Surat uz Zaariyaat

Surah: 51

Verse: 49

سورة الذاريات

وَ مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ خَلَقۡنَا زَوۡجَیۡنِ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۴۹﴾

And of all things We created two mates; perhaps you will remember.

اور ہر چیز کو ہم نے جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمِن كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ ... And of everything We have created pairs, meaning, all the created are in pairs, the heaven and earth, night and day, sun and moon, land and sea, light and darkness, faith and disbelief, death and life, misery and happiness, Paradise and Fire, in addition to the animals and plants. The statement of Allah the Exalted, ... لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ that you may remember. (and know that the Creator, Allah, is One without partners),

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

49۔ 1 یعنی ہر چیز کو جوڑا جوڑا، نر اور مادہ یا اس کی مقابل اور ضد کو بھی پیدا کیا ہے۔ جیسے روشنی اور اندھیرا، خشکی اور تری، چاند اور سورج، میٹھا اور کڑوا رات اور دن خیر اور شر زندگی اور موت ایمان اور کفر شقاوت اور سعادت جنت اور دوزخ جن وانس وغیرہ حتی کہ حیوانات کے مقابل جمادات اس لیے ضروری ہے کہ دنیا کا بھی جوڑا ہو یعنی آخرت، دنیا کے بالمقابل دوسری زندگی۔ 49۔ 2 یہ جان لو کہ ان سب کا پیدا کرنے والا صرف ایک اللہ ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٣] ہر چیز کے جوڑے اور زوج کے مختلف مفہوم :۔ زوج کا لفظ عربی میں تین معنوں میں آتا ہے۔ (١) متضاد اشیاء جیسے دن اور رات، دھوپ اور سایہ، روشنی اور تاریکی، سیاہی اور سفیدی، خوشی اور رنج، خوشحالی اور تنگدستی وغیرہ۔ (٢) ہم مثل اشیاء کے لیے جیسے پاؤں کے دونوں جوتے ایک دوسرے کا زوج ہیں۔ اسی طرح ہر دور کے مشرک ایک دوسرے کا زوج ہیں۔ ایک ہی نوعیت کے مجرم ایک دوسرے کا زوج ہیں۔ (٣) نر و مادہ کے لیے مثلاً خاوند بیوی کا زوج ہے، بیوی خاوند کی زوج ہے۔ ہر نر مادہ کا زوج ہے اور ہر مادہ نر کا زوج ہے۔ اور اس آیت میں غالباً اسی قسم کے زوج مراد ہیں۔ جانداروں میں ایک دوسرے کا زوج تو سب کے مشاہدہ میں آچکا ہے۔ نباتات میں بھی یہ سلسلہ قائم ہے۔ باربردار ہوائیں نر درختوں کا تخم مادہ درختوں پر ڈال دیتی ہیں تو تب ہی ان میں پھل لگتا اور پکتا ہے اور جدید تحقیق کے مطابق یہ سلسلہ جمادات میں بھی پایا جاتا ہے۔ بجلی کا مثبت اور منفی ہونا یا ایک حقیر سے ذرہ میں الیکٹرون اور پروٹون کا مثبت اور منفی ہونا انسان کے علم میں آچکا ہے۔ مقناطیس میں بھی مثبت اور منفی سرے ہوتے ہیں۔ اور جمادات تو کیا ہر چیز ذرات ہی کا مجموعہ ہوتی ہے۔ اس نرو مادہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ سلسلہ چلایا کہ ان دونوں کے ملاپ سے ایک تیسری چیز وجود میں آتی ہے جس میں بعض دفعہ تو اصل نر اور مادہ کے کچھ کچھ خواص موجود ہوتے ہیں اور بعض دفعہ یہ تیسری چیز ایسی چیز پیدا ہوتی ہے جس کے خواص پہلی دونوں چیزوں سے بالکل جداگانہ ہوتے ہیں اور اسی چیز کا نام کیمیا یا کیمسٹری ہے۔ انسان کا علم جس حد تک پہنچ چکا ہے وہ بہرحال محدود ہے۔ جبکہ وحی الٰہی پورا علم ہے جس میں یہ خبر دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کئے ہیں اور ان میں غور کرنے سے انسان کو اللہ کی قدرت کاملہ سے متعلق بہت سبق ملتے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ومن کل شیء خلقنا زوجین : آسمان و زمین کی پیدائش کے بعد تمام موجودات کو پیدا کرنے کی کیفیت بیان فرمائی کہ جس طرح آسمان کے مقابلے میں زمین ہے اسی طرح ہم نے ہر چیز کی دو دو قسمیں بنائی ہیں۔ ہر ایک کے قمبالے میں دوسری چیز موجود ہے۔ چناچہ آسمان و زمین، دن رات، خشکی و تری، اندھیرا و اجالا، موت و حیات، نیکی و بدی، جنت و دوزخ یہاں تک کہ نباتات و حیوانات کے بھی جوڑے ہیں۔ (٢) لعلکم تذکرون : تاکہ تم نصیحت حاصل کرو، توحید کو سمجھو اور جان لو کہ مخلوق جو بھی ہے اس کے مقابلے میں دوسری موجود ہے، مگر ان سب کا خلاق ایک اللہ ہے، اس کا کوئی جوڑے ہے نہ ہمسر، نہ شریک اور نہ اس کے مقابلے میں کوئی ہستی ہے اور یہ بھی سمجھ لو کہ اتنی عظیم ال شان کائنات کو بنانے والا تمہیں دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے اور تمہیں دوبارہ زندہ ہو کر اس کے حضور پیش ہونا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝ ٤٩ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے زوج يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] ، وقال : وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] ، وزَوْجَةٌ لغة رديئة، وجمعها زَوْجَاتٌ ، قال الشاعر : فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتي وجمع الزّوج أَزْوَاجٌ. وقوله : هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] ، احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، أي : أقرانهم المقتدین بهم في أفعالهم، وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] ، أي : أشباها وأقرانا . وقوله : سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] ، وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فتنبيه أنّ الأشياء کلّها مركّبة من جو هر وعرض، ومادّة وصورة، وأن لا شيء يتعرّى من تركيب يقتضي كونه مصنوعا، وأنه لا بدّ له من صانع تنبيها أنه تعالیٰ هو الفرد، وقوله : خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فبيّن أنّ كلّ ما في العالم زوج من حيث إنّ له ضدّا، أو مثلا ما، أو تركيبا مّا، بل لا ينفكّ بوجه من تركيب، وإنما ذکر هاهنا زوجین تنبيها أنّ الشیء۔ وإن لم يكن له ضدّ ، ولا مثل۔ فإنه لا ينفكّ من تركيب جو هر وعرض، وذلک زوجان، وقوله : أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] ، أي : أنواعا متشابهة، وکذلک قوله : مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143] ، أي : أصناف . وقوله : وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] ، أي : قرناء ثلاثا، وهم الذین فسّرهم بما بعد وقوله : وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] ، فقد قيل : معناه : قرن کلّ شيعة بمن شایعهم في الجنّة والنار، نحو : احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، وقیل : قرنت الأرواح بأجسادها حسبما نبّه عليه قوله في أحد التّفسیرین : يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] ، أي : صاحبک . وقیل : قرنت النّفوس بأعمالها حسبما نبّه قوله : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] ، وقوله : وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] ، أي : قرنّاهم بهنّ ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلک لا يكون علی حسب المتعارف فيما بيننا من المناکحة . ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى [ القیامة/ 39] اور ( آخر کار ) اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی ) مرد اور عورت ۔ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] اور تیری بی بی جنت میں رہو ۔ اور بیوی کو زوجۃ ( تا کے ساتھ ) کہنا عامی لغت ہے اس کی جمع زوجات آتی ہے شاعر نے کہا ہے فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتیتو میری بیوی اور بیٹیاں غم سے رونے لگیں ۔ اور زوج کی جمع ازواج آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] وہ اور ان کے جوڑے اور آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] جو لوگ ( دنیا میں ) نا فرمانیاں کرتے رہے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ( ایک جگہ ) اکٹھا کرو ۔ میں ازواج سے ان کے وہ ساتھی مراد ہیں جو فعل میں ان کی اقتدا کیا کرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] اس کی طرف جو مختلف قسم کے لوگوں کو ہم نے ( دنیاوی سامان ) دے رکھے ہیں ۔ اشباہ و اقران یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ مراد ہیں اور آیت : ۔ سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] پاک ہے وہ ذات جس نے ( ہر قسم کی ) چیزیں پیدا کیں ۔ نیز : ۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض مادہ و صورت سے مرکب ہیں اور ہر چیز اپنی ہیئت ترکیبی کے لحا ظ سے بتا رہی ہے کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور اس کے لئے صائع ( بنانے والا ) کا ہونا ضروری ہے نیز تنبیہ کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہی فرد مطلق ہے اور اس ( خلقنا زوجین ) لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ روئے عالم کی تمام چیزیں زوج ہیں اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک چیز کی ہم مثل یا مقابل پائی جاتی ہے یا یہ کہ اس میں ترکیب پائی جاتی ہے بلکہ نفس ترکیب سے تو کوئی چیز بھی منفک نہیں ہے ۔ پھر ہر چیز کو زوجین کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز کی ضد یا مثل نہیں ہے تو وہ کم از کم جوہر اور عرض سے ضرور مرکب ہے لہذا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر زوجین ہے ۔ اور آیت أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] طرح طرح کی مختلف روئیدگیاں ۔ میں ازواج سے مختلف انواع مراد ہیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہوں اور یہی معنی آیت : ۔ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ہر قسم کی عمدہ چیزیں ( اگائیں ) اور آیت کریمہ : ۔ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143]( نر اور مادہ ) آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں ۔ میں مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] میں ازواج کے معنی ہیں قرناء یعنی امثال ونظائر یعنی تم تین گروہ ہو جو ایک دوسرے کے قرین ہو چناچہ اس کے بعد اصحاب المیمنۃ سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] اور جب لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے ۔ میں بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ جیسا کہ آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] میں مذکور ہوچکا ہے اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا جیسا کہ آیت يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] اے اطمینان پانے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ آ ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔ میں بعض نے ربک کے معنی صاحبک یعنی بدن ہی کئے ہیں اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] جب کہ ہر شخص اپنے اچھے اور برے عملوں کو اپنے سامنے حاضر اور موجود پائیگا ۔ میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] اور ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ میں زوجنا کے معنی باہم ساتھی اور رفیق اور رفیق بنا دینا ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں بھی حور کے ساتھ اس فعل ( زوجنا ) کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے بعد باء لائی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حوروں کے ساتھ محض رفاقت ہوگی جنسی میل جول اور ازواجی تعلقات نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو قرآن بحور کی بجائے زوجناھم حورا کہتا جیسا کہ زوجتہ امرءۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اس عورت سے اس کا نکاح کردیا ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٩{ وَمِنْ کُلِّ شَیْئٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ۔ } ” اور ہم نے ہر شے کے جوڑے بنائے ہیں شاید کہ تم نصیحت اخذ کرو۔ “ ” جوڑوں “ کی تخلیق میں ہمارے لیے کس کس پہلو سے نصیحت کا سامان ہے ؟ یہ جاننے کے لیے تحقیق کا میدان بہت وسیع ہے۔ یہاں پر اس حوالے سے صرف یہ نکتہ سمجھ لیجیے کہ اس مفہوم کی آیات آخرت سے متعلق عقلی دلیل فراہم کرتی ہیں ۔ یعنی جب ہر شے کا جوڑا ہے تو دنیا کا بھی تو جوڑا ہونا چاہیے اور ظاہر ہے دنیاکا جوڑا آخرت ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

46 That is, "Everything in the world has been created on the principle of the pairs. The whole system of the Universe is functioning on the principle that certain things arc complementary and matching to certain others, and their combination brings into being countless new forms and combinations. Nothing here is so unique as may have no match, for the fact is that a thing becomes productive only after it has combined with its matching partner. " (For further explanation, sec E.N. 31 of Surah Ya Sin, and' E.N. 12 of Az-Zukhruf). 47 That is, "The erection of the whole Universe on the principle of the pairs and the existence of all things in the world in couples is a reality that testifies . expressly to the necessity of the Hereafter. If you consider it deeply you will yourself come to the conclusion that when everything in the world has a partner and nothing becomes productive without combining with its partner, how can the life of the world be without a match and partner? Its match and partner necessarily is the Hereafter. Without that partner it would be absolutely fruitless." To understand what follows one should also understand that the discussion heretofore centers around the Hereafter, but this very discussion and. argument afford a proof of the Oneness of God. Just as the argument of the rain, the structure of the earth, the creation of the heavens, man's own existence, the wonderful working of the law of pairs in the Universe, testify to the possibility and necessity of the Hereafter, so they are also testifying that neither is this Godless nor it has many gods, but One All-Wise and All-Powerful God alone is its Creator and Master and Controller. That is why in the following verses the invitation to the Oneness of God is being presented on the basis of these very arguments. Furthermore, the inevitable result of believing in the Hereafter is that man should give up his attitude of rebellion against God and should adopt the way of obedience and servitude. He remains turned away from God as long as he remains involved in the false belief that he is not accountable before anyone and that he will not have to render an account of his deeds of the worldly life to anyone. Whenever this misunderstanding is removed, man immediately comes to the realization that he was committing a grave error by regarding himself as irresponsible, and this realization compels him to return to God. That is why immediately after concluding the arguments for the Hereafter, it has been said: "So flee unto AIlah."

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :46 یعنی دنیا کی تمام اشیاء تزویج کے اصول پر بنائی گئی ہیں ۔ یہ سارا کارخانہ عالم اس قاعدے پر چل رہا ہے کہ بعض چیزوں کا بعض چیزوں سے جوڑ لگتا ہے اور پھر ان کا جوڑ لگنے ہی سے طرح طرح کی ترکیبات وجود میں آتی ہیں ۔ یہاں کوئی شے بھی ایسی منفرد نہیں ہے کہ دوسری کوئی شے اس کا جوڑ نہ ہو ، بلکہ ہر چیز اپنے جوڑے سے مل کر ہی نتیجہ خیز ہوتی ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، یٰس ، حاشیہ 31 ۔ الزخرف ، حاشیہ 12 ) ۔ سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :47 مطلب یہ ہے کہ ساری کائنات کا تزویج کے اصول پر بنایا جانا ، اور دنیا کی تمام اشیاء کا زَوج زَوج ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جو آخرت کے وجوب پر صریح شہادت دے رہی ہے ۔ اگر تم غور کرو تو اس سے خود تمہاری عقل یہ نتیجہ اخذ کر سکتی ہے کہ جب دنیا کی ہر چیز کا ایک جوڑا ہے ، اور کوئی چیز اپنے جوڑے سے ملے بغیر نتیجہ خیز نہیں ہوتی ، تو دنیا کی یہ زندی کیسے بے جوڑ ہو سکتی ہے؟ اس کا جوڑا لازماً آخرت ہے ۔ وہ نہ ہو تو یہ قطعاً بے نتیجہ ہو کر رہ جائے ۔ آگے مضمون کو سمجھنے کے لیے اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ اگرچہ یہاں تک ساری بحث آخرت کے موضوع پر چلی آ رہی ہے ، لیکن اسی بحث اور انہی دلائل سے توحید کا ثبوت بھی ملتا ہے ۔ بارش کا انتظام ، زمین کی ساخت ، آسمان کی تخلیق ، انسان کا اپنا وجود ، کائنات میں قانون تزویج کی حیرت انگیز کار فرمائی ، یہ ساری چیزیں جس طرح آخرت کے امکان و وجوب پر گواہ ہیں اسی طرح یہی اس بات کی شہادت بھی دے رہی ہیں کہ یہ کائنات نہ بے خدا ہے اور نہ اس کے بہت سے خدا ہیں ، بلکہ ایک خدائے حکیم و قادر مطلق ہی اس کا خالق اور مالک اور مدبر ہے ۔ اس لیے آگے انہی دلائل کی بنیاد پر توحید کی دعوت پیش کی جا رہی ہے ۔ علاوہ بریں آخرت کو ماننے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان خدا سے بغاوت کا رویہ چھوڑ کر اطاعت و بندگی کی راہ اختیار کرے ۔ وہ خدا سے اسی وقت تک پھرا رہتا ہے جب تک وہ اس غفلت میں مبتلا رہتا ہے کہ میں کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہوں اور اپنی دنیوی زندگی کے اعمال کا کوئی حساب مجھے کسی کو دینا نہیں ہے ۔ یہ غلط فہمی جس وقت بھی رفع ہو جائے ، اس کے ساتھ ہی فوراً آدمی کے ضمیر میں یہ احساس ابھر آتا ہے کہ اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھ کر وہ بڑی بھاری غلطی کر رہا تھا اور یہ احساس اسے خدا کی طرف پلٹنے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ اسی بنا پر آخرت کے دلائل ختم کرتے ہی معاً بعد یہ فرمایا گیا پس دوڑو اللہ کی طرف ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

17: قرآن کریم نے یہ حقیقت کئی جگہ بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز میں (نر اور مادہ) جوڑے پیدا فرمائے ہیں، یہ بات پہلے سائنس کو دریافت نہیں ہوئی تھی، لیکن اب سائنس نے بھی اس قرآنی حقیقت کا اعتراف کرلیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(51:49) زوجین : وہ دو شکلیں جن میں سے ہر ایک دوسرے کا نقیض یا نظیر ہو، جوڑا۔ زوج کا تثنیہ بحالت وجر ہے۔ روح المعانی میں ہے :۔ زوجین ای نوعین ذکرا و انثی۔ یعنی دو صنف مذکر و مؤنث۔ مجاہد نے کہا ہے کہ :۔ یہ متضادات و متقابلات کی طرف اشارہ ہے۔ مثلاً رات اور دن ، آسمان و زمین، سیاہ و سفید ۔ ہدایت و ضلالت، بلندی و پستی وغیرہ۔ لعلکم تذکرون : لعل حرف مشبہ بالفعل کم اس کا اسم۔ شاید تم۔ تذکرون : مضارع جمع مذکر حاضر۔ تذکر (تفعل) مصدر۔ تم نصیحت پکڑو، تم سمجھ جاؤ۔ تم جان لو (کہ تعدد ممکنات کی خصوصیت ہے۔ واجب بالذات ہر تعدد اور انقسام سے پاک ہے۔ اس کا وجود ناقابل عدم ہے اور اس کی قدرت ہر کمزوری اور عجز سے پاک ہے) ۔ (تفسیر مظہری)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 جیسے نر اور مادہ خشکی اور تری، سورج اور چاند، آسمان اور زمین رات اور دن روشنی اور تاریکی، خیر و شر وغیرہ

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ دو قسم سے مراد مقابل ہے سو ظاہر ہے کہ ہر شے میں کوئی نہ کوئی صفت ذاتیہ یا عرضیہ ایسی معتبر ہوتی ہے جس سے دوسری چیز جس میں اس صفت کی نقیض یا ضد ملحوظ ہو، اس کے مقابل شمار کی جاتی ہے جیسے آسمان و زمین، جو ہر و عرض، گرمی سردی، شیریں تلخ، چھوٹی بڑی، خوشنما بد نما، سفیدی سیاہی، روشنی تاریکی، وعلی ہذا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مخلوق کے بارے میں ایک اور ارشاد۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے ہر چیز کے جوڑے جوڑے بنائے ہیں تاکہ تم غور کرو اور اس سے نصیحت حاصل کرو۔ جوڑے کے لیے زوجین کا لفظ استعمال کیا ہے جو زوج کا تثنیہ ہے۔ لغت کے اعتبار سے جوڑے کا معنٰی صرف نر اور مادہ ہی نہیں ہوتا بلکہ اس میں باہم متضاد چیزیں بھی شامل ہیں۔ انسان، حیوانات، درند، پرند آپس میں زوجین ہیں۔ جہاں تک متضاد جنس کے اعتبار سے زوجین کا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات کو جوڑے جوڑے کی صورت میں پیدا فرمایا ہے۔ آسمان کے مقابلے میں زمین، رات کے مقابلے میں دن، روشنی کے مقابل اندھیرا، دھوپ کے مدمقابل چھاؤں، گرمی کے مقابل میں سردی، پانی کے مقابلے میں آگ اور فرشتوں کے بالمقابل شیاطین، فرشتے کبھی غلطی نہیں کرتے شیطان کبھی نیکی نہیں کرتے اور مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو پیدا کیا ہے یہاں تک درختوں میں بھی نر اور مادہ پائے جاتے ہیں اس طرح اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق میں زوجین یعنی جوڑے موجود ہیں۔ گویا کہ پوری مخلوق جوڑوں کی شکل میں ہے اور ان کے خالق کا کوئی جوڑا نہیں ہے وہ اپنی ذات اور صفات میں اکیلا ہے اس کا کوئی زوج نہیں ہے۔ شائد تم اس سے سبق حاصل کرو اور اس کی ذات اور صفات میں شرک کرنے سے باز آجاؤ۔ انسان کے لیے سب سے بڑی اور پہلی نصیحت یہ ہے کہ وہ ” اللہ “ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائے اور ہر حال میں اس کی تابعداری کرے۔ (قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ اَللّٰہُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ ٥ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ) (سورۃ الاخلاص) ” کہو وہ اللہ اکیلا ہے۔ اللہ بےنیاز ہے۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔ اور اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔ “ ” وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اس کی اولاد کیسے ہوگی جب کہ اس کی کوئی بیوی نہیں ؟ اور اس نے ہر چیز پیدا کی اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ “ (الانعام : ١٠١) ” آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے اس نے تمہیں سے تمہارے لیے جوڑے پیدا کیے اور اسی طرح جانوروں میں بھی جوڑے بنائے اور وہی تمہیں پھیلاتا ہے۔ کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔ “ (الشوریٰ ١١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ومن ........ تذکرون (١٥ : ٩٤) ” اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے شاید کہ تم اس سے سبق لو۔ “ یہ ایک عجیب حقیقت ہے جو اس زمین کی تخلیق کا بنیادی اصول بتاتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہی اصول پوری کائنات میں بھی کار فرما ہو کیونکہ انداز تعبیر میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ صرف زمین اندر ہی یہ اصول کار فرما ہے۔ یہ اصول تخلیق میں زوجیت اور جوڑے کا اصول ، زندہ چیزوں میں زوجیت کا اصول تو بالکل ظاہر و باہر ہے لیکن ” شئی “ کے لفظ کا اطلاق دوسری چیزوں پر بھی ہوتا ہے تو معنی یہ ہوئے کہ تمام اشیاء بھی زوجیت کے اصول پر تخلیق کردہ ہیں۔ جب ہم اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ ہم چودہ سو سال سے اس آیت کو پڑھ رہے ہیں اور زوجیت کے اصول کی اس قدر ہمہ گیری کا تصور اس وقت نہ تھا جو اب ہوگیا ہے ، اس وقت تو زندہ چیزوں میں بھی یہ اصول اس قدر ہمہ گیر متصور نہ تھا چہ جائیکہ کوئی تمام اشیاء کے اندر زوجیت کا تصور کرتا ہے۔ اگر ہم یہ حقیقت سوچ لیں تو پھر ہمارے سامنے ایک عجوبہ آجاتا ہے اور یہ ہمیں بتایا ہے کہ اس پوری کائنات کی ہر چیز زوجیت کے اصول پر ہے۔ یہ آیت ہمیں حقیقت بھی بتاتی ہے کہ دور جدید کے تمام انکشافات ہمیں حقیقت کبریٰ کے بہت قریب کرتے جارہے ہیں۔ تمام تحقیقات اس پر متفق ہوتی جارہی ہیں کہ کائنات کی تخلیق ذرے سے ہوتی ہے اور ذرہ دو کہربائی جوڑوں سے مرکب ہے۔ مثبت اور منفی لہٰذا جدید طبعی تحقیقات اس حقیقت کے ثبوت کی طرف جارہی ہیں۔ عبارت اور الفاظ کے لحاظ سے چھوٹے اور مختصر اور مفہوم کے اعتبار سے بڑے اور محیرالعقول اشارات کی روشنی میں آسمان کی دوریوں ، زمین کے اطراف واکناف اور مخلوقات کے انفس کے مکالمے اور مشاہدے کی روشنی میں اب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو نہایت ہی بلند آواز سے پکارتا ہے کہ دوڑو خالق ارض وسماء کی طرف ، خالص ہوکر ، تمام بوجھ اپنے کاندھوں سے پرے پھینک کر ، ہلکی روح ، بےقید دل کے ساتھ اور توحید کے جھنڈے ہاتھوں میں لئے ہوئے دوڑ پڑو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(49) اور ہم نے ہرچیز کو جوڑ جوڑا یعنی ایک کو ایک کا جواب اور مقابل بنایا تاکہ تم نصیحت پکڑو اور سمجھ سے کام لو۔ یعنی ہر چیز ایک دوسرے کے مقابل اور جواب ہے مثلاً روشنی اور تاریکی ، نر اور مادہ آسمان اور زمین، سورج اور چاند، رات اور دن ، ایمان اور کفر سعادت اور شقاوت، کھڑا اور بیٹھا، حق اور باطل کائنات میں دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ ہر شئے کی نظیر اور مثل اور جواب موجود ہے۔ یہی حالت نباتات کی ہے اور یہی جمادات کی ہے جس شعبے کو دیکھئے اس میں یہ اتارچڑھائو موجود ہیں اس سب پر غور کیجئے تو معلوم ہوسکتا ہے کہ خلق ہر شئی کی نظیر اور جواب ہے لیکن خالق وحدہ لاشریک ہے جس کی نہ نظیر ہے نہ ضد ہے نہ اس کا کوئی مقابل ہے نہ کوئی جواب ہے۔ اسی بات کی طرف اشارہ فرمایا لعلکم تذکرون فرما کر یہ ظاہر کیا یعنی فتعلمون ان خالق الازواج فردلا نظیر لہ ولا شریک معہ۔ یعنی یہ بات سمجھ لو کہ ہر چیز کا جواب اور جوڑا پیدا کرنے والا خود لاجواب ہے اور اکیلا ہے نہ اس کا کوئی نظیر ہے اور نہ اس کے ساتھ کوئی شریک ہے۔