Surat uz Zaariyaat

Surah: 51

Verse: 24

سورة الذاريات

ہَلۡ اَتٰىکَ حَدِیۡثُ ضَیۡفِ اِبۡرٰہِیۡمَ الۡمُکۡرَمِیۡنَ ﴿ۘ۲۴﴾

Has there reached you the story of the honored guests of Abraham? -

کیا تجھے ابراہیم ( علیہ السلام ) کے معزز مہمانوں کی خبر بھی پہنچی ہے ؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Guests of the Prophet Ibrahim We mentioned this story before in Surah Hud and Al-Hijr. Allah said, هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ الْمُكْرَمِينَ Has the story reached you, of the honored guests of Ibrahim? whom Ibrahim honored,

مہمان اور میزبان ؟ یہ واقعہ سورہ ہود اور سورہ حجر میں بھی گذر چکا ہے یہ مہمان فرشتے تھے جو بہ شکل انسان آئے تھے جنہیں اللہ نے عزت و شرافت دے رکھی ہے حضرت امام احمد بن حنبل اور دیگر علمائے کرام کی ایک جماعت کہتی ہے کہ مہمان کی ضیافت کرنا واجب ہے حدیث میں بھی یہ آیا ہے اور قرآن کریم کے ظاہری الفاظ بھی یہی ہیں ۔ انہوں نے سلام کیا جس کا جواب خلیل اللہ نے بڑھا کر دیا اس کا ثبوت دوسرے سلام پر دو پیش کا ہونا ہے ۔ اور یہی فرمان باری تعالیٰ ہے فرماتا ہے ( وَاِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَــيُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَسِيْبًا 86؀ ) 4- النسآء:86 ) یعنی جب کوئی تمہیں سلام کرے تو تم اس سے بہتر جواب دو یا کم ازکم اتنا ہی ۔ پس خلیل اللہ نے افضل صورت کو اختیار کیا حضرت ابراہیم چونکہ اس سے ناواقف تھے کہ یہ دراصل فرشتے ہیں اس لئے کہا کہ یہ لوگ تو ناآشنا سا ہیں ۔ یہ فرشتے حضرت جبرائیل حضرت میکائیل اور حضرت اسرافیل علیہم السلام تھے ۔ جو خوبصورت نوجوان انسانوں کی شکل میں آئے تھے ان کے چہروں پر ہیبت و جلال تھا حضرت ابراہیم اب ان کے لئے کھانے کی تیاری میں مصروف ہوگئے اور چپ چاپ بہت جلد اپنے گھر والوں کی طرف گئے اور ذرا سی دیر میں تیار بچھڑے کا گوشت بھنا بھنایا ہوا لے آئے اور انکے سامنے رکھ دیا اور فرمایا آپ کھاتے کیوں نہیں ؟ اس سے ضیافت کے آداب معلوم ہوئے کہ مہمان سے پوچھے بغیر ہی ان پر شروع سے احسان رکھنے سے پہلے آپ چپ چاپ انہیں خبر کئے بغیر ہی چلے گئے اور بہ عجلت بہتر سے بہتر جو چیز پائی اسے تیار کر کے لے آئے ۔ تیار فربہ کم عمر بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت لے آئے اور کہیں اور رکھ کر مہمان کی کھینچ تان نہ کی بلکہ ان کے سامنے ان کے پاس لا کر رکھا ۔ پھر انہیں یوں نہیں کہتے کہ کھاؤ کیونکہ اس میں بھی ایک حکم پایا جاتا ہے بلکہ نہایت تواضع اور پیار سے فرماتے ہیں آپ تناول فرمانا شروع کیوں نہیں کرتے ؟ جیسے کوئی شخص کسی سے کہے کہ اگر آپ فضل و کرم احسان و سلوک کرنا چاہیں تو کیجئے پھر ارشاد ہوتا ہے کہ خلیل اللہ اپنے دل میں ان سے خوفزدہ ہو گئے جیسے کہ اور آیت میں ہے آیت ( فَلَمَّا رَآٰ اَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيْفَةً ۭ قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰي قَوْمِ لُوْطٍ 70؀ۭ ) 11-ھود:70 ) ، یعنی آپ نے جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف بڑھتے نہیں تو دہشت زدہ ہوگئے اور دل میں خوف کھانے لگے اس پر مہمانوں نے کہا ڈرو مت ہم اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں جو قوم لوط کی ہلاکت کے لئے آئے ہیں آپ کی بیوی صاحبہ جو کھڑی ہوئی سن رہی تھیں وہ سن کر ہنس دیں تو فرشتوں نے انہیں خوشخبری سنائی کہ تمہارے ہاں حضرت اسحاق پیدا ہوں گے اور ان کے ہاں حضرت یعقوب اس پر بیوی صاحبہ کو تعجب ہوا اور کہا ہائے افسوس اب میرے ہاں بچہ کیسے ہو گا ؟ میں تو بڑھیا پھوس ہو گئی ہوں اور میرے شوہر بھی بالکل بوڑھے ہوگئے ۔ یہ سخت تر تعجب کی چیز ہے فرشتوں نے کہا کیا تم اللہ کے کاموں سے تعجب کرتی ہو ؟ خصوصًا تم جیسی ایسی پاک گھرانے کی عورت ؟ تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں ۔ جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ تعریفوں کے لائق اور بڑی بزرگی اور اعلیٰ شان والا ہے یہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ بشارت حضرت ابراہیم کو دی گئی کیونکہ بچے کا ہونا دونوں کی خوشی کا موجب ہے ۔ پھر فرماتا ہے یہ بشارت سن کر آپ کی اہلیہ صاحبہ کے منہ سے زور کی آواز نکل گئی اور اپنے تئیں دوہتڑ مار کر ایسی عجیب و غریب خبر کو سن کر حیرت کے ساتھ کہنے لگیں کہ جوانی میں تو میں بانجھ رہی اب میاں بیوی دونوں بوڑھے ہوگئے تو مجھے حمل ٹھہرے گا ؟ اس کے جواب میں فرشتوں نے کہا کہ یہ خوشخبری کچھ ہم اپنی طرف سے نہیں دے رہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے کہ ہم تمہیں یہ خبر پہنچائیں ۔ وہ حکمت والا اور علم والا ہے ۔ تم جس عزت وکرامت کے مستحق ہو وہ خوب جانتا ہے اور اس کا فرمان ہے کہ تمہارے ہاں اس عمر میں بچہ ہو گا اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں نہ اس کا کوئی فرمان حکمت سے خالی ہے ۔ الحمد اللہ ! الحمد اللہ ! اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے تفسیر محمدی کا چھبیسواں پارہ حم بھی ختم ہوا ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے کلام پاک کا صحیح اور حقیقی مطلب سمجھائے اور پھر اس پر عمل کرنے کی توفیق دے اے پروردگار علم جس طرح تو نے مجھ پر اپنا یہ فضل کیا ہے کہ اپنے کلام کی خدمت مجھ سے لی اسی طرح یہ بھی فضل کر کہ اسے قبول فرما اور میرے لئے باقیات صالحات میں اسے کر لے ۔ اور اس تفسیر کو میری تقصیر کی معافی کا سبب بنا دے اپنے تمام بندوں کو اس سے فائدہ پہنچا اور سب کو عمل صالح کی توفیق عطا فرما ۔ آمین ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

24۔ 1 ھَلْ استفہام کے لئے ہے جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تنبیہ ہے کہ اس قصے کا تجھے علم نہیں، بلکہ ہم تجھے وحی کے ذریعے سے مطلع کر رہے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] سیدنا ابراہیم کے ہاں فرشتوں کا سیدنا اسحٰق کی خوشخبری دینے کا ذکر پہلے سورة ہود کی آیت ٦٩ تا ٧٦، سورة حجر آیت ٥١ تا ٦٠ اور سورة عنکبوت کی آیت نمبر ٣١، ٣٢ میں گزر چکا ہے وہ حواشی بھی دیکھ لیے جائیں۔ [١٩] سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاں فرشتوں کی آمد :۔ یہ معزز مہمان فرشتے تھے اور بعض مفسرین کے نزدیک یہ تین فرشتے تھے۔ سیدنا جبرائیل، سیدنا میکائیل اور سیدنا اسرافیل جو انسانی شکلوں میں آئے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ھل اتک حدیث ضیف ابراہیم …: یہاں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لئے چند انبیاء کی مدد کا اور انہیں جھٹلانے والی اقوام پر آنے والے عذابوں کا ذکر فرمایا۔ ابراہیم اور لوط (علیہ السلام) کے واقعات اور ان کے تفسیری فوائد سورة ہود (٦٩ تا ٨٣) ، حجر (٥١ تا ٧٧) اور سورة عنکبوت (١٦ تا ٣٥) میں تفصیل سے گزر چکے ہیں۔ اس مقام سے تعلق رکھنے والی چند باتیں یہاں ذکر کی جاتی ہیں۔ (٢) کیا تیرے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر آئی ہے ؟ سوال سے مقصود اس واقعہ کی عظمت و شان اور اہمیت کا احساس دلاتا ہے اور یہ بھی کہ آپ کو اس بات کی خبر نہ تھی، یہ وہ ہیں جو وحی کے ذریعے سے آپ کو اس سے آگ اہ کر رہے ہیں۔ (٣) ” المکرمین “ (معزز) اس لئے فرمایا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے ہاں معزز ہیں، جیسا کہ فرمایا :(بل عباد مکرمون) (الانبیائ : ٢٦)” بلکہ وہ بندے ہیں جنہیں عزت دی گئی ہے۔ “ اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی حکم ہے : (من کان یومن باللہ والیوم الآخر فلیکرم صیف ٢) (بخاری، الادب، باب من کان یومن باللہ …:6, 18)” جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر ( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمانوں کی حکایت آپ تک پہنچی ہے (معزز یا تو اس لئے کہا کہ وہ ملائکہ تھے جن کی شان میں ہے (آیت) بل عباد مکرمون۔ اور یا اس لئے کہا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی عادت کے موافق ان کا اکرام کیا تھا اور مہمان کہنا بنا بر ظاہری حالت کے ہے کہ بشکل انسان آئے تھے اور یہ قصہ اس وقت ہوا تھا) جبکہ وہ (مہمان) ان کے پاس آئے پھر ان کو سلام کیا، ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی ( جواب میں) کہا سلام ( اور کہنے لگے کہ) انجان لوگ ( معلوم ہوتے) ہیں (ظاہر تو یہی ہے کہ دل میں سوچا قرینہ اس کا یہ ہے کہ آگے جواب فرشتوں کا مذکور نہیں اور احتمال بعید یہ بھی ہے کہ بطور پوچھنے کے انہی سے کہہ دیا ہو کہ آپ لوگوں کو پہچانا نہیں اور انہوں نے جواب نہ دیا ہو اور ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب کا انتظار نہ کیا ہو غرض یہ سلام و کلام ہو کر) پھر اپنے گھر کی طرف چلے اور ایک فربہ بچھڑا (تلا ہوا لقولہ تعالیٰ (آیت) بعجل حنیذ) لائے اور اس کو ان کے پاس (یعنی سامنے) لا کر رکھا (چونکہ وہ فرشتے تھے، کیوں کھاتے اس وقت ابراہیم (علیہ السلام) کو شبہ ہوا اور) کہنے لگے کہ آپ لوگ کھاتے کیوں نہیں ( جب پھر بھی نہ کھایا) تو ان سے دل میں خوف زدہ ہوئی ( کہ یہ لوگ کہیں مخالفین اور اعدا میں سے نہ ہوں، کما مر فی سورة ہود) انہوں نے کہا کہ تم ڈرو مت ( ہم آدمی نہیں ہیں فرشتے ہیں) اور ( یہ کہہ کر) ان کو ایک فرزند کی بشارت دی جو بڑا عالم (یعنی نبی) ہوگا، کیونکہ مخلوق میں سب سے زیادہ علم انبیاء کو ہوتا ہے اور مراد اس سے اسحاق (علیہ السلام) ہیں، یہ گفتگو ان سے ہو رہی تھی کہ اتنے میں ان کی بی بی (حضرت سارہ جو کہیں کھڑی سن رہی تھیں لقولہ تعالیٰ (آیت) وامراتہ قائمة۔ اولاد کی خبر سن کر) بولتی پکارتی آئیں پھر ( جب فرشتوں نے ان کو بھی یہ خبر سنائی لقولہ تعالیٰ (آیت) فبشرناہا باسحق تو تعجب سے) ماتھے پر ہاتھ مارا اور کہنے لگیں کہ (اول تو میں) بڑھیا ( پھر) بانجھ ( اس وقت بچہ پیدا ہونا بھی عجیب بات ہے) فرشتے کہنے لگے کہ (تعجب مت کرو لقولہ تعالیٰ (آیت) اتعجبین) تمہارے پروردگار نے ایسا ہی فرمایا ہے (اور) کچھ شک نہیں کہ وہ بڑا حکمت والا بڑا جاننے والا ہے (یعنی گو فی نفسہ یہ بات تعجب کی ہے مگر تم کہ خاندان نبوت میں رہتی ہو اور علم و فہم سے مشرف ہو، یہ معلوم کر کے کہ خدا کا ارشاد ہے تعجب نہ رہنا چاہئے) ابراہیم (علیہ السلام) کو فراست نبوت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علاوہ بشارت کے ان کے آنے سے اور بھی کچھ مقصود ہے تو ان سے کہنے لگے (کہ) اچھا تو (یہ بتلاؤ کہ) تم کو بڑی مہم کیا درپیش ہے، اے فرشتو ! فرشتوں نے کہا کہ ہم ایک مجرم قوم (یعنی قوم لوط) کی طرف بھیجے گئے ہیں تاکہ ہم ان پر کنکر کے پتھر برسائیں جن پر آپ کے رب کے پاس ( یعنی عالم غیب میں) خاص نشان بھی ہے ( جس کا بیان سورة ہود میں ہوا ہے اور وہ) حد سے گزرنے والوں کے لئے ( ہیں، آگے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب ان بستیوں پر عذاب کا وقت قریب آیا) تو ہم نے جتنے ایمان دار تھے سب کو وہاں سے علیحدہ کردیا، سو بجز مسلمانوں کے ایک گھر کے اور کوئی گھر (مسلمانوں کا) ہم نے نہیں پایا ، (یہ کنایہ ہے کہ وہاں کوئی اور گھر مسلمانوں کا تھا ہی نہیں، کیونکہ جس چیز کا وجود اللہ کے علم میں نہ ہو وہ موجودہ ہو ہی نہیں سکتی) اور ہم نے اس واقعہ میں ( ہمیشہ کے واسطے) ایسے لوگوں کے لئے ایک عبرت رہنے دی جو درد ناک عذاب سے ڈرتے ہیں اور ( آگے موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا قصہ سنو کہ) موسیٰ ( علیہ السلام) کے قصہ میں بھی عبرت ہے جب کہ ہم نے ان کو فرعون کے پاس ایک کھلی ہوئی دلیل (یعنی معجزہ) دے کر بھیجا سو اس نے مع اپنے ارکان سلطنت کے سرتابی کی اور کہنے لگا کہ یہ ساحر یا مجنون ہیں سو ہم نے اس کو اور اس کے لشکر کو پکڑ کر دریا میں پھینک دیا (یعنی غرق کردیا) اور اس نے کام ہی ملامت کا کیا تھا اور ( آگے عاد کا قصہ سنو کہ) عاد کے قصہ میں بھی عبرت ہے جب کہ ہم نے ان پر نامبارک آندھی بھیجی جس چیز پر گزرتی تھی (یعنی ان اشیاء میں سے کہ جن کے اہلاک کا حکم تھا جس پر گزرتی تھی) اس کو ایسا کر چھوڑتی تھی جیسے کوئی چیز گل کر ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے اور ( آگے ثمود کا قصہ سنو) ثمود کے قصہ میں بھی عبرت ہے جبکہ ان سے کہا گیا (یعنی صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ) اور تھوڑے دنوں چین کرلو (یعنی کفر سے باز نہیں آؤ گے تو عبد چندے ہلاک ہوگئے) سو ( اس ڈرانے پر بھی) ان لوگوں نے اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی، سو ان کو عذاب نے آ لیا اور وہ (اس عذاب کے آثار کو) دیکھ رہے تھے (یعنی یہ عذاب کھلے طور پر آیا) سو نہ تو کھڑے ہی ہو سکے، ( بلکہ اوندھے منہ گر گئے لقولہ تعالیٰ جاثمین) اور نہ ( ہم سے) بدلہ لے سکے اور ان سے پہلے قوم نوح کا یہی حال ہوچکا تھا (یعنی اس سبب سے کہ) وہ بڑے نافرمان لوگ تھے ( ان کو بھی ہلاک کیا تھا)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ہَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ ضَيْفِ اِبْرٰہِيْمَ الْمُكْرَمِيْنَ۝ ٢٤ ۘ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : أتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ حدیث وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له : حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم/ 3] ، وقال تعالی: هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية/ 1] ، وقال عزّ وجلّ : وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف/ 101] ، أي : ما يحدّث به الإنسان في نومه، حدیث ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم/ 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية/ 1] بھلا ترکو ڈھانپ لینے والی ( یعنی قیامت کا ) حال معلوم ہوا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف/ 101] اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ میں احادیث سے رویا مراد ہیں ضيف والضَّيْفُ : من مال إليك نازلا بك، وصارت الضِّيَافَةُ متعارفة في القری، وأصل الضَّيْفِ مصدرٌ ، ولذلک استوی فيه الواحد والجمع في عامّة کلامهم، وقد يجمع فيقال : أَضْيَافٌ ، وضُيُوفٌ ، وضِيفَانٌ. قال تعالی: ضَيْفِ إِبْراهِيمَ [ الحجر/ 51] ( ض ی ف ) الضیف الضیف ۔ اصل میں اسے کہتے ہیں کو تمہارے پاس ٹھہرنے کے لئے تمہاری طرف مائل ہو مگر عرف میں ضیافت مہمان نوازی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اصل میں چونکہ یہ مصدر ہے اس لئے عام طور پر واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر کبھی اس کی جمع اضیاف وضیوف وضیفاف بھی آجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ [ الحجر/ 51] بھلا تمہارے اس ابراھیم کے مہمانوں کی خبر پہنچتی ہے ۔ كرم الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] . والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ : أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] منطو علی المعنيين . ( ک ر م ) الکرم ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ الا کرام والتکریم کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے محمد کیا ابراہیم کے معزز مہمانوں کی جن کی بھنے ہوئے بچھڑے سے مہمان نوازی کی گئی تھی آپ تک حکایت پہنچی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤{ ہَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰہِیْمَ الْمُکْرَمِیْنَ ۔ } ” کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمانوں کی خبرپہنچی ہے ! “ یہ اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جب فرشتے انسانی شکلوں میں مہمان بن کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے گھر آئے تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

21 Now, from here to the end of verse 46, brief allusions have been made, one after the other, to the end of Allah's Prophets and some of the nations of the past, which arc meant to impress two things: First, that in human history God's law of retribution has been working constantly, in which precedents are found of the rewards for the righteous and of punishments for the wicked people continuo sly. This is a clear evidence of the fact that even in the life of this world the Creator's relationship with man is not merely based on the physical law but the moral law also is working side by aide with it. And when the temper of the kingdom of the universe is such that the creation which has been given an opportunity to act morally while living in a physical body, should not only be dealt with on the basis of physical laws, like animals and plants, but the moral law also should be applied to its moral acts this by . itself points to the truth that a time must come in this kingdom when on the completion of man's role in the physical world full results of his moral acts should also appear strictly in accordance with the moral law because in the physical world they do not appear fully. The second thing that has been impressed by these historical allusions Is that the nations which did not believe in the Prophets of Allah and based thou conduct and attitude in life on the denial of the Oneness of Allah, the Prophet hood and the Hereafter, were ultimately doomed to destruction. This continuous experience of history testifies that God's law of morality that was conveyed through the Prophets, and on the basis of which man will be subjected to accountability in the Hereafter, is entirely based on the truth. For whichever nation determined its conduct and attitude in the world independent of this law, considering itself irresponsible and un-accountable, has gone straight to its doom. 22 This story has been narrated at three places in the Qur'an above, in Hud: 69-73, Al-Hijr: 51-56 and AI-`Ankabut: 31.

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :21 اب یہاں سے رکوع دوم کے اختتام تک انبیاء علیہم السلام اور بعض گزشتہ قوموں کے انجام کی طرف پے در پے مختصر اشارات کیے گئے ہیں جن سے دو باتیں ذہن نشین کرانی مقصود ہیں ۔ ایک یہ کہ انسانی تاریخ میں خدا کا قانون مکافات برابر کام کرتا رہا ہے جس میں نیکوکاروں کے لیے انعام اور ظالموں کے لیے سزا کی مثالیں مسلسل پائی جاتی ہیں ۔ یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ دنیا کی اس زندگی میں بھی انسان کے ساتھ اس کے خالق کا معاملہ صرف قوانین طبیعی ( Physical Law ) پر مبنی نہیں ہے بلکہ اخلاقی قانون ( Moral Law ) اس کے ساتھ کار فرما ہے ۔ اور جب سلطنت کائنات کا مزاج یہ ہے کہ جس مخلوق کو جسم طبیعی میں رہ کر اخلاقی اعمال کا موقع دیا گیا ہو اس کے ساتھ حیوانات و نباتات کی طرح محض طبیعی قوانین پر معاملہ نہ کیا جائے بلکہ اس کے اخلاقی اعمال پر اخلاقی قانون بھی نافذ کیا جائے ، تو یہ بات بجائے خود اس حقیقت کی صاف نشاندہی کرتی ہے کہ اس سلطنت میں ایک وقت ایسا ضرور آنا چاہیے جب اس طبیعی دنیا میں انسان کا کام ختم ہو جانے کے بعد خالص اخلاقی قانون کے مطابق اس کے اخلاقی اعمال کے نتائج پوری طرح برآمد ہوں ، کیونکہ اس طبیعی دنیا میں وہ مکمل طور پر برآمد نہیں ہو سکتے ۔ دوسری بات جو ان تاریخی اشارات سے ذہن نشین کرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جن قوموں نے بھی انبیاء علیہم السلام کی بات نہ مانی اور اپنی زندگی کا پورا رویہ توحید ، رسالت اور آخرت کے انکار پر قائم کیا وہ آخر کار ہلاکت کی مستحق ہو کر رہیں ۔ تاریخ کا یہ مسلسل تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ خدا کا قانون اخلاق جو انبیاء کے ذریعہ دیا گیا ، اور اس کے مطابق انسانی اعمال کی باز پرس جو آخرت میں ہوئی ہے ، سراسر مبنی بر حقیقت ہے کیونکہ جس قوم نے بھی اس قانون سے بے نیاز ہو کر اپنے آپ کو غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ سمجھتے ہوئے دنیا میں اپنا رویہ متعین کیا ہے وہ آخر کار سیدھی تباہی کی طرف گئی ہے ۔ سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :22 یہ قصہ قرآن مجید میں تین مقامات پر پہلے گزر چکا ہے ۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، ص 353 تا 355 ، 509 تا 511 ۔ جلد سوم ، ص 696 ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

11: یہ مہمان درحقیقت فرشتے تھے جو ایک طرف تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی پیدائش کی خوشخبری دینے آئے تھے، اور دوسری طرف حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب نازل کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ ان کا واقعہ تفصیل کے ساتھ سورۃ ہود : 69 تا 83 اور سورۃ حجر : 51 تا 77 میں گذر چکا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٤۔ ٣٠۔ یہ قصہ سورة ہود اور سورة حجر میں گزر چکا ہے حاصل اس قصہ کا یہ ہے کہ امام المفسرین ٢ ؎ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے قول کے موافق جبرئیل و میکائیل و اسرافیل (علیہم السلام) آدمی کی صورت میں مہمانوں کے طور پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پہلے پہل ان کو نہیں پہچانا کہ یہ فرشتے ہیں ‘ اس واسطے اپنی مہمان نوازی کی عادت کے موافق ان کے رو برو کھانا لا رکھا جب ان مہمانوں نے کھانا نہ کھایا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے جی میں یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ جب یہ کھانا نہیں کھاتے تو کسی ضرر کے ارادہ سے آئے ہیں۔ اللہ کے فرشتوں نے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو خوف زدہ پا کر کہا کہ نبی اللہ کے تم کچھ خوف نہ کرو۔ یہ کہہ کر پھر حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو اسحاق ( علیہ السلام) کے پیدا ہونے کی خوش خبری دی۔ مجاہد کی روایت کے حوالہ سے بعض تفسیروں ٣ ؎ میں یہ جو لکھا ہے کہ یہ خوش خبری حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کے پیدا ہونے کی تھی۔ یہ روایت صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ قصہ سورة ہود میں گزر چکا ہے۔ اور وہاں قرآن شریف میں صاف حضرت اسحاق (علیہ السلام) کا نام آچکا ہے۔ پھر قرآن شریف کے مخالف کوئی تفسیر کیونکر مقبول ہوسکتی ہے غرض صحیح تفسیر یہی ہے کہ سورة و الصفت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نیک اولاد کی دعا کے بعد جو خوش خبری ہے وہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے پیدا ہونے کی خوش خبری ہے اور یہ خوش خبری پہلی خوش خبری کے چودہ برس کے بعد ہے اس خوش خبری کے وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر سو برس کی تھی۔ اور آپ کی بی بی سارہ کی عمر ننانوے برس کی تھی اور جوانی میں وہ بانجھ تھیں اس واسطے یہ خوش خبری سن کر انہوں نے تعجب سے اپنا منہ پیٹ لیا جب اللہ کے فرشتوں نے ان کی تسکین کی کہ جس طرح ہم نے خوش خبری دی ہے اللہ کا حکم یونہی ہے اللہ بڑا حکمت والا ہے اور اس کی حکمت کے بھید اسی کو خوف معلوم ہیں اس خوش خبری کے ایک برس بعد حضرت اسحاق ( علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ (٣ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ١١٤ ج ٦۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(51:24) ھل اتک۔ ھل استفہامیہ اتی ماضی واحد مذکر غائب اتیان (باب ضرب) مصدر۔ ک ضمیر واحد مذکر حاضر، کیا تیرے پاس آئی۔ کیا تیرے پاس پہنچی۔ حدیث ضیف ابراہیم۔ حدیث بات، خبر، قصہ، مضاف ضیف ابراہیم مضاف مضاف الیہ مل کر، مضاف الیہ حدیث کا۔ (حضرت) ابراہیم کے مہمانوں کی خبر۔ ضیف اصل میں مصدر ہے لہٰذا واحد جمو دونوں کے لئے مستعمل ہے۔ مہمانوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ گیارہ اور کم سے کم تین بتائی گئی ہے۔ المکرمین : اسم مفعول جمع مذکر۔ کرم (باب کرم) مصدر۔ بمعنی باعزت ہونا۔ شریف ہونا۔ المکرمین۔ معززین۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یہ بتلانے کے لئے کہ جن پچھلی قوموں نے انبیاء کی تکذیب کی ان کا انجام کیا ہوا ؟ یہاں سیحضرت ابراہیم اور دوسرے انبیاء کے واقعات جکا ذکر شروع ہو رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ حضرت ابراہیم کا قصہ حضرت لوط کے قصہ کی تمہید ہو۔ کیونکہ حضرت لوط بھی تو حضرت ابراہیم کی قوم ہی میں سے تھے۔ (رازی) 11 عزت دار مہمانوں سے مراد فرشتے ہیں جو حضرت لوط کی قوم کی طرف جاتے ہوئے راستہ میں حضرت ابراہیم کے ہاں مردوں کی شکل میں مہمان بن کر آئے تھے۔ ان کا قصہ سورة ہود (رکوع) سورة حجردرکوع 4 اور سورة عنکبوت رکوع 14 میں پہلے گزر چکا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٢٤ تا ٣٠۔ اسرار ومعارف۔ اس کے عجائبات قدرت کا ظہور دنیا میں بھی تو ہوتا ہے جو گواہی دیتا ہے کہ وہ جو چاہے کرے جیسے آپ تک ابراہیم (علیہ السلام) کے مہمانوں کی بات پہنچی اور آپ کو سنائی گئی کہ چند مہمان ان کے پاس پہنچے جن کی انہوں نے بہت عزت کی جب انہوں نے ان پر سلام کہا تو ابراہم (علیہ السلام) نے بڑے تپاک سے انہیں سلام کا جواب دیا اور فرمایا پہچانا نہیں آپ لوگوں سے پہلے تعارف نہیں اور انہیں بٹھا کر چپکے سے اہل خانہ کے پاس تشریف لے گئے اور ایک بچھڑا تل کرلے آئے جو اس وقت ان کے پاس بہترین خوراک تھی پیش کردی یعنی جہاں انہیں بٹھایا تھا وہاں لاکر رکھ دی اور فرمایا حسب خواہش کچھ تولیجئے مگر جب انہوں نے کھانے کو ہاتھ نہ بڑھایا تو وہاں کے دستور کے مطابق ان سے خطرہ محسوس کرنے لگے کہ مبادا کوئی دشمن ہوں کہ یہ لوگ دشمن کے ہاں سے کھاتے نہ تھے تب انہوں نے بتایا کہ خطرے کی کوئی بات نہیں ہم فرشتے ہیں انسانی روپ میں اور آپ کے پاس اس لیے رکے ہیں کہ اللہ کے حکم سے آپ کو ایک ایسے بیٹے کی خوش خبری دیناتھی جو صاحب علم یعنی نبی ہوگا کہ حقیقی عالم انبیاء (علیہم السلام) ہوتے ہیں اور خلق ان کی خوشہ چیں۔ اس میں آداب میزبانی بھی ارشاد ہوئے اور یہ بھی کہ اللہ کے بتانے سے ہی انبیاء (علیہم السلام) جانتے ہیں بیٹے کی بشارت سن کر اور یہ جان کر کہ باہر فرشتے ہی تو ہیں ان کی اہلیہ حضرت سارہ جو اس وقت ساتھ تھیں باہر آگئیں اور ماتھے پر ہاتھ مار کر جو اظہار حیرت کے لیے تھا بولیں کیا بیٹا ہوگا کہ میں بوڑھی ہوچکی ہوں اور ہمیشہ سے بانجھ ہوں جوانی میں بھی اولاد نہ ہوسکی اس وقت سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر سو برس اور حضرت سارہ کی عمر ننانوے سال تھی تو فرشتوں نے کہا کہ آپ کے پروردگار نے یہی بات بتانے کا حکم دیا ہے اور وہ بہت دانا بھی ہے اور صاحب حکمت بھی۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 24 تا 46 ضعیف مہمان۔ المکرمین عزت والے۔ منکرون اجنبی لوگ۔ راغ جلدی جلدی گیا۔ عجل بچھڑا۔ سمین تلا ہوا۔ اوجس اس نے چھپا دیا۔ اس نے محسوس کیا۔ غلام لڑکا۔ اقبلت وہ حاضر ہوئے صرۃ چیختی چلاتی ، آواز دیتی ۔ صلت اس نے بیٹا۔ عجوز بڑھیا۔ عقیم بانجھ، اولاد سے ناامید۔ ماخطبکم تمہارا مقصد کیا ہے ؟ ارادہ کیا ہے ؟ مسومۃ نشان لگے ہوئے۔ مسرفین حد سے آگے بڑھنے والے ۔ نبذنا ہم نے پھینکا الیم دریا۔ ملیم قابل ملامت۔ العقیم منحوس۔ ماتذر نہیں چھوڑتی ہے الرمیم ٹکڑے ٹکڑے کردینا۔ تمتعوا فائدے حاصلک ر لو۔ عتوا انہوں نے منہ پھیرا۔ منتصرین بدلہ لینے والے۔ تشریح : آیت نمبر 24 تا 46 ان آیات میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ، حضرت نوح، حضرت موسیٰ اور حضرت لوط اور ان کی نافرمان قوموں کے بدترین انجام خصوصاً قوم عاد اور قوم ثمود کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ (1) حضرت ابراہیم کے واقعہ کی تفصیل اس سے پہلے سورة حجر میں گذر چکی ہے یہاں ایک مرتبہ پھر حضرت ابراہیم کے واقعہ کو ذرا تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے۔ ارشاد ہے کہ ایک مرتبہ آپ کے پاس کچھ اجنبی مہمان آئے۔ حضرت ابراہیم نہایت آہستگی سے اٹھے اور گھر میں گئے اور ان کو جو چیز یعنی بچھڑا میسر تھا اس کو ذبح کر کے اور بھون کر مہمانوں کے پاس لے آئے۔ حضرت ابراہیم نے ان سے کہا کہ جو کچھ حاضر ہے اس کو کھائیے۔ حضرت ابراہیم نے محسوس کیا کہ اصرار کے باوجود انہوں نے نہیں کھایا۔ قبائلی زندگی میں کسی اجنبی مسافر کا کھانے سے پرہیز اس بات کی علامت ہوتی تھی کہ جو مہمان آیا ہے وہ کسی اچھے ارادے سے نہیں آیا۔ جب مہمانوں نے حضرت ابراہیم کے اس خوف کو محسوس کیا تو انہوں نے اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہوئے عرض کیا اے ابراہیم ! اللہ کی طرف سے ایک مجرم قوم (یعنی قوم لوط) کیط رف بھیجے گئے فرشتے ہیں۔ پھر انہوں نے بتایا کہ ہم اللہ کی طرف سے آپ کو ایک بیٹے کی خوشخبری دینے کے لئے بھی بھیجے گئے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے بھی سورة ہود اور سورة حجر میں تفصیل سے عرض کیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم نے اپنے آبائی ملک عراق سے فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی تو اس وقت آپ کے ساتھ آپ کی بیوی حضرت سارہ اور بھتیجے حضرت لوط تھے۔ بعد میں حضرت ہاجرہ سے آپ کا نکاح ہوا۔ حضرت ہاجرہ سے حضرت اسماعیل پیدا ہوئے مگر اس وقت تک حضرت سارہ کے بطن سے کوئی اولاد نہ ہو ہوئی تھی۔ جب یہ فرشتے انسانی شکل میں آئے اس وقت اسرائیلی روایات کے مطابق حضرت ابراہیم کی عمر ایک سو سال اور حضرت سارہ نوے سال کی تھیں۔ فرشتوں کی زبان سے یہ سن کر اولاد کی تمنا میں بوڑھی ہوجانے والی حضرت سارہ حیران و پریشان رہ گئیں اور انہوں نے حیرت سے چلا کر پوچھا کہ میں جب کہ بوڑھی ہوچکی ہوں اور بانجھ بھی ہوں میرے گھر اولاد کیسے ہوگی ؟ فرشتوں نے عرض کیا اس میں تعجب اور پریشان ہونے کوئی باتن ہیں ہے کیونکہ اللہ کا یہی فیصلہ ہے جو ہم نے آپ تک پہنچا دیا ہے۔ اسی طرح ان فرشتوں نے حضرت ابراہیم کو حضرت اسحاق کیپ یدائش کی خوش خبری دی۔ حضرت ابراہیم نے پوچھا کہ اب تمہارا کیا ارادہ ہے۔ (فرشتوں نے عرض کیا کہ ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں تاکہ ہم ان پر کنکر کے پتھر برسائیں جن پر آپ کے رب نے حد سے بڑھ جانے والے مجرموں کے کنکروں پر خاص نشان ڈال دیئے ہیں۔ حضرت ابراہیم سمجھ گئے کہ یہ فرشتے حضرت لوط کی قوم کو تباہ کرنے کے لئے بھیجے گئے ہیں۔ حضرت ابراہیم نے قوم لوط پر عذاب کا حال سن کر فرمایا کہ وہاں تو لوط بھی ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا ہمیں حکم ہے کہ ہم ان کو اور مومنوں کو بچا لیں۔ یہ بھی بتایا چونکہ ان کی بیوی کافرہ ہے اور کفار کا ساتھ دیتی رہی ہے لہٰذا اس کے علاوہ سب کی نجات کا حکم دیا گیا۔ چناچہ حضرت لوط جن کا گھرانہ مومن گھرانہ تھا اس کو اور اہل ایمان کو بچالیا بقیہ ساری قوم کو تباہ و برباد کردیا گیا ۔ اس اللہ نے ان بستیوں اور وہاں کے رہنے والوں کو نشات عبرت بنا دیا۔ بحرمر وار (Dead Sea) جس کا جنوبی علاقہ اس تباہی و بربادی کا منہ بولتا ثبوت آج بھی موجود ہے۔ (2) حضرت لوط کی نافرمان اور مجرم قوم کے بدترین انجام کے بعد حضرت موسیٰ کی اس جدوجہد کا ذکر فرمایا گیا ہے جب انہوں نے فرعون اور اس کی قوم کو ہر طرح سمجھانے کی کوشش کی لیکن ان کی بات سننے کے بجائے ان کو جادو گر اور دیوانہ قرار دے کر ان کی قوتوں کی توہین کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم کو سمندر میں اس طرح غرق کردیا کہ آج فرعون کے بدن کے سوا کوئی چیز باقی نہیں ہے۔ وہ فرعون جس کا جسم بھی ہر نافرمان قوم اور اس کے سربراہوں کے لئے نشان عبرت ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان تمام لوگوں کو بچا لیا جو حضرت موسیٰ کی دعوت پر ایمان لا چکے تھے۔ (3) اللہ تعالیٰ نے قوم عار کا ذکر فرمایا جن کی اصلاح کے لئے حضرت ہود کو بھیجا گیا تھا۔ قوم عاد دنیا کی ترقی یافتہ اور مال دار رقم تھی جس نے سینکڑوں سال تک دنیا پر حکومت کی تھی لیکن جب ان کا کفر و شرک اور ظلم و زیادتی بڑھتی ہی لچی گئی تو ان پر ا لہ کا عذاب آیا اور ان کو اس طرح تیز آندھی سے تباہ و برباد کردیا گیا کہ آج ان کا وجود تک منٹ چکا ہے وہ ایسی خطرناک اور زبردست آندھی تھی کہ جس چیز سے گذرتی تو اس کو ٹکڑے ٹکڑے اور ریزہ ریزہ کردیتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود اور ان پر ایمان لانے والے لوگوں کو بچا لیا۔ (4) قوم ثمود کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ ان کی اصلاح کے لئے بہت سے انبیاء کرام کو بھیجا گیا مگر یہ قوم اپنی ترقیات اور مال و دولت اور اونچی اونچی بلڈنگوں میں ایسی بدمست ہوچکی تھی کہ انہوں نے اللہ کے پیغمبروں کی بات تک سننے سے انکار کردیا اور آخر کار اللہ کا عذاب ایک ہیبت ناک آواز کی صورت میں ظاہر ہوا اس طرح کہ وہ قوم اپنے گھروں میں اوندھی پڑی رہ گئی اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے رہ گئے۔ (5) حضرت نوح جنہوں نے ساڑھے نو سو سال تک اللہ کے دین کی طرف بلانے کی جدوجہد فرمائی۔ نافرمان قوم کو اپنی سرکشی ظلم و زیادتی اور کفر و شرک سے بچنے کی تلقین کی مگر اس قوم نے ان کی ایک بات نہ مانی۔ آخر کار اللہ نے حضرت نوح کو ایک کشتی بنانے کا حکم دیا اور کہا کہ ایک مقررہ وقت پر آپ اپنے اہل خانہ ایمان لانے والوں اور جانوروں کے ایک ایک جوڑے کو لے کر اس کشتی میں سوار ہوجائیے۔ چناچہ ایسا زبردست پانی کا طوفان آیا کہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر پناہ لینے والے بھی اس طوفان سے نہ بچ سکے۔ صرف وہی تین سو تیرہ اہل ایمان بچ سکے جو حضرت نوح کی اس کشتی میں سوار تھے۔ ان تمام واقعات کو بیان کرنے کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم کے مخاطب خواہ وہ اس زمانہ کے اہل مکہ ہوں یا قیامت تک آنے والے انسان ہوں وہ اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ ال لہ کا یہ دستور ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا جب بھی دنیا میں کفر و شرک اور ظلم و زیادتی حد سے بڑھ جائے گی اور نافرمان توبہ نہ کریں گے تو اللہ کا عذاب ان کی طرف متوجہ ہو کر رہے گا اور ان کو تباہ و برباد کر کے رکھ دے گا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : آیت ٢١ ارشاد میں ہوا کہ تمہارے وجود میں بھی اللہ نے اپنی قدرت کی نشانیاں رکھی ہیں۔ اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی کے مظہر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی زوجہ مکرمہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جہنیں بڑھاپے میں بیٹے عطا فرمائے جن کا مختصر واقعہ یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ تمام مؤرخین نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی ولادت کی خوشخبری دی گئی تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر سو سال تھی۔ ملائکہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہو کر انہیں سلام کیا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انہیں سلام کا جواب دیا اور سوچا کہ اجنبی لوگ ہیں۔ اس کے باوجود اٹھے اور ایک موٹا تازہ بھنا ہوابچھڑا کھانے کے لیے ان کے سامنے پیش کیا۔ انسانوں کی شکل میں آنے والے ملائکہ نے کھانے کی طرف ہاتھ نہ اٹھایا۔ تو ابراہیم (علیہ السلام) پریشان ہوئے لیکن فرشتوں نے کہا کہ آپ کو خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہم بری خبر دینے کی بجائے آپ کو دانش مند بیٹے کی خوشخبری سنانے کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں میری کتاب سیرت ابراہیم) ” جب دیکھا ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھتے تو انہیں اجنبی جانا اور ان سے خوف محسوس کیا انہوں نے کہا ڈرو نہیں ہم لوط کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ “ (ہود : ٧٠) بشارت سن کر حضرت سارہ[ مسکرائیں : ” اور اس کی بیوی جو اس کے پاس کھڑی تھی یہ سن کر ہنس پڑی۔ ہم نے اس کو اسحاق اور اس کے بعد یعقوب کی خوشخبری سنائی۔ اس نے کہا اف ! کیا اب میرے ہاں بچہ ہوگا۔ حالانکہ میں نہایت بوڑھی ہوچکی ہوں اور میرا خاوند بھی بوڑھا ہوچکا ہے یہ عجیب بات ہے۔ فرشتوں نے کہا۔ کیا اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو۔ اے ابراہیم کے گھر والو ! تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔ یقیناً اللہ نہایت تعریف والا اور بلند شان کا مالک ہے۔ “ (ھود : ٧١، ٧٢، ٧٣) ” اے نبی ! آپ ان کو ابراہیم کے معزز مہمانوں کا واقعہ سنائیں۔ جب وہ ابراہیم کے پاس آئے اور کہا تم پر سلام ہو۔ ابراہیم نے کہا ہمیں تو آپ سے ڈر لگتا ہے فرشتے کہنے لگے۔ آپ ڈریں نہیں ! ہم آپ کو صاحب علم لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں۔ ابراہیم فرمانے لگے۔ کیا آپ اس بڑھاپے میں مجھے اولاد کی بشارت دے رہے ہیں۔ یہ کیسی بشارت ہے۔ “ (الحجر : ٥١ تا ٥٤) ” فرشتے کہنے لگے ہم آپ کو ٹھیک خوشخبری دے رہے ہیں۔ آپ کو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ابراہیم نے کہا۔ اپنے رب کی رحمت سے تو گمراہ لوگ ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔ “ (الحجر : ٥٥، ٥٦) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تو اظہار تفصیل کے لیے سوال کیا تھا ورنہ وہ تو اپنے رب کی رحمت سے مایوس نہیں تھے۔ کیونکہ رب کی رحمت سے مایوس تو صرف گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ نبی تو اسباب کی ناپیدگی کے باوجود اپنے رب کی رحمت پر بھرپور بھروسہ کرنے والا ہوتا ہے۔ اس واقعہ میں بتانا یہ مقصود ہے۔ اے اہل مکہ یہ حقیقت جان لو تم فرشتوں کے نزول کا مطالبہ کرتے ہو کہ فرشتے آکر اس نبی کی تائید کریں۔ تب ہم غور کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔ یاد رکھو فرشتے یا تو کسی کے لیے رحمت لے کر آتے ہیں یا زحمت ! تم سوچ لو تم کس چیز کے مستحق ہو ؟ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ بغیر اسباب کے سب کچھ کرسکتا ہے اور کرتا ہے۔ جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاں اولاد کے ظاہری اسباب نہیں تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو بیٹے عطا فرمائے۔ اسی طرح حالات نامساعد ہی کیوں نہ ہوں اللہ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دین کو ضرور کامیاب فرمائے گا۔ کیونکہ ” اللہ “ اسباب کا پابند نہیں۔ اسباب اس کے حکم کے پابند ہیں۔ حضرت اسحاق (علیہ السلام) : مؤرخین نے لکھا ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کی خوشخبری دی گئی تو آپ کی عمر سو سال اور آپ کی زوجہ حضرت سارہ کی عمر نوے سال تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) حضرت اسحاق کی خوشخبری دینے کے ساتھ پوتے یعقوب کی خوشخبری بھی عطا فرمائی۔ (ھود : ٦٩، ٧٠) مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس معزز فرشتے انسانوں کی شکل میں حاضر ہوئے۔ ٢۔ ملائکہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو سلام عرض کیا۔ جواب میں ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی انہیں سلام کہا۔ ٣۔ ابراہیم (علیہ السلام) مہمانوں کو پہچان نہ سکے۔ ٤۔ ابراہیم (علیہ السلام) اپنے مہمانوں سے خوف زدہ ہوگئے۔ ٥۔ مہمانوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اطمینان دلانے کے بعد صاحب علم بیٹے کی بشارت دی۔ ٦۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی حضرت سارہ خوشخبری سن کر تعجب کے مارے ہنس پڑی اور کہا ایک بانجھ بڑھیا کے ہاں کس طرح بچہ پیدا ہوگا۔ ٧۔ ملائکہ نے کہا آپ کا رب آپ کو ضرور بیٹاعطا فرمائے گا۔ کیونکہ وہ حکمت والا اور جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن انبیائے کرام (علیہ السلام) غیب نہیں جانتے تھے : ١۔ حضرت نوح نے فرمایا میرے پاس خزانے نہیں اور نہ ہی میں غیب جانتا ہوں۔ (ہود : ٣١) ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ملائکہ کو نہ پہچان سکے۔ (ہود : ٧٠، ٦٩) ٣۔ حضرت لوط ملائکہ کو نہ پہچان سکے۔ (ہود : ٧٧، ٧٨) ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیں میں نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ ہی میں غیب جانتا ہوں۔ (الانعام : ٥٠) ٥۔ فرمادیجیے کہ زمین و آسمان کے غیب کو ” اللہ “ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (النمل : ٦٥) ٦۔ اگر میں غیب جانتا ہوتا تو میں اپنے لیے بہت سی بھلائیاں جمع کرلیتا۔ (الاعراف : ١٨٨) ٧۔ ” اللہ “ کے پاس غیب کی چابیاں ہیں اس کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ (الانعام : ٥٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس دوسرے حصے میں بھی نبیوں کی تاریخ سے آیات الٰہیہ کا ذکر ہے جس طرح پہلے حصے میں آیات تکوینی اور آیات ونفس کا ذکر ہوا تھا اور یہ بھی اللہ کے سچے وعدے تھے اور انہوں نے حقیقت کا روپ اختیار کیا جس طرح پہلے حصے میں اللہ کے سچے وعدے کا ذکر تھا۔ بات کا آغاز حضرت ابراہیم کے مہمانوں کے بارے میں ایک سوال سے ہوتا ہے۔ ھل اتک حدیث ضیف ابراھیم المکرمین (٥١ : ٤٢) ” اے نبی کیا ابراہیم .... کے معزز مہمانوں کی حکایت بھی تمہیں پہنچی ہے ؟ “ اس سوال میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ذہنوں کو اس حکایت کے لئے تیار اور متوجہ کرنا ہے اور مہمانوں کے لئے ” مکرمین “ کا لفظ استعمال ہوا ہے یا تو وہ اللہ کے نزدیک مکرم اور معزز تھے یا اس طرف اشارہ ہے کہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمان تھے اور انہوں نے ان کی تکریم کی۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کس قدر کریم اور تخی تھے اور کس طرح مہمان نوازی پر مال لٹاتے تھے۔ ادھر سے مسلمان آتے ہیں ان کو سلام کرتے ہیں اور وہ بھی سلام کرتے ہیں۔ آپ ان مہمانوں کو پہچانتے نہیں اور علیک سلیک کے بعد اہلیہ کو جاکر کھانا تیار کرنے کا حکم دیتے ہیں اور یہ کھانا بھی آناً فاناً تیار ہوتا ہے اور جلدی ایک وافر مقدار میں ایک بھنا ہوا بچھڑا مہمانوں کے سامنے حاضر ہے جو دسیوں آدمیوں کے لئے کافی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس مہمانوں کا آنا اور صاحبزادہ کی خوشخبری دینا، اور آپ کی بیوی کا تعجب کرنا ان آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مہمانوں کا تذکرہ فرمایا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے آبائی وطن سے (جو بابل کے آس پاس تھا) ہجرت فرما کر فلسطین میں قیام فرمایا تھا آپ کے ساتھ حضرت لوط (علیہ السلام) بھی ہجرت کر کے ملک شام میں آ کر بس گئے تھے۔ انہیں بھی اللہ تعالیٰ نے نبوت سے نوازا تھا، حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم جن بستیوں میں رہتی تھی وہ شام کے علاقہ میں نہر اردن کے آس پاس تھیں۔ یہ لوگ بڑے نافرمان تھے برے کام میں لگے رہتے تھے۔ مردوں سے قضاء شہوت کیا کرتے تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے بہت سمجھایا لیکن یہ لوگ ایمان نہ لائے نہ اپنی حرکتوں سے باز آئے، اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کرنے کے لیے فرشتوں کو بھیجا، یہ فرشتے انسانی شکل میں اولاً حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے چونکہ یہ حضرات اللہ کے مقرب اور مکرم بندے تھے اس لیے یوں فرمایا کہ کیا آپ کے پاس ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؟ یہ حضرات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو سلام کیا، انہوں نے سلام کا جواب دے دیا۔ لیکن چونکہ ان حضرات سے ابھی ابھی نئی ملاقات ہوئی تھی اس لیے ﴿ قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَ﴾ فرمایا یعنی آپ حضرات بےجان پہچان کے لوگ ہیں۔ ابھی آئے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اندر اپنے گھر والوں کے پاس تشریف لے گئے اور بھنا ہوا فربہ بچھڑا لے کر باہر تشریف لائے اور مہمانوں کے پاس رکھ دیا اور کھانے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا ﴿ اَلَا تَاْكُلُوْنَٞ﴾ کیا آپ حضرات نہیں کھاتے، زبان سے کہنے پر بھی انہوں نے ہاتھ نہیں بڑھایا۔ یہ ماجرا دیکھا تو مزید توحش ہوا۔ یہاں سورة الذاریات میں ہے ﴿ فَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيْفَةً ﴾ فرمایا کہ ان کی طرف سے دل میں خوف محسوس کیا اور سورة الحجر میں ہے کہ زبان سے بھی ﴿ اِنَّا مِنْكُمْ وَ جِلُوْنَ ٠٠٥٢﴾ فرما دیا کہ ہم آپ سے خوف زدہ ہو رہے ہیں، مہمانوں نے کہا ﴿ لَا تَوْجَلْ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمٍ عَلِيْمٍ ٠٠٥٣﴾ کہ آپ نہ ڈریئے ہم آپ کو ایک صاحب علم لڑکے کی بشارت دیتے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تو بوڑھا ہوچکا ہوں اب مجھے کیسی بشارت دے رہے ہو۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی وہیں کھڑی تھیں ان کو خوشخبری سنائی کہ تمہارا ایک بیٹا اسحاق ہوگا اور اس کا بھی ایک بیٹا ہوگا وہ کہنے لگیں ہائے، خاک پڑے کیا میں اب جنوں گی اور حال یہ ہے کہ میں بوڑھی ہوچکی ہوں اور اتنا ہی نہیں بلکہ یہ میرے شوہر بھی بوڑھے ہیں یہ تو عجیب بات ہے۔ یہ مضمون سورة ٴ ہود میں مذکور ہے یہاں سورة الذاریات میں فرمایا ہے ﴿فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُهٗ فِيْ صَرَّةٍ ﴾ کہ ان کی بیوی بولتی ہوئی پکارتی ہوئی آئیں ﴿ فَصَكَّتْ وَجْهَهَا﴾ انہوں نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا ﴿ وَ قَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِيْمٌ٠٠٢٩﴾ اور کہنے لگیں میں بڑھیا ہوں، بانجھ ہوں۔ یہاں سورة الذاریات میں لفظ عقیم یعنی بانجھ کا بھی اضافہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ میاں بیوی بورھے تو تھے ہی اس سے پہلے اس خاتون سے کبھی اولاد نہیں ہوئی تھی۔ فرشتوں نے کہا ﴿ كَذٰلِكِ ١ۙ قَالَ رَبُّكِ ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ ٠٠٣٠﴾ تیرے رب نے ایسا ہی فرمایا ہے بیشک وہ جب چاہتا ہے اور جو چاہتا ہے تصرف فرماتا ہے اور جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے فرشتوں کی بشارت کے مطابق لڑکا پیدا ہوا اور اس بیٹے کا بیٹا یعقوب بھی وجود میں آیا جس کا لقب اسرائیل تھا اور سب بنی اسرائیل ان کی اولادیں ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8:۔ ” ھل اتاک۔ تا۔ العذاب الالیم “ یہ تخویف دنیوی کے پان نمونوں میں سے پہلا نمونہ ہے اصل نمونہ تو قوم لوط (علیہ السلام) کی ہلاکت ہے اور اس سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ اس کی تمہید ہے۔ کیا ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمانوں کا قصہ اس کی تمہید ہے۔ کیا ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمانوں کا قصہ آپ تک نہیں پہنچا ؟ یہ معزز مہمان فرشتے تھے جو خوبصورت نوجوانوں کی شکل میں ان کے پاس آئے۔ ” اذ دخلوا۔ الایۃ “ جب وہ مہمان حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو سلام کہا۔ انہوں نے بھی سلام کا جواب دیا اور دل کہا یہ اجنبی ہیں معلوم نہیں کون ہیں۔ خیال آیا پہلے ان کے کھانے پینے کا انتظام کرلیا جائے بعد میں ان کا اتہ پتہ معلوم کرلیا جائیگا۔ ” فراغ الی اھلہ الخ “ چناچہ فورًا گھر تشریف لے گئے اور بہت جلد ایک موٹا تازہ بچھڑا بھون تل کرلے آئے۔ اور ان کے سامنے رکھ دیا۔ لیکن جب دیکھا کہ وہ کھانے کے لیے بچھڑے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھا رہے، تو فرمایا تم کھاتے کیوں نہیں ؟ اور دل میں ڈرے بھی کیونکہ اس زمانے کا دستور تھا جو شخص کسی کو نقصان پہنچانا چاہتا یا اس کے یہاں چوری کرنے کا ارادہ رکھتا تھا وہ اس کے گھر کی روٹی نہیں کھاتا تھا تاکہ نمک حرامی نہ ہو۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سمجھے کہ شاید یہ کسی برے ارادے سے آئے ہوں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس عظمت شان کے باوجود غیب دان نہ تھے جب تک فرشتوں نے بتایا نہیں، ہم اللہ کے فرشتے ہیں اور ساتھ ہی ایک ذی علم فرزند کی خوشخبری بھی دیدی۔ یہ فرزند حضرت اسحاق (علیہ السلام) ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(24) اے پیغمبر کیا ابراہیم کے معزز اور بزرگ مہمانوں کی بات بھی آپ تک پہنچی ہے۔ یہ فرشتے تھے جیسا کہ سورة حجر میں گزر چکا ہے زیادہ سے زیادہ ان کی تعداد مع جبرائیل (علیہ السلام) کے دس بتائی جاتی ہے ہوسکتا ہے کہ کم وبیش ہو مکرم فرما رہے تھے اس سے بڑھ کر اور کیا مکرم ہوسکتے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے جو شخص اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے اور اس کی عزت کرے۔