Surat Qaaf

The letter Qaaf

Surah: 50

Verses: 45

Ruku: 3

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

تفسیر سورۃ ق جن سورتوں کو مفصل کی سورتیں کہا جاتا ہے ان میں سب سے پہلی سورت یہی ہے گو ایک قول یہ بھی ہے کہ مفصل کی سورتیں سورہ حجرات سے شروع ہوتی ہیں یہ بالکل بے اصل بات ہے علماء میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں مفصل کی سورتوں کی پہلی سورت یہی ہے اس کی دلیل ابو داؤد کی یہ حدیث ہے جو ( باب تحریب الق... ران ) میں ہے حضرت اوس بن حذیفہ فرماتے ہیں وفد ثقیف میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت مغیرہ بن شعبہ کے ہاں ٹھہرے اور بنو مالک کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قبے میں ٹھہرایا ۔ فرماتے ہیں ہر رات عشاء کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آتے اور کھڑے کھڑے ہمیں اپنی باتیں سناتے یہاں تک کہ آپ کو دیر کی وجہ سے قدموں کو بدلنے کی ضرورت پڑتی کبھی اس قدم کھڑے ہوتے کبھی اس قدم پر عموما آپ ہم سے وہ واقعات بیان کرتے جو آپ کو اپنی قوم قریش سے سہنے پڑے تھے پھر فرماتے کوئی حرج نہیں ہم مکے میں کمزور تھے بےوقعت تھے پھر ہم مدینے میں آگئے اب ہم میں ان میں لڑائی ڈولوں کے مثل ہے کبھی ہم ان پر غالب کبھی وہ ہم پر غرض ہر رات یہ لطف صحبت رہا کرتا تھا ایک رات کو وقت ہو چکا اور آپ نہ آئے ۔ بہت دیر کے بعد تشریف لائے ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آج تو آپ کو بہت دیر ہو گئی آپ نے فرمایا ہاں قرآن شریف کا جو حصہ روزانہ پڑھا کرتا تھا آج اس وقت اسے پڑھا اور ادھورا چھوڑ کر آنے کو جی نہ چاہا ۔ حضرت اوس فرماتے ہیں میں نے صحابہ سے پوچھا کہ تم قرآن کے حصے کسی طرح کرتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا پہلی تین سورتوں کی ایک منزل پھر پانچ سورتوں کی ایک منزل ، پھر سات سورتوں کی ایک منزل ، پھر نو سورتوں کی ایک منزل پھر گیارہ سورتوں کی ایک منزل پھر تیرہ سورتوں کی ایک منزل اور مفصل کی سورتوں کی ایک منزل ۔ یہ حدیث ابن ماجہ میں بھی ہے پس پہلی چھ منزلوں کو کل اڑتالیس سورتیں ہوئیں پھر ان کے بعد مفصل کی تمام سورتوں کی ایک منزل تو انچاسویں سورت یہی سورہ قاف پڑتی ہے ۔ باقاعدہ گنتی سنئے ۔ پہلے منزل کی تین سورتیں سورہ بقرہ سورہ آل عمران اور سورہ نساء ہوئیں ۔ دوسری منزل کی پانچ سورتیں مائدہ انعام ، اعراف ، انفال اور برات ہوئیں ۔ تیسری منزل کی سات سورتیں یونس ، ہود ، یوسف ، رعد ، ابراہیم ، حجر ، اور نحل ہوئیں ۔ چوتھی منزل کی نو سورتیں سبحٰن ، کہف ، مریم ، طہ ، انبیاء ، حج ، مومنون ، نور اور فرقان ہوئیں ۔ پانچویں منزل کی گیارہ سورتیں شعراء ، نمل ، قصص ، عنکبوت ، روم ، لقمان ، الم سجدہ ، احزاب ، سبا ، فاطر ، اور ےیٰسین ہوئیں ۔ چھٹی منزل کی تیرہ سورتیں صافات ، ص ، زمر ، غافر ، حم السجدہ ، حم ، عسق ، زخرف ، دخان ، جاثیہ ، احقاف ، قتال ، فتح اور حجرات ہوئیں ۔ اب ساتویں منزل مفصل کی سورتیں باقی رہیں جو حجرات کے بعد کی سورت سے شروع ہوں گی اور وہ سورہ ق ہے ۔ اور یہی ہم نے کہا تھا فالحمد اللہ ۔ مسلم شریف میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے حضرت ابو واقد لیثی سے پوچھا کہ عید کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا پڑھتے تھے؟ آپ نے فرمایا سورہ ق اور سورہ آیت ( اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ Ǻ۝ ) 54- القمر:1 ) ، مسلم میں ہے حضرت ام ہشام بنت حارثہ فرماتی ہیں کہ ہمارا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسال تک یا ایک سال کچھ ماہ تک ایک ہی دستور رہا میں نے سورہ ق کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سن سن کر یاد کر لیا اس لئے کہ ہر جمعہ کے دن جب آپ لوگوں کو خطبہ سنانے کیلئے منبر پر آتے تو اس سورت کی تلاوت کرتے الغرض بڑے بڑے مجمع کے موقع پر جیسے عید ہے جمعہ ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سورت کی تلاوت کرتے کیونکہ اس میں ابتداء خلق کا مرنے کے بعد جینے کا اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کا حساب کتاب کا ، جنت دوزخ کا ثواب عذاب اور رغبت و ڈراوے کا ذکر ہے واللہ اعلم ۔  Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة قٓ نام : آغاز ہی کے حرف ق سے ماخوذ ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ سورۃ جس کا افتتاح حرف ق سے ہوتا ہے ۔ زمانۂ نزول : کسی معتبر روایت سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ یہ ٹھیک کس زمانہ میں نازل ہوئی ہے ، مگر مضامین پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ اس کا زمانہ نزول مکہ معظمہ کا دوسرا دور ہے جو نبوت کے تیسرے ... سال سے شروع ہو کر پانچویں سال تک رہا ۔ اس سورہ کی خصوصیات ہم سورہ انعام کے دیباچہ میں بیان کر چکے ہیں ۔ ان خصوصیات کے لحاظ سے اندازاً یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ سورہ پانچویں سال میں نازل ہوئی ہوگی جبکہ کفار کی مخالفت اچھی خاصی شدت اختیار کر چکی تھی ، مگر ابھی ظلم و ستم کا آغاز نہیں ہوا تھا ۔ موضوع اور مباحث : معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر عیدین کی نمازوں میں اس سورۃ کی تلاوت فرمایا کرتے تھے ۔ ایک خاتون ام ہشام بن حارثہ ، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پڑوسن تھیں ، بیان کرتی ہیں کہ مجھے سورہ ق یاد ہی اسطرح ہوئی کہ میں جمعہ کے خطبوں میں اکثر آپ کی زبان مبارک سے اس کو سنتی تھی ۔ بعض اور روایت میں آیا ہے کہ فجر کی نماز میں بھی آپ بکثرت اس کو پڑھا کرتے تھے ۔ اس سے یہ بات واضح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں یہ ایک بڑی اہم سورۃ تھی ۔ اس لیے آپ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک بار بار اس کے مضامین پہنچانے کا اہتمام فرماتے تھے ۔ اس اہمیت کی وجہ سورۃ کو بغور پڑھنے سے بآسانی سمجھ میں آجاتی ہے ۔ پوری سورۃ کا موضوع آخرت ہے ۔ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے جب مکہ معظمہ میں اپنی دعوت کا آغاز کیا تو لوگوں کو سب سے زیادہ اچنبھا آپ کی جس بات پر ہوا وہ یہ تھی کہ مرنے کے بعد انسان دوبارہ اٹھائے جائیں گے اور ان کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا ۔ لوگ کہتے تھے یہ تو بالکل انہونی بات ہے ۔ عقل باور نہیں کرتی کہ ایسا ہو سکتا ہے ، آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ جب ہمارا ذرہ ذرہ زمین میں منتشر ہو چکا ہو تو ان پراگندہ اجزاء کو ہزارہا برس گزرنے کے بعد پھر اکٹھا کر کے ہمارا یہی جسم از سر نو بنا دیا جائے اور ہم زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں؟ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ تقریر نازل ہوئی ۔ اس میں بڑے مختصر طریقے سے چھوٹے چھوٹے فقروں میں ایک طرف آخرت کے امکان اور اس کے وقوع پر دلائل دیے گئے ہیں ، اور دوسری طرف لوگوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ تم خواہ تعجب کرو ، یا بعید از عقل سمجھو ، یا جھٹلاؤ ، بہرحال اس سے حقیقت نہیں بدل سکتی حقیقت اور قطعی اٹل حقیقت یہ ہے کہ تمہارے جسم کا ایک ایک ذرہ جو زمین میں منتشر ہوتا ہے ، اس کے متعلق اللہ کو معلوم ہے کہ وہ کہاں گیا ہے اور کس حال میں کس جگہ موجود ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ایک اشارہ اس کے لیے کافی ہے کہ یہ تمام منتشر ذرات پھر جمع ہو جائیں اور تم کو اسی طرح دوبارہ بنا کھڑا کیا جائے جیسے پہلے بنایا گیا تھا ۔ اسی طرح تمہارا یہ خیال کہ تم یہاں شتر بے مہار بنا کر چھوڑ دیے گئے ہو اور کسی کے سامنے تمہیں جواب دہی نہیں کرنی ہے ، ایک غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں ہے امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ براہ راست خود بھی تمہارے ہر قول و فعل سے ، بلکہ تمہارے دل میں گزرنے والے خیالات تک سے واقف ہے ، اور اس کے فرشتے بھی تم میں سے ہر شخص کے ساتھ لگے ہوئے تمام حرکات و سکنات کا ریکارڈ محفوظ کر رہے ہیں ۔ جب وقت آئے گا تو ایک پکار پر تم بالکل اسی طرح نکل کھڑے ہو گے جس طرح بارش کا ایک چھینٹا پڑتے ہی زمین سے نباتات کی کونپلیں پھوٹ نکلتی ہیں ۔ اس وقت یہ غفلت کا پردہ جو آج تمہاری عقل پر پڑا ہوا ہے ، تمہارے سامنے سے ہٹ جائے گا اور تم اپنی آنکھوں سے وہ سب کچھ دیکھ لو گے جس کا آج انکار کر رہے ہو ۔ اس وقت تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ تم دنیا میں غیر ذمہ دار نہیں تھے بلکہ ذمہ دار اور جواب دہ تھے ۔ جزا و سزا ، عذاب و ثواب اور جنت و دوزخ جنہیں آج فسانہ عجائب سمجھ رہے ہو ، اس وقت یہ ساری چیزیں تمہاری مشہود حقیقتیں ہونگی ۔ حق سے عناد کی پاداش میں اسی جہنم کے اندر پھینکے جاؤ گے جسے آج عقل سے بعید سمجھتے ہو ، اور خدائے رحمان سے ڈر کر راہ راست کی طرف پلٹنے والے تمہاری آنکھوں کے سامنے اسی جنت میں جائیں گے جس کا ذکر سن کر آج تمہیں تعجب ہو رہا ہے ۔  Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

تعارف سورۃ ق اس سورت کا اصل موضوع آخرت کا اثبات ہے، اسلام کے عقائد میں عقیدۂ آخرت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، یہی وہ عقیدہ ہے جو انسان کے قول وفعل میں ذمہ داری کا احساس پیدا کرتا ہے، اور اگر یہ عقیدہ دل میں پیوست ہوجائے تو وہ ہر وقت انسان کو اس بات کی یاد دلاتا رہتا ہے کہ اسے اپنے ہر کام کا اللہ تعال... یٰ کے سامنے جواب دینا ہے، اور پھر یہ عقیدہ انسان کو گناہوں، جرائم اور ناانصافیوں سے دور رکھنے میں بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے، اس لئے قرآن کریم نے آخرت کی زندگی کو یاد دلانے پر بہت زور دیا ہے، اور اسی کا نتیجہ تھا کہ صحابۂ کرام ہر وقت آخرت کی زندگی کو بہتر بنانے کی فکر میں لگے رہتے تھے، اب جو مکی سورتیں آرہی ہیں، ان میں زیادہ تر اسی عقیدے کے دلائل اور قیامت کے حالات اور جنت اور دوزخ کی منظر کشی پر زور دیا گیا ہے، سورۂ ق کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بکثرت فجر اور جمعہ کی نمازوں میں اس سورت کی تلاوت فرمایا کرتے تھے، سورت کے آغاز حروف مقطعات میں حرف ق سے کیا گیا ہے، جس کے معنی اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہیں، اسی حرف کے نام پر سورت کا نام رکھا گیا ہے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تعارف سورة قٓ بسم اللہ الرحمن الرحیم ٭سورۃ نمبر 50 کل رکوع 3 آیات 45 الفاظ و کلمات 376 حروف 1525 مقام نزول مکہ مکرمہ ٭انسان اس دنیا میں جو بھی عمل کرتا ہے اللہ اس کو اچھی طرح جانتا ہے۔ اس نے ہر آدمی پر دو فرشتے مقرر کر رکھے ہیں جو اس کی اچھی یا بری باتوں کو لکھتے جارہے ہیں۔ ان کے اس نامہ اعمال ک... و وہ قیامت کے دن ہر آدمی کے سامنے رکھ دیں گے۔ پھر ان کے اعمال کے مطابق ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ معاملہ فرمائیں گے۔ ٭جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے تو جہنم سے پوچھا جائے گا کہ کیا اب بھی اور مجرمین کے لیے جگہ باقی ہے ؟ جہنم کہے گی الہیٰ ! اگر اور جہنمی ہیں تو ان کو بھیج دیجئے ابھی گنجائش ہے اور اس طرح ان کا فروں اور مشرکین کو اور ان کے شیطانوں کو جہنم میں ڈال کر اوپر سے جہنم کو ڈھک دیا جائے گا۔ ٭اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ ہم نے اپنے رسول کو لوگوں کی اصلاح کے لیے بھیجا ہے۔ لیکن کفار یہ کہتے ہیں کہ (١) بڑے تعجب اور حیرت کی بات ہے کہ اللہ نے اس کو نبی بنا کر بھیجا ہے جو ہم جیسا ہی ہے ؟ ٢) دوسری بات یہ کہتے ہیں کہ جب ہم مرکر مٹی ہوجائیں گے تو بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمیں دوبارہ پیدا کیا جائے گا۔ یہ ایسی بات ہے جسے ہماری عقل تسلیم نہیں کرتی۔ ٭اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا وہ اپنے سروں کے اوپر اس آسمان کو نہیں دیکھتے جو بڑی شان والا ہے۔ جسے ہم نے چاند ‘ سورج اور ستاروں سے سجایا ہے۔ جس نے اس زمین و آسمان کو بنایا ہے اس کے لئے یہ کیا مشکل ہے کہ وہ آدمی کو مٹی میں مل جانے کے بعد دوبارہ پیدا نہ کرسکے۔ فرمایا زمین کو دیکھو اس کو اللہ نے کس طرح بچھایا ہے۔ اس میں مضبوط پہاڑ بنائے ہیں۔ اسی نے زمین میں طرح طرح کی چیزیں اگائی ہیں۔ بلندیوں سے پانی برسا کر اس سے وبصورت باغات ‘ سرسبز و شاداب درخت اور ان پر طرح طرح کے پھل پیدا کیے ہیں۔ جب بارش نہیں ہوتی تو زمین مردہ سی ہو کر رہ جاتی ہے لیکن جیسے ہی پانی برستا ہے تو زمین میں ایک نئی زندگی پیدا ہوجاتی ہے۔ فرمایا اگر اللہ تعالیٰ مردہ زمین پر بارش برسانے کے بعد اس کو دوبارہ زندہ کردیتا ہے اسی طرح جب ساری دنیا کے انسان مرجائیں گے تو اللہ ان کو اسی طرح زندہ فرمادے گا۔ ٭ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا گیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کفار و مشرکین کو ان کے برے انجام سے ڈراتے رہیے اور کفار و مشرکین کی باتوں پر صبر کیجئے۔ ٭فرمایا کہ تم سے پہلے بہت سی قومیں گزری ہیں۔ قوم نوح ‘ کنویں والے ‘ قوم ثمود ‘ قوم عاد ‘ قوم فرعون ‘ قوم لوط ‘ گھنے جنگلات والے اور قوم تبع۔ یہ بڑی ترقی یافتہ اور مضبوط قومیں تھیں لیکن جب انہوں نے نبیوں کو اور ان کی لائی ہوئی تعلیمات کو جھٹلایا اور ضد میں بہت آگے نکل گئے تب ان پر اللہ کا عذاب آیا اور وہ اپنے بد ترین انجام سے نہ بچ سکے اور ان قوموں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا گیا۔ فرمایا کہ یہ احمدق اتنی بات نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالیٰ کیا پہلی مرتبہ انسان اور کائنات کو پیدا کر کے تھک گیا ہے اور اب وہ انسان اور کائنات کو دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا ؟ یہ کیسا برا تصور ہے کہ انہوں نے خود ہی فیصلہ کرلیا کہ اب اللہ آدمی کو دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا۔ پہلی مرتبہ پیدا کرنا مشکل ہو سکتا تھا مگر دوبارہ پیدا کرنا کیسے ناممکن سمجھ لیا ہے۔ ٭فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو انسان کے ہر ایک عمل کی خبر ہے۔ پھر اس نے اپنے دو ایسے فرشتے ہر انسان پر مقرر کیے ہوئے ہیں جو آدمی کی ایک ایک حرکت اور باتوں کو لکھتے جارہے ہیں۔ ٭فرمایا کہ موت کے دروازے سے ہر ایک کو گزرنا ہے۔ موت آدمیوں پر بھی طاری ہوتی ہے اور کائنات پر بھی طاری کی جائے گی۔ پہلی مربہ جب صور پھونکا جائے گا تو زمین و آسمان اور ہر جان دارختم ہوجائے گا اور جب دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا تو سب زندہ ہو کر اللہ کی بار گاہ میں حاضر ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کے متعلق جو کفر و شرک کرتا ‘ ضد اور عناد سے کام لے کر ہر نیک کام سے دوسروں کو روکتا تھا۔ دین میں طرح طرح کے ش ہے پیدا کرتا اور اللہ کے ساتھ دوسروں کو معبود بنا کر رکھتا تھا حکم دیا جائے گا کہ اس کو سخ تجہنم میں جھونک دیا جائے۔ اس وقت کفارو مشرکین شیطانوں پر الزام لگاتے ہوئے کہیں گے کہ الیہٰ ! یہی وہ شیطان ہیں جنہوں نے ہمیں بہکایا تھا اور راستہ سے بھٹکادیا تھا۔ اس پر شیطان کہیں گے کہ الٰہی ! ہم نے انہیں گمراہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ تو خود اپنے اختیار سے گمراہی کے گڑھے میں جا گرے تھے اور ہر برائی اور بدترین کام کی طرف دوڑ دوڑ کر جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اب آپس میں جھگڑا کرنے سے کیا فائدہ۔ آج دن وہ ہے کہ جس نے جیسا کیا تھا وہ اس کو بھگتے گا۔ جب تم سے کہا جاتا تھا کہ گمراہی کا راستہ اختیار نہ کرو اس وقت تم اس بات پر غور و فکر نہیں کرتے تھے۔ یاد رکھو اللہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہیں کرتا بلکہ انسان خود ہی اپنے نقصان کا ذمہ دار ہے ۔ ٭جب جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے تو جہنم سے پوچھا جائے گا کہ کیا اب بھی اور مجرمین کے لیے جگہ باقی ہے ؟ وہ جہنم کہے گی الٰہی ! اگر اور جہنمی ہیں تو ان کو بھیج دیجئے ابھی گنجائش باقی ہے اور اس طرح ان کافروں ‘ مشرکوں اور شیطانوں کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور جہنم کو ڈھک دیا جائے گا۔ ٭اہل تقویٰ اور اہل ایمان سے کہا جائے گا کہ تم سے جس جنت کا وعدہ کیا گیا تھا وہ یہ جنت ہے اور جنت کو ان کے قریب تر کردیا جائے گا یعنی ان جنتیوں کو ایسا محسوس ہوگا جیسے جنت بالکل ان کے سامنے ہے۔ ان سے کہا جائے گا کہ اب تم امن و سلامتی اور سکون سے یہاں رہو۔ اب اس میں تمہیں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے۔ ان جنتوں میں تم جو کچھ چاہو گے وہ ملے گا اور ان کو بغیر مانگے بھی بہت کچھ دیا جائے گا۔ ٭فرمایا گیا کہ یہ کفار و مشرکین اپنی طاقت اور سرداریوں پر نہ اترائیں کیونکہ ان سے پہلے گزری ہوئی قومیں ان سے بھی طاقت ور اور مضبوط تھیں لیکن جب انہوں نے نافرمانیوں سے توبہ نہ کی تو ان کو تباہ و برباد کردیا گیا۔ ٭اللہ نے فرمایا کہ اس نے چھ دن میں ساری کائنات کو پیدا کیا۔ وہی دوبارہ بھی پیداکرے گا۔ ٭نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ کفارو مشرکین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق جو کچھ کہتے ہیں اس پر صبر کیجئے۔ طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے اپنے پروردگار کی حمد وثناکیجئے اور رات کے ایک حصے میں اس کی تسبیح کیجئے۔ نمازوں کا اہتمام کیجئے۔ فرمایا زندگی اور موت سب اللہ کے ہاتھ میں ہے اسی طرح ساری دنیا کے سب اولین و آخرین کو جمع کرلینا بہت آسان ہے۔ ٭نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا گیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کفار کو سمجھاتے رہیے۔ ان کو سمجھا نا ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داری ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پر زبردستی کے لیے نہیں بھیجے گئے۔ جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں وہ ضرور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات پر دھیان دیں گے۔   Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

سورة قٓ کا تعارف اس سورت کا نام اس کے پہلے حرف پر رکھا گیا ہے اس کے تین رکوع اور پینتالیس (٤٥) آیات ہیں اور مکہ میں نازل ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی قسم اٹھا کر کفار کے اس نظریہ کی تردید کی ہے کہ یہ لوگ اس بات پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہی میں سے ایک شخص کو رسول منتخب ف... رمایا جو انہیں ان کے عقائد اور کردار کے برے انجام سے ڈراتا ہے، اور اس بات پر بھی قسم اٹھائی گئی ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ جب ہم مٹی بن جائیں گئے تو پھر ہمیں کسی طرح دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جو کچھ زمین میں موجود ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں لوح محفوظ پر لکھا ہوا ہے جو لوگ دوبارہ جی اٹھنے پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں کیا وہ ان باتوں پر غور نہیں کرتے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو کس طرح بےنقص پیدا فرمایا اور اسے ستاروں سے مزین کردیا ہے۔ ٢۔ اس نے کس طرح زمین کو بچھایا اور پھر اس پر پہاڑ گارڈ دئیے اور زمین کس طرح اپنے پیٹ سے ہر چیز کا جوڑا جوڑا پیدا کرتی ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی آسمان سے بابرکت پانی نازل کرنے والا ہے اور وہی باغات کو اگانے والا ہے۔ جس طرح زمین سے اپنے بندوں کے لیے رزق پیدا کرتا ہے اسی طرح ہی وہ قیامت کے دن لوگوں کو زمین سے نکال لے گا اور انسان اپنے دل میں جو کچھ بھی سوچتا ہے اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے کیونکہ وہی انسان کو پیدا کرنے والا ہے اور وہ ہر وقت انسان کی شاہ رگ کے قریب رہتا ہے جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اسرافیل کے صور پھونکنے سے ہی لوگ کھڑے ہوجائیں گے اور ہر انسان اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے حضور پیش کیا جائے گا۔ اس دن مجرموں کی آنکھیں کھل جائیں گی اور وہ کھلی آنکھوں کے ساتھ جہنم کو دیکھ رہے ہوں گے، مجرموں کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا جس کی اشتہا اور تپش کبھی کم نہیں ہوگی۔ ہاں ان کے مقابلے میں جو شخص قیامت کے دن پر ایمان لاکر اپنے رب سے ڈرتا رہا۔ اسے جنت میں داخل کیا جائے گا جنتی جو کچھ چاہیں گے وہی کچھ جنت میں پائیں گے یہ نصیحت بس اس شخص کے لیے ہے جو دل کی توجہ اور حقیقت کو کان کھول کر سننے والا ہے۔ لوگوں کو زندہ کرنا اور مارنا اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی مشکل نہیں اور قیامت کے دن لوگوں کو اکٹھا کرنا اس نے اپنے ذمے کے رکھا ہے۔ جو شخص حقائق جاننے کے باوجود حق قبول نہیں کرتا اس سے جھگڑنے کی بجائے صبر اور حوصلے سے کام لینا چاہیے اور لوگوں کو قرآن مجید کے ساتھ نصیحت کرتے رہنا چاہیے کیونکہ قرآن مجید کی نصیحت لوگوں کے لیے مفید ثابت ہوتی ہے۔   Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٢٤٧ ایک نظر میں یہ اس سورت کا پہلا سبق ہے۔ اس کا موضوع مسئلہ بعث بعد الموت ہے۔ مشرکین مکہ اس کا انکار کرتے تھے بلکہ جو لوگ بعث بعد الموت کے قائل تھے وہ ان کی جانب سے یہ عقیدہ رکھنے پر تعجب کرتے تھے۔ لیکن قرآن صرف ان کے اس غلط خیال ہی کو موضوع بحث نہیں بناتا۔۔۔۔ ۔ انکار پر بحیثیت مجموعی ... تنقید کرتا ہے اور ان کی اصلاح کر کے اور ان کی کج فکری کو درست کر کے ان کو سچائی کی راہ کی طرف لوٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ قرآن کریم کی سعی یہ ہے کہ ان کے غافل دلوں کو جھنجھوڑے اور خوب جگائے تا کہ وہ اس کائنات کے اندر جو عظیم حقائق ہیں ، ان کو سمجھنے کے لئے اپنے دل کے دروازے کھولیں ۔ اس لیے قرآن کریم محض منطقی انداز مناظرہ میں ان کے ساتھ موضوع بعث بعد الموت پر کوئی مباحثہ نہیں کرتا ۔ وہ صرف ان کے مردہ دلوں کو زندہ کرتا ہے۔ ان کے زنگ آلود دماغ کو صیقل کرتا ہے کہ وہ غور وفکر سے کام لیں۔ وہ ان کے وجدان کو چھوتا ہے تا کہ اس کے اندر احساس تیز ہو اور وہ اپنے ماحول کے اندر پائے جانے والے حقائق سے براہ راست متاثر ہو سکے۔ یہ ایک ایسا سبق ہے جس سے وہ لوگ خوب استفادہ کرسکتے ہیں جن کا کام دلوں کی اصلاح کرنا ہو۔ سورت کا آغاز حرف ق اور قرآن مجید کی قسم سے ہوتا ہے ، مطلب یہ کہ یہ قرآن مجید تو ایسے ہی حروف سے مرکب ہے اور لفظ قرآن کا پہلا حرف ہی قاف ہے۔ ٭٭٭٭٭ یہاں اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ کس بات پر قسم اٹھائی جا رہی ہے۔ یہ قسم کلام کے آغاز میں ہے۔ اس کا پہلا مطلب یہ ہے کہ اللہ اپنے کلام کا آغاز قسم سے کر رہا ہے ، لہٰذا بیدار ہوجاؤ، معاملہ غیر معمولی ہے۔ اللہ اور قسم ، لہٰذا معاملہ خطرناک ہے۔ شاید اس آغاز کا مقصد یہی ہے کیونکہ بجائے اس کے کہ بعد میں وہ بات ذکر کی جائے جس کے لئے قسم اٹھائی جا رہی ہے ، حرف اضراب “ بل ” کو لایا گیا ہے۔ کیونکہ قسم نے مخاطب پر خوب اثر ڈال دیا۔ اس لیے اب ان کے تعجب اور بعث بعد موت کو ایک “ انہونی بات سمجھنے ” کے موضوع کو لیا جاتا ہے ، اس اندز میں کہ گویا مشرکین کے سامنے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوبارہ اٹھائے جانے کی بات کی تو انہوں نے اس کا یوں انکار کردیا گویا کفار کے نزدیک یہ ایک نئی بات ہے۔   Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi