Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 58

سورة المائدة

وَ اِذَا نَادَیۡتُمۡ اِلَی الصَّلٰوۃِ اتَّخَذُوۡہَا ہُزُوًا وَّ لَعِبًا ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَوۡمٌ لَّا یَعۡقِلُوۡنَ ﴿۵۸﴾

And when you call to prayer, they take it in ridicule and amusement. That is because they are a people who do not use reason.

اور جب تم نماز کے لئے پکارتے ہو تو وہ اسے ہنسی کھیل ٹھرا لیتے ہیں یہ اس واسطے کہ بے عقل ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلَةِ اتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبًا ... And when you proclaim the call for the Salah, they take it (but) as a mockery and fun; When you proclaim the Adhan for the prayer, which is the best action there is, for those who have sound minds and good comprehension, اتَّخَذُوهَا (they take it...) also, ... هُزُوًا وَلَعِبًا ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لاَّ يَعْقِلُونَ as a mockery and fun; that is because they are a people who understand not. the acts of worship and Allah's Law. These are the characteristics of the followers of Shaytan who, إِذَا سَمِعَ الاَْذَانَ أَدْبَرَ وَلَهُ حُصَاصٌ أَيْ ضُرَاطٌ حَتَّى لاَ يَسْمَعَ التَّأْذِينَ فَإِذَا قُضِيَ التَّأْذِينُ أَقْبَلَ فَإِذَا ثُوِّبَ لِلصَّلَةِ أَدْبَرَ فَإِذَا قُضِيَ التَّثْوِيبُ أَقْبَلَ حَتَّى يَخْطُرَ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ فَيَقُولُ اذْكُرْ كَذَا اذْكُرْ كَذَا لِمَا لَمْ يَكُنْ يَذْكُرُ حَتَّى يَظَلَّ الرَّجُلُ لاَ يَدْرِي كَمْ صَلَّى فَإِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمْ ذلِكَ فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ السَّلَم When the call for prayer is made, Shaytan takes to his heels passing wind so that he may not hear the Adhan. When the call is finished he comes back, and when the Iqamah is pronounced, Shaytan again takes to his heels. When the Iqamah is finished he comes back again and tries to interfere with the person and his thoughts and to say, `Remember this and that,' which he has not thought of before the prayer, until the praying person forgets how much he has prayed. If anyone of you does not remember, then he should perform two prostrations before pronouncing the Salam. This Hadith is agreed upon. Az-Zuhri said, "Allah mentioned the Adhan in His Book, وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلَةِ اتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبًا ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لاَّ يَعْقِلُونَ And when you proclaim the call for the Salah, they take it (but) as a mockery and fun; that is because they are a people who understand not." Ibn Abi Hatim recorded this statement.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

58۔ 1 حدیث میں آتا ہے کہ جب شیطان اذان کی آواز سنتا ہے تو پاد مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے، جب اذان ختم ہوجاتی ہے تو پھر آجاتا ہے، تکبیر کے وقت پھر پیٹھ پھیر کر چل دیتا ہے، جب تکبیر ختم ہوتی ہے تو پھر آ کر نمازیوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کرتا ہے، شیطان ہی کی طرح شیطان کے پیروکاروں کو اذان کی آواز اچھی نہیں لگتی، اس لئے وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث رسول بھی قرآن کی دین کا ماخذ اور اسی طرح حجت ہے۔ کیونکہ قرآن نے نماز کے لئے ' ندا ' کا تو ذکر کیا ہے لیکن یہ ' ندا ' کس طرح دی جائے گی ؟ اس کے الفاظ کیا ہوں گے ؟ یہ قرآن کریم میں کہیں نہیں ہے۔ یہ چیزیں حدیث سے ثابت ہیں، جو اس کی حجیت اور ماخذ دین ہونے پر دلیل ہیں۔ حجت حدیث کا مطلب : حدیث کے ماخذ دین اور حجت شرعیہ ہونے کا مطلب ہے، کہ جس طرح قرآن سے ثابت ہونے والے احکام و فرائض پر عمل کرنا ضروری ہے اور ان کا انکار کفر ہے۔ اس طرح حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہونے والے احکام کا ماننا بھی فرض ہے، ان پر عمل کرنا ضروری اور ان کا انکار کفر ہے۔ صحیح حدیث چاہے متواتر ہو یا آحاد، قولی ہو، فعلی ہو یا تقریری۔ یہ سب قابل عمل ہیں۔ حدیث کا خبر واحد کی بنیاد پر یا قرآن سے زائد ہونے کی بنیاد پر یا ائمہ کے قیاس واجتہاد کی بنیاد پر یا راوی کی عدم فقاہت کے دعویٰ کی بنیاد پر یا عقلی استحالے کی بنیاد پر یا اسی قسم کے دیگر دعوؤں کی بنیاد پر، رد کرنا صحیح نہیں ہے۔ یہ سب حدیث سے اعراض کی مختلف صورتیں ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٠] اذان کا تمسخر اڑانے والے اور ابو محذورہ :۔ اذان مسلمانوں کے شعائر میں سے ایک شعار ہے جس میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ اور یہ اعلان ہی دراصل تمام کافروں، خواہ وہ مشرکین ہوں یا یہود و نصاریٰ ہوں سب کے لیے دکھتی رگ تھا۔ کیونکہ مشرکین تو اللہ کے صرف اکیلے الٰہ ہونے کے ہی قائل نہ تھے دوسرے آپ کو اللہ کا رسول ماننے کو تیار نہ تھے۔ اس طرح یہود و نصاریٰ بھی آپ کو سچا نبی سمجھنے کو تیار نہ تھے اور یہی کلمات دراصل ان کے اور مسلمانوں کے درمیان باعث نزاع اور موجب جنگ بنے ہوئے تھے پھر دن میں جب پانچ بار بہ بانگ دہل انہیں کلمات کا اعلان کیا جاتا تو سیخ پا ہوجاتے اور اللہ کا، اس کے رسول کا اور مسلمانوں سب کا مذاق اڑاتے اور پھبتیاں کسنے لگتے تھے۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ مدینہ میں ایک عیسائی تھا۔ جب وہ اشھد ان محمد رسول اللہ کے کلمات سنتا تو کہا کرتا۔ && قَدْ حَرَقَ الکَاذِبُ && (یعنی جھوٹا جل کر تباہ ہوا) بددعا کے یہ کلمات دراصل اس کے دل کی جلن کا مظہر تھے۔ اب اتفاق کی بات ہے کہ ایک رات ایک لڑکی اس کے گھر میں آگ لے کر آئی۔ وہ خود اور اس کے اہل خانہ سو رہے تھے۔ نادانستہ طور پر وہ آگ کی چنگاری اس کے ہاتھ سے گرگئی جس سے سارا گھر اور گھر والے بھی جل گئے۔ اس طرح اللہ نے اس کی بددعا کو اسی کے حق میں سچ کر دکھایا۔ اس کا قول سچا ہوگیا اور جو جھوٹا تھا واقعی جل گیا۔ نیز ایک اور واقعہ بھی صحیح روایات میں منقول ہے اور وہ یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب آپ حنین سے واپس آ رہے تھے تو راستہ میں سیدنا بلال (رض) نے اذان کہی۔ چند نوجوانوں نے اذان کے کلمات کی ہنسی اڑائی اور اس کی نقل اتارنے لگے۔ ان نوجوانوں میں ابو محذورہ بھی شامل تھے۔ آپ نے ان کو اپنے پاس بلوایا اور اسلام کی دعوت پیش کی۔ ابو محذورہ کے دل میں اللہ نے اسلام ڈال دیا۔ خوش آواز تھے لہذا آپ نے انہیں مکہ کا مؤذن مقرر فرما دیا۔ اس طرح اللہ کی قدرت سے نقل اصل بن گئی۔ (مسلم، ترمذی، نسائی، احمد، ابو داؤد بحوالہ سبل السلام۔ کتاب الصلٰوۃ۔ باب الاذان عن ابی محذورۃ )

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا نَادَيْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ “ کا معنی ہے جب تم آواز دیتے ہو، تو اس سے مراد نماز کے لیے اذان ہے یعنی اس کی نقلیں اتارتے ہیں، تمسخر سے اس کے الفاظ بدلتے ہیں اور اس پر آوازے کستے ہیں، شور و ہنگامہ برپا کرتے ہیں۔ (ابن کثیر، فتح القدیر) شیطان کو بھی اذان کی آواز برداشت نہیں، حدیث میں ہے : ” شیطان جب اذان کی آواز سنتا ہے تو گوز مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے (کہ اذان اس کے کانوں میں نہ پڑے) ، پھر واپس آجاتا ہے، اقامت کے وقت پھر پیٹھ پھیر کر چل دیتا ہے، جب تکبیر ختم ہوتی ہے تو پھر آ کر نمازیوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کرتا ہے۔ “ [ بخاری، الأذان، باب فضل التأذین : ٦٠٨ ] 3 نماز کے لیے آواز دینے کا ذکر قرآن مجید میں دو جگہ آیا ہے، ایک اس آیت میں دوسرا سورة جمعہ میں۔ اسی ندا کو اذان کہتے ہیں، مگر پورے قرآن میں نہ اذان کا طریقہ بیان ہوا، نہ اس کے کلمات اور نہ اس کے اوقات۔ یہ آواز کیسے دی جائے، اس کے لیے حدیث رسول سے رہنمائی لینا ہوگی۔ معلوم ہوا حدیث کے بغیر قرآن پر عمل ممکن ہی نہیں۔ ( اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ ) [ النساء : ٥٩ ] اور ( اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ ) [ آل عمران : ٣١ ] کے تحت قرآن کے ساتھ حدیث پر عمل بھی واجب ہے، اسی لیے اہل علم نے منکرین حدیث پر کفر کا فتویٰ صادر فرمایا ہے۔ ۭذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُوْنَ : یعنی اگر ان میں کچھ بھی عقل ہوتی تو اذان کی آواز سن کر ان کے دل نرم پڑجاتے، وہ حق کی طرف متوجہ ہوتے، یا کم از کم مسلمانوں سے دینی اختلاف رکھنے کے باوجود اس قسم کی گھٹیا حرکتیں نہ کرتے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا نَادَيْتُمْ اِلَى الصَّلٰوۃِ اتَّخَذُوْہَا ہُزُوًا وَّلَعِبًا۝ ٠ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُوْنَ۝ ٥٨ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) ندا النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُور أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، ( ن د ی ) الندآ ء کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] عقل العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] ، ( ع ق ل ) العقل اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

اذان کا بیان قول باری ہے واذا نادیتم الی الصلوٰۃ اتخذو ھا ھزوا وکعب اور جب تم نماز کے لیے منادی کرتے ہو تو وہ اس کا مذاق اڑاتے اور اس سے کھیلتے ہیں یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ نماز کے لیے اذان دی جائے جس کے ذریعے لوگوں کو نماز کے لیے بلایاجائے۔ اسی طرح یہ قول باری ہے اذا نو دی للصلوٰۃ من یوم الجمعۃ فاسعور الی ذکر اللہ وذروا البیع جب جمعہ کے دن نمازجمعہ کے لیے ندا دی جائے تو اللہ کی یاد کی طرف ڈور پڑو اور خرید چھوڑ دو ۔ عمرو بن مرہ نے عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ سے اور انہوں نے حضرت معاذ (رض) سے روایت کی ہے کہ لوگ نماز کے لیے ایک وقت پر اکٹھے ہوجاتے جس کا سب کو علم ہوتا ۔ لوگ ایک دوسرے کو اس کی آمد سے آگاہ کرے حتیٰ کہ ناقوس بجایا یا شایدناقوس بجانے کی تیاری ہوچکی تھی کہ حضرت عبد اللہ زید (رض) انصاری نے آ کر اذان کا ذکر کیا ۔ یہ سن حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ رات مجھے بھی کوئی اذان سکھا گیا تھا جس طرح اس نے انہیں یعنی حضرت عبد اللہ (رض) کو اذان سکھائی تھی لیکن عبد اللہ اس بات کے ذکر میں مجھ سے سبقت لے گئے ۔ زہری نے سالم سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام سے مسلمانوں کو نماز کے لیے اکٹھا کرنے کے طریقے کے بارے میں مشورہ کیا تھا، لوگوں نے ناقوس بجانے کی تجویز پیش کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس تجویز کو اس لیے ناپسند فرمایا کہ یہودی بھی نا قوس بجایا کرتے تھے۔ اس روایت میں حضرت عبد اللہ بن زید (رض) انصاری کے واقعے کا ذکر ہے نیز یہ کہ حضرت عمر (رض) نے بھی اس جیسا خواب دیکھا تھا اس طرح ہجرت سے پہلے اذان مسنون نہ ہونے کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ہجرت کے بعد اذان مسنون ہوئی تھی۔ امام ابویوسف نے محمد بن بشرہمدانی سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن علی سے اذان کے متعلق دریافت کیا اور یہ پوچھا کہ اس کی ابتداء کیسے ہوئی تھی اور اس نے موجودہ صورت کیسے اختیار کی ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اذان کا معاملہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب معراج پر تشریف لے گئے تو تمام انبیاء اکٹھے ہوگئے ، پھر آسمان سے ایک فرشتہ اترا جو اس سے پہلے کبھی نہیں اترا تھا اس نے اس طریقے سے اذان دی جس طرح تم دیتے ہو اس نے تمہاری طرح اقامت بھی کہی پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انبیاء کرام کو نماز پڑھائی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ معراج کا واقعہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکی زندگی میں پیش آیا تھا جبکہ آپ نے صحابہ میں اذان کے بغیر نماز پڑھی تھی اور صحابہ کرام سے لوگوں کو نماز کے لیے اکٹھا کرنے کے طریقے کے متعلق مشورہ لیا تھا ۔ اگر اذان کی ابتداء ہجرت سے پہلے ہوتی تو آپ کو صحابہ کرام سے مشورہ لینے کی ضرورت پیش نہ آتی ۔ دوسری طرف حضرت معاذ (رض) اور حضرت ابن عمر (رض) نے اذان کی ابتداء کے متعلق جو کچھ بیان کیا تھا اس کا ہم نے درج بالا سطور میں ذکر کردیا ہے۔ اذان ہر فرض نماز کے لیے مسنون ہے خواہ کوئی شخص یہ فرض نماز تنہا ادا کر رہا ہو یا جماعت کے ساتھ تا ہم ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ مقیم شخص اگر تنہاء نماز پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے اذان کہے بغیر نماز جائز ہے اس لیے کہ مسجدوں میں ہونے والی اذانیں اس شخص کو نماز کی طرف بلانے کے لیے کافی ہوں گی اس لیے وہ ان پر اکتفا کر کے اذا ن دیئے بغیر نماز پڑھ لے گا ۔ مسافر شخص اذان اور اقامت دونوں کہے گا ، لیکن اگر صرف اقامت پر اکتفا کرے گا تو یہ بھی جائز ہوگا ۔ البتہ اذان و اقامت کے بغیر اس کا نماز پڑھ لینا مکروہ ہوگا اس لیے اس مقام پر کوئی اور اذان تو ہوگی نہیں جو اسے نماز کی طرف بلانے کا ذریعہ بن جائے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا من صلی فی ارض باذان واقامۃ صلی خلفہ صف من الملائکہ کی ایک پوری صف نماز ادا کرتی ہے وہ صف اس قدر طویل ہوتی ہے کہ اس کے دونوں کنارے نظر نہیں آتے۔ یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ تنہا نماز پڑھنے والے کے لیے اذان دینا سنت ہے۔ ایک اور روایت میں آپ نے فرمایا اذا ساقوتمافاذنا واقیما جب تم دونوں سفر کرو تو نماز کے لیے اذان دو اور اقامت کہو ہم نے اذان اور اقامت کی کیفیت اور اس بارے میں فقہاء کے اختلاف رائے پر اس کتاب کے سوا دوسری کسی کتاب میں روشنی ڈالی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٨) اور جب اذان اور اقامت ہوتی تو یہ اس کی ہنسی اور مذاق اڑاتے ہیں اور یہ اس وجہ سے ہے کہ یہ لوگ احکام خداوندی اور توحید خداوندی اور دین الہی سے قطی بیخبر ہیں، یہ آیت ایک یہودی کے بارے میں نازل ہوئی ہے، وہ حضرت بلال (رض) کی اذان کا مذاق اڑایا کرتا تھا، اللہ تعالیٰ نے اسے آگ میں جلا دیا۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٨ (وَاِذَا نَادَیْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ اتَّخَذُوْہَا ہُزُوًا وَّلَعِبًا ط) ۔ یعنی اذان کی آواز سن کر اس کی نقلیں اتارتے ہیں اور تمسخر کرتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

89. When they hear the call to Prayer the unbelievers make fun of it by mimicry, pervert its words to ridicule it, and utter disparaging and taunting remarks about it. 90. These are merely acts of stupidity on the part of unbelievers. Had they not been ignorant and foolish they would not have stooped to such base tactics, despite their significant differences with the Muslims on religious questions. After all, can any reasonable person be happy to see the people who call to the worship of God be ridiculed and mocked?

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :89 یعنی اذان کی آواز سن کر اس کی نقلیں اتارتے ہیں ، تمسخر کے لیے اس کے الفاظ بدلتے اور مسخ کرتے ہیں اور اس پر آوازے کستے ہیں ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :90 یعنی ان کی یہ حرکتیں محض بے عقلی کا نتیجہ ہیں ۔ اگر وہ جہالت اور نادانی میں مبتلا نہ ہوتے تو مسلمانوں سے مذہبی اختلاف رکھنے کے باوجود ایسی خفیف حرکات ان سے سرزد نہ ہوتیں ۔ آخر کون معقول آدمی یہ پسند کر سکتا ہے کہ جب کوئی گروہ خدا کی عبادت کے لیے منادی کرے تو اس کا مذاق اڑایا جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے سدی سے روایت کی ہے کہ جب اذان مدینہ میں ہوتی تھی تو ایک نصرانی جو مدینہ میں رہتا تھا اشھد ان محمد رسول اللہ سن کر یہ کہا کرتا تھا خدا اس جھوٹے موذن کو چولھے میں ڈالے ایک دن اس نصرانی کے گھر میں آگ لگی اور وہ اور اس کے بال بچے اور سب گھر اور باہر جل کر راکھ ہوگیا ٣ ؎۔ اوپر تورات اور انجیل کی آیتوں کے حوالے سے یہ گزر چکا ہے کہ مکہ کے پہاڑوں میں سے جن نبی کا ظہور ہونے والا تھا وہ یہی نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ اور یہ بھی گزرچکا ہے کہ تورات اور انجیل کی ان آیتوں کا اور کوئی مطلب سوا اس مطلب کے صحیح نہیں قرار پاسکتا کہ ان آیتوں سے مقصود بعد عیسیٰ (علیہ السلام) کے نبی آخر الزمان کا پیدا ہونا ہے۔ باوجود اس کے جان بوجھ کر جو اس نصرانی نے اللہ کے رسول کی شان میں بےادبی کے لفظ منہ سے نکالے تو اس پر اللہ تعالیٰ کی خفگی ہوئی۔ تورات اور انجیل کی اس صداقت کی بنا پر نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا ہے کہ اہل کتاب میں سے جو شخص میرا حال سن کر میری نبوت کو نہ مانے گا اس کی نجات مشکل ہے۔ چناچہ صحیح مسلم ٤ ؎ کے حوالے سے ابوہریرہ (رض) کی یہ حدیث ایک جگہ گزریں یہ حدیث گویا ان کی تفسیر ہے اب اصل اور تفسیر کو ماننا یا نہ ماننا اہل کتاب کا کام ہے اسی واسطے آخر کو فرمایا کہ جو کوئی ایسی ظاہر باتوں کو نہیں مانتا اس کی عقل ٹھیک نہیں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 ان میں اگر کچھ بھی عقل ہوتی تو اذان کی آواذ سن کر ان کے دل نرم پڑتے اور وہ حق کی طرف متوجہ ہوتے یا کم از کم مسلمانوں سے مذہبی اختلافات رکھنے کی باوجود اس قسم کی گھٹیا حرکات نہ کرتے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یہ اشارہ ہے دو قصوں کی طرف ایک یہ کہ جب آذان ہوتی اور مسلمان نماز شروع کرتے تو یہود کہتے کہ یہ کھڑے ہوتے ہیں خدا کرے کبھی کھڑا ہونا نصیب نہ ہو اور جب ان کو رکوع سجدہ کرتے دیکھتے توہنستے اور تمسخر کرتے دوسراقصہ یہ کہ مدینہ میں ایک نصرانی تھا جب اذان میں سنتا اشھد ان محمد الرسول اللہ تو کہتا جل جائے ایک شب ایسا اتفاق ہوا کہ وہ اور اس کے اہل و عیال سب سو رہے تھے کوئی خادم گھر میں آگ لے کرگیا ایک چنگاڑی گر پڑی اور وہ اس کا گھر اور گھروالے سب جل گئے یہ تو الذین اتوالکتاب کے مصداق تھے اور الکفار کے مصداق کا ایک قصہ یہ ہوا کہ رفاعہ بن زید بن تابوت و رسوید بن الحارث نے منافقانہ اظہار اسلام کیا تھا یعنی بعض مسلمان ان سے اختلاط رکھتے تھے ان سب واقعات پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اے اہل ایمان ان لوگوں کو جن کو تم سے پہلے کتاب دی جا چکی ہے وہ ایسے ہیں کہ تمہارے دین کو انہوں نے ہنسی اور کھیل بنا رکھا ہے ان کو اور دوسرے منکرین اسلام کو تم اپنا رفیق نہ بنائو اور اگر تم مومن اور ایمان دار ہو تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور جب تم نماز کے لئے اذان دیتے ہو تو یہ لوگ اس عبادت کے ساتھ ہنسی اور مذاق کرتے ہیں اذان کی نقل اتارتے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ یہ لوگ بےعقل اور صحیح عقل سے بالکل ہی بےبہرہ ہیں۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں بعضے یہود اور بعضے مشرک اذان کی آواز پر ہنستے یہ ان کی بےعقلی تھی اللہ کی بڑائی ہر دین میں بہتر ہے۔ (موضح القرآن) آیات سابقہ میں یہود و نصاریٰ کی دوستی اور رفاقت سے منع فرمایا تھا اور جو منافق ان سے خفیہ موالات رکھتے تھے ان کی مذمت فرمائی تھی اور ان آیات کی ابتداء میں اشارتاً فرمایا تھا۔ بعضھم اولیاء بعض کہ وہ اپنے ہم خیال اور ہم عقیدہ لوگوں کے ہی دوست ہوسکتے ہیں تم کو چونکہ غیر جنس سمجھتے ہیں اس لئے تمہاری ان کی دوستی کس طرح نبھ سکتی ہے یا وہ تم کو اپنے میں جذب کرنے کی کوشش کریں گے یا سوسائٹی میں تم کو ذلیل سمجھیں گے ان آیتوں میں ان کے طرز عمل کی وضاحت فرمائی اور اس طرز عمل کو بطور علت قرار دیا کہ جب ان کا حال یہ ہے تو یہ کھلی معاودات اور دشمنی کا برتائو ہے پھر معادات کے ساتھ موالات کس طرح قائم رہ سکتی ہے یہود و نصاریٰ کے ساتھ دوسرے کفار کو بھی شامل فرما دیا۔ چونکہ اکثر مشرکین اور منکرین بھی تو وہین اسلام میں ان کے ہمنوا تھے اس لئے ان سے بھی موالات کو منع فرمایا اور ارشاد ہوا کہ اے ایمان والو ! جو تمہارے دین کو محض کھیل کود کی ایک چیز سمجھتے ہیں اور دین کے اصول و فروع کے ساتھ استہزا کرتے ہیں وہ عام طور سے یہود و نصاریٰ ہیں کیونکہ یہی لوگ تم سے پہلے کتاب توریت و انجیل دیئے گئے تھے اور ان دیگر مشرک اور کافروں کا بھی تمہارے دین کے ساتھ یہی سلوک ہے تو ایسے لوگوں کو اپنا رفیق کار نہ بنائو اور تم کو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہئے اگر تم مومن اور ایمان دار ہو ۔ اول تو ایمان کی بنیاد ہی تقویٰ ہے پھر تقویٰ تمام امراض باطنی کا عالج بھی ہے اس لئے بس اللہ تعالیٰ ہی سے ڈرو اور یہ اندیشہ ترک کردو کہ سوسائٹی بدون موالات کے کیسے قائم رہے گی۔ آگے اس استہزا کی تصریح ہے کہ جب تم اذان دیتے ہو اور نماز کے لئے لوگوں کو پکارتے ہو تو یہ تمہاری اذان اور نماز کا مذاق اڑاتے ہیں ہنستے ہیں اور نقلیں اتارتے ہیں حالانکہ اذان و نماز میں تو اللہ تعالیٰ کی برتری اور بڑائی مذکور ہے جو دعا اور مناجات کے لئے ضروری ہے اور اتنی بات تو سب ہی اہل مذہب جانتے ہیں لیکن یہ بدبخت اتنی بات کو بھی گوارا نہیں کرتے تو ان سے موالات پر کوئی صحیح نتیجہ مرتب ہونے کی امید نہیں یہ لوگ محض بےعقل ہیں تمہاری عداوت میں اللہ تعالیٰ کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں مسلمانوں کو اس قسم کے چند واقعات پیش آ چکے تھے اول تو جب مسلمان اذان دے کر نماز شروع کرتے تو یہود کیا کرتے تھے یہ کھڑے ہوتے ہیں خدا کرے ان کو کھڑا ہونا نصیب نہ ہو دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ مدینہ میں جب مئوذن اشھد ان محمد رسول اللہ کہتا تو ایک نصرانی کہا کرتا جھوٹا ہے ، جھوٹا جل جائے ایک دن اتفاق ایسا ہوا کہ اس کے گھر میں آگ لگ گئی اور وہ نصرانی اور اس کا گھر بار سب جل گیا۔ اسی قسم کا ایک واقعہ فتح مکہ کے دن پیش آیا جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے مکہ میں اذان دی تو ابوسفیان بن حرب بن عتاب بن اسید اور حارث بن ہشام بیٹھے تھے عتاب نے کہا خدا کا بڑا فضل ہوا کہ میرا باپ تو اس غصہ دلانے والی آواز سے پہلے ہی مرگیا۔ حارث نے کہا میں اسے سچا سمجھتا تو مان ہی نہ لیتا ابوسفیان نے کہا بھائی میں تو کچھ نہیں کہتا اگر کہوں گا تو یہ کنکریاں اس سے یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہہ دیں گی۔ یہ چند واقعات محدثین نے ذکر کئے ہیں ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ اور بھی اسی قسم کے استہزا اور توہین آمیز سلوک کئے جاتے ہیں کمالا یخفی بہرحال ! ان کی دشمنی اور معاندانہ طرز عمل اور اہل اسلام کے فرق کو آگے ایک عمدہ پیرا یہ میں بیان فرماتے ہیں اور ایک اچھے پیرایہ میں مدلل طور پر ان کو ملزم قرار دیتے ہیں۔ (تسہیل)