Surat uz Zaariyaat

Surah: 51

Verse: 31

سورة الذاريات

قَالَ فَمَا خَطۡبُکُمۡ اَیُّہَا الۡمُرۡسَلُوۡنَ ﴿۳۱﴾

[Abraham] said, "Then what is your business [here], O messengers?"

۔ ( حضرت ابراہیم علیہ السلام ) نے کہا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے ( فرشتو! ) تمہارا کیا مقصد ہے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Angels were sent to destroy the People of the Prophet Lut Allah the Exalted said about Ibrahim, peace be upon him, فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ الرَّوْعُ وَجَاءتْهُ الْبُشْرَى يُجَادِلُنَا فِي قَوْمِ لُوطٍ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُّنِيبٌ يَا إِبْرَاهِيمُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا إِنَّهُ قَدْ جَاء أَمْرُ رَبِّكَ وَإِنَّهُمْ اتِيهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُودٍ Then when the fear had gone away from (Ibrahim), and the glad tidings had reached him, he began to plead with Us for the people of Lut. Verily, Ibrahim was, without doubt forbearing, used to invoke Allah with humility, and was repentant. "O Ibrahim! Forsake this. Indeed, the commandment of your Lord has gone forth. Verily, there will come a torment for them which cannot be turned back." (11:74-76) Allah said here, قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ (Ibrahim) said: "Then for what purpose you have come, O messengers!" meaning, `what is the mission that you were sent with,' قَالُوا إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمٍ مُّجْرِمِينَ

پہلے بیان ہو چکا ہے کہ جب ان نووارد مہمانوں سے حضرت ابراہیم کا تعارف ہوا اور دہشت جاتی رہی ۔ بلکہ ان کی زبانی ایک بہت بڑی خوشخبری بھی سن چکے اور اپنی بردباری اللہ ترسی اور دردمندی کی وجہ سے اللہ کی جناب میں قوم لوط کی سفارش بھی کر چکے اور اللہ کے ہاں کے حتمی وعدے کا اعلان بھی سن چکے ، اس کے بعد جو ہوا اس کا بیان یہاں ہو رہا ہے کہ حضرت خلیل اللہ نے ان فرشتوں سے دریافت فرمایا کہ آپ لوگ کس مقصد سے آئے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ قوم لوط کے گنہگاروں کو تاخت تاراج کرنے کے لئے ہمیں بھیجا گیا ہے ہم ان پر سنگ باری اور پتھراؤ نہ کریں گے ان پتھروں کو ان پر برسائیں گے جن پر اللہ کے حکم سے پہلے ہی ان کے نام لکھے جاچکے ہیں اور ہر ایک گنہگار کے لئے الگ الگ پتھر مقرر کر دئیے گئے ہیں سورہ عنکبوت میں گذر چکا ہے کہ یہ سن کر حضرت خلیل الرحمن نے فرمایا کہ وہاں تو حضرت لوط ہیں پھر وہ بستی کی بستی کیسے غارت کر دی جائے گی؟ فرشتوں نے کہا اس کا علم ہمیں بھی ہے ہمیں حکم مل چکا ہے کہ ہم انہیں اور ان کے ساتھ کے گھرانے کے تمام ایمان داروں کو بچا لیں ہاں ان کی بیوی نہیں بچ سکتی وہ بھی مجرموں کے ساتھ اپنے جرم کے بدلے ہلاک کر دی جائے گی ، اسی طرح یہاں بھی ارشاد ہے کہ اس بستی میں جتنے بھی مومن تھے سب کو بچا دیا گیا کہ وہاں سوائے ایک گھر کے اور گھر مسلمان تھا ہی نہیں ۔ یہ دونوں آیتیں دلیل ہیں ان لوگوں کی جو کہتے ہیں کہ ایمان و مذہب بھی یہی ہے کہ ایک ہی چیز ہے جسے ایمان بھی کہا جاتا ہے اور اسلام بھی لیکن یہ استدلال ضعیف ہے اس لئے کہ یہ لوگ مومن تھے اور یہ تو ہم بھی مانتے ہیں کہ ہر مومن مسلمان ہوتا ہے لیکن ہر مسلمان مومن نہیں ہوتا پس حال کی خصوصیت کی وجہ سے انہیں مومن مسلم کہا گیا ہے اس سے عام طور پر یہ بات نہیں ہوتا کہ ہر مسلم مومن ہے ۔ ( حضرت امام بخاری اور دیگر محدثین کا مذہب ہے کہ جب اسلام حقیقی اور سچا اسلام ہو تو وہی اسلام ایمان ہے اور اس صورت میں ایمان اسلام ایک ہی چیز ہے ہاں جب اسلام حقیقی طور پر نہ ہو تو بیشک اسلام ایمان میں فرق ہے صحیح بخاری شریف کتاب الایمان ملاحظہ ہو ۔ مترجم ) پھر فرماتا ہے کہ ان کی آباد و شاد بستیوں کو عذاب سے برباد کر کے انہیں سڑے ہوئے بدبودار کھنڈر بنا دینے میں مومنوں کے لئے عبرت کے پورے سامان ہیں جو عذاب الٰہی سے ڈر رکھتے ہیں وہ ان نمونہ کو دیکھ کر اور اس زبردست نشان کو ملاحظہ کر کے پوری عبرت حاصل کر سکتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31۔ 1 یعنی اس بشارت کے علاوہ تمہارا اور کیا کام اور مقصد ہے جس کے لئے تمہیں بھیجا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٥] خَطْب کا لغوی مفہوم :۔ خَطْب بمعنی حال، معاملہ، مقصد خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اور یہ لفظ عام طور پر کسی ناپسندیدہ معاملہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یعنی جب سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ معلوم ہوچکا تھا کہ یہ فرشتے ہیں اور فرشتے انسانی شکل میں غیر معمولی حالات میں ہی آیا کرتے ہیں۔ بیٹے کی بشارت سے ان کا اپنا ڈر تو دور ہوگیا تاہم ابھی اصل حیرت کا معاملہ باقی تھا۔ لہذا آپ نے فرشتوں سے پوچھا کہ آپ کس مہم پر تشریف لائے ہیں اور کیا مقصد ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) قال فما خطبکم ایھا المرسلون : جب ابراہیم (علیہ السلام) مہمانوں کے کھانا نہ کھانے پر خوف زدہ ہوئے اور صاف اظہار بھی کردیا :(انا منکم وجلون) (الحجر : ٥٢)” ہم تو تم سے ڈرنے والے ہیں۔ “ کیونکہ انہیں ان کے فرشتہ ہونے کا اندازہ ہوگیا تھا اور وہ یہ بھی جانتے تھے ہ فرشتوں کا اس طرح آنا معمولی بات نہیں ہوتی، جیسا کہ فرمایا :(ما نزل المئکۃ الا بالحق وما کانوا اذا منظرین) (الحجر : ٨)” ہم فرشتوں کو نہیں اتارتے مگر حق (عذاب) کے ساتھ اور اس وقت وہ مہلت دیئے گئے نہیں ہوتے۔ “ اس لئے وہ شدید ڈر گئے، تو فرشتوں نے ان کا خوف دور کرنے کے لئے ان سے دو باتیں کہیں، ایک یہ :(لاتخف انا ارسلنا الی قوم لوط ) ھود : ٨٠) ” ڈرو نہیں، کیونکہ ہم لوط کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ “ یعنی آپ کو ڈرنے کی ضرورت نہیں، ہماری منزل مقصود دوسری ہے۔ دوسری بات انہوں نے یہ کی کہ ہم آپ کو بیٹے اور پوتے اسحاق و یعقوب کی بشارت دینے آئے ہیں۔ (دیکھیے ہود : ٧١) جب ابراہیم (علیہ السلام) کو اطمینان ہوگیا تو انہوں نے پوچھا، تو اے بھیجے جانے والے فرشتو ! (قوم لوط کے ساتھ) تمہارا معاملہ کیا ہے اور تم ان کے متعلق کیا کرنا چاہتے ہو ؟ یاد رہے ! ” خطب “ کا لفظ عموماً کسی اہم یا سخت معاملے کے متعلق ہی اسعتمال کیا جاتا ہے۔ (٢) اس سارے واقعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہا نبی اء (علیہم السلام) عالم الغیب نہیں ہوتے۔ تفصیل کے لئے دیکھیے سورة حجر (٦٢) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ فَمَاخَطْبُكُمْ اَيُّہَا الْمُرْسَلُوْنَ۝ ٣١ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ خطب ( حال) الخَطْبُ «2» والمُخَاطَبَة والتَّخَاطُب : المراجعة في الکلام، والخَطْبُ : الأمر العظیم الذي يكثر فيه التخاطب، قال تعالی: فَما خَطْبُكَ يا سامِرِيُّ [ طه/ 95] ، فَما خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ [ الذاریات/ 31] ( خ ط ب ) الخطب والمخاطبۃ والتخاطب ۔ باہم گفتگو کرنا ۔ ایک دوسرے کی طرف بات لوٹانا ۔ الخطب ۔ اہم معاملہ جس کے بارے میں کثرت سے تخاطب ہو ۔ قرآن میں ہے :۔ فَما خَطْبُكَ يا سامِرِيُّ [ طه/ 95] پھر سامری سے کہنے لگے ) سامری تیرا کیا حال ہے ۔ فَما خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ [ الذاریات/ 31] کہ فرشتوں تمہارا مدعا کیا ہے ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣١۔ ٣٦) پھر حضرت ابراہیم فرشتوں سے فرمانے لگے کہ تمہیں بڑی مہم کیا درپیش ہے اور کس مقصد کے تحت تم آئے ہو وہ کہنے لگے ہم ایک مشرک قوم یعنی قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں جنہوں نے ناپاک کاموں کا ارتکاب کر کے خود اپنی ہلاکت کو لازم کرلیا۔ تاکہ ہم ان پر کھنگر کے پتھر برسائیں جن پر آپ کے پروردگار کی طرف سے خاص نشان بھی ہے کہ سرخی پر سیاہ لکیر بنی ہوئی ہے اور یہ پتھر اللہ کی طرف سے مشرکین کے لیے ہیں تو ہم نے جتنے موحد تھے سب کو لوط کی بستیوں سے علیحدہ کرلیا سو ان بستیوں میں سوائے مقربین کے ایک گھر کے مسلمانوں کا اور کوئی گھر ہم نے وہاں نہیں پایا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣١{ قَالَ فَمَا خَطْبُـکُمْ اَیُّـہَا الْمُرْسَلُوْنَ ۔ } ” ابراہیم نے پوچھا کہ اے ایلچیو ! پھر آپ لوگوں کا مقصد کیا ہے ؟ “ آپ کا قصد اور ارادہ کیا ہے ؟ کیا خصوصی مہم آپ کو درپیش ہے ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

30 As the angels come in human guise only on highly important occasions the Prophet Abraham used the word khatb to find out the purpose of their visit; the word khatb in Arabic is used for an errand of same extraordinary nature.

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :30 چونکہ فرشتوں کا انسانی شکل میں آنا کسی بڑے اہم کام کے لیے ہوتا ہے ، اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کی آمد کا مقصد پوچھنے کے لیے خطب کا لفظ استعمال فرمایا ۔ خَطْب عربی زبان میں کسی معمولی کام کے لیے نہیں بلکہ کسی امر عظیم کے لیے بولا جاتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣١۔ ٣٧۔ خطب کے معنی حال اور قصہ کے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جب یہ معلوم ہوگیا کہ یہ اللہ کے فرشتے ہیں تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے پوچھا کہ کس مطلب کے لئے زمین پر تمہارا آنا ہوا ہے فرشتوں نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو قوم لوط پر پتھر برسانے کے عذاب کے لئے بھیجا ہے تفسیر سدی اور تفسیر حسن بصری میں لکھا ہے کہ ان کنکروں پر خدا کی طرف سے ایک مہر کی سی صورت تھی جس سے وہ کنکر دنیا کے کنکروں سے الگ پہچانے جاتے تھے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ نشان کئے ہوئے تھے یہاں اللہ تعالیٰ نے مختصر طور پر فقط کنکروں کے مینہ کا ذکر فرمایا ہے۔ سورة ہود میں گزر چکا ہے کہ پہلے ان لوگوں کے رہنے کی بستیاں الٹی گئیں اور پھر یہ پتھروں کا مینہ برسا۔ قوم لوط کے چار لاکھ آدمی تھے جو اس عذاب الٰہی سے ایک دم میں ہلاک ہوگئے۔ جو علماء اس بات کے قائل ہیں کہ قوم لوط کی طرح فعل کرنے والے شخص کو سنگسار کرنا چاہئے ان علماء نے ان پتھروں کے مینہ سے سنگساری کی دلیل پیدا کی ہے۔ ابو داؤود ٢ ؎ میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے اور بیہقی میں حضرت علی سے جو روایت ہے اس میں بھی اغلامی شخص کے سنگسار کرنے کا حکم ہے۔ امام شافعی ٣ ؎ علیہ الرحمۃ کا مذہب حضرت علی (رض) اور حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے اس قول کے موافق ہے لیکن حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) اور حضرت علی (رض) کا قول اس کے برخلاف بھی ہے اس کا ذکر آگے آتا ہے اسی واسطے شریعت کے احکام چھانٹ کر جن لوگوں نے کتابیں لکھیں ہیں جن کو کتاب الاحکام کہتے ہیں ان میں علماء نے یہی لکھا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی فعل یا قول اس باب میں نہیں پایا جاتا۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد صحابہ کرام کو اس مسئلہ میں ایک طرح کا شک اور اختلاف جو رہا اس سے اس قول کی تصدیق بھی ہوتی ہے صحابہ کا شک تو اس قصہ سے معلوم ہوتا ہے جو بیہقی میں ٤ ؎ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت کے زمانہ میں ایک ایسی صورت پیش آئی۔ اس جس سے حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے صحابہ کو جمع کیا۔ آخر حضرت علی (رض) کے مشورہ کے موافق ایک شخص کو آگ میں جلا دینے کی صلاح قرار پائی۔ اس روایت کو علماء مرسل کہا ہے اور صحابہ کرام کا اختلاف یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس مشورہ کے بعد بھی اس فتویٰ پر سب صحابہ کرام قائم نہ رہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) اغلامی شخص کو بلند مکان پر سے دھکا دے کر گرا دینے کا فتویٰ دیا کرتے تھے اور بعض صحابہ تلوار سے قتل کرنے کا اور بعض زنا کی سزا کا فتویٰ دیا کرتے تھے مگر اغلام کی صورت میں زنا سے کم سزا دینے کے کسی صحابی کا قول نہیں ہے اسی واسطے فقہ حنفی اور شافعی میں یہ جو لکھا ہے کہ اغلامی شخص کے لئے فقط تھوڑی سی تعزیر کی سزا کافی ہے۔ اس پر تمام علماء نے اعتراض کیا ہے کہ یہ قول سب صحابہ (رض) کے مخالف ہے۔ بعض علماء نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ معافی گناہ میں غلطی کرنا سزا میں غلطی کرنے سے بہتر ہے مگر اور علماء نے اس جواب کو غلط ٹھہرایا ہے اور کہا ہے کہ یہ جو اب صحابہ (رض) سے مخالفت کرنے کے لئے کچھ کافی جواب نہیں ہے۔ مسوف کے معنی حد سے بڑھا ہوا مرد اور ورت کی مباشرت کی حد سے بڑھ کر یہ لوگ لڑکوں سے بدفعلی کرتے تھے۔ اس لئے الہ کے فرشتوں نے انہیں حد سے بڑھے ہوئے کہا۔ پھر بچا نکالا ہم نے جو تھا وہاں ایمان والا فرشتوں کے کلام میں یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ یہاں اس قصہ کو مختصر طور پر فرمایا ہے سورة حجر میں گزر چکا ہے کہ حضرت لوط اور ان کے ساتھ کے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے اس بلا سے بچا دیا۔ ہاں حضرت لوط کے رشتہ داروں میں سے ان کی بی بی جو نافرمان لوگوں کی طرف دار تھی وہ عذاب میں پکڑی گئی اور رکھا اس میں نشان ان لوگوں کو جو ڈرتے ہیں۔ دکھ کی مار کا مطلب یہ ہے کہ قوم لوط کی مثلاً چار بستیاں اجڑ کر اب جو وہاں بودار پانی کا چشمہ ہے یا ثمود کی بستی حجر ملک شام کے راستہ میں اہل مکہ کو پڑتی ہے۔ ایسی چیزوں اور بستیوں کو دیکھ کر انہیں ڈرنا چاہئے جن کے دل میں کچھ خدا کا خوف ہے کیونکہ ان لوگوں کے عذاب کی طرح حال کے لوگوں پر خدا کا عذاب آئے ہوئے کچھ دیر نہیں لگتی۔ تبوک جاتے وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ثمود کی اجڑی ہوئی بسیی حجر پر سے ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ١ ؎ جب تک اس بستی سے گزر نہ ہوجائے خدا سے ڈرنا اور رونا چاہئے کس لئے کہ خدا کا عذاب آتے ہوئے کچھ دیر نہیں لگتی ثمود کے اصل قصہ میں جو روایتیں گزر چکی ہیں وہ آیت کے اس ٹکڑے کی گویا تفسیر ہیں۔ احکام دین کی دلی تصدیق اور زبانی اقرار اور ہاتھ پیروں کا نیک عمل ان تینوں چیزوں کے مجموعہ کا نام فرقہ معتزلہ کے نزدیک ایمان ہے۔ اور سلف اہل سنت کے نزدیک نیک عمل فقط ایمان کے کامل ہونے کی شرط ہے۔ ان آیتوں میں جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے مومنین فرمایا ہے ان ہی کو پھر مسلمین فرمایا ہے۔ اس لئے صاحب کشاف اور معتزلی علماء نے ان آیتوں کو اپنے مذہب کی اس طرح دلیل قرار دیا ہے کہ لفظ اسلام کے معنی میں اعتقاد قلبی داخل نہیں ہے۔ اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ قوم لوط کے مسلمانوں میں تصدیق قلبی افرار زبانی نیک عمل تینوں باتوں کا مجموعہ تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں مومنین اور مسلمین دونوں لفظ فرمائے۔ مفسرین اہل سنت نے فرقہ معتزلہ کی اس دلیل کو کئی طرح ضعیف ٹھہرایا ہے جس کی تفصیل بڑی تفسیروں میں ٢ ؎ ہے حاصل یہ ہے کہ اصل میں ایمان کا لفظ شریعت میں شرع کی باتوں پر دلی یقین رکھنے کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ اور اسلام کا لفظ ظاہری اطاعت کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ اب یہ ظاہری اطاعت کبھی تو دلی یقین کے ساتھ ہوتی ہے جس طرح حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کا قول اللہ تعالیٰ نے آیت اسلمت لرب العلمین میں نقل فرمایا ہے۔ اور کبھی یہ ظاہری اطاعت پورے دلی یقین کے ساتھ نہیں ہوتی۔ جس طرح آیت لم تو منوا۔ ولکن قولوا اسلمنا میں ہے۔ آیت فما وجدنا فیھا غیربیت من المسلمین میں اسلام کا لفظ اسلمت لرب العلمین کے محاورہ کے موافق بولا گیا ہے اس لئے صاحب کشاف وغیرہ نے اس آیت میں لفظ اسلام کو ولکن قولوا اسلمتا کے معنی میں جو لیا ہے یہ معنی اہل سنت کے نزدیک سیاق آیت کے مخالف ہیں۔ اور لفظ مومنین کے قرینہ سے لفظ مسلمین میں اسلام کے معنی اسلمت لرب العلمین کے محاورہ کے موافق اہل سنت کے نزدیک صحیح ہے۔ (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٢٣٥ ج ٤۔ ) (٢ ؎ ابو داؤود کتاب الحدود فیمن عمل عمل قوم لوط ج ٢۔ ) (٣ ؎ الترغیب والترہیب باب اترہیب من اللواط الخ ص ٤٨٣ ج ٣۔ ) (٤ ؎ الترغیب والترہیب باب الترہیب من اللواط ص ٤٨٣ ج ٣۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری باب نزول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الحجر ٦٣٧ ج ٢۔ ) (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٢٣٦ ج ٤۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(51:31) قال۔ ای قال ابراہیم لما ذھب عنہ الروع وجاء رہ البشری ولما علم انھم ملئ کہ۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) کا ڈر جاتا رہا اور ان کو خوشخبری بھی مل گئی اور ان کو معلوم ہوگیا کہ وہ مہمان فرشتے ہیں تو کہنے لگے (نیز ملاحظہ کو 11:74) فما خطبکم۔ ما استفہامیہ ہے خبکم۔ مضاف مضاف الیہ ۔ خطب مصدر۔ خطب یخطب (باب نصر) کا اسی باب سے خطبۃ وخطابۃ بھی مصدر آئے ہیں۔ بمعنی وعظ کہنا۔ تقریر کرنا۔ حاضرین کے روبرو خطبہ پڑھنا۔ کہتے ہیں خطب القوم اس نے قوم سے خطاب کیا۔ الخطب۔ مصدر۔ حالت کو کہتے ہیں۔ ما خطبک تمہاری کیا حالت ہے ، تمہارا کیا حال ہے۔ تمہارا کیا مدعا ہے۔ تم کو اس پر کس نے اکسایا۔ ویسے تو الخطب ہر کام کو کہتے ہیں بڑا ہو یا چھوٹا۔ لیکن عام طور پر کسی بڑے ناپسندیدہ معاملہ کے لئے مستعمل ہوتا ہے۔ ما خطبکم۔ تمہارا کیا مدعا ہے۔ تمہارا کیا مقصد ہے آنے کا۔ المرسلون۔ اسم مفعول جمع مذکر ، بھیجے ہوئے، فرستادگان، (اے اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتو تمہارا مدعا کیا ہے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی اس بشارت کے علاوہ دوسرا اہم کام کیا ہے جسے انجام دینے کے لئے تمہیں اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے ؟ خطب کے معنی اہم کام یا مہم کے ہیں

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٣١ تا ٤٤۔ اسرار ومعارف۔ تب ابراہیم (علیہ السلام) نے پوچھا کہ تمہارے آنے کا اہم مقصد کیا ہے کس بات کو یہاں ٹھہرے تو آگے کہاں اور کس کام سے جانا ہے تب انہوں نے ساری بات عرض کردی کہ ہم قوم لوط (علیہ السلام) پر عذاب واقع کرنے جا رہے ہیں جو گناہ گار اور مجرم ہیں یعنی جرم وگناہ ان کی سرشت میں داخل ہوچکا ہے ہمیں حکم ہوا ہے کہ ان پر مٹی سے بنے ہوئے کنکر پتھر برسائیں۔ جو ان حد سے گزرنے والوں کے لیے آپ کے پروردگار نے مقرر کر رکھے ہیں کہ ہر آدمی کے لیے اس کے نام کا پتھر گرتا ہے اور وہ جدھر جاتا ہے اس کے پیچھے جاتا اور جب لگتا تو چور چور کردیتا اس ہلاکت سے ہم نے مسلمانوں کو محفوظ رکھا جو بہت کم تھے کہ اس ایک گھر کے علاوہ مسلمانوں کا کوئی اور گھر تو تھا ہی نہیں اور انہیں برباد کرکے آنے والی نسلوں کے لیے جو ان میں سے عذاب الٰہی سے ڈرنے والے ہیں عبرت کانشان بنادیا۔ ایسے ہی دلائل موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ میں ہیں جب انہیں فرعون کے پاس واضح دلائل اور معجزات عطا کرکے بھیجا گیا تو فرعون نے اپنی طاقت کے گھمنڈ پر روگردانی اختیار کی اور انہیں کبھی جادوگر کہا اور کبھی کہا کہ دیوانہ ہے پھر ہم نے اسے پکڑا اور ذلیل کرکے غرق کردیا یا غرق ہو کر رسوا ہو ایسے ہی قوم عاد کا حال ہے کہ نافرمانی کی تو اللہ نے بلاخیز طوفان بھیج دیا جس نے کچھ باقی چھوڑا اور ہر شے تباہ وبرباد کردی یہی حال قوم ثمود کا ہوا جنہیں ایک وقت تک مہلت دی گئی کہ اللہ کے جہاں کو برت لو مگر انہوں نے اپنے پالنے والے کی اطاعت نہ کی تو ان پر دیکھتی آنکھوں بجلی کی کڑک پڑی اور تباہ ہوگئے اور نہ مقابلہ کی جرات ہوسکی ان سے پہلے نوح (علیہ السلام) کی قوم کا یہی حشر ہوا وہ بھی بہت نافرمان لوگ تھے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ابراہیم (علیہ السلام) نے بیٹے کی خوشخبری سن کر ملائکہ سے استفسار فرمایا کہ اس کے علاوہ آپ کی تشریف آوری کا مقصد کیا ہے ؟ بیٹے کی خوشخبری سن کر ابراہیم (علیہ السلام) ملائکہ سے استفسار فرماتے ہیں کہ تمہاری تشریف آوری کا اور کیا مقصد ہے ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کے نبی تھے اور انہیں معلوم تھا کہ وحی لانے کے لیے اکثر اوقات ایک ہی فرشتہ آیا کرتا ہے لیکن آج بیک وقت تین ملائکہ تشریف لائے ہیں۔ اس کی کوئی خا ص وجہ معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے انہوں نے پوچھا کہ مجھے خوشخبری دینے کے علاوہ اور کیا پروگرام ہے ؟ ملائکہ نے جواب دیا کہ ہم مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں تاکہ ان پر آپ کے رب کی طرف سے پکی مٹی کے پتھر برسائیں جو نشان زدہ ہیں۔ پتھر ان لوگوں پر برسائیں جائیں گے جو اللہ کی حدود کو پھلانگ چکے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ وہاں تو لوط (علیہ السلام) اور ان کے ایماندار ساتھی بھی موجود ہیں۔ ملائکہ نے جواب دیا کہ لوط (علیہ السلام) کی بیوی کے سوا انہیں اور ان کے ساتھیوں کو عذاب سے پہلے نکل جانے کا حکم ہوگا۔ یاد رہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے۔ نامعلوم انہوں نے اپنی قوم کو کتنی مدت سمجھایا لیکن بدبخت اور بدکردار قوم سمجھنے کے لیے تیار نہ ہوئی، لوط (علیہ السلام) پر ان کے گھروالوں کے سوا کوئی شخص ایمان نہ لایا۔ اس لیے قرآن مجید نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ایک گھر کے سوا اس شہر میں مسلمانوں کا کوئی اور گھر موجود نہیں تھا۔ رب ذوالجلال نے اس علاقے کو تباہ کرکے آنے والے لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا جو اللہ کے اذیت ناک عذاب سے ڈرتے ہیں۔ ” شہر کے لوگ خوشی کے مارے دوڑتے ہوئے، لوط (علیہ السلام) کے گھر پر چڑھ آئے لوط نے کہا یہ میرے مہمان ہیں اللہ سے ڈرو اور مجھے ذلیل نہ کرو۔ قوم اس قدر بےشرم بےحیا تھی کہ انہیں اس بات کا کوئی اثرنہ ہوا۔ وہ کہنے لگے کہ کیا ہم نے تمہیں منع نہیں کیا کہ دنیا کے ذمہ دار نہ بنا کرو۔ لوط (علیہ السلام) نے فرمایا اگر تم باز نہیں آتے تو میری بیٹیاں موجود ہیں۔ تیری جان کی قسم اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت ان پر سرکشی کا نشہ چڑھا ہوا تھا جس میں وہ اندھے ہوچکے تھے۔ “ (الحجر : ٦٧ تا ٧٢) حضرت لوط (علیہ السلام) مہمانوں کی آمد پر پریشان ہوگئے : (وَ لَمَّا جَآءَ تْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْٓءَ بِہِمْ وَ ضَاقَ بِہِمْ ذَرْعًا وَّ قَالَ ہٰذَا یَوْمٌ عَصِیْبٌ) (ھود : ٧٧) ” جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس پہنچے وہ فرشتوں کی آمد سے بہت گھبرا گئے اور دل میں تنگی محسوس کی۔ کہنے لگے کہ آج کا دن مصیبت کا دن ہے۔ “ (قَالَ لَوْ اَنَّ لِیْ بِِکُمْ قُوَّۃً اَوْ اٰوِیْٓ اِلٰی رُکْنٍ شَدِیْدٍ ) ( ہود : ٨٠) ” لوط (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کاش میرے پاس طاقت ہوتی تو میں تمہارا مقابلہ کر تایا کسی مضبوط سہارے کی پناہ لے۔ “ حافظ ابن کثیر نے ١٢ آیت ٨١ کے حوالے سے تحریر فرمایا کہ جب فرشتے حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے تو وہ اپنے کھیتوں میں کام کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا آج رات ہم آپ کے پاس مہمان ہیں۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے وضع داری کی بنا پر انکار نہ کیا تاہم گھر جاتے ہوئے انہوں نے راستے میں اپنی مجبوری اور قوم کی بدکرداری کا اس انداز سے ذکر کیا کہ آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ فرمانے لگے ہائے افسوس میری قوم تمام مخلوق سے بد تر ہوچکی ہے۔ گھر پہنچے تو آپ کی بیوی نے آنکھیں بچاکر چھت پر کھڑے ہو کر کپڑا ہلایا جس سے اوباش لوگ دوڑتے ہوئے آئے اور لوط (علیہ السلام) کے گھر کا گھیراؤ کرلیا اور مہمانوں کی برآمدگی کا مطالبہ کرنے لگے بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ بدمعاش دروازہ توڑنے لگے۔ اس صورتحال میں لوط (علیہ السلام) پریشان ہو کر کہنے لگے۔ کاش آج میرے پاس قوت ہوتی یا کوئی سہارا ہوتا، جس کی پناہ حاصل کرتا۔ قرآن مجید کے سیاق وسباق سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ جب جناب لوط (علیہ السلام) کے پاس فرشتے آئے تو انہیں کچھ خبر نہیں تھی، کہ یہ فرشتے ہیں یا کہ عام مہمان ہیں جو لڑکوں کی شکل و صورت میں آئے ہیں ورنہ وہ کسی صورت میں یہ نہ کہتے کہ میرے مہمانوں میں مجھے ذلیل نہ کرو۔ میری بیٹیاں حاضر ہیں، گو اس جملے کے دو مفہوم بیان کیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ نبی بحیثیت باپ کے ہوتا ہے۔ اس منصب کے حوالے سے جناب لوط (علیہ السلام) نے قوم کی بیٹیوں کا ذکر کیا کہ جو تمہارے گھروں میں پہلے سے موجود ہیں وہ بھی تو میری بیٹیاں ہیں آخر تم جائز انداز میں اپنے جذبات کی تسکین کیوں نہیں کرتے ؟ اگر یہ مطلب لیا جائے کہ انہوں نے اپنی حقیقی بچیوں کے بارے میں یہ الفاظ کہے تھے تو اس کا معنی صرف اتنا ہی لینا چاہئے کہ انہوں نے انہیں انتہائی شرم دلانے کے لیے ایسے الفاظ استعمال فرمائے۔ جیسا کہ آج بھی معزز آدمی دو فریقوں میں صلح کرواتے وقت کہہ دیتا ہے کہ چھوڑو بھائی اگر اس نے تجھے مارا یا گالی دی تو تم مجھے مار لو یا گالی دے لو۔ لیکن معاملہ رفع دفع ہونا چاہیے بہرحال یہ بات محاورۃً کہی یا حقیقتاً فرمائی مقصد انہیں شرم دلانا تھا ورنہ معمولی غیرت رکھنے والا شخص اپنی بٹیوں کے بارے میں یہ بات نہیں کہتا جناب لوط (علیہ السلام) تو اللہ کے نبی تھے نبی تو سب سے زیادہ غیرت والا ہوتا ہے۔ لیکن بےشرم لوگ کہنے لگے کہ ہمیں عورتوں کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں۔ ہم جو کرنا چاہتے ہیں۔ تجھے اچھی طرح معلوم ہے۔ اندازہ لگائیں جناب لوط (علیہ السلام) کو کس قدر بےشرم اور بےحیا قوم کے ساتھ واسطہ پڑا تھا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا : (یَغْفِرُ اللّٰہُ لِلُوطٍ إِنْ کَانَ لَیَأْوِی إِلَی رُکْنٍ شَدِیدٍ ) (رواہ البخاری : باب ولوطا اذ قال لقومہ) ” اللہ “ لوط (علیہ السلام) پر معاف فرمائے کہ وہ رکن شدید کی پناہ کے طالب ہوئے۔ “ انہوں نے بےسہارا ہونے کی بات کہی حالانکہ ان کے پاس رب ذوالجلال کا زبردست سہارا تھا۔ فرشتوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو تسلی دی : ” تب فرشتوں نے لوط (علیہ السلام) کو کہا آپ گھبرائیں نہیں ہم تو آپ کے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ یہ لوگ آپ کی طرف نہیں بڑھ سکتے۔ بس آپ رات کے آخری حصے میں اپنے گھر والوں کو لے کر یہاں سے نکل جائیں اور آپ میں سے کوئی فرد پیچھے پلٹ کر نہ دیکھے۔ ہاں اپنی بیوی کو ساتھ نہ لے جائیں کیونکہ آپ کی بیوی کے ساتھ وہی کچھ ہونے والا ہے، جو آپ کی قوم کے ساتھ ہوگا بس ان کی تباہی کے لئے صبح کا وقت مقرر ہوچکا ہے۔ کیا صبح قریب نہیں ہے ؟ “ (ہود : ٨١) (فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْہَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ مَّنْضُوْدٍ مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ وَ مَا ہِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ ) (ھود : ٨٢، ٨٣) ” پھر جب ہم نے حکم نافذ کیا تو ہم نے اس بستی کو اوپر نیچے کردیا اور اس پر تابڑ توڑ پکی مٹی کے پتھر برسائے۔ تیرے رب کی طرف سے ہر پتھر پر نشان لگا ہوا تھا۔ ظالموں سے یہ سزا دور نہیں ہے۔ “ مزید تفصیل کے لیے سورة ہود کی آیت ٨٢، ٨٣ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

جب حضرت ابراہیم نے اپنے مہمانوں کی حقیقت معلوم کرلی تو وہ پوچھنے لگے کہ ان کا مشن کیا ہے۔ قال انا ارسلنا الی قوم مجرمین (١٥ : ١٣) ” انہوں نے کہا اے فرستادگان الٰہی آپ کو کیا مہم درپیش ہے۔ “ تو انہوں نے جواب دیا ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی ہلاکت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب یہ یقین کرلیا کہ یہ فرشتے ہیں اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں تو سوال فرمایا کہ آپ حضرات کیا مہم لے کر آئیں ہیں تشریف لانے کا کیا باعث ہے ؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوط (علیہ السلام) کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں یہ مجرم لوگ ہیں ہمیں ان کو ہلاک کرنا ہے ان کی ہلاکت کا یہ طریقہ ہوگا کہ ہم ان پر اسمان سے پتھر برسا دیں گے یہ پتھر مٹی سے بنائے ہوئے ہوں گے (جن کا ترجمہ (کھنکھر) کیا گیا ہے) ان پر نشان لگے ہوئے ہوں گے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ پتھروں پر نام لکھے ہوئے تھے جس پتھر پر جس کا نام لکھا ہوا تھا وہ اسی پر گرتا تھا یہ مسرفین یعنی حد سے گزر جانے والوں کے لیے تیار کیے گئے ہیں سورة العنکبوت میں ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے فرشتوں نے کہا ﴿ اِنَّا مُهْلِكُوْۤا اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ ١ۚ اِنَّ اَهْلَهَا كَانُوْا ظٰلِمِيْنَۚۖ٠٠٣١﴾ (بےشک ہم اس بستی کو ہلاک کرنے والے ہیں بلاشبہ اس بستی کے رہنے والے ظالم ہیں) جب فرشتوں نے بستی کا نام لیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) فکر مند ہوئے قال ان فیھا لوطا (کہ اس بستی میں تو لوط (علیہ السلام) بھی ہیں) فرشتوں نے جواب میں کہا ﴿نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَنْ فِيْهَا ﴾ (ہمیں ان لوگوں کا خوب پتہ ہے جو اس بستی میں ہیں) ﴿لَنُنَجِّيَنَّهٗ۠ وَ اَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهٗ ﴾ (ہم لوط کو اور اس کے گھر والوں کو نجات دے دیں گے سوائے اس کی بیوی کے) یہ سورة ٴ عنکبوت کا مضمون ہے اور یہاں سورة الذاریات میں ہے کہ فرشتوں نے کہا کہ ﴿ فَاَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيْهَا مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَۚ٠٠٣٥ ﴾ (اس بستی میں جو اہل ایمان ہیں ان کو ہم نے مجرمین سے علیحدہ کردیا ہے) یہ لوگ ہمارے علم میں ہیں جو تھوڑے ہی سے ہیں، جس گھر کا تذکرہ فرمایا ہے یہ گھر حضرت لوط (علیہ السلام) کا تھا جس میں ان کے آل و اولاد تھے جو مومن تھے ہاں ان کی بیوی مسلمان نہ ہوئی تھی، معالم التنزیل میں لکھا ہے یعنی لوطا وابنتیہ یعنی حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کی دو بیٹیاں تینوں افراد نجات پا گئے اور عذاب سے بچا لیے گئے۔ روح المعانی میں حضرت سعید بن جبیر سے نقل کیا ہے کہ اہل ایمان میں تیرہ افراد تھے اگر اس بات کو لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ باقی دس افراد حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر میں جمع ہوگئے تھے۔ فرشتے حضرت لوط (علیہ السلام) کی بستی میں پہنچے اور حضرت لوط (علیہ السلام) سے کہہ دیا کہ آپ اپنے گھر والوں کو لے کر رات کے کسی حصے میں بستی سے نکل جائیں اور تم میں سے کوئی شخص پیچھے مڑ کر نہ دیکھے اور اپنی بیوی کو ساتھ لے کر نہ جانا اسے بھی وہی عذاب پہنچنے والا ہے جو دوسرے مجرمین کو پہنچے گا۔ جب یہ حضرات رات کو بستی سے باہر نکل گئے تو سورج نکلتے وقت ان کی قوم کو ایک چیخ نے پکڑ لیا اور ان کا تختہ الٹ دیا گیا یعنی اوپر کا حصہ نیچے کردیا گیا اور ان پر کھنکھر کے پتھر برسا دیئے گئے یہ تینوں عذاب سورة الحجر میں مذکور ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ ” قال فما خطبکم “ اب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پوچھا اے اللہ کے فرستادو ! تم کس مہم پر جا رہے ہو ؟ ” قالوا انا ارسلنا الخ “ کہا ہمیں ایک مجرم قوم (قرم لو ط) کی طرف بھیجا گیا ہے۔ تاکہ ان حدود سے تجاوز کرنے والوں پر مٹی کی پختہ اینٹوں کی بارش برسائی جن پر ان کے نام لکھے ہوں اور اس طرح ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں۔ مسومۃ معلمۃ علی کل واحد منہا اسم من یھلک بہ (مظہری ج 9 ص 87) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(31) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اے خدا کے فرستادواب تمہارا کیا مقصد ہے اور تم کو کیا مہم درپیش ہے۔ یعنی جب بات کھل گئی تو ان سے دریافت کیا کہ اے خدا کے بھیجے گئے فرشتو ! اب تمہارا کیا کام ہے انہوں نے بتادیا کہ حضرت لوط کی قوم پر عذاب لے کر آئے ہیں اب وہیں جارہے ہیں تفصیل سورة ہود اور سورة حجر دیکھ لی جائے۔