Surat uz Zaariyaat

Surah: 51

Verse: 22

سورة الذاريات

وَ فِی السَّمَآءِ رِزۡقُکُمۡ وَ مَا تُوۡعَدُوۡنَ ﴿۲۲﴾

And in the heaven is your provision and whatever you are promised.

اور تمہاری روزی اور جو تم سے وعدہ کیا جاتا ہے سب آسمان میں ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَفِي السَّمَاء رِزْقُكُمْ ... And in the heaven is your provision, (meaning, rain), ... وَمَا تُوعَدُونَ and that which you are promised. meaning Paradise. This was said by Ibn Abbas, Mujahid and several others. Allah said: فَوَرَبِّ السَّمَاء وَالاَْرْضِ إِنَّهُ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَا أَنَّكُمْ تَنطِقُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

22۔ 1 یعنی بارش بھی آسمان سے ہوتی ہے جس سے تمہارا رزق پیدا ہوتا ہے اور جنت دوزخ ثواب وعتاب بھی آسمانوں میں ہے جن کا وعدہ کیا جاتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥] انسان بلکہ سب جاندار مخلوق کے رزق کا ذریعہ بارش ہے جو آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ آسمان سے مراد بادل بھی ہوسکتا ہے اور نفس آسمان بھی۔ کیونکہ ہر علاقے میں جتنی بارش ہونا مقدر ہو اس کا حکم آسمان سے نازل ہوتا ہے اور ہر ایک کو اس کے مقدر کی روزی مل کے رہتی ہے کسی کے روکنے سے رک نہیں سکتی اور اتنی ہی مل... تی ہے جتنی اس کے مقدر میں ہے اس سے زیادہ نہیں مل سکتی۔ [١٦] رزق انسان کو زندہ رہنے اور کام کرنے کے لیے دیا جاتا ہے لیکن وہ دنیا میں کتنا عرصہ کام کرے گا اور کب اور کہاں مرے گا۔ یہ فیصلہ آسمانوں سے نازل ہوتا ہے۔ نیز یہاں وعدہ سے مراد وعدہ قیامت، حشر و نشر، محاسبہ وباز پرس، جزا و سزا اور جنت و دوزخ بھی ہے۔ جن کے رونما ہونے کا وعدہ تمام آسمانی کتابوں میں دیا گیا ہے۔ قیامت اور اس سے متعلقہ امور کے سب فیصلے عالم بالا ہی میں ہوتے ہیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وفی السمآء رزقکم : اکثر مفسرین نے یہاں رزق سے مراد بارش لی ہے، جیسا کہ فرمایا :(ھو الذین یریکم ایتہ وینزل لکم من السمآء ر زقاً (المومن : ١٣)” وہی ہے جو تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور تمہارے لئے آسمان سے رزق اتارتا ہے۔ “ مگر لفظ عام ہیں، اس لئے رزق سے مراد وہ سب کچھ ہے جو دنیا میں انسان کو جیتے... ، کھانے پیتے اور کام کرنے کے لئے دیا جاتا ہے۔ یعنی تمہیں جو کچھ دیا جا رہا ہے وہ آسمان میں اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے اور تمہیں وہیں سے عطا ہوتا ہے۔” فی السمآئ “ مقدم لانے سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا ، اس لئے ترجمہ کیا گیا ہے ” تمہارا رزق آسمان ہی میں ہے۔ “ تو جب تمہارا رزق آسمان ہی میں ہے تو پھر کمائی کے لئے اتنی فکر کیوں کہ جائز و ناجائز کی تمیز بھی نہ کی جائے اور حق والوں کو حق بھی نہ دیا جائے ؟ پھر اسئل اور محروم پر خرچ کرنے میں بخل اور دریغ کیسا ؟ اور جب آتا آسمان سے ہے تو کسی پر خرچ کر کے اپنا احسان جتلانے کی کیا وجہ ؟ (٢) وما توعدون : یعنی حشر و نشر، جزا و سزا اور جنت و دوزخ وغیرہ جن کے رونما ہونے کا وعدہ تمام انبیاء کی زبانی اور تمام آسمانی کتابوں کے ذریعے سے کیا گیا ہے، ان سب کا حکم آسمان ہی سے ہے۔ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں :” آنے والی جو بات ہے اس کا حکم آسمان ہی سے اترتا ہے۔ “ (موضح) (٣) اس مقام پر بعض مفسرین نے کچھ لوگوں کے واقعات لکھے ہیں جنہوں نے یہ آیت سن کر کمائی ترک کردی اور اللہ پر بھروسہ کرتے ہئے جنگل بیابان کی راہ لی اور وہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں تازہ کھجوریں اور رزق ملنے لگا۔ چناچہ طبری نے سلیمان ثوری نے کی زبانی نقل کیا ہے کہ واصل احدب نے یہ آیت ” وفی السمآء رزقکم وما توعدون “ پڑھی تو کہنے لگے ” میرا رزق تو مجھے آسمان میں نظر آرہا ہے اور میں اسے زمین میں ڈھونڈتا پھرتا ہوں۔ “ یہ کہہ کر وہ ایک خرابے میں چل یگئے۔ تین دن تک کھانے کو کچھ نہ ملا، جب تیسرا دن ہوا تو اچانک ان کے پاس تازہ کمجوروں کی ایک نوکری آگئی۔ ان کا ایک بھائی تھا، جو ان سے بھی اچھی نیت والا تھا، وہ بھی اس خرابے میں ان کے ساتھ آگیا تو ٹوکریاں دو ہوگئیں۔ ان کا یہی حال رہا، یہاں تک کہ موت نے ان کے درمیان جدائی ڈال دی۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی ہی کہانیوں نے اسلام رخ روشن مسخ کیا ہے۔ آسمان میں رزق ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آدمی کمانا ترک کر دے۔ یہ رہبانیت ہے جس کی اسلام میں گنجائش ہی نہیں، یہاں تو محنت کر کے کمانے اور دوسروں پر خرچ کرنے کی تلقین ہے، جنگلوں، یابانوں یا خانقاوہں میں بیٹھ کر لوگوں کی طرف سے یا غیب سے آنے والے رزق کے انتظار کے بجائے جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے سے پاکیزہ ترین رقز حاصل کرنے کی ترغیب ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کی پوری زندگی اس کی شاہد ہے۔ آسمان والے پر رکھے اور ایک ملحہ کے لئے بھی رزق کی خاطر اس کے حکم سے سرتابی نہ کرے۔ تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ ابن کثیر (رح) جیسے محقق نے کسی تنقید کے بغیر یہ کہانی نقل کردی ہے، حالانکہ طبری میں اس روایت کے راوی طبری کے استاذ محمد بن حمید رازی ہیں، جن کا ضعیف ہونا معروف ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَفِي السَّمَاءِ رِ‌زْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ (And in the heavens, there is your sustenance and all that you have been promised.... 51:22). The plain and simple interpretation of this is that &in heaven& here means what has been written in the Preserved Tablet (Al-Lauh-ul-Mahfuz). It is clear that man&s sustenance, what has been promised to him and whatever its consequences will be - ... are all preserved in the Preserved Tablet. Sayyidna Abu Said Khudri (رض) reports that the Holy Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: |"Even if someone tries to avoid and run away from his designated sustenance, he will not succeed, because his sustenance will pursue him just as he cannot run away from his death|". (Qurtubi) Some scholars say that &sustenance& here signifies |"rain|". In this case &heaven& will not refer to the body, arch or vault of the sky. It refers to anything that hangs overhead and covers things in its shade, including the celestial atmosphere and clouds from where the rain falls. The expression &all that you have been promised& refers to Paradise and its delights. Allah, the Pure and Exalted, knows best.  Show more

(آیت) وَفِي السَّمَاۗءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ ، (یعنی آسمان میں ہے تمہارا رزق اور جو کچھ تم سے وعدہ کیا جاتا ہے) اس کے بےغبار و بےتکلف تفسیر وہ ہے جو خلاصہ تفسیر میں اختیار کی گئی، یعنی آسمان میں ہونے سے مراد آسمان میں لوح محفوظ کے اندر لکھا ہونا مراد ہے اور یہ ظاہر ہے کہ ہر انسان کا رزق او... ر جو کچھ اس سے وعدے کئے گئے اور اس کا جو کچھ انجام ہونا ہے وہ سب لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ حدیث میں حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے مقررہ رزق سے بچنے اور بھاگنے کی بھی کوشش کرے تو رزق اس کے پیچھے پیچھے بھاگے گا جیسے موت سے انسان بھاگ نہیں سکتا ایسے ہی رزق سے بھی فرار ممکن نہیں (قرطبی) اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ رزق سے مراد بارش ہے، اس صورت میں اس کا آسمان میں ہونا بایں صورت ہوگا کہ آسمان سے مراد یہاں جرم سٰموٰت نہ ہو بلکہ مافوق مراد ہو جس میں فضائے آسمانی بھی داخل ہے تو بارش جو بادلوں سے برستی ہے اس کو بھی فی السماء کہا جاسکتا ہے اور ماتوعدون سے مراد جنت اور اس کی نعمتیں ہیں، واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَفِي السَّمَاۗءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ۝ ٢٢ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 1... 2] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٢۔ ٢٣) سو قسم ہے آسمان و زمین کے رب کی کہ تم سے جو رزق کے بارے میں بیان کیا گیا ہے وہ حق ہے اور ایسا یقینی جیسا کہ تم کلمہ طیبہ پڑھتے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢{ وَفِی السَّمَآئِ رِزْقُکُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ ۔ } ” اور آسمان میں تمہارا رزق ہے اور وہ بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔ “ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارا رزق بھی طے شدہ ہے اور تمہارے جنت یا دوزخ میں جانے کا فیصلہ بھی اسی کی مشیت سے ہونا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

20 By the heaven here is meant the "heavens", by "provisions" all that man is given for his survival and functioning in the world, and by "that which is promised. " Resurrection, gathering together, accountability, meting out of rewards and punishments, and Hell and Heaven, which have been foretold and promised in aII Divine Books and now in the Qur'an. The verse means to say; "The decisions as to...  who should be given what and how much in the world arc taken in heavens, and also the decision as to when should any of you be recalled for the purpose of accountability and dispensation of the rewards and punishments. "  Show more

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :20 آسمان سے مراد یہاں عالم بالا ہے ۔ رزق سے مراد وہ سب کچھ جو دنیا میں انسان کو جینے اور کام کرنے کے لیے دیا جاتا ہے ۔ اور مَا تُوْعَدُوْنَ سے مراد قیامت ، حشر و نشر ، محاسبہ و باز پرس ، جزا و سزا ، اور جنت و دوزخ ہیں جن کے رونما رہنے کا وعدہ تمام کتب آسمانی میں او... ر اس قرآن میں کیا جاتا رہا ہے ۔ ارشاد الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ عالم بالا ہی سے یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ تم میں سے کس کو کیا کچھ دنیا میں دیا جائے ، اور وہیں سے یہ فیصلہ بھی ہونا ہے کہ تمہیں باز پرس اور جزائے اعمال کے لیے کب بلایا جائے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

9: آسمان سے یہاں مراد عالم بالا ہے، اور مطلب یہ ہے کہ تمہارے رزق کے فیصلے بھی آسمان میں ہوتے ہیں، اور تم سے جنت اور دوزخ وغیرہ کا جو وعدہ کیا جارہا ہے، اس کا فیصلہ بھی آسمان ہی میں ہونا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 مراد بارش ہے جو روزی کا سبب ہے۔ 8 یعنی حشر و نشر جزا و سزا اور جنت و دوزخ وغیرہ جن کے رونما ہونے کا وعدہتمام انبیاء کی زبانی اور تمام آسمانی کتابوں کے ذریعہ کیا گیا ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ” آنے والی جو بات ہے اس کا حکم آسمان ہی سے اترتا ہے۔ (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : متقین کی آیت ١٩ میں یہ صفت بیان ہے کہ وہ اپنے مال سے محتاج لوگوں پر خرچ کرتے ہیں۔ اب مال کی حقیقت بتلائی ہے کہ مال پر کسی کا حقیقی اور دائمی اختیار نہیں، اس کا کنٹرول آسمان میں ہے جسے دینے کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ ” اللہ “ نے زمین و آسمان کی قسم اٹھا کر یہ بات ارشاد فرم... ائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے رزق کا کنٹرول آسمان میں رکھا ہے اور رزق دینے کا اس کا سچا وعدہ ہے۔ اس میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور بات سچ پر مبنی ہے یہ اس طرح سچ ہے جس طرح تم بولتے ہو۔ رزق سے مراد صرف کھانے پینے کی چیزیں نہیں بلکہ اس سے مراد انسان کی وہ تمام ضروریات ہیں جس کی اسے اپنی پوری زندگی میں حاجت ہوتی ہے۔ اس کا کنٹرول آسمان میں رکھا گیا ہے اس ارشاد کے دو مفہوم ہیں۔ ١۔ رزق اور ہر چیز کا خالق اور مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ جو آسمانوں کے اوپر عرش معلی پر اپنی شان کے مطابق جلوہ افروز ہے وہی لوگوں کا رزق تنگ اور کشادہ کرتا ہے۔ ٢۔ انسان کی بیشتر ضروریات کا تعلق پانی سے ہے اور پانی کا دارومدار بارش کے ساتھ ہے۔ بارش کے نزول کا حکم بھی آسمان سے ہوتا ہے۔ بارش بلندیوں سے زمین پر برستی ہے۔ اس لیے ہر دور میں انسان کی زبان پر یہی بات رہی ہے اور رہے گی کہ بارش آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی قسم اٹھا کر لوگوں کو یقین دلایا ہے کہ تمہارا رزق آسمانوں میں ہے اور اس نے تمہیں رزق دینے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے میں سچا ہے۔ اسی سورة کی آیت ٥٨ میں ارشاد کہ یقیناً اللہ ہی رزق دینے والا ہے اور وہ بڑا طاقتور اور مضبوط ہے۔ ارشاد فرمایا کہ تمہیں رزق دینے والی بات اتنی ہی سچی اور واضح ہے جس طرح تمہارا ایک دوسرے کس ساتھ بات کرنا۔ ٣۔ گو سائنسدان ابھی اس نقطہ پر نہیں پہنچ سکے کہ بارش برسنے کا آسمان سے کیا تعلق ہے ممکن ہے مستقبل قریب یا بعید میں سائنس اس نقطہ پر پہنچ جائے کہ بارش کا تعلق آسمان کے ساتھ ہے جس وجہ سے اسے آسمان کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے۔ ( اللہ اعلم) ” زمین میں کوئی چلنے والا جاندار نہیں مگر اس کا رزق اللہ ہی کے ذمّہ ہے اور وہ اس کی قرار گاہ اور اس کے دفن کیے جانے کی جگہ کو جانتا ہے سب کچھ ایک کھلی کتاب میں درج ہے۔ “ (ہود : ٦) (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ حَدَّثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَھُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوْقُ قَالَ إِنَّ أَحَدَکُمْ یُجْمَعُ خَلْقُہٗ فِیْ بَطْنِ أُمِّہٖ أَرْبَعِیْنَ یَوْمًانُطْفَۃً ثُمَّ یَکُوْنُ عَلَقَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَکُوْنُ مُضْغَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَبْعَثُ اللّٰہُ مَلَکًا فَیُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ کَلِمَاتٍ وَیُقَالُ لَہٗ أُکْتُبْ عَمَلَہٗ وَرِزْقَہٗ وَأَجَلَہٗ وَشَقِیٌّ أَوْ سَعِیْدٌ ثُمَّ یُنْفَخُ فِیْہِ الرُّوْحُ ۔۔ ) (رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ) ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں صادق و مصدوق رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم میں سے ہر کوئی اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن ٹھہرتا ہے جو خون کی صورت میں جم جاتا ہے پھر چالیس دن بعد گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرشتہ بھیجتے ہیں اسے آدمی کا عمل، رزق، موت اور نیک وبد ہونا لکھنے کا حکم دیتے ہیں پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔۔۔ “ (عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَوْ أَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَوَکَّلُوْنَ عَلَی اللَّہِ حَقَّ تَوَکُّلِہٖ لَرُزِقْتُمْ کَمَا تُرْزَقُ الطَّیْرُ تَغْدُوْ خِمَاصًا وَتَرُوْحُ بِطَانًا) (رواہ الترمذی : کتاب الزہد، باب فِی التَّوَکُّلِ عَلَی اللَّہِ ۔ قال البانی ہذا حدیث صحیح) ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکل کرو جس طرح توکل کرنے کا حق ہے۔ تو تمہیں اسی طرح رزق دیا جائے جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ وہ صبح خالی پیٹوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹوں کے ساتھ لوٹتے ہیں۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے رزق کا کنٹرول آسمان میں رکھا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ رزاق ہے اور اس نے لوگوں کو رزق مہیا کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ اس کی ذات اور بات سچ ہے۔ تفسیر بالقرآن ” اللہ “ ہی رزق دینے والا ہے : ١۔ ” اللہ “ ہی رازق ہے۔ (الذاریات : ٥٨) ٢۔ اللہ ہی رزق فراخ کرتا اور کم کرتا ہے۔ (ا لسباء : ٣٩) ٣۔ ” اللہ “ لوگوں سے رزق طلب نہیں مانگتا بلکہ وہ لوگوں کو رزق دیتا ہے۔ (طٰہٰ : ١٣٢) ٤۔ ” اللہ “ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے۔ (البقرۃ : ٢١٢) ٥۔ بیشک اللہ بغیر حساب کے جس کو چاہتا ہے رزق عطا کرتا ہے۔ (آل عمران : ٣٧) ٦۔ ہم تم سے رزق نہیں مانگتے بلکہ ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں۔ (طٰہٰ : ١٣٢)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وفی السمائ ........ توعدون (٥١ : ٢٢) ” آسمان ہی میں ہے تمہارا رزق بھی اور وہ چیز بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے۔ “ بظاہر یہ ایک عجیب ہدایت اور توجہ مبذول کرنے کا ایک اشارہ ہے کہ باوجود اس کے کہ اسباب رزق زمین میں ہیں انسان ان اسباب کے اندر جدوجہد کرتا اور اس سعی اور جہد کے نتیجے میں بھی رزق کا ان... تظام کرتا ہے لیکن قرآن انسان کی نظروں کو آسمانوں کی طرف پھیرتا ہے۔ عالم ظاہر سے عالم غیب کی طرف لے جاتا ہے تاکہ وہ وہاں اپنے نصیبہ رزق کی امید کرے۔ رہی یہ بات کہ زمین اور اس کے اندر اسباب رکھے گئے تو یہ تو یقین کرنے والوں کے لئے آیات ہیں۔ ان آیات ونشانات کو دیکھ کر انسان اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے تاکہ اللہ سے بہتر رزق کا امیدوار ہو اور زمین کے بوجھ اور زمین کی پستیوں سے وہ آزاد ہو۔ اس طرح رزق کے اسباب ظاہرہ سے بھی آزاد ہو۔ یہ نہ ہو کہ یہ ظاہری اسباب انسان اور خالق الاسباب کے درمیان حائل ہوجائیں اور وہ ان ظاہری اسباب ہی کے اندر گم ہوجائے۔ دل مومن اس ہدایت کو ایک حقیقت کے طور پر لیتا ہے۔ اسے سمجھتا بھی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس ہدایت کا مقصد یہ نہیں ہے کہ زمین اور زمین کے اسباب سے صرف نظر کردیا جائے۔ اس لئے کہ انسان زمین کے اسباب کو کام میں لانے اور یہاں زمین کے اوپر فریضہ خلافت الٰہیہ کے تقاضے پورے کرنے کا مکلف ہے۔ مقصد یہ ہے کہ وہ دل کو اسباب ارض کے ساتھ نہ باندھ دے اور اس زمین کی تعمیر اور ترقی میں مصروف ہوکر خدا کو نہ بھلا دے بلکہ اس کا رویہ یہ ہو کہ وہ زمین میں کام کررہا ہو اور اس کی نظریں آسمانوں پر ہوں۔ وہ اسباب کو کام میں لائے مگر یقین یہ کرے کہ وہ اسباب اس کے فرائض نہیں ہیں بلکہ رازق آسمانوں میں ہے اور یہ اللہ کا وعدہ ہے اور ہوتا وہی ہے جو اللہ نے فرمایا۔ یوں ایک مومن کا دل ان اسباب کی گرفت سے آزاد ہوجاتا ہے جو زمین میں ہیں بلکہ وہ ان اسباب کے ذریعے ہی آسمانوں کی بادشاہت تک پہنچتا ہے۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ ان اسباب کے اندر بھی عجائبات ہیں جو خالق اسباب کی نشاندہی کرتے ہیں تو وہ انہی کے ذریعہ خدا تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔ اگر چہ اس کے پاؤں زمین پر انہی اسباب کے اندر ہوتے ہیں لیکن اس کی نظریں آسمان پر ہوتی ہیں۔ یہی طریقہ ہے جو اللہ نے انسان کے لئے پسند کیا ہے اور یہی طریقہ اللہ نے اپنے ان بندوں کے لئے تجویز کیا ہے جن کو اس نے مٹی سے پیدا کیا۔ ان میں اپنی روح پھونکی اور انہیں اس جہاں کی تمام مخلوقات پر فضیلت دے دی۔ ایمان ایک وسیلہ اور سبب ہے اس بات کا کہ انسان بہترین حالات زندگی میں ہو جب انسان ایمان کی حالت میں ہوتا ہے تو وہ اس حالت میں ہوتا ہے جس میں اسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا۔ یہ اللہ کی اس فطرت پر ہوتا ہے جس پر اللہ نے اسے پیدا کیا ہے۔ انسان پر حالت فساد اور حالت گمراہی بعد میں طاری ہوتی ہے۔ ان تین جھلکیوں کی طرف متوجہ کرنے کے بعد یعنی زمین کی نشانیوں ، نفس کی نشانیوں اور آسمانوں کی نشانیوں کی طرف متوجہ کرنے کے بعد اللہ اپنی ذات کی قسم اٹھا کر یقین دلاتا ہے کہ یہ باتیں اسی طرح سچ ہیں جس طرح تمہاری باتیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(22) اور تمہاری روزی اور جو تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ سب آسمان میں ہے۔ یعنی رزق کا سامان آسمان سے ارتا ہے یا یہ مطلب ہے کہ جس قدر رزق تمہارے لئے مقسوم ہے اور جس قدر رزق تمہاری قسمت میں ہے اور جو ثواب و عقاب اور خیر اور شر اور قیامت کا وقوع یہ سب امور لوح محفوظ میں درج ہیں اور وہیں کے لکھے کے موافق آ... سمان پر سے ہرچیزنازل ہوتی ہے آسمان میں ہونے کے معنی یہ ہیں کہ یہ سب لوح محفوظ میں درج ہے۔  Show more