Surat uz Zaariyaat

Surah: 51

Verse: 41

سورة الذاريات

وَ فِیۡ عَادٍ اِذۡ اَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمُ الرِّیۡحَ الۡعَقِیۡمَ ﴿ۚ۴۱﴾

And in 'Aad [was a sign], when We sent against them the barren wind.

اسی طرح عادیوں میں بھی ( ہماری طرف سے تنبیہ ہے ) جب کہ ہم نے ان پر خیر و برکت سے خالی آندھی بھیجی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And in `Ad when We sent against them the barren wind! that destroys everything and produces nothing. This was said by Ad-Dahhak, Qatadah and others. Allah's statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41۔ 1 ای ترکنا فی قصۃ عاد آیۃ عاد کے قصے میں بھی ہم نے نشانی چھوڑی۔ 41۔ 2 الریح العقیم (بانجھ ہوا) جس میں خیر و برکت نہیں تھی، وہ ہوا درختوں کو ثمر آور کرنے والی تھی نہ بارش کی پیامبر، بلکہ صرف ہلاکت اور عذاب کی ہوا تھی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٥] قوم عاد پر تباہ کُن ہوا :۔ (رِیْحَ الْعَقِیْمِ ) لفظی معنی بانجھ ہوا۔ یعنی ایسی ہوا جو ہر طرح کی خیرو برکت سے خالی ہو۔ اور اس میں سراسر نقصان ہی نقصان ہو۔ بعض ہوائیں راحت پہنچانے والی، بعض خوشبو سے دماغ کو معطر کردینے والی، بعض بارش کی خوشخبری لانے والی، بعض بادل اٹھانے والی اور بعض نر درختوں کا تخم اٹھانے والی ہوتی ہیں۔ ان سب میں کوئی نہ کوئی خیر و برکت کا پہلو ہوتا ہے مگر جو ہوا قوم عام پر چھوڑی گئی وہ ہر طرح کی خیر وبرکت سے خالی اور بانجھ تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(وفی عاد اذ ارسلنا علیھم الریح العقیم : یعنی قوم عاد میں بھی ہم نے ایک نشانی اور بڑی عبرت چھوڑی۔ ” العقیم “ وہ رحم یا عورت جس سے بچہ پیدا نہ ہو، ایسے مرد کو بھی ” عقیم “ کہتے ہیں، پھر ہر اس چیز کو بھی جو خیرو برکت سے خالی ہو۔ قوم عاد پر جو آندھی مسلط کی گئی وہ بھی ہر خیر و برکت سے خالی اور سراسر بربادی اور تباہی تھی، اس لئے اسے ” العقیم “ فرمایا۔ اس کی تفصیل کیلئے دیکھیے سورة حاقہ (٦ تا ٨) ، قمر (١٩، ٢٠) اور سورة احقاف (٢٤، ٢٥) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَفِيْ عَادٍ اِذْ اَرْسَلْنَا عَلَيْہِمُ الرِّيْحَ الْعَقِيْمَ۝ ٤١ ۚ رسل ( ارسال) والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] ( ر س ل ) الرسل الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔ الرِّيحُ معروف، وهي فيما قيل الهواء المتحرّك . وعامّة المواضع الّتي ذکر اللہ تعالیٰ فيها إرسال الرّيح بلفظ الواحد فعبارة عن العذاب، وكلّ موضع ذکر فيه بلفظ الجمع فعبارة عن الرّحمة، فمن الرِّيحِ : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر/ 19] ، فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب/ 9] ، مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران/ 117] ، اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم/ 18] . وقال في الجمع : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر/ 22] ، أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم/ 46] ، يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف/ 57] . وأمّا قوله : يرسل الرّيح فتثیر سحابا «3» فالأظهر فيه الرّحمة، وقرئ بلفظ الجمع «4» ، وهو أصحّ. وقد يستعار الرّيح للغلبة في قوله : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال/ 46] ، وقیل : أَرْوَحَ الماءُ : تغيّرت ريحه، واختصّ ذلک بالنّتن . ورِيحَ الغدیرُ يَرَاحُ : أصابته الرِّيحُ ، وأَرَاحُوا : دخلوا في الرَّوَاحِ ، ودهن مُرَوَّحٌ: مطيّب الرّيح . وروي :«لم يَرَحْ رَائِحَةَ الجنّة» «5» أي : لم يجد ريحها، والمَرْوَحَةُ : مهبّ الرّيح، والمِرْوَحَةُ : الآلة التي بها تستجلب الرّيح، والرَّائِحَةُ : تَرَوُّحُ هواء . ورَاحَ فلان إلى أهله إمّا أنه أتاهم في السّرعة کالرّيح، أو أنّه استفاد برجوعه إليهم روحا من المسرّة . والرَّاحةُ من الرَّوْح، ويقال : افعل ذلک في سراح ورَوَاحٍ ، أي : سهولة . والمُرَاوَحَةُ في العمل : أن يعمل هذا مرّة، وذلک مرّة، واستعیر الرَّوَاحُ للوقت الذي يراح الإنسان فيه من نصف النّهار، ومنه قيل : أَرَحْنَا إبلَنا، وأَرَحْتُ إليه حقّه مستعار من : أرحت الإبل، والْمُرَاحُ : حيث تُرَاحُ الإبل، وتَرَوَّحَ الشجر ورَاحَ يَراحُ : تفطّر . وتصوّر من الرّوح السّعة، فقیل : قصعة رَوْحَاءُ ، وقوله : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف/ 87] ، أي : من فرجه ورحمته، وذلک بعض الرّوح . الریح کے معنی معروف ہیں ۔ یعنی ہوا متحرک کو کہتے ہیں عام طور پر جن مواضع میں ( رسال الریح صیغہ مفرد کے ساتھ مذکور ہے وہاں عذاب مراد ہے اور جہاں کہیں لفظ جمع کے ساتھ مذکور ہے وہاں رحمت مراد ہے ۔ چناچہ ریح کے متعلق فرمایا : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر/ 19] ہم نے ان پر ایک زنانے کی اندھی چلائی ۔ فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب/ 9] تو ہم نے ان پر آندھی چلائی ۔ مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران/ 117] مثال اس ہوا کی ہے ۔ جس میں بڑی ٹھر بھی ہوا۔ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم/ 18] اس کو سخت ہوا لے اڑی ۔ اور ریاح ( جمع کا لفظ ) کے متعلق فرمایا : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر/ 22] اور ہم ہی ہوا کو چلاتے ہیں جو بادلوں کو پانی بار وار کرتی ہے ۔ أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم/ 46] کہ وہ ہواؤں کو اس غرض سے بھیجتا ہے کہ لوگوں کو بارش کی خوشخبری پہنچائیں ۔ يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف/ 57] باران رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو بھیجتا ہے تاکہ لوگوں کو مینہ کی آمد کی خوشخبری پہنچادیں ۔ اور آیت ير سل الرّيح فتثیر سحابا «3»اور وہ قادرمطلق ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ ہوائیں بادلوں کو ان کی جگہ سے ابھارتی ہے ۔ میں بھی چونکہ معنی رحمت اغلب ہے اس لئے یہاں لفظ جمع کی قرات زیادہ صحیح ہے ۔ کبھی مجازا ریح بمعنی غلبہ بھی آجاتا ہے چناچہ فرمایا : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال/ 46] اور تمہاری وہوا اکھڑ جائے گی ۔ محاورہ : اروح الماء پانی متغیر ہوگیا خاص کر بدبو دار ہونے کے وقت بولتے ہیں ۔ ریح الغد یرییراح جوہڑ پر ہوا کا چلنا ۔ اور اراحوا کے معنی رواح یعنی شام کے وقت میں داخل ہونے کے ہیں اور خشبودار تیل کو دھن مروح کہا جاتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ( 163) لم یرح راحئتہ الجنتہ کہ وہ جنت کی کو شبوتک نہیں پائے گا ۔ المروحبتہ ہوا چلنے کی سمت المروحتہ ( آلہ ) پنکھا ۔ الرئحتہ مہکنے والی خوشبو ۔ محاورہ ہے ۔ راح فلان الیٰ اھلہ ( 1) فلاں اپنئ اہل کیطرف ہوا کی طرح تیزی کے ساتھ گیا ۔ ۔ ( 2) اس نے اپنے اہل و عیال میں پہنچ کر راحت حاصل کی ۔ الرحتہ آرام ۔ یہ بھی روح سے موخوذ ہے ۔ مشہور محاورہ ہے ۔ افعل ذالک فی مراح وراح کہ آرام سے یہ کام کرو ۔ المراوحتہ کے معنی ہیں دو کاموں کو باری باری کرنا ۔ اور استعارہ کے طور پر رواح سے دوپہر کو آرام کا وقت مراد لیا جاتا ہے اور اسی سے کہا جاتا ہے ۔ ارحنا ابلنا کہ ہم نے اونٹوں کو آرام دیا ( یعنی بازہ میں لے آئے ) اور پھر ارحت الابل سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ کہ میں نے اس کا حق واپس لوٹا دیا اور مراح باڑے کو کہا جاتا ہے اور تروح الشجرہ وراح یراح کے معنی درخت کے شکوفہ دار ہونے اور نئے پتے نکالنے کے ہیں اور کبھی روح سے وسعت اور فراخی کے معنی بھی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ کہا جاتا ہے ۔ قصعتہ روحاء فراخ پیالہ اور آیت کریمہ : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف/ 87] اور خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ ۔ میں بھی وسعت رحمت مراد ہے جو لفظ روح سے مفہوم ہوتی ہے ۔ عقم أصل الْعُقْمِ : الیبس المانع من قبول الأثر «3» يقال : عَقُمَتْ مفاصله، وداء عُقَامٌ: لا يقبل البرء، والعَقِيمُ من النّساء : التي لا تقبل ماء الفحل . يقال : عَقِمَتِ المرأة والرّحم . قال تعالی: فَصَكَّتْ وَجْهَها وَقالَتْ عَجُوزٌ عَقِيمٌ [ الذاریات/ 29] ، وریح عَقِيمٌ: يصحّ أن يكون بمعنی الفاعل، وهي التي لا تلقح سحابا ولا شجرا، ويصحّ أن يكون بمعنی المفعول کالعجوز العَقِيمِ «4» وهي التي لا تقبل أثر الخیر، وإذا لم تقبل ولم تتأثّر لم تعط ولم تؤثّر، قال تعالی: إِذْ أَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الرِّيحَ الْعَقِيمَ [ الذاریات/ 41] ، ويوم عَقِيمٌ: لا فرح فيه . ( ع ق م ) العقم اصل میں اس خشکی کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا اثر قبول کرنے سے مانع ہو چناچہ محاورہ ہے عقمت مفاصلتہ ( اس کے جوڑ بند خشک ہوگئے ) داء عقام لا علاج مرض ۔ العقیم ( بانجھ ) عورت کو مرد کا مادہ قبول نہ کرے چناچہ کہا جاتا ہے ۔ عقمت المرءۃ اولرحم عورت بانجھ ہوگئی یا رحم خشک ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : فَصَكَّتْ وَجْهَها وَقالَتْ عَجُوزٌ عَقِيمٌ [ الذاریات/ 29] اور اپنا منہ لپیٹ کر کہنے لگی کہ ( اے ہے ایک تو بڑھیادوسرے ) بانجھ ۔ اور ریح عقیم ( خشک ہوا ) میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فعیل بمعنی فاعل ہو ۔ یعنی وہ ہوا جو بادلوں کو ساتھ نہیں لاتی یا درخت کو بار دار نہیں اور یہ بھی ہو ہوسکتا ہے کہ فعیل بمعنی مفعول ہو جیسا کہ العجوز العقیم میں ہے اس صورت میں ریح عقیم کے معنی ہوں گے وہ ہوا جو کسی چیز کا اثر اپنے اندر نہ رکھتی ہو چونکہ ایسی ہوا نہ کسی چیز اثر کو قبول کرتی ہے اور نہ کسی سے متاثر ہوتی ہے اس لئے نہ وہ کچھ دیتی اور نہ ہی کسی چیز پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ أَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الرِّيحَ الْعَقِيمَ [ الذاریات/ 41] جب ہم نے ان پر خشک ہو اچلائی ۔ یوم عقیم سخت دن جس میں کسی قسم کا سامان فرحت نہ ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤١۔ ٤٢) اور قوم ہود کے واقعہ بھی عبرت ہے جبکہ ہم نے ان پر سخت ترین نامراد آندھی بھیجی کہ اس سے چھٹکارے کی کوئی صورت ہی نہ تھی جس چیز پر وہ گزرتی تھی اس کو ایسا کر چھوڑتی تھی جیسے کوئی چیز مٹی کی طرح ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤١{ وَفِیْ عَادٍ اِذْ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِمُ الرِّیْحَ الْعَقِیْمَ ۔ } ” اور قوم عاد میں بھی (نشانی ہے) جب ہم نے ان پر ایک ایسی ہوا چھوڑ دی تھی جوہر خیر سے خالی تھی۔ “ عَقِیْم کے معنی بانجھ کے ہیں ‘ یعنی ایسا مرد یا ایسی عورت جس کے اولاد پیدا نہ ہوتی ہو۔ قبل ازیں آیت ٢٩ میں یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے ۔ اس مفہوم میں اَلرِّیْحَ الْعَقِیْمَ سے مراد ایسی ہوا ہے جو ہر قسم کی خیر سے خالی تھی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

14: یعنی وہ عذاب کی آندھی تھی، اس لیے ہواؤں میں عام طور سے جو فائدے ہوا کرتے ہیں، وہ اس میں نہیں تھے۔ قوم عاد کا تعارف سورۃ اعراف : 65 میں اور قوم ثمود کا تعارف سورۃ اعراف : 73 میں گذر چکا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(51:41) وفی عاد : اس کا عطف بھی وترکنا فیہا پر ہے ای و ترکنا فی ہلکۃ قوم عاد ایۃ : یعنی قوم عاد کی ہلاکت و تباہی میں بھی ہم نے (اپنی قدرت کی) ایک نشانی چھوڑی۔ الریح العقیم : موصوف وصفت مل کر ارسلنا کا مفعول ۔ وہ آندھی جو خیر و برکت سے خالی ہو نہ تو بادلوں کو اڑا کر لائے اور نہ درختوں کو بار آور کرے : نہ اس میں رحمت کا کوئی شائبہ ہو۔ وہی التی لاتلقح سحابا ولا شجراً ولارحمۃ فیہا ولابرکۃ ولا منفعۃ۔ (قرطبی) نیز ملاحظہ ہو 51:29 ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : فرعون کے انجام کے بعد قوم عاد کا حشر۔ حضرت ھود (علیہ السلام) کا تعلق عرب کے عاد قبیلے سے تھا جس کی رہائش موجودہ جغرافیے کے مطابق عمان اور یمن کے علاقے حضرموت کے درمیان تھی۔ یہ علاقہ سمندر کے کنارے پر واقع تھا۔ یہاں ریت کے بڑے بڑے ٹیلے اور بلند وبالا پہاڑ تھے۔ اس کے رہنے والے جسمانی اعتبار سے دراز قامت، کڑیل جوان اور قوی ہیکل لوگ تھے۔ دنیا میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہوا۔ انھوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کر خوبصورت محلات تعمیر کر رکھے تھے۔ ان کی سرزمین نہایت سر سبزتھی جس میں ہر قسم کے باغات آراستہ تھے انھیں قرآن مجید میں ” احقاف والے “ کہا گیا ہے۔ احقاف ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں کو کہا جاتا ہے جو عرب کے جنوب مغربی حصہ میں واقع تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی علاقہ میں حضرت ہود (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا جو خوش اندام، کڑیل جوان اور بہترین صورت و سیرت کے حامل تھے۔ قوم عاد کی خصوصیات اور جرائم : ١۔ اللہ تعالیٰ نے عاد کو قوم نوح کے بعد زمین پر اقتدار اور اختیار بخشا۔ (الاعراف : ٦٩) ٢۔ قوم عاد اس قدر کڑیل اور قوی ہیکل جوان تھے کہ ان جیسا دنیا میں کوئی اور پیدا نہیں کیا گیا۔ (الفجر ٦ تا ٨ ) ٣۔ انھیں افرادی قوت اور مویشیوں سے نوازا گیا۔ (الشعراء : ١٣٣) ٤۔ یہ قوم بڑے بڑے محلات میں رہتی تھی۔ کھیتی باڑی اور باغات میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ (الشعراء ١٢٩ تا ١٣٣) ٥۔ یہ لوگ آخرت کو جھٹلانے والے اور دنیا پر اترانے والے تھے۔ (المؤمنون : ٣٣) ٦۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس دنیا کے سوا اور کوئی جہاں برپا نہیں ہوگا۔ (المؤمنون : ٣٧) ٧۔ یہ اپنی قوت پر اترانے والے تھے۔ (حٰآالسجدۃ : ١٥) ٨۔ انھوں نے خود ساختہ معبود بنا رکھے تھے ان کے سامنے جھکتے، نذرو نیاز اور اپنی حاجات پیش کرتے تھے۔ (الاعراف : ٧٠) حضرت ھود (علیہ السلام) نے انہیں سمجھایا کہ صرف ایک ” اللہ “ کی عبادت کرو اور کمزوروں پر ظلم کرنے سے باز آجاؤ۔ اے میری قوم ! میں اس کام کے بدلے تم سے کسی قسم کی ستائش اور صلہ نہیں چاہتا۔ میرا صلہ اس ذات کبریا کے پاس ہے۔ جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ میری مخالفت کرنے کی بجائے ٹھنڈے دل کے ساتھ سوچو ! کہ اس دعوت میں میرا کیا مفاد اور تمہارا نقصان کیا ہے ؟ میں تم کو لوگوں پر ظلم کرنے اور غیر اللہ کی عبادت کرنے سے روکتا ہوں۔ جن کو تم بلاتے اور پکارتے ہو۔ کیونکہ یہ اللہ کے سوا کچھ اختیار نہیں رکھتے۔ جو تم ان کے بارے میں دعوے کرتے ہو اس کی کوئی بنیاد نہیں یہ سراسر جھوٹ اور بناوٹی باتیں ہیں۔ کیا تم سوچنے کے لیے تیار ہو ؟ ” قوم عاد ایک شدید آندھی سے تباہ کردی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو مسلسل سات رات اور آٹھ دن ان پر مسلط کیے رکھا آپ وہاں ہوتے تو دیکھتے کہ وہ وہاں اس طرح بکھرے پڑے ہیں جیسے وہ کھجور کے بوسیدہ تنے ہوں۔ “ (الحاقہ : ٦، ٧) قوم کا جواب : ١۔ قوم نے حضرت ھود کو بیوقوف قرار دیا۔ (الاعراف : ٦٦) ٢۔ قوم نے کہا کہ ھود (علیہ السلام) ہماری طرح ہی طرح کھانے، پینے والا انسان ہے۔ (المؤمنون : ٣٣) ٣۔ انھوں نے کہا اے ھود تو اللہ پر جھوٹ بناتا ہے۔ (المؤمنون : ٣٨) ٤۔ تیرے کہنے پر ہم اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑ سکتے یہ محض پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ (الشعراء : ١٣٧) ٥۔ تم ہمیں سمجھاؤ یا نہ سمجھاؤ ہم نہیں مانیں گے۔ (شعراء : ١٣٦) ٦۔ ہمارے معبودوں کی تجھے بد دعا لگ گئی ہے۔ (ھود : ٥٤) ٧۔ ہم پر کوئی عذاب آنے والا نہیں تو جھوٹ بولتا ہے۔ (الشعراء : ١٣٨ تا ١٣٩) ٨۔ اگر تو اپنے دعوے میں سچا ہے تو ہم پر عذاب لے آو۔ (الاحقاف : ٢٢) تفسیر بالقرآن قوم عاد کا انجام : ١۔ اللہ تعالیٰ نے عذاب سے حضرت ھود اور ایمانداروں کو محفوظ رکھا۔ (ھود : ٥٨) ٢۔ سات راتیں اور آٹھ دن زبردست آندھی اور ہوا کے بگولے چلے۔ (الحاقہ : ٧) ٣۔ گرج چمک اور بادو باراں کا طوفان آیا۔ (الاحقاف : ٢٤) ٤۔ انھیں ریزہ ریزہ کردیا گیا۔ (الذاریات : ٤١۔ ٤٢) ٥۔ آندھی نے انھیں کھجور کے تنوں کی طرح پٹخ پٹخ کر دے مارا۔ (الحاقہ : ٧) ٦۔ قوم ھود کو نیست و نابود کردیا گیا۔ (الاعراف : ٧٢) ٧۔ دنیا اور آخرت میں ان پر پھٹکار برستی رہے گی۔ (حٰم السجدۃ : ١٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اور پھر ایک دوسری تاریخی نشانی قوم عاد پر ایک نظر : وفی عاد ........ العقیم (١٤) ما تذر ........ کالرمیم (١٥ : ٢٤) ” اور (تمہارے لئے نشانی ہے) عاد میں ، جبکہ ہم نے ان پر ایک ایسی بےخیر ہوا بھیج دی کہ جس چیز پر بھی وہ گزر گئی اسے بوسیدہ کرکے رکھ دیا۔ “ اور قوم عاد پر جو ہوا بھیجی گئی اسے یہاں عقیم (بانجھ) کہا گیا ہے ۔ یہ اس لئے کہ اس ہوا میں نہ پانی تھا نہ خیر کی کوئی چیز جو سبب حیات ہو جیسا کہ اس ہوا سے قوم عاد توقع کرتی تھی۔ اس کے برعکس اس میں تباہی اور ہلاکت ہی تھی۔ یہ ہوا جس چیز کو بھی لگتی اسے مردہ کردیتی تھی۔ اس طرح جس طرح کوئی مردہ بوسیدہ ہوکر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ہے۔ ہوا ان کائناتی قوتوں میں سے ایک قوت ہے اور یہ اللہ کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہے اور اللہ کے لشکروں کو اللہ ہی جانتا ہے۔ ان لشکروں کو اللہ اپنی مشیت اور ناموس کے دائرے کے اندر بھیجتا ہے اور ان لشکروں کے کام کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ یہ لشکر جس پر جاتے ہیں اللہ کے ارادے سے اس کے مقرر وقت پر جاتے ہیں کسی کو ہلاک وتباہ کردیتے ہیں اور کسی کو زندہ وتابندہ کردیتے ہیں لہٰذا ایسے مقامات پر کسی کو ان سطحی اور سادہ اعتراضات کا کوئی حق نہیں ہے کہ ہوا تو کائناتی نظام کے مطابق چلتی ہے اور یہ ادھر اور ادھر طبیعاتی عوامل واسباب کے مطابق چلتی ہے ہم کہتے ہیں کہ یہ طبعی نظام اور کائناتی عوامل بھی خالق ہی چلاتا ہے وہ اپنی تدبیر اور تقدیر کے ساتھ کسی کو تباہ اور کسی کو زندہ کردیتا ہے۔ یہ عوامل اس نے پیدا کئے اور اسباب اسی کے ہیں اور طبعیاتی اصول اسی نے وضع کئے ہیں اور انہیں کے ساتھ وہ ان عوامل کو کسی پر مسلط کرتا ہے ، اگر کوئی خالق کائنات کو مانتا ہے تو پھر ایسے اعتراضات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ ” وفی عاد “ یہ تخویف دنیوی کا تیسرا نمونہ ہے اور معطوف علیہ سابق پر معطوف ہے۔ قوم عاد کی ہلاکت کو بھی ہم نے عبرت کا نشان بنادیا جب کہ ہم نے ان پر ایک ہوا مسلط کی جو ہر قسم کی خیر و برکت اور ہر نوع نفع سے خالی تھی اور تند وتیز اس غضب کی کہ جس چیز پر اس کا گذر ہوگیا اسے چورہ کر کے رکھ دیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(41) اور عاد کے واقعہ میں بھی عبرت اور سبق آموز نشانی ہے جب ہم نے ایک نامبارک اور بےمنفعت ہوا بھیجی۔