Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 85

سورة المائدة

فَاَثَابَہُمُ اللّٰہُ بِمَا قَالُوۡا جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَ ذٰلِکَ جَزَآءُ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۸۵﴾

So Allah rewarded them for what they said with gardens [in Paradise] beneath which rivers flow, wherein they abide eternally. And that is the reward of doers of good.

اس لئے ان کو اللہ تعالٰی ان کے اس قول کی وجہ سے ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی یہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور نیک لوگوں کا یہی بدلہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَأَثَابَهُمُ اللّهُ بِمَا قَالُواْ ... So because of what they said, Allah awarded them... rewarding them for embracing the faith and recognizing and believing in the truth. ... جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الاَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ... Gardens under which rivers flow (in Paradise), they will abide therein forever. and they will never be removed from it, for they will dwell and remain in it forever and ever, ... وَذَلِكَ جَزَاء الْمُحْسِنِينَ Such is the reward of good-doers. who follow the truth and obey it wherever, whenever and with whomever they find it. Allah then describes the condition of the miserable.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَثَابَہُمُ اللہُ بِمَا قَالُوْا جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا۝ ٠ۭ وَذٰلِكَ جَزَاۗءُ الْمُحْسِـنِيْنَ۝ ٨٥ ثوب أصل الثَّوْب : رجوع الشیء إلى حالته الأولی التي کان عليها، أو إلى الحالة المقدّرة المقصودة بالفکرة، وهي الحالة المشار إليها بقولهم : أوّل الفکرة آخر العمل . فمن الرجوع إلى الحالة الأولی قولهم : ثَابَ فلان إلى داره، وثَابَتْ إِلَيَّ نفسي، وسمّي مکان المستسقي علی فم البئر مَثَابَة، ومن الرجوع إلى الحالة المقدرة المقصود بالفکرة الثوب، سمّي بذلک لرجوع الغزل إلى الحالة التي قدّرت له، وکذا ثواب العمل، وجمع الثوب أَثْوَاب وثِيَاب، وقوله تعالی: وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر/ 4] ( ث و ب ) ثوب کا اصل معنی کسی چیز کے اپنی اصلی جو حالت مقدمہ اور مقصود ہوتی ہے اس تک پہنچ جانا کے ہیں ۔ چناچہ حکماء کے اس قول اول الفکرۃ اٰخرالعمل میں اسی حالت کی طرف اشارہ ہے یعنی آغاز فکر ہی انجام عمل بنتا ہے ۔ چناچہ اول معنی کے لحاظ سے کہا جاتا ہے ۔ شاب فلان الی درہ ۔ فلاں اپنے گھر کو لوٹ آیا ثابت الی نفسی میری سانس میری طرف ہوئی ۔ اور کنوئیں کے منہ پر جو پانی پلانے کی جگہ بنائی جاتی ہے اسے مثابۃ کہا جاتا ہے اور غور و فکر سے حالت مقدرہ مقصود تک پہنچ جانے کے اعتبار سے کپڑے کو ثوب کہاجاتا ہے کیونکہ سوت کاتنے سے عرض کپڑا بننا ہوتا ہے لہذا کپڑا بن جانے پر گویا سوت اپنی حالت مقصود ہ کی طرف لوٹ آتا ہے یہی معنی ثواب العمل کا ہے ۔ اور ثوب کی جمع اثواب وثیاب آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر/ 4] اپنے کپڑوں کو پاک رکھو ۔ الجَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ جَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] وقال تعالی: جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] ، وقال : وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] ، وقال تعالی: فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] اور تاکہ کشتیاں چلیں فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] اس میں چشمے بہ رہے ہوں گے تحت تَحْت مقابل لفوق، قال تعالی: لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] ، وقوله تعالی: جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ، تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ [يونس/ 9] ، فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] ، يَوْمَ يَغْشاهُمُ الْعَذابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ العنکبوت/ 55] . و «تحت» : يستعمل في المنفصل، و «أسفل» في المتصل، يقال : المال تحته، وأسفله أغلظ من أعلاه، وفي الحدیث : «لا تقوم الساعة حتی يظهر التُّحُوت» «4» أي : الأراذل من الناس . وقیل : بل ذلک إشارة إلى ما قال سبحانه : وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] . ( ت ح ت) تحت ( اسم ظرف ) یہ فوق کی ضد ہے قرآن میں ہے :۔ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] تو ( ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے ۔ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ( نعمت کے ) باغ میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے آواز دی ۔ تحت اور اسفل میں فرق یہ ہے کہ تحت اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے نیچے ہو مگر اسفل کسی چیز کے نچلا حصہ کو جیسے ۔ المال تحتہ ( مال اس کے نیچے ہے ) اس کا نچلا حصہ اعلیٰ حصہ سے سخت ہے ) حدیث میں ہے (48) لاتقوم الساعۃ حتیٰ یظھر النحوت کہ قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ تا وقی کہ کمینے لوگ غلبہ حاصل نہ کرلیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حدیث میں آیت کریمہ ؛۔ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] اور جب یہ زمین ہموار کردی جائے گی اور جو کچھ اس میں سے اسے نکلا کر باہر ڈال دے گی ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ نهر النَّهْرُ : مَجْرَى الماءِ الفَائِضِ ، وجمْعُه : أَنْهَارٌ ، قال تعالی: وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] ، ( ن ھ ر ) النھر ۔ بافراط پانی بہنے کے مجری کو کہتے ہیں ۔ کی جمع انھار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی ۔ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٥) نتیجہ یہ ہوا کہ ان حضرات کا بخوشی توحید خداوندی کے قائل ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انکو ایسے باغات دیے ہیں جن کے نیچے سے دودھ، شہد، پانی اور شراب کی نہریں جاری ہیں یہ حضرات جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے نہ ان کو وہاں موت آئے گی اور نہ ہی یہ اس سے نکالے جائیں گے، یہ موحدین یا ان حضرات کا جو قول وعمل کے اعتبار سے صاحب احسان ہوں نعم البدل ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٥ (فَاَثَابَہُمُ اللّٰہُ بِمَا قَالُوْا جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا ط) (وَذٰلِکَ جَزَآءُ الْمُحْسِنِیْنَ ) جو خوش قسمت نفوس اسلام قبول کریں ‘ اور اسلام کے بعد ایمان اور پھر ایمان سے آگے بڑھ کر احسان کے درجے تک پہنچ جائیں ان کا بدلہ یہی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:84) فاثابھم ۔ ف سببیہ ہے۔ اثاب یثیب اثابۃ (باب افعال) بدلہ دینا انعام دینا۔ ثواب دینا۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ اس نے ان کو بدلہ یا انعام دیا۔ یہاں ماضی مستقبل کے معنی میں مستعمل ہوا ہے۔ یعنی وہ ان کو بدلہ دے گا۔ انعام دے گا۔ جنت ۔۔ فیہا۔ اثاب کا مفعول ثانی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٨٥۔ اللہ کے علم میں یہ بات تھی کہ ان کے دل سچے ہیں اور ان کی زبان صداقت شعار ہے ۔ وہ صراط مستقیم پرچلنے کا عزم کئے ہوئے ہیں ‘ وہ اس دین کے لئے فریضہ شہادت حق ادا کرنے کے لئے تیار ہیں جس میں وہ داخل ہوئے ہیں ۔ وہ صداقت کے ساتھ اسلامی صفوں میں داخل ہوئے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ شہادت حق کی ادائیگی اللہ کا ایک احسان ہے جو اپنے بندوں میں سے کسی پر وہ کرتا ہے ۔ یہ بات اللہ کے علم میں تھی کہ اب وہ صرف اسلامی راہ پر ہی چلنا چاہتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ اللہ انکو نیکوں میں شامل کرے گا ۔ چونکہ یہ سب باتیں اللہ کے علم میں تھیں اس لئے اللہ نے ان کی اس بات کو قبول کرلیا اور ان کے لئے جزائے آخرت لکھ دی ۔ اس پر اپنی گواہی قائم کردی کہ یہ لوگ نیک ہیں اور یہ ہے جزائے محسنین : (آیت) ” فَأَثَابَہُمُ اللّہُ بِمَا قَالُواْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا وَذَلِکَ جَزَاء الْمُحْسِنِیْنَ (85) ” ان کے اس قول کی وجہ سے اللہ نے ان کو ایسی جنتیں عطا کیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہ جزاء ہے نیک رویہ اختیار کرنے والوں کے لئے ۔ “ احسان ایمان اور اسلام کے اعلی درجات کو کہتے ہیں اور اللہ بذات خود شہادت دیتے ہیں کہ یہ لوگ گروہ محسنین میں سے ہیں ۔ لہذا یہ آیات ایک خاص گروہ کے بارے میں ہیں ‘ جس کے خدوخال بالکل واضح ہیں اور ایسے ہی لوگوں کے بارے میں یہ حکم ہے : (آیت) ” وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَہُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ آمَنُواْ الَّذِیْنَ قَالُوَاْ إِنَّا نَصَارَی ) ” اور ایمان لانے والوں کے لئے دوستی میں قریب ترتم ان لوگوں کو پاؤ گے جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نصاری ہیں “۔ یہ ایک ایسا گروہ ہے کہ جب وہ حق بات کو سنتا ہے تو سرکشی نہیں کرتا بلکہ وہ دل کی گرائیوں سے اسے قبول کرتا ہے اور اس قبولیت کا برملا اعلان کرتا ہے ۔ یہ ایک ایسا فریق ہے کہ وہ اپنے اعلان اسلام میں ایک لمحے کے لئے بھی تردد نہیں کرتا ‘ فورا اسلامی صفوں میں شامل ہوجاتا ہے ۔ وہ اس نظریہ حیات کے حوالے سے عائد ہونے والے تمام فرائض کی ادائیگی کے لئے بھی تیار ہوجاتا ہے اور وہ اسلامی نظام حیات کے قیام کی راہ میں جدوجہد کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے ۔ نیز یہ ایک ایسا فریق ہے کہ جن کی باتوں کی تصدیق اللہ کرتا ہے اور اعلان کردیتا ہے کہ یہ محسنین ہیں اور یہ ہے ان کی جزائ۔ لیکن قرآن مجید اس پر اکتفا نہیں کرتا ‘ وہ اس گروہ کے خدوخال میں مزید اضافہ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ یہ کون ہیں جو اہل ایمان کے لئے محبت کے جذبات رکھتے ہیں ۔ یہ وضاحت اب اس طرح کی جاتی ہے کہ وہ اس گروہ نصاری کے بالمقابل ایک دوسرے گروہ نصاری کا ذکر کرتا ہے جن کے خدوخال یہ ہیں کہ وہ سچائی کو سن کر ‘ سمجھ کر اس کا انکار کرتے ہیں وہ اس پر لبیک نہیں کہتے اور وہ گواہی دینے والوں کے ساتھ شامل نہیں ہوتے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ جب انہوں نے اپنے مومن ہونے کا اعلان کردیا تو یہودیوں نے ان کو عار دلائی اور ان سے کہا کہ تم کیوں ایمان لائے ؟ اس پر انہوں نے وہ جواب دیا جو اوپر مذکور ہوا درحقیقت جب قلوب میں ایمان کی لہر دوڑ جاتی ہے اور ایمان دل میں رچ پچ جاتا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت ایمان کے خلاف آمادہ نہیں کرسکتی، اور کسی جاہل کا عار دلانا ایمان سے واپس نہیں کرسکتا آخر میں اللہ جل شانہ ‘ نے اہل ایمان کا انعام اور کافروں کی سزا بیان فرمائی چناچہ ارشاد ہے (فَاَثَابَھُمُ اللّٰہُ بِمَا قَالُوْا جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا) (سو اللہ تعالیٰ نے ان کے قول کی وجہ سے ان کو ایسے باغیچے عنایت فرمائے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے) (وَ ذٰلِکَ جَزَآءُ الْمُحْسِنِیْنَ ) (اور یہ بدلہ ہے اچھے کام کرنے والوں کا) (وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ ) (اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا وہ دوزخ والے ہیں) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi