Surat uz Zaariyaat

Surah: 51

Verse: 57

سورة الذاريات

مَاۤ اُرِیۡدُ مِنۡہُمۡ مِّنۡ رِّزۡقٍ وَّ مَاۤ اُرِیۡدُ اَنۡ یُّطۡعِمُوۡنِ ﴿۵۷﴾

I do not want from them any provision, nor do I want them to feed Me.

نہ میں ان سے روزی چاہتا ہوں اور نہ میری یہ چاہت ہے کہ مجھے کھلائیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

57۔ 1 یعنی میری عبادت و اطاعت سے میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ مجھے کما کر کھلائیں، جیسا کہ دوسرے آقاؤں کا مقصود ہوتا ہے، بلکہ رزق کے سارے خزانے تو خود میرے ہی پاس ہیں میری عبادت و اطاعت سے تو خود ان ہی کا فائدہ ہوگا کہ ان کی آخرت سنور جائے گی نہ کہ مجھے کوئی فائدہ ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٩] اہل عرب غلاموں کی کمائی کھاتے تھے اور اللہ اپنے بندوں کو کھلاتا ہے :۔ دور نبوی کے عرب معاشرہ میں غلام رکھنے کا رواج تھا اور مالک ان سے اپنی خدمت ہی نہیں لیتے تھے بلکہ انہیں کمائی کے لیے بھیجتے اور ان کی کمائی کھاتے تھے۔ گویا غلام ہی ان کا سرمایہ تھے۔ جس کے پاس جتنے زیادہ غلام ہوتے اتنا ہی وہ زیادہ مالدار سمجھا جاتا تھا۔ موجودہ دور میں اس کی مثال فیکٹری سے دی جاسکتی ہے۔ ایک فیکٹری میں اگر دس ملازم ہیں اور دوسری میں سو ہیں تو سو ملازموں کی فیکٹری کا مالک یقیناً زیادہ سرمایہ دار اور مالدار سمجھا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمام انسان اور جن میرے بندے اور غلام ہیں۔ لیکن میں ان کی کمائی نہیں کھاتا نہ ہی مجھے اس کی حاجت ہے، بلکہ رزق تو میں خود سب کو دے رہا ہوں میں لے کیسے سکتا ہوں ؟ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے ایک اہم نکتہ معلوم ہوتا ہے جو یہ ہے کہ معبود حقیقی کی شان یہ ہے کہ وہ رزق دیتا ہے لیتا نہیں۔ جبکہ دوسرے معبود اپنے عبادت گزاروں سے رزق اور پیسے لیتے ہیں۔ اگر عبادت گزار اور مرید حضرات اپنے نذرانے اور نیازیں دینا بند کردیں تو ان کی خدائی ایک دن بھی نہ چل سکے۔ یہی دلیل ان کے باطل ہونے کے لیے کافی ہے۔ رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ نے اگر دوسروں کو عبادت سے منع کیا ہے تو اپنی عبادت کا کیوں حکم دیا ہے ؟ کیا اسے اس کی احتیاج ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسے کوئی احتیاج نہیں کیونکہ وہ بےنیاز ہے۔ کسی کے عبادت کرنے یا نہ کرنے سے نہ اس کا کچھ بگڑتا ہے اور نہ سنورتا ہے۔ بلکہ اللہ کی عبادت کرنے اور خالق ومالک کا حق پہچاننے میں ان کا اپنا ہی بھلا ہے جیسا کہ بیشمار آیات و احادیث سے واضح ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(مار ارید منھم من رزق …: یہ کلام انسان کی عام عادت کے مطابق کیا گیا ہے، کیونکہ انسان جو کچھ بناتا ہے اپنے کسی فائدے کے لئے بناتا ہے اور جو غلام خریدتا اور پانی ملکیت میں رکھتا ہے اس سے مقصد اپنی ضروریات کے لئے ان سے کام لینا اور ان کی کمائی کھانا ہوتا ہے۔ فرمایا جن و انس سے نہ میں کسی طرح کا رزق چاہتا ہوں اور نہ میرا یہ مقصد ہے کہ وہ مجھے کھانے کو کچھ دیں۔ ان کے پیدا کرنے سے میرا اپنا کوئی نفع مقصود نہیں، میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ وہ میری بندگی کریں، میرے غلام بن کر رہیں اور اس میں انھی کا فائدہ ہے۔ آیت میں اپنے لئے پہلے رزق کی نفی کی جس میں انسان کی ہر ضورت آتی ہے۔ اس کے بعد رقز میں سے انسان کے لئے سب ضروری چیزک ھانے کی نفی فرمائی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

مَا أُرِ‌يدُ مِنْهُم مِّن رِّ‌زْقٍ (I do not want any sustenance from them, nor do I want them to feed Me...51:57). It means that by creating jinn and mankind, Allah does not stand in need of them, so that they will have to produce sustenance for Him or for themselves or for any of His other creations or that they earn to feed Him. This has been stated according to the general trend of people. The most affluent of men buys a slave and spends on him not for nothing, but he has an underlying purpose: He expects the slaves to work for him, help him in his tasks, fulfill his needs and earn livelihood for his master. Allah is immaculate, pure and above all these things. In creating human beings, He does not profit or benefit anything.

مَآ اُرِيْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ الایة۔ یعنی میں جن و انس کو پیدا کر کے ان سے عام انسانوں کی عادت کے مطابق اپنا کوئی نفع نہیں چاہتا، کہ وہ رزق پیدا کریں، میرے لئے یا اپنے لئے یا میری دوسری مخلوق کے لئے اور یا یہ کہ وہ مجھے کما کر کھلائیں، یہ سب کلام انسان کی عام عادت پر کیا گیا ہے کیونکہ بڑے بڑے انسان جو غلام خریدتا اور اس پر خرچ کرتا ہے تو اس کا مصداق ان غلاموں سے اپنے کام لینا اپنی ضروریات اور کاموں میں مدد لینا اور کمائی کر کے آقا کو دینا ہوتا ہے، حق تعالیٰ ان سب چیزوں سے پاک اور بالا و برتر ہیں، اس لئے فرمایا کہ ان کو پیدا کرنے سے میرا اپنا کوئی نفع مقصود نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَآ اُرِيْدُ مِنْہُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِيْدُ اَنْ يُّطْعِمُوْنِ۝ ٥٧ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو طعم الطَّعْمُ : تناول الغذاء، ويسمّى ما يتناول منه طَعْمٌ وطَعَامٌ. قال تعالی: وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة/ 96] ، قال : وقد اختصّ بالبرّ فيما روی أبو سعید «أنّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمر بصدقة الفطر صاعا من طَعَامٍ أو صاعا من شعیر» «2» . قال تعالی: وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة/ 36] ، طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل/ 13] ، طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان/ 44] ، وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون/ 3] ، أي : إِطْعَامِهِ الطَّعَامَ ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا [ الأحزاب/ 53] ، وقال تعالی: لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا [ المائدة/ 93] ، قيل : وقد يستعمل طَعِمْتُ في الشّراب کقوله : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة/ 249] ، وقال بعضهم : إنّما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ تنبيها أنه محظور أن يتناول إلّا غرفة مع طَعَامٍ ، كما أنه محظور عليه أن يشربه إلّا غرفة، فإنّ الماء قد يُطْعَمُ إذا کان مع شيء يمضغ، ولو قال : ومن لم يشربه لکان يقتضي أن يجوز تناوله إذا کان في طَعَامٍ ، فلما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ بَيَّنَ أنه لا يجوز تناوله علی كلّ حال إلّا قدر المستثنی، وهو الغرفة بالید، وقول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم في زمزم : «إنّه طَعَامُ طُعْمٍ وشِفَاءُ سُقْمٍ» «3» فتنبيه منه أنه يغذّي بخلاف سائر المیاه، واسْتَطْعَمَهُ فَأْطْعَمَهُ. قال تعالی: اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف/ 77] ، وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج/ 36] ، وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان/ 8] ، أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ [يس/ 47] ، الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش/ 4] ، وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ [ الأنعام/ 14] ، وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات/ 57] ، وقال عليه الصلاة والسلام : «إذا اسْتَطْعَمَكُمُ الإمامُ فَأَطْعِمُوهُ» «1» أي : إذا استفتحکم عند الارتیاج فلقّنوه، ورجلٌ طَاعِمٌ: حَسَنُ الحالِ ، ومُطْعَمٌ: مرزوقٌ ، ومِطْعَامٌ: كثيرُ الإِطْعَامِ ، ومِطْعَمٌ: كثيرُ الطَّعْمِ ، والطُّعْمَةُ : ما يُطْعَمُ. ( ط ع م ) الطعم ( س) کے معنی غذا کھانے کے ہیں ۔ اور ہر وہ چیز جو بطورغذا کھائی جائے اسے طعم یا طعام کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة/ 96] اور اس کا طعام جو تمہارے فائدہ کے لئے ۔ اور کبھی طعام کا لفظ خاص کر گیہوں پر بولا جاتا ہے جیسا کہ ابوسیعد خدری سے ۔ روایت ہے ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امر بصدقۃ الفطر صاعا من طعام اوصاعا من شعیر ۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ فطر میں ایک صحابی طعام یا ایک صاع جو د ینے کے حکم دیا ۔ قرآن میں ہے : وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة/ 36] اور نہ پیپ کے سوا ( اس کے ) لئے کھانا ہے ۔ طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل/ 13] اور گلوگیرکھانا ہے ۔ طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان/ 44] گنہگار کا کھانا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون/ 3] اور فقیر کو کھانا کھلانے کے لئے لوگوں کو ترغیب نہیں دیتا ۔ میں طعام بمعنی اوطعام یعنی کھانا کھلانا کے ہے فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب/ 53] اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا[ المائدة/ 93] جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے اور انپر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ کھاچکے ۔ بعض نے کہا ہے کہ کبھی طعمت بمعنی شربت آجاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة/ 249] جو شخص اس میں سے پانی پی لے گا توہ وہ مجھ دے نہیں ہے اور جو شخص اس سے پانی نہ پیے گا ( اس کی نسبت تصور کیا جائے گا کہ ) میرا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں من لم یشربہ بجائے ومن لم یطعمہ کہہ کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جس طرح چلو بھر سے زیادہ محض پانی کا استعمال ممنوع ہے اسی طرح طعام کے ساتھ بھی اس مقدار سے زائد پانی پینا ممنوع ہے کیونکہ جو پانی کھانے کے ساتھ پیاجاتا ہے اس پر بھی طعمت کا لفظ بولا جاسکتا ہے ۔ لہذا اگر من لمیشربہ لایا جاتا تو اس سے کھانے کے ساتھ پانی پینے کی ممانعت ثابت نہ ہوتی اس کے برعکس یطعمہ کے لفظ سے یہ ممانعت بھی ثابت ہوجاتی اور معین مقدار سے زائد پانی کا پینا بہر حالت ممنوع ہوجاتا ہے ۔ اور ایک حدیث (20) میں آنحضرت نے زم زم کے پانی کے متعلق انہ طعام طعم و شفاء سقم ( کہ یہ کھانے کا کھانا اور بیماری سے شفا ہے ) فرماکر تنبیہ کی ہے کہ بیر زمزم کے پانی میں غذائیت بھی پائی جاتی ہے جو دوسرے پانی میں نہیں ہے ۔ استطعمتہ فاطعمنی میں نے اس سے کھانا مانگا چناچہ اس نے مجھے کھانا کھلایا ۔ قرآن میں ہے : اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف/ 77] اور ان سے کھانا طلب کیا ۔ وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج/ 36] اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان/ 8] اور وہ کھانا کھلاتے ہیں أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ [يس/ 47] بھلا ہم ان لوگوں کو کھانا کھلائیں جن کو اگر خدا چاہتا تو خود کھلا دیتا ۔ الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش/ 4] جس نے ان کو بھوک میں کھانا کھلایا ۔ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ [ الأنعام/ 14] دہی سب کو کھانا کھلاتا ہے اور خود کسی سے کھانا نہیں لیتا ۔ وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات/ 57] اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ مجھے کھانا کھلائیں ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا (21) اذا استطعمکم الامام فاطعموہ یعنی جب امام ( نماز میں ) تم سے لقمہ طلب کرے یعنی بھول جائے تو اسے بتادو ۔ رجل طاعم خوش حال آدمی رجل مطعم جس کو وافروزق ملا ہو مطعم نیک خورندہ ۔ مطعام بہت کھلانے والا ، مہمان نواز طعمۃ کھانے کی چیز ۔ رزق ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

میں نے ان کو اس چیز کا مکلف نہیں بنایا کہ وہ اپنی روزیوں کا انتظام کیا کریں یا ان ہی کو رزق رسانی میں وہ میری مدد کیا کریں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٧{ مَــآ اُرِیْدُ مِنْہُمْ مِّنْ رِّزْقٍ } ” میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا “ { وَّمَــآ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ ۔ } ” اور نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ مجھے کھلائیں ‘ پلائیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

54 That is, "I do not stand in need of any kind of help from the jinn and men: that My Godhead would not function if they did not worship Me: that I would be no more God if they turned away from My service. I indeed do not stand in need of their service, but it is the demand of their own nature that they should serve Me. They have been created for this very object, and fighting nature would be to their own detriment." And in saying: "I do not ask any sustenance of them nor do I ask them to feed Me," there is a subtle hint to this Those whom the people who have turned away from God worship in the world, worship, indeed, stand in need of these their worshippers. If they do not help sustain their godhead, it would not function even for a day. The gods do not provide for the worshippers but the worshippers provide for the gods instead. The gods do not feed them but they feed the gods instead. The gods do not protect them but the worshippers protect the gods instead. The worshippers, in fact, are their army through whom their godhead functions. Wherever the worshippers of the, false gods have ceased to exist, or the worshippers have given up their worship, the gods have lost aII their pomp and glory and the world has seen how helpless they have become. Of alI the deities AIlah Almighty is the only real Deity Whose Godhead is functioning by His own power and might, Who does not take anything from His servants, but He alone gives His servants everything.

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :54 یعنی میری کوئی غرض جِنوں اور انسانوں سے اٹکی ہوئی نہیں ہے کہ یہ میری عبادت کریں گے تو میری خدائی چلے گی اور یہ میری بندگی سے منہ موڑ لیں گے تو میں خدا نہ رہوں گا ۔ میں ان کی عبادت کا محتاج نہیں ہوں بلکہ میری عبادت کرنا خود ان کی اپنی فطرت کا تقاضا ہے ، اسی کے لیے یہ پیدا کیے گئے ہیں ، اور اپنی فطرت سے لڑنے میں ان کا اپنا نقصان ہے ۔ اور یہ جو فرمایا کہ میں ان سے رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں ، اس میں ایک لطیف تعریض ہے ۔ خدا سے برگشتہ لوگ دنیا میں جن جن کی بندگی بجا لا رہے ہیں ، وہ سب در حقیقت اپنے ان بندوں کے محتاج ہیں ۔ یہ ان کی خدائی نہ چلائیں تو ایک دن بھی وہ نہ چلے ۔ وہ ان کے رازق نہیں بلکہ الٹے یہ ان کو رزق پہنچاتے ہیں ۔ وہاں ان کو نہیں کھلاتے بلکہ الٹے یہ ان کو کھلاتے ہیں ۔ وہ ان کی جان کے محافظ نہیں بلکہ الٹے یہ ان کی جانوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ ان کے لشکر یہ ہیں جن کے بل پر ان کی خدائی چلتی ہے ۔ جہاں بھی ان جھوٹے خداؤں کی حمایت کرنے والے بندے نہ رہے ، یا بندوں نے ان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا وہاں ان کے سب ٹھاٹھ پڑے رہ گئے اور دنیا کی آنکھوں نے ان کی کسمپرسی کا حال دیکھ لیا ۔ سارے معبودوں میں اکیلا ایک اللہ جل شانہ ہی وہ حقیقی معبود ہے جس کی خدائی اپنے بل بوتے پر چل رہی ہے ، جو اپنے بندوں سے کچھ لیتا نہیں بلکہ وہی اپنے بندوں کو سب کچھ دیتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(51:57) ما ارید، مضارع منفی، واحد متکلم ۔ اراو یرید ارادۃ (افعال) مصدر ردود مادہ۔ میں نہیں چاہتا ہوں، میں طلب نہیں کرتا ہوں۔ من رزق : من بیانیہ ہے۔ میں ان سے کوئی رزق طلب نہیں کرتا ہوں۔ وما ارید ان یطعمون : واؤ عاطفہ۔ ما ارید مضارع منفی واحد متکلم۔ ان مصدریہ ۔ یطعمون : ای لطعموننی اور نہ میں یہ طلب کرتا کہ وہ مجھے کھلائیں ۔ جیسا کہ اور جگہ فرمایا وھو یطعم ولا یطعم (6:14) اور وہی (سب کو) کھانا دیتا ہے اور خود کسی سے کھانا نہیں لیتا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی ان کو عبادت کا حکم دینے میں میرا اپنا کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ انہی کے قائدہ کے لئے ہے اور یہ جو فرمایا کہ میں ان سے روزی اور کمائی نہیں چاہتا تو اس سے مقصود اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ بندوں سے میرا تعلق دنیا میں ان آقائوں کی طرح کا نہیں ہے جن کی عیش و بسر ہی نوکروں کی کمائی کے سہارے پر ہوتی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ بندوں سے کچھ وصول کرنے کی بجائے ان کو روزی بھی دیتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے رزق کا مطالبہ نہیں کرتا نہ اسے کھانے پینے کی حاجت ہے۔ وہ صرف اپنی بندگی کا مطالبہ کرتا ہے جس میں اسے کوئی فائدہ نہیں اس میں لوگوں کا ہی فائدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں لوگوں سے رزق نہیں مانگتا اور نہ ہی اس بات کا مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ رزق تو سب کو اللہ ہی دینے والا ہے، وہ بڑا طاقتور اور مضبوط ہے۔ عربوں نے زرخرید غلام رکھے ہوتے تھے جو ان کے لیے مزدوری اور مختلف قسم کے کام کرتے اور اس کی مزدوری اپنے آقا کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔ یہاں پہلی بات یہ سمجھائی کہ یہ تمہارا طریقہ ہے کہ تم اپنے غلاموں کی کمائی کھاتے ہو۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کھاتا نہیں بلکہ وہ انہیں کھلاتا ہے۔ اسی بات سے یہ بھی سمجھ لو کہ جنہیں تم مشکل کشا سمجھتے اور ان کی عبادت کرتے ہو وہ تمہیں کچھ نہیں دیتے۔ البتہ تم ضرور انہیں کچھ نہ کچھ دیتے ہو۔ اللہ تعالیٰ تمام حاجات سے پاک اور بےنیاز ہے۔ وہ اپنی مخلوق کو دیتا اور کھلاتا ہے۔ اس کے عطا کرنے اور دینے کا نظام اتنا مضبوط ہے کہ کوئی اس کے نظام میں دخل نہیں دے سکتا۔ (فاطر : ١٣) وہ جس کا چاہتا ہے رزق تنگ کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے کشادہ کرتا ہے۔ (العنکبوت : ٦٢) اللہ تعالیٰ ہی انسان کو پیدا کرنے والا ہے اور اس نے ہی اس کے رزق کا ذمہ لے رکھا ہے۔ رزق سے مراد صرف کھانے پینے کی چیزیں نہیں بلکہ اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جو ایک ذی روح کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں ہوا، پانی، خوراک اور رہن سہن کی ضروریات بھی شامل ہیں۔ یہ سب چیزیں عطا کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اس نے اپنا دسترخوان اتنا وسیع اور (Mobile) بنایا ہے کہ ہر کھانے والے کو اس کی خوراک مل رہی ہے گوشت کھانے والے درندے کو گوشت مل رہا ہے اور دانہ دنکا لینے والے کو دانہ دنکا صبح وشام میسر ہے۔ مخلوق میں چند جمع کرنے والوں کے سوا باقی سب کے سب صبح وشام تازہ خوراک سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جہاں تک انسان کا معاملہ ہے اس کا رزق بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہے البتہ حکم ہے کہ اللہ کا رزق تلاش کیا کرو۔ اس کے لیے محنت ومشقت کرنا لازم ہے لیکن رزق کی کمی وبیشی کا انحصار انسان کی محنت پر نہیں۔ اگر رزق محنت کی بنیاد پر دیا جاتا تو معذور اور لاچار بھوکے مرجاتے۔ جہاں تک رزق کی کمی و بیشی کا تعلق ہے یہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اصول کے عین مطابق ہے جس کے پیش نظر وہ لوگوں کا رزق بڑھاتا اور گھٹاتا رہتا ہے۔ اگر کہیں قحط سالی پیدا ہوجاتی ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کے طے شدہ اصول کے مطابق ہوتی ہے جس کا سبب بنیادی طور پر انسان ہی ہوا کرتا ہے۔ بیشک وہ قحط سالی پانی کی قلت اور بارش کی کمی کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہو۔ وہ بھی انسان کے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس قانون کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے رزق کا ذمہ لیا ہے۔ وہ لوگوں کی مستقل قیام گاہوں اور عارضی رہائش کو جانتا ہے۔ (ھود : ٦) کیونکہ لوگوں کو رزق پہنچانا اور ان کے اعمال اور ضروریات سے باخبر رہنا اس کی صفت کاملہ ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نہ صرف ہر لحاظ سے باخبر رہتا ہے بلکہ اس نے انسان اور دنیا کی ہر چیز کے بارے میں سب کچھ لوح محفوظ میں ثبت کر رکھا ہے۔ ” مغیرہ بن شعبہ کے غلام وراد بیان کرتے ہیں حضرت معاویہ (رض) نے مغیرہ کو خط لکھا کہ مجھے وہ دعا لکھ کر بھیجو۔ جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ نماز کے بعد سنا کرتے تھے۔ حضرت مغیرہ (رض) نے مجھ سے لکھوایا کہ میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز کے بعد یہ الفاظ کہتے ہوئے سنا۔” لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ اللَّہُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ “ (رواہ البخاری : کتاب القدر، باب لامانع لما اعطی اللّٰہ) ” اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اے اللہ جسے تو دینا چاہے اسے کوئی نہیں روک سکتا اور جس سے تو روک لے اسے کوئی دے نہیں سکتا۔ تیرے ہاں کسی بڑے کی بڑائی کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے لیے نہ کسی سے رزق مانگتا ہے اور نہ اپنے کھانے کے لیے کسی سے مطالبہ کرتا ہے، اور نہ اسے ضرورت ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور نظام کے حوالے سے سب سے زیادہ طاقتور اور مضبوط ہے۔ ٣۔ ” اللہ “ ہی سب کو رزق دینے والا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ بڑی قوت والا اور مضبوط ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے والا ہے، وہ نہ چاہے تو کوئی کسی کو کچھ نہیں دے سکتا : ١۔ ہم نے اس زمین میں تمہارے لیے معاش کا سامان بنایا اور ان کے لیے بھی جنہیں تم خوراک نہیں دیتے۔ (الحجر : ٢٠) ٢۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ہی رزق کو فراخ اور تنگ کرتا ہے۔ (الزمر : ٥٢) ٣۔ زمین میں ہر قسم کے چوپاؤں کا رزق اللہ کے ذمہ ہے۔ (ھود : ٢) ٤۔ بیشک اللہ ہی رزق دینے والا ہے۔ (الذاریات : ٥٨) ٥۔ اللہ ہی رزق فراخ کرتا اور کم کرتا ہے۔ (السباء : ٣٩) ٦۔ اللہ تعالیٰ لوگوں سے رزق طلب نہیں کرتا بلکہ وہ لوگوں کو رزق دیتا ہے۔ (طٰہٰ : ١٣٢) ٧۔ اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو کیونکہ اللہ ہی تمہیں اور انھیں رزق دینے والا ہے۔ (الانعام : ١٥٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ما ارید ........ المتین (١٥ : ٨٥) ” میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ اللہ خود ہی رزاق ہے بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔ “ اس دنیا میں فرائض خلافت ادا کرتے ہوئے ایک مومن کے اندر صرف حصول رزق کا داعیہ نہیں ہوتا بلکہ یہ داعیہ اللہ کی بندگی کا داعیہ ہوتا ہے اور عبادت تب پوری ہوتی ہے جب انسان اس جہاں میں امرالٰہی کو تسلیم کرتے ہوئے پوری جدوجہد کرے۔ اس لئے یہاں ایک مومن کی جدوجہد کے پیچھے اللہ کی بندگی اور اطاعت کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے اور اس جذبے میں اس دنیا کے مفادات میں سے کوئی مفاد بھی نہیں ہوتا کیونکہ اس دنیا میں اونچے مقاصد کے لئے جدوجہد ایک عظیم بلند فعل ہے اور یہ کسی بلند تصور اور جذبہ کے تحت ہی ہوسکتا ہے۔ آج انسانیت اگر اس رزق بلند سے محروم ہے تو وہ اس لئے محروم ہے کہ جس طرح دور اول کے مسلمان قرآن کی تعلیمات کے سایہ میں زندگی بسر کرتے تھے یہ لوگ نہیں کررہے اور انہوں نے اپنے اصول زندگی قرآنی دستور سے اخذ نہیں کئے۔ جب کوئی انسان اور کوئی سوسائٹی اس افق تک بلند ہوجاتی ہے یعنی بندگی اور غلامی کے افق تک اور اس پر جم جاتی ہے تو اس کی عزت نفس کسی بھی خسیس ذریعہ سے کوئی بلند مقصد حاصل کرنے سے انکار کردیتی ہے۔ اگرچہ یہ مقصد اسلام کی سربلندی ہو اور اسلام کے غلبہ کا مقصد ہو کیونکہ خسیس ذرائع اللہ کی بندگی کے پاک مقصد کو ختم کردیتے ہیں۔ نیز جب کوئی اس مقام تک پہنچ جائے تو وہ نفس کو منزل تک پہنچانے کی فکر نہیں کرتا بلکہ وہ اس فکر میں مبتلا ہوتا ہے کہ ہم نے اپنا فریضہ پورا کردیا ہے یا نہیں۔ یعنی اللہ کی بندگی کے مفہوم اور حقیقت کبریٰ کو پاتے ہوئے۔ جہاں تک حصول مقاصد کا تعلق ہے تو یہ تو اللہ کے حوالے ہیں۔ اللہ نے اپنی تقدیر میں جس طرح نتائج طے کر رکھے ہیں وہ پس پردہ تقدیر ظاہر ہوجائیں گے۔ لہٰذا ہمیں یہ نہیں چاہئے کہ ہم نتائج حاصل کرنے کے لئے غلط ذرائع اختیار کریں جبکہ نتائج کا ظہور اللہ کے ہاتھ میں ہے اور یہ ایک مومن کے ذمہ داری میں نہیں ہے جو صرف اللہ کی بندگی کرنے والا ہے۔ بندہ عبادت گزار کا ضمیر مطمئن ہوتا ہے ، اس کا نفس برقرار ہوتا ہے۔ اس کا دل تمام حالات میں صحیح و سلامت ہوتا ہے۔ چاہے اسے اپنے عمل کے ثمرات نظر آرہے ہوں یا نہ آرہے ہوں۔ یہ نتائج اس کی نیت اور عمل کے مطابق ہوں یا اس کے برعکس نکل رہے ہوں کیونکہ عبادت کے اس مفہوم کے مطابق اس نے اپنا کام کردیا ہے۔ اس کی جزاء کی ضمانت اللہ نے دے دی ہے۔ اب وہ خوش وخرم ہے۔ اس کے بعد عملاً کیا ہوتا ہے یہ اس کے دائرہ فرائض سے خارج ہے کیونکہ اس نے یہ بات بیان کی ہے کہ وہ بندہ ہے لہٰذا وہ اپنے شعور اور فکر کے اعتبار سے یا اپنی تجاویز اور مطالبات کے لحاظ سے عبدیت کی حدود سے آگے نہیں جاسکتا۔ اس کو معلوم ہوگیا ہے کہ اللہ رب ہے۔ اس لئے یہ ان کاموں میں دلچسپی نہیں لیتا جو رب العلمین کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ اس کے جذبات یہاں اگر رک جاتے ہیں تو اللہ اس سے راضی ہوجاتا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہوجاتا ہے۔ یہ ہیں بعض پہلو اس عظیم حقیقت کے جس کو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ نہایت ہی مختصر آیت ہے۔ وما خلقت ........ لیعبدون (١٥ : ٦٥) ” میں نے جن وانس کو اس کے سوا کسی اور کام کے لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری بندگی کریں۔ “ یہ حقیقت اگر کسی کے دل و دماغ میں بیٹھ جائے تو وہ اس شخص کی زندگی کا نقشہ بدل دیتی ہے۔ آخر میں اس حقیقت کی روشنی میں ظالموں کو ڈرایا جاتا ہے جو ایمان نہیں لاتے ، قیامت کی تکذیب کرتے ہیں اور ان کے آنے میں شتابی کرتے ہیں۔ اس زبردست ڈراوے پر سورت ختم ہوتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوسری آیت میں فرمایا کہ میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ مجھے کھلائیں اس میں شان بےنیازی کا اظہار فرمایا کہ جس طرح دنیا والے اپنے غلاموں سے کسب اور کمائی چاہتے ہیں اور ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ یہ ہمیں کما کردیں تاکہ ہمارا رزق کا کام چلے یہ صرف اہل دنیا کی اپنی خواہش اور تقاضے ہیں میں نے جو جن اور انس کو عبادت کا حکم دیا ہے اس میں میرا کوئی فائدہ نہیں میں ان سے رزق کا امیدوار نہیں ہوں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(57) میں ان سے رزق رسائی کی خواہش نہیں کرتا اور نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے ککھانا کھلایا کریں۔ یعنی میری یہ خواہش نہیں کہ تم میری مخلوق کو رزق بانٹتے پھرو نہ میں یہ ارادہ رکھتا ہوں کہ مجھ کو کھانا کھلایا کرو غرض نہ مخلوق کی رزق رسائی ان کے سپرد ہے نہ میں غذا کا اور کھانے کا محتاج ہوں اور یہ کیوں ہوتا ہے جبکہ میں خود ہی سب کو روزی دینے والا ہوں چناچہ فرماتے ہیں۔