Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 71

سورة المائدة

وَ حَسِبُوۡۤا اَلَّا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ فَعَمُوۡا وَ صَمُّوۡا ثُمَّ تَابَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ ثُمَّ عَمُوۡا وَ صَمُّوۡا کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ بَصِیۡرٌۢ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۷۱﴾

And they thought there would be no [resulting] punishment, so they became blind and deaf. Then Allah turned to them in forgiveness; then [again] many of them became blind and deaf. And Allah is Seeing of what they do.

اور سمجھ بیٹھے کہ کوئی پکڑ نہ ہوگی پس اندھے بہرے بن بیٹھے ، پھر اللہ تعالٰی نے ان کی توبہ قبول کی اس کے بعد بھی ان میں سے اکثر اندھے بہرے ہوگئے اللہ تعالٰی ان کے اعمال کو بخوبی دیکھنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَحَسِبُواْ أَلاَّ تَكُونَ فِتْنَةٌ فَعَمُواْ وَصَمُّواْ ... Whenever there came to them a Messenger with what they themselves desired not - a group of them they called liars, and others among them they killed. They thought there will be no Fitnah (trial or punishment) so they became blind and deaf. thinking that they would suffer no repercussions for of the evil that they committed. Consequently, they were blinded from the truth and became deaf, incapable of hearing the truth. For these reasons they were unable to be guided by it. .. ثُمَّ تَابَ اللّهُ عَلَيْهِمْ ثُمَّ عَمُواْ وَصَمُّواْ ... after that Allah turned to them (with forgiveness); yet again many of them became blind and deaf. Allah forgave that, then, ثُمَّ عَمُواْ وَصَمُّواْ (yet they became blind and deaf) again, ... كَثِيرٌ مِّنْهُمْ وَاللّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ many of them, and Allah is the All-Seer of what they do. He has perfect knowledge of what they do and whomever among them deserves the guidance and whomever deserves misguidance.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71۔ 1 یعنی سمجھے تھے کہ کوئی سزا نہ ہوگی۔ لیکن مذکورہ اصول الٰہی کے مطابق یہ سزا ہوئی کہ یہ حق کے دیکھنے سے مزید اندھے اور حق کے سننے سے مزید بہرے ہوگئے اور توبہ کے بعد پھر یہی عمل انہوں نے دہرایا ہے تو اس کی وہی سزا بھی دوبارہ مرتب ہوئی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٨] بخت نصر کے بعد سیدنا زکریا ویحییٰ کو قتل کروانا :۔ انہوں نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم چونکہ انبیاء کی اولاد ہیں لہذا ہم جو کچھ کرلیں ہم پر عذاب الٰہی نہیں آسکتا۔ اس عقیدہ نے انہیں ہر طرح کے جرائم پر دلیر بنادیا تھا۔ پھر ان پر بخت نصر کی صورت میں قہر الٰہی نازل ہوا۔ جس نے ان کی سلطنت کو تہس نہس کردیا اور بیشمار افراد کو قیدی بنا کر اپنے ساتھ بابل لے گیا۔ مدتوں وہ قید و بند کی سختیاں جھیلتے رہے۔ آخر اللہ کی طرف رجوع کیا تو اللہ نے پھر ان کی خطائیں معاف کردیں اور ملوک فارس کی مدد سے انہیں بخت نصر کی قید سے رہائی ملی۔ پھر جب اللہ نے ان پر مہربانی فرمائی اور عیش و آرام سے زندگی گزارنے لگے تو پھر کفر و عصیان میں پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئے۔ سیدنا زکریا اور سیدنا یحییٰ دونوں کو قتل کردیا اور سیدنا عیسیٰ کو صلیب پر چڑھوانے کی مقدور بھر کوشش کی اور بزعم خود انہیں سولی پر چڑھا کے چھوڑا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَحَسِبُوْٓا اَلَّا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ“ فِتْنَةٌ کے اصل معنی آزمائش کے ہیں، مطلب یہ کہ انھوں نے سمجھا کہ ہم کیسے ہی گناہ کرلیں، خواہ انبیاء تک کو قتل کریں، چونکہ ہم اللہ کے بیٹے اور چہیتے ہیں، اس لیے دنیا میں کسی قسم کی بدبختی و نحوست یا غلبۂ دشمن قسم کی کوئی بلا ہم پر نازل نہیں ہوگی۔ (کبیر) فَعَمُوْا وَصَمُّوْا : مگر حق سے اندھے اور بہرے ہونے کی وجہ سے ان پر بلا نازل ہوئی۔ پہلی مرتبہ اللہ تعالیٰ نے بخت نصر کو ان پر مسلط کردیا جس نے ان کی مسجد اقصیٰ کو جلا ڈالا، ان کے اموال لوٹے اور ان کی اکثریت کو لونڈی و غلام بنا کر بابل لے گیا۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٤ تا ٨) ۔ ثُمَّ تَاب اللّٰهُ عَلَيْهِمْ : یعنی اللہ تعالیٰ نے انھیں بخت نصر کی غلامی سے نجات دی اور انھوں نے اپنی حالت سدھاری اور کچھ عرصہ کے لیے ٹھیک رہے۔ ثُمَّ عَمُوْا وَصَمُّوْا كَثِيْرٌ مِّنْهُمْ ۔۔ : یعنی پھر دوبارہ پہلے جیسی سرکشی پر اتر آئے، یہاں تک کہ انھوں نے زکریا اور یحییٰ ( علیہ السلام) جیسے جلیل القدر انبیاء کو قتل کر ڈالا اور عیسیٰ (علیہ السلام) سے انتہائی توہین آمیز سلوک کیا، بلکہ انھیں بھی قتل کرنے کے درپے ہوئے۔ بعض نے گمراہی کے پہلے دور کو زکریا اور یحییٰ ( علیہ السلام) کے زمانے کے ساتھ خاص کیا ہے اور دوسرے دور کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے ساتھ اور یہاں ” كَثِيْرٌ مِّنْهُمْ “ میں اشارہ ہے کہ ان میں سے بعض حق پرست مسلمان ہوگئے تھے، جیسے عبداللہ بن سلام (رض) اور ان کے رفقاء۔ اور ہوسکتا ہے کہ : (لَتُفْسِدُنَّ فِي الْاَرْضِ مَرَّتَيْنِ ) [ بنی إسرائیل : ٤ ] (بےشک تم زمین میں ضرور دو بار فساد کرو گے) سے ان دونوں ادوار کی طرف اشارہ ہو۔ (کبیر) (وَاللّٰهُ بَصِيْرٌۢ بِمَا يَعْمَلُوْنَ ) اس سے مقصود انھیں اللہ اور اس کے عذاب سے ڈرانا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَحَسِبُوْٓا اَلَّا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ فَعَمُوْا وَصَمُّوْا ثُمَّ تَابَ اللہُ عَلَيْہِمْ ثُمَّ عَمُوْا وَصَمُّوْا كَثِيْرٌ مِّنْہُمْ۝ ٠ۭ وَاللہُ بَصِيْرٌۢ بِمَا يَعْمَلُوْنَ۝ ٧١ حسب ( گمان) والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت/ 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] ( ح س ب ) الحساب اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ فتن أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] ( ف ت ن ) الفتن دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ عمی العَمَى يقال في افتقاد البصر والبصیرة، ويقال في الأوّل : أَعْمَى، وفي الثاني : أَعْمَى وعَمٍ ، وعلی الأوّل قوله : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس/ 2] ، وعلی الثاني ما ورد من ذمّ العَمَى في القرآن نحو قوله : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] ( ع م ی ) العمی ٰ یہ بصارت اور بصیرت دونوں قسم اندھے پن کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جو شخص بصارت کا اندھا ہو اس کے لئے صرف اعمیٰ اور جو بصیرت کا اندھا ہو اس کے لئے اعمیٰ وعم دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس/ 2] کہ ان کے پاس ایک نا بینا آیا ۔ میں الاعمیٰ سے مراد بصارت کا اندھا ہے مگر جہاں کہیں قرآن نے العمیٰ کی مذمت کی ہے وہاں دوسرے معنی یعنی بصیرت کا اندھا پن مراد لیا ہے جیسے فرمایا : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] یہ بہرے گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ فَعَمُوا وَصَمُّوا[ المائدة/ 71] تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ۔ بلکہ بصٰیرت کے اندھا پن کے مقابلہ میں بصارت کا اندھا پن ۔ قرآن کی نظر میں اندھا پن ہی نہیں ہے صمم الصَّمَمُ : فقدانُ حاسّة السّمع، وبه يوصف من لا يُصغِي إلى الحقّ ولا يقبله . قال تعالی: صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] ، ( ص م م ) الصمم کے معیم حاصہ سماعت ضائع ہوجانا کے ہیں ( مجاز) اس کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوتا ہے جو نہ تو حق کی آواز سنے اور نہ ہی اسے قبول کرے ( بلکہ اپنی مرضی کرتا چلا جائے ) قرآن میں ہے : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧١ (وَحَسِبُوْآ اَلاَّ تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ) کوئی عقوبت نہیں ہوگی ‘ ہم پر کوئی سرزنش نہیں ہوگی۔ (فَعَمُوْا وَصَمُّوْا) (ثُمَّ تَاب اللّٰہُ عَلَیْہِم) اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں فوراً نہیں پکڑا۔ انہیں توبہ کی مہلت دی ‘ موقع دیا۔ (ثُمَّ عَمُوْا وَصَمُّوْا کَثِیْرٌ مِّنْہُمْ ط) ۔ بجائے اللہ کے دامن رحمت میں آنے کے اپنی گمراہی میں اور بڑھتے چلے گئے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

فتنۃ۔ آفت۔ مصیبت۔ عذاب۔ فتن سے جس کے اصل معنی سونے کو آگ میں تپا کر کھرا کھوٹا جا نچنا۔ یا آگ میں ڈالنا۔ قرآن مجید میں یہ لفظ اور اس کے مشتقات مختلف معنی میں استعمال کئے گئے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 لفظ فتنتہ کے اصل معنی آزمائش کے ہیں مطلب یہ کہ ہم کیسے ہی گناہ کرلیں خواہ انبیا تک قتل کریں چونکہ ہم اللہ کے بیٹے اور چہتیے ہیں اس لیے ہم پر دنیا میں کسی قسم کی ادربار و نحوست یا غلبہ دشمن کوئی بلا نازل نہیں ہوگی (کبیر ) 13 مگر ان پر بلا نازل ہوئی چناچہ جب وہ پہلی مرتبہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) کے زما نہ میں حق سے بہرے اور اندھے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بابل کے کافر اور ظالم بادشاہ بخت نصر کو مسلط کردیا جس نے ان کی مسجد اقصی ٰ کو جلا ڈالا ان کے اموال لوٹے اور ان کی اکثریت کو لونڈی غلام بنا کر بناکر بابل لے گیا ( دیکھئے بن بنی اسرائیل آیت 4 ۔ 8)14 یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو بخت نصر کی غلامی سے نجات دی اور انہوں نے اپنی حالت سدھاری اور کچھ عرصہ کے لیے ٹھیک رہا15 یعنی پھر دوبارہ جیسی سرکشی پر اتر آئے یہاں تک کہ انہوں نے حضرت زکریا ( علیہ السلام) اور حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) جیسے جلیل القدر انبیا کو قتل کر ڈالا اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) سے انتہائی توہین آمیز سلوک کیا بلکہ انہیں قتل کرنے کے درپے ہوئے بعض نے گمراہی کے پہلے دور کو حضرت زکریا ( علیہ السلام) حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) کے زمانہ کے ساتھ اور یہاں کثیر منھم فرمانے سے اشارہ ہے کہ ان میں سے بعض حق پرست مسلمان ہوگئے تھے جیسے حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے رفقا اور ہوسکتا ہے کہ لتفسدن فی الارض مرتین ان دو دو روں کی طرف اشارہ ہو (کبیر)16 اس سے تہدید مقصود ہے (کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ سے باربار عہد شکنی، شریعتوں کی تکذیب، انبیاء (علیہ السلام) پر زیادتی کرنے اور اپنی خواہش کا بندہ بننے کی وجہ سے اہل کتاب بصیرت سے تہی دامن ہوگئے۔ جب کوئی قوم ایمان کی دعوے دار ہو کر اپنی خواہشات کو مقدم سمجھے، حقائق کی تکذیب کرے، مصلحین کی گستاخ اور ان کی جان کے درپے ہوجائے تو وہ اس غلط فہمی کا شکار ہوجایا کرتی ہے کہ اب انہیں کوئی روکنے، ٹوکنے والا نہیں ہے۔ یہود و نصاریٰ اس جرم میں مبتلا ہونے کے بعد اسی خوش فہمی کا شکار ہوئے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ حقائق دیکھنے اور سننے سے بےبہرہ اور اندھے ہوگئے یہ تو اپنے آپ کو دیکھنے سے اندھے ہوئے لیکن اللہ تعالیٰ تو ان کے اعمال کو دیکھنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر بخت نصر اور ہر دور میں ایسے حکمران مسلط کیے کہ جنہوں نے ان کو ایسی سزائیں دیں جو پہلے کسی قوم کو نہیں دی گئیں تھیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر کرم فرماتے ہوئے انہیں آزادی کی نعمت سے ہمکنار فرمایا لیکن بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے اور اپنے اعمال کو شریعت کے سانچے میں ڈھالنے کی بجائے پھر اندھے اور بہرہ پن کا مظاہرہ کیا۔ (وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ لَہُمْ قُلُوبٌ لَا یَفْقَہُونَ بِہَا وَلَہُمْ أَعْیُنٌ لَا یُبْصِرُونَ بِہَا وَلَہُمْ آَذَانٌ لَا یَسْمَعُونَ بِہَا أُولَءِکَ کَالْأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ أُولَءِکَ ہُمُ الْغَافِلُونَ ) [ الاعراف : ١٧٩] ”” اور بلاشبہ ہم نے بہت سے جن اور انسان جہنم کے لیے ہی پیدا کیے ہیں ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں بلکہ یہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں یہی ہیں جو بالکل بیخبر ہیں۔ “ امام رازی (رح) نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بنی اسرائیل پہلی مرتبہ حضرت زکریا (علیہ السلام) ، حضرت یحییٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں مکمل طور پر اندھے اور بہرے پن کا شکار ہوئے اور دوسری مرتبہ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے وقت اس مرض میں مبتلا ہوئے، سوائے چند لوگوں کے باقی یہود و نصاریٰ نے سرورگرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کی تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کو غلبہ نصیب فرمایا۔ یہودیوں کی باربار عہد شکنی اور سازشوں کی وجہ سے غزوہ خندق کے بعد نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ہمیشہ کے لیے سر زمین عرب سے نکال دیا۔ چودہ سو سال سے زائد عرصہ ہو چلا ہے یہودی ہزاروں کوششوں کے باوجود مدینہ میں داخل نہیں ہوسکے حالانکہ یہودی ہر دور میں اپنی قوم سے وعدہ لوگوں کے سامنے کرتے آ رہے ہیں کہ ہم عنقریب مدینہ پر قبضہ کرنے والے ہیں۔ لیکن ایسانہ ہوسکا اور نہ ہی قیامت تک ہو سکے گا۔ ان شاء اللہ مسائل ١۔ خوش فہمی انسان کو مروا دیتی ہے۔ ٢۔ آنکھیں اور کان بند کرلینے سے مصیبت سے چھٹکارا نہیں ملتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سب کے اعمال کو دیکھتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اندھے اور بہرے لوگ : ١۔ اللہ نے یہودیوں پر رجوع فرمایا لیکن یہ پھر اندھے ہوگئے۔ (المائدۃ : ٧١) ٢۔ جن پر اللہ کی لعنت ہو وہ اندھے اور بہرے ہوجاتے ہیں۔ (محمد : ٢٣) ٣۔ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں ہدایت کی طرف نہیں آیا کرتے۔ (البقرۃ : ١٧١) ٤۔ ہدایت سے اندھے، بہرے اور گونگے لوگ چوپاؤں سے بھی بدتر ہوا کرتے ہیں۔ (الاعراف : ١٧٩) ٥۔ کافر، اہل کتاب اور مشرکین بد ترین مخلوق ہیں۔ (البینۃ : ٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس سرکشی میں چلتے رہے پھر اللہ پاک نے ان پر توجہ فرمائی بعض انبیاء کرام ( علیہ السلام) کو بھیجا لیکن وہ پھر بھی اندھے اور بہرے بنے رہے ان میں سے بہت سوں کا یہی حال رہا (وَ اللّٰہُ بَصِیْرٌ بِمَا یَعْمَلُوْنَ ) اور اللہ ان کے سب اعمال کو دیکھتا ہے۔ بنی اسرائیل کے مفاد اور اتار چڑھاؤ کا تذکرہ سورة بنی اسرائیل کے پہلے رکوع میں قدرے تفصیل سے فرمایا ہے اسکو ملاحظہ کرلیا جائے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

126 فِنْنَۃٌ کے معنی آزمائش اور ابتلاء کے ہیں۔ فَعَمُوْا دین کی جو راہ رسولوں نے ان کو دکھائی تھی اس سے وہ محض سرکشی اور عناد کی وجہ سے وہ دانستہ اندھے بن گئے وَصمُّوْا اور حق بات سننے سے بہرے بن گئے۔ یعنی بنی اسرائیل نے سمجھا کہ اللہ کی طرف سے ان پر کوئی عذاب یا امتحان نہیں آئے گا کیونکہ وہ نَحْنُ اَبْنَاءُ اللہِ وَ اَحِبَّاء ہٗ (ہم اللہ کے چہیتے اور اس کے محبوب ہیں) کے فخر میں مغرور و سر مست تھے (قرطبی) اس لیے انہوں نے تورات کے احکام سے آنکھیں اور کان بند کرلیے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہی نہ سمجھی۔ 127: پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں توبہ کی توفیق دینے اور ان کی توبہ قبول کرنے کا سامان اس طرح بہم پہنچایا کہ حضرت خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وعلیہم کو مبعوث فرمایا جنہوں نے بنی اسرائیل کو توبہ کی راہ دکھائی کہ اگر وہ اللہ کی توحید پر اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر ایمان لے آئیں تو اللہ تعالیٰ ان کے تمام گناہ معاف فرما دے گا۔ (قرطبی) ۔ یا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لا کر توبہ کرلی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی تَابَ اللہُ عَلَیْھِمْ حین تابوا وامنوا بعیسی (علیہ السلام) (مظھری ج 3 ص 158) ۔ 128 لیکن جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے اور آپ نے اللہ کی توحید اور اپنی نبوت کی طرف دعوت دی تو ان میں اکثر پھر حق سے اندھے اور بہرے ہوگئے اور ضد وعناد اور بغض و حسد کی وجہ سے حق کا انکار کردیا اور ان میں سے بہت کم لوگوں نے حق کو قبول کیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 بلاشبہ ہم نے بنی اسرائیل سے توریت میں عہد لیا تھا اور بنی اسرائیل نے یہ عہد کیا تھا کہ ہم توریت کے تمام احکام مانیں گے اور ہر پیغمبر پر ایمان لائیں گے چناچہ ہم نے ان کی طرف لگاتار بہت سے رسول بھیجے مگر باوجود عہد و پیمان کے ان کے پاس جب کوئی رسول ایسا حکم لے کر آیا جس کو ان کا دل نہ چاہتا تھا اور ان کی نفسانی خواہشات کے وہ حکم خلاف ہوتا تھا تب ہی یہ اس قسم کے احکام لانے والے پیغمبروں میں سے بعض کو جھوٹا بتاتے تھے اور بعض کو قتل کر ڈالتے تھے اور ان بنی اسرائیل نے یہ گمان کرلیا تھا اور یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ ان ناشائستہ حرکات کے باعث ان پر کوئی آفت اور کوئی عذاب نہیں آئے گا اور اس غلط گمان کی وجہ سے یہ اور بھی اندھے اور بہرے بن گئے یعنی نہ راہ راست کو دیکھا اور نہ پیغمبروں کی بات کو سنا پھر اللہ تعالیٰ نے ا ن کی توبہ کو قبول کرلیا اور ان پر نظر عفو کے ساتھ توجہ فرمائی مگر اس کے بعد پھر ان میں بہت سے دوبارہ اندھے اور بہرے بن گئے اور جو کچھ یہ لوگ کرتے رہے اور جو کچھ آپ کے زمانے میں کر رہے ہیں ان سب کو اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے اور وہ سب اللہ تعالیٰ کے پیش نظر ہیں۔ (تیسیر) توریت میں ان بنی اسرائیل سے کہا گیا کہ توحید الٰہی کے قائل رہنا اور نیک اعمال کی پابندی کرنا اور جو رسول تمہارے پاس میرے فرستادہ آئیں ان سب پر ایمان لانا چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ان کے پاس رسول آنے شروع ہوئے تاکہ ان سے توریت کی پابندی کرائیں اور ان کی غلط کاریوں سے ان کو روکیں انہوں نے اپنے عہد کے خلاف حرکات شروع کردیں جب کوئی رسول ان کو بری باتوں کے خلا حکم دیتا تو یہ ایسے رسول کی تکذیب کرتے اور اس کو جھوٹا بتاتے اور بعض انبیاء کو قتل بھی کر ڈالتے اور چونکہ یہ سمجھتے کہ ہم خود انبیاء زادے ہیں اس لئے بےدھڑک اور بےباک ہو کر یہ گمان کرتے تھے کہ ہم پر تو کوئی فتنہ اور عذاب آئے گا نہیں اس لئے اندھے اور بہروں کی طرح نہ دین حق کو تلاش کرتے تھے نہ انبیاء کی بات سنتے تھے پھر تنبیہہ کے طور پر کچھ سزا ملتی تھی تو توبہ استغفار کرتے تھے اللہ تعالیٰ نظر عفو و کرم سے ان کی جانب متوجہ ہوتا تھا پھر ان میں سے اکثر بہک جاتے تھے اور اندھے بہرے بن کر وہی شیوہ اختیار کرلیتے تھے ان کی ناشائستہ حرکات کا ذکر اوپر گذر چکا ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب نبی آخر الزماں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب حضرت زکریا اور یحییٰ نبی کا قتل یہ ایسے واقعات ہیں کہ تمام مفسرین کا ان پر اتفاق ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ ان کے تمام اعمال شنیعہ سے واقف ہے اور باخبر ہے اور ان کے تمام اعمال اس کے پیش نظر ہیں اب نصاریٰ کی اس عہد شکنی کا ذکر ہے جو انہوں نے توریت اور انجیل کے احکام کے ساتھ کی چناچہ فرماتے ہیں۔ (تسہیل)