Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 53

سورة المائدة

وَ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَہٰۤؤُلَآءِ الَّذِیۡنَ اَقۡسَمُوۡا بِاللّٰہِ جَہۡدَ اَیۡمَانِہِمۡ ۙ اِنَّہُمۡ لَمَعَکُمۡ ؕ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ فَاَصۡبَحُوۡا خٰسِرِیۡنَ ﴿۵۳﴾ الثلٰثۃ

And those who believe will say, "Are these the ones who swore by Allah their strongest oaths that indeed they were with you?" Their deeds have become worthless, and they have become losers.

اور ایمان والے کہیں گے ، کیا یہی وہ لوگ ہیں جو بڑے مبالغہ سے اللہ کی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔ ان کے اعمال غارت ہوئے اور یہ ناکام ہوگئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And those who believe will say, "Are these the men who swore their strongest oaths by Allah that they were with you!" All that they did has been in vain, and they have become the losers.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٥] اسلام کے غلبہ کا منافقوں پر اثر :۔ ان کی اسلام دشمن خفیہ حرکات سے جب مسلمانوں کو ان کے منافق ہونے کا شک ہونے لگتا ہے تو اللہ کی قسمیں کھا کھا کر مسلمانوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم تمہارے ہی ساتھ ہیں اور ان یہود سے جو ہماری بات چیت ہوتی ہے وہ محض رسمی اور مروت کے طور پر ہوتی ہے اور منافقوں کا دستور یہ تھا کہ ہر آڑے وقت میں مسلمانوں کو دغا دیا کرتے بلکہ بعد میں قسمیں کھانے لگتے اور اگر مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شامل نہ ہوتے تو بہانے تراشنے لگتے اور اپنے آپ کو سچا ظاہر کرنے کے لیے قسمیں کھانے لگتے۔ ان لوگوں کا دنیا میں تو یہ حشر ہوا کہ مسلمانوں کو بالآخر فتح نصیب ہوئی۔ مکہ فتح ہوا تو تمام قبائل عرب کو معلوم ہوگیا کہ اب اسلام ہی غالب قوت بن کر ابھر چکا ہے اور اب کفر اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس طرح منافقوں کی تمام امیدوں اور آرزوؤں پر اوس پڑگئی۔ مسلمانوں کے سامنے پہلے ہی ناقابل اعتماد ٹھہر چکے تھے لہذا حسرت و یاس کے سوا انہیں کچھ ہاتھ نہ آیا اور آخرت میں اس لحاظ سے خسارہ میں رہے کہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جو ارکان اسلام بجا لاتے رہے وہ سب ان کی منافقت کی وجہ سے ضائع ہوجائیں گے۔ کیونکہ انہوں نے یہ کام اللہ کی رضا کے لیے تو کیے ہی نہ تھے وہ تو مسلمانوں سے مفادات حاصل کرنے کے لیے کیے تھے اور وہ مفادات حاصل کرچکے۔ باقی جو مسلمانوں سے غداری کرتے رہے اس کے عوض انہیں دوزخ کے سب سے نچلے درجہ میں عذاب دیا جائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا ۔۔ : یعنی مسلمان جب جنگ کے وقت منافقین کو یہود و کفار کا ساتھ دیتے ہوئے دیکھتے ہیں تو تعجب سے کہتے ہیں کہ کیا یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے ہم سے پکی قسمیں کھا کر کہا تھا کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور کفار کے دشمن ہیں ! ! اب ان کی حقیقت کھل گئی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

This has been clarified further in the third verse (53) where it was said that once the hypocricy of the hypocrites has been exposed and the reality behind their claims and oaths of friendship comes out in the open, Muslims would wonder if those were the people who used to assure them with sworn claims of their friendship and there they were all ruined as everything they did just to pretend had gone to waste. That Allah Jalla Sha&nuhu has mentioned the conquest of Makkah and the disgrace of the hypocrites in these verses was something which everyone saw only after a few days with their own eyes.

تیسری آیت میں اس کی مزید تشریح اس طرح بیان فرمائی کہ جب منافقین کے نفاق کا پردہ چاک ہوگا اور ان کی دوستی کے دعو وں اور قسموں کی حقیقت کھلے گی تو مسلمان حیرت میں رہ جائیں گے اور کہیں گے کہ کیا یہ وہی ہیں جو ہم سے اللہ تعالیٰ کی مغلظ قسمیں کھا کر دوستی کا دعویٰ کرتے تھے اور آج ان کا یہ حشر ہوا کہ ان کے سب اسلامی اعمال جو محض دکھلاوے کے لئے کیا کرتے تھے ضائع ہوگئے۔ اور اللہ جل شانہ نے ان آیات میں جو فتح مکہ اور منافقین کی رسوائی کا ذکر فرمایا ہے وہ چند روز کے بعد سب نے آنکھوں سے دیکھ لیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَہٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِيْنَ اَقْسَمُوْا بِاللہِ جَہْدَ اَيْمَانِہِمْ۝ ٠ۙ اِنَّہُمْ لَمَعَكُمْ۝ ٠ۭ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِيْنَ۝ ٥٣ ها هَا للتنبيه في قولهم : هذا وهذه، وقد ركّب مع ذا وذه وأولاء حتی صار معها بمنزلة حرف منها، و (ها) في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ [ آل عمران/ 66] استفهام، قال تعالی: ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ [ آل عمران/ 66] ، ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران/ 119] ، هؤُلاءِ جادَلْتُمْ [ النساء/ 109] ، ثُمَّ أَنْتُمْ هؤُلاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ [ البقرة/ 85] ، لا إِلى هؤُلاءِ وَلا إِلى هؤُلاءِ [ النساء/ 143] . و «هَا» كلمة في معنی الأخذ، وهو نقیض : هات . أي : أعط، يقال : هَاؤُمُ ، وهَاؤُمَا، وهَاؤُمُوا، وفيه لغة أخری: هَاءِ ، وهَاءَا، وهَاءُوا، وهَائِي، وهَأْنَ ، نحو : خَفْنَ وقیل : هَاكَ ، ثمّ يثنّى الکاف ويجمع ويؤنّث قال تعالی: هاؤُمُ اقْرَؤُا كِتابِيَهْ [ الحاقة/ 19] وقیل : هذه أسماء الأفعال، يقال : هَاءَ يَهَاءُ نحو : خاف يخاف، وقیل : هَاءَى يُهَائِي، مثل : نادی ينادي، وقیل : إِهَاءُ نحو : إخالُ. هُوَ : كناية عن اسم مذكّر، والأصل : الهاء، والواو زائدة صلة للضمیر، وتقوية له، لأنها الهاء التي في : ضربته، ومنهم من يقول : هُوَّ مثقّل، ومن العرب من يخفّف ويسكّن، فيقال : هُو . ( ھا ) ھا ۔ یہ حرف تنبیہ ہے اور ذا ذہ اولاٰ اسم اشارہ کے شروع میں آتا ہے اور اس کے لئے بمنزلہ جز سمجھنا جاتا ہے مگر ھا انتم میں حرف ھا استہفام کے لئے ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ [ آل عمران/ 66] دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا ۔ ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران/ 119] دیکھو تم ایسے صاف دل لوگ ہو کہ ان لوگوں سے ودستی رکھتے ہو ۔ هؤُلاءِ جادَلْتُمْ [ النساء/ 109] بھلا تم لوگ ان کی طرف سے بحث کرلیتے ہو ۔ ثُمَّ أَنْتُمْ هؤُلاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ [ البقرة/ 85] پھر تم وہی ہو کہ اپنوں کو قتل بھی کردیتے ہو ۔ لا إِلى هؤُلاءِ وَلا إِلى هؤُلاءِ [ النساء/ 143] نہ ان کی طرف ( ہوتے ہو ) نہ ان کی طرف ۔ ھاءم ـ اسم فعل بمعنی خذ بھی آتا ہے اور ھات ( لام ) کی ضد ہے اور اس کی گردان یون ہے ۔ ھاؤم ھاؤم ۔ ھاؤموا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ هاؤُمُ اقْرَؤُا كِتابِيَهْ [ الحاقة/ 19] لیجئے اعمالنامہ پڑھئے اور اس میں ایک لغت بغیر میم کے بھی ہے ۔ جیسے : ۔ ھا ، ھا ، ھاؤا ھائی ھان کے بروزن خفن اور بعض اس کے آخر میں ک ضمیر کا اضافہ کر کے تنبیہ جمع اور تذکرو تانیث کے لئے ضمیر میں تبدیل کرتے ہیں جیسے ھاک ھاکما الخ اور بعض اسم فعل بنا کر اسے کھاؤ یھاء بروزن خاف یخاف کہتے ہیں اور بعض کے نزدیک ھائی یھائی مثل نادٰی ینادی ہے اور بقول بعض متکلم مضارع کا صیغہ اھاء بروزن اخال آتا ہے ۔ قْسَمَ ( حلف) حلف، وأصله من الْقَسَامَةُ ، وهي أيمان تُقْسَمُ علی أولیاء المقتول، ثم صار اسما لكلّ حلف . قال : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام/ 109] ، أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف/ 49] ، وقال : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة/ 1- 2] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ، إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم/ 17] ، فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة/ 106] اقسم ( افعال کے معنی حلف اٹھانے کے ہیں یہ دروصل قسامۃ سے مشتق ہے اور قسیا مۃ ان قسموں کو کہا جاتا ہے جو او لیائے مقتول پر تقسیم کی جاتی ہیں پھر مطلق کے معنی استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام/ 109] اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف/ 49] کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے مارے میں تم قسمیں کھایا کرتی تھے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة/ 1- 2] ہم کو روز قیامت کی قسم اور نفس لوامہ کی ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم/ 17] جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم صبح ہوتے اس کا میوہ توڑلیں گے ۔ فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة/ 106] اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں ۔ ماسمعتہ وتقاسما باہم قسمیں اٹھانا ۔ قرآن میں ہے : وَقاسَمَهُما إِنِّي لَكُما لَمِنَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف/ 21] اور ان کی قسم کھاکر کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ يَمِينُ ) قسم) في الحلف مستعار من الید اعتبارا بما يفعله المعاهد والمحالف وغیره . قال تعالی: أَمْ لَكُمْ أَيْمانٌ عَلَيْنا بالِغَةٌ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ [ القلم/ 39] ، وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] ، لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة/ 225] ، وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ [ التوبة/ 12] ، إِنَّهُمْ لا أَيْمانَ لَهُمْ [ التوبة/ 12] وقولهم : يَمِينُ اللهِ ، فإضافته إليه عزّ وجلّ هو إذا کان الحلف به . ومولی اليَمِينِ : هو من بينک وبینه معاهدة، وقولهم : ملك يَمِينِي أنفذ وأبلغ من قولهم : في يدي، ولهذا قال تعالی: مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 33] وقوله صلّى اللہ عليه وسلم آله : «الحجر الأسود يَمِينُ اللهِ» «1» أي : به يتوصّل إلى السّعادة المقرّبة إليه . ومن اليَمِينِ : تُنُووِلَ اليُمْنُ ، يقال : هو مَيْمُونُ النّقيبة . أي : مبارک، والمَيْمَنَةُ : ناحيةُ اليَمِينِ. الیمین بمعنی دایاں ہاتھ سے استعارہ کے طور پر لفظ یمین قسم کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اس لئے کہ عرب قسم کھاتے یا عہد کرتے وقت اپنا دایاں ہاتھ دوسرے کے دائیں ہاتھ پر مارتے تھے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَمْ لَكُمْ أَيْمانٌ عَلَيْنا بالِغَةٌ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ [ القلم/ 39] یا تم نے ہم سے قسمیں لے رکھی ہیں جو قیامت کے دن چلی جائیں گی ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] اور یہ لوگ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة/ 225] خدا تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا ۔ وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ [ التوبة/ 12] اگر عہد کرن کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں ۔ ان کی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں ۔ اور عربی محاورہ ویمین اللہ ( اللہ کی قسم ) میں) یمین کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف اس لئے کی جاتی ہے ۔ کہ قسم کھانے والا اللہ کے نام کی قسم کھاتا ہے ۔ اور جب ایک شخص دوسرے سے عہدو پیمان باندھتا ہے تو وہ اس کا موالی الیمین کہلاتا ہے اور کسی چیز پر ملک اور قبضہ ظاہر کرنے کے لئے فی یدی کی نسبت ملک یمینی کا محاورہ زیادہ بلیغ ہے ۔ اسی بنا پر غلام اور لونڈیوں کے بارے میں قرآن نے اس محاورہ کی اختیار کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 33] جو تمہارے قبضے میں آگئی ہوں ۔ اور حدیث میں حجر اسود کی یمین اللہ کہا گیا ہے (132) کیونکہ اس کے ذریعہ قرب الہی کی سعادت حاصل کی جاتی ہے ۔ یمین سے یمن کا لفظ ماخوذ ہے جو خیروبرکت کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ محاورہ ہے ۔ ھومیمون ۔ النقیبۃ وہ سعادت مند ہے اور میمنۃ کے معنی دائیں جانب بھی آتے ہیں ۔ حبط وحَبْط العمل علی أضرب : أحدها : أن تکون الأعمال دنیوية فلا تغني في القیامة غناء، كما أشار إليه بقوله : وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان/ 23] والثاني : أن تکون أعمالا أخروية، لکن لم يقصد بها صاحبها وجه اللہ تعالی، كما روي : «أنه يؤتی يوم القیامة برجل فيقال له : بم کان اشتغالک ؟ قال : بقراءة القرآن، فيقال له : قد کنت تقرأ ليقال : هو قارئ، وقد قيل ذلك، فيؤمر به إلى النار» «1» . والثالث : أن تکون أعمالا صالحة، ولکن بإزائها سيئات توفي عليها، وذلک هو المشار إليه بخفّة المیزان . وأصل الحبط من الحَبَطِ ، وهو أن تکثر الدابة أكلا حتی ينتفخ بطنها، وقال عليه السلام : «إنّ ممّا ينبت الربیع ما يقتل حبطا أو يلمّ» «2» . وسمّي الحارث الحَبَطَ «3» ، لأنه أصاب ذلك، ثم سمي أولاده حَبَطَات . ( ح ب ط ) الحبط حبط عمل کی تین صورتیں ہیں ۔ ( 1) اول یہ کہ وہ اعمال دینوی ہوں اس لئے قیامت کے دن کچھ کام نہین آئیں گے اسی کیطرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ۔ وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان/ 23] اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ ( 2 ) اعمال تو اخروی ہو لیکن انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے نہ کیا گیا ہو جیسا کہ مروی ہے کہ قیامت کے دن آدمی لایا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا کہ تو کس قسم کے عمل کرتا رہا وہ جواب دے گا کہ میں قرآن پاک پڑھتا رہا تو اس سے کہا جائے گا کہ تونے قرآن اس لئے پڑھا تھا کہ تجھے قاری کہا جائے سو لوگ تجھے قاری کہتے رہے حکم ہوگا کہ اس دوزخ میں لے جاؤ ۔ ( 3 ) تیسری صورت یہ ہے کہ اعمال صالحہ کئے ہوں گے لیکن ان کے بالمقابل گناہ کا بارا ستقدر ہوگا کہ اعمال صالحہ بےاثر ہوکر رہ جائیں گے اور گناہوں کا پلہ بھاری رہے گا اسی کی طرف خفۃ المیزان سے اشارہ فرمایا گیا ہے ۔ اصل میں حبط کا لفظ حبط سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کہ جانور اتنا زیادہ کھا جائے کہ اس کا پیٹ اپھر جائے ۔ حدیث میں ہے (70) ان مما ینبت الربیع مایقتل حبطا او یلم بعض اوقات موسم ربیع کی گھاس یا پیٹ میں ابھار کی وجہ سے قتل کردتی ہے اور یا بیمار کردیتی ہے ۔ ایک شخص حارث کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وہ نفخ بطن سے مرگیا تھا تو اس کا نام الحدث الحبط پڑگیا اور اس کی اولاد کو حبطات کہا جاتا ہے ۔ خسر ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، ( خ س ر) الخسروالخسران عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٣) اور مومن کہیں گے کہ یہ وہی منافقین عبداللہ بن ابی اور ان کے ساتھی ہیں جو بڑے زور لگا کر قسمیں کھایا کرتے تھے کہ ہم منافقین تم خالص ایمان والوں کے ساتھ ہیں، ان کی تو دنیاوی تمام نیکیاں ضائع ہوگئیں اور عذاب کی وجہ سے یہ تو بہت بڑے خسارے والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٣ (وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَہٰٓؤُلَآءِ الَّذِیْنَ اَقْسَمُوْا باللّٰہِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْلا اِنَّہُمْ لَمَعَکُمْ ط) (حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِیْنَ ) اب جو تین آیتیں آرہی ہیں ان میں ان اہل ایمان کا ذکر ہے جو پورے خلوص و اخلاص کے ساتھ اللہ کے راستے میں جدوجہد کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی توفیق دے کہ کمرہمتِ کس کر اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ اور اللہ تعالیٰہمارے دلوں میں یہ احساس پیدا فرما دے کہ اس کی شریعت کو نافذ کرنا ہے اور الکافِرون ‘ الظالِمُون اور الفاسِقون (المائدۃ : ٤٤ ‘ ٤٥ اور ٤٧) کی صفوں سے باہر نکلنا ہے۔ اس طرح کیّ جدوجہد میں محنت کرنا پڑتی ہے ‘ مشکلات برداشت کرنا پڑتی ہیں ‘ تکالیف سہنا پڑتی ہیں۔ ایسے حالات میں بعض اوقات انسان کے قدم لڑکھڑانے لگتے ہیں اور عزم و ہمت میں کچھ کمزوری آنے لگتی ہے۔ ایسے موقع پر اس راہ کے مسافروں کی ایک خاص ذہنی اور نفسیاتی کیفیت ہوتی ہے۔ اس حوالے سے یہ تین آیات نہایت اہم اور جامع ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

86. However much they might profess to follow Islam - by performing Prayers, by observing Fasts, by paying Zakah, by taking part in wars in the cause of God - all was reduced to naught because they had not devoted themselves to the service of the One True God. In pursuit of their worldly ambitions they had split their souls into two, distributing half to God and half to those in rebellion against Him.

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :86 یعنی جو کچھ انہوں نے اسلام کی پیروی میں کیا ، نمازیں پڑھیں ، روزے رکھے ، زکوٰۃ دی ، جہاد میں شریک ہوئے ، قوانین اسلام کی اطاعت کی ، یہ سب کچھ اس بنا پر ضائع ہو گیا کہ ان کے دلوں میں اسلام کے لیے خلوص نہ تھا اور وہ سب سے کٹ کر صرف ایک خدا کے ہو کر نہ رہ گئے تھے بلکہ اپنی دنیا کی خاطر انہوں نے اپنے آپ کو خدا اور اس کے باغیوں کے درمیان آدھا آدھا بانٹ رکھا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:53) جھد ایمانھم۔ بڑی بڑی قسمیں۔ سخت سے سخت قسمیں۔ بہت کڑی قسمیں ۔ بڑی پکی قسمیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 اور کافروں کے طرف دار نہیں ہیں مگر اب تو ان کا جھوٹ صاف کھل گیا (وحیدی ) 3 دنیا و آخرت دونوں برباد ہوئیں دنیا میں ذلیل ہوئے اور آخرت میں سخت ترین عذاب کے مستحق قرار پائے (وحیدی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 53 لغات القرآن : اھؤلاء (کیا یہی لوگ ہیں) ۔ اقسموا (انہوں نے قسم کھائی) ۔ جھد (طاقت۔ انتہا درجہ کی کوشش) ۔ ایمان (قسمیں) ۔ اصبحوا (وہ ہوگئے) ۔ تشریح : قیامت کے دن جب کامیابی مسلمانوں کی ہوگی اور منافقین کی ندامت ان کے چہرے سے ظاہر ہوگی اور وہ خوب پہچان لئے جائیں گے اس وقت مخلص مومنین حیران رہ جائیں گے وہ کہہ اٹھیں گے یہ تو وہی لوگ ہیں جو قسمیں کھا کھا کر ہمیں اپنی دوستی اور وفاداری کا یقین دلایا کرتے تھے۔ ہم لوگ کتنے دھوکے میں تھے مگر اللہ کی شان کہ اس نے ہمیں ہی سرخرو کردیا۔ یہ منافقین دنیا میں تو تباہ وہ برباد ہو ہی گئے، آخرت میں بھی ان کے تمام نمائشی اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ کیئ پیشین گوئی کردی ہے جس کے بعد دشمنان اسلام کا زور ٹوٹ گیا تھا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ چناچہ یہ پیشن گوئی صادق ہوئی ان منافقوں کی زیادہ دوستی مدینہ کے یہود اور مکہ کے مشرکین سے تھی مکہ فتح ہوگیا اور یہود خستہ وخراب ہوئے جس کا ذکر کئی بار آچکا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مومنوں کا منافقین پر تعجب کا اظہار اور منافقین کے اعمال کا غارت ہونا۔ اس سے پہلی آیت میں مسلمانوں کو کامیاب ہونے کی خوشخبری سنانے کے ساتھ اس بات سے آگاہ کیا گیا ہے کہ عنقریب وہ وقت آئے گا کہ مسلمان کامیاب اور منافق اپنی سازشوں اور شرارتوں پر نادم ہوں گے اور اس وقت مسلمان انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہیں گے کیا یہی وہ لوگ تھے جو قسمیں اٹھا اٹھا کر ہمیں یقین دہانی کرایا کرتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھی منافقوں کو شرمندہ کیا اور آخرت میں جب منافق جہنم میں داخل کیے جائیں گے تو مومن ان سے یہ پوچھیں گے کیا تم وہی لوگ ہو جو دنیا میں حلف اٹھا اٹھا کر کہا کرتے تھے کہ ہم بھی ایماندار اور تمہارے ساتھی ہیں۔ دنیا میں منافقوں کو شرمندگی اٹھانا پڑے گی اور آخرت میں ذلت سے دو چار ہوں گے۔ ان کے تمام اعمال بےفائدہ اور غارت ہوجائیں گے اعمال کی قبولیت کا دارومدار اخلاص پر ہے۔ منافق اخلاص سے تہی دامن ہوتا ہے جس وجہ سے نہ صرف آخرت میں یہ لوگ نقصان اٹھائیں گے بلکہ دنیا میں بھی ان کی منافقت کا پردہ چاک ہوجائے گا۔ ان کی حالت اس جانور کی ہوگی جس کے بارے میں محاورہ زبان زد عام ہے کہ نہ گھر کا اور نہ گھاٹ کا، منافق ایسی صورت حال سے دو چار ہوا کرتا ہے۔ (عَنْ ابْنِ عُمَر َ عَنْ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَثَلُ الْمُنَافِقِ کَمَثَلِ الشَّاۃِ الْعَاءِرَۃِ بَیْنَ الْغَنَمَیْنِ تَعِیرُ إِلٰی ہٰذِہِ مَرَّۃً وَإِلٰی ہٰذِہِ مَرَّۃٌ) [ رواہ مسلم : کتاب صفات المنافقین واحکامھم ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا منافق کی مثال دو ریوڑوں کے درمیان بکرے کی تلاش میں پھرنے والی بکری کی طرح ہے۔ ایک مرتبہ اس جانب جاتی اور دوسری مرتبہ دوسری جانب جاتی ہے۔ “

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” وَیَقُولُ الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَہَـؤُلاء الَّذِیْنَ أَقْسَمُواْ بِاللّہِ جَہْدَ أَیْْمَانِہِمْ إِنَّہُمْ لَمَعَکُمْ حَبِطَتْ أَعْمَالُہُمْ فَأَصْبَحُواْ خَاسِرِیْنَ (53) ” اور اس وقت اہل ایمان کہیں گے ” کیا یہ وہی لوگ ہیں جو اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر یقین دلاتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں ؟ “۔۔۔۔۔ ان کے سب اعمال ضائع ہوگئے اور آخر کار یہ ناکام ونامراد ہو کر رہے ۔ ہاں پھر ایک دن آگیا کہ فتح نصیب ہوئی ۔ کئی لوگوں کے خفیہ راز کھل گئے اور ان کے اعمال ضائع ہوگئے اور کئی گروپ سخت گھاٹے میں رہے ۔ اور آج بھی ہم اللہ کے اس وعدے کے انتظار میں ہیں کہ فتح آئے گی بشرطیکہ ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ رکھیں ۔ بشرطیکہ ہماری دوستی صرف اللہ سے ہو ‘ بشرطیکہ ہم اسلامی نظام کو سمجھیں اور اس کے مطابق اپنے افکار اور اپنے اعمال استوار کریں ‘ بشرطیکہ ہم معرکے کے اندر اللہ کی ہدایات اور راہنمائی میں اتریں اور ہم اللہ اور رسول کی سوا کسی کو دوست نہ بنائیں ۔ پہلی پکار اہل ایمان کو یہ تھی کہ وہ یہود ونصاری کی دوستی اور اس کے ساتھ حلیفانہ تعلقات قائم کرنے سے باز آجائیں ‘ ورنہ یاد رکھیں کہ ان کا شمار بھی ان میں ہوگا اور اس طرح وہ اسلام سے مرتد ہوجائیں گے ۔ ان کو پتہ بھی نہ چلے گا کہ وہ کیا سے کیا بن گئے بالکل غیر ارادی طور پر۔ اب یہاں ان کو دوسری کال دی جاتی ہے ۔ کہ خبردار ! ان میں سے کوئی مرتد نہ ہوجائے ۔ یہ اراتداد اس دوستی سے بھی ہو سکتا ہے اور دوسرے اسباب کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے ۔ اگر وہ مرتد ہوگئے تو اللہ کے ہاں ان کا کوئی مقام نہ رہے گا اور یہ بات بھی نوٹ کرلیں کہ ان کا یہ ارتداد اور الٹا پھرنا ‘ نہ اللہ کو مجبور کرسکتا ہے اور نہ اللہ کے دین کو نقصان دے سکتا ہے ۔ اللہ کے دین کے دوست اور بہت لوگ ہو سکتے ہیں جو اللہ کے علم میں ہیں ۔ اگر مسلمان سب کے سب پھرگئے تو وہ لوگ آجائیں گے اور یہاں ان لوگوں کے کچھ خدوخال بھی بتا دیئے جاتے ہیں جو کہ اللہ کے علم میں ہیں اور ریزور ہیں اور جو اس کے دین کے حامی و مددگار ہوں گے اور یہ خدوخال نہایت ہی پسندیدہ ‘ خوشنما ‘ خوبصورت اور چمکدار ہیں ۔ اور وہ قبلہ بھی بتا دیا جاتا ہے جس کی طرف ایک مسلم اپنی دوستی اور محبت کا رخ کرے گا اور اس دوسری پکار میں اس معرکے کا وہ حتمی انجام بھی ذکر کردیا جاتا ہے ‘ جو حزب اللہ اور تمام دوسری احزاب کے اندر جاری ہے ۔ اس انجام تک وہ لوگ اور صرف وہی لوگ پہنچیں گے جن کی محبت صرف اللہ اور رسول اللہ اور اہل ایمان کے ساتھ ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا) (الایۃ) یعنی جب منافقین کا نفاق کھل کر سامنے آئے گا تو اہل ایمان تعجب سے کہیں گے کیا یہ وہی لوگ ہیں جو بڑی مضبوطی کے ساتھ اللہ کی قسمیں کھا کر کہا کرتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں، ان کا باطن تو کچھ اور ہی نکلا، جھوٹے کو جب اپنی بات کو باور کرانا ہوتا ہے تو بار بار تاکید کے ساتھ قسمیں کھاتا ہے، منافقین بھی ایسا ہی کرتے تھے، سچے کو قسمیں کھانے کی ضرورت نہیں ہوتی اس کے اعمال اور اخلاق سے ظاہر ہوتا ہے یہ سچا ہے قسموں کے بغیر ہی اس پر اعتماد ہوجاتا ہے۔ منافقوں نے جو نفاق کی چالیں چلیں اور دکھانے کو بظاہر جو نیک اعمال کئے وہ سب اکارت چلے گئے ان سے کچھ فائدہ نہ ہوا پھر نقصان میں پڑگئے۔ اسی کو فرمایا (حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِیْنَ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

97 یہ مسلمانوں کی طرف سے منافقین کے حال بد اور ان کے عذر پر تعجب کا اظہار ہے ان منافقین نے پختہ قسمیں کھا کھا کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یقین دلایا تھا کہ وہ آپ کے دین پر ہیں اور آپ کے ساتھی ہیں اور وقت آنے پر یہود کے مقابلے میں آپ کی مدد کریں گے مسلمانوں کا ساتھ دیں گے مگر ان کے کرتوتوں سے ان کا نفاق ظاہر ہوگیا۔ حَبِطَتْ اَعْمَالَھُمْ الخ ان کے تمام اعمال ضائع اور بےنتیجہ ہوگئے اور بےنتیجہ ہوگئے اور ان پر آخرت کا کوئی اجر مترتب نہیں ہوگا کیونکہ اعمال کے مفید اور موجب ثواب ہونے کے لیے ایمان خالص شرط ہے اور وہ اس سے محروم ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اے ایمان والو ! تم یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست اور رفیق نہ بنائو یہ لوگ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق اور دوست ہوسکتے ہیں اور جو شخص تم میں سے ان یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست بنائے گا اور دوستی ورفاقت کرے گا تو یقین جانو ! کہ وہ انہی میں سے شمار ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا جو اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں اور مسلمانوں کو چھوڑ کر یہود و نصاریٰ پر اعتماد کرتے ہو۔ سو اے پیغمبر آپ ملاحظہ کرتے ہوں گے جن لوگوں کے دل میں نفاق کا روگ ہے وہ ان یہود و نصاریٰ میں گھسنے اور ان سے دوستانہ تعلق بڑھانے میں جلدی کر رہے ہیں اور ان سے مودت و محبت بڑھانے میں جلد بازی سیک ام لے رہے ہیں ان کا حال یہ ہے کہ یوں کہتے ہیں کہ ہم کو اس بات کا خوف ہے کہ کوئی حادثہ پیش آجائے اور ہم زمانہ کی کسی گردش میں مبتلا ہوجائیں سو وہ وقت قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو فتح مند کر دے یا اپنی طرف سے کسی اور بات کا ظہور فرما دے جس کا اثر یہ ہو کہ یہ منافق ان باتوں پر جو انہوں نے اپنے دلوں میں چھپا رکھی ہیں نادم ہو کر رہ جائیں اور ان کو شرمندگی اور ندامت کا منہ دیکھنا پڑے اور مسلمان ان منافقوں کی ندامت کو دیکھ کر یوں کہیں کہ اچھا یہ وہ منافق ہیں کہ جو سخت ترین اور مبالغہ آمیز قسمیں کھا کھا کر ہمیں اس بات کا یقین دلایا کرتے تھے کہ وہ تمہارے ساتھ ہیں اور ان منافقین کے تمام اعمال اور دو طرفہ ریشہ دوانیاں بےکار اور ضائع ہوگئیں اور یہ ناکام اور زیاں کار ہو کر رہ گئے۔ (تیسیر) ہم یہ بات پہلے عرض کرچکے ہیں کہ اگر مدینہ منورہ میں مسلمانوں کا تدریجی اقتدار بڑھ رہا تھا اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے جنگ کرنے کی اجازت مل چکی تھی لیکن لڑائی میں کبھی فتح اور کبھی شکست لازمی ہے غرض ! مسلمانوں کے لئے ایک صبر آزما دور تھا جب بدر میں فتح ہوئی تو اچھی خاصی ساکھ بندھ گئی لیکن جب احد میں شکست ہوئی تو رنگ برنگ کی بولایں سننے میں آنے لگیں۔ الحرب بیننا وبینہ سبحال نیال متنا و سال منہ جب کبھی آپ رسی میں دو ڈول باندھ کر کنوئیں سے پانی بھریں گے تو کبھی ایک ڈول اوپر آئے گا اور دوسرا ڈول پانی میں ہوگا پھر اوپر والا ڈول نیچے جائے گا اور نیچے والا اوپر آجائیگا مسلمانوں ہی کو ہر جنگ میں فتح ہو یہ اصول فطرت نہیں ایسا کرنے میں جبراً کفار کو اسلام کی طرف مائل کرنا ہے اور یہ لا اکراہ فی الدین کے منافی ہے اور جب مسلمان فتح و شکست کی الجھنوں میں مبتلا ہوں تو ظاہر ہے کہ مخلصین کے علاوہ دوسرے لوگوں کو اطمینان کس طرح میسر ہو ۔ یہی وجہ تھی کہ کفار کی زندگی امید وہم اور خوف و طمع کی زندگی تھی ایک طرف فتح و شکست کا سامنا دوسری طرف امید وہم کی توقعات اور خطرات اوپر کی آیتوں میں انہی باتوں کا ذکر ہے مخلص مسلمانوں کے لئے بشارت ہے اور منافقوں کے لئے زجر و توبیخ ہے اور دو رخی پالیسی رکھنے والوں کی مذمت ہے ہم نے عام حالات کی بنا پر تفسیر کردی ہے۔ اگرچہ مفسرین نے شان نزول کی بحث میں بہت اختلاف کیا ہے ہوسکتا ہے کہ غزوئہ احد کی بنا پر بعض منافقین نے یہ خیال کیا ہو کہ اگر مسلمان ختم ہوجائیں تو ہمارے تعلقات اہل کتاب سے مضبوط رہنے چاہئیں تاکہ ادھر سے ادھر کا سہارا لے لیں ہوسکتا ہے کہ عبداللہ بن ابی اور عبادہ بن صامت کا قصہ ہو کہ حضرت عبادہ بن صامت نے آیت سنتے ہی اپنے یہودی دوستوں سے تعلقات منقطع کر لئے لیکن عبداللہ بن ابی نے قائم رکھے اور مسلمانوں سے یہ کہہ دیا کہ قحط وغیرہ کا خطرہ ہے ہم اپنے دوستوں کو جو ہماری مصیبت میں کام آتے ہیں کس طرح چھوڑ دیں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ابو لبابہ کے واقعہ سے متعلق ہو کہ ان کو یہود کی فہمائش کے لئے جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھیجا اور جب یہود نے ان سے پوچھا تو انہوں نے زبان سے تو کچھ نہیں کہا لیکن ہاتھ اپنے گلے پر پھیر کر اشارہ کردیا کہ نیچے اترو گے تو سب ذبح کردیئے جائو گے۔ ہم نے تمام اقوال کو سامنے رکھ کر ایک عام تفسیر کردی ہے۔ بہرحال ان آیتوں میں مخلص مسلمانوں کو تنبیہہ ہے کہ وہ اہل کتاب پر اعتماد نہ کریں اور ان سے راز دارانہ دوستیاں نہ پیدا کریں۔ بعضھم اولیاء بعض میں عدم موالات کی علت فرمائی کہ دوستی کے لئے ہم جنس اور ہم خیال ہونا ضرویر ہے وہ اسلام میں تمہارے ہم خیال نہیں ہیں تو خفیہ دوستی کرنے سے سوائے نقصان کے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے ایسی دوستی وہ منافق ہی کرسکتے ہیں جو اسلام کی ترقی سے اور مسلمانوں کی یہودی کے متعلق مذبذب اور مشکوک ہیں۔ اسی دوستی کے لئے قحط وغیرہ مصائب کو بہانہ بناتے ہیں اور دل میں یہ بات رکھتے ہیں کہ اگر کل کو مسلمان ختم ہوئے اور ان کا اقتدار مٹاتو ہم کو اور ہمارے وطن کو یہود و نصاریٰ مکہ والوں کی دست برد سے بچا لیں گے۔ فتری۔ کے ترجمہ میں ہم نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب بنایا ہے ہوسکتا ہے کہ یہ خطاب عام ہو جیسا کہ بعض نے اختیار کیا ہے۔ دائرہ ۔ سے مراد زمانے کے وہ ہیر پھیر ہیں جس سے ہر شخص کو دو چار ہونا پڑتا ہے اور پریشانی کے وقت اپنے احباب اور مددگاروں کی کثرت کو اپنے لئے مفید سمجھتا ہے اور اسی دور اندیشی کی بنا پر منافقین سرمایہ دار اہل کتاب سے دوستی بھڑھانے کی فکر میں رہتے تھے۔ فتح جس کا وعدہ فرمایا ہے وہ فتوحات عامہ میں سے کوئی خاص نمایاں فتح ہوسکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس فتح سے مراد مکہ کی فتح ہو ۔ ام من عندہ سے مراد کوئی ایسی چیز ہوسکتی ہے جو یہود پر اثر انداز ہو اور وہ منافق جو یہود پر نازاں تھے اور ان کی خفیہ دوستی پر بھروسہ کر رہے تھے ان کو اپنا انجام معلوم ہوجائے جیسا کہ واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب مدینہ سے نکالے گئے ۔ ان کے گھر منہدم ہوگئے اور وہ خود جلا وطن ہوئے اس وقت ان منافقین پر جو گذری اس کا نقشہ آگے کی آیتوں میں ظاہر کیا گیا ہے کہ منافقین مسلمانوں کی فتوحات اور یہود کی جلا وطنی کو دیکھ کر بہت نادم اور رسوا ہوئے مسلمانوں نے کہا ارے یہ بدبخت تو ہماری معیت کی قسمیں کھا کھا کر یقین دلایا کرتے تھے۔ جھد ایمانھم سے مراد موکد اور مبالغہ آمیز قسمیں ہیں ایک طرف مسلمانوں کو قسمیں کھا کر اپنی وفاداری کا اظہار اور دوسری طرف یہود سے ساز باز اس دورخہ پالیسی کا حشر یہ ہوا کہ یہود جلا وطن ہو کر گئے اور مسلمانوں میں اعتبار نہ رہا نہ ادھر کے رہے نہ اندھر کے رہے اسی حالت اعمالھم فاصبحوا خاسرین جب تمام جدوجہد اور دوڑ دھوپ اکارت ہوگئی تو سوائے نقصان اور ٹوٹا پانے کے اور کیا رہ گیا آگے پھر فرماتے ہیں کہ اگر مسلمانوں میں سے کوئی مرتد ہوجائے یا یہ لوگ کفر کے کیمپ میں چلے جائیں تو اللہ تعالیٰ ان کو ہٹا کر کسی اور ایسی قوم کو لے آئے گا جو اس کی مطیع و فرمانبردار ہوگی۔ حضرت شاہ صاحب نادمین پر کہتے ہیں یعنی منافق کافروں سے دوستی لگائے جاتے ہیں کہ ہم پر گردش نہ آجائے یعنی مسلمان مغلوب ہوجائیں تو ان کی دوستی ہمارے کام آوے سو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اب قریب ہے کہ کافر ہلاک ہوں یعنی مسلمانوں کو ان پر فتح ہو یا کچھ اور حکم آوے یعنی کافر ملک سے ویران ہوں آخر یہود کو حکم فرمایا جلا وطن کرنے کا 12 منہ (تسہیل)