Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 66

سورة المائدة

وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اَقَامُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِمۡ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ لَاَکَلُوۡا مِنۡ فَوۡقِہِمۡ وَ مِنۡ تَحۡتِ اَرۡجُلِہِمۡ ؕ مِنۡہُمۡ اُمَّۃٌ مُّقۡتَصِدَۃٌ ؕ وَ کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ سَآءَ مَا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۶۶﴾٪  13

And if only they upheld [the law of] the Torah, the Gospel, and what has been revealed to them from their Lord, they would have consumed [provision] from above them and from beneath their feet. Among them are a moderate community, but many of them - evil is that which they do.

اور اگر یہ لوگ توراۃ و انجیل اور ان کی جانب جو کچھ اللہ تعالٰی کی طرف سے نازل فرمایا گیا ہے ان کے پورے پابند رہتے تو یہ لوگ اپنے اوپر سے اور نیچے سے روزیاں پاتے اور کھاتے ایک جماعت تو ان میں سے درمیانہ روش کی ہے ، باقی ان میں سے بہت سے لوگوں کے برے اعمال ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُواْ التَّوْرَاةَ وَالاِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيهِم مِّن رَّبِّهِمْ ... And if only they had acted according to the Tawrah, the Injil, and what has (now) been sent down to them from their Lord, meaning, the Qur'an, as Ibn Abbas and others said. ... لاأكَلُواْ مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم ... they would surely have gotten provision from above them and from underneath their feet. Had they adhered to the Books that they have with them which they inherited from the Prophets, without altering or changing these Books, these would have directed them to follow the truth and implement the revelation that Allah sent Muhammad with. These Books testify to the Prophet's truth and command that he must be followed. Allah's statement, لاأكَلُواْ مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم (they would surely have gotten provision from above them and from underneath their feet), refers to the tremendous provision that would have descended to them from the sky and grown for them on the earth. Allah said in another Ayah, وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى ءَامَنُواْ وَاتَّقَوْاْ لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَـتٍ مِّنَ السَّمَأءِ وَالاٌّرْضِ And if the people of the towns had believed and had Taqwa, certainly, We should have opened for them blessings from the heaven and the earth. (7:96) Allah's statement, ... مِّنْهُمْ أُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ سَاء مَا يَعْمَلُونَ And among them is a Muqtasid Ummah, but for most of them; evil is their work. is similar to Allah's statement, وَمِن قَوْمِ مُوسَى أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ And of the people of Musa there is a community who lead (the men) with truth and establish justice therewith. (7:159) and His statement about the followers of `Isa, peace be upon him, فَـَاتَيْنَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ So We gave those among them who believed, their (due) reward. (57:67) Therefore, Allah gave them the highest grade of Iqtisad, which is the middle course, given to this Ummah. Above them there is the grade of Sabiqun, as Allah described in His statement; ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَـبَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَـلِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَتِ بِإِذُنِ اللَّهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ جَنَّـتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُوْلُواً وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ Then We gave the Book as inheritance to such of Our servants whom We chose. Then of them are some who wrong themselves, and of them are some who follow a middle course, and of them are some who, by Allah's permission, are Sabiq (foremost) in good deeds. That itself is indeed a great grace. `Adn (Eden) Paradise (everlasting Gardens) will they enter, therein will they be adorned with bracelets of gold and pearls, and their garments there will be of silk. (35:32-33)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

66۔ 1 تورات اور انجیل کے پابند رہنے کا مطلب، ان کے ان حکام کی پابندی ہے جو ان میں انہیں دئے گئے، اور انہی میں ایک حکم آخری نبی پر ایمان لانا بھی تھا۔ اور وَمَا اُنزِ لَ سے مراد تمام آسمانی کتب پر ایمان لانا ہے جن میں قرآن کریم بھی شامل ہے۔ مطلب یہ ہے یہ اسلام قبول کرلیتے۔ 66۔ 2 اوپر نیچے کا ذکر یا بطور مبالغہ ہے، یعنی کثرت سے اور انواع واقسام کے رزق اللہ تعالیٰ مہیا فرماتا ہے۔ یا اوپر سے مراد آسمان ہے یعنی حسب ضرورت خوب بارش برساتا ہے اور ' نیچے سے مراد ' زمین ہے۔ یعنی زمین اس بارش کو اپنے اندر جذب کر کے خوب پیداوار دیتی۔ نتیجتًا شادابی اور خوش حالی کا دور دورہ ہوجاتا اور فصلوں سے پیدوار حاصل ہوتی۔ جس طرح ایک دوسرے مقام پر فرمایا " اگر بستیوں والے ایمان لائے ہوتے اور انہوں نے تقوی اختیار کیا ہوتا تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکات کے دروازے کھول دیتے۔ 66۔ 3 لیکن ان کی اکثریت نے ایمان کا یہ راستہ اختیار نہیں کیا اور وہ اپنے کفر پر مصر اور رسالت محمدی سے انکار پر اڑے ہوئے ہیں۔ اسی اصرار اور انکار کو یہاں برے اعمال سے تعبیر کیا گیا ہے۔ درمیانہ روش کی ایک جماعت سے مراد عبد اللہ بن سلام جیسے 8۔ 9 افراد ہیں جو یہود مدینہ میں سے مسلمان ہوئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١١] اچھے اور برے اعمال کے اثرات دل اور فضاؤں پر میں :۔ اگرچہ یہ خطاب بظاہر اہل کتاب کو ہے جس میں یہود و عیسائی مخاطب ہیں تاہم یہ حکم عام ہے یعنی کوئی بھی امت جو کتاب اللہ پر سچے دل سے پوری دیانتداری اور ایمانداری کے ساتھ عمل پیرا ہوگی اس پر اوپر سے ابر رحمت برسے گا، نیچے زمین سے پھل اور میوے بکثرت پیدا ہوں گے۔ ارضی اور سماوی برکات نازل ہوں گی۔ آفات دور ہوں گی۔ سب کو فراخی سے رزق ملے گا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حدود اللہ میں سے ایک حد قائم کرنے سے اتنی رحمت اور برکتیں نازل ہوتی ہیں جیسے چالیس دن بارش سے نازل ہوتی ہیں اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری اور نیک اعمال کا ایک نتیجہ تو انسان کے دل پر مرتب ہوتا ہے جس سے اس کا دل سلیم اور مطمئن اور صابر و شاکر بن جاتا ہے اور انہی اعمال کا دوسرا نتیجہ کائنات کی فضاؤں میں مرتب ہوتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی برکتوں اور رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ کی نافرمانی، سرکشی اور کفر کا ایک نتیجہ انسان کے دل پر مرتب ہوتا ہے جس سے ایسے انسان کا دل شقی، سیاہ اور پریشان حال بن جاتا ہے اور دوسرا نتیجہ فضاؤں میں مرتب ہوتا ہے جس سے ایسے لوگوں پر لعنت برستی ہے اور مصائب نازل ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور یہ فضائی اثرات انفرادی طور پر بھی مرتب ہوتے ہیں اور اجتماعی طور پر بھی۔ پھر جب کسی قوم کا ڈول گناہوں سے بھر جاتا ہے تو وہی وقت ہوتا ہے جب ان پر عذاب الٰہی نازل ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ : تورات و انجیل کی پابندی کرنے کا مطلب دوسرے احکام و حدود کی پابندی کے ساتھ ساتھ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا بھی ہے، کیونکہ دونوں کتابوں میں اس کا حکم موجود ہے۔ ” وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِم “ سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہونے والا قرآن اور آپ کی سنت ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو شخص اہل کتاب میں سے ہو، اپنے نبی پر ایمان لایا ہو اور پھر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی ایمان لائے تو اس کے لیے دگنا ثواب ہے۔ “ [ بخاری، العلم، باب تعلیم الرجل أمتہ و أھلہ : ٩٧ ] لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ ۭ: یعنی آسمان بابرکت بارشیں برساتا، زمین سے کھیتی اور دوسرے خزانوں کی فراوانی ہوجاتی اور انھیں روزی کمانے کے سلسلے میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑتا، جیسا کہ سورة اعراف میں صرف اہل کتاب ہی نہیں ہر قوم اور آبادی کے لیے ایمان اور تقویٰ کی صورت میں یہی بشارت دی گئی ہے، فرمایا : (وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰٓي اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ ) [ الأعراف : ٩٦ ] ” اور اگر واقعی بستیوں والے ایمان لے آتے اور بچ کر چلتے تو ہم ضرور ان پر آسمان اور زمین سے بہت سی برکتیں کھول دیتے۔ “ اب مسلمان بھی اگر یہ نعمت حاصل کرنا چاہیں تو اس کا طریقہ ایمان اور تقویٰ ہے، کفار سے بھیک مانگنا اور ان کے کفریہ طریقے اختیار کرنا نہیں۔ مِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ ۭ: یعنی افراط و تفریط ( زیادتی اور کمی) سے بچ کر در میانے راستے پر چلنے والے ہیں۔ ان سے مراد وہ اہل کتاب ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے، جیسے عبداللہ بن سلام (رض) اور ان کے ساتھی۔ وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ سَاۗءَ مَا يَعْمَلُوْنَ : اس سے مراد بقیہ یہودی ہیں جو ایمان نہیں لائے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

How are Divine Commands carried out in Full? Mentioned in verse 66 which begins with the words: وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَ‌اةَ (And if they had upheld the Torah ...), are some details of the same faith and godliness for which worldly blessings have been promised in the previous verse (65). The detail is that they should, uphold the Torah, the Injil and the Holy Qur&an revealed after them. The word used here does not refer to &acting in accordance with these books&. Instead of that, the word placed here is ` Iqamah& which means to establish, and to make something stand upright and straight. It signifies that their teachings can be carried out fully and correctly only when there is no increase or decrease or shortcoming in them. What is meant to stand straight must stand perfectly straight - established, not tilting. The essence of the verse is that if the Jews were to believe in the guidance of the Torah, the Injil and the Qur&an, even today, and carry out their instructions fully, without failing to act properly, nor opting for excess and transgression by equating self-innovated things with es¬tablished religion, then, they shall deserve the promised blessings of the Hereafter, and the doors of sustenance will be thrown open for them in the present world as well. It will come from above and it will come from beneath. ` Above& and ` beneath,& as obvious, mean suste¬nance which will be available easily and constantly. (Tafsir Kabir) It will be noticed that the earlier verse (65) promised blessings only in the Hereafter. The present verse (66) extends the promise to cover worldly comforts as well. The reason for this may perhaps be that the Jews had taken to malpractices, particularly the practice of altering and distorting Scriptures because of their taste for the temporal and their insatiable greed for money. This became their main hurdle which had stopped them from obeying the Qur&an and the Prophet of Islam despite that they had seen very clear signs of their veracity. They were scared at the idea that by becoming Muslims, their leadership role in the community will be all over. Also gone will be the offer¬ings and gifts which they received as religious high-priests. It was to remove this kind of doubt or apprehension that Almighty Allah prom¬ised to them that if they take to believing truly and acting righteously, nothing will be decreased from their worldly wealth and comfort which would, rather, be increased. Answer to a Doubt Details given above also show that this particular promise was made to Jews who were present during the time of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and were his direct addressees. If they had obeyed the command given to them, they would have had all sorts of blessings in the mortal world as well. So, those who took to the message of faith and good deed, they had these blessings in full - like Najashi (Negus) the King of Ethiopia and Sayyidna ` Abdullah ibn Salam (رض) . However, it is not necessary that for one who abides by faith and good deed, sustenance will be extended as a rule and, vice versa, for one who does not, sustenance will be straightened as a rule. The reason is that, at this place, the purpose is not to describe a general rule. This is a promise made to a particular group under particular conditions. However, as far as the standard or general rule regarding faith and good deeds is concerned, the promise of the blessing of good and pure life is universal - but, that could either take the form of extended means of sustenance, or means which are outwardly constricted, as it has been with the blessed prophets and men of Allah not all of whom had extended sustenance all the time, but they all did have the purest of the pure life. Justice was served when in the last verse (67), it was also added that the evil doings of Jews mentioned in the text do not apply to all Jews. Among them there were moderate people, people who were on the right path. But, the majority was evil doing. ` People on the right path& denotes people who were first Jews and Christians, then believed in the Qur&an and the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم and entered the fold of Islam.

احکام الٰہیہ پر پورا عمل کس طرح ہوتا ہے (قولہ تعالیٰ ) وَلَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ ، اس آیت میں اسی ایمان اور تقویٰ کی کچھ تفصیل مذکور ہے، جس پر دنیوی برکات آرام و راحت کا وعدہ پچھلی آیت میں کیا گیا ہے، اور تفصیل یہ ہے کہ تورات و انجیل اور ان کے بعد جو آخری کتاب قرآن بھیجی گئی اس کو قائم کریں، یہاں عمل کرنے کے بجائے لفظ ” اقامت “ یعنی قائم کرنے کا لایا گیا، مراد یہ ہے کہ ان کی تعلیمات پر پورا پورا صحیح عمل جب ہوگا کہ نہ اس میں کوتاہی اور کمی ہو اور نہ زیادتی، جس طرح کسی عمود کو قائم اسی وقت کہا جاسکتا ہے جب وہ کسی طرف مائل نہ ہو، سیدھا کھڑا ہو اس کا حاصل یہ ہوا کہ یہود اگر آج بھی تورات و انجیل اور قرآن کریم کی ہدایات پر ایمان لے آئیں، اور ان پر پورا پورا عمل مطابق ہدایات کے کریں، نہ عملی کوتاہی میں مبتلا ہوں نہ غلو اور تعدی میں، کہ خود ساختہ چیزوں کو دین قرار دیدیں، تو آخرت کی موعودہ نعمتوں کے مستحق ہوں گے، اور دنیا میں بھی ان پر رزق کے دروازے اس طرح کھول دیئے جائیں گے، کہ اوپر سے رزق برسے گا اور نیچے سے ابلے گا، نیچے اوپر سے مراد بظاہر یہ ہے کہ آسانی کے ساتھ مسلسل رزق عطا ہوگا (تفسیر کبیر) ۔ اوپر کی آیت میں تو صرف آخرت کی نعمتوں کا وعدہ تھا، اس آیت میں دنیاوی آرام و راحت کا وعدہ بھی بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا گیا، اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ یہود کی بدعملی اور احکام توریت و انجیل میں تحریف و تاویل اور توڑ مروڑ کی بڑی وجہ ان کی دنیا پرستی اور حرص مال تھی، اور یہ وہ آفت تھی جس نے ان کو قرآن کریم اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آیات بینات دیکھنے کے باوجود ان کی اطاعت سے روکا ہوا تھا، ان کو خطرہ یہ تھا کہ اگر ہم مسلمان ہوجائیں گے تو ہماری یہ چودھراہٹ ختم ہوجائے گی، اور دینی پیشوا ہونے کی حیثیت سے جو نذرانے اور ہدایا ملتے ہیں ان کا سلسلہ بند ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس وسوسہ کو دور کرنے کے لئے یہ بھی وعدہ فرما لیا کہ اگر وہ سچے طور پر ایمان اور عمل صالح اختیار کرلیں تو ان کی دنیوی دولت و راحت میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی بلکہ زیادتی ہوجائے گی۔ ایک شبہ کا جواب اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ یہ خاص وعدہ ان یہودیوں کے ساتھ کیا گیا تھا جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں موجود اور آپ کے مخاطب تھے۔ وہ اگر ان احکام کو مان لیتے تو دنیا میں بھی ان کو ہر طرح کی نعمت و راحت دے دی جاتی۔ چناچہ اس وقت جن حضرات نے ایمان اور عمل صالح اختیار کرلیا ان کو یہ نعمتیں پوری ملیں جیسے نجاشی سلطان حبشہ اور عبداللہ بن سلام (رض) ، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جب کوئی ایمان و عمل صالح کا پابند ہوجائے تو دنیا میں اس کے لئے رزق کی وسعت ضروری ہوگی، اور جو نہ ہو تو اس کے لئے رزق کی تنگی ضروری ہوگی۔ کیونکہ یہاں کوئی عام قاعدہ ضابطہ بیان فرمانا مقصود نہیں، ایک خاص جماعت سے خاص حالات میں وعدہ کیا گیا ہے۔ البتہ ایمان اور عمل صالح پر عام قاعدہ اور ضابطہ کی صورت سے حیات طیبہ یعنی پاکیزہ زندگی عطا ہونے کا وعدہ عام ہے۔ مگر وہ وسعت رزق کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے اور ظاہری تنگدستی کی صورت میں بھی جیسا کہ انبیاء و اولیاء (علیہم السلام) کے حالات اس پر شاہد ہیں کہ سب کو ہمیشہ وسعت رزق تو نہیں ملی لیکن پاکیزہ زندگی سب کو عطا ہوئی۔ آخر آیت میں بتقاضائے عدل و انصاف یہ بھی فرما دیا کہ جو کجروی اور بدعملی یہود کی بیان کی گئی ہے یہ سب یہود کا حال نہیں، بلکہ مِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ ۭ، ان میں ایک تھوڑی سی جماعت راہ راست پر بھی ہے، لیکن ان کی اکثریت بدکار، بد عمل ہے، راہ راست پر ہونے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو پہلے یہودی یا نصرانی تھے، پھر قرآن کریم اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے۔ ان دونوں آیتوں میں اور ان سے پہلے مسلسل دو رکوع میں یہود و نصاریٰ کی کجروی وبے راہی اور ضد وہٹ دھرمی اور مخالف اسلام سازشوں کا ذکر چلا آرہا تھا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَوْ اَنَّہُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِمْ مِّنْ رَّبِّہِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ۝ ٠ۭ مِنْہُمْ اُمَّۃٌ مُّقْتَصِدَۃٌ۝ ٠ۭ وَكَثِيْرٌ مِّنْہُمْ سَاۗءَ مَا يَعْمَلُوْنَ۝ ٦٦ۧ اقامت والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة/ 43] الاقامتہ ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے توراة التوراة التاء فيه مقلوب، وأصله من الوری، وبناؤها عند الکوفيين : ووراة، تفعلة «4» ، وقال بعضهم : هي تفعلة نحو تنفلة ولیس في کلامهم تفعلة اسما . وعند البصريين وورية، هي فوعلة نحو حوصلة . قال تعالی: إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْراةَ فِيها هُدىً وَنُورٌ [ المائدة/ 44] ، ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْراةِ ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ [ الفتح/ 29] . ( ت و ر ) التوراۃ آسمانی کتاب جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی یہ وری سے مشتق ہے اور تاؤ واو سے مبدل سے علماء کوفہ کے نزدیک یہ وؤراۃ بروزن نفعلۃ ہے اور بعض کے نزدیک تفعل کے وزن پر ہے جیسے تنفل لیکن کلام عرب میں تفعل کے وزن پر اسم کا صیغہ نہیں آتا ۔ علماء بصرہ کے نزدیک یہ وؤری بروزن فوعل ہے جیسے قل قرآن میں ہے ؛۔ إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْراةَ فِيها هُدىً وَنُورٌ [ المائدة/ 44] بیشک ہم نے تو رات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے ۔ ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْراةِ ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ [ الفتح/ 29] . ان کے اوصاف تو رات میں ( مرقوم ) ہیں اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں ۔ أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔ فوق فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة، وذلک أضرب : الأول : باعتبار العلوّ. نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] الثاني : باعتبار الصّعود والحدور . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] . الثالث : يقال في العدد . نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] . الرابع : في الکبر والصّغر مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] . الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة . نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] . السادس : باعتبار القهر والغلبة . نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] ( ف و ق ) فوق یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔ 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] کافروں پر فائق ۔ 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ تحت تَحْت مقابل لفوق، قال تعالی: لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] ، وقوله تعالی: جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ، تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ [يونس/ 9] ، فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] ، يَوْمَ يَغْشاهُمُ الْعَذابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ العنکبوت/ 55] . و «تحت» : يستعمل في المنفصل، و «أسفل» في المتصل، يقال : المال تحته، وأسفله أغلظ من أعلاه، وفي الحدیث : «لا تقوم الساعة حتی يظهر التُّحُوت» «4» أي : الأراذل من الناس . وقیل : بل ذلک إشارة إلى ما قال سبحانه : وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] . ( ت ح ت) تحت ( اسم ظرف ) یہ فوق کی ضد ہے قرآن میں ہے :۔ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] تو ( ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے ۔ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ( نعمت کے ) باغ میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے آواز دی ۔ تحت اور اسفل میں فرق یہ ہے کہ تحت اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے نیچے ہو مگر اسفل کسی چیز کے نچلا حصہ کو جیسے ۔ المال تحتہ ( مال اس کے نیچے ہے ) اس کا نچلا حصہ اعلیٰ حصہ سے سخت ہے ) حدیث میں ہے (48) لاتقوم الساعۃ حتیٰ یظھر النحوت کہ قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ تا وقی کہ کمینے لوگ غلبہ حاصل نہ کرلیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حدیث میں آیت کریمہ ؛۔ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] اور جب یہ زمین ہموار کردی جائے گی اور جو کچھ اس میں سے اسے نکلا کر باہر ڈال دے گی ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ رِّجْلُ : العضو المخصوص بأكثر الحیوان، قال تعالی: وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة/ 6] ، واشتقّ من الرِّجْلِ رَجِلٌ ورَاجِلٌ للماشي بالرِّجْل، ورَاجِلٌ بيّن الرُّجْلَةِ «1» ، فجمع الرَّاجِلُ رَجَّالَةٌ ورَجْلٌ ، نحو : ركب، ورِجَالٌ نحو : رکاب لجمع الرّاكب . ويقال : رَجُلٌ رَاجِلٌ ، أي : قويّ علی المشي، جمعه رِجَالٌ ، نحو قوله تعالی: فَرِجالًا أَوْ رُكْباناً [ البقرة/ 239] ، الرجل ۔ پاؤں ۔ اس کی جمع ارجل آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة/ 6] اپنے سروں کا مسح کرلیا کرو اور اپنے پاؤں بھی ٹخنوں تک دھو لیا کرو ۔ راجل ورجل پا پیادہ چلنے والا یہ بھی الرجل بمعنی پاؤں سے مشتق ہے اور راجل کی جمع رجالۃ اور رجل آتی ہے جیسے رکب جو کہ راکب کی جمع ہے اور راجل کی جمع رجال بھی آجاتی ہے جیسے راکب ورکاب ۔ اور رجل راجل اسے کہتے ہیں جو چلنے پر قدرت رکھتا ہو اس کی جمع رجال آجاتی ہے قرآن میں ہے : ۔ فَرِجالًا أَوْ رُكْباناً [ البقرة/ 239] تو پاؤں پیدل یا سوار ۔ قصد القَصْدُ : استقامة الطریق، يقال : قَصَدْتُ قَصْدَهُ ، أي : نحوت نحوه، ومنه : الِاقْتِصَادُ ، والِاقْتِصَادُ علی ضربین : أحدهما محمود علی الإطلاق، وذلک فيما له طرفان : إفراط وتفریط کالجود، فإنه بين الإسراف والبخل، وکالشّجاعة فإنّها بين التّهوّر والجبن، ونحو ذلك، وعلی هذا قوله : وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ [ لقمان/ 19] وإلى هذا النحو من الاقتصاد أشار بقوله : وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا «2» [ الفرقان/ 67] . والثاني يكنّى به عمّا يتردّد بين المحمود والمذموم، وهو فيما يقع بين محمود و مذموم، کالواقع بين العدل والجور، والقریب والبعید، وعلی ذلک قوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ [ فاطر/ 32] ، وقوله : وَسَفَراً قاصِداً [ التوبة/ 42] أي : سفرا متوسّط غير متناهي هي البعد، وربما فسّر بقریب . والحقیقة ما ذکرت، وأَقْصَدَ السّهم : أصاب وقتل مکانه، كأنه وجد قَصْدَهُ قال : 368- فأصاب قلبک غير أن لم تقصد «3» وانْقَصَدَ الرّمحُ : انکسر، وتَقَصَّدَ : تكسّر، وقَصَدَ الرّمحَ : كسره، وناقة قَصِيدٌ: مکتنزة ممتلئة من اللّحم، والقَصِيدُ من الشّعر : ما تمّ شطر أبنیته «4» . ( ق ص د ) القصد ( ض ) راستہ کا سیدھا ہونا محاورہ ہ قصدث قصدہ میں اس کی طرف سیدھا گیا ۔ اسی سے اقتصاد ہے اوراقتصاد دوقسم ہر ہے (1) محمود عل الاطلاق جو افراط وتفریط کے درمیان میں ہو جیسے سخاوت جو اسراف اور بخل کے مابین کو کہتے ہیں اور شجاعت جو لاپرواہی اور بزدلی کے درمیانی درجہ کا نام ہے چناچہ اسی معنی کے لحاظ سے فرمایا : وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ [ لقمان/ 19] اور اپنی چال میں اعتدال کئے رہنا ۔ اوراقتصادی کی اسی نوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا «2» [ الفرقان/ 67] یعنی اعتدال کے ساتھ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم ۔ (2) قصد کا لفظ کنایہ کے طور پر ہر اس چیز پر بولاجاتا ہے جس کے محمود اور مذموم ہونے میں شبہ ہو یعنی جو نہ بالکل محمود اور بالکل مذموم بلکہ ان کے درمیان میں ہو ۔ مثلا ایک چیز عدلی وجور کے مابین ہو چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ [ فاطر/ 32] و کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں اور کچھ میانہ رو ہیں ۔ اسی طرح درمیانی مسافت پر بھی قصد کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ چناچہ آیت وَسَفَراً قاصِداً [ التوبة/ 42] اور سفر بھی ہلکا سا ہوتا ہے ۔ میں قاصد ا کے معنی معتدل سفر کے ہیں جو زیادہ دو ر کا نہ ہو اور بعض نے اس کا معنی سفر قریب لکھا ہے ۔ لیکن اصل معنی وہی ہیں جو ہم نے بیان کردیئے ہیں ۔ اقصد السھم تیر کا لگ کر فورا ہلاک کردینا ۔ گویا اس نے اپنے قصد کو پالیا ۔ شاعرنے کہا ہے ( الکامل) (355) فاصاب قلبک غیرا ن لم یقصد وہ تیرے دل پر لگا لیکن اس نے قتل نہیں کیا انقصد الرمح کے معنی نیزہ ٹوٹ جانے کے ہیں اور تقصد بمعنی تکسر کے ہے ۔ قصد الرمح نیزہ تؤڑ دیا ۔ ناقۃ قصید گوشت سے گتھی ہوئی اونٹنی ۔ القصید کم ازکم سات اشعار کی نظم ۔ ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

جو آیت آگے آرہی ہے اس پر غور کیجیے اور اسے خود پر بھی منطبق کر کے ذرا سوچئے۔ آیت ٦٦ (وَلَوْ اَنَّہُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰٹۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِمْ مِّنْ رَّبِّہِمْ ) (لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ ط) یعنی ہم نے انہیں تورات اس لیے دی تھی کہ اس کے احکامات کو نافذ کیا جائے۔ اسی سورت کے ساتویں رکوع (آیات ٤٤ تا ٥٠) میں اس کا مفصّل ذکر ہم پڑھ آئے ہیں کہ کس طرح انہیں حکم دیا گیا تھا کہ اپنے فیصلے تورات کے احکامات کے مطابق کرو۔ اس سے اگلا مرحلہ اس پورے نظام کے نفاذ کا تھا جو تورات نے دیا تھا۔ اسی طرح ہم پر بھی فرض ہے کہ ہم نے قرآن کے نظام کو قائم کرنا ہے۔ اس کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے ‘ کہ اگر انہوں نے اللہ کا وہ نظام قائم کیا ہوتا تو ان کے اوپر سے بھی ان کے رب کی طرف سے نعمتوں کی بارش ہوتی اور ان کے قدموں کے نیچے سے بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے دھارے پھوٹتے۔ (مِنْہُمْ اُمَّۃٌ مُّقْتَصِدَۃٌ ط) (وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ سَآءَ مَا یَعْمَلُوْنَ ) ان کا عمل اور رویہ نہایت غلط ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

96 In the Old Testament, Leviticus (chapter 26) and Deuteronomy (chapter 28) record a sermon of Moses in which he impresses upon Israel, in great detail, the bounties and blessings of God with which they would be endowed if they obeyed His commandments, and the afflictions, scourges and devastations that would descend upon them if they disobeyed Him and rejected the Book of God. That sermon of Moses is the best explanation of this verse of the Qur'an.

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :96 بائیبل کی کتاب احبار ( باب ۲٦ ) اور استثناء ( باب ۲۸ ) ” میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ایک تقریر نقل کی گئی ہے جس میں انہوں نے بنی اسرائیل کو بڑی تفصیل کے ساتھ بتایا ہے کہ اگر تم احکام الٰہی کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرو گے تو کس کس طرح اللہ کی رحمتوں اور برکتوں سے نوازے جاؤ گے ، اور اگر کتاب اللہ کو پس پشت ڈال کر نافرمانیاں کرو گے تو کس طرح بلائیں اور مصیبتیں اور تباہیاں ہر طرف سے تم پر ہجوم کریں گی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وہ تقریر قرآن کے اس مختصر فقرے کی بہترین تفسیر ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:66) لو انہم اقاموا۔ اگر وہ (اپنے عمل سے) قائم کرتے۔ یعنی ان پر پورا پورا عمل کرتے۔ لاکلوا۔ لام برائے تاکید ہے اکلوا۔ انہوں نے کھایا۔ وہ ضرور کھاتے ۔ وہ ضرور فراخی رزق پاتے۔ من فوقہم ومن تحت ارجلہم۔ اظہار مبالغہ کے لئے آیا ہے، یعنی ان کو اوپر سے اور نیچے سے (یعنی ہر طرف سے) رزق کی فراخی اور کثرت نصیب ہوتی۔ جیسا کہ اور جگہ ارشاد ہے ولو ان اہل القری امنوا واتقوا الفتحنا علیہم برکت من السماء والارض (7:96) اور اگر ان بستیوں والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے (یعنی ان کو بیشمار برکتوں سے نوازتے) مقتصدۃ۔ اسم فاعل واحد مؤنث۔ اقتصاد (افتعال) مصدر۔ قصد مادہ۔ سیدھے راستہ پر قائم ۔ راست رد۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی ان پر عمل کرتے وار ان میں تحریف نہ کرتے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ وما انزل الیھم سے قرآن مجید مراد ہے (ابن کثیر)8 ہر قسم کی فراوانی مراد ہے یعنی اوپر سے پانی برستا اور نیچے (زمین) سے غلہ اور میوہ پیدا ہوتا اور انہیں روزی کمانے کے سلسلے میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔ (قابن کثیر)9 یعنی افراط وتفریط سے بچ کر اعتدال کی راہ چلنے والا اس گروہ سے مراد وہ اہل کتاب ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے جیسے عبد اللہ بن سلام اور ان کے ساتھی (کبیر)10 یعنی بقیہ یہو دی جو ایمان نہیں لائے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی ان میں جن باتوں پر عمل کرنے کو لکھا ہے سب پر پوراعمل کرتے اس میں تصدیق رسالت بھی آگئی اور اس سے احکام محرفہ ومنسوخہ نکل گئے کیونکہ ان کتب کا مجموعہ ان پر عمل کرنے کو نہیں بتلاتا بلکہ منع کرتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَ لَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰیۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْ ) اور اگر وہ قائم کرتے تو رات کو اور انجیل کو اور جو کچھ ان کی طرف نازل ہوا ہے ان کے رب کی طرف سے تو ضرور کھاتے اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے) مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب اگر توریت اور انجیل کے احکام پر عمل کرتے اور اب جو کچھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا اس پر عمل کرتے تو ان کو دنیا میں بھی خوب اچھی طرح نوزدیا جاتا۔ پہلی آیت میں یہ بتایا کہ ایمان لائیں گے تو جنت ہوں گے اور اس آیت میں یہ بتایا کہ اگر ایمان لاتے اور احکام الہیہ پر عمل کرتے تو اس کی وجہ سے دنیا میں خوب اچھی طرح نوازے جاتے، اوپر سے بھی کھاتے اور پاؤں کے نیچے بھی نعمتیں پاتے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے اس کا یہ مطلب بتایا کہ ان پر خوب بارشیں برستیں اور زمین سے خوب کھانے پینے کی چیزیں اگائی جاتیں۔ معالم التنزیل ج ٢ ص ٥١ میں فراء سے نقل کیا ہے کہ اس سے رزق میں وسعت کردینا مراد ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے محاورے میں کہتے ہیں کہ فلان فی الخیر من قرنہ الی قدمہ (فلاں شخص سر سے پاؤں تک خیر ہی خیر ہے) اس آیت سے اور اعراف کی آیت (وَ لَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرآی اَمَنُوْا وَ اتَّقَوْا) سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ اعمال صالحہ میں لگنے اور گناہوں سے بچنے کی صورت میں (آخرت کی خیر کے ساتھ) بندگان خدا دنیا میں بھی بھر پور نعمتوں سے نواز دیئے جاتے ہیں۔ پھر فرمایا (مِنْھُمْ اُمَّۃٌ مُّقْتَصِدَۃٌ) (ان میں ایک جماعت ہے سیدھی راہ اختیار کرنیوالی) چند اہل کتاب جو ایمان لے آئے تھے جیسے حضرت عبداللہ بن سلام وغیرہ (رض) اس میں ان حضرات کی تعریف فرمائی۔ پھر فرمایا (وَ کَثِیْرٌ مِّنْھُمْ سَآءَ مَا یَعْمَلُوْنَ ) (اور ان میں سے بہت سے وہ ہیں جو برے کرتوت کرتے ہیں) حضرت ابن عباس (رض) نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا عملو ابالقبیح مع التکذیب بالنبی کہ ان لوگوں نے اعمال قبیح کئے اور ساتھ ہی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب بھی کرتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

116 اقامتِ تورات و انجیل سے ان پر کماحقہ عمل کرنا مراد ہے یعنی تورات و انجیل کی تعلیمات پر عمل کریں۔ اللہ کی توحید پر ایمان لائیں۔ غیر اللہ کی نذر و نیاز اور شرک فی التصرف سے احتراز کریں۔ لَاَکَلُوْا الخ یہ وسعت رزق سے کنایہ ہے یا مِنْ فَوْقِھِمْ سے بارش مراد ہے کیونکہ اسی کے ذریعے زمین انواع و اقسام رزق پیدا کرتی ہے اور مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْ سے زمین کی پیداوار پھل، میوے اور غلے وغیرہ مراد ہیں۔ قال ابن عباس وغیرہ یعنی المطر والنبات وقیل المعنی لو سعنا علیم فی ارزاقھم و اکلوا متواصلاً (قرطبی ج 6 ص 241) ۔ 117 اہل کتاب سب کے سب ہی سرکش اور معان نہیں بلکہ کچھ لوگ انصاف دوست اور اعتدال پسند بھی ہیں اس سے وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے یہود و نصاری سے اسلام قبول کرلیا تھا۔ مثلاً عبداللہ بن سلام اور نجاشی وغیرہ۔ لیکن ان کی اکثریت معاند ہے۔ ضد وعناد سے حق کا انکار کرنا اور حق کو چھپانا ان کا کام ہے۔ ساء ما یعمولن من العناد والمکابرۃ و تحریف الحق والاعراض عنہ (روح ج 6 ص 186) ۔ فائدہ :۔ حضرت شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں جہاں یہود و نصاریٰ کے احبارو رہبان کے حالات مذکور ہیں۔ وہاں آجکل کے علماء سوء اور پیران سیاہ کار بھی اس کے تحت داخل ہیں اور جہاں منافقین کا ذکر ہے اس میں آج کل کے سرمایہ دار اور برسر اقتدار طبقہ بھی داخل ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اور اگر یہ اہل کتاب لے آتے اور تقویٰ اور پرہیز گاری کی روش اختیار کرتے تو ہم ضرور ان کی گزشتہ برائیاں ان سے دور کردیتے اور ان کے گناہ معاف کردیتے اور ہم ضرور ان کو چین و آرام اور عیش و عشرت کے باغوں میں داخل کرتے اور اگر یہ اہل کتاب توریت اور انجیل اور اس کتاب کی جواب ان کی ہدایت کے لئے ان کے رب کی جان بسے نازل ہوئی ہے پوری پابندی کرتے تو یقینا یہ لوگ اوپر سے بھی یعنی آسمان سے اور نیچے سے بھی یعنی زمین سے خوب رزق حاصل کرتے کچھ لوگ ان میں سے درمیانہ و یعنی سیدھی راہ پر چلنے والے ہیں اور بہت سے ان میں ایسے ہیں جن کے کام بہت برے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کھاویں اوپر اور نیچے سے یعنی آسمان میں سے ان کو رزق فراخ آوے۔ (موضح القرآن) اوپر کی آیت میں ایمان اور تقویٰ کا ذکر فرمایا جس کا فائدہ یہ ہوتا کہ گناہ معاف ہونے کے بعد جنت ملتی ہے ۔ حدیث شریف میں ہے ان الاسلام یھدم ما کان قبلہ یعنی اسلام قبول کرنے سے پہلیت مام گناہ زائل ہوجاتے ہیں اور تقویٰ کی شرط اس لئے لگائی کہت قویٰ میسر نہ ہو تو جنت ملنے میں تاخیر ہو اور دوزخ کا منہ دیکھنا پڑے۔ سورئہ مریم میں ہے تلک الجنۃ التی نورث من عبادنا من کان تقیا یعنی جنت کا وارث ہم اس شخص کو بنائیں گے جو پرہیز گار اور متقی ہوگا دوسری آیت میں دنیوی برکات کا بھی وعدہ فرمایا کہ اگر یہ لوگ ایمان وتقویٰ اختیار کرتے یعنی تمام کتب سماویہ پر جس میں قرآن کریم بھی داخل ہے ایمان لے آتے تو آسمان سے خوب بارشیں ہوتیں اور زمین سے خوب پیداوار ہوتی اور یہ بافراغت کھاتے۔ جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے۔ ولوانھم امنواتقوا الفتحنا علیھم برکات من السمآء والارض یعنی اگر ایمان اور تقویٰ کی راہ اختیار کرتے تو ہم آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے ان پر کھول دیتے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پھل اور کھیتی کی طرفاشارہ ہو کیونکہ پھل اوپر کی سمت ہوتے ہیں اور کھیتی زمین کے قریب ہوتی ہے۔ امۃ مقتصدہ سے مراد یہود ہیں۔ عبداللہ بن سلام (رض) اور ان کے ساتھی ہوسکتے ہیں اور نصاریٰ میں نجاشی اور ان کے اصحاب ہوسکتے ہیں لیکن عام طور سے اکثریت انہی لوگوں کی ہے جن کے اعمال و کردار بہت ہی برے اور ناپسندیدہ ہیں چونکہ برے لوگوں کی اکثریت عام طور سے حوصلہ شکن ہوتی ہے اور جب مذمت کرنیوالوں اور برا کہنے والوں کی کثرت ہو اور ہر پہلو سے تبلیغ اسلام میں مزاحمت کی جاتی ہو بلکہ بدبخت انسان تبلیغ میں ہر قسم کی رکاوٹ پیدا کر رہے ہوں تو ایسے موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے فرماتے ہیں کہ تم اپنا کام جاری رکھو اور اعدائے اسلام سے بےنیاز ہو کر تبلیغ کرتے رہو۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)