Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 52

سورة المائدة

فَتَرَی الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ یُّسَارِعُوۡنَ فِیۡہِمۡ یَقُوۡلُوۡنَ نَخۡشٰۤی اَنۡ تُصِیۡبَنَا دَآئِرَۃٌ ؕ فَعَسَی اللّٰہُ اَنۡ یَّاۡتِیَ بِالۡفَتۡحِ اَوۡ اَمۡرٍ مِّنۡ عِنۡدِہٖ فَیُصۡبِحُوۡا عَلٰی مَاۤ اَسَرُّوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ نٰدِمِیۡنَ ﴿ؕ۵۲﴾

So you see those in whose hearts is disease hastening into [association with] them, saying, "We are afraid a misfortune may strike us." But perhaps Allah will bring conquest or a decision from Him, and they will become, over what they have been concealing within themselves, regretful.

آپ دیکھیں گے کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ دوڑ دوڑ کر ان میں گھس رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں خطرہ ہے ، ایسا نہ ہو کہ کوئی حادثہ ہم پر پڑ جائے بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالٰی فتح دے دے یا اپنے پاس سے کوئی اور چیز لائے پھر تو یہ اپنے دلوں میں چھپائی ہوئی باتوں پر ( بے طرح ) نادم ہونے لگیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ ... And you see those in whose hearts there is a disease..., A disease of doubt, hesitation and hypocrisy. ... يُسَارِعُونَ فِيهِمْ ... they hurry to their friendship, meaning, they rush to offer them their friendship and allegiances in secret and in public. ... يَقُولُونَ نَخْشَى أَن تُصِيبَنَا دَايِرَةٌ ... saying: "We fear lest some misfortune of a disaster may befall us." They thus offer this excuse for their friendship and allegiances to the disbelievers, saying that they fear that the disbelievers might defeat the Muslims, so they want to be in favor with the Jews and Christians, to use this favor for their benefit in that eventuality! Allah replied, ... فَعَسَى اللّهُ أَن يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ ... Perhaps Allah may bring a victory..., According to As-Suddi, referring to the conquering of Makkah. ... أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِهِ ... or a decision according to His will, As-Suddi stated, means, requiring the Jews and Christians to pay the Jizyah. ... فَيُصْبِحُواْ ... Then they will become, meaning, the hypocrites who gave their friendship to the Jews and Christians, will become, ... عَلَى مَا أَسَرُّواْ فِي أَنْفُسِهِمْ ... for what they have been keeping as a secret in themselves, of allegiances, ... نَادِمِينَ regretful. for their friendship with the Jews and Christians which did not benefit them or protect them from any harm. Rather, it was nothing but harm, as Allah exposed their true reality to His faithful servants in this life, although they tried to conceal it. When the signs that exposed their hypocrisy were compiled against them, their matter became clear to Allah's faithful servants. So the believers were amazed at these hypocrites who pretended to be believers, swearing to their faithfulness, yet their claims were all lies and deceit. This is why Allah said, وَيَقُولُ الَّذِينَ امَنُواْ أَهَـوُلاء الَّذِينَ أَقْسَمُواْ بِاللّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ إِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَأَصْبَحُواْ خَاسِرِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

52۔ 1 اس سے مراد نفاق ہے۔ یعنی منافقین یہودیوں سے محبت اور دوستی میں جلدی کر رہے ہیں۔ 52۔ 2 یعنی مسلمانوں کو شکست ہوجائے اور اس کی وجہ سے ہمیں بھی کچھ نقصان اٹھانا پڑے۔ یہودیوں میں دوستی ہوگی تو ایسے موقع پر ہمارے بڑے کام آئے گی۔ 52۔ 3 یعنی مسلمانوں کو۔ 52۔ 4 یہود و نصاریٰ پر جزیہ عائد کر دے یہ اشارہ ہے جو بنو قریظ کے قتل اور ان کی اولاد کے قیدی بنانے اور بنو نضیر کی جلا وطنی وغیرہ کی طرف، جس کا وقوع مستقبل قریب میں ہی ہوا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٤] منافقوں کی یہود و نصاریٰ سے خفیہ سازباز کی وجہ :۔ یہود و نصاریٰ سے دلی دوستی رکھنے والے منافقین تھے جو بظاہر مسلمان تھے مگر ان کی دلی ہمدردیاں یہود و نصاریٰ اور کفار ہی کے ساتھ تھیں اور جنگ احد کے بعد ان کی ہمدردیوں میں کچھ اضافہ بھی ہوگیا تھا جنگ بدر کے بعد اگرچہ اسلام ایک قوت بن چکا تھا تاہم اسلام کو حقیقتاً غلبہ فتح مکہ کے بعد ہی حاصل ہوا۔ اس درمیانی عرصہ میں اسلام یا کفر میں سے کسی کے متعلق بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ ان میں سے کون سی قوت غالب ہوگی اور کونسی مغلوب ؟ اب ظاہری صورت حال یہ تھی کہ یہود و نصاریٰ دونوں مسلمانوں کی نسبت بہت زیادہ مالدار تھے عرب کے سرسبز و شاداب خطے بھی انہیں کے قبضہ میں تھے یہودی سودی کاروبار بھی کرتے تھے اس لحاظ سے بھی لوگ ان کے محتاج تھے۔ غرض عرب کی معیشت پر دراصل یہی یہود و نصاریٰ ہی چھائے ہوئے تھے ان حالات میں منافق یہ سوچتے تھے کہ اگر مسلمان ہار گئے تو ہم تو کہیں کے نہ رہے لہذا وہ ان سے دوستی کرنا، دوستانہ مراسم رکھنا، خفیہ طور پر اسلام دشمن سازشوں میں ان کا ساتھ دینا، جنگ کے دوران ان سے مسلمانوں کے خلاف خفیہ معاہدے کرنا یہ سب ان کے خیال کے مطابق ان کی انتہائی اہم ضرورتیں تھیں۔ پھر دوسری طرف یہ بھی خطرہ تھا کہ کہیں اسلام ہی غالب نہ آجائے۔ لہذا بظاہر مسلمانوں کی جماعت میں شامل رہتے اور نماز ادا کرتے تھے۔ انہیں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ منافقین بھی حقیقتاً مسلمان نہیں بلکہ یہود و نصاریٰ ہی ہیں۔ [٩٤۔ الف ] فتح مکہ پر قبائل عرب کی نظریں :۔ قرآن کریم نے اکثر مقامات پر الفتح سے مراد فتح مکہ لی ہے یعنی مشرکین عرب، یہود مدینہ، منافقین اور نصاریٰ وغیرہ سب سمجھتے تھے کہ عرب میں مسلمانوں اور قریش مکہ میں سے بالاتر قوت وہی سمجھی جاسکتی ہے جس کا مکہ اور بیت اللہ پر قبضہ ہو۔ قریش مکہ کی ثروت اور سیاسی قیادت کا سبب یہی کعبہ کی تولیت تھی اللہ تعالیٰ اس آیت میں منافقوں سے یہ خطاب فرما رہے ہیں کہ عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ عنقریب مسلمانوں کو فتح مکہ سے ہمکنار کر دے اور اس فتح مکہ سے پہلے بھی ایسے حالات پیش آسکتے ہیں جس میں منافقوں کے سب پول کھل جائیں اور وہ پوری طرح ننگے ہوجائیں اور نادم و شرمسار ہو کر رہ جائیں اور جو بات وہ دلوں میں چھپاتے تھے صرف یہ نہ تھی کہ پتہ نہیں کہ کس فریق کو غلبہ حاصل ہوتا ہے بلکہ یہ تھی کہ مسلمانوں کے پورے اہل عرب کی مخالفت کے علی الرغم مکہ پر فتح حاصل کرلینا ناممکنات سے ہے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ کافروں سے خفیہ ساز باز رکھتے اور اسے کسی قیمت پر چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَتَرَى الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ ۔۔ : یعنی منافقین جو یہود و نصاریٰ کی طرف دوڑتے اور ان کے ساتھ دوستی کیے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں مسلمان زمانے کے کسی چکر میں آ کر مغلوب نہ ہوجائیں، پھر ہمارا کیا بنے گا، اس وقت ان کی دوستی ہمارے کام آئے گی، سو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے، بلکہ یقیناً ہوگا لفظ ” عَسٰی “ اللہ اور رسول کے فرمان میں یقین کے معنی میں آتا ہے) کہ مسلمانوں کو فتح ہوگی، کافر مغلوب ہوں گے، پھر وہ قتل ہوں گے، یا جلاوطن ہوں گے، یا انھیں جزیہ دینا پڑے گا، پھر ان منافقین کو ندامت ہوگی کہ ہم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوا، مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی، بنو قریظہ کے یہودی قتل ہوئے، بنو نضیر کو سر زمین مدینہ سے نکال دیا گیا اور یہ لوگ اپنے نفاق پر کف افسوس ملتے رہ گئے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَتَرَ‌ى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَ‌ضٌ يُسَارِ‌عُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَىٰ أَن تُصِيبَنَا دَائِرَ‌ةٌ Now, you see those who have disease in their hearts race to-wards them saying, |"We apprehend that some misfortune may overtake us.|" It means that after hearing the religiously binding injunction of the abandonment of close friendships, people who have the disease of hypocricy in their hearts started racing towards their disbelieving friends saying that cutting off relationships with these people is dan¬gerous for them. Answering them, Almighty Allah said: فَعَسَى اللَّـهُ أَن يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ‌ مِّنْ عِندِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا أَسَرُّ‌وا فِي أَنفُسِهِمْ نَادِمِي So, it is likely that Allah may bring victory or a command from His own side, whereupon they become regretful over what they concealed in their hearts. It means that these people are under the impression that the dis¬believers and the Jews will overcome Muslims. But, Allah has decided that it will not happen. Rather, close is the conquest of Makkah. Or, even before the conquest of Makkah, Allah may, by exposing the hypocrisy of the hypocrites, put them to disgrace. Then, at that time, these people will regret thoughts they had concealed.

فَتَرَى الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْهِمْ يَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَةٌ۔ یعنی ترک موالات کا حکم شرعی سن کر وہ لوگ جن کے دلوں میں نفاق کا مرض ہے اپنے کافر دوستوں کی طرف دوڑنے لگے اور کہنے لگے کہ ان سے قطع تعلق کرنے میں تو ہمارے لئے خطرات ہیں۔ اللہ جل شانہ نے ان کے جواب میں فرمایا : فَعَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَ بالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِهٖ فَيُصْبِحُوْا عَلٰي مَآ اَ سَرُّوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِيْنَ ، یعنی یہ لوگ تو اس خیال میں ہیں کہ مشرکین اور یہود مسلمانوں پر غالب آجائیں گے، مگر اللہ تعالیٰ فیصلہ فرما چکے ہیں کہ ایسا نہیں ہوگا۔ بلکہ قریب ہے کہ مکہ فتح ہوجائے، یا فتح مکہ سے پہلے اللہ تعالیٰ ان منافقین کے نفاق کا پردہ چاک کرکے ان کو رسوا کر دے، تو اس وقت یہ لوگ اپنے مخفی خیالات پر نادم ہوں گے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَتَرَى الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْہِمْ يَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَۃٌ۝ ٠ۭ فَعَسَى اللہُ اَنْ يَّاْتِيَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِہٖ فَيُصْبِحُوْا عَلٰي مَآ اَسَرُّوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ نٰدِمِيْنَ۝ ٥٢ۭ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ مرض الْمَرَضُ : الخروج عن الاعتدال الخاصّ بالإنسان، وذلک ضربان : الأوّل : مَرَضٌ جسميٌّ ، وهو المذکور في قوله تعالی: وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ [ النور/ 61] ، وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة/ 91] . والثاني : عبارة عن الرّذائل کالجهل، والجبن، والبخل، والنّفاق، وغیرها من الرّذائل الخلقيّة . نحو قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة/ 10] ، أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور/ 50] ، وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة/ 125] ( م ر ض ) المرض کے معنی ہیں انسان کے مزاج خصوصی کا اعتدال اور توازن کی حد سے نکل جانا اور یہ دوقسم پر ہے ۔ مرض جسمانی جیسے فرمایا : وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ [ النور/ 61] اور نہ بیمار پر کچھ گناہ ہے ۔ وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة/ 91] اور نہ بیماروں پر ۔ دوم مرض کا لفظ اخلاق کے بگڑنے پر بولا جاتا ہے اور اس سے جہالت بزدلی ۔ بخل ، نفاق وغیرہ جیسے اخلاق رزیلہ مراد ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة/ 10] ان کے دلوں میں کفر کا مرض تھا ۔ خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور/ 50] گناہ ان کے دلوں میں بیماری ہے یا یہ شک میں ہیں ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة/ 125] اور جن کے دلوں میں مرض ہے ۔ ان کے حق میں خبث پر خبث زیادہ کیا ۔ سرع السُّرْعَةُ : ضدّ البطء، ويستعمل في الأجسام، والأفعال، يقال : سَرُعَ ، فهو سَرِيعٌ ، وأَسْرَعَ فهو مُسْرِعٌ ، وأَسْرَعُوا : صارت إبلهم سِرَاعاً ، نحو : أبلدوا، وسَارَعُوا، وتَسَارَعُوا . قال تعالی: وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران/ 133] ، وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران/ 114] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق/ 44] ( س ر ع ) السرعۃ اس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں اور یہ بطا ( ورنگ گردن ) کی ضد ہے ۔ اجسام اور افعال دونوں کے ( ان کے اونٹ تیز رفتاری سے چلے گئے ) آتے ہں ۔ جیسا کہ اس کے بالمقابل ایلد وا کے معنی سست ہونا آتے ہیں ۔ سارعوا وتسارعو ایک دوسرے سے سبقت کرنا چناچہ قرآن میں ہے : وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران/ 133] اور اپنے پروردگار کی بخشش ( اور بہشت کی ) طرف لپکو ۔ وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران/ 114] اور نیکیوں پر لپکتے ہیں ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق/ 44] اس روز زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور جھٹ جھٹ نکل کھڑے ہوں گے ۔ خشی الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ( خ ش ی ) الخشیۃ ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ دَّائرَةُ : عبارة عن الخطّ المحیط، يقال : دَارَ يدور دورانا، ثم عبّر بها عن المحادثة . والدّوّاريّ : الدّهر الدّائر بالإنسان من حيث إنه يُدَوِّرُ بالإنسان، ولذلک قال الشاعر : والدّهر بالإنسان دوّاريّ والدّورة والدّائرة في المکروه، كما يقال : دولة في المحبوب، وقوله تعالی: نَخْشى أَنْ تُصِيبَنا دائِرَةٌ [ المائدة/ 52] ، والدّوّار : صنم کانوا يطوفون حوله . والدّاريّ : المنسوب إلى الدّار، وخصّص بالعطّار تخصیص الهالكيّ بالقین قال صلّى اللہ عليه وسلم : «مثل الجلیس الصّالح کمثل الدّاريّ» ويقال للازم الدّار : داريّ. وقوله تعالی: وَيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوائِرَ عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ التوبة/ 98] ، أي : يحيط بهم السّوء إحاطة الدّائرة بمن فيها، فلا سبیل لهم إلى الانفکاک منه بوجه . وقوله تعالی: إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجارَةً حاضِرَةً تُدِيرُونَها بَيْنَكُمْ [ البقرة/ 282] ، أي : تتداولونها وتتعاطونها من غير تأجيل . الدائرۃ ۔ خط محیط ( سرکل ) کو کہتے ہیں یہ دار یدور دورانا سے ہے جس کے منعی چکر لگاتا کے ہیں پھر مصیبت گردش زمانہ کو بھی دائرۃ کہہ دیا جاتا ہے اسی مناسبت سے زمانہ کو ۔۔۔ الدواوی کہتے کیونکہ اس کی کرو ستین بھی انسان پر گھومتی رہتی ہیں چناچہ شاعر نے کہا ہے کہ زمانہ انسان کو گھما رہا ہے ۔ اور الدورۃ والدائرہ کا لفظ مکروہ چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اس کے بالمقابل جو محبوب چیز گھوم کر آئے اسے دولۃ کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ نَخْشى أَنْ تُصِيبَنا دائِرَةٌ [ المائدة/ 52] ہمیں خوف ہے کہ ہم پر زمانے کی گردش نہ آجائے ( دائرۃ کی جمع دو ئر آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوائِرَ عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ التوبة/ 98] کہ وہ تمہارے حق میں مصیبتوں کے منتظر ہیں انہی پر بری مصیبت واقع ہو یعنی تباہی اور بربادی انہیں ہر طرف سے اس طرح گھیرلے جیسا کہ کوئی شخص دائرہ کے اندر ہوتا ہے ۔ اور ان کے لئے اس بر بادی سے نکلنے کی کوئی صورت باقی نہ رہے الدوار ۔ ایک بت کا نام ہے جس کے گرد اگر د لوگ طواف کیا کرتے تھے ۔ الداری ۔ یہ الدار کی طرح منسوب ہے مگر عطار ( عطر فروش ) کے ساتھ مخصوص ہوچکا ہے جیسا کہ الھال کی کا لفظ قین یعنی لوہار پر خاص کر بولا جاتا ہے ۔ حدیث میں ہے کہ نیک صحبتیں کی مثال عطار کی سی ہے ۔ اور جو شخص گھر کے اندر ہی جم کر بیٹھا رہے ۔ باہر نہ نکلے اسے بھی داری کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجارَةً حاضِرَةً تُدِيرُونَها بَيْنَكُمْ [ البقرة/ 282] ہاں اگر سودا دست بدست ہو جو تم آپس میں دیتے ہو ۔ یعنی نقدار اور ہاتھوں ہاتھ لین دین ہو اور اس میں کسی قسم کی تا خیر نہ ہو ۔ عسی عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف/ 129] ، أي : کونوا راجین ( ع س ی ) عسیٰ کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف/ 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے فتح الفَتْحُ : إزالة الإغلاق والإشكال، وذلک ضربان : أحدهما : يدرک بالبصر کفتح الباب ونحوه، وکفتح القفل والغلق والمتاع، نحو قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] ، وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر/ 14] . والثاني : يدرک بالبصیرة کفتح الهمّ ، وهو إزالة الغمّ ، وذلک ضروب : أحدها : في الأمور الدّنيويّة كغمّ يفرج، وفقر يزال بإعطاء المال ونحوه، نحو : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] ، أي : وسعنا، وقال : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] ، أي : أقبل عليهم الخیرات . والثاني : فتح المستغلق من العلوم، نحو قولک : فلان فَتَحَ من العلم بابا مغلقا، وقوله : إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح/ 1] ، قيل : عنی فتح مكّةوقیل : بل عنی ما فتح علی النّبيّ من العلوم والهدایات التي هي ذریعة إلى الثّواب، والمقامات المحمودة التي صارت سببا لغفران ذنوبه وفَاتِحَةُ كلّ شيء : مبدؤه الذي يفتح به ما بعده، وبه سمّي فاتحة الکتاب، وقیل : افْتَتَحَ فلان کذا : إذا ابتدأ به، وفَتَحَ عليه كذا : إذا أعلمه ووقّفه عليه، قال : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة/ 76] ، ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر/ 2] ، وفَتَحَ الْقَضِيَّةَ فِتَاحاً : فصل الأمر فيها، وأزال الإغلاق عنها . قال تعالی: رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ [ الأعراف/ 89] ، ومنه الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ/ 26] ، قال الشاعر : بأني عن فَتَاحَتِكُمْ غنيّ وقیل : الفتَاحةُ بالضمّ والفتح، وقوله : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر/ 1] ، فإنّه يحتمل النّصرة والظّفر والحکم، وما يفتح اللہ تعالیٰ من المعارف، وعلی ذلک قوله : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ، فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة/ 52] ، وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة/ 28] ، قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة/ 29] ، أي : يوم الحکم . وقیل : يوم إزالة الشّبهة بإقامة القیامة، وقیل : ما کانوا يَسْتَفْتِحُونَ من العذاب ويطلبونه، ( ف ت ح ) الفتح کے معنی کسی چیز سے بندش اور پیچیدگی کو زائل کرنے کے ہیں اور یہ ازالہ دوقسم پر ہے ایک وہ جس کا آنکھ سے ادراک ہو سکے جیسے ۔ فتح الباب ( دروازہ کھولنا ) اور فتح القفل ( قفل کھولنا ) اور فتح المتاع ( اسباب کھولنا قرآن میں ہے ؛وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر/ 14] اور اگر ہم آسمان کا کوئی دروازہ ان پر کھولتے ۔ دوم جس کا ادراک بصیرت سے ہو جیسے : فتح الھم ( یعنی ازالہ غم ) اس کی چند قسمیں ہیں (1) وہ جس کا تعلق دنیوی زندگی کے ساتھ ہوتا ہے جیسے مال وغیرہ دے کر غم وانددہ اور فقر و احتیاج کو زائل کردینا ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] پھر جب انہوں ن اس نصیحت کو جو ان کو کی گئی تھی ۔ فراموش کردیا تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے ۔ یعنی ہر چیز کی فرادانی کردی ۔ نیز فرمایا : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات کے دروازے کھول دیتے ۔ یعنی انہیں ہر طرح سے آسودگی اور قارغ البالی کی نعمت سے نوازتے ۔ (2) علوم ومعارف کے دروازے کھولنا جیسے محاورہ ہے ۔ فلان فتح من العلم بابامغلقا فلاں نے طلم کا بندو دروازہ کھول دیا ۔ یعنی شہادت کو زائل کرکے ان کی وضاحت کردی ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح/ 1] ( اے محمد ) ہم نے تم کو فتح دی اور فتح صریح وصاف ۔ میں بعض نے کہا ہے یہ فتح کی طرف اشارہ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ اس سے علوم ومعارف ار ان ہدایات کے دروازے کھولنا مراد ہے جو کہ ثواب اور مقامات محمودہ تک پہچنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور آنحضرت کیلئے غفران ذنوب کا سبب ہے ۔ الفاتحۃ ہر چیز کے مبدء کو کہاجاتا ہے جس کے ذریعہ اس کے مابعد کو شروع کیا جائے اسی وجہ سے سورة فاتحہ کو فاتحۃ الکتاب کہاجاتا ہے ۔ افتح فلان کذ افلاں نے یہ کام شروع کیا فتح علیہ کذا کسی کو کوئی بات بتانا اور اس پر اسے ظاہر کردینا قرآن میں ہے : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة/ 76] جو بات خدا نے تم پر ظاہر فرمائی ہے وہ تم ان کو ۔۔۔ بتائے دیتے ہو ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر/ 2] جو لوگوں کیلئے ۔۔ کھولدے فتح القضیۃ فتاحا یعنی اس نے معاملے کا فیصلہ کردیا اور اس سے مشکل اور پیچیدگی کو دور کردیا ۔ قرآن میں ہے ؛ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ [ الأعراف/ 89] اے ہمارے پروردگار ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ۔ اسی سے الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ/ 26] ہے یعن خوب فیصلہ کرنے والا اور جاننے والا یہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ سے ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (335) وانی من فتاحتکم غنی اور میں تمہارے فیصلہ سے بےنیاز ہوں ۔ بعض نے نزدیک فتاحۃ فا کے ضمہ اور فتحہ دونوں کے ساتھ صحیح ہے اور آیت کریمہ : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچیں اور فتح حاصل ہوگئی ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الفتح سے نصرت ، کامیابی اور حکم مراد ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ علوم ومعارف کے دروازے کھول دینا مراد ہو ۔ اسی معنی ہیں میں فرمایا : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ( یعنی تمہیں ) خدا کی طرف سے مدد ( نصیب ہوگی ) اور فتح عنقریب ( ہوگی ) فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة/ 52] تو قریب ہے خدا فتح بھیجے وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة/ 28] اور کہتے ہیں ۔۔۔ یہ فیصلہ کب ہوگا ۔ قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة/ 29] کہدو کہ فیصلے کے دن ۔۔۔ یعنی حکم اور فیصلے کے دن بعض نے کہا ہے کہ الفتح سے قیامت بپا کرکے ان کے شک وشبہ کو زائل کرے کا دن مراد ہے اور بعض نے یوم عذاب مراد لیا ہے ۔ جسے وہ طلب کیا کرتے تھے صبح الصُّبْحُ والصَّبَاحُ ، أوّل النهار، وهو وقت ما احمرّ الأفق بحاجب الشمس . قال تعالی: أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود/ 81] ، وقال : فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، والتَّصَبُّحُ : النّوم بالغداة، والصَّبُوحُ : شرب الصّباح، يقال : صَبَحْتُهُ : سقیته صبوحا، والصَّبْحَانُ : الْمُصْطَبَحُ ، والْمِصْبَاحُ : ما يسقی منه، ومن الإبل ما يبرک فلا ينهض حتی يُصْبَحَ ، وما يجعل فيه الْمِصْبَاحُ ، قال : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور/ 35] ، ويقال للسّراج : مِصْبَاحٌ ، والْمِصْبَاحُ : مقرّ السّراج، والْمَصَابِيحُ : أعلام الکواكب . قال تعالی: وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک/ 5] ، وصَبِحْتُهُمْ ماء کذا : أتيتهم به صَبَاحاً ، والصُّبْحُ : شدّة حمرة في الشّعر، تشبيها بالصّبح والصّباح، وقیل : صَبُحَ فلان أي : وَضُؤَ ( ص ب ح) الصبح والصباح دن کا ابتدائی حصہ جبکہ افق طلوع آفتاب کی وجہ سے سرخ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود/ 81] کیا صبح کچھ دور ہے ۔ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] تو جن کو ڈرسنا یا گیا ہے ۔ ان کے لئے برادن ہوگا ۔ التصبح صبح کے وقت سونا ۔ الصبوح صبح کی شراب کو کہتے ہیں اور صبحتہ کے معنی صبح کی شراب پلانے کے ہیں ۔ الصبحان صبح کے وقت شراب پینے والا ( مونث صبحیٰ ) المصباح (1) پیالہ جس میں صبوحی پی جائے (2) وہ اونٹ جو صبح تک بیٹھا رہے (3) قندیل جس میں چراغ رکھا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور/ 35] اس کے نور کی مثال ایسی ہے گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ اور چراغ ایک قندیل میں ہے ۔ اور چراغ کو بھی مصباح کہاجاتا ہے اور صباح کے معنی بتی کی لو کے ہیں ۔ المصا بیح چمکدار ستارے جیسے فرمایا : وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک/ 5] اور ہم نے قریب کے آسمان کو تاروں کے چراغوں سے زینت دی ۔ صبحتم ماء کذا میں صبح کے وقت انکے پاس فلاں پانی پر جاپہنچا اور کبھی صبیح یا صباح کی مناسبت سے بالوں کی سخت سرخی کو بھی صبح کہا جاتا ہے ۔ صبح فلان خوبصورت اور حسین ہونا ۔ سرر (كتم) وسَارَّهُ : إذا أوصاه بأن يسرّه، وتَسَارَّ القومُ ، وقوله : وَأَسَرُّوا النَّدامَةَ [يونس/ 54] ، أي : کتموها ( س ر ر ) الاسرار اور تسارالقوم کے معنی لوگوں کا باہم ایک دوسرے کو بات چھپانے کی وصیت کرنے یا باہم سر گوشی کرنے کے ہیں اور آیت ۔ وَأَسَرُّوا النَّدامَةَ [يونس/ 54] ( پچھتائیں گے ) اور ندامت کو چھپائیں گے ۔ تو یہاں اسروا کے معنی چھپانے کے ہیں ۔ ندم النَّدْمُ والنَّدَامَةُ : التَّحَسُّر من تغيُّر رأي في أمر فَائِتٍ. قال تعالی: فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ [ المائدة/ 31] وقال : عَمَّا قَلِيلٍ لَيُصْبِحُنَّ نادِمِينَ [ المؤمنون/ 40] وأصله من مُنَادَمَةِ الحزن له . والنَّدِيمُ والنَّدْمَانُ والْمُنَادِمُ يَتَقَارَبُ. قال بعضهم : المُنْدَامَةُ والمُدَاوَمَةُ يتقاربان . وقال بعضهم : الشَّرِيبَانِ سُمِّيَا نَدِيمَيْنِ لما يتعقّبُ أحوالَهما من النَّدَامَةِ علی فعليهما . ( ن د م ) الندم واندامۃ کے معنی فوت شدہ امر پر حسرت کھانیکے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ [ المائدة/ 31] پھر وہ پشیمان ہوا ۔ عَمَّا قَلِيلٍ لَيُصْبِحُنَّ نادِمِينَ [ المؤمنون/ 40] تھوڑے ہی عرصے میں پشیمان ہو کر رہ جائنیگے ۔ اس کے اصل معنی حزن کا ندیم جا نیکے ہیں اور ندیم ندمان اور منادم تینوں قریب المعنی ہیں بعض نے کہا ہے کہ مند نۃ اور مداومۃ دونوں قریب المعنی میں ۔ اور بقول بعض اہم پیالہ ( شراب نوش ) کو ندیمان اسلئے کہا جاتا ہے ۔ کہ انجام کا ر وہ اپنے فعل پر پشیمان ہوتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے یایھا الذین امنوا من یرتد منکم عن دینہ فسوف یاتی اللہ بقوم یحبھم ویحبونہ اے ایمان لانے والو ! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے تو پھر جائے اللہ اور بہت سے لوگ پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا ۔ حسن، قتاد ہ، ضحاک اور ابن جریج کا قول ہے آیت کا نزول حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور آپ کے مرتدین کی سرکوبی کرنے والوں کے بارے میں ہوا ۔ سدی کا قول ہے کہ آیت حضرات انصار رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں ہے ۔ مجاہد کا قول ہے کہ یہ اہل یمن کے متعلق ہے۔ شعبہ نے سماک بن حرب سے اور انہوں نے عیاض الاشعری سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو موسیٰ کی طرف کسی چیز کے ساتھ اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ھم قوم ھذا وہ لوگ اس شخص کی قوم ہیں۔ اس آیت میں خلفائے راشدین کی دلالت موجود ہے آیت میں حضرات خلفائے راشدین ، حضرت عمر (رض) ، حضرت عثمان (رض) اور حضرت علی (رض) کی خلافت و امامت کی صحت پر دلالت موجود ہے وہ اس طرح کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد عرب کے جو لوگ مرتد ہوگئے تھے ان کے خلاف حضرت ابوبکر (رض) اور مذکورہ بالا حضرات نبرد آزما ہوئے تھے ان کے متعلق اللہ نے خبر دی کہ اللہ کو محبوب ہے اور یہ اللہ کو محبوب ہیں نیز یہ لوگ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوف نہیں کھاتے اور نہ ہی اس کی پروا کرتے ہیں ۔ یہ بات تو واضح ہے کہ جس شخص کی یہ صفات ہوں وہ اللہ کا دوست ہوگا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد مرتدین کے خلاف صف آراء ہونے والوں میں یہ حضرات اور ان کے رفقاء تھے۔ کسی کے لیے یہ گنجائش نہیں ہے آیت کو ان عربوں پر محمول کرے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد مرتد نہیں ہوئے تھے، نہ ہی یہ گنجائش ہے کہ ان ائمہ کے سوا کسی اور کو آیت کا مصداق ٹھہرایا جائے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت میں مذکور مرتدین سے نبردآزما ہونے کے لیے ان لوگوں کے سوا اور کوئی قوم پیدا نہیں کی جنہوں نے حضرت ابوبکر (رض) کے ساتھ مل کر ان کا مقابلہ کیا تھا۔ حضرت ابوبکر (رض) کی امامت کی صحت کی دلالت کرنے میں زیر بحث قول باری کی نظر یہ قول باری ہے قل للمخلفین من الاعذاب ستدعون الی قوم اولی باس شدید تقاتلونھم او یسلمون فان تطیعوا یوتکم اللہ اجراً حسنا ً آپ ان پیچھے رہ جانے والے دیہاتیوں سے کہہ دیجئے کہ عنقریب تم ایسے لوگوں کی طرف بلائے جائو گے جو سخت لڑنے والے ہوں گے یا تو ان سے لڑتے رہو یا وہ مطیع اسلام ہوجائیں ۔ سو اگر تم اس وقت اطاعت کرو گے تو اللہ تمہیں نیک عوض دے گا اس لیے کہ حضرت ابوبکر (رض) مرتدین سے قتال کی دعوت دینے والے تھے اور اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر آپ کی اطاعت کے وجوب کی خبر دی ۔ چناچہ ارشاد ہوا فان تطیعوا یوتکم اللہ اجرا ً حسنا ً نیز فرمایا وان تتولوا کما تولیتم من قبل یعذ بکم عذابا ً الیما ً اور اگر روگردانی کرو گے جیسا کہ اس سے قبل روگردانی کرچکے ہو تو وہ تمہیں درد ناک عذب کی سزا دے گا ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ عین ممکن ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اس کی دعوت دی ہو تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ارشاد باری ہے قل لن تخرجوا معی ابدا ً ولن تقاتلوا معی عدوا ۔ آپ کہہ دیجئے کہ تم ہرگز میرے ساتھ نہیں نکلو گے اور کبھی بھی میرے ساتھ مل کر کسی دشمن کا مقابلہ نہیں کرو گے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ یہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کبھی نہیں نکلیں گے اور نہ ہی کسی دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ ہوسکتا ہے کہ حضرت عمر (رض) نے لوگوں کو مرتدین کیخلاف قتال کی دعوت دی ہو تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر یہ بات ہے تو پھر آیت کی دلیل کی بنا پر حضرت عمر (رض) کی امامت درست ہوگئی اور جب حضرت عمر (رض) کی امامت درست ہوگئی تو حضرت ابوبکر (رض) کی امامت بھی درست ہوگی اس لیے کہ حضرت عمر (رض) کو خلیفہ مقرر کرنے والے حضرت ابوبکر (رض) ہی تھے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ ہوسکتا ہے کہ حضرت علی (رض) نے لوگوں کو مرتدین کے خلاف صف آراء ہونے کی دعوت دی ہو تو اس کے جواب میں کہا جائے گا ارشاد باری ہے تقاتلوا نھم او یسلمون حضرت علی (رض) نے باغیوں سے جنگ کی تھی اور اہل کتاب سے اس بنیاد پر قتال کیا تھا کہ وہ یا تو مسلمان ہوجائیں یا پھر جزیہ دینے پر رضا مند ہوجائیں ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر (رض) کے سوا کسی نے اس بنیاد پر جنگ نہیں کی تھی کہ یہ لوگ مسلمان ہوجائیں اس لیے آیت آپ کی امامت کی صحت پر دلالت کر رہی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٢) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ایسے لوگوں کو، جن کے دل میں مرض اور شک ہے جیسا کہ عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی، دیکھیں گے کہ وہ ان ہی لوگوں کی دوستی کی طرف بڑھے چلے جاتے ہیں اور ایک دوسرے سے یہ باتیں ملاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں حالات کی سختی کا ڈر ہے، اسی لیے ہم انھیں دوست بناتے ہیں۔ تو یہ چیز بہت ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ مکہ مکرمہ فتح فرمادے اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کی مدد فرمائے یا بنی قریضہ اور بنی نضیر پر قتل اور جلاوطنی کا عذاب نازل فرمادے تو یہ منافقین یہودیوں کی دوستی کی بنا پر ذلیل ورسوا ہوجائیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٢ (فَتَرَی الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ) (یُسَارِعُوْنَ فِیْہِمْ ) فلاں ملک سے دوستی کا معاہدہ ‘ فلاں سے مدد کی درخواست ‘ فلاں سے حمایت کی توقع ‘ ان کی ساری بھاگ دوڑ ‘ تگ و دو ‘ خارجہ پالیسی یُسَارِعُوْنَ فِیْہِمْ کی عملی تصویر ہے۔ اس لیے کہ ان کے دلوں میں روگ یعنی نفاق ہے۔ اگر اللہ پر ایمان ہو ‘ اعتماد اور یقین ہو ‘ اس سے خلوص اور اخلاص کا رشتہ ہو تو پھر اسی سے نصرت و حمایت کی امید ہو اور (اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ ) (محمد : ٧) کے وعدے پر یقین ہو ! (یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓی اَنْ تُصِیْبَنَا دَآءِرَۃٌ ط) ۔ یعنی ہم یہود و نصاریٰ سے اس لیے تعلقات استوار کر رہے ہیں کہ کل کلاں کسی نا گہانی آفت سے بچ سکیں۔ (فَعَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّاْتِیَ بالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِہِ ) (فَیُصْبِحُوْا عَلٰی مَآ اَسَرُّوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ نٰدِمِیْنَ ) انہیں معلوم ہوجائے گا کہ جن کی دوستی کا سہارا انہوں نے اپنے زعم میں لے رکھا تھا وہی انہیں دھوکا دے رہے ہیں ‘ ع جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

84. The outcome of the conflict in Arabia between Islam and unbelief (kufr) had not crystallized. Although Islam had become a formidable force owing to the daring, courage and sacrifices of its followers, the forces opposed to it were also tremendously powerful. To an objective observer it must have seemed that either party had an equal chance of success, and so the hypocrites, apparently an integral part of the Muslim body politic, sought to maintain good relations with the Jews and the. Christians as well. They expected refuge and protection from the Jews in case Islam was defeated. Moreover, the Jews and Christians held the greatest economic power in Arabia insofar as the banking system and the greenest and most fertile regions of Arabia were in their possession. For these reasons the hypocrites were keen to maintain good relations with them: they thought that to regard the conflict between Islam and unbelief as crucially important, and to sever their relations with all those currently in conflict with Islam, would be too great a risk both politically and economically. 85. They were looking for a conclusive victory, or at least something not far short of it, to inspire confidence that the conflict would end in favour of Islam.

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :84 اس وقت تک عرب میں کفر اور اسلام کی کشمکش کا فیصلہ نہیں ہوا تھا ۔ اگرچہ اسلام اپنے پیرووں کی سرفروشیوں کے سبب سے ایک طاقت بن چکا تھا لیکن مقابل کی طاقتیں بھی زبردست تھیں ۔ اسلام کی فتح کا جیسا امکان تھا ویسا ہی کفر کی فتح کا بھی تھا ۔ اس لیے مسلمانوں میں جو لوگ منافق تھے وہ اسلامی جماعت میں رہتے ہوئے یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ بھی ربط و ضبط رکھنا چاہتے تھے تاکہ یہ کشمکش اگر اسلام کی شکست پر ختم ہو تو ان کے لیے کوئی نہ کوئی جائے پناہ محفوظ رہے ۔ علاوہ بریں اس وقت عرب میں عیسائیوں اور یہودیوں کی معاشی قوت سب سے زیادہ تھی ۔ ساہوکارہ بیشتر انہی کے ہاتھ میں تھا ۔ عرب کے بہترین سرسبز و شاداب خطے ان کے قبضہ میں تھے ۔ ان کی سود خواری کا جال ہر طرف پھیلا ہوا تھا ۔ لہٰذا معاشی اسباب کی بنا پر بھی یہ منافق لوگ ان کے ساتھ اپنے سابق تعلقات برقرار رکھنے کے خواہش مند تھے ۔ ان کا گمان تھا کہ اگر اسلام و کفر کی اس کشمکش میں ہمہ تن منہمک ہو کر ہم نے ان سب قوموں سے اپنے تعلقات منقطع کر لیے جن کے ساتھ اسلام اس وقت بر سرپیکار ہے تو یہ فعل سیاسی اور معاشی دونوں حیثیتوں سے ہمارے لیے خطر ناک ہو گا ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :85 یعنی فیصلہ کن فتح سے کم درجہ کی کوئی ایسی چیز جس سے عموما لوگوں کو یہ یقین ہو جائے کہ ہار جیت کا آخری فیصلہ اسلام ہی کے حق میں ہو گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

44: یہ منافقین کا ذکرہے جو یہود و نصاری سے ہر وقت گھلے ملے رہتے اور ان کی سازشوں میں شریک رہتے تھے، اور جب ان پر اعتراض ہوتا تو وہ جواب دیتے کہ اگر ہم ان سے تعلقات نہ رکھیں گے تو ان کی طرف سے ہمیں تنگ کیا جائے گا اور ہم کسی مصیبت میں گرفتار ہو سکتے ہیں۔ اور ان کے دل میں یہ نیت ہوتی تھی کہ کسی وقت مسلمان ان کے ہاتھوں مغلوب ہوجائیں گے تو ہمیں بالآخر انہی سے واسطہ پڑے گا۔ 45: کوئی اور بات ظاہر کرنے سے مراد غالبا یہ ہے کہ ان کے پول وحی کے ذریعے کھول دئیے جائیں اور ان کی رسوائی ہو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:52) یسارعون فیہم۔ ای یسارعون فی مودۃ الیہود والنصاری وموالاتہم لانہم کانوا اہل ثروۃ ویسار۔ یعنی یہود کی محبت اور دوستی کی طرف دوڑ دوڑ کر جاتے تھے کیونکہ وہ اہل شروت اور اہل دولت تھے۔ دائرۃ۔ گردش۔ مصیبت۔ دور سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مؤنث ۔ جس کے معنی چکر لگانا ہیں پھر مصیبت ۔ گردش زمانہ کو بھی دائرہ یا دارہ کہہ دیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے ویتربص بکم الدوائر علیہم دائرۃ السوء (9:98) وہ تمہارے حق میں مصیبتوں کے منتظر ہیں ان ہی پر بری مصیبت واقع ہو۔ اسروا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ انہوں نے چھپایا۔ اسرار سے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی منافقین جو یہود و نصاریٰ کے ساتھ دوستی کئے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کہیں مسلمان ان سے مغلوب ہوگئے تو ان کی دوستی ہمارے کام آئے گی سو اللہ تعالیٰ نے فرمایا یا تو عنقریب کافر ہلاک ہوں گے اور مسلمانوں کو ان پر فتح ہوگی یا یہ ملک سے چلاوطن ہو نگے چناچہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوا۔ مسلمان کو فتح نصیب ہوئی بنو قریضہ کے یہود قتل ہوئے اور بنو نظیر کو سرزمین مدینہ سے باہر نکال دیا گیا اور یہ لوگ اپنے نفاق پر کف افسوس ملنے لگے (قرطبی، کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 52 لغات القرآن : نخشی (ہم ڈرتے ہیں۔ خوف رکھتے ہیں) ۔ ان تصیبنا (یہ کہ ہمیں پہنچے) ۔ دآئرۃ (دور) ۔ مصیبت۔ گھومنا۔ چکر لگانا۔ عسی اللہ (قریب ہے اللہ) ۔ یصبحوا (وہ ہوجائیں) ۔ اسروا (انہوں نے چھپایا) ۔ ندمین (پچھتانے والے۔ شرمندہ) تشریح : جس وقت وہ آیت اتری جس میں مسلمانوں کو کفار سے حقیقی دوستی کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے، اس وقت مخلص مومنین مثلاً حضرت عبادہ (رض) بن ثابت نے اپنے کافر دوستوں کو نوٹس دے دیا اور قلبی تعلقات توڑ لئے۔ اس کے برخلاف منافق اعظم عبد اللہ بن ابی بن سلول نے علی الاعلان کہا کہ قطع تعلق میں مجھے خطرہ ہے۔ میں کفار سے اپنے تعلقات خراب نہیں کرسکتا۔ اسی پر یہ آیت نمبر 52 نازل ہوئی۔ پچھلی آیت سے مخلصین اور منافقین کھل کر سامنے آگئے۔ منافقین نے تو صاف صاف کہا تھا کہ مخالف کیمپ سے قلبی دوستی لگائے رکھو۔ شاید وہی کامیاب ہوجائیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ کامیابی مسلمانوں ہی کے حصہ میں آئے گی۔ اور جب دشمن مغلوب ہوجائیں گے اس وقت ان منافقوں کی امیدوں پر پانی پھرجائے گا۔ دو دانتوں میں انگلی کاٹ کاٹ کر کہیں گے افسوس کیا سوچا تھا اور کیا ہوگیا۔ ان کے چہرے ذلیل و خوار ہوں گے۔ اور ان کا سارا بنا بنایا کھیل بگڑ جائے گا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی فتح اور منافقوں کی پر وہدری دونوں امر عنقریب ہونے والے ہیں۔ 1۔ ایک ندامت تو اپنے خیال کی غلطی پر کہ امر طبعی ہے دوسری ندامت اپنے نفاق پر جس کی بدولت آج رسوا ہوئے۔ ما اسروا میں یہ دونوں داخل ہیں اور تیسری ندامت کفار کے ساتھ دوستی کرنے پر رائیگاں ہی گئی۔ اور مسلمانوں سے بھی بڑے تھے چونکہ یہ دوستی ما اسروا پر مبنی تھی لہذا ان دونوں ندامتوں کے ذکر سے یہ تیسری بلا ذکر صریح خود مفہوم ہوگئی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : منافقین کی دلی کیفیت اور ان کے قلبی خوف کو طشت ازبام کیا گیا ہے۔ منافقانہ عقیدہ اور کردار کو قرآن مجید ایک مرض قرار دیتا ہے جس میں آدمی کفر و اسلام کے درمیان تذبذب کا شکار رہتے ہوئے ہمیشہ دنیاوی مفاد کو پیش نظر رکھتا ہے۔ یہی حالت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں منافقین کی تھی۔ جب انھیں اس روش سے باز رہنے کی تلقین کی جاتی تو وہ اپنے جذبات کو ان الفاظ میں بیان کرتے کہ ہم فریقین کے ساتھ اس لیے تعلقات رکھے ہوئے ہیں کہ کسی ایک فریق کو شکست ہونے کی صورت میں ہمیں نقصان نہ اٹھانا پڑے۔ اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تسلی دینے کے ساتھ منافقین کو انتباہ کر رہا ہے کہ جس بات سے تم ڈرتے ہو۔ وہ عنقریب ہو کر رہے گی۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو فتح سے نوازے گا یا اپنی طرف سے کامیابی کا دوسرا راستہ کھول دے گا۔ جس میں منافقین کے لیے ندامت کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ چناچہ غزوۂ بدر سے لے کر غزوۂ تبوک تک منافقوں کو معمولی فائدہ پہنچنے کے سوا ہر قدم پر ندامت اور خفت اٹھانا پڑی آخرت میں ان کے لیے ذلت اور نقصان کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ سورۃ البقر ۃ کے دوسرے رکوع میں منافقین کی عادات کا ذکر ہوا۔ جس میں ہم نے لکھا ہے کہ منافق کا لفظ نفق سے نکلا ہے جس کا معنی ہے کہ چوہے کی ایسی بل جسکے دو منہ ہوں، اگر ایک منہ بند کیا جائے تو چوہا دوسری طرف سے نکل جاتا ہے جب تک دونوں بل کے منہ بند نہ کیے جائیں چوہا قابو میں نہیں آسکتا۔ منافق کی یہی حالت ہوتی ہے۔ کہ جب تک بیک وقت کفار اور مسلمانوں کی طرف سے دھتکارا نہ جائے اسے نقصان نہیں ہوتا۔ منافق اس نقصان سے بچنے کے لیے ددنوں فریقوں سے رابطہ رکھتا ہے۔ اس آیت میں ان کی اسی کمزوری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ لیکن دنیا کا یہ مفاد منافقین کو آخرت کے نقصان سے نہیں بچا سکتا اگر مسلمان منافقین کو سمجھ جائیں اور ان کے ساتھ وہ سلوک کریں جس کے کرنے کا حکم قرآن دیتا ہے تو منافق دنیا میں بھی ذلیل ہوجائیں گے جس طرح نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے منافق بالآخر رسوا ہوئے تھے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٰےَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلٰثٌ زَادَ مُسْلِمٌ وَاِنْ صَامَ وَصَلّٰی وَزَعَمَ اَنَّہُ مُسْلِمٌ ثُمَّ اتَّفَقَا اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَاِذَا اءْتُمَنَّ خَانَ ) (رواہ مسلم : باب خصائل المنافق) ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ذکر کرتے ہیں منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ 1 جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے 2 جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے 3 جب اسے امانت دی جائے تو خیانت کرے۔ (متفق علیہ) مسلم شریف میں ان الفاظ کا اضافہ ہے ” چاہے روزے رکھتا اور نماز پڑھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو۔ “ مسائل ١۔ منافق یہود و نصاریٰ سے دوستی کرتے ہیں۔ ٢۔ مومنوں کی کامیابی کو منافق برامحسوس کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن نادم ہونے والے لوگ : ١۔ آدم کا بیٹا کہنے لگا کاش میں اس کوے کی طرح ہوتا کہ اپنے بھائی کی لاش کو چھپا دیتا تو وہ نادم ہونے والوں میں سے ہو گیا۔ (المائدۃ : ٣١) ٢۔ قریب ہے اللہ فتح عطا کر دے یا اپنی طرف سے کوئی حکم نازل فرما دے پس یہ اپنے آپ پر نادم ہوں۔ (المائدۃ : ٥٢ ) ٣۔ اپنی غلطیوں پر نادم ہونے والے بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ (المومنون : ٤٠) ٤۔ انھوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور وہ نادم ہونے والوں میں سے ہوگئے۔ (الشعراء : ١٥٧) ٥۔ اے ایمان والو ! فاسق کی خبر کی تحقیق کرلیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے۔ (الحجرات : ٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

فَعَسَی اللّٰہُ یَّأْتِیَ بالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عندِْہٖ منافقوں نے عہد نبوت میں یوں کہا تھا کہ اگر ہم یہودیوں سے تعلق نہ رکھیں اور ان سے دوستی ختم کردیں تو ہمیں ڈر ہے کہ آڑے وقت پر کوئی کام آنے ولا نہ ملے گا، اگر اسلام کا غلبہ نہ ہوا اور یہودیوں سے بگاڑ کر بیٹھیں تو ہم کہیں کے نہ رہیں گے یا اگر کسی قسم کی کوئی گردش آگئی قحط پڑگیا مہنگائی ہوگئی تو ساہوکار یہودیوں سے جو امداد مل سکتی ہے اس سے محروم ہوجائیں گے، یہ خالص دنیا داری کا جذبہ ہے ایمانی تقاضوں کو پس پشت ڈال کر دنیاوی منافع حاصل ہونے کے احتمال پر ایسی بات کہہ گئے۔ اللہ جل شانہ نے اہل ایمان کو تسلی دی اور فرمایا (فَعَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّاْتِیَ بالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عَنْدِہٖ ) (سو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ فتح کی صورت پیدا فرما دے یا اور کوئی صورتحال اپنے پاس سے ظاہر فرما دے) بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ فتح سے مراد فتح مکہ ہے اور بعض حضرات نے اس سے یہودیوں کی بستیاں خیبر اور فدک کا فتح ہونا مراد لیا ہے اور اَمْرِ مِّنْ عِنْدِہٖ کے بارے میں بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے اسلام کا غلبہ مراد ہے، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ یہودیوں کے قبیلے بنی نضیر کی جلا وطنی مراد ہے جنہیں ٤ ھ میں جلا وطن کردیا گیا تھا چناچہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوا مکہ معظمہ بھی فتح ہوا خیبر اور فدک کی بستیاں بھی مسلمانوں کے قبضے میں آئیں بنی نضیر کی جلاوطنی بھی ہوئی جن سے منافقوں کو آڑے وقت میں امداد کی امید تھی (فَیُصْبِحُوْا عَلٰی مَآ اَسَرُّوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ نٰدِمِیْنَ ) یعنی جب اسلام کا غلبہ ہوگا اور مسلمانوں کو فتحیابی حاصل ہوگی تو یہ منافقین اپنے نفسوں میں چھپائی ہوئی بات پر نادم ہوں گے کہ ہم نے کیا سوچا تھا اور کیا ہوگیا ؟ ہم سمجھتے تھے کہ کافروں کی دوستی کچھ کام دیگی لیکن وہ تو کچھ بھی کام نہ آئی، نیز بعد میں انکا نفاق بھی کھل کر سامنے آگیا، کافر تو مغلوب ہوئے اور یہ لوگ مسلمانوں کے بھی معتمد نہ رہے یہ بھی ندامت کا سبب ہوا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

95: مَرَضٌی یعنی نفاق کی بیماری۔ اس سے مراد منافقین ہیں اور یہ منافقین پر شکویٰ ہے۔ دَائِرَۃٌ یعنی کوئی حادثہ اور مصیبت منافقین دوڑ دوڑ کر یہود و نصاریٰ کی طرف جاتے ہیں اور انہوں نے در پردہ ان سے دوستی گانٹھ رکھی ہے اور عذر یہ پیش کرتے ہیں کہ اگر وہ ان سے موالات نہ کریں تو وہ ان کو مالی مشکلات اور دیگر دنیوی مصائب سے دوچار ہونے کا خطرہ ہے کیونکہ یہود و نصاریٰ کی طرف سے ان کو مالی امداد ملتی تھی۔ لِاَنَّھُمْ کانوا اھل ثروۃ وکانوا یعینونھم علی مہماتھم ویقرضونہم (کبیر ج 3 ص 611) ۔ 96: عَسیٰ کی نسبت جب اللہ کی طرف ہو تو وہ حتمی وعدے کے لیے ہوتا ہے یعنی ایسا ضرور ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو اس کے دشمنوں (یہود و نصاریٰ ) پر فتح دے گا یا اپنے رسول کو منافقین کے نفاق اور ان کے پوشیدہ اسرار ظاہر کرنے کا حکم دیدے گا تو منافقین کافروں سے اپنی پوشیدہ دوستی پر سخت نادم اور پشیمان ہوں گے کیونکہ ایک تو کافروں کے مغلوب و مفتوح ہونے کی وجہ سے وہ ان کی امداد اور پشت پناہی سے محروم ہوجائیں گے دوم ظہور نفاق کی وجہ سے شرمسار ہوں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi