Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 68

سورة المائدة

قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَسۡتُمۡ عَلٰی شَیۡءٍ حَتّٰی تُقِیۡمُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ وَ لَیَزِیۡدَنَّ کَثِیۡرًا مِّنۡہُمۡ مَّاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ طُغۡیَانًا وَّ کُفۡرًا ۚ فَلَا تَاۡسَ عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۶۸﴾

Say, "O People of the Scripture, you are [standing] on nothing until you uphold [the law of] the Torah, the Gospel, and what has been revealed to you from your Lord." And that which has been revealed to you from your Lord will surely increase many of them in transgression and disbelief. So do not grieve over the disbelieving people.

آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب! تم دراصل کسی چیز پر نہیں جب تک کہ تورات و انجیل کو اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اتارا گیا ہے قائم نہ کرو ، جو کچھ آپ کی جانب آپ کے رب کی طرف سے اترا ہے وہ ان میں سے بہتوں کو شرارت اور انکار میں اور بھی بڑھائے گا ہی تو آپ ان کافروں پر غمگین نہ ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

There is no Salvation Except through Faith in the Qur'an Allah says: قُلْ ... say: Allah says: O Muhammad, say, ... يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَى شَيْءٍ ... O People of the Scripture! You have nothing..., meaning no real religion, ... حَتَّىَ تُقِيمُواْ التَّوْرَاةَ وَالاِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ ... ...till you act according to the Tawrah, the Injil, and what has (now) been sent down to you from your Lord (the Qur'an)." until you adhere to and implement the Tawrah and the Injil. That is, until you believe in all the Books that you have that Allah revealed to the Prophets. These Books command following Muhammad and believing in his prophecy, all the while adhering to his Law. Allah's statement, ... وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا ... Verily, the revelation that has come to you from your Lord makes many of them increase in rebellion and disbelief. ... فَلَ تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ So do not grieve for the people who disbelieve, Do not be sad or taken aback by their disbelief. Allah said next,

آخری رسول پر ایمان اولین شرط ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہود و نصاریٰ کسی دین پر نہیں ، جب تک کہ اپنی کتابوں پر اور اللہ کی اس کتاب پر ایمان لائیں لیکن ان کی حالت تو یہ ہے کہ جیسے جیسے قرآن اترتا ہے یہ لوگ سرکشی اور کفر میں بڑھتے جاتے ہیں ۔ پس اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو ان کافروں کیلئے حسرت و افسوس کر کے کیوں اپنی جان کو روگ لگاتا ہے ۔ صابی ، نصرانیوں اور مجوسیوں کی بےدین جماعت کو کہتے ہیں اور صرف مجوسیوں کو بھی علاوہ ازیں ایک اور گروہ تھا ، یہود اور نصاریٰ دونوں مثل مجوسیوں کے تھے ۔ قتادہ کہتے ہیں یہ زبور پڑھتے تھے غیر قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے تھے اور فرشتوں کو پوجتے تھے ۔ وہب فرماتے ہیں اللہ کو پہچانتے تھے ، اپنی شریعت کے حامل تھے ، ان میں کفر کی ایجاد نہیں ہوئی تھی ، یہ عراق کے متصل آباد تھے ، یلوثا کہے جاتے تھے ، نبیوں کو مانتے تھے ، ہر سال میں تیس روزے رکھتے تھے اور یمن کی طرف منہ کر کے دن بھر میں پانچ نمازیں بھی پڑھتے تھے اس کے سوا اور قول بھی ہیں چونکہ پہلے دو جملوں کے بعد انکا ذکر آیا تھا ، اس لئے رفع کے ساتھ عطف ڈالا ۔ ان تمام لوگوں سے جناب باری فرماتا ہے کہ امن و امان والے بےڈر اور بےخوف وہ ہیں جو اللہ پر اور قیامت پر سچا ایمان رکھیں اور نیک اعمال کریں اور یہ ناممکن ہے ، جب تک اس آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ ہو جو کہ تمام جن و انس کی طرف اللہ کے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں ۔ پس آپ پر ایمان لانے والے آنے والی زندگی کے خطرات سے بےخوف ہیں اور یہاں چھوڑ کر جانے والی چیزوں کو انہیں کوئی تمنا اور حسرت نہیں ۔ سورہ بقرہ کی تفسیر میں اس جملے کے مفصل معنی بیان کر دیئے گئے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

68۔ 1 یہ ہدایت اور گمراہی اس اصول کے مطابق ہے جو سنت اللہ رہی ہے۔ یعنی جس طرح بعض اعمال و اشیاء سے اہل ایمان کے ایمان و تصدیق، عمل صالح اور علم نافع میں اضافہ ہوتا ہے، اسی طرح معاصی اور تمرد سے کفر و طغیان میں زیادتی ہوتی ہے۔ اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان فرمایا ہے ــ' فرما دیجئے یہ قرآن ایمان والوں کے لئے ہدایت اور شفا ہے اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں (بہرا پن) ہے اور یہ ان پر اندھا پن ہے۔ گرانی کے سبب ان کو (گویا) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے '" اور ہم قرآن کے ذریعے سے وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لیے شفا اور رحمت ہے اور ظالموں کے حق میں اس سے نقصان ہی بڑھتا ہے " (القرآن) ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٤] جب اس سے معلوم ہوا کہ دین کی اصل بنیاد صرف کتاب اللہ یا منزل من اللہ وحی ہوتی ہے۔ لہذا اپنے ہر عقیدہ اور عمل کو اسی کسوٹی پر پرکھنے سے انسان گمراہی سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ چناچہ یہود و نصاریٰ دونوں کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ تم عقائد و اعمال کو اللہ کی نازل کردہ کتاب پر پیش کر کے خود ہی فیصلہ کرلو کہ تم اس پر ایمان لانے کے دعویٰ میں کس حد تک سچے ہو۔ [١١٥] دیکھئے اسی سورة کی آیت نمبر ٦٤ کا حاشیہ نمبر ١٠٦

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰي شَيْءٍ ۔۔ : تورات و انجیل قائم کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ان میں جو عہد ان سے لیے گئے ان کو پورا کریں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت پر ایمان لانے کے جو دلائل ان کتابوں میں موجود ہیں ان کے مطابق آپ کی نبوت کا اقرار کریں اور تورات و انجیل کے احکام و حدود پر عمل پیرا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر پورے طور پر ان کتابوں پر عمل نہیں کرو گے تو نہ تمہاری کوئی حیثیت اور نہ تمہاری کوئی دین داری۔ (ابن کثیر) یہی بات مسلمانوں پر صادق آتی ہے کہ اگر وہ قرآن پر پوری طرح عمل نہیں کریں گے تو نہ ان کی کچھ حیثیت ہوگی نہ کوئی دین داری۔ وَلَيَزِيْدَنَّ كَثِيْرًا مِّنْهُمْ : دیکھیے اسی سورت کی آیت (٦٤، کا حاشیہ (٣) ۔ فَلَا تَاْسَ عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ : اس لیے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں، اس سے اپنے آپ ہی کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور اس کا وبال خود بھگت کر رہیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Sequence Earlier, the people of the Book were persuaded to embrace Islam. Mentioned now is the futility of their current approach which they claimed to be the God&s truth while it was unworkable in the sight of Allah, insufficient for salvation and dependant on Islam as the only source of salvation. Then, as an antidote to their insistence on remain¬ing disbelievers after being warned, there are words of comfort for the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . The mention of Tabligh of Din had appeared in between as based on particular need and congruity. Commentary Follow the Divine Shari` ah: Instruction for the people of the Book In the first verse (68), the people of the Book, that is, the Jews and Christians were instructed to follow the Divine Shari` ah by making it clear that they would be reduced to nothing if they chose not to abide by the injunctions of the Shari` ah. In other words, if they do not ad-here to the Shari` ah of Islam, all their achievements shall stand wast¬ed. To them Allah had given the privilege of being the progeny of prophets. Then, they had the intellectual excellence of the Torah and the Injil as well. Added to this was the presence of many men of Allah among them who went through strenuous spiritual exertions in their search for truth. But, for all this to be valid and weighty the one bind¬ing condition was that they should follow the Divine Shari` ah. Without it, no genealogical superiority will work, nor would their intellectual excellence or their spiritual strivings become the means of their salvation. This statement provides for Muslims too the crucial guidance that there is no way of Dervishes or path of spiritual realization (Suluk & Tariqat) or repeated strivings to achieve spiritual goals (Mujahadah and Riyadat) or extra-sensory spiritual illumination (Kashf) or having visitations of inspiration (Ilham) which can become the source of spiri¬tual achievement or salvation in the sight of Allah unless there is full adherence to the Shari&ah. To prove one&s obedience to the Divine Shari` ah, the instruction giv¬en in this verse is to follow three things. These are the Torah and Injil which had been revealed earlier for the Jews and Christians while the third one is: وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّ‌بِّكُمْ , that is, what has been revealed to you from your Lord. According to the consensus of the majority of commentators, the Sahabah and the Tabi` in, it means the Holy Qur&an which was sent for the universal community of inviters to faith - including the Jews and Christians - through the (midmost) medium of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Therefore, the verse comes to mean unless you act in accor¬dance with the injunctions brought by the Torah, the Injil and the Qur&an - correctly, fully and totally - no lineal or intellectual excellence of yours shall be valid or acceptable with Allah.& At this point one may wonder why, in this verse, rather than men¬tioning Qur&an by its brief name, as was done with the Torah and the Injil., a long sentence : (and what has been revealed to you from your Lord) has been used. What is the wisdom behind it? It is possible that it may be carrying a hint to what was said by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in which he disclosed that the way he was given the Qur&an which is a treasure of knowledge and wisdom, also given to him were other sources of knowledge and insight, which could be called, in a certain aspect, the explication of the Holy Qur&an as well. The words of the Hadith are: الا انّی اوتیت القرآن و مثلہ معہ الا یوشک رجل شبعان علی اریکتہ یقول علیکم بھذا القرآن فما وجدتم فیہ من حلال فأحلوہ وما وجدتم فیہ من حرام فحرّموہ وان ما حرم رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کما حرم اللہ۔ (ابوداؤد ، ابن ماجہ، دارمی وغیرہا) Remember! I have been given the Qur&an and, with it, (many fields of knowledge) like it - lest, in times to come, some sated man reclining on his couch were to say: For you this Qur&an is sufficient - what you find Halal in it, take that as Halal; and what you find Harm in it, take that as Haram - although, what the Messenger of Allah has declared to be Harm is like what Allah has declared to be Harm. (Abu Dawud, Ibn Ma¬jah, Darimi & others) Three Kinds of Ahkam The Qur&an itself is a testimony of this subject. It says: وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿٤﴾ which means that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) does not say anything on his own - whatever he says is all revealed to him from Almighty Allah; and under conditions when he says something based on his Ijtihad (fully deliberated judgment) and Qiyas (analogical de-duction) - following which he receives no guidance contrary to it - then, consequently, that Qiyas and Ijtihad too hold the same legal force as that of an injunction revealed through Wahy. In a nutshell, we can say that, out of the injunctions (Ahkam) given to the Ummah by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) first come those which have been mentioned clearly in the Holy Qur&an. Then, there are those which have not been mentioned in the Qur&an clearly, instead of which, they were revealed to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) through a separate Wahy (Wahy Ghayr Matlu: Revelation not recited). Thirdly, the command which he gave as based on his Ijtihad and Qiyas - following which no command was revealed by Almighty Allah - then, that too takes the legal force of a revealed injunction. It is obligatory to follow all these three kinds of injunctions. They are included within the purview of وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّ‌بِّكُمْ (What has been revealed to you from your Lord). It is also possible that the use of the longer sentence: وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّ‌بِّكُمْ (and what has been revealed to you from your Lord) in place of the likely brief name of Qur&an in this verse may have been preferred so as to indicate that the following of all injunctions given in the Qur&an or given by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is equally mandatory. Another point worth noting in this verse is that the Jews and Christians have been asked to follow the injunctions of all three Books, that is, the Torah, the Injil and the Qur&an - although, some of them abrogate others. The Injil abrogates some injunctions of the Torah and the Qur&an abrogates many injunctions of the Torah and the Injil. How then, could the sum of three be followed in action? The answer is clear. Since every incoming Book changed some injunctions of the outgoing Book, it becomes obvious that following the replaced modality, in itself, amounts to acting in accordance with both Books. Following and acting in accordance with abrogated injunctions is against the requirement of both Books. Allah consoles His Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) To console the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) it was said at the end that there will be many among the people of the Book who would fail to benefit by the Divine magnanimity shown to them. They may even react adversely by increasing the tempo of their disbelief and hostility. Let this be no cause of grief to him, nor should he have any sympa¬thetic concern for them.

ربط آیات اوپر اہل کتاب کو اسلام کی ترغیب تھی، آگے ان کے موجودہ طریقہ کا جس کے حق ہونے کے وہ مدعی تھے عند اللہ ناکارہ اور نجات میں ناکافی ہونا اور نجات کا اسلام پر موقوف ہونا مذکور ہے۔ اور اس کے بعد بھی ان کے اصرار علی الکفر پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے تسلی کا مضمون ارشاد فرمایا ہے اور درمیان میں ایک خاص مناسبت اور ضرورت سے تبلیغ کا مضمون آگیا تھا۔ خلاصہ تفسیر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان یہود و نصاریٰ سے) کہئے کہ اے اہل کتاب تم کسی راہ پر بھی نہیں (کیونکہ غیر مقبول راہ پر ہونا مثل بےراہی کے ہے) جب تک کہ توریت کی اور انجیل کی اور جو کتاب (اب) تمہارے پاس (بواسطہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے) تمہارے رب کی طرف سے بھیجی گئی ہے (یعنی قرآن) اس کی بھی پوری پابندی نہ کروگے (جس کے معنی اور ترغیب اور برکات اوپر مذکور ہوئے ہیں) اور (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ ان میں اکثر لوگ تعصب مذموم میں مبتلا ہیں اس لئے یہ) ضرور (ہے کہ) جو مضمون آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کی طرف سے بھیجا جاتا ہے وہ ان سے بہتوں کی سرکشی اور کفر کی ترقی کا سبب ہوجاتا ہے (اور اس میں ممکن ہے کہ آپ کو رنج و غم ہو، لیکن جب یہ معلوم ہوگیا کہ یہ لوگ متعصب ہیں) تو آپ ان کافر لوگوں (کی اس حالت) پر غم نہ کیا کیجئے، یہ تحقیقی بات ہے کہ اور یہودی اور فرقہ صائبین اور نصاریٰ (ان سب میں) جو شخص یقین رکھتا ہو اللہ (کی ذات وصفات) پر اور قیامت پر اور کارگزاری اچھی کرے (یعنی موافق قانون شریعت کے) ایسوں پر (آخرت میں) نہ کسی طرح کا اندیشہ ہے اور نہ وہ مغموم ہوں گے۔ معارف و مسائل اہل کتاب کو شریعت الٓہیہ کے اتباع کی ہدایت پہلی آیت میں اہل کتاب، یہود و نصاریٰ کو شریعت الٓہیہ کے اتباع کی ہدایت اس عنوان سے فرمائی گئی تھی کہ اگر تم نے احکام شرعیہ کی پابندی نہ کی تو تم کچھ نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ شریعت اسلام کی پابندی کے بغیر تمہارے سارے کمالات اور اعمال سب اکارت ہیں۔ تم کو اللہ تعالیٰ نے ایک کمال فطری یہ عطا فرمایا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی اولاد ہو، دوسرے تورات و انجیل کے عملی کمالات بھی تمہیں حاصل ہیں، تم میں سے بہت سے آدمی درویش منش بھی ہیں، مجاہدات و ریاضیات کرتے ہیں، مگر ان سب چیزوں کی قیمت اور وزن اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف اس پر موقوف ہے کہ تم شریعت الٓہیہ کا اتباع کرو۔ اس کے بغیر نہ کوئی نسبی فضیلت کام آوے گی نہ علمی تحقیقات تمہاری نجات کا سامان بنیں گی نہ تمہارے مجاہدات و ریاضیات۔ اس ارشاد میں مسلمانوں کو بھی یہ ہدایت مل گئی کہ کوئی درویشی اور سلوک و طریقت، مجاہدات و ریاضیات اور کشف والہام اس وقت تک اللہ کے نزدیک فضیلت اور نجات کی چیز نہیں جب تک کہ شریعت کی پوری پابندی نہ ہو۔ اس آیت میں شریعت الٓہیہ کی پیروی کے لئے تین چیزوں کے اتباع کی ہدایت کی گئی ہے۔ اول تورات، دوسرے انجیل جو یہود و نصاریٰ کے لئے پہلے نازل ہوچکی تھیں، تیسری وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ ، یعنی جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے پاس بھیجا گیا۔ جمہور مفسرین، صحابہ (رض) وتابعین رحمة اللہ علیہم کا اس پر اتفاق ہے کہ اس سے مراد قرآن کریم ہے جو تمام امت دعوت کے لئے بشمول یہود و نصاریٰ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطہ سے بھیجا گیا، اس لئے معنے آیت کے یہ ہوں گے کہ جب تک تم تورات، انجیل اور قرآن کے لائے ہوئے احکام پر صحیح صحیح اور پورا پورا عمل نہ کرو گے تمہارا کوئی نسبی یا علمی کمال اللہ کے نزدیک مقبول و معتبر نہیں ہوگا۔ یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ اس آیت میں تورات و انجیل کی طرح قرآن کا مختصر نام ذکر کردینے کے بجائے ایک طویل جملہ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ استعمال فرمایا گیا ہے۔ اس میں کیا حکمت ہے ؟ ہوسکتا ہے کہ اس میں ان احادیث کے مضمون کی طرف اشارہ ہو جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس طرح مجھے علم و حکمت کا خزانہ قرآن کریم دیا گیا، اسی طرح دوسرے علوم و معارف بھی عطا کئے گئے ہیں۔ جن کو ایک حیثیت سے قرآن کریم کی تشریح بھی کہا جاسکتا ہے حدیث کے الفاظ یہ ہیں : ترجمہ ” یاد رکھو ! کہ مجھے قرآن دیا گیا اور اس کے ساتھ اسی کے مثل اور بھی علوم دیئے گئے، آئندہ زمانہ میں ایسا ہونے والا ہے کہ کوئی شکم سیر راحت پسند یہ کہنے لگے کہ تم کو صرف قرآن کافی ہے، جو اس میں حلال ہے صرف اس کو حلال سمجھو، اور جو اس میں حرام ہے صرف اس کو حرام سمجھو، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرام ٹھہرایا ہے وہ بھی ایسے ہی حرام ہے جیسی اللہ تعالیٰ کے کلام کے ذریعہ حرام کی ہوئی اشیاء حرام ہیں “۔ (ابو داؤد، ابن ماجہ، دارمی وغیرہا) ۔ احکام کی تین اقسام اور خود قرآن بھی اسی مضمون کا شاید ہے : (آیت) وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی، یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی بات اپنی طرف سے نہیں کہتے، جو کچھ آپ فرماتے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوتا ہے، اور جن حالات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی بات اپنے اجتہاد اور قیاس کے ذریعہ فرماتے ہیں اور بذریعہ وحی پھر اس کے خلاف آپ کو کوئی ہدایت نہیں ملتی تو انجام کار وہ قیاس اور اجتہاد بھی حکم وحی ہوجاتا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہوا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو احکام امت کو دیئے ان میں ایک تو وہ ہیں جو قرآن کریم میں صراحةً مذکور ہیں، دوسرے وہ ہیں جو صراحةً قرآن میں مذکور نہیں بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جداگانہ وحی کے ذریعہ نازل ہوئے، تیسرے وہ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اجتہاد و قیاس سے کوئی حکم دیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے خلاف کوئی حکم نازل نہیں فرمایا، وہ بھی بحکم وحی ہوگیا، یہ تینوں قسم کے احکام و اجب الاتباع ہیں اور وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ میں داخل ہیں۔ شاید آیت مذکورہ میں قرآن کا مختصر نام چھوڑ کر یہ طویل جملہ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ اسی طرف اشارہ کرنے کے لئے لایا گیا ہو کہ ان تمام احکام کا اتباع لازم و واجب ہے جو صراحةً قرآن میں مذکور ہوں، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ احکام دیئے ہوں۔ دوسری بات اس آیت میں یہ قابل غور ہے کہ اس میں یہود و نصاریٰ کو تورات، انجیل، قرآن تینوں کے احکام پر عمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، حالانکہ ان میں سے بعض بعض کے لئے ناسخ ہیں۔ انجیل نے تورات کے بعض احکام کو منسوخ ٹھہرایا اور قرآن نے تورات اور انجیل کے بہت سے احکام کو منسوخ قرار دیا۔ تو پھر تینوں کے مجموعہ پر عمل کیسے ہو ؟ جواب واضح ہے کہ ہر آنے والی کتاب نے پچھلی کتاب کے جن احکام کو بدل دیا، تو بدلے ہوئے طریقہ پر عمل کرنا ہی ان دونوں کتابوں پر عمل کرنا ہے۔ منسوخ شدہ احکام پر عمل کرنا دونوں کتابوں کے مقتضاء کے خلاف ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک تسلی آخر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لئے ارشاد فرمایا کہ اہل کتاب کے ساتھ ہماری اس رعایت و عنایت کے باوجود ان میں بہت سے لوگ ایسے ہوں گے کہ اس عنایت ربانی سے کوئی فائدہ نہ اٹھائیں گے، بلکہ ان کا کفر وعناد اور بڑھ جائے گا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے غمگین نہ ہوں، اور ایسے لوگوں پر ترس نہ کھائیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰي شَيْءٍ حَتّٰي تُقِيْمُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ۝ ٠ۭ وَلَيَزِيْدَنَّ كَثِيْرًا مِّنْہُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَّكُفْرًا۝ ٠ۚ فَلَا تَاْسَ عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ۝ ٦٨ حَتَّى حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] . ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع، وفي كلّ واحد وجهان : فأحد وجهي النصب : إلى أن . والثاني : كي . وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي : مشیت فدخلت البصرة . والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي : «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔ اقامت والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة/ 43] الاقامتہ ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے توراة التوراة التاء فيه مقلوب، وأصله من الوری، وبناؤها عند الکوفيين : ووراة، تفعلة «4» ، وقال بعضهم : هي تفعلة نحو تنفلة ولیس في کلامهم تفعلة اسما . وعند البصريين وورية، هي فوعلة نحو حوصلة . قال تعالی: إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْراةَ فِيها هُدىً وَنُورٌ [ المائدة/ 44] ، ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْراةِ ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ [ الفتح/ 29] . ( ت و ر ) التوراۃ آسمانی کتاب جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی یہ وری سے مشتق ہے اور تاؤ واو سے مبدل سے علماء کوفہ کے نزدیک یہ وؤراۃ بروزن نفعلۃ ہے اور بعض کے نزدیک تفعل کے وزن پر ہے جیسے تنفل لیکن کلام عرب میں تفعل کے وزن پر اسم کا صیغہ نہیں آتا ۔ علماء بصرہ کے نزدیک یہ وؤری بروزن فوعل ہے جیسے قل قرآن میں ہے ؛۔ إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْراةَ فِيها هُدىً وَنُورٌ [ المائدة/ 44] بیشک ہم نے تو رات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے ۔ ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْراةِ ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ [ الفتح/ 29] . ان کے اوصاف تو رات میں ( مرقوم ) ہیں اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں ۔ زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ أسَو ( اسوه، تاس) الأُسْوَة والإِسْوَةُ کالقدوة والقدوة، وهي الحالة التي يكون الإنسان عليها في اتباع غيره إن حسنا وإن قبیحا، وإن سارّا وإن ضارّا، ولهذا قال تعالی: لَقَدْ كانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ [ الأحزاب/ 21] ، فوصفها بالحسنة، ويقال : تَأَسَّيْتُ به، والأَسَى: الحزن . وحقیقته : إتباع الفائت بالغم، يقال : أَسَيْتُ عليه وأَسَيْتُ له، قال تعالی: فَلا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكافِرِينَ [ المائدة/ 68] ( ا س و ) الاسوۃ والاسوۃ قدوۃ اور قدوۃ کی طرح ) انسان کی اس حالت کو کہتے ہیں جس میں وہ دوسرے کا متبع ہوتا ہے خواہ وہ حالت اچھی ہو یا بری ، سرور بخش ہو یا تکلیف وہ اس لئے آیت کریمہ ؛ ۔ { لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ } ( سورة الأحزاب 21) تمہارے لئے پیغمبر خدا میں اچھا اسوہ ہے ۔ میں اسوۃ کی صفت حسنۃ لائی گئی ہے ۔ تاسیت بہ میں نے اس کی اقتداء کی ۔ الاسٰی بمعنی حزن آتا ہے اصل میں اس کے معنٰی کسی فوت شدہ چیز پر غم کھانا ہوتے ہیں ۔ اسیت علیہ اسی واسیت لہ ۔ کسی چیز پر غم کھانا قرآن میں ہے ۔ { فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ } ( سورة المائدة 68) تو تم قوم کفار پر افسوس نہ کرو ۔ شاعر نے کہا ہے ع (16) اسیت الاخوانی ربعیہ میں نے اپنے اخوال بنی ربعیہ پر افسوس کیا ۔ یہ اصل میں ( ناقص) وادی سے ہے کیونکہ محاورہ میں غمگین آدمی کو اسوان ( بالفتح ) کہا جاتا ہے ۔ الاسو کے معنی زخم کا علاج کرنے کے ہیں ۔ اصل میں اس کے معنی ازالہ غم کے ہیں اور یہ کر بت میں اس کے معنی ازالہ غم کے ہیں اور یہ کر بت النخل کی طرح ہے جس کے معنی کھجور کے درخت کی شاخوں کی جڑوں کو دور کرنے کے ہیں کہا جاتا ہے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے قل یاھل التکب لستم علی شی حتی تقیمو التوراۃ والانجیل وما انزل الیکم من ربکم صاف کہہ دو اے اہل کتاب ! تم ہرگز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو جو تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہیں ۔ آیت میں اہل کتاب کو تورات اور انجیل میں مندرج احکامات پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس لیے کہ ان دونوں کتابوں کو قائم کرنے کے معنی ان دونوں پر نیز قرآن پر عمل پیرا ہونا ہے اس لیے کہ قول باری وما انزل الیکم من ربکم کی حقیقت اس بات کی مقتضی ہے کہ اس سے مراد وہ کتاب لی جائے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی ہے۔ اس صورت میں خطاب اہل کتاب سے ہوگا اگرچہ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد وہ کتابیں لی جائیں جو اللہ تعالیٰ نے انبیائے سابقین کے زمانے میں ان کے آبائو اجداد کے لیے نازل کی تھیں ۔ قول باری الستم علی اشی اس مفہوم کا مقتضی ہے کہ تم کسی طرح بھی دین حق پر نہیں ہوسکتے جب تک تم تورات ، انجیل اور قرآن کے احکامات پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔ اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ انبیائے سابقین کی شریعتوں کی جو باتیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے تک منسوخ نہیں ہوئیں ان کا حکم ثابت اور ان پر عمل پیرا ہونے کی پابندی ہے نیز یہ کہ اب وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کا حصہ ہیں ۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو اہل کتاب کو ان باتوں پر ثابت قدم رہنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کا حکم نہ دیا جاتا ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ یہ بات تو واضح ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک کے ذریعے انبیائے سابقین کی شریعتوں کے بہت سے احکامات منسوخ کردیئے گئے ۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ آیت زیر بحث کا نزول ان جیسے احکامات کی منسوخی کے بعد ہوا ہو اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ اہل کتاب کو ان باتوں پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات اور بعثت کے سلسلے میں تورات اور انجیل میں مذکور ہیں۔ نیز انہیں قرآن کی اس دلالت پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے جو اس کتاب کے اعجاز کی نشاندہی کرتی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی سچائی کی موجب ہے۔ جب آیت میں یہ احتمال پیدا ہوگیا تو پھر ابنیائے متقدمین کی شریعتوں کی بقا پر اس کی دلالت ختم ہوگئی ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ آیت یا تو انبیائے متقدمین کی شریعتوں کے نسخ سے پہلے نازل ہوئی ہے یا ان میں سے بہت سی باتوں کے نسخ کے بعد اس کا نزول ہوا ہے۔ پہلی صورت کے اندر آیت میں ان پر عمل پیرا ہونے کا حکم ہے اور ان کے حکم کی بقاء کی خبر ہے۔ اگر دوسری صورت ہو تو جو باتیں منسوخ نہیں ہوئی ہیں ان کا حکم ثابت اور باقی رہے گا جس طرح ہم عموم کے حکم پر اس وقت تک عمل پیرا رہتے ہیں جب تک تخصیص کی کوئی دلالت قائم نہیں ہوجاتی ہے اس طرح تورات اور انجیل کی وہ باتیں جن کا نسخ کسی طور پر درست نہیں ان پر بھی عمل پیرا ہونا ضروری ہوگا۔ مثلاً حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات اور آپ کی بعثت سے تعلق رکھنے والی باتیں اسی طرح وہ باتیں جو عقلی طور پر درست ہیں اور انسانی عقول جن کی مقتضی اور موجب ہیں ۔ اس لیے آیت کے اندر بہر صورت انبیائے سابقین کی شریعتوں کے غیر منسوخ شدہ حصوں کے حکم کے بقا پر دلالت موجود ہے ، نیز یہ دلالت بھی موجود ہے کہ اب یہ باتیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لائی ہوئی شریعت کا جزبن گئی ہیں ۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٨) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ یہود ونصاری سے فرما دیجیے کہ تم دین الہی میں سے کسی راہ پر نہیں، جب تک کہ توریت انجیل اور تمام کتابوں اور تمام رسولوں کا اقرار نہ کرو، اور جو قرآن کریم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، وہ قرآن ان کفار (یہود ونصاری) کی تحریف بالکتاب کا پردہ چاک کرتا ہے جو انکی سرکشی اور کفر پر جمے رہنے کا باعث ہوتا ہے، اگر یہ لوگ ایمان نہ لانے کی وجہ سے اپنے کفر کی حالت میں ہلاک ہوجائیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کا فکر مت کیجیے کہ کافروں کا یہی انجام ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح ) شان نزول : (آیت) ” قل یاھل الکتب لستم “۔ (الخ) ابن جریر (رح) اور ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رافع اور سلام بن مشکم اور مالک بن صیف آکر کہنے لگے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سمجھتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت اور اس کے دین پر ہیں اور جو کتاب ہمارے پاس ہے اس پر ایمان رکھتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں مگر تم نے نئی باتیں پیدا کرلی ہیں اور جو تمہاری کتاب میں ہے، اس کا انکار کرتے ہو اور جس چیز کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے کہ اسے لوگوں کے سامنے بیان کر دو ، اسے چھپاتے ہو تو انہوں نے کہا جو ہمارے پاس ہے، ہم اس پر عمل کرتے ہیں اور ہم ہدایت اور حق پر ہیں، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اے اہل کتاب تم کسی راہ پر بھی نہیں (الخ)

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٨ (قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلَی شَیءٍ ) تمہاری کوئی حیثیت نہیں ہے ‘ کوئی مقام نہیں ہے ‘ کوئی جڑ بنیاد نہیں ہے ‘ تم ہم سے ہم ‘ کلام ہونے کے مستحق نہیں ہو۔ (حَتّٰی تُقِیْمُوا التَّورٰٹۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ ط) ۔ اب اپنے لیے اس آیت کو آپ اس طرح پڑھ لیجیے : یٰٓاَہْلَ الْقُرآنِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْءٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا الْقُرْآنَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْاے قرآن کے ماننے والو ! تمہاری کوئی حیثیت نہیں۔۔ تم سمجھتے ہو کہ ہم امت مسلمہ ہیں ‘ اللہ والے ہیں ‘ اللہ کے لاڈلے اور پیارے ہیں ‘ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امتیّ ہیں۔ لیکن تم دیکھ رہے ہو کہ ذلتّ و خواری تمہارا مقدر بنی ہوئی ہے ‘ ہر طرف سے تم پر یلغار ہے ‘ عزت و وقار نام کی کوئی شے تمہارے پاس نہیں رہی۔ تم کتنی ہی تعداد میں کیوں نہ ہو ‘ دنیا میں تمہاری کوئی حیثیت نہیں ‘ اور اس سے زیادہ بےتوقیری کے لیے بھی تیار رہو۔ تمہاری کوئی اصل نہیں جب تک تم قائم نہ کرو قرآن کو اور اس کے ساتھ جو کچھ مزید تم پر تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ قرآن وحی جلی ہے۔ اس کے علاوہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی خفی کے ذریعے سے بھی تو احکامات ملتے تھے اور سنتّ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی خفی کا ظہور ہی تو ہے۔ تو جب تک تم کتاب و سنت کا نظام قائم نہیں کرتے ‘ تمہاری کوئی حیثیت نہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ یَا اَہْلَ الْقُرْآنِ کا خطاب خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں دیا ہے۔ میرے کتابچے مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق میں یہ حدیث موجود ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں : َ (یَا اَھْلَ الْقُرْآنِ لَا تَتَوَسَّدُوا الْقُرْآنَ ‘ وَاتْلُوْہُ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ مِنْ آنَاء اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ ‘ وَأَفْشُوْہُ وَتَغَنَّوْہُ وَتَدَبَّرُوْا ما فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) (١) اے اہل قرآن ‘ قرآن کو اپنا تکیہ نہ بنا لینا ‘ بلکہ اسے پڑھا کرو رات کے اوقات میں بھی اور دن کے اوقات میں بھی ‘ جیسا کہ اس کے پڑھنے کا حق ہے ‘ اور اسے عام کرو اور خوش الحانی سے پڑھو اور اس میں تدبر کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (وَلَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّکُفْرًا ج) ۔ ان کی سرکشی اور طغیانی میں اور اضافہ ہوگا ‘ ان کی مخالفت اور بڑھتی چلی جائے گی ‘ حسد کی آگ میں وہ مزید جلتے چلے جائیں گے۔ (فَلاَ تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ ۔ نبی چونکہ اپنی امت کے حق میں نہایت رحیم و شفیق ہوتا ہے لہٰذا وہ لوگوں پر عذاب کو پسند نہیں کرتا اور قوم پر عذاب کے تصور سے اسے صدمہ ہوتا ہے۔ پھر خصوصاً جب وہ اپنی برادری بھی ہو ‘ جیسا کہ بنی اسماعیل ( علیہ السلام) تھے ‘ تو یہ رنج و صدمہ دوچند ہوجاتا ہے۔ چناچہ جب ان کے بارے میں سورة یونس اور سورة ہود میں عذاب کی خبریں آرہی تھیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہت فکر مند اور غمگین ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بالوں میں یک دم سفیدی آگئی۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے پوچھا ‘ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہوا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بڑھاپا طاری ہوگیا ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (شَیَّبَتْنِیْ ھُوْدٌ وَاَخَوَاتُھَا ) (٢) مجھے سورة ہود اور اس کی بہنوں (ہم مضمون سورتوں) نے بوڑھا کردیا ہے۔ کیونکہ ان سورتوں کا انداز ایسا ہے کہ جیسے اب مہلت ختم ہوئی چاہتی ہے اور عذاب کا دھارا چھوٹنے ہی والا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

97. By 'establishing the Torah and the Gospel' is meant observing them honestly and making them the law of life. It should be noted here that the Scriptures which comprise the Bible consist of two kinds of writings. One was composed by the Jewish and Christian authors themselves. The second consists of those portions which have been recorded as either the injunctions of God or as the utterances of Moses, Jesus and other Prophets. Such portions are those in which it has been categorically stated that God said so and so, or that a particular Prophet said so and so. If we were to exclude the portions belonging to the first category and carefully study those belonging to the second we would notice that their teachings are not perceptibly different from those of the Qur'an. It is true that the second category has not altogether escaped the tamperings of translators, scribes and exegetes, and the errors of oral transmitters. Nevertheless, one cannot help feeling that the teachings embodied in the second category call man to the same pure monotheism as the Qur'an, that they propound those very beliefs propounded by the Qur'an and that they direct man to the same way of life as that to which the Qur'an seeks to direct him. Hence, had the Jews and the Christians adhered to the teaching attributed in their Scriptures to God and the Prophets they would certainly have become a truth-loving and truth-oriented group of people and would have been able to see in the Qur'an that very light which illuminates the earlier divine Scriptures. There would then have been no question of their abandoning their religion in order to follow the Prophet (peace be on him). To follow him would have caused neither break nor discontinuity; they would simply have gone one stage further along the same road. 98. Instead of reflecting on this seriously and dispassionately, they were seized by a fit of intransigence which intensified their opposition.

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :97 توراۃ اور انجیل کو قائم کرنے سے مراد راست بازی کے ساتھ ان کی پیروی کرنا اور انہیں اپنا دستور زندگی بنانا ہے ۔ اس موقع پر یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ بائیبل کے مجموعہ کتب مقدسہ میں ایک قسم کی عبارات تو وہ ہیں جو یہودی اور عیسائی مصنفین نے بطور خود لکھی ہیں ۔ اور دوسری قسم کی عبارات وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ارشادات یا حضرت موسیٰ علیہ السلام ، عیسیٰ علیہ السلام اور دوسرے پیغمبروں کے اقوال ہونے کی حیثیت سے منقول ہیں اور جن میں اس بات کی تصریح ہے کہ اللہ نے ایسا فرمایا یا فلاں نبی نے ایسا کہا ۔ ان میں سے پہلی قسم کی عبارات کو الگ کر کے اگر کوئی شخص صرف دوسری قسم کی عبارات کا تَتَبُّع کرے تو بآسانی یہ دیکھ سکتا ہے کہ ان کی تعلیم اور قرآن کی تعلیم میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہے ۔ اگرچہ مترجموں اور ناسخوں اور شارحوں کی دراندازی سے ، اور بعض جگہ زبانی راویوں کی غلطی سے ، یہ دوسری قسم کی عبارات بھی پوری طرح محفوظ نہیں رہی ہیں ، لیکن اس کے باوجود کوئی شخص یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان میں بعینہ اسی خالص توحید کی دعوت دی گئی ہے جس کی طرف قرآن بلا رہا ہے ، وہی عقائد پیش کیے گئے ہیں جو قرآن پیش کرتا ہے اور اسی طریق زندگی کی طرف رہنمائی کی گئی ہے جس کی ہدایت قرآن دیتا ہے ۔ پس حقیقت یہ ہے کہ اگر یہودی اور عیسائی اسی تعلیم پر قائم رہتے جو ان کتابوں میں خدا اور پیغمبروں کی طرف سے منقول ہے تو یقینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت وہ ایک حق پرست اور راست رو گروہ پائے جاتے اور انہیں قرآن کے اندر وہی روشنی نظر آتی جو پچھلی کتابوں میں پائی جاتی تھی ۔ اس صورت میں ان کے لیے نبی صلی علیہ وسلم کی پیروی اختیار کرنے میں تبدیل مذہب کا سرے سے کوئی سوال پیدا ہی نہ ہوتا بلکہ وہ اسی راستہ کے تسلسل میں ، جس پر وہ پہلے سے چلے آرہے تھے ، آپ کے متبع بن کر آگے چل سکتے تھے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :98 یعنی یہ بات سن کر ٹھنڈے دل سے غور کرنے اور حقیقت کو سمجھنے کے بجائے وہ ضد میں آکر اور زیادہ شدید مخالفت شروع کر دیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(68 ۔ 69) ۔ معتبر سند سے ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ رافع بن حرملہ اور مالک بن ضعیف اور چند یہود ایک روز آنحضرت کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ کیا اپنے آپ کو ملت ابراہیمی پر بتلاتے ہیں اور ہماری کتاب کو حق نہیں مانتے آپ نے فرمایا یہ سچ ہے کہ تمہاری کتاب برحق ہے لیکن تم نے بہت سے احکام الٰہی کو بدل ڈالا ہے انہوں نے جواب دیا جس طریقہ پر ہم ہیں وہ حق ہے ہم اس کے سوا ہرگز کوئی طریقہ اور اختیار نہ کریں گے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ٢ ؎۔ حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ یہود اور نصاریٰ اور دھریہ لوگ جب تک مناسب وقت شریعت کو نہ مانیں گے تو بغیر شریعت کے نہ دہریہ نجات پاسکتے ہیں نہ شریعت منسوخہ پر اڑے رہنے سے اہل کتاب کی نجات ہوسکتی ہے اور تورات اور انجیل میں تو نبی آخر الزمان پر ایمان لانے کی سخت تاکید ہے پھر اس مسئلہ کو بدل کر اور چھپا کر اہل کتاب کا یہ کہنا کہ ہم تورات اور انجیل پر قائم ہیں بالکل غلط ہے جب تک تورات اور انجیل پر یہ لوگ پورا ایمان نہ لاویں گے جس ایمان میں نبی آخر الزمان کے برحق ہونے کا اعتقاد بھی داخل ہے تو ان کا ایمان لا شیء محض ہے اب آگے فرمایا کہ اہل کتاب کا تورات اور انجیل پر قائم ہو کر شریعت وقتیہ کا پابند ہونا تو درکنار شریعت وقتیہ میں جوں جوں ان کی بد اعمالی کی مذمت بڑھتی جاتی ہے اسی قدر ان کی سرکشی بڑھتی جاتی ہے اور یہ اس بات کی نشانی ہے کہ یہ لوگ علم الٰہی میں شریع وقتیہ کے منکر قرار پا چکے ہیں اس لئے اے رسول اللہ ایسے لوگوں کی حالت پر تمہیں کچھ افسوس نہ کرنا چاہیے پھر یہ بھی فرمایا کہ اہل کتاب اپنی کتابوں کے پورے پابند ہو اگر شریعت وقتیہ کو مانیں گے اور شریعت وقتیہ کے موافق نیک کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو عقبیٰ کی سب سختیوں سے بےخوف و خطر کر دے گا۔ اہل کتاب تو اپنے آپ کو ظاہر میں شریعت موسوی اور شریعت عیسوی کا پابند بھی کہتے ہیں لیکن دھریہ فرقہ ہے جو کسی شریعت کا ظاہر میں بھی پابند نہیں ہے۔ اس لئے صائبین نہیں فرمایا بلکہ صائبون فرما کر اس فرقہ کا ذکر سلسلہ ٔ کلام سے الگ یوں فرمایا کہ اگر اس فرقے کے لوگ بھی اپنے دھریہ پنے سے توبہ کر کے شریعت وقتیہ کو مانیں گے اور شریعت وقتیہ کے موافق نیک کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو بھی عقبیٰ کی سب سختیوں سے بےخوب و خطر کر دیوے گا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:68) لستم علی شییٔ۔ تم کسی چیز پر نہیں ہو۔ تم کسی اصل پر نہیں ہو۔ تم کسی دین پر تصور نہیں کئے جاؤ گے۔ فلا تاس علی القوم الکفرین۔ آپ افسوس نہ کریں کافروں پر۔ فلا تحزن علیہم فان ضرر ذلک لاحق بہم۔ آپ غم نہ کھائیں ان پر اس کفر کا بدلہ وہ خود ہی پالیں گے (کشاف)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 تورات اور انجیل کی اقامت کے معنی یہ ہیں کہ ان میں جو عہد ان سے دلائل موجود ہیں ان کا اقرار کریں اور تورات وانجیل کے احکام وحدود پر عمل پیرا ہوں (کبیر) مطلب یہ ہے کہ اگر پورے طور پر ان کتابوں پر عمل نہ کرو گے تو نہ تمہاری کوئی حیثیت اور نہ تمہاری کوئی دینداری ّابن کثیر)5 تشریح کے لے حاشیہ آیت 64 ۔ 6 اس لیے کہ جو کچھ کر رہے ہیں اس سے اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچا رہے ہیں اور اس کا وبال خود بھگت کر رہینگے (کبیر)7 اوپر کی آیت میں بتایا کہ ال کتاب جب تک ایمان لاکر عمل صالح کریں ان کا کوئی مذہب نہیں ہے اس آیت میں بتایا کہ سب کا یہی حکم ہے۔ ، بظاہر تو الصا ئبین منصوب آنا چاہیے تھا مگر سیبو بہ اور خلیل نے لکھا ہے کہ یہ مرفوع بالا بتداعلی نیتہ التا خیر ہے یعنی اصل میں ولاھم یحزنون کے بعد ہے اسی الصر بئون کذلک اور اس کے مو خر لانے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ دواصل یہ سب فرقوں سے زیادہ گمراہ فرقہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ ان فرقوں میں سے جو بھی ایمان لاکر عمل صالح کریگا اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمائے گا حتی کہ اگر صابی بھی ایمان لے آئیں تو ان کے بھی یہ رعایت مل سکتی ہے۔ (کبیر) الصابئین کی تشریح کے لے دیکھئے سورت بقرہ آیت 62 اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبعوث ہونے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔ (ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ کیونکہ غیر مقبول راہ پرچلنا مثل بےراہی کے ہے۔ 5۔ اوپر اہل کتاب کو اسلام کی ترغیب تھی آگے بھی ایک قانون عام سے جو کہ اہل کتاب وغیرہ اہل کتاب سب کو شامل ہے اسی کی ترغیب ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : دوبارہ اہل کتاب کو خطاب۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرنے سے پہلے یہود و نصاریٰ کو مخاطب کیا جا رہا تھا۔ اس کے بعد آپ کو آپ کے عظیم منصب کے حوالے سے مخاطب کرتے ہوئے معنوی لحاظ سے تسلی دی گئی کہ یہود و نصاریٰ آپ کو الرسول تسلیم کریں یا نہ کریں آپ حقیقتاً اللہ کے رسول ہیں لہٰذا حالات جیسے بھی ہوں آپ بےخوف وخطر اپنے رب کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے جائیں اس تسلی اور تاکید کے بعد اب خطاب کا رخ پھر اہل کتاب کی طرف پھیر دیا گیا ہے۔ اے رسول ! آپ واشگاف الفاظ میں اہل کتاب کو باور کرائیں کہ تم اس وقت تک ذرہ برابر حقیقت پر نہیں ہوسکتے جب تک تورات وانجیل کے احکامات کو مانتے ہوئے قرآن مجید کی ہدایت پر عمل نہیں کرتے۔ یہاں تورات وانجیل پر قائم رہنے کا جو منطقی تقاضا بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن مجید کو من جانب اللہ تسلیم کرتے ہوئے اس کی ہدایات اور احکامات کو مانا جائے۔ کیونکہ قرآن مجید تورات اور انجیل کے احکامات کا ضامن اور محافظ ہے۔ لہٰذا قرآن مجید پر عمل کرنا تورات اور انجیل کے احکامات کو ماننے کا تسلسل ہے۔ اسی تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے پہلے انبیاء کی تصدیق اور تائید لازم قرار پائی۔ اہل کتاب کی اکثریت کا عالم یہ ہے وہ مخالفت برائے مخالفت کی بنیاد پر قرآن مجید کے ساتھ کفر کرتے ہوئے آگے ہی بڑھتے جا رہے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں قرآن من جانب اللہ اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اسی بنا پر آپ نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّہُ قَالَ وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لاَ یَسْمَعُ بِی أَحَدٌ مِنْ ہَذِہِ الأُمَّۃِ یَہُودِیٌّ وَلاَ نَصْرَانِیٌّ ثُمَّ یَمُوتُ وَلَمْ یُؤْمِنْ بالَّذِی أُرْسِلْتُ بِہِ إِلاَّ کَانَ مِنْ أَصْحَاب النَّارِ ) [ رواہ مسلم : باب وُجُوبِ الإِیمَانِ بِرِسَالَۃِ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میں محمد کی جان ہے یہودیوں اور عیسائیوں میں سے جس شخص تک میرا پیغام پہنچ جائے اور پھر وہ اسی حالت میں مرجائے اور وہ مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ “ کیونکہ قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ اہل کتاب کے ایمان اور اعمال کی کوئی حیثیت نہیں۔ جب تک وہ آپ پر جو نازل ہوا اس پر ایمان نہیں لاتے۔ یہاں واضح الفاظ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ اہل کتاب کی سرکشیوں اور نافرمانیوں پر آپ کو افسردہ اور دل گرفتہ نہیں ہونا چاہیے آپ اللہ کے رسول ہیں اور رسول کا کام لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچانا ہے منوانا نہیں۔ مسائل ١۔ یہودی اور عیسائی جب تک قرآن کو نہیں مانتے وہ کسی دین پر نہیں سمجھے جاسکتے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پس پشت ڈال کر کوئی قوم کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات کو نہ ماننے والے کفرو سرکشی میں آگے ہی بڑھتے جاتے ہیں۔ ٤۔ کافروں کے کفر پر غمزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن یہودو نصاریٰ کی اندرونی حالت : ١۔ یہودی اور عیسائی ایک دوسرے کو مرتد کہتے ہیں۔ (البقرۃ : ١١٣) ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو اکٹھا تصور کرتے ہیں حالانکہ ان کے دل الگ الگ ہیں۔ (الحشر : ١٤) ٣۔ اللہ نے ان کے دلوں میں قیامت تک کے لیے دشمنی ڈال دی ہے۔ (المائدۃ : ١٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” ْ وَلَیَزِیْدَنَّ کَثِیْراً مِّنْہُم مَّا أُنزِلَ إِلَیْْکَ مِن رَّبِّکَ طُغْیَاناً وَکُفْراً فَلاَ تَأْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ (68) ” ضرور ہے کہ یہ فرمان جو تم پر نازل کیا گیا ہے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور انکار کو اور زیادہ بڑھا دے گا ۔ مگر انکار کرنے والوں کے حال پر کچھ افسوس نہ کرو۔ ان ہدایات کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے داعی کے لئے منہاج دعوت کے نقوش متعین فرما دیئے اور یہ بھی بتادیا کہ اس کی حکمت کیا ہے ۔ جو لوگ ہدایت قبول نہیں کرتے اور کفر وسرکشی میں مزید آگے بڑھتے ہیں ۔ ان کے بارے میں آپ کی دلجوئی بھی فرمادی کہ یہ لوگ تو اس انجام کے مستحق ہوگئے ہیں ‘ اس لئے کہ ان کے دل سچی بات کے متحمل ہی نہیں ہوتے ۔ ان کے دلوں کی گہرائیوں سے سچائی کا مادہ ختم ہوچکا ہے ۔ اس لئے ان لوگوں کے سامنے کلمہ حق ببانگ دہل کہہ دیا تاکہ ان کے دلوں کی گندگی ظاہر ہوجائے اور وہ مزید کفر وسرکشی میں آگے بڑھ جائیں اور سرکشوں اور کفروں کے انجام تک پہنچ جائیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اہل کتاب کی کچھ دینی حیثیت نہیں ہے اگر وہ تورات ‘ انجیل اور ما انزل اللہ کو قائم نہیں کرتے ۔ اور نتیجۃ ” دین جدید میں داخل نہیں ہوجاتے ‘ جیسا کہ اس آیت اور متعدد دوسری آیات میں حکم دیا گیا ہے ۔ اور اگر وہ ایسا نہ کریں گے تو نہ مومن ہوں گے اور نہ کسی سماوی دین پر ہوں گے اور نہ ایسے دین والے ہوں گے جسے اللہ قبول کرے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے ۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس انداز کی تبلیغ سے یہ لوگ مزید سرکشی اور کفر میں مبتلا ہو رہے تھے لیکن اس کے باوجود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا کہ وہ کھل کر اعلان کردیں اور اس سلسلے میں کوئی توریہ نہ کریں اور نہ نتائج سے گھبرائیں ۔ جب یہ ایک فیصلہ کن بات ہے اور اسے فیصلہ کن الفاظ میں بیان کردیا گیا ہے کہ (لستم علی شیء ‘) (٥ : ٦٨) تو اب اہل کتاب کو اہل دین کہنے کی سرے سے گنجائش ہی نہ رہی اور نہ اس بات کی گنجائش رہی کہ اہل اسلام اہل کتاب سے دوستی اور موالات کے تعلقات استوار کریں چہ جائیکہ ان کے ساتھ مل کر ملحدین اور الحاد کے خلاف محاذ بنائیں جیسا کہ آج کل ہمارے بعض فریب خوردہ اور فریب کار اہل ثقافت ایسا کرتے ہیں ۔ اہل کتاب نے نہ تورات کو قائم کیا ‘ نہ انجیل کو قائم کیا اور نہ ان دوسری تعلیمات کو قائم کیا جو اللہ کی طرف سے نازل ہوئی تھیں اس لئے کوئی مسلمان ان کی کسی دینی حیثیت کا اعتراف نہیں کرسکتا ۔ نہ کوئی مسلمان ان کو وہ حیثیت دے سکتا ہے جو اللہ نے انکو نہیں دی ۔ ” اور کسی مومن اور کسی مومنہ کی یہ شان نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی امر کا فیصلہ کردیں تو پھر ان کو اس امر میں کوئی اختیار ہو ۔ “ یہ اللہ کا فیصلہ ہے اور اسے کسی قسم کے ” ظروف واحوال “ نہیں بدل سکتے ۔ جب ہم یہ طے کردیں کہ اللہ کی بات فیصلہ کن ہے جیسا کہ وہ فی الحقیقت حق اور فیصلہ کن ہے تو ہمیں یہ بات خاطر میں نہیں لانا چاہئے کہ ہمارے اس اعلان حق سے اہل کتاب کے اندر کس قدر ہیجان پیدا ہوتا ہے اور وہ ہمارے خلاف کس قدر شدید جنگ شروع کرتے ہیں ۔ نہ ہمیں یہ کوشش کرنا چاہئے کہ ہم ان کی دوستی حاصل کرنے کے لئے سعی کریں اور ان کی دینی حیثیت کا اعتراف کریں یا انہیں راضی کرکے اور ان کے ساتھ باہم نصرت اور موالات کا معاہدہ کریں اور پھر ہم دونوں ملتیں مل کر کفر والحاد کا مقابلہ کریں جبکہ ان کا دین کوئی چیز ہی نہیں ہے ۔ اللہ تو ہمیں ایسی کوئی ہدایت نہیں دے رہا ہے اور نہ اللہ کو یہ بات قبول ہے کہ ہم اہل کتاب کی دینی حیثیت کا اعتراف کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہماری اس موالات اور باہم نصرت کے فعل کو بھی معاف نہیں کرے گا ۔ نہ یہ سوچ قابل معافی ہے جس کے نتیجے میں یہ موالات وجود میں آتی ہے۔ کیونکہ اس صورت میں ہم وہ فیصلہ کریں گے جو اللہ نہیں کیا اور اپنے لئے وہ کچھ اختیار کریں گے جو اللہ نے نہیں کیا ہے ۔ اس طرح ہم یہ تسلیم کریں گے کہ اہل کتاب کے مسخ شدہ اور تحریف شدہ عقائد بھی دین ہیں اور یہ دونوں الہی دین ایک جگہ جمع ہو کر کفر کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔ حالانکہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ وہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے جب تک کہ وہ تورات ‘ انجیل اور ان تمام ہدایت کو قائم نہیں کرتے جو اللہ کی طرف سے نازل ہوئیں ‘ اور ظاہر ہے کہ وہ عملا ایسا نہیں کر رہے ۔ اب ذرا ان لوگوں کو لیجئے جو کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں اور ان کے رب کی طرف سے جو کچھ نازل ہوا ہے وہ اسے قائم نہیں کرتے ۔ یہ بھی ہمیشہ اسی طرح ہوں گے جس طرح اہل کتاب ہیں ۔ یہ بھی کچھ دینی حیثیت نہیں رکھتے ۔ اہل کتاب پر ایک کلام نازل ہوتا ہے اور وہ اسے اپنی زندگیوں میں نفاذ نہیں کرتے ‘ نہ اسے اپنے نفوس پر نافذ کرتے ہیں ۔ لہذا جو شخص مسلمان بننا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اسلام اور کتاب اللہ کو پہلے اپنے نفس میں قائم کرے ۔ اس کے بعد اپنی پوری زندگی پر قائم کرے اور پھر تمام ان لوگوں کے سامنے یہ اعلان حق کر دے کہ جو لوگ قرآن کو قائم نہیں کرتے ان کی کوئی دینی حیثیت نہیں ہے جب تک کہ وہ قرآن کو اپنی زندگیوں میں نافذ نہیں کرتے ۔ اگر وہ اس کے سوا دعوائے دین کرتے ہیں تو ان کے اس دعوے کی تردید اس دین کے رب فرما رہے ہیں ۔ لہذا اس معاملے میں ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ فیصلہ کن بات کرے ۔ اس قسم کے لوگوں کو از سر نو اسلام کی دعوت دینا ہر مسلمان پر واجب ہے بشرطیکہ اس نے اپنے نفس اور اپنی زندگی میں ماانزل اللہ کو قائم کردیا ہو۔ محض زبانی طور پر اسلام کا دعوی کرنا یا محض موروثی طور پر اسلام کا دعوی کرنا کوئی مفید مطلب بات نہیں ہے نہ اس اسلام وجود میں آتا ہے اور نہ حقیقت ایمان نفس کے اندر پیدا ہوتی ہے اور نہ ایسا شخص اللہ کے دین کے ساتھ متصف ہوگا ۔ ہر زمان ومکان میں اصول و فیصلہ یہ ہوگا۔۔۔۔۔۔ اگر اہل کتاب ان معنوں میں تورات وانجیل اور ما انزل اللہ کو قائم کردیں اور مسلمان ان معنوں میں قرآن کریم کو قائم کردیں تب وہ دین دار ہوں گے اور اہل کتاب بھی اپنے خیال کے مطابق دیندار ہوں گے ۔ ایسے حالات میں وہ کوئی معاہدہ کرسکتے ہیں اگر وہ کسی الحاد کے خلاف ورنہ دھوکہ ہوگا ‘ خودفریبی ہوگی اور خود اپنی دینی حیثیت کو پگھلا کر بہادینا ہوگا ۔ اللہ کا دین نہ کوئی جھنڈا ہے اور نہ کوئی یونیفارم ہے ‘ نہ کوئی وراثت ہے ‘ دین اسلام تو دل میں بیٹھتا ہے ‘ زندگی میں نمودار ہوتا ہے ۔ یہ کچھ نظریات ہیں جو دل کو بھر دیتے ہیں ‘ کچھ عبادات ہیں جو سرانجام دی جاتی ہیں اور ایک نظام ہے جو پوری زندگی پر متصرف ہوتا ہے ۔ دین اسلام تب قائم ہوتا ہے جب اس کے یہ تمام اجزاء ایک ساتھ کام کر رہے ہوں اور انسانوں کی زندگیوں میں جاری وساری ہوں ۔ اس کے سوا جو صورت بھی ہوگی اس میں اسلام کی ٹھوس شکل کو پگھلا کر بہانا مقصود ہوگا ۔ ضمیر کا فریب ہوگا اور کوئی پاک دل مسلمان اس فریب میں نہیں آسکتا ۔ ایک مسلمان کو تو چاہئے کہ وہ مذکورہ بالا حقیقت کا باآواز بلند اعلان کر دے اور جو نتائج اس کے نکلتے ہیں ‘ نکلیں ۔ اللہ ہے بچانے والا ۔ کافروں کو تو اللہ کبھی راہ راست نہیں دکھاتا ۔ ایک داعی اس وقت تک حق دعوت ادا نہیں کرسکتا اور اس وقت تک لوگوں پر اللہ کی جانب سے حجت قائم نہیں کرسکتا جب تک وہ ان تک دعوت کی پوری حقیقت اچھی طرح واضح نہیں کردیتا ۔ لوگوں پر اچھی طرح واضح نہیں کردیتا کہ وہ اس وقت کس پوزیشن میں کھڑے ہیں اور یہ بات وہ بغیر کسی مداہنت اور بغیر کسی لاگ لپیٹ کے کہہ نہیں دیتا ۔ اگر داعی لوگوں کو صاف صاف یہ نہیں کہتا کہ وہ کس مقام پر کھڑے ہیں ‘ وہ غلط ہے ‘ وہ باطل موقف پر جمے ہوئے ہیں وہ انہیں جس موقف کی طرف دعوت دیتا ہے وہ ان کے موجودہ موقف سے سراسر الگ ایک دوسری چیز ہے اور یہ کہ وہ ایک مکمل تبدیلی کی دعوت دیتا ہے ۔ وہ ایک طویل سفر اور طویل جدوجہد کی طرف بلاتا ہے ۔ وہ مکمل تبدیلی چاہتا ہے یہ ایک مکمل تبدیلی کی دعوت دیتا ہے ۔ وہ ایک طویل سفر اور طویل جدوجہد کی طرف بلاتا ہے وہ مکمل تبدیلی چاہتا ہے یہ تبدیلی ان کے افکار میں بھی ہے ‘ ان کے طور طریقوں میں بھی ہے ۔ ان کے نظام زندگی اور ان کے اخلاقی نظام میں بھی وہ مکمل تغیر چاہتا ہے ۔ گویا وہ انکو اذیت دیتا ہے اس لئے ایک داعی سے لوگوں کی توقع بھی یہ ہوتی ہے کہ وہ واضح طرح بتائے کہ لوگوں کا موجودہ موقف غلط ہے تاکہ جو انکار کرتا ہے وہ واضح طور پر انکار کر دے اور جو اقرار کرتا ہے وہ واضح اقرار کرے۔ جو مرتا ہے مرے اور جو زندہ ہوتا ہے وہ زندہ ہو ۔ جب ایک صاحب دعوت اور داعی شف شف کرتا ہے اور لوگوں کو صاف صاف نہیں بتاتا ہے کہ ان کی زندگی میں کیا کیا باطل ہے اور یہ کہ وہ حق کیا ہے جس کی طرف وہ دعوت دے رہا ہے اور یہ کہ دعوت حق اور ان کے موقف باطل کے درمیان حد فاصل کیا ہے ؟ اور یہ کام وہ محض مشکل ظروف واحوال کی وجہ سے کرتا ہے تو اس وقت گویا وہ لوگوں کو اذیت دیتا ہے اور ان کو فریب دیتا ہے کیونکہ وہ صاف بتا نہیں رہا ہے کہ وہ چاہتا کیا ہے ۔ دوسرا جرم وہ یہ کر رہا ہوتا ہے کہ اللہ نے اسے جو بات صاف صاف کہہ دینے کا حکم دیا ہے اس پر بھی وہ عمل نہیں کر رہا ہوتا ۔ لوگوں کے ساتھ دعوت میں اگر نرمی کی جاسکتی ہے تو وہ صرف اس امر میں کی جاسکتی ہے کہ وہ انداز نرم اختیار کرے ۔ بات پوری کرے مگر نہایت ہی سلیقے سے اور نرم انداز میں ۔ بات پوری ہو مگر سیلقہ مندی سے اور حکمت سے جس کی ہدایت حکم اور موعظہ حسنہ میں دی گئی ہے ۔ آج کل ہمارے بعض دوست یہ دیکھتے ہیں کہ اہل کتاب دنیا میں ایک بڑی تعداد میں بستے ہیں ۔ ان کے پاس بہت بڑی مادی قوت ہے ۔ پھر یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں بیشمار بت پرست ہیں اور دنیا کے ممالک کے اندر ان کی بات بھی سنی جاتی ہے پھر جب یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ مادی نظریات کے حامل ممالک کے پاس بڑی قوت ہے ۔ نیز ان لوگوں کے پاس تباہ کن اسلحہ جات بھی موجود ہیں اور پھر یہ دوست جب دیکھتے ہیں کہ جو لوگ اسلام کا دعوی کرتے ہیں ان کے پاس کچھی بھی نہیں ہے ۔ اور ان کے پاس اللہ کی جو کتاب ہے وہ اسے نافذ نہیں کرتے تو ایسے لوگوں پر یہ بات نہایت ہی شاق گزرتی ہے ۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس قدر زیادہ لوگوں کو یہ حق بات کسی طرح کہیں کہ وہ سب گمراہ ہیں ۔ اتنی عظیم تعداد کو گمراہ کہنے کا فائدہ کیا ہے اور اس قدر عظیم آبادی کو کس طرح دین حق سمجھایا جاسکتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ طریق کار یہی ہے ۔ جاہلیت اگر پوری کائنات میں پھیل جائے تو بھی جاہلیت ہوگی ۔ اس دنیا کے عملی حالات چاہے جیسے بھی ہوں ‘ وہ اس وقت تک کچھ حیثیت نہیں رکھتے جب تک وہ حق پر استوار نہ ہوجائیں ۔ ایک داعی کے سامنے اگر لوگوں کی ایک بہت بڑی آبادی گمراہ کھڑی ہو تو اس کے فرائض میں کچھ کمی نہیں ہوتی ‘ نہ باطل کا حجم اور اس کا ڈھیر سا ہونا دعوت پر اثر انداز ہو سکتا ہے جس طرح اس دعوت کا آغاز ہوا تھا اور اس نے تمام انسانوں کو خطاب کیا تھا ‘ کہ وہ کچھ حیثیت نہیں رکھتے ‘ اسی طرح ہمیں آج بھی کام شروع کرنا ہوگا ۔ گردش ایام کے بعد بات وہی تک آپہنچی ہے ‘ جہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں تھی ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا گیا تھا اور آپ کو اللہ نے پکارا تھا ۔ (آیت) ” یایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک “۔ (٥ : ٦٧) ” اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو ‘ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا ‘ اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے ، یقین رکھو کہ وہ کافروں کو ہدایت کی راہ ہرگز نہ دکھائے گا ۔ صاف کہہ دو کہ ” اے اہل کتاب ‘ تم ہر گز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہیں ۔ اس حصہ آیات کا خاتمہ اس بات پر ہوتا ہے کہ اللہ کہا ہاں جو دین مقبول ہے وہ کیا ہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے لوگوں کی شناخت جو ہو سو وہ اور وہ چاہے جس دین پر بھی ہوں اور جس ملت کے بھی پیرو ہوں ‘ اب حکم یہ ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہودیوں کی سرکشی اور کج روی کا مزید تذکرہ تفسیر در منثور ج ٢ ص ٢٩٩ میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ یہودی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کیا آپ کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ آپ دین ابراہیمی پر ہیں اور تورات پر بھی آپ کا ایمان ہے آپ گواہی دیتے ہیں کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہاں ! یہ بات ٹھیک ہے (ان لوگوں کا یہ مطلب تھا کہ ہم بھی دین ابراہمی پر ہیں اور آپ کی گواہی کے مطابق توریت شریف بھی اللہ کی کتاب ہے لہٰذا ہم حق پر ہوئے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب فرمایا کہ تم نے دین ابراہیمی میں اپنے پاس سے بہت سی نئی چیزیں نکال لی ہیں اور تورات میں جو تم سے عہد لیا گیا تھا تم اس کے منکر ہوگئے ہو اور تمہیں جس چیز کو بیان کرنے کا حکم دیا گیا تھا اسے تم چھپا رہے ہو، اس پر انہوں نے کہا کہ جو کچھ ہمارے پاس ہیں ہم اسے مانتے ہیں اور ہم ہدایت پر ہیں اور حق پر ہیں اور ہم آپ پر ایمان نہیں لاتے اور آپ کا اتباع نہیں کرتے۔ اس پر اللہ جل شانہ نے آیت کریمہ (قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْءٍ ) (اخیر تک) نازل فرمائی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اہل کتاب سے فرما دیجئے کہ تم کسی ایسے دین پر نہیں جو اللہ کے نزدیک معتبر ہو جب تک کہ تم تورات اور انجیل کے احکام اور ارشادات پر پوری طرح عمل پیرا نہ ہو اور جب تک کہ اس پر ایمان نہ لاؤ جو تمہارے رب کی طرف سے بواسطہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر نازل کیا گیا، سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور قرآن پر ایمان لانا تورات اور انجیل کے فرمان کے مطابق ہے۔ (یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَ ھُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَ الْاِنْجِیْلِ ) اگر تم نے تورات اور انجیل کے بعض احکام کو مانا تو اس طرح سے توریت اور انجیل پر بھی تمہارا ایمان نہیں ہے، اور تمہارا دعویٰ ہے کہ ہم ہدایت پر ہیں یہ دعویٰ غلط ہے اور تم جس دین پر ہو وہ آخری نبی کا انکار کرنے کی وجہ سے اللہ کے نزدیک معتبر نہیں ہے، اس کے بعد فرمایا۔ (وَ لَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْھُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّ کُفْرًا) کہ یہ لوگ قرآن سے ہدایت لینے والے نہیں بلکہ قرآن کا نازل ہونا ان کے لئے اور زیادہ سرکشی کرنے اور کفر میں ترقی کرنے کا باعث بنے گا، ان میں سے بہت سے لوگوں کا یہی حال ہے بجز چند افراد کے جو ایمان لے آئے تھے۔ (فَلَا تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ ) (آپ کافر قوم پر رنج نہ کریں) جس کو ایمان قبول کرنا نہیں ہے وہ قبول نہ کرے گا رنج کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

121: اہل کتاب سے یہود و نصاریٰ مراد ہیں۔ یہ پہلا مسئلہ ہے جس کی تبلیغ کا یہاں حکم دیا گیا ہے۔ یعنی آپ اہل کتاب سے صاف صاف کہہ دیں کہ جب تک تم تورات اور انجیل کے احکام کو قائم نہیں کرو گے یعنی شرک و غیر اللہ کی نذر و نیاز چھوڑ کر توحید کو نہیں مانو گے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر اور قرآن پر ایمان نہیں لاؤ گے اس وقت تک تمہارا کوئی دین نہیں اور تم کھلے بےدین ہو۔ آج مبلغ قرآن کو بھی اپنی تبلیغ کے دوران مسلمانوں پر یہ حقیقت واضح کردینی چاہئے کہ کہ لَسْتُمْ عَلیٰ شَیْءٍ حَتّیٰ تُقِیْمُوْا الْقْرْاٰنَ یعنی جب تک تم قرآن مجید کے تمام احکام کو قائم نہ کرو اس وقت تک تم دیندار نہیں ہوسکتے وَ لَیَزِیْدَنَّ کَثِیْراً الخ اس کی تفسیر کے لیے حاشیہ 111 ملاحظہ فرمائیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اے پیغمبر آپ ان اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ سے کہہ دیجیے کہ تم اس وقت تک کسی قابل اعتماد اور قابل نجات راہ پر نہیں ہو جب تک توریت اور انجیل کی اور اس کتاب کی جواب تمہاری ہدایت کے لئے تمہارے رب کی جانب سے نازل کی گئی ہے یعنی قرآن کریم کیپ وری پوری پابندی نہیں کرو گے اور اے پیغمبر جو کلام اور جو مضمون آپ کے رب کی طرف سے آپ کے پاس بھیجا جاتا ہے وہ کلام ان میں سے اکثر کی سرکشی اور نافرمانی کی زیادتی اور ترقی کا سبب ہوجاتا ہے تو آپ اسقسم کے متعصب اور نافرمان لوگوں کی حالت پر افسوس اور غم نہ کیجیے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ اے اہل کتاب تم دین الٰہی کی کسی مقبول اور معتبر راہ پر نہیں ہو اور اگر کوئی غیر مقبول راہ اختیار کرے تو وہ ایسا ہی ہے جیسے کسی راہ پر نہیں اور بالکل بےراہ ہے اگر توریت کے پورے پابند ہوتے یا انجیل کے پابند ہوتے تو ضرور نبی آخر الزماں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لاتے تو نہ توریت کے پابند ہو نہ انجیل کے اور قرآن کریم کے خلاف تو تم نے محاذ بنا ہی رکھا ہے لہٰذا تم کسی قابل نجات راہ پر نہیں ہو اور چونکہ ان کیضد اور ہٹ دھرمی کا یہ حال ہے تو جو حکم اے پیغمبر آپ کی جانب آپ کے پروردگار کی جانب سے اترتا ہے وہ ان کے کفر و سرکشی کی ترقی کا موجب ہوجاتا ہے اگر پہلے فرض کرو سو آیتوں کے منکر تھے تو پھر ایک سو ایک کے منکر قرار پائے۔ غرض ! جس قدر مضامین نازل ہوتے جاتے ہیں ان کی سرکشی اور کفر بڑھتا جاتا ہے۔ لہٰذا آپ اس قسم کے کافر لوگوں پر غم اور افسوس کا اظہار نہ کیجیے۔ لستم علی شئی یہود و نصاریٰ آپس میں بھی ایک دوسرے کو کہتے تھے جیسا کہ پہلے پارے میں گذر چکا ہے۔ وقالت الیھو دلیست النصاریٰ علی شئی و قالت النصاریٰ لیست الیھود علی شئی ۔ اب آگے اس راہ کا ذکر فرماتے ہیں جو مقبول اور معتبر ہے اور حقیقی نجات کی راہ ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)