمل کرنے کی تاکید فرمائی مُصَدِّقاً یہ عیسیٰ سے حال واقع ہے۔ وَ اٰ تَیْنٰہُ الْاِنجْجِیلَ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ایک طرف تورات کے تصدیق کنندہ تھے اور دوسری طرف خود بھی صاحب کتاب تھے ان کو ہم نے انجیل دی جس میں تورات کی طرح ہدایت کی روشنی تھی۔ وَمُصَدِّقاً جس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تورات کے احکام کی تصدیق کرتے تھے اسی طرح انجیل بھی تورات کی مصدق تھی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اور ہم نے ان انبیائے مذکورہ کے بعد جن کی طرف یحکم بھا النبیون میں اشارہ کیا گیا ہے ان ہی انبیائے ما سبق کے نقش ہائے قدم پر حضرت عیسیٰ بن مریم کو بھیجا جن کا حال یہ تھا کہ وہ اس کتاب کی تصدیق کرتے تھے جو ان سے پہلے نازل ہوئی تھی یعنی توریت کی تصدیق فرماتے تھے اور اس کو منزل من اللہ کہتے تھے اور ہم نے ان عیسیٰ بن مریم کو انجیل عطا کی تھی اس انجیل کی یہ حالت تھی کہ اس میں روشنی تھی اور صحیح راہ کی راہنمائی تھی اور وہ بھی اپنے سے پہلی کتاب توریت کی تصدیق کرنے والی تھی اور اس کو منجانب اللہ بتاتی تھی اور وہ انجیل اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لئے سراسر ہدایت اور نصیحت تھی۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم بھی توریت کی تصدیق فرماتے تھے اور انجیل میں توریت کی تصدیق یہ اس وجہ سے فرمایا کہ انبیاء (علیہم السلام) کے یہ لوازمات میں سے ہے کہ وہ پہلے نبیوں کی تصدیق کریں اور سای طرح یہ آسمانی کتابوں کے بھی لوازمات میں سے ہیں کہ وہ اپنے سے پہلے کی آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتی ہیں تاکہ یہ بات معلوم ہو سکے کہ ان تمام پیغمبروں کا اور کتب آسمانی کا مرکز اور منبع ایک ہی ہے اور انبیاء (علیہم السلام) اور کتب سماویہ ایک دوسرے کی تائید اور توثیق کرنے والے ہیں انجیل کی تعلیم کو ہدایت اور نور فرمایا جو کتب سماویہ کا خاصا ہے کہ یہ کتابیں مخلوق کی رہنمائی اور ان کو حقیقی روشنی سے بہرہ مند کرنے کے لئے بھیجی جاتی ہیں جس طرح رات کی تاریکی میں انسان باوجود آنکھوں کی بینائی کے روشنی کا محتاج ہوتا ہے اسی طرح کفر و شرک کی تاریکیوں میں آسمانی تعلیم کی روشنی کا محتاج ہوتا ہے اس لئے کتب سماویہ کی تعلیمات کو نور ضیاء اور ہدایت وغیرہ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے دوبارہ پھر انجیل کی ہدایت کا ذکر فرمایا اس لئے کہ انجیل میں نبی آخر الزماں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارت کا بھی بکثرت ذکر تھا اس لئے یہ خیال ہوسکتا تھا کہ یہ بات سمجھ میں آجائے کہ نبی آخر الزماں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تذکرہ بھی سبب ہدایت ہے۔ اس لئے انجیل سراسر ہدایت اور نصیحت ہے پرہیز گاروں کے لئے آسمانی کتب کا نصیحت ہونا تو ظاہر ہی ہے۔ اہل تقویٰ کا ذکر اس لئے فرمایا کہ یہی لوگ حقیقت میں آسمانی ہدایت اور نصیحت سے فائدہ اٹھاتے ہیں جب انجیل کی صداقتا ور اس کا کتاب آسمانی ہونا ثابت ہوگیا تو اہل انجیل کو حکم دیا جاتا ہے کہ تم کو اس کتاب کے احکام کی پابندی کرنی چاہئے اور منجملہ دیگر احکام کے اس کتابنے یہ بھی حکم دیا ہے کہ نبی آخر الزماں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تشریف لائیں تو ان پر اور ان کی کتاب پر ایمان لائو۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)