Surat uz Zaariyaat

Surah: 51

Verse: 45

سورة الذاريات

فَمَا اسۡتَطَاعُوۡا مِنۡ قِیَامٍ وَّ مَا کَانُوۡا مُنۡتَصِرِیۡنَ ﴿ۙ۴۵﴾

And they were unable to arise, nor could they defend themselves.

پس نہ تو وہ کھڑے ہو سکے اور نہ بدلہ لے سکے

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَمَا اسْتَطَاعُوا مِن قِيَامٍ ... Then they were unable to rise up, they were unable to escape and run away from it, ... وَمَا كَانُوا مُنتَصِرِينَ nor could they help themselves. nor could they save themselves from the torment that befell them. Allah the Exalted and Most Honored said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

45۔ 1 چہ جائیکہ وہ بھاگ سکیں۔ 45۔ 2 یعنی اللہ کے عذاب سے اپنے آپ کو نہیں بچا سکے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٩] انتصر کے دو مفہوم :۔ یعنی عذاب سے دہشت کا یہ عالم تھا کہ جو بیٹھا تھا اس کو اٹھ کر کھڑا ہونے کی بھی ہمت نہیں پڑتی تھی۔ کہیں جاکر عذاب سے پناہ لینا تو دور کی بات ہے۔ انتصار کا لفظ دو معنوں میں آتا ہے۔ ایک یہ کہ اگر کوئی حملہ کرے تو اس سے اپنا بچاؤ کرنا اور دوسرا یہ کہ جو حملہ کرے اس سے بدلہ لے لینا۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ یہ قوم بڑے مضبوط جسم والی بڑے ڈیل ڈول والی، اپنی طاقت اور قوت پر فخر و ناز کرنے والی تھی اور ڈھینگیں مارنے والی تھی۔ پھر جب ان پر ہمارا عذاب نازل ہوا تو یہ بدلہ تو نہ لے سکی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(فما استطاعوا من قیام…:” منتصرین “” انتصار “ کے لفظ میں اپنے آپ کو کسی سے بچانے کا مفہوم بھی شامل ہے اور بدلا لینے کا بھی۔ یعنی جب وہ عذاب کے تھپیڑے سے زمین پر گرے تو پھر نہ کسی طرح اٹھ سکے اور نہ اس سے بچاؤ کرسکے، بدلا لینا تو بہت دور کی بات ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَمَا اسْتَطَاعُوْا مِنْ قِيَامٍ وَّمَا كَانُوْا مُنْتَصِرِيْنَ۝ ٤٥ ۙ الاستطاعۃ . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] ( ط و ع ) الطوع الاستطاعۃ ( استفعال ) یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ انْتِصَارُ والاسْتِنْصَارُ وَالانْتِصَارُ والاسْتِنْصَارُ : طلب النُّصْرَة وَالَّذِينَ إِذا أَصابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ [ الشوری/ 39] ، وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ [ الأنفال/ 72] ، وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ [ الشوری/ 41] ، فَدَعا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ [ القمر/ 10] وإنما قال :«فَانْتَصِرْ» ولم يقل : انْصُرْ تنبيهاً أنّ ما يلحقني يلحقک من حيث إنّي جئتهم بأمرك، فإذا نَصَرْتَنِي فقد انْتَصَرْتَ لنفسک، وَالتَّنَاصُرُ : التَّعاوُن . قال تعالی: ما لَكُمْ لا تَناصَرُونَ [ الصافات/ 25] لا نتصار والانتنصار کے منعی طلب نصرت کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ إِذا أَصابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ [ الشوری/ 39] اور جو ایسے ہیں کہ جب ان پر ظلم وتعدی ہو تو مناسب طریقے سے بدلہ لیتے ہیں ۔ وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ [ الأنفال/ 72] اور اگر وہ تم سے دین کے معاملات میں مدد طلب کریں تو تم کو مدد کرتی لا زم ہے ۔ وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ [ الشوری/ 41] اور جس پر ظلم ہوا ہو وہ اگر اس کے بعد انتقام لے ۔ فَدَعا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ [ القمر/ 10] تو انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ ( بار الہ میں ان کے مقابلے میں کمزور ہوں ان سے ) بدلہ لے ۔ میں انصر کی بجائے انتصر کہنے سے بات پر متنبہ کیا ہے کہ جو تکلیف مجھے پہنچ رہی ہے وہ گویا تجھے ذات باری تعالیٰ پہنچ رہی ہے وہ گویا تجھے ( ذات باری تعا لی پہنچ رہی ہے کیو ن کہ میں تیرے حکم سے ان کے پاس گیا تھا لہذا میری مدد فر مانا گو یا یا تیرا اپنی ذات کے لئے انتقام لینا ہے ۔ لتنا صر کے معنی باہم تعاون کرنے کے ہیں ۔ چنا نچہ قرآن میں ہے : ما لَكُمْ لا تَناصَرُونَ [ الصافات/ 25] تم کو کیا ہوا کہ ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٥۔ ٤٦) سو وہ عذاب کے سامنے نہ تو کھڑے ہی ہوسکے اور نہ وہ خود سے عذاب خداوندی کو ہٹا سکے۔ اور قوم صالح سے پہلے ہی ہم قوم نوح کو ہلاک کرچکے تھے کیونکہ وہ کافر تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٥{ فَمَا اسْتَطَاعُوْا مِنْ قِیَامٍ وَّمَا کَانُوْا مُنْتَصِرِیْنَ ۔ } ” تو نہ ان میں کھڑے ہونے کی سکت رہی اور نہ ہی اس قابل رہے کہ بدلہ لیتے۔ “ یعنی نہ تو وہ اٹھ ہی سکے اور نہ اپنا بچائو ہی کرسکے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

42 Intisar from which the word muntasirun in the original is derived means to save oneself from an attack by somebody as well as to avenge oneself on the attacker.

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :42 اصل الفاظ ہیں مَا کَانُوْا مُنْتَصِرِیْنَ ۔ انتصار کا لفظ عربی زبان میں دو معنوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس کے ایک معنی ہیں اپنے آپ کو کسی کے حملہ سے بچانا ۔ اور دوسرے معنی ہیں حملہ کرنے والے سے بدلہ لینا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(51:45) فما استطاعوا من قیام : ف عاطفہ۔ استطاعوا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ استطاعۃ (استفعال) مصدر۔ وہ نہ کرسکے۔ ان سے نہ ہوسکا۔ ان چیزوں کا بتمام و کمال پایا جانا جن کی وجہ سے فعل سرزد ہوسکے استطاعت کہاتا ہے۔ فما استطاعوا من قیام۔ پھر وہ نہ تو اٹھنے کی طاقت رکھتے تھے۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے لایستطیعون نصر انفسھم (21:43) وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ یا اور جگہ فرمایا :۔ من استطاع الیہ سبیلا (3:97) جو اس گھر تک جانے کی استطاعت رکھے۔ طور مادہ۔ طوع کی ضد کرہ ہے جس کو فعل مکمل کرنے کے اسباب مہیا ہوں اس کو مستطیع کہیں گے۔ اس کی ضد عاجز ہے یعنی جس کو تمام اسباب میں سے چند مہیا ہوں اور چند مہیا نہ ہوں۔ وما کانوا منتصرین : واؤ عاطفہ، ما نافیہ۔ کانوا فعل ناقص مستنصرین خبر کانوا کی : اور نہ (ہم سے) انتقام لے سکے یا مقابلہ کرسکے یا اپنی مدد کرسکے۔ منتصرین۔ اسم فاعل، جمع مذکر۔ انتصار (افتعال) مصدر۔ اس کے دو معنی ہیں :۔ (1) انتصر من عدوہ ای انتقم من عدوہ۔ اس نے اپنے دشمن سے بدلہ لے لیا۔ یعنی انتقال لے لیا۔ (2) انتصر علی خصمہ استظھر۔ وہ اپنے حلیف پر غالب آیا۔ اس پر قابو پالیا۔ پہلی صورت میں آیت کا مطلب ہوگا۔ کہ ہم نے ان پر اپنا عذاب مسلط کیا اور وہ لوگ جنہیں اپنی طاقت کا بڑا گھمنڈ تھا۔ ان میں سکت نہ رہی کہ وہ ہم سے انتقام نہ لے سکے۔ دوسری صورت میں معنی ہوگا :۔ کہ وہ ہم پر گا لب نہ ہوسکے اور اپنی قوت سے ہمارے بھیجے ہوئے عذاب کا ٹال نہ سکے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 لفظ ” انتصار “ ‘ میں اپنے آپکو کسی سے بچانے کا مفہوم بھی ہوتا ہے اور اس سے بدلہ لینے کا بھی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٤٥ تا ٦٠۔ اسرار ومعارف۔ اور ہم نے آسمانوں کو اپنے دست قدرت سے بنایا یعنی اس میں کا ہر وصف ہمارا عطا کیا ہوا ہے اور ہم نے زمین کو انسانوں کے رہنے بسنے کے لیے تیار کردیا اور ہم نے کس قدر کمالات اور اوصاف اس میں سمودیے کہ ہر انسانی ضرورت کا خزانہ بنی ہوئی ہے پھر بقائے نسل کا نظام اس کی باریکیاں ہر شے کے جوڑے جوڑے نرومادہ کے مختلف اوصاف اور ان سے نسلوں کا بڑھنایہ سب باتیں اے انسان تمہارے لیے ہیں کہ تم نصیحت حاصل کرو اور عظمت باری کا اعتراف کرو۔ بھاگو نافرمانی شیطان اور نفس کے فریبوں سے اللہ کی طرف کہ میں اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں نافرمانی کے نتائج بد سے واضح طور پر آگاہ کررہا ہوں اور بروقت کررہا ہوں اور کبھی بھی اللہ کے ساتھ کسی کو معبود بناؤ یہ سارا کچھ اس کی وحدانیت پر گواہ ہے اور میں اسی کی طرف سے مبعوث ہو کر تمہیں شرک کی برائی سے مطلع کررہا ہوں اسی طرح جس طرح پہلے لوگوں کے پاس اللہ کے رسول آئے تو بدبختوں نے انہیں کبھی جادوگر کہا اور کبھی پاگل پن کا الزام دیا اور آج کے کافروں کارویہ بھی ایسا ہے جیسے پہلے کافرا نہیں وصیت کرمرے ہوں کہ یہ جواب دینا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے وصیت نہیں کی یہ بھی ان ہی گناہوں میں مبتلا ہیں اور ویسے ہی سرکش ہیں جیسے وہ تھے تو ان کے کلام میں بھی مطابقت ہے آپ ان کی پرواہ مت کیجئے آپ نے اللہ کا دین ان تک پہنچادیا اور آپ نصیحت فرماتے رہیے کہ آپ کا فرض منصبی صرف اتنا ہے ان کے قبول نہ کرنے کا الزام خود ان پر ہے کہ نصیحت سے فائدہ تو یقینا ایمان قبول کرنے والوں کو اور ان کو ہوگا ، پہلے سے ایمان پر ہیں منکر اور کافر پہ تو حجت ہی تمام ہوگی کہ ہم نے جنات اور انسانوں کو اپنی عظمت کا اقرار کرکے اپنی اطاعت کے لیے پیدا فرمایا ہے یعنی ان کا مقصد تخلیق یہ ہے اور سب کو اس کی فطری استعداد عطا کی گئی ہے مگر تکوینی طور پر اور مجبورا نہیں بلکہ اس استعداد کے ساتھ انہیں آزادی ہے کہ اس کی قو ت کو استعمال کرتے ہیں یا نہیں ورنہ اللہ کو ان سے کام میں مدد حاصل کرنے کی احتیاج نہیں کہ جس طرح کسی آقا کو غلاموں سے کمائی کا محتاج نہیں اور ہر شے ہر بات میں اس کی محتاج ہے ۔ اس کے باوجود بھی جو لوگ کفر اختیار کرتے ہیں تو پہلے کافروں کی طرح وہ بھی اپنی باری پہ اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے۔ اس میں بیشک جلدی نہ کریں کہ ان کا انجام کوئی اچھا نہ ہوگا بلکہ تباہی اور حسرت ہوگی کافروں کو اس روز جس کا وعدہ کیا گیا ہے یعنی روز قیامت کو۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وقوم ........ فسقین (١٥ : ٦٤) ” اور ان سب سے پہلے ہم نے نوح کی قوم کو ہلاک کیا کیونکہ وہ فاسق لوگ تھے۔ “ یہ قصہ نوح کی طرف نہایت ہی سرسری اشارہ ہے۔ بغیر تفصیلات کے اور بغیر اضافوں کے کہ ذرا قوم نوح کو بھی یاد کرلو ، جہاں قوم نوح کے قصے میں (فی نوح) کی بجائے (قوم نوح) کے الفاظ آئے ہیں اصل عبارت یوں ہے۔ اذکرقوم نوح کہ قوم نوح کا تذکرہ بھی کردے اور اس کے بعد آیات کا آغاز ہوتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(45) کہ نہ تو وہ اٹھ ہی سکے نہ کھڑے ہی ہوسکے اور نہ وہ عذاب الٰہی کو ہی روک سکے۔ یعنی جہاں بیٹھے تھے بیٹھے کے بیٹھے رہ گئے اور ہولناک چیخ سے سب کے سب مرگئے۔ وماکانوا منتصرین کے معنی ہم سے بدلہ نہ لے سکے مقابلہ نہ کرسکے۔ یا ممتنعین منا ہمارے عذاب کو نہ روک سکے غرض کئی معنی ہوسکتے ہیں ہم نے ترجمے اور تیسیر میں فرق کردیا ہے۔